https://follow.it/amir-samdani?action=followPub

Wednesday 21 July 2021

عیدین کی نماز کے بعد دعاء کریں یاخطبہ کے بعد

 عید کی نماز کے بعد بھی باقی نمازوں کی طرح ہاتھ اٹھاکر دعا کرنا جائز ہے، عید کے دن دعا کا ذکر تو صحیح احادیث میں موجود ہے، لیکن روایت میں یہ تصریح نہیں ہے کہ یہ دعا عید کی نماز کے بعد خطبہ سے پہلے ہوتی تھی یا خطبہ کے بعد، اس لیے اس میں دونوں  باتوں کا اختیار ہے کہ امام اور مقتدی مل کر کسی ایک موقع پر دعا مانگ لیں، خواہ نماز کے بعد یا خطبہ کے بعد، اور جس بھی موقع پر  مانگیں اس کو دعا کے لیے مخصوص اور مسنون نہ سمجھیں، اور نماز کے بعد دعا مانگنے والے خطبہ کے بعد دعا مانگنے والوں  کو ملامت نہ کریں اور نہ ہی  خطبہ کے بعد دعا مانگنے والے نماز کے بعد دعا کرنے والوں پر طعن وتشنیع کریں۔

 بخاری اور دیگر  صحاح ستہ کی اس حدیث میں جو عورتوں  کے لیے عیدگاہ آنے سے متعلق ہے یہ الفاظ ہیں:

” فلیشهدن الخیر ودعوة المسلمین، ولیعتزلن المصلی“۔

یعنی حائضہ  عورتیں بھی جائیں اور نیکی اور مسلمانوں کی دعاؤں میں شریک ہوجائیں، ہاں نماز سے علیحدہ رہیں۔

حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ ایک سوال کے جواب میں تحریر فرماتے ہیں  :

 ”واقعی بعد نماز عید یاخطبہ دعا مانگنا بالخصوص منقول تو نہیں دیکھا گیا اور دعوتهم سے  استدلال ناتمام ہے، کیوں کہ اس میں کسی محل کی تصریح نہیں کہ یہ دعا کس وقت ہوتی ہے، پھر محل خاص میں ان کے ہونے پر استدلال کرنا ظاہر ہے کہ غیر تمام ہے، ممکن ہے کہ یہ دعا وہ ہو جو نماز کے اندریاخطبہ کے اندر عام صیغوں سے کی جاتی ہے جو سب مسلمانوں کوشامل ہوتی ہے اور حاضرین پر اس کے برکات اول فائض ہوتے ہیں، لیکن بالخصوص منقول نہ ہونے سے حکم ابتداع کا بھی مشکل ہے؛ کیوں کہ عموماتِ نصوص سے فضیلت دعا بعد الصلاۃ کی ثابت ہے، پس اس عموم میں اس کے داخل ہونے کی گنجائش ہے، اوراگرکوئی شخص بالخصوص منقول نہ ہونے کے سبب اس کو ترک کرے اس پر بھی ملامت نہیں ۔ بہرحال یہ مسئلہ ایسا مہتم بالشان نہیں ہے دونوں جانب میں توسع ہے۔ (امداد الفتاوی، 1/405، ط: دارالعلوم کراچی)

مفتی اعظم ہند مفتی کفایت اللہ رحمہ اللہ ایک سوال کے جواب میں تحریر فرماتے ہیں :

”(سوال )  عیدین کے بعد دعا مانگنا ثابت ہے یا نہیں ؟  اگر نہیں تو الدعاء مخ العبادات کا کیا مطلب ہوا؟  المستفتی نمبر ۷۹۱ محمد نور صاحب (ضلع جالندھر) ۷ ذی الحجہ ۱۳۵۴؁ھ م ۲ مارچ ۱۹۳۶؁ء  
(جواب ۴۷۶)  عیدین کے بعد دعا مانگنے کا فی الجملہ تو ثبوت ہے، مگر تعین موقع کے ساتھ ثبوت نہیں کہ نماز کے بعد یا خطبہ کے بعد دونوں موقعوں میں سے کسی ایک موقع پر دعا مانگنے میں مضائقہ نہیں ہے “ (کفایت المفتی 3/251، ط: مکتبہ حقانیہ)فقط واللہ اعلم

Tuesday 20 July 2021

ایام تشریق اور ان کی وجہ تسمیہ

 چوں کہ یہ تکبیرات "الله أكبر الله أكبر لا إله لا الله والله أكبر الله أكبر ولله الحمد" نو ذی الحجہ کی فجر سے ایامِ تشریق کے آخری دن یعنی 13 ذی الحجہ کی شام تک پڑھی جاتی ہیں، ان ایام میں 9تاریخ کے سوا باقی سارے ایام ایامِ تشریق ہیں، اس لیے تغلیباً ان تکبیرات کو تکبیراتِ تشریق کہتے ہیں، اگرچہ ان  تکبیرات کے حکم میں ایک دن ایامِ تشریق سے پہلے کا(یعنی نو ذی الحجہ ) بھی شامل ہے۔یہی (یعنی 9 ذوالحجہ کی فجر سے تکبیراتِ تشریق کا آغاز کرنا) احناف کامفتی بہ قول  ہے۔

