https://follow.it/amir-samdani?action=followPub

Saturday, 15 November 2025

طلاق غضبان کا حکم


جواب:

۔ فقہاء غصہ کی تین حالتیں بیان کرتے ہیں :

  1. أحدها أن يحصل له مبادی الغضب بحيث لايتغيرعقله ويعلم مايقول ويقصده وهذالااشکال فيه.

  2. الثانی أن يبلغ النهاية فلا يعلم ما يقول ولا يريده فهذا لاريب أنه لاينفذ شئی من اقواله.

  3. الثالث من توسط بين المرتبتين بحيث لم يصر کالمجنون فهذا محل النظر والأدلة تدل علی عدم نفوذ أقواله.

  1. پہلی یہ کہ ابتدائی حال ہو، عقل میں تبدیلی نہ آئے اور آدمی جانتا ہو کہ کیا کہہ رہا ہے اور کس کا ارادہ ہے اس میں اشکال نہیں کہ طلاق ہو جائے گی۔
  2. دوسرا درجہ یہ ہے کہ غصہ انتہا کو پہنچ جائے اسے پتہ نہ چلے کہ کیا کہتا ہے اور کیا ارادہ ہے اس صورت میں بلاشبہ ا س کا کوئی محل نافذ نہ ہو گا۔
  3. تیسرا درجہ یہ ہے کہ دونوں کے درمیان ہو کہ انسان پاگل کی طرح نہ ہو جائے یہ قابل غور ہے دلائل کی روشنی میں اس صورت میں بھی اس کی کسی بات کا اعتبار نہ ہوگا۔

(ابن عابدين، ردالمحتار، 3 : 244، دارلفکرللطباعةوالنشر، بيروت، سن اشاعت 1421ه)

  1. مايزيل العقل فلايشعرصاحبه بماقال وهذالايقع طلاقه بلانزاع.
  2. مايکون فی مبادية بحيث لايمنع صاحبه من تصورمايقول وقصده فهذايقع طلاقه.
  3. أن يستحکم ويشتد به فلا يزيل عقله بالکلية ولکن يحول بينه و بين نيته بحيث يندم علی ما فرط منه اذا زال فهذا محل نظر و عدم الوقوع فی هذه الحالة قوی متجه.

  1. ایک یہ کہ غصہ اتنا زیادہ ہوکہ عقل انسانی قائم نہ رہے اورپتہ ہی نہ ہوکہ اس نے کیا کہا اس صورت میں بلا اختلاف تمام فقہاء کے نزدیک طلاق واقع نہیں ہوتی۔
  2. دوسرا غصہ ابتدائی درجہ کا ہے کہ انسان جو کہہ رہا ہوتا ہے وہ پوری طرح سمجھتا ہے اس میں طلاق ہو جاتی ہے۔
  3. تیسرا درمیانہ درجہ کا غصہ ہے جو سخت ہوتا ہے اور وہ انسان کی عقل پر غالب آ جاتا ہے مگر انسانی عقل قائم رہتی ہے لیکن دل کی نیت و ارادہ کے بغیر محض شدتِ غصہ سے طلاق سرزد ہو جاتی ہے، وہ اپنے آپ پر قابو نہیں پا رہا ہوتا پھر طلاق سرزد ہونے کے بعد نادم ہوتا ہے۔ افسوس کرتا ہے۔ یہ صورت غور طلب ہے۔ اس حالت میں قوی اور معقول بات یہ ہے کہ طلاق نہ ہوگی۔

(ابن قيم، زاد المعاد، 5 : 215، مؤسسة الرسالة، مکتبة المنار، بيروت الکويت، سن اشاعت، 1407ه)

علامہ شامی مزید فرماتے ہیں :

الجنون فنون.

(جنون کئی قسم کاہوتاہے)

(ابن عابدين، ردالمحتار، 3 : 244، دار لفکر للطباعة والنشر، بيروت، سن اشاعت 1421ه)

معلوم ہوا جو شدید غصہ میں ہو وہ ایک قسم کے وقتی مرض میں مبتلا ہوتا ہے، قرآن کریم میں مریض کے بارے میں ہے :

ولَاعَلَی الْمَرِيْضِ حَرَجٌ.

’’اور نہ بیمار پر کوئی گناہ ہے‘‘۔

النور، 24 : 61

مفسرین کرام اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں :

فالحرج مرفوع عنهم فی هذا.

’’جو مریض لوگ ہیں مرض کی حالت میں ان سے حرج و تنگی اور گرفت اٹھالی گئی ہے‘‘۔

  1. عبدالرحمن بن محمد، تفسير الثعالبی، 3 : 127، مؤسسه الأعلمی للمطبوعات بيروت
  2. قرطبی، جامع لاحکام القرآن، 12 : 313، دارالشعب، القاهره
  3. أبو محمد عبدالحق بن غالب عطية الأندلسی، المحرر الوجيز فی تفسير الکتاب العزيز، 4 : 195، دار الکتب العلمية، لبنان، سن اشاعت 1413ه

مزید علامہ قرطبی بیان کرتے ہیں :

فبينت هذه الاٰية انّه لا حرج علی المعذورين.

اس آیت مبارکہ نے بیان کر دیا کہ معذور لوگوں پر کوئی گرفت نہیں ہے۔

قرطبی، جامع لاحکام القرآن، 12 : 313، دار الشعب، القاهره

دوسری آیت کریمہ ہے :

وَمَا جَعَلَ عَلَيْکُمْ فِی الدِّيْنِ مِنْ حَرَجٍ.

’’اس (اﷲ تعالیٰ) نے تم پر دین میں کچھ تنگی نہ رکھی‘‘۔

الحج، 22 : 78

امام ابوبکر احمد بن علی الرازی الجصاصّ الحنفی اس آیت کریمہ کی تفسیر میں لکھتے ہیں، ابن عباس رضی اﷲ عنہما نے فرمایا : ’’حرج کا مطلب ہے تنگی۔‘‘

ان کے شاگرد مجاہد فرماتے ہیں :

ويحتجّ به فی کل ما اختلف فيه من الحوادث ان ما ادی الی الضيق فهو منفی وما اوجب التوسعة فهو اولٰی.

