کرپٹو کرنسی میں پیسے لگانا ناجائز ہے۔
تجارت کے مسائل کاانسائیکلوپیڈیا میں ہے :
’’بٹ کوائن‘‘ محض ایک فرضی کرنسی ہے، اس میں حقیقی کرنسی کے بنیادی اوصاف اور شرائط بالکل موجود نہیں ہیں، لہذا موجودہ زمانے میں " کوئن" یا "ڈیجیٹل کرنسی" کی خرید و فروخت کے نام سے انٹرنیٹ پر اور الیکٹرونک مارکیٹ میں جو کاروبار چل رہا ہے وہ حلال اور جائز نہیں ہے، وہ محض دھوکا ہے، اس میں حقیقت میں کوئی مادی چیز نہیں ہوتی، اور اس میں قبضہ بھی نہیں ہوتا صرف اکاؤنٹ میں کچھ عدد آجاتے ہیں، اور یہ فاریکس ٹریڈنگ کی طرح سود اور جوے کی ایک شکل ہے، اس لیے " بٹ کوائن" یا کسی بھی " ڈیجیٹل کرنسی" کے نام نہاد کاروبار میں پیسے لگانا اور خرید و فروخت میں شامل ہونا جائز نہیں ہے۔(2/ 92)
بٹ کوائن" یا کسی بھی " ڈیجیٹل کرنسی" کے نام نہاد کاروبار میں پیسے لگانا اور خرید و فروخت میں شامل ہونا جائز نہیں ہےاور نہ اس کے ذریعہ نفع کمانا جائز ہے۔
اللہ تعالی کا ارشاد ہے:
"يا أيها الذين آمنوا إنما الخمر والميسر والأنصاب والأزلام رجس من عمل الشيطان فاجتنبوه لعلكم تفلحون."(المائدۃ: 90)
ترجمہ:"اے ایمان والو :بات یہی ہے کہ شراب اور جوا اور بت وغیرہ اور قرعہ کے تیر یہ سب گندی باتیں شیطانی کام ہیں ،سواس سے بالکل الگ رہو،تاکہ تم کو فلاح ہو۔"
مسند احمد میں ہے:
"عن عبد الله بن عمرو، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " إن الله حرم على أمتي الخمر والميسر."
(جلد 11 ص: 105ط: مؤسسة الرسالة)
فتاوی شامی میں ہے:
"لأن القمار من القمر الذي يزداد تارة وينقص أخرى، وسمي القمار قمارا لأن كل واحد من المقامرين ممن يجوز أن يذهب ماله إلى صاحبه، ويجوز أن يستفيد مال صاحبه وهو حرام بالنص."
(کتاب الحظر و الاباحة , فصل فی البیع،، جلد 6، ص: 403، ط: دارالفکر)
دارالعلوم دیوبند کی ویب سائٹ پر درج ذیل فتویٰ موجود ہے:
"کریپٹو کرنسی (بٹ کوئن وغیرہ) ایک فرضی کرنسی ہے اور اس کا عنوان ہاتھی کے دانت کی طرح محض دکھانے کی چیز ہے اور فقہائے کرام کی تصریحات کی روشنی میں یہ کرنسی از روئے شرع مال نہیں ہے اور نہ ہی ثمن عرفی۔ نیز اس کاروبار میں حقیقت میں کوئی مبیع وغیرہ نہیں ہوتی اور نہ ہی اس میں بیع کے جواز کی شرعی شرطیں پائی جاتی ہیں؛ بلکہ در حقیقت یہ فاریکس ٹریڈنگ کی طرح سود اور جوے کی شکل ہے ؛ اس لیے کرپٹو کرنسی (بٹ کوئن یا کسی بھی ڈیجیٹل کرنسی) کی خرید وفروخت کی شکل میں نیٹ پر چلنے والا کاروبار شرعاًحلال وجائز نہیں ہے، مسلمانوں کو اس میں حصہ داری نہیں کرنی چاہیے۔" (فتوی نمبر 692-617: 1439)
No comments:
Post a Comment