نیز ایامِ تشریق کو تشریق کہنے کی مختلف توجیہات فقہاء نے لکھی ہیں، جن میں سے مشہور یہ ہے کہ یہ ’’تشریق اللحم‘‘  (گوشت خشک کرنے) سے ماخوذہے، ان دنوں میں جانور ذبح کرکے اس کا گوشت خشک کیا جاتاتھا، یا ’’شروق الشمس‘‘ سے ہے، یعنی نمازِ عید  کے لیے سورج چڑھنے کا انتظار کرناوغیرہ۔

 لیکن یادرہے کہ ان تکبیرات کے اوقات کی تعیین میں اصل ایامِ تشریق ہی نہیں، بلکہ وہ صریح احادیث ہیں جن میں رسول کریم ﷺسے یہ ثابت ہے کہ آپ یومِ عرفہ کی فجر سے ایامِ تشریق کے آخری دن کی عصر تک یہ تکبیرات ادافرماتے تھے۔اس لیے احناف کا مفتی بہ قول ان روایات کی بناپریہی ہے کہ ان تکبیرات کا وقت یومِ عرفہ کی فجر سے ایامِ تشریق کے آخری دن کی عصر کی نماز تک ہے۔ذیل میں وہ احادیث ذکر کی جارہی ہیں جن سے ان تکبیرات سے متعلق یومِ عرفہ سے ابتدا  کرنا ثابت ہے:

سنن الدارقطنی میں ہے :

"عن جابر عن أبي الطفيل عن علي وعمار أن النبي صلى الله عليه وسلم كان يجهر في المكتوبات بـ {بسم الله الرحمن الرحيم}، وكان يقنت في الفجر، وكان يكبر يوم عرفة صلاة الغداة ويقطعها صلاة العصر آخر أيام التشريق". (2/389)

السنن الکبری للبیہقی میں ہے :

"عن عبد الرحمن بن سابط عن جابر : قال كان النبى صلى الله عليه وسلم يكبر يوم عرفة صلاة الغداة إلى صلاة العصر آخر أيام التشريق."(3/315)

وفیہ ایضاً :

"عن أبى إسحاق قال : اجتمع عمر وعلي وابن مسعود رضي الله عنهم على التكبير في دبر صلاة الغداة من يوم عرفة. فأما أصحاب ابن مسعود فإلى صلاة العصر من يوم النحر، وأما عمر وعلي رضى الله عنهما فإلى صلاة العصر من آخر أيام التشريق." (3/314)

المستدرک علی الصحیحین للحاکم میں ہے :

"عن أبي الطفيل عن علي و عمار : أن النبي صلى الله عليه و سلم كان يجهر في المكتوبات ببسم الله الرحمن الرحيم، و كان يقنت في صلاة الفجر، و كان يكبر من يوم عرفة صلاة الغداة و يقطعها صلاة العصر آخر أيام التشريق". (1/439)

شرح السنۃ میں ہے :

"وذهب أكثر أهل العلم إلى أنه يبتدئ التكبير عقيب صلاة الصبح من يوم عرفة ، ويختم بعد العصر من آخر أيام التشريق، وهو قول عمر وعلي، وبه قال مكحول، لما روي عن جابر بن عبد الله أن رسول الله صلى الله عليه وسلم كان يصلي صلاة الغداة يوم عرفة، ثم يستند إلى القبلة، فيقول : الله أكبر ، الله أكبر ، الله أكبر ، لا إله إلا الله ، والله أكبر ، الله أكبر ولله الحمد ، ثم يكبر دبر كل صلاة إلى صلاة العصر من آخر أيام التشريق." (7/146)

فتح الباری لابن رجب میں ہے :

"فأما علي، فكان يكبر من صبح يوم عرفة إلى العصر من آخر أيام التشريق ." (6/126)

فتح الباری میں ہے :

"والفقه أن أيام التشريق ما بعد يوم النحر على اختلافهم هل هي ثلاثة أو يومان لكن ما ذكروه من سبب تسميتها بذلك يقتضى دخول يوم العيد فيها وقد حكى أبو عبيد أن فيه قولين أحدهما لأنهم كانوا يشرقون فيها لحوم الأضاحي أي يقددونها ويبرزونها للشمس ثانيهما لأنها كلها أيام تشريق لصلاة يوم النحر فصارت تبعا ليوم النحر قال وهذا أعجب القولين إلى وأظنه أراد ما حكاه غيره أن أيام التشريق سميت بذلك لأن صلاة العيد إنما تصلى بعد أن تشرق الشمس وعن بن الأعرابي قال سميت بذلك لأن الهدايا والضحايا لاتنحر حتى تشرق الشمس وعن يعقوب بن السكيت قال هو من قول الجاهلية أشرق ثبير كيما نغير أي ندفع لننحر انتهى وأظنهم أخرجوا يوم العيد منها لشهرته بلقب يخصه وهو يوم العيد وإلا فهي في الحقيقة تبع له في التسمية كما تبين من كلامهم ومن ذلك حديث على لا جمعة ولا تشريق إلا في مصر جامع أخرجه أبو عبيد بإسناد صحيح إليه موقوفا".(2/457)

عمدۃ القاری میں ہے :