’’اس آیت کریمہ سے مختلف حوادث و واقعات میں یہ دلیل پکڑی جا سکتی ہے کہ جو حکم تنگی پیدا کرے اس کا وجود نہیں اور جو فراخی و آسانی پیدا کرے وہی بہتر  ہے۔‘‘

آیت کریمہ کا مطلب ہے کہ دین میں کوئی ایسی تنگی نہیں جس سے چھٹکارے کا راستہ نہ ہو۔

جصاصّ، احکام القرآن، 3 : 251، طبع لاهور

امام رازی فرماتے ہیں :

الضيق

’’تنگی‘‘

امام رازی، تفسير الکبير، 23 : 73، طبع طهران

امام قاضی بیضاوی فرماتے ہیں :

ضيق بتکليف مايشتد القيام به عليکم.

’’تنگی، ایسی تکلیف کا حکم دیکر جس پر قائم رہنا تم پر سخت ہو‘‘۔

يضاوی، انوار التنزيل و اسرار التأويل، 2 : 50، طبع مصر
محمود آلوسی، روح المعانی، 17، 190، طبع تهران. ايران

حدیث پاک میں ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :

رفع القلم عن ثلاثة عن المجنون المغلوب علی عقله وعن النائم حتی يستيقظ وعن الصبی حتی يحتلم.

’’تین قسم کے لوگوں پر قانون لاگو نہیں ہوتا مجنوں جس کی عقل پر غصہ غالب ہو، سونے والا جب تک بیدار نہ ہو جائے اور بچہ جب تک بالغ نہ ہو جائے۔‘‘

1. حاکم، المستدرک، 2 : 68، رقم 2351، دار الکتب العلمية، بيروت، سن اشاعت 1411ه

2. ابن حبان، الصحيح، 1 : 356، رقم 143، مؤسسة الرسالة، بيروت، سن اشاعت 1414ه

3. ابن خزيمة، الصحيح، 4 : 348، رقم 3048، ، المکتب الاسلامی، بيروت، سن اشاعت1390ه

4. نسائی، السنن الکبری، 4 : 323، رقم 7343، دار الکتب العلمية، بيروت، سن اشاعت 1411ه

5. ابو داؤد، السنن، 4 : 140، رقم 4401، دار الفکر

6. دار قطنی، السنن، 3 : 138، رقم 173، دار المعرفة، بيروت، سن اشاعت 1386ه

7. هندی، کنز العمال، 4 : 98، رقم 10309، دارالکتب العلمية، بيروت، سن اشاعت 1419ه

سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنھا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :

Saturday, 8 November 2025

تثویب کا حکم

 اذان کے بعد دوبارہ لوگوں کو نماز کے لئے بلانا ”تثویب“ کہلاتا ہے اور تثویب شرعاً پسندیدہ نہیں ہے؛ اس لئے اگر کسی جگہ یہ رواج ہو کہ موٴذن اذان کے بعد دوبارہ لوگوں کو نماز کے لئے پکارتا ہے تو یہ رواج ناپسندیدہ اور قابل ترک ہے (دیکھیں: فتاوی دارالعلوم: ۲/۹۶، ط: مکتبہ دارالعلوم دیوبند)؛ ہاں اگر کوئی شخص نماز میں جاتے ہوئے آزو بازو والوں کو نماز کے لئے بلاتا جائے تو اس میں شرعاً کوئی حرج نہیں ہے۔ (امداد المفتین: ۲۷۰) ۔

Saturday, 1 November 2025

حالت احرام میں خوشبو والے صابن سے غسل کرنا ہاتھ دھونا

 واضح رہے کہ احرام کی حالت میں خوشبو والا صابن استعمال کرنا ممنوع ہے ،پھر اگر اس سے ایک بار ہاتھ دھو لیے جائیں تو صدقۂ فطر کے برابر صدقہ کرنا لازم ہوگا اور اگر بار بار ہاتھ دھوئے جائیں تو پھر دم لازم ہوگا،لہذا صورتِ مسئولہ میں احرام کی حالت میں خوشبو والے صابن سے اگر ایک بار ہاتھ دھوئے ہوں تو صدقۂ فطر کے برابر صدقہ کرنا لازم ہے ،چاہے بھول کر ہی کیوں نہ دھوئے ہوں ۔

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"ويستوي في وجوب الجزاء بالتطيب الذكر والنسيان والطوع والكره والرجل والمرأة هكذا في البدائع."

(كتاب المناسك ،الباب الثامن في الجنايات، الفصل الأول في ما يجب بالتطيب،241/1،ط:رشيدية)

وفيه أيضا:

"فإذا استعمل الطيب فإن كان كثيراً فاحشاً ففيه الدم، وإن كان قليلاً ففيه الصدقة ، كذا في المحيط. واختلف المشايخ في الحد الفاصل بين القليل والكثير، فبعض مشايخنا اعتبروا الكثرة بالعضو الكبير نحو الفخذ والساق، وبعضهم اعتبروا الكثرة بربع العضو الكبير، والشيخ الإمام أبو جعفر اعتبر القلة والكثرة في نفس الطيب إن كان الطيب في نفسه بحيث يستكثره الناس ككفين من ماء الورد، وكف من الغالية والمسك، بقدر ما استكثره الناس فهو كثير، وما لا فلا، والصحيح أن يوفق ويقال: إن كان الطيب قليلاً فالعبرة للعضو لا للطيب، حتى لو طيب به عضواً كاملاً يكون كثيراً يلزمه دم، وفيما دونه صدقة، وإن كان الطيب كثيراً فالعبرة للطيب لا للعضو حتى لو طيب به ربع عضو يلزمه دم، هكذا في محيط السرخسي والتبيين. هذا في البدن وأما الثوب والفراش إذا التزق به طيب اعتبرت فيه القلة والكثرة على كل حال، وكان الفارق هو العرف، وإلا فما يقع عند المبتلى، كذا في النهر الفائق".

