https://follow.it/amir-samdani?action=followPub

Monday 19 July 2021

نماز میں خیالات اوروساوس کا آنا

 نماز میں  وسوسہ آجائے تو اس کا علاج یہ ہے  کہ اس کو شیطانی وسوسہ سمجھ کر اس کی طرف التفات نہ کیا جائے، اور اللہ کی عظمت اور جلال کا تصور کرتے  ہوئے نماز پوری کرلی جائے اور یہ تصور کیا جائے  کہ میں اللہ تعالیٰ کو دیکھ رہا ہوں اور وہ مجھے دیکھ رہا ہے ، اور ہر رکن  کے آداب کی رعایت رکھے ،  اور وسوسہ کی طرف دھیان نہ دے ، قاسم بن محمد رحمہ اللہ سےایک شخص نے عرض کیا:  مجھے اپنی نماز میں وہم ہوتا ہے ، جس کی وجہ سے مجھے بہت گرانی ہوتی ہے، تو انہوں نے فرمایا: (تم اس طرح کے خیال پر دھیان نہ دو اور)  اپنی نماز پوری کرو، اس لیے وہ شیطان تم سے جب ہی دور ہوگا کہ تم اپنی نماز پوری کرلو، اور  کہو کہ ہاں میں نے اپنی نماز پوری نہیں کی" یعنی اس وسوسہ کے باوجود نماز پوری کرلو اور شیطان کے کہنے میں نہ آؤ۔ 

مشكاة المصابيح (1/ 29):
’’وَعَنِ الْقَاسِمِ بْنِ مُحَمَّدٍ أَنَّ رَجُلًا سَأَلَهُ فَقَالَ: «إِنِّي أهم فِي صَلَاتي فيكثر ذَلِك عَليّ؟ فَقَالَ الْقَاسِم بن مُحَمَّد: امْضِ فِي صَلَاتك؛ فَإِنَّهُ لن يذهب عَنْكَ حَتَّى تَنْصَرِفَ وَأَنْتَ تَقُولُ: مَا أَتْمَمْتُ صَلَاتي». رَوَاهُ مَالك‘‘.

باقی نماز میں وسوسہ دور کرنے کے لیے ’’اعوذ باللہ‘‘ زبان  سے نہیں پڑھنی چاہیے،  بلکہ  دل ہی دل میں وسوسہ دور کرنے کے لیے پڑھ لی جائے،لیکن اگر وسوسہ دور کرنے کے لیے زبان سے پڑھ لی تو نماز فاسد نہ ہوگی، اسی طرح تین مرتبہ تھوکنا بھی نہیں چاہیے یہ عمل کثیر ہوجائے گا جس سے نماز فاسد ہوجائے گی، جہاں تک حدیث میں اس کا ذکر ہے تو اس کی تفصیل یہ  ہے کہ حدیث مبار ک میں ہے:

حضرت عثمان بن ابوالعاص  رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا: اے اللہ کے رسول ﷺ ! شیطان میری نماز اور قرأت کے درمیان حائل ہوتا اور مجھ پر نماز میں شبہ ڈالتا ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: وہ شیطان ہے جسے ’’خنزب‘‘  کہا جاتا ہے، جب تو ایسی بات محسوس کرے تو اس سے اللہ کی پناہ مانگ لیا کر اور اپنے بائیں جانب تین مرتبہ تھوک دیا کر، پس میں نے ایسے ہی کیا تو شیطان مجھ سے دور ہوگیا۔
صحيح مسلم (4/ 1728):
’’أن عثمان بن أبي العاص، أتى النبي صلى الله عليه وسلم، فقال: يا رسول الله إن الشيطان قد حال بيني وبين صلاتي وقراءتي يلبسها علي، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «ذاك شيطان يقال له خنزب، فإذا أحسسته فتعوذ بالله منه، واتفل على يسارك ثلاثاً» قال: ففعلت ذلك فأذهبه الله عني‘‘.