"الثاني في وقت التكبير: فعند أصحابنا يبدأ بعد صلاة الفجر يوم عرفة ويختم عقيب العصر يوم النحر عند أبي حنيفة وهو قول عبد الله بن مسعود رضي الله تعالى عنه وعلقمة والأسود والنخعي وعند أبي يوسف ومحمد يختم عقيب صلاة العصر من آخر أيام التشريق وهو قول عمر بن الخطاب وعلي بن أبي طالب وعبد الله بن عباس وبه قال سفيان الثوري وسفيان بن عيينة وأبو ثور وأحمد والشافعي في قول وفي ( التحرير ) ذكر عثمان معهم وفي ( المفيد ) وأبا بكر، وعليه الفتوى". (10/308

عید کی نماز پڑھنے کا طریقہ

 

عید کی نماز کا طریقہ:

عید الفطر اور عید الاضحیٰ کی نماز کا طریقہ ایک ہی ہے۔عید کی نماز کے لیے اذان اور اقامت نہیں، جب نماز کھڑی کی جائے تو عید کی نماز  چھ زائد تکبیرات کے ساتھ پڑھنے کی نیت کریں، اس کے بعد تکبیر کہہ کر ہاتھ ناف کے نیچے باندھ لیں اور ثناء پڑھیں، اس کے بعد تین زائد تکبیریں کہیں، دو تکبیروں میں ہاتھ کانوں تک اٹھا کر چھوڑ دیں اور تیسری تکبیر پر ہاتھ اٹھا کر ناف کے نیچے باندھ لیں، اس کے بعد امام اونچی آواز میں قراءت کرے، قراءت مکمل ہونے کے بعد بقیہ رکعت (رکوع اور سجدہ  وغیرہ) دیگر  نمازوں کی طرح ادا کریں۔

پھر دوسری رکعت کے شروع میں امام اونچی آواز میں قراءت کرے، اس کے بعد تین زائد تکبیریں کہیں، تینوں تکبیروں میں ہاتھ کانوں تک اٹھا کر چھوڑ دیں، پھر ہاتھ اٹھائے بغیر چوتھی تکبیر کہہ کر رکوع میں جائیں اور پھر دیگر نمازوں کی طرح دو سجدوں کے بعد التحیات، درود اور دعا پڑھ کر سلام پھیر دیں، پھرنماز مکمل کرنے کے بعد امام  دو  خطبے دے، دونوں خطبوں کے درمیان تھوڑی دیر بیٹھے۔ 

عید کے دن اشراق وچاشت پڑھنا

 عید کے دن فجر کی نماز کا وقت داخل ہونے کے بعد سے عید کی نماز ادا کرنے تک نفل نماز ادا کرنا مطلقاً (عیدگاہ ہو یا گھر یا کوئی اور جگہ) مکروہِ (تحریمی) ہے، اور عید کی نماز کے بعد سے اس دن کے زوال تک صرف عیدگاہ میں نفل نماز ادا کرنا مکروہ ہے، جب کہ  عید کی نماز کے بعد گھر میں نفل نماز ادا کرنا جائز ہے، لہذا عید کی نماز کے بعد گھر آکر اشراق اور چاشت کے نوافل پڑھنا جائز ہے۔

"طحطاوی علی الدر المختار" میں ہے:

"ولايتنفل قبلها مطلقاً ... و كذا لايتنفل بعدها في مصلاه؛ فإنه مكروه عند العامة، و إن تنفل بعدها في البيت جاز ... قوله: (فإنه مكروه) أي تحريماً علی الظاهر..."الخ (كتاب الصلاة، باب العيدين، ١/ ٣٥٣، ط: رشيدية

Monday 19 July 2021

نماز میں خیالات اوروساوس کا آنا

 نماز میں  وسوسہ آجائے تو اس کا علاج یہ ہے  کہ اس کو شیطانی وسوسہ سمجھ کر اس کی طرف التفات نہ کیا جائے، اور اللہ کی عظمت اور جلال کا تصور کرتے  ہوئے نماز پوری کرلی جائے اور یہ تصور کیا جائے  کہ میں اللہ تعالیٰ کو دیکھ رہا ہوں اور وہ مجھے دیکھ رہا ہے ، اور ہر رکن  کے آداب کی رعایت رکھے ،  اور وسوسہ کی طرف دھیان نہ دے ، قاسم بن محمد رحمہ اللہ سےایک شخص نے عرض کیا:  مجھے اپنی نماز میں وہم ہوتا ہے ، جس کی وجہ سے مجھے بہت گرانی ہوتی ہے، تو انہوں نے فرمایا: (تم اس طرح کے خیال پر دھیان نہ دو اور)  اپنی نماز پوری کرو، اس لیے وہ شیطان تم سے جب ہی دور ہوگا کہ تم اپنی نماز پوری کرلو، اور  کہو کہ ہاں میں نے اپنی نماز پوری نہیں کی" یعنی اس وسوسہ کے باوجود نماز پوری کرلو اور شیطان کے کہنے میں نہ آؤ۔ 

مشكاة المصابيح (1/ 29):
’’وَعَنِ الْقَاسِمِ بْنِ مُحَمَّدٍ أَنَّ رَجُلًا سَأَلَهُ فَقَالَ: «إِنِّي أهم فِي صَلَاتي فيكثر ذَلِك عَليّ؟ فَقَالَ الْقَاسِم بن مُحَمَّد: امْضِ فِي صَلَاتك؛ فَإِنَّهُ لن يذهب عَنْكَ حَتَّى تَنْصَرِفَ وَأَنْتَ تَقُولُ: مَا أَتْمَمْتُ صَلَاتي». رَوَاهُ مَالك‘‘.