(کتاب المناسک،الباب الثامن في الجنايات،الفصل الأول فيما يجب بالتطيب والتدهن،240/1 ،ط: رشيدية)

Saturday, 11 October 2025

حرمتِ مصاہرت کے بعد شوہر کی طرف سے تفریق یاقضاء قاضی شرط ہے

 1:اگر کوئی عورت اپنے شوہر کے اصول وفروع میں سے کسی کہ ساتھ جماع یا دواعی جماع کرلے، یا شوہر کے اصول وفروع میں سے کوئی مرد اس کی بیوی کے ساتھ جماع یا داوعی جماع کرلے، تو  ایسی صورت میں ان دونوں مرد وعورت جنہوں نے یہ فعل  (جماع یا دواعی جماع) کیا ہے، کے درمیان حرمتِ مصاہرت ثابت ہوجائے گی، اور دونوں کے اصول وفروع ایک دوسرے پر ہمیشہ کے لیے حرام ہوجائیں گے، تاہم جس عورت کے ساتھ یہ فعل ہوا ہے اس کے شوہر کے حق میں حرمتِ مصاہرت ثابت ہونے کے لیے شرط یہ ہے کہ شوہر کو اس واقعے کی سچائی کا غالب گمان ہو اور وہ اس کی تصدیق کرے، یا پھر اس واقعے کے وقوع  کی شرعی گواہان گواہی دے دیں، لہٰذا اگر شوہر کو اس واقعے کا علم نہ  ہو، یا وہ  علم ہونے کے بعد اس کی تصدیق نہ کرے اور اس دعوے کو ثابت کرنے کے لیے شرعی گواہان بھی نہ ہوں، تو صرف شوہر کے حق میں حرمتِ مصاہرت ثابت نہ ہوگی، یعنی شوہر اگر اس واقعے کے بعد بھی اپنی بیوی کو علیٰحدہ نہ کرے، تو  وہ گناہ گار نہیں ہوگا اور  شوہر کے حق میں حرمتِ مصاہرت کے ثبوت کے لیے شوہر کی تصدیق یا شرعی شہادت،  اس وجہ سے ضروری ہے کہ اس طرح کے دعوے میں شوہر کی حق تلفی ہے، لہٰذا شریعت نے اس کے حقوق کی رعایت کرتے ہوئے یہ شرط عائد کی ہے۔

صورتِ مسئولہ میں چونکہ سسر اور شوہر عورت کی بات کا انکار کر رہے ہیں، لہذا شوہر کے حق میں حرمتِ مصاہرت ثابت نہیں ہوگی، میاں بیوی کا نکاح برقرار رہے گا۔

2:میاں بیوی کا نکاح محض حرمتِ مصاہرت کے  ثابت ہوجانے سے نہیں ٹوٹتا، بلکہ شوہر کا بیوی کو طلاق دینا یا قاضی کا دونوں میں تفریق کرانا ضروری ہے۔

3:اگر بیوی کے پاس اس معاملہ پر کوئی شرعی گواہ موجود ہو تو بیوی عدالت میں اس بات کو ثابت کرکے عدالت سے تنسیخِ نکاح کروا سکتی ہے، البتہ اگر عورت کے پاس کوئی شرعی گواہ موجود نہ ہو اور شوہر طلاق یا خلع دینے پر بھی راضی نہ ہو تو پھر عورت عدالت کے ذریعہ  اپنا نکاح ختم نہیں کراسکتی ہے۔

4:نیزحرمتِ مصاہرت اس وقت ثابت ہوگی جب شوہر بیوی کی بات کی تصدیق کرےگا، اگر شوہر بیوی کی بات کی تصدیق نہیں کرے گاتو پھر حرمتِ مصاہرت ثابت نہیں ہوگی، اور اس صورت میں بیوی کا شوہر کےساتھ رہنا جائز ہوگا، البتہ  اگر عورت شوہر کے ساتھ نہیں رہنا چاہتی توبیوی شوہر سے طلاق یا خلع لے لے۔

فتاویٰ شامی میں ہے:

"وثبوت ‌الحرمة ‌بلمسها مشروط بأن يصدقها، ويقع في أكبر رأيه صدقها وعلى هذا ينبغي أن يقال في مسه إياها لا تحرم على أبيه وابنه إلا أن يصدقاه أو يغلب على ظنهما صدقه، ثم رأيت عن أبي يوسف ما يفيد ذلك. "

(کتاب النکاح، فصل في المحرمات، ج:3، ص:32، ط:دار الفکر)

وفیه أیضًا:

"وعلمت أن المرأة كالقاضي لا يحل لها أن تمكنه إذا علمت منه ما ظاهره خلاف مدعاه."

(کتاب الطلاق، باب الکنایات، ج:3، ص:305، ط:دار الفکر)

وفیه أیضًا:

"وبحرمة المصاهرة لا يرتفع النكاح حتى لا يحل لها التزوج بآخر إلا بعد المتاركة وانقضاء العدة."