اس حدیث  کی شرح میں ملا علی قاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ  اس حدیث کا تعلق اس وسوسہ سے ہے جو نماز شروع کرنے سے پہلے ہوتا ہو، لہذا جس شخص نے نماز شروع نہیں کی  اس کو اگر وسوسہ آجائے تو وہ  تعوذ پرھ کر بائیں طرف تین بار تھوک دے ۔ 

دوسری توجیہ اس کی یہ بیان کی گئی ہے کہ  یہ حکم اس وقت تھا جب نماز میں باتیں کرنا جائز تھا ، پھر یہ حکم منسوخ ہوگیا۔ اور تیسری توجیہ شراح حدیث نے یہ ذکر کی ہے کہ یہ حکم اس  نمازی کو ہے جو نماز سے فارغ ہوچکا ہو، نماز کے بعد اب یہ عمل کرلو کہ شیطان سے بدلہ ہوجائے اور آئندہ نماز میں تنگ نہ کرے۔

مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح (1/ 146):
’’ ( «قال: قلت يا رسول الله! إن الشيطان قد حال بيني، وبين صلاتي، وبين قراءتي» ) أي: يمنعني من الدخول في الصلاة، أو من الشروع في القراءة بدليل تثليث التفل، وإن كان في الصلاة، وليتفل ثلاث مرات غير متواليات، ويمكن حمل التفل والتعوذ على ما بعد الصلاة، والمعنى جعل بيني وبين كمالهما حاجزاً من وسوسته المانعة من روح العبادة، وسرها، وهو الخشوع والخضوع‘‘. 

فتاوی رحیمیہ میں ہے:

’’"نماز میں  وسوسہ دفع کرنے کے لیے بار بار اعوذ باللہ الخ پڑھنے کی ہدایت صحیح نہیں  ہے ۔ اگر چہ نماز فاسد ہونے میں  فقہاء  کااتفاق نہیں  ہے، مگر کراہت سے خالی نہیں  ۔ ’’ولو حوقل لدفع الوسوسة، إن لأمور الدنیا تفسد، لا لأمور الاٰ خرة‘‘. (درمختار ج۱ ص ۵۸۱ باب ما یفسد الصلاة وما یکره فیها)(یعنی اگر نماز ی نے لاحول ولا قوۃ الخ پڑھا تو اگر دنیوی امور کے لیے وسوسہ ہے تو نماز فاسد ہوگی اور اگر امورِ آخرت کے لیےہے تو نماز فاسد نہ ہوگی ) ’’ولو تعوذ لد فع الوسوسة لا تفسد مطلقاً (الی قوله:) ولو تعوذ لدفع الوسوسة لاتفسد مطلقاً نظر؛ إذ لا فرق بینها وبین الحوقلة، فلیتا مل‘‘. (طحطاوي علی الدر المختار ج۱ ص ۴۱۶ باب ما یفسد الصلاة ویکرہ فیها ) (فتاوی رحیمیہ 5/'126)

نمازمیں نبئ اکرم  صلی اللہ علیہ والہ و سلم  کا خیال آنا

سوال:میرا سوال یہ ہے کہ کیا نماز میں حضورصلی اللہ علیہ وسلم کا خیال آنے سے نماز میں خلل پیدا ہوتا ہے؟ کیوں کہ اللہ کے سوا کسی اور کا خیال آرہا ہے؟

جواب نمبر: 40931

بسم الله الرحمن الرحيم

فتوی: 1364-869/L=10/1433 نماز میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا خیال آنے سے نماز میں خلل پیدا نہیں ہوتا اور جب کہ التحیات میں ”السلام علیک ایہا النبی“ موجود ہے، تو اس کے پڑھتے وقت حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ذہن میں آنا لازمی ہے، البتہ نماز میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف صرفِ ہمت کرنا منع ہے۔


واللہ تعالیٰ اعلم

كیا یہ بات درست ہے؟

سوال

اگر کوئی شخص کہتا ہے کہ نماز میں نبی کا خیال آجائے تو نماز نہیں ہوتی ہاں مگر گدھے کا آجائے تو ہو جاتی ہے ایسا کہنا کیسا ہے ؟