باقی نماز میں وسوسہ دور کرنے کے لیے ’’اعوذ باللہ‘‘ زبان  سے نہیں پڑھنی چاہیے،  بلکہ  دل ہی دل میں وسوسہ دور کرنے کے لیے پڑھ لی جائے،لیکن اگر وسوسہ دور کرنے کے لیے زبان سے پڑھ لی تو نماز فاسد نہ ہوگی، اسی طرح تین مرتبہ تھوکنا بھی نہیں چاہیے یہ عمل کثیر ہوجائے گا جس سے نماز فاسد ہوجائے گی، جہاں تک حدیث میں اس کا ذکر ہے تو اس کی تفصیل یہ  ہے کہ حدیث مبار ک میں ہے:

حضرت عثمان بن ابوالعاص  رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا: اے اللہ کے رسول ﷺ ! شیطان میری نماز اور قرأت کے درمیان حائل ہوتا اور مجھ پر نماز میں شبہ ڈالتا ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: وہ شیطان ہے جسے ’’خنزب‘‘  کہا جاتا ہے، جب تو ایسی بات محسوس کرے تو اس سے اللہ کی پناہ مانگ لیا کر اور اپنے بائیں جانب تین مرتبہ تھوک دیا کر، پس میں نے ایسے ہی کیا تو شیطان مجھ سے دور ہوگیا۔
صحيح مسلم (4/ 1728):
’’أن عثمان بن أبي العاص، أتى النبي صلى الله عليه وسلم، فقال: يا رسول الله إن الشيطان قد حال بيني وبين صلاتي وقراءتي يلبسها علي، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «ذاك شيطان يقال له خنزب، فإذا أحسسته فتعوذ بالله منه، واتفل على يسارك ثلاثاً» قال: ففعلت ذلك فأذهبه الله عني‘‘.

اس حدیث  کی شرح میں ملا علی قاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ  اس حدیث کا تعلق اس وسوسہ سے ہے جو نماز شروع کرنے سے پہلے ہوتا ہو، لہذا جس شخص نے نماز شروع نہیں کی  اس کو اگر وسوسہ آجائے تو وہ  تعوذ پرھ کر بائیں طرف تین بار تھوک دے ۔ 

دوسری توجیہ اس کی یہ بیان کی گئی ہے کہ  یہ حکم اس وقت تھا جب نماز میں باتیں کرنا جائز تھا ، پھر یہ حکم منسوخ ہوگیا۔ اور تیسری توجیہ شراح حدیث نے یہ ذکر کی ہے کہ یہ حکم اس  نمازی کو ہے جو نماز سے فارغ ہوچکا ہو، نماز کے بعد اب یہ عمل کرلو کہ شیطان سے بدلہ ہوجائے اور آئندہ نماز میں تنگ نہ کرے۔

مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح (1/ 146):
’’ ( «قال: قلت يا رسول الله! إن الشيطان قد حال بيني، وبين صلاتي، وبين قراءتي» ) أي: يمنعني من الدخول في الصلاة، أو من الشروع في القراءة بدليل تثليث التفل، وإن كان في الصلاة، وليتفل ثلاث مرات غير متواليات، ويمكن حمل التفل والتعوذ على ما بعد الصلاة، والمعنى جعل بيني وبين كمالهما حاجزاً من وسوسته المانعة من روح العبادة، وسرها، وهو الخشوع والخضوع‘‘. 

فتاوی رحیمیہ میں ہے:

’’"نماز میں  وسوسہ دفع کرنے کے لیے بار بار اعوذ باللہ الخ پڑھنے کی ہدایت صحیح نہیں  ہے ۔ اگر چہ نماز فاسد ہونے میں  فقہاء  کااتفاق نہیں  ہے، مگر کراہت سے خالی نہیں  ۔ ’’ولو حوقل لدفع الوسوسة، إن لأمور الدنیا تفسد، لا لأمور الاٰ خرة‘‘. (درمختار ج۱ ص ۵۸۱ باب ما یفسد الصلاة وما یکره فیها)(یعنی اگر نماز ی نے لاحول ولا قوۃ الخ پڑھا تو اگر دنیوی امور کے لیے وسوسہ ہے تو نماز فاسد ہوگی اور اگر امورِ آخرت کے لیےہے تو نماز فاسد نہ ہوگی ) ’’ولو تعوذ لد فع الوسوسة لا تفسد مطلقاً (الی قوله:) ولو تعوذ لدفع الوسوسة لاتفسد مطلقاً نظر؛ إذ لا فرق بینها وبین الحوقلة، فلیتا مل‘‘. (طحطاوي علی الدر المختار ج۱ ص ۴۱۶ باب ما یفسد الصلاة ویکرہ فیها ) (فتاوی رحیمیہ 5/'126)

نمازمیں نبئ اکرم  صلی اللہ علیہ والہ و سلم  کا خیال آنا

سوال:میرا سوال یہ ہے کہ کیا نماز میں حضورصلی اللہ علیہ وسلم کا خیال آنے سے نماز میں خلل پیدا ہوتا ہے؟ کیوں کہ اللہ کے سوا کسی اور کا خیال آرہا ہے؟