(کتاب النکاح، فصل في المحرمات، ج:3، ص:37، ط:دار الفکر)

حرمت مصاہرت کے ثبوت کے بعد عورت حرام ہو جاتی ہے،نکاح سے نکلتی نہیں ہے۔لہذا حرام شدہ عورت دوسری جگہ نکاح نہیں کر سکتی جب تک متارکت نہ ہو جائے۔متارکت کا طریقہ یہ ہے کہ شوہر بیوی سے  یہ کہہ دے:"میں نے تجھے چھوڑدیاہے "یا پھر طلاق دیدے۔ اگر شوہر ایسا نہ کرے تو پھر قاضی دونوں کے درمیان تفریق کر دے۔حرمت مصاہرت کی وجہ سے  بیوی ہمیشہ کے لیے حرام ہو جاتی ہے، متارکت کے بعد کسی دوسری جگہ نکاح کر لینے کے  بعد  بھی اس سے اب دوبارہ نکاح نہیں ہو سکتا۔متارکت کے بعد بیوی پر عدت گزارنا بھی ضروری ہو گی اور عدت کے دوران شو ہر پر نفقہ بھی واجب ہو گا۔

حوالہ جات

قال العلامۃ ابن عابدین رحمه الله تعا لى: وبحرمة المصاهرة ‌لا ‌يرتفع ‌النكاح حتى لا يحل لها التزوج بآخر إلا بعد المتاركة وانقضاء العدة. ( رد المحتار:3/ 37)

قال العلامة ابن عابدين رحمه الله تعالى : وهذه الثلاثة ‌محرمة ‌على ‌التأبيد. ( رد المحتار:3/ 28)

قال العلامة الكاساني  رحمه الله تعالى: ‌وكذلك ‌الفرقة ‌بغير طلاق إذا كانت من قبله فلها النفقة والسكنى سواء كانت بسبب مباح كخيار البلوغ أو بسبب محظور كالردة ووطء أمها أو ابنتها أو تقبيلهما بشهوة بعد أن يكون بعد الدخول بها لقيام السبب وهو حق الحبس للزوج عليها بسبب النكاح.    (بدائع الصنائع:16/4 )


Monday, 6 October 2025

بچے کی ولادت سے پہلے حاملہ کے خون کا حکم،نماز قرآن ایسی حالت میں پڑھ سکتی ہے کہ نہیں ؟

 اگر حاملہ عورت کو ولادت سے پہلے شرمگاہ سے خون آئے، تو وہ استحاضہ (بیماری)کا خون ہے، جس میں نماز معاف نہیں ہوتی اور روزہ ممنوع نہیں ہوتا، ایسی عورت اس خون کے باوجود وضو وغیرہ کرکے نماز بھی پڑھے گی اور رمضان کا روزہ بھی رکھے گی۔

وما تراہ… حامل ولو قبل خروج أکثر الولد استحاضة (الدر المختار مع رد المحتار، کتاب الطھارة، باب الحیض، ۱: ۴۷۷، ط: مکتبة زکریا دیوبند)، قولہ: ”ولو قبل خروج أکثر الولد“: حق العبارة أن یقال: ولو بعد خروج أقل الولد (رد المحتار)۔

ودم استحاضة حکمہ کرعاف دائم وقتاً کاملاً لا یمنع صوماً وصلاة ولو نفلاً وجماعاً لحدیث: ” توضئي وصلي وإن قطر الدم علی الحصیر“ (الدر المختار مع رد المحتار، کتاب الطھارة، باب الحیض، ۱: ۴۹۵)۔

Tuesday, 23 September 2025

گنے کے سی پی آر کی خریدوفروخت

 چیک یا بل کی فروختگی کم قیمت پر جائز نہیں اور برابر دام لے کر دینا اس تاویل سے جائز ہوگا کہ مالک چیک دوسرے سے اس قدر رقم قرض لے اور پھر اپنے چیک کے وصول کرنے کا اسے وکیل بنادے اور اس بات کا بھی وکیل بنادے کہ اسے میرے قرض میں مجرا کرلینا۔ اس طرح ایک قرض اور دو توکیل کے مجموعہ پر مشتمل ہوکر معاملہ درست ہوسکتا ہے۔ لیکن جو صورت سوال میں ذکر کی گئی ہے 

بعض لوگ

سی پی آر کی خرید و فروخت کا کاروبار کرتے ہیں اور کسان کی مجبوری کا فائدہ اٹھاتے ہوئی مل کو دئیے گئے فی من ریٹ پر 5 سے12روپے کٹوتی کرتے ہوئے کسان سے سی پی آر لے لیتے ہیں اور پیسے دے دیتے ہیں ۔ یہ طریقہ جایز نہیں۔ مثال کے طور پراگر کسی کا 400 من گنا ہے اور مل اسے 170 روپے من کے حساب سے خریدتی ہے جس کی قمیت 68000 روپے بنتی ہیں ۔ سی پی آر کی خرید و فروخت کرنے والے اس کے بدلے کٹوتی کرتے ہوئے 64000 ہزار روپے دیتے ہیں۔ 

یہ طریقہ ناجائز اور حرام ہے دونوں (خریدنے بیچنے والے) گنہ گار ہوں گے۔ خریدنے والے سود لینے کے مرتکب ٹھہرے اور بیچنے والا سود دینے کا مرتکب ٹھہرا۔

Saturday, 20 September 2025

حالت احرام میں بال گرنا

 اگر  بال محرم کے فعل کے بغیر خود بخود  گر جائیں  تو کچھ لازم نہیں،اور اگر بال محرم کے ایسے فعل سے گریں جس کا  اس کو شریعت  کی  جانب سے حکم دیا گیا ہو ، جیسے نماز کے لئے وضو کرنے کاحکم دیا گیا ہے اور وضو کے دوران بال ٹوٹ جائیں   تو تین  بال گر جائیں تو ایک مٹھی گندم صدقہ کرنا ہو گا ۔

مناسك (ملاعلي قاری ) میں ہے:

"لا یخفی  أ ن الشعر اذا سقط بنفسه لامحذور فيه ولا محظور لاحتمال قلعه قبل احرامه  وسقوطه بغير قلعه."

(167،باب الجنایات ،مطبعۃ الترقی  الماجدیہ بمکۃ)

غنیة الناسک  ميں هے :

"اما اذا سقط بفعل المامور به کالوضوء، ففی ثلاث شعرات کف واحدۃ من طعام."