جواب

بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa: 337-515/sd= 7/1438
ایسا کہنا بالکل غلط ہے، نماز ہوجاتی ہے۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند


ماخذ :دار الافتاء دار العلوم دیوبند
فتوی نمبر :147822
دارالافتاء،دارالعلوم دیوبند

سوال نمبر: 69596

عنوان:نماز میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں خیال کرنا ؟

سوال:میں نے بریلویوں کو کہتے ہوئے سناہے کہ مولانا رشید احمد گنگوہی نے اپنی کتاب میں ذکرکیا ہے کہ ”نماز میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں خیال کرنا گائے اور گدھے کے خیال کرنے سے بدتر ہے“ (صرا ط مستقیم ، صفحہ 150) واضح رہے کہ میں کسی پر بدنام کرنا نہیں چاہتاہوں، بلکہ میں خالص نیت سے سوال کررہاہوں، چونکہ میں دیوبندی علماء کو مانتاہوں۔ جب میں نے یہ سب باتیں سنی تو میں فکر مند ہوگیا اور صرف شبے کا زالہ کرنا چاہتاہوں۔ براہ کرم، جواب دیں۔

جواب نمبر: 69596

بسم الله الرحمن الرحيم

Fatwa ID: 943-1109/B=12/1437

 

آپ کے سوال سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے ”صراط مستقیم“ پڑھی نہیں نہ دیکھی ہے، صراط مستقیم تو حضرت مولانا اسماعیل شہیدکی لکھی ہوئی ہے اور آپ نے حضرت مولانا رشید احمد گنگوہیکی کتاب بتائی ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ جو عبارت آپ نے خط کشیدہ لکھی ہے وہ عبارت صراط مستقیم میں نہیں ہے، حضرت مولانا نے تصوف کی آخری احسان کو سمجھایا ہے صوفیاء کرام کے یہاں ”صَرْفِ ہِمّتْ“ کہلاتا ہے یہ وہ منزل ہوتی ہے جو صحابہ کرام کو اور بڑے بڑے اولیاء کرام کو حاصل ہوتی ہے اس منزل تک وہی پہنچے گا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سچی محبت رکھے گا اور ان کی ہرہر سنت کا اتباع کرے گا، احسان کی منزل کی تعریف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس طرح فرمائی ہے الإحسان أن تعبد اللہ کأنک تراہ فان لم تکن تراہ فانہ یراک، یعنی اس منزل پر پہنچ جانے کے بعد آدمی اس طرح نماز پڑھتا ہے کہ وہ براہ راست اللہ سے مناجات کرتا ہے جس عظیم شخصیت کی محبت و عظمت واطاعت کی بدولت اللہ کا ولی احسان کے مقام پر پہنچا ہے ظاہر ہے کہ جب اللہ کا ولی نماز کی حالت میں اللہ سے ڈائرکٹ مناجات اور ہم کلامی کررہا ہوتو حقیر اشیاء کا خیال آنے سے اس توجہ میں کوئی فرق نہیں آئے گا لیکن جب سب سے عظیم اور بزرگ و مقدس اور سب سے بڑے محسن کا تصور آجائے گا تو پورے ادب و احترام اور پوری عظمت کے ساتھ آئے گا تو اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ کی شان و شوکت او رعظمت کی وجہ سے ولی کی جو ہم کلامی او رمناجاة اللہ سے پوری توجہ کے ساتھ نماز میں جاری تھی وہ توجہ اللہ کی طرف سے ہٹ جائے گی، یہی چیز حضرت مولانا اسماعیل شہید نے بیان فرمائی ہے، اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی انتہائی عظمت و رفعت کو بیان فرمایا ہے جس کو ہمارے کرم فرماوٴں نے حضور کا خیال آنے کو گھوڑے گدھے سے بدتر لکھ دیا ہے، صراط مستقیم پوری کتاب آپ پڑھ جائیے پور ی کتاب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی منقبت و تعریف سے بھری ہوئی ہے ہم دیوبندی لوگ تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی شان اور اقدس میں توہین کرنے والے کو کافر اور اسلام سے خارج سمجھتے ہیں ہم دیوبندی لوگ ہمیشہ سے یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ ہر نماز میں تشہد پڑھتے وقت السلام علیک أیہا النبي پر حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم کا خیال لاتے ہیں جیسا کہ صاحب درمختار نے لکھا ہے۔ حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی، حضرت مولانا اسماعیل شہیدیہ سب لوگ بہت اونچے درجہ کے ولی تھے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے انتہائی عاشق شیدائی، اور بے انتہا متبع سنت تھے، اور حضور کی عظمت و رفعت کے قائل تھے جن کرم فرماوٴں نے ان پر حضور کی توہین کا الزام لگایا ہے وہ بالکل بے بنیاد، غلط اور جھوٹ ہے، محض عناد و عداوت پر مبنی ہے۔ 