جواب نمبر: 40931

بسم الله الرحمن الرحيم

فتوی: 1364-869/L=10/1433 نماز میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا خیال آنے سے نماز میں خلل پیدا نہیں ہوتا اور جب کہ التحیات میں ”السلام علیک ایہا النبی“ موجود ہے، تو اس کے پڑھتے وقت حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ذہن میں آنا لازمی ہے، البتہ نماز میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف صرفِ ہمت کرنا منع ہے۔


واللہ تعالیٰ اعلم

كیا یہ بات درست ہے؟

سوال

اگر کوئی شخص کہتا ہے کہ نماز میں نبی کا خیال آجائے تو نماز نہیں ہوتی ہاں مگر گدھے کا آجائے تو ہو جاتی ہے ایسا کہنا کیسا ہے ؟

جواب

بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa: 337-515/sd= 7/1438
ایسا کہنا بالکل غلط ہے، نماز ہوجاتی ہے۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند


ماخذ :دار الافتاء دار العلوم دیوبند
فتوی نمبر :147822
دارالافتاء،دارالعلوم دیوبند

سوال نمبر: 69596

عنوان:نماز میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں خیال کرنا ؟

سوال:میں نے بریلویوں کو کہتے ہوئے سناہے کہ مولانا رشید احمد گنگوہی نے اپنی کتاب میں ذکرکیا ہے کہ ”نماز میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں خیال کرنا گائے اور گدھے کے خیال کرنے سے بدتر ہے“ (صرا ط مستقیم ، صفحہ 150) واضح رہے کہ میں کسی پر بدنام کرنا نہیں چاہتاہوں، بلکہ میں خالص نیت سے سوال کررہاہوں، چونکہ میں دیوبندی علماء کو مانتاہوں۔ جب میں نے یہ سب باتیں سنی تو میں فکر مند ہوگیا اور صرف شبے کا زالہ کرنا چاہتاہوں۔ براہ کرم، جواب دیں۔

جواب نمبر: 69596

بسم الله الرحمن الرحيم

Fatwa ID: 943-1109/B=12/1437

 

آپ کے سوال سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے ”صراط مستقیم“ پڑھی نہیں نہ دیکھی ہے، صراط مستقیم تو حضرت مولانا اسماعیل شہیدکی لکھی ہوئی ہے اور آپ نے حضرت مولانا رشید احمد گنگوہیکی کتاب بتائی ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ جو عبارت آپ نے خط کشیدہ لکھی ہے وہ عبارت صراط مستقیم میں نہیں ہے، حضرت مولانا نے تصوف کی آخری احسان کو سمجھایا ہے صوفیاء کرام کے یہاں ”صَرْفِ ہِمّتْ“ کہلاتا ہے یہ وہ منزل ہوتی ہے جو صحابہ کرام کو اور بڑے بڑے اولیاء کرام کو حاصل ہوتی ہے اس منزل تک وہی پہنچے گا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سچی محبت رکھے گا اور ان کی ہرہر سنت کا اتباع کرے گا، احسان کی منزل کی تعریف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس طرح فرمائی ہے الإحسان أن تعبد اللہ کأنک تراہ فان لم تکن تراہ فانہ یراک، یعنی اس منزل پر پہنچ جانے کے بعد آدمی اس طرح نماز پڑھتا ہے کہ وہ براہ راست اللہ سے مناجات کرتا ہے جس عظیم شخصیت کی محبت و عظمت واطاعت کی بدولت اللہ کا ولی احسان کے مقام پر پہنچا ہے ظاہر ہے کہ جب اللہ کا ولی نماز کی حالت میں اللہ سے ڈائرکٹ مناجات اور ہم کلامی کررہا ہوتو حقیر اشیاء کا خیال آنے سے اس توجہ میں کوئی فرق نہیں آئے گا لیکن جب سب سے عظیم اور بزرگ و مقدس اور سب سے بڑے محسن کا تصور آجائے گا تو پورے ادب و احترام اور پوری عظمت کے ساتھ آئے گا تو اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ کی شان و شوکت او رعظمت کی وجہ سے ولی کی جو ہم کلامی او رمناجاة اللہ سے پوری توجہ کے ساتھ نماز میں جاری تھی وہ توجہ اللہ کی طرف سے ہٹ جائے گی، یہی چیز حضرت مولانا اسماعیل شہید نے بیان فرمائی ہے، اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی انتہائی عظمت و رفعت کو بیان فرمایا ہے جس کو ہمارے کرم فرماوٴں نے حضور کا خیال آنے کو گھوڑے گدھے سے بدتر لکھ دیا ہے، صراط مستقیم پوری کتاب آپ پڑھ جائیے پور ی کتاب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی منقبت و تعریف سے بھری ہوئی ہے ہم دیوبندی لوگ تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی شان اور اقدس میں توہین کرنے والے کو کافر اور اسلام سے خارج سمجھتے ہیں ہم دیوبندی لوگ ہمیشہ سے یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ ہر نماز میں تشہد پڑھتے وقت السلام علیک أیہا النبي پر حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم کا خیال لاتے ہیں جیسا کہ صاحب درمختار نے لکھا ہے۔ حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی، حضرت مولانا اسماعیل شہیدیہ سب لوگ بہت اونچے درجہ کے ولی تھے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے انتہائی عاشق شیدائی، اور بے انتہا متبع سنت تھے، اور حضور کی عظمت و رفعت کے قائل تھے جن کرم فرماوٴں نے ان پر حضور کی توہین کا الزام لگایا ہے وہ بالکل بے بنیاد، غلط اور جھوٹ ہے، محض عناد و عداوت پر مبنی ہے۔ 