 (256 ط ادارۃ القران)

فتاوی  ہندیہ میں ہے :

"وكذلك إذا حلق ‌ربع ‌رأسه أو ثلثه يجب عليه الدم ولو حلق دون الربع فعليه الصدقة كذا في شرح الطحاوي.وإذا حلق ربع لحيته فصاعدا فعليه دم، وإن كان أقل من الربع فصدقة كذا في السراج الوهاج."

(243/1،ط:دارالفكر)

اور  اگرتین بالوں سےزائد بال گرگئےتوصدقہ فطرکی مقداردیناواجب ہوگی

فتبین أن نصف الصاع إنما ہو فی الزائد علی الشعرات الثلاث، أما إذا إذا سقط بفعل الأمور بہ کالوضوء ففی ثلاث شعرات کف واحدة من طعام أفادہ السعود، ما فی البدائع وغیرہ ولو أخذ شیئا من رأسہ أو لحیتہ أو لمس شیئا من ذلک فانتثر منہ شعرة فعلیہ صدقة فلعلہ تفریع علی إطلاق الروایة.(غنیة الناسک ،ص:330،الفصل الرابع فی الحلق وإزالة الشعر،ط:مکتبة یادکار شیخ سہارن فور) وفیہ : وإن کان سقط بدون نتف بأن توَضأ فسقط أو احترق بسب خبزہ کما فی مناسک الفارسی وجب للثلاث کف واحدة من طعام إلخ (ص:332)



Wednesday, 17 September 2025

حالت احرام میں چہرہ ڈھانپنے کا حکم

 حالتِ احرام میں مرد اور عورت دونوں کے لیے چہرہ  ڈھانپنا منع ہے، البتہ  شریعت نے عورت کے لیے پردہ ہرحال میں لازم کیا ہے، اس لیے عورت  کسی نامحرم کے سامنے آنے پر اپنے چہرے کو چھپالے؛ تاکہ اس جگہ بدنگاہی اور بے پردگی نہ ہو،  صحابیات  رضی اللہ عنھن کا بھی یہی عمل رہا ہے۔ (ابوداود:۱/۲۵۴ ط:میرمحمد) اور  اگر حالتِ احرام میں غلطی سے چہرہ پر کپڑا یا چادر لگ جائے اور اسے فوراً ہٹادیا جائے تو اس صورت میں کوئی دم یا صدقہ لازم نہیں آئے گا، اور اگر بارہ گھنٹے سے زیادہ چہرہ ڈھانپا تو دم دینا لازم ہوگا، اور اگر اس سے کم وقت ڈھانپا تو صدقۂ فطر کی مقدار کے برابر صدقہ دینا لازم ہوگا، یہ حکم مرد اور عورت دونوں کے لیے ہے۔

الفقه الإسلامي وأدلته (3/ 599):

"وأجاز الشافعية والحنفية ذلك بوجود حاجز عن الوجه فقالوا: للمرأة أن تسدل على وجهها ثوباً متجافياً عنه بخشبة ونحوها، سواء فعلته لحاجة من حر أو برد أو خوف فتنة ونحوها، أو لغير حاجة، فإن وقعت الخشبة فأصاب الثوب وجهها بغير اختيارها ورفعته في الحال، فلا فدية. وإن كان عمداً وقعت بغير اختيارها فاستدامت، لزمتها الفدية".  فقط

Wednesday, 3 September 2025

حقوق زوجیت سے محرومی کی بناپر فسخ نکاح

 اگروہ خلع پربھی راضی نہہو تو اس صورت میں عورت کسی مسلمان جج کی عدالت سے شوہر کے   نان نفقہ  نہ دینے کی بنیاد پر فسخ نکاح کا مقدمہ  دائر کرسکتی ہے،جس کاطریقہ یہ ہے کہ  عورت اولاً عدالت میں شرعی گواہوں کے ذریعے اپنے نکاح کو ثابت کرے ،اس کے بعد شرعی گواہوں کے ذریعے شوہر کے نان نفقہ  نہ دینے   کو ثابت کرے،اگر عورت عدالت میں گواہوں کے ذریعے اپنے دعوی کو ثابت کرنے میں کامیاب ہوجائےاورعدالت کے بلانے اور سمن جاری  کرنے کے باوجود شوہر حاضر نہ ہوتو عدالت اس نکاح کو فسخ کردے،جس کے بعد عدت گزار کر عورت  کادوسری جگہ نکاح کرنا  جائز  ہوگا ۔

ردالمحتار میں ہے:

"أما نكاح منكوحة الغير ومعتدته فالدخول فيه لا يوجب العدة إن علم أنها للغير لأنه لم يقل أحد بجوازه فلم ينعقد أصلا. قال: فعلى هذا يفرق بين فاسده وباطله في العدة، ولهذا يجب الحد مع العلم بالحرمة لأنه زنى كما في القنية و غيرها اهـ ."

(کتاب النکاح ،مطلب في النكاح الفاسد،3/132،ط:سعید)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"لا يجوز للرجل أن يتزوج زوجة غيره وكذلك المعتدة، كذا في السراج الوهاج."

(کتاب النکاح،القسم السادس المحرمات التي يتعلق بها حق الغير: ص:280، ج: 1ط:دارالفکر)

فقہ السنۃ میں ہے:

"والخلع يكون بتراضي الزوج والزوجة."

(کتاب الطلاق:ج:2، ص:299 ط: دارالکتاب العربی)

فتاوی ہندیہ میں ہے :

"إذا تشاق الزوجان وخافا أن لا يقيما حدود الله فلا بأس بأن تفتدي نفسها منه بمال يخلعها به فإذا فعلا ذلك وقعت تطليقة بائنة ولزمها المال كذا في الهداية."

( کتاب الطلاق،الفصل الأول فی شرائط الخلع: ج:1، ص:488، ط:رشیدیه)

حیلۂ ناجزۃ میں ہے :

"والمتعنت الممتنع عن الإنفاق  ففی مجموع الأمیر ما نصه : إن منعھا نفقة الحال فلها القیام، فإن لم یثبت عسرہ

Sunday, 31 August 2025

اذان کالر ٹون کے طور پر لگانا

 رنگ ٹون کا مقصد اس بات کی اطلاع دینا ہے کہ کوئی شخص آپ سے بات کرنے کا متمنی ہے ، گویا یہ دروازہ پر دستک دینے کے حکم میں ہے ، اس اطلاعی مقصد کو حاصل کرنے کے لیے اذان کی آواز کو استعمال کرنا بے محل ہے ، بلکہ ایک درجہ میں اس سے اُن مقدس کلمات کی توہین کا پہلو بھی نکلتا ہے ، اسی بنا پر حضرات فقہاء نے اس طرح کے مقاصد میں کلمات ذکر کا استعمال ناجائز قرار دیا ہے ، لہٰذا موبائل کی رنگ ٹون میں اذان کو فیڈ کرنا درست نہیں، خواہ وہ صرف فون کرنے والے ہی کو سنائی دے ، موبائل میں صرف سادہ گھنٹی کی آواز ہی لگانی چاہیے ۔ 



فتاوی عالمگیری میں ہے:

"وإن سبح الفقاعي أو صلى على النبي - صلى الله عليه وآله وصحبه وسلم - عند فتح فقاعه على قصد ترويجه وتحسينه، أو القصاص إذا قصد بها. (كومئ هنكامه) أثم، وعن هذا يمنع إذا قدم واحد ‌من ‌العظماء إلى مجلس فسبح أو صلى على النبي صلى الله عليه وآله وأصحابه إعلاما بقدومه حتى ينفرج له الناس أو يقوموا له يأثم هكذا في الوجيز للكردري."

(کتاب الکراہیۃ، الباب الرابع فی الصلاة والتسبیح وقراء ة القرآن والذکر والدعاء ورفع الصوت عند قراء ة القرآن،ج:5،ص:315،ط:المطبعۃ الکبری الامیریہ)

Thursday, 28 August 2025

جمعہ کے لئے حاکم کی شرط

 اسلامی ممالک میں جمعہ کے قیام کے لیے حاکمِ وقت کی اجازت انتظامی معاملات کی وجہ سے ضروری ہے؛ تاکہ لوگوں میں یہ اختلاف نہ ہو کہ کون جمعہ کی نماز پڑھائے گا؛ کیوں کہ جمعہ کا خطبہ دینا اور نماز پڑھانا بہت بڑا شرف ہے،ممکن ہے کہ بعض لوگ خود جمعہ پڑھانا چاہیں اور بعض اپنی پسند سے کسی کو جمعہ پڑھانے کے لیے آگے کرنا چاہیں، جس سے باہمی اختلافات پیدا ہوجائیں۔ چنانچہ حاکمِ وقت کی اجازت ان اختلافات سے بچنے کے لیے ضروری ہے، حاکم وقت کی اجازت پر جمعہ کا واجب ہونا یا واجب نہ ہونا موقوف نہیں ہے۔ جمعہ کے وجوب کے لیے شرائط  یہ  ہیں :

۱۔ شہر یا قصبہ یا اس کا فنا(مضافات) ہونا۔

۲۔  ظہر کا وقت ہونا۔

۳۔  ظہر  کے وقت میں نمازِ  جمعہ سے پہلے خطبہ ہونا۔

۴۔ جماعت یعنی امام کے علاوہ  کم از   کم تین بالغ مردوں کا خطبے کی ابتدا سے پہلی رکعت کے سجدہ تک موجود رہنا۔

۵۔اذنِ عام (یعنی نماز قائم کرنے والوں کی طرف سے نماز میں آنے والوں کی اجازت) کے ساتھ نمازِ جمعہ کا پڑھنا۔

اذنِ عام سے مراد یہ ہے کہ جہاں جمعہ قائم کیا جارہا ہو، وہاں جمعہ پڑھنے والوں کی طرف سے لوگوں کو نماز کے لیے آنے کی ممانعت نہ ہو، کسی عارض کی وجہ سے ممانعت ہو تو وہ اذنِ عام میں مخل نہیں ہے۔

غیر مسلم ممالک میں مسلمان آپس میں کسی کو مقرر کرکے اسے جمعہ کی نماز کا امام بنا دیں، حاکمِ وقت کی اجازت کی ضرورت نہیں۔

البحر الرائق شرح كنز الدقائق و منحة الخالق و تكملة الطوري (2 / 157):

"أن الإمام إذا منع أهل المصر أن يجمعوا لم يجمعوا كما أن له يمصر موضعًا كان له أن ينهاهم، قال الفقيه أبو جعفر: هذا إذا نهاهم مجتهدًا بسبب من الأسباب، وأراد أن يخرج ذلك المصر من أن يكون مصرًا، أما إذا نهاهم متعنتًا أو إضرارًا بهم فلهم أن يجمعوا على رجل يصلي بهم الجمعة، ولو أن إمامًا مصّر مصرًا ثمّ نفر الناس عنه لخوف عدو أو ما أشبه ذلك، ثم عادوا إليه فإنهم لايجمعوا إلا بإذن مستأنف من الإمام، كذا في الخلاصة. ودل كلامهم أن النائب إذا عزل قبل الشروع في الصلاة ليس له إقامتها؛ لأنه لم يبق نائبًا، لكن شرطوا أن يأتيه الكتاب بعزله أو يقدم عليه الأمير الثاني، فإن وجد أحدهما فصلاته باطلة، فإن صلى صاحب شرط جاز؛ لأنّ عمالهم على حالهم حتى يعزلوا، كذا في الخلاصة. وبه علم أن الباشا بمصر إذا عزل فالخطباء على حالهم، ولايحتاجون إلى إذن جديد من الثاني إلا إذا عزلهم، وقيدنا بكونه علم العزل قبل الشروع؛ لأنه لو شرع ثم حضر وال آخر فإنه يمضي في صلاته كرجل أمره الإمام أن يصلي بالناس الجمعة، ثم حجر عليه وهو في الصلاة لايعمل حجره؛ لأن شروعه صحّ، وإن حجر عليه قبل الشروع عمل حجره".