واللہ تعالیٰ اعلم


دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند


سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ایک صاحب نےاپنانام ظاہر کیےبغیر شاہ اسماعیل شہید سےمنسوب کتابوں تقویۃ الایمان اورصراط مستقیم میں درج چند عبارتوں کوگستاخ پرمحمول کرتےہوئے ان کےبارےمیں فتویٰ طلب کیاہے۔ انہوں نے اس بات کاحوالہ دیا ہےکہ شاہ صاحب نماز کےدوران میں رسول اللہ ﷺ کا خیال آنے کوگدھے اوربیل کاخیال آنےسےزیادہ بدتر سمجھتےہیں۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

چونکہ اس مسئلے پرمشہور اہل حدیث عالم مولانا محمد اسماعیل سلفی خامہ فرسائی کرچکےہیں، اس لیے ہم انہی کاجواب من وعن نقل کررہے ہیں۔ اس جواب کی روشنی میں سائل کےدوسرے سوالوں کاجواب بھی مل جاتاہے۔مولانا اسماعیل سلفی مرحوم کی یہ تحریر اُن کی کتاب’’تحریک آزادی فکراورشاہ ولی اللہ کی تجدیدی مساعی،، سےلی گئی ہے۔

رسول اللہ کا تصور:

                 آپ ﷺ کانماز میں تصور کرنا یانہ کرناعقیدے کامسئلہ نہیں۔عقائد کی کتابوں میں اس کا کوئی ذکر نہیں۔ عقائد کی مشہور کتابیں شرع عقائد نسفی، عقیدہ طحاویہ، شرح عقیدہ اصفہانیہ، عقیدہ صابونیہ شرح مطابع یہ عقائد کی کتابیں عام کتب خانوں میں ملتی ہیں، کسی میں یہ عقیدہ موجود نہیں ۔ معلوم نہیں بریلوی مولوی صاحبان نےیہ عقیدہ کہاں سے بنایا؟ صحیح یہ ہےکہ نماز خشوع وعاجزی سےپڑھی جائے۔ نماز میں جوپڑھا جائے اس کےمفہوم مطالب کی طرف توجہ رکھنی چاہیے۔

بافی پریشان خیالات سےبچنے کی کوشش کرے۔ اگرخیالات ذہن میں آئیں تودل میں أعوذباالله يا لاحول پڑھے اورخیالات کی آمدکوروکے۔

غلطی کی وجہ:

                قریباً ایک سوسال سےزیادہ عرصہ ہورہاہے۔ایک بزرگ سید احمد بریلوی ہوئے۔ یہ حنفی المذہب تھے۔ نہایت پرہیز گارتھے۔انہوں نےسکھوں اور انگریزوں کےساتھ جہاد کافیصلہ کیا۔ بڑے بڑے عالم بھی اُن کےمرید تھے۔ اسی سلسلے میں مولانا اسماعیل بن شاہ عبدالغنی بن شاہ ولی  اللہ اورمولانا عبدالحی صاحب بڈھانوی حنفی ان کےعقیدت مند تھے۔مولانا اسماعیل صاحب اہل حدیث تھے۔سید احمد صاحب بریلوی حنفی صوفی بزرگ تھے۔ انہوں نےتصوف میں ایک کتاب لکھوائی جس کانام’’الصراط المستقیم،، ہے۔یہ کتاب فارسی میں ہے۔ اس کےچار باب ہیں۔ اس کےدوابواب کاترجمہ مولوی عبدالحی صاحب بڈھانوی حنفی نےکیاہے۔اس میں ایسی عبارت موجود ہے جس میں بریلوی حضرات کومغالطہ ہواہے۔ وہ عبارت کو صحیح نہیں سمجھ سکے۔ اصل عبارت اوراس کا مفہوم آگے آئے گا لیکن مہربانی فرما کرآپ دو چیزیں ذہن میں رکھیں۔سید احمد بریلوی ﷫ بھی حنفی ہیں اورمولانا عبدالحی صاحب بڈھانوی بھی حنفی ہیں ۔سید احمد بریلوی ﷫ نہ اس کتاب کےمصنف ہیں نہ اس باب کےمترجم ۔وہ تاجران کتب حضرات کی ہوشمندی کہ انہوں نےشہرت کی وجہ سےکتاب پرشاہ اسماعیل صاحب کانام لکھ دیا اوروہ بریلوی حضرات کی لاعلمی کانشانہ بن گئے، حالانکہ وہ بیچارے بالکل بےقصور ہیں اورشاہ صاحب کےنام اوراہلحدیث ہونے کی وجہ سے جماعت اہلحدیث بدنام ہوگئی، حالانکہ ہماری کتب میں یہ مسئلہ نہیں۔

 اس میں کچھ شک نہیں کہ ہم ان بزرگوں کواختلاف فقہی کےباوجود نیک اور بزرگ سمجھتےہیں لیکن ان کوپیشوایااپناامام نہیں سمجھتے۔ ان میں بعض حضرات کی کچھ تصنیفات ہیں۔ جن میں ہرقسم کےمسائل پائے جاتےہیں۔ان میں غلط بھی ہیں اور صحیح بھی۔

ہم ان حضرات میں سے کسی کےمقلد نہیں۔ انہیں اچھے عالم اوربزرگ سمجھتےہیں۔

بریلوی حضرات معلوم نہیں یہ غلط بیانی کیوں کرتےہیں کہ یہ حضرات ہمارے امام ہیں۔آپ یقین فرمائیں نہ ان کی کتابیں ہمارے لیےحجت ہیں نہ یہ بزرگ ہمارے امام۔ اب ہمارا فرض نہیں کہ میں اصل عبارت کی تشرحیح کروں یامغالطے کااظہار، لیکن آپ کی تسکین کےلیے اصل عبارت اوراس کا مطلب عرض کرنامناسب سمجھتاہوں۔

سید احمد کامقصد یہ ہےکہ نماز پوری توجہ سے ادا ہونی چاہیے۔ اس میں خیالات اور وسوسوں کوقریب نہیں آنے دینا چاہیے۔ خصوصا ایسے خیالات جن سے خداتعالیٰ کی عظمت اوربزرگی میں فرق آئے کیونکہ عبادت میں پہلی چیز اللہ سے محبت اوراس کی عظمت اوربرتری ہے۔

دوسری چیز عبادت میں انسان کاعجز وانکسار اورحاجت مندی۔ان دوچیزوں میں جن خیالات سےنقص پیدا ہو، اللہ کی عزت اور برتری میں فرق آئے یاانسان اپنے آپ کوبڑا سمجھے،اس کےدل میں تکبر آجائے،عبادت میں رسول اللہﷺ  کا ذکر بطور عبدہ ورسولہ آئے اس میں کچھ حرج نہیں، اس لیے کہ یہ الہ کی عظمت سےنہیں ٹکراتا بلکہ اس میں ان کی عبدیت اوررسالت کااقرار ہے۔