واللہ تعالیٰ اعلم


دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند


سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ایک صاحب نےاپنانام ظاہر کیےبغیر شاہ اسماعیل شہید سےمنسوب کتابوں تقویۃ الایمان اورصراط مستقیم میں درج چند عبارتوں کوگستاخ پرمحمول کرتےہوئے ان کےبارےمیں فتویٰ طلب کیاہے۔ انہوں نے اس بات کاحوالہ دیا ہےکہ شاہ صاحب نماز کےدوران میں رسول اللہ ﷺ کا خیال آنے کوگدھے اوربیل کاخیال آنےسےزیادہ بدتر سمجھتےہیں۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

چونکہ اس مسئلے پرمشہور اہل حدیث عالم مولانا محمد اسماعیل سلفی خامہ فرسائی کرچکےہیں، اس لیے ہم انہی کاجواب من وعن نقل کررہے ہیں۔ اس جواب کی روشنی میں سائل کےدوسرے سوالوں کاجواب بھی مل جاتاہے۔مولانا اسماعیل سلفی مرحوم کی یہ تحریر اُن کی کتاب’’تحریک آزادی فکراورشاہ ولی اللہ کی تجدیدی مساعی،، سےلی گئی ہے۔

رسول اللہ کا تصور:

                 آپ ﷺ کانماز میں تصور کرنا یانہ کرناعقیدے کامسئلہ نہیں۔عقائد کی کتابوں میں اس کا کوئی ذکر نہیں۔ عقائد کی مشہور کتابیں شرع عقائد نسفی، عقیدہ طحاویہ، شرح عقیدہ اصفہانیہ، عقیدہ صابونیہ شرح مطابع یہ عقائد کی کتابیں عام کتب خانوں میں ملتی ہیں، کسی میں یہ عقیدہ موجود نہیں ۔ معلوم نہیں بریلوی مولوی صاحبان نےیہ عقیدہ کہاں سے بنایا؟ صحیح یہ ہےکہ نماز خشوع وعاجزی سےپڑھی جائے۔ نماز میں جوپڑھا جائے اس کےمفہوم مطالب کی طرف توجہ رکھنی چاہیے۔

بافی پریشان خیالات سےبچنے کی کوشش کرے۔ اگرخیالات ذہن میں آئیں تودل میں أعوذباالله يا لاحول پڑھے اورخیالات کی آمدکوروکے۔

غلطی کی وجہ:

                قریباً ایک سوسال سےزیادہ عرصہ ہورہاہے۔ایک بزرگ سید احمد بریلوی ہوئے۔ یہ حنفی المذہب تھے۔ نہایت پرہیز گارتھے۔انہوں نےسکھوں اور انگریزوں کےساتھ جہاد کافیصلہ کیا۔ بڑے بڑے عالم بھی اُن کےمرید تھے۔ اسی سلسلے میں مولانا اسماعیل بن شاہ عبدالغنی بن شاہ ولی  اللہ اورمولانا عبدالحی صاحب بڈھانوی حنفی ان کےعقیدت مند تھے۔مولانا اسماعیل صاحب اہل حدیث تھے۔سید احمد صاحب بریلوی حنفی صوفی بزرگ تھے۔ انہوں نےتصوف میں ایک کتاب لکھوائی جس کانام’’الصراط المستقیم،، ہے۔یہ کتاب فارسی میں ہے۔ اس کےچار باب ہیں۔ اس کےدوابواب کاترجمہ مولوی عبدالحی صاحب بڈھانوی حنفی نےکیاہے۔اس میں ایسی عبارت موجود ہے جس میں بریلوی حضرات کومغالطہ ہواہے۔ وہ عبارت کو صحیح نہیں سمجھ سکے۔ اصل عبارت اوراس کا مفہوم آگے آئے گا لیکن مہربانی فرما کرآپ دو چیزیں ذہن میں رکھیں۔سید احمد بریلوی ﷫ بھی حنفی ہیں اورمولانا عبدالحی صاحب بڈھانوی بھی حنفی ہیں ۔سید احمد بریلوی ﷫ نہ اس کتاب کےمصنف ہیں نہ اس باب کےمترجم ۔وہ تاجران کتب حضرات کی ہوشمندی کہ انہوں نےشہرت کی وجہ سےکتاب پرشاہ اسماعیل صاحب کانام لکھ دیا اوروہ بریلوی حضرات کی لاعلمی کانشانہ بن گئے، حالانکہ وہ بیچارے بالکل بےقصور ہیں اورشاہ صاحب کےنام اوراہلحدیث ہونے کی وجہ سے جماعت اہلحدیث بدنام ہوگئی، حالانکہ ہماری کتب میں یہ مسئلہ نہیں۔

 اس میں کچھ شک نہیں کہ ہم ان بزرگوں کواختلاف فقہی کےباوجود نیک اور بزرگ سمجھتےہیں لیکن ان کوپیشوایااپناامام نہیں سمجھتے۔ ان میں بعض حضرات کی کچھ تصنیفات ہیں۔ جن میں ہرقسم کےمسائل پائے جاتےہیں۔ان میں غلط بھی ہیں اور صحیح بھی۔

ہم ان حضرات میں سے کسی کےمقلد نہیں۔ انہیں اچھے عالم اوربزرگ سمجھتےہیں۔

بریلوی حضرات معلوم نہیں یہ غلط بیانی کیوں کرتےہیں کہ یہ حضرات ہمارے امام ہیں۔آپ یقین فرمائیں نہ ان کی کتابیں ہمارے لیےحجت ہیں نہ یہ بزرگ ہمارے امام۔ اب ہمارا فرض نہیں کہ میں اصل عبارت کی تشرحیح کروں یامغالطے کااظہار، لیکن آپ کی تسکین کےلیے اصل عبارت اوراس کا مطلب عرض کرنامناسب سمجھتاہوں۔

سید احمد کامقصد یہ ہےکہ نماز پوری توجہ سے ادا ہونی چاہیے۔ اس میں خیالات اور وسوسوں کوقریب نہیں آنے دینا چاہیے۔ خصوصا ایسے خیالات جن سے خداتعالیٰ کی عظمت اوربزرگی میں فرق آئے کیونکہ عبادت میں پہلی چیز اللہ سے محبت اوراس کی عظمت اوربرتری ہے۔

دوسری چیز عبادت میں انسان کاعجز وانکسار اورحاجت مندی۔ان دوچیزوں میں جن خیالات سےنقص پیدا ہو، اللہ کی عزت اور برتری میں فرق آئے یاانسان اپنے آپ کوبڑا سمجھے،اس کےدل میں تکبر آجائے،عبادت میں رسول اللہﷺ  کا ذکر بطور عبدہ ورسولہ آئے اس میں کچھ حرج نہیں، اس لیے کہ یہ الہ کی عظمت سےنہیں ٹکراتا بلکہ اس میں ان کی عبدیت اوررسالت کااقرار ہے۔

اسی لیے مغضوب اور منعم علیہ گروہوں کےخیال سےاللہ کی عظمت میں فرق نہیں آتا۔

اس لحاظ سےیہ خیال اللہ کی عظمت سےنہیں ٹکراتا۔ اگر کسی ولی، بزرگ یانبی کاخیال آجائے توان کی عظمت، ان کی بزرگی کاخیال اللہ تعالیٰ کی عظمت اور بزرگی سے ٹکرائےگا۔ آپ اس کےلیے اعوذ پڑھ سکتےہیں نہ لاحول ۔ اس کےخلاف اگر بیل،گدھے یا کسی ذلیل اورحقیر چیز کاخیال آجائے توآپ فوراً  لاحول یااعوذ پڑھ کراسے دور کردیں گے۔ اللہ تعالیٰ کی ربوبیت اورعزت اس سے متاثر نہیں ہوگی۔

سید صاحب کامقصد یہ ہے:

وسوسہ کوئی بھی نماز میں نہ آنا نہ ہی لانا چاہیے لیکن بعض وسوسے نماز میں زیادہ خلل پیدا کریں گےبعض کم۔ صوفیانہ لحاظ سےسید صاحب نےواقعی عجیب نکتہ فرمایا ہےلیکن کندذہن آدمی جواتنی گہرائی تک نہ جاسکے وہ کفر کےفتوئے لگانےشروع کردےگا۔ مقابلہ حضرت کی ذاتِ گرامی اورگاؤخرمیں نہیں ۔مقابلہ وسوسے کےنقصان اورمضرت میں ہے۔ ایک شخص کہتاہےکہ گرم لوہا جلانے کےلحاظ سے گرم پانی سےزیادہ مضرہے۔ مقابلہ لوہے اورپانی کی مقدار میں نہیں بلکہ لوہے اورپانی میں گرمی میں تاثیرکا ہوگا۔

سیدصاحب نےاس عمیق اورلطیف بات کو سمجھانے کےلیے متعدد صفحے لکھے ہیں لیکن بریلوی  علماء کابغض بھرا ذہن سچی بات سمجھنے میں حائل ہوگیا۔ سید صاحب کی پوری بات سمجھنے کےلیے اگر آپ پسند فرمائیں تواصل کتاب بھیج دوں۔ ممکن ہےاللہ تعالیٰ آپ کاذہن کھول دے۔

سید صاحب نےیہ بھی فرمایا ہےکہ طبائع کےلحاظ سے وسوسے کااثر ہرطبیعت پر مختلف ہوتاہے۔ حضرت عمر﷜ ایسے بزرگ نماز میں لشکر مرتب فرمالیتے تھے۔ان کی نماز میں ، ان کےخشوع میں کوئی اثر نہیں پڑتا، اس لیے بزرگوں اوراہل اللہ کی ریس کرکےعوام کواپنی نماز نہیں خراب کرنی چاہیے۔

سید صاحب نےوسوسے کی دوقسمیں بیان فرمائی ہیں۔

ایک وسوہ لاعلاج ہے۔ اس کےلیے یاتواللہ سےدعا کرے یاکسی کامل پیرکی صحبت میں کچھ عرصہ گزارے۔

دوسرا قابل علاج ہے۔ اس کاعلاج ذکر فرمایا ہے۔سید صاحب فرماتےہیں :

’’ اورجوکچھ حضرت عمر ﷜ سےمنقول ہےکہ نماز میں سامان لشکر کی تدبیر فرمایاکرتے تھے۔ سواس قصے سےمغرور ہوکر اپنی نماز کوتباہ نہ کرنا چاہیے۔،،

                کارِ پاکاں را قیاس از خود مگیر!

                ہست مانند در نوشتن شیر و شِیر

’’ پاکبازہستیوں کےمعاملے کو خوپرقیاس مت کریں۔یہ شیر اوشِیر لکھنے کےمانند ہے، جس سےآپ اشتباہ کاشکار ہوسکتےہیں۔،،

حضرت خضر﷤ کےلیے کشتی توڑنے اوربےگناہ بچے کومارڈالنے میں بڑا ثواب تھا اوردوسروں کےلیے نہایت درجے کاگناہ ہے۔ جناب عمرفاروق﷜ کاوہ درجہ تھا کہ لشکر تیاری آپ کی نماز میں خلل نہیں ڈالتی تھی بلکہ وہ نماز کوکامل کرنے والی ہوجاتی تھی، اس لیے کہ وہ تدبیر اللہ جل شانہ کےالہامات سےآپ کے دل میں ڈالی جاتی تھی اورجوشخص خود کسی امر کی تدبیر کی طرف متوجہ ہو، خواہ وہ امر دینی ہویا دنیاوی، بالکل اس کےرخلاف ہے۔اورجس شخص پریہ مقام کھل جاتا ہےوہ جانتا ہے۔ہاں بمقتضائے ظلمات بعضها فوق بعض  زنا کےوسوسے سے اپنی بیوی سےمجامعت کےخیال کا بہتر ہے۔ اورشیخ یا اس جیسے اوربزرگوں کی طرف خواہ جنات رسالت مآبﷺ ہی ہوں، اپنی ہمت  کولگادینا، اپنے بیل گدھے کی صورت میں مستغرق ہونےسے زیادہ بُرا ہے۔ کیونکہ شیخ کاخیال توتعظیم اوربزرگی کےساتھ انسان کےدل میں چمٹ جاتاہے اور بیل یا گدھے کےخیال میں نہ تواس قدر چسپیدگی ہوتی ہے نہ تعظیم بلکہ حقیر وذلیل ہوتاہے۔ اورغیر کی یہ تعظیم اوربزرگی شرک کی طرف لےجاتی ہے۔حاصل کلام یہاں وسوسوں کےتفاوت کابیان کرنا مقصود ہے۔ اصل کتاب فارسی میں ہے۔ میں نے بقدر ضرورت ترجمہ نقل کردیا ہے۔

سید صاحب یہاں نبی اکرم اور بزرگوں کی عظمت اوربزرگی کاذکر کرتےہیں۔بریلوی مولوی  صاحبان نےاسے توہین بناڈالا۔سمجھ الٹ جائے تواس کا کوئی علاد نہیں۔ومَن يُضلِلهُ فلا هادى له .

 اس امر پرتمام مسلمان متفق ہیں کہ نماز خشوع اور انابت سےادا کرنی چاہیے۔ وسوسے اورخیالات نماز میں نقصان پیدا  کرتےہیں۔یہی مسئلہ سید صاحب نےذکر فرمایا۔

سید صاحب نےاس کی وضاحت فرمائی کہ ردی اورحقیر چیزوں کا خیال اس لیے زیادہ مضر نہیں کہ ان کی کوئی اہمیت نہیں۔ معزز اورمحبوب چیزیں زیادہ مضر ہیں کہ ان کی عزت اورمحبت دل پرغالب ہوتی ہے۔ آپ ان بریلوی علمائے کرام سے فرمائیں کہ ان کےہاں کیا صورت ہوگی۔

کیاگاؤخر کےتصور سےنماز میں صرف نقص پیدا ہوگا اوربزرگوں کےتصورسےنماز پرکوئى اثر نہیں پڑےگا، یا بریلوی حضرات نماز میں خشوع کی ضرورت ہی نہیں سمجھتے۔ آپ کےہاں کافر،مشرک یہودی، عیسائی، مجوسی کےتصور میں فرق نہیں، سب یکساں ہیں۔ آپ کےسوال کےآخری حصے سےتویہی ظاہر ہوتاہےکہ آپ حضرات مغضوب عليهم اور منعم عليهم،  کفار مشرکین اور صالحین سب کےتصور کاجائز سمجھتےہیں۔ اس کےسواآپ کےہاں کوئی چارہ ہی نہیں۔ بہرحال سید صاحب نماز میں خشوع ضروری  سمجھتےہیں اورخیالات ووسوسوں میں بھی فرق کرتےہیں۔ بعض زیادہ مضر اوربعض کم۔اور اس میں مقابلہ رسول اللہﷺ کی ذاتِ بابرکات اور(معاذاللہ) گاؤخر میں نہیں بلکہ اچھے  اوربرے اورمضر اورکم مضروسوسوں میں مقابلہ ہے۔

ایک فقہی نظیر:

                ذہین کوصاف کرنےکےلