https://follow.it/amir-samdani?action=followPub

Wednesday 25 December 2019

عفو و درگذر اور سیدنا علی مرتضی رضی اللہ عنہ

نصراللہ بن یحی بن یعمر اہل سنت والجماعت کے معتبر عالم گذرے ہیں انہوں نے ایک مرتبہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی خواب میں زیارت کی اور ایک سوال پوچھا:آپ حضرات مکہ فتح کرتے وقت یہ اعلان کررہےتھے کہ جوابوسفیان کے گھر میں داخل ہوجایے گاوہ بھی مامون و محفوظ رہے گا. لیکن آپ کے بیٹےحضرت حسین رضی اللہ عنہ کے ساتھ ان کی اولاد نےجومعاملہ کیا وہ جگ ظاہر ہے.
حضرت علی رضی اللہ عنہ نے  فرمایا کیاتم نےاس سلسلے میں ابن الصیغی کے اشعار نہیں سنے ؟ میں نے عرض کیا نہیں!آپ نے فرمایاجاو اسی سے سن لو,میری آنکھ کھلی تو میں فورا بھاگتاہواسعد بن محمد ابوالفوارس التمیمی یعنی ابن الصیغی کے پاس گیا.اور انہیں اپناخواب بتایاوہ سن کر رونے لگے ,اتنے رویے کہ سسکیاں بند ھ گییں.پھر انہوں نے قسم کھا کے بیا ن کیاکہ یہ اشعار میں نے کسی کو نہیں دکھایے نہ سنایے کیونکہ میں نے یہ آج رات ہی لکھے ہیں اشعار یہ ہیں
:ملكنا فكان العفو منا سجية
فلما ملكتم سال بالدم أبطح
ہم مالک بنے تو عفو و درگذر ہماری فطرت ثانیہ بن گیی لیکن جب تم مالک بنے تو خون کے نالے بہہ پڑے
و حللتموا قتل الأسارى وطالما
عدونا علي الأسرى فنعفو ونصفح
تم نے قیدیوں کے خون کو روا سمجھا جب کہ دشمن عرصہ دراز تک ہمارے بھی قیدی بن کررہے لیکن ہم  ان کے ساتھ عفوودرگذر کامعاملہ کرتے رہے.
وحسبكم هذا التفاوت بيننا
وكل إناء بالذي فيه ينضح
بس یہی فرق ہمارے اور تمہارے درمیان کافی ہے.
اور بات یہ ہے کہ برتن میں جو چیز ہوتی ہے وہی ٹپکتی ہے.
(حياة الحيوان)
WWW.drmuftimohdamir.blogspot.com

No comments:

Post a Comment