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2 / 152):

Friday, 22 August 2025

حیض ونفاس کی حالت میں تلاوت ،ونمازکاحکم

 ۔حیض ونفاس کی حالت میں عورت کے لیے نماز پڑھنا جائز نہیں ہے،اور ان ایام میں جونمازیں رہ جائیں ان کی قضابھی عورت کے ذمہ نہیں۔

مشکاۃ شریف کی روایت میں ہے:

''حضرت معاذہ عدویہ رحمۃ اللہ علیہا  نے حضرت عائشہ  رضی اللہ عنہا سے پوچھا کہ یہ کیا وجہ ہے کہ حائضہ عورت پر روزہ کی قضا واجب،  مگر نماز کی قضا واجب نہیں ؟ حضرت عائشہ نے فرمایا کہ نبی کریم ﷺ کے زمانہ مبارک میں جب ہمیں حیض آتا تو ہمیں روزہ کی قضا کا حکم دیا جاتا تھا، لیکن نماز کی قضا کا حکم نہیں دیا جاتا تھا۔ (مسلم)''۔

2.حیض ونفا س کے ایام میں قرآن پاک کی تلاوت اور بلاحائل اسے چھونا بھی جائز نہیں ہے۔البحرالرائق میں ہے:

"( قوله : وقراءة القرآن ) أي يمنع الحيض قراءة القرآن وكذا الجنابة؛ لقوله صلى الله عليه وسلم: « لا تقرأ الحائض ولا الجنب شيئاً من القرآن ». رواه الترمذي وابن ماجه''. (2/274)

3.حیض ونفاس کی حالت میں عورت کے لیے ذکر واذکار کرناجائزہے،مثلاً درود پاک،استغفار ، کلمہ طیبہ،یا کوئی اور وظیفہ پڑھنا یا قرآن مجید میں جو دعائیں آئی ہیں ان کو دعا  کی نیت سے پڑھنا درست ہے۔فتاوی شامی میں ہے:

فلو قرأت الفاتحة على وجه الدعاء أو شيئاً من الآيات التي فيها معنى الدعاء ولم ترد القراءة لا بأس به، كما قدمناه عن العيون لأبي الليث، وأن مفهومه أن ما ليس فيه معنى الدعاء كسورة أبي لهب لا يؤثر فيه قصد غير القرآنية".(1/293

Friday, 8 August 2025

فاریکس ٹریڈنگ

 فاریکس  ٹریڈنگ کے نام سے بین الاقوامی سطح پرجوکاروبار رائج ہے،اس کاروبار میں سونا، چاندی، کرنسی، کپاس، گندم، گیس، خام تیل، جانور اور دیگر بہت سی اشیاء کی خرید و فروخت ہوتی ہے۔

ہمارے علم کے مطابق "فاریکس ٹریڈنگ" کے اس وقت جتنے طریقے رائج ہیں  وہ  شرعی اصولوں کی مکمل رعایت نہ ہونے اور شرعی سقم پائے جانے کی وجہ سے ناجائز ہیں،  وہ شرعی خرابیاں درج ذیل ہیں:

(1)  کرنسی کی بیع شرعاً "بیعِ صرف" ہے، جس  میں بدلین پر مجلس میں قبضہ ضروری ہے جب کہ دونوں جانب سے یا کسی ایک جانب سے ادھار ناجائز ہے،لہذا اسپاٹ ٹریڈ ہو یا فیوچر ٹریڈ ،ایسے تمام سودے ناجائز ہیں  جن میں کرنسی کی خریدوفروخت ادھار ہوتی ہے،  یا نقد ہوتی ہے،  مگر عقد کے دونوں فریق  یا کوئی ایک فریق اپنے حق پر قبضہ نہیں کرتا ۔الحاصل تقابض (جانبین سے قبضہ) نہ پائےجانے کی وجہ سے ایسے سودے شرعاً فاسد ہوں گے اور نفع حلال نہ ہوگا۔

(2)   اصول ہے کہ بیع شرطِ  فاسد   سے  فاسد ہو جاتی ہے، "فاریکس"  کے کاروبار میں شروطِ فاسدہ بھی لگائی جاتی ہیں، مثلاً swaps (بیع بشرط الاقالہ) میں یہ شرط لگانا کہ ایک مقررہ مدت کے بعد بیع کو  ختم کیا جائے گا حال آں کہ بیع تام ہو جانے کے بعد لازم ہوجاتی ہے اور جانبین کا اختیار ختم ہو جاتا ہے۔

(3) نیز Options میں خریدار کو یہ حق دینا کہ وہ اپنی بیع کو فریقِ مخالف کی رضا مندی کے بغیر بھی "اقالہ" کرسکتا ہے۔ یہ بھی شرطِ فاسد ہے، کیوں کہ "اقالہ" میں جانبین کی رضامندی شرط  ہوتی ہے۔

(4) اس میں  "فیوچر سیل " بھی  ہوتی ہے اور وہ  ناجائز ہے؛ کیوں کہ  بیع  کا فوری ہوناضروری ہے،مستقبل کی تاریخ پر خرید و فروخت ناجائز ہے۔

(5) اس طریقہ کاروبار میں ایک قباحت "بیع قبل القبض" کی بھی ہے؛ کیوں کہ ستر ،اسی فی صد  لوگ اس مارکیٹ میں خریداری محض کرنسی ریٹ کے اتار چڑہاؤ  کے ذریعہ نفع حاصل کرنے کےلیے کرتے ہیں، ان کا مقصد کرنسی حاصل کرنا نہیں ہوتا؛ لہذا اکثر خریدارکرنسی کا قبضہ حاصل نہیں کرتے اور آگے بیچ دیتے ہیں۔

کرنسی کے علاوہ دھاتوں اور اجناس کی بیع اگر چہ بیعِ صرف  نہیں ہوتی اور اس وجہ سے  اس میں تقابض بھی شرط نہیں، لیکن   اس میں "بیع قبل القبض" (قبضہ سے پہلے فروخت کرنا)، "بیع مضاف الی المستقبل" (مستقبل کی بیع)  اوردیگر وہ شروطِ فاسدہ پائی جاتی ہیں جن کا اوپر بیان ہوا۔ نیز  اس بیع میں  بروکر کی  جانب سے یہ دھوکا بھی ہے کہ صارف جس مبیع کو محض بیعانہ دے کر اپنی ملکیت سمجھتا ہے اور اس کی قیمت بڑھ جانے سے نفع بھی کماتا ہے  اگر اس میں نقصان ہو جائے  تو  بروکر کو   اس پورے سودے کو ختم کرنے کا اختیار ہوتا ہے جب کہ شرعاً بروکر  کو اپنے عمل کی اجرت وصول کر لینے کے  بعد سودے میں کوئی حق اور اختیار نہیں ہوتا اور اگر کسی شخص نے کوئی چیز خریدی ہے تو اب اس کانفع و نقصان اس کے ذمہ ہے، نقصان دیکھ کر وہ سودے کو منسوخ  نہیں کرسکتا جب تک کہ دوسرے فریق کی رضامندی نہ ہو۔ 

خلاصہ یہ ہے کہ مذکورہ خرابیوں کی بنیاد پر فاریکس ٹریڈنگ کے ذریعہ پیسہ کمانا جائز نہیں ہے۔

حدیث شریف میں ہے :

حدیث شریف میں ہے :

"وعن ابن عباس قال: أما الذي نهى عنه النبي صلى الله عليه وسلم فهو الطعام أن يباع حتى يقبض. قال ابن عباس: ولا أحسب كل شيء إلا مثله."

(کتاب البیوع ، باب المنهی عنها من البیوع  ج ۲ ص : ۸۶۳ ط : المکتب الاسلامي)

ترجمہ:" اور حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جس چیز کو منع کیا ہے وہ غلہ ہے کہ اس کو قبٖے میں لانے سے پلے فروخت کرنا ممنوع ہے ۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے تھے کہ میرا گمان ہے کہ اس بارے میں ہر چیز غلہ کی مانند ہے ۔"

وفيه أيضاّ:

"وعن عبادة بن الصامت قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «الذهب بالذهب والفضة بالفضة والبر بالبر والشعير بالشعير والتمر بالتمر والملح بالملح مثلا بمثل سواء بسواء يدا بيد فإذا اختلفت هذه الأصناف فبيعوا كيف شئتم إذا كان يدا بيد» . "

(کتاب البیوع ، باب الربا ج ۲ ص : ۸۵۵ ط : المکتب الاسلامي)

ترجمہ:"اور حضرت عبادہ ابن صامت رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا سونا ، سونے کے بدلے اور چاندی ، چاندی کے بدلے اور گیہوں ، گیہوں کے بدلے اور جو، جو کے بدلے اور نمک ، نمک کے بدلے اگر لیا دیا جائے تو ان کا لین دین (مقدار) میں مثل بمثل یعنی برابر سرابر و دست بدست ہونا چاہیے ، اگر یہ قسمیں مختلف ہوں (مثلا گیہوں کا تبادلہ جو  کے ساتھ یا جو کا تبادلہ کھجور کے ساتھ ہو) تو پھر اجازت ہے کہ جس طرح چاہو خرید و فروخت کرو (یعنی برابر سرابر ہونا ضروری نہیں) البتہ لین دین کا دست بدست ہونا(اس صورت میں بھی) ضروری ہے۔"

مرقاۃ المفاتیح میں ہے :

"والمعنى أنه إذا بيع شيء منها ليس من جنسه، لكن يشاركه في العلة كبيع الحنطة بالشعير، فيجوز التفاضل فيه، وهذا معنى قوله: (فبيعوا كيف شئتم) : لكن بشرط وجود الشرطين الآخرين من الشروط المتقدمة لقوله: (" إذا كان ") ، أي: البيع (يدا بيد) ، أي: حالا مقبوضا في المجلس قبل افتراق أحدهما عن الآخر."

(کتاب البیوع ، باب الربا ج ۵ ص : ۱۹۱۷ط : دارالفکر)


مجمع الأنہر  میں ہے :

"(ولو) كان البيع (‌بشرط ‌لا ‌يقتضيه ‌العقد وفي نفع لأحد المتعاقدين) أي البائع والمشتري (أو لمبيع يستحق) النفع بأن يكون آدميا (فهو) أي هذا البيع (فاسد) لما فيه من زيادة عرية عن العوض فيكون ربا وكل عقد شرط فيه الربا يكون فاسدا."

(کتاب البیوع ، باب البیع الفاسد ج ۲ ص : ۶۲ ط : داراحیاء التراث العربي)

فتاوی ہندیہ میں ہے :

"وشرط صحة الإقالة رضا المتقائلين والمجلس وتقابض بدل الصرف في إقالته."

(کتاب البیوع ، الباب الثالث عشر فی الاقالة ج ۳ ص : ۱۵۷ ط : دارالفکر)

وفيه أيضاّ:

"ومنها أن لا يكون مؤقتا فإن أقته لم يصح."

(کتاب البیوع ج ۳ ص : ۳ ط : دارالفکر)

درالمختار  میں ہے :

"(وما لا تصح) ‌إضافته (‌إلى ‌المستقبل) عشرة (البيع، وإجازته، وفسخه، والقسمة والشركة والهبة والنكاح والرجعة والصلح عن مال والإبراء عن الدين) لأنها تمليكات للحال فلا تضاف للاستقبال."

(کتاب البیوع ، باب المتفرقات ج ۵ ص : ۲۵۶ ط : دارالفكر)