اسی لیے مغضوب اور منعم علیہ گروہوں کےخیال سےاللہ کی عظمت میں فرق نہیں آتا۔

اس لحاظ سےیہ خیال اللہ کی عظمت سےنہیں ٹکراتا۔ اگر کسی ولی، بزرگ یانبی کاخیال آجائے توان کی عظمت، ان کی بزرگی کاخیال اللہ تعالیٰ کی عظمت اور بزرگی سے ٹکرائےگا۔ آپ اس کےلیے اعوذ پڑھ سکتےہیں نہ لاحول ۔ اس کےخلاف اگر بیل،گدھے یا کسی ذلیل اورحقیر چیز کاخیال آجائے توآپ فوراً  لاحول یااعوذ پڑھ کراسے دور کردیں گے۔ اللہ تعالیٰ کی ربوبیت اورعزت اس سے متاثر نہیں ہوگی۔

سید صاحب کامقصد یہ ہے:

وسوسہ کوئی بھی نماز میں نہ آنا نہ ہی لانا چاہیے لیکن بعض وسوسے نماز میں زیادہ خلل پیدا کریں گےبعض کم۔ صوفیانہ لحاظ سےسید صاحب نےواقعی عجیب نکتہ فرمایا ہےلیکن کندذہن آدمی جواتنی گہرائی تک نہ جاسکے وہ کفر کےفتوئے لگانےشروع کردےگا۔ مقابلہ حضرت کی ذاتِ گرامی اورگاؤخرمیں نہیں ۔مقابلہ وسوسے کےنقصان اورمضرت میں ہے۔ ایک شخص کہتاہےکہ گرم لوہا جلانے کےلحاظ سے گرم پانی سےزیادہ مضرہے۔ مقابلہ لوہے اورپانی کی مقدار میں نہیں بلکہ لوہے اورپانی میں گرمی میں تاثیرکا ہوگا۔

سیدصاحب نےاس عمیق اورلطیف بات کو سمجھانے کےلیے متعدد صفحے لکھے ہیں لیکن بریلوی  علماء کابغض بھرا ذہن سچی بات سمجھنے میں حائل ہوگیا۔ سید صاحب کی پوری بات سمجھنے کےلیے اگر آپ پسند فرمائیں تواصل کتاب بھیج دوں۔ ممکن ہےاللہ تعالیٰ آپ کاذہن کھول دے۔

سید صاحب نےیہ بھی فرمایا ہےکہ طبائع کےلحاظ سے وسوسے کااثر ہرطبیعت پر مختلف ہوتاہے۔ حضرت عمر﷜ ایسے بزرگ نماز میں لشکر مرتب فرمالیتے تھے۔ان کی نماز میں ، ان کےخشوع میں کوئی اثر نہیں پڑتا، اس لیے بزرگوں اوراہل اللہ کی ریس کرکےعوام کواپنی نماز نہیں خراب کرنی چاہیے۔

سید صاحب نےوسوسے کی دوقسمیں بیان فرمائی ہیں۔

ایک وسوہ لاعلاج ہے۔ اس کےلیے یاتواللہ سےدعا کرے یاکسی کامل پیرکی صحبت میں کچھ عرصہ گزارے۔

دوسرا قابل علاج ہے۔ اس کاعلاج ذکر فرمایا ہے۔سید صاحب فرماتےہیں :

’’ اورجوکچھ حضرت عمر ﷜ سےمنقول ہےکہ نماز میں سامان لشکر کی تدبیر فرمایاکرتے تھے۔ سواس قصے سےمغرور ہوکر اپنی نماز کوتباہ نہ کرنا چاہیے۔،،

                کارِ پاکاں را قیاس از خود مگیر!

                ہست مانند در نوشتن شیر و شِیر

’’ پاکبازہستیوں کےمعاملے کو خوپرقیاس مت کریں۔یہ شیر اوشِیر لکھنے کےمانند ہے، جس سےآپ اشتباہ کاشکار ہوسکتےہیں۔،،

