https://follow.it/amir-samdani?action=followPub

Tuesday 25 October 2022

مدہوشی میں طلاق

طلاق کے واقع ہونے کے لیے ضروری ہے کہ طلاق دینے والا عاقل ہو یعنی اُس کا دماغی توازن ٹھیک ہو، اگر کوئی آدمی ایسا ہے کہ اُس کا دماغی توازن ٹھیک نہ ہو یا ایسی حالت کبھی کبھی اس پر آتی ہو اور وہ اسی حالت میں طلاق کے الفاظ کہہ دے تو ایسے آدمی کی دی ہوئی طلاق واقع نہیں ہوتی، اور اگر کسی شخص کا دماغی توازن ٹھیک ہو، محض زیادہ غصہ کی حالت میں طلاق دی ہو اور پھر اس کو ہوش میں نہ ہونے سے تعبیر کرے تو یہ درست نہ ہو گا اور ایسی حالت میں دی ہوئی طلاق بھی واقع ہو جائے گی۔ اگر واقعتًا دماغی توازن کبھی کبھی بگڑ جاتا ہو، جس میں اپنے افعال اور اقوال کا بالکل ہوش نہ رہتا ہو اور اسی حالت میں اپنی بیوی کو طلاق دی ہو تو ایسی حالت میں دی ہوئی طلاق واقع نہیں ہو گی، لیکن اگر آپ کا دماغی توازن درست ہو اور سخت غصہ کے طاری ہونے کی حالت میں طلاق دی ہو تو ایسی طلاق واقع سمجھی جائے گی، اس کے بعد ساتھ رہنا جائز نہیں ہو گا۔ الفتاوى الهندية (1/ 353): "(فصل فيمن يقع طلاقه وفيمن لا يقع طلاقه) يقع طلاق كل زوج إذا كان بالغاً عاقلاً سواء كان حرا أو عبداً طائعاً أو مكرهاً، كذا في الجوهرة النيرة". مصنف ابن أبي شيبة (4/ 73): " عن قتادة قال: «الجنون جنونان، فإن كان لا يفيق، لم يجز له طلاق، وإن كان يفيق فطلق في حال إفاقته، لزمه ذلك»".

No comments:

Post a Comment