حضرت خضر﷤ کےلیے کشتی توڑنے اوربےگناہ بچے کومارڈالنے میں بڑا ثواب تھا اوردوسروں کےلیے نہایت درجے کاگناہ ہے۔ جناب عمرفاروق﷜ کاوہ درجہ تھا کہ لشکر تیاری آپ کی نماز میں خلل نہیں ڈالتی تھی بلکہ وہ نماز کوکامل کرنے والی ہوجاتی تھی، اس لیے کہ وہ تدبیر اللہ جل شانہ کےالہامات سےآپ کے دل میں ڈالی جاتی تھی اورجوشخص خود کسی امر کی تدبیر کی طرف متوجہ ہو، خواہ وہ امر دینی ہویا دنیاوی، بالکل اس کےرخلاف ہے۔اورجس شخص پریہ مقام کھل جاتا ہےوہ جانتا ہے۔ہاں بمقتضائے ظلمات بعضها فوق بعض  زنا کےوسوسے سے اپنی بیوی سےمجامعت کےخیال کا بہتر ہے۔ اورشیخ یا اس جیسے اوربزرگوں کی طرف خواہ جنات رسالت مآبﷺ ہی ہوں، اپنی ہمت  کولگادینا، اپنے بیل گدھے کی صورت میں مستغرق ہونےسے زیادہ بُرا ہے۔ کیونکہ شیخ کاخیال توتعظیم اوربزرگی کےساتھ انسان کےدل میں چمٹ جاتاہے اور بیل یا گدھے کےخیال میں نہ تواس قدر چسپیدگی ہوتی ہے نہ تعظیم بلکہ حقیر وذلیل ہوتاہے۔ اورغیر کی یہ تعظیم اوربزرگی شرک کی طرف لےجاتی ہے۔حاصل کلام یہاں وسوسوں کےتفاوت کابیان کرنا مقصود ہے۔ اصل کتاب فارسی میں ہے۔ میں نے بقدر ضرورت ترجمہ نقل کردیا ہے۔

سید صاحب یہاں نبی اکرم اور بزرگوں کی عظمت اوربزرگی کاذکر کرتےہیں۔بریلوی مولوی  صاحبان نےاسے توہین بناڈالا۔سمجھ الٹ جائے تواس کا کوئی علاد نہیں۔ومَن يُضلِلهُ فلا هادى له .

 اس امر پرتمام مسلمان متفق ہیں کہ نماز خشوع اور انابت سےادا کرنی چاہیے۔ وسوسے اورخیالات نماز میں نقصان پیدا  کرتےہیں۔یہی مسئلہ سید صاحب نےذکر فرمایا۔

سید صاحب نےاس کی وضاحت فرمائی کہ ردی اورحقیر چیزوں کا خیال اس لیے زیادہ مضر نہیں کہ ان کی کوئی اہمیت نہیں۔ معزز اورمحبوب چیزیں زیادہ مضر ہیں کہ ان کی عزت اورمحبت دل پرغالب ہوتی ہے۔ آپ ان بریلوی علمائے کرام سے فرمائیں کہ ان کےہاں کیا صورت ہوگی۔

کیاگاؤخر کےتصور سےنماز میں صرف نقص پیدا ہوگا اوربزرگوں کےتصورسےنماز پرکوئى اثر نہیں پڑےگا، یا بریلوی حضرات نماز میں خشوع کی ضرورت ہی نہیں سمجھتے۔ آپ کےہاں کافر،مشرک یہودی، عیسائی، مجوسی کےتصور میں فرق نہیں، سب یکساں ہیں۔ آپ کےسوال کےآخری حصے سےتویہی ظاہر ہوتاہےکہ آپ حضرات مغضوب عليهم اور منعم عليهم،  کفار مشرکین اور صالحین سب کےتصور کاجائز سمجھتےہیں۔ اس کےسواآپ کےہاں کوئی چارہ ہی نہیں۔ بہرحال سید صاحب نماز میں خشوع ضروری  سمجھتےہیں اورخیالات ووسوسوں میں بھی فرق کرتےہیں۔ بعض زیادہ مضر اوربعض کم۔اور اس میں مقابلہ رسول اللہﷺ کی ذاتِ بابرکات اور(معاذاللہ) گاؤخر میں نہیں بلکہ اچھے  اوربرے اورمضر اورکم مضروسوسوں میں مقابلہ ہے۔

ایک فقہی نظیر:

                ذہین کوصاف کرنےکےلیے میں چاہتاہوں آپ فقہائے حنفیہ﷭ کی ایک دو تصریحات پرغور فرمائیں:

’’ اگر قرآن سےدیکھ کرپڑھے تواس کی نماز(احناف کےنزدیک) فاسد ہوجائےگی(کیونکہ اس میں تعظیم وتعلم ہے)۔اگرعورت کی شرمگاہ کوشہوت سےدیکھے تونماز فاسد نہیں ہوگی۔،( الاشباہ والنظائر ،ابن نجیم، ص 720)

مولوی احمد رضا صاحب لکھتےہیں:

’’اگر عورت کوطلاق رجعی دی تھی، ہنوذعدت نہ گزری، یہ نماز میں تھا کہ عورت کی فرج داخل پرنظر پڑگئی اورشہوت پیدا ہوئی اورنماز میں فساد نہ آیا۔،، ( فتاوی رضویہ 1؍ 76 )

مولوی صادق صاحب اور دوسرے بریلوی صاحبان دریافت فرمائیں کہ شرمگاہ قرآن سےافضل ہے۔ قرآن سےنماز فاسد ہو، شرمگاہ کےملاحظہ سے سےنماز پرکوئی اثر نہ پڑے۔ شامی عراقی الفلاح میں بھی یہ مسئلہ موجود ہے، جوتوجیہ آپ کے بزرگ اس کےلیے کریں گے،اسی قسم کا عذر سید احمد شہید کےلیے بھی ہوگا۔

دوسرا مسئلہ:

                ’’ اگر امام ایک ماہ امامت کےبعد کہتاہےکہ میں مجوسی تھا۔مقتدی کونماز لوٹانےکی ضرورت نہیں۔ لیکن اگر امام کہےکہ میں نےبےوضویاپلید کپڑے میں نماز پڑھائی ہےتوبصورت بےوضونماز لوٹانی چائیے۔،،( الاشباہ والنظائر، ص : 720 )

اگر آپ پر یہ الزام لگایا جائے کہ آپ مجوسی آتش پرست کوبےوضو مسلمان سےبہتر سمجھتےہیں، کیا آپ اسے پسند کریں گے؟ اگریہاں فقہاء﷭ کی توجیہات صحیح سمجھی جاسکتی ہیں توسید احمدصاحب کےارشاد کی بھی توجیہ ہوسکتی ہے۔آپ اپنےعلماء سےدریافت فرمائیں۔ مجھےخطرہ ہےکہ اگر آپ نےمسائل میں تحقیق شروع کی تو محلے میں آپ کا مقاطعہ کرایا جائے گااور مسجد میں آپ کا داخلہ بند ہوجائے گا۔

 ہم جس طرح ائمہ اربعہ اورفقہائے مذاہب کواپنا بزرگ سمجھتےہیں، ان کےعلوم سےفائدہ اٹھاتےہیں، اسی طرح سیداحمدشہید اورمولانا عبدالحئی صاحب کوباوجود ان کے حنفی ہونے کے اپنابزرگ اورعالم سمجھتےہیں۔ جوباتیں ان کی قرآن وحدیث کےمصالح کےمطابق ہوں انہیں قبول کرتےہیں۔جوسمجھ میں نہ آئیں ، انہیں نظرانداز کردیتے ہیں۔ لیکن ان کو برا بھلا نہیں کہتے نہ ان کوانبیاء کی طرح واجب الاطاعت جانےہیں۔

﴿رَبَّنَا اغفِر لَنا وَلِإِخو‌ٰنِنَا الَّذينَ سَبَقونا بِالإيمـٰنِ وَلا تَجعَل فى قُلوبِنا غِلًّا لِلَّذينَ ءامَنوا... ﴿١٠﴾... سورة الحشر

میں آخر میں آپ کاپھرشکرگزارہوں کہ آپ نےتحقیق کرنے کی جرات فرمائی۔

اللہ تعالیٰ آپ کوسمجھنے کی توفیق عطافرمائے۔آمین

  ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب

فتاویٰ علمائے حدیث

جلد 11 


 

No comments:

Post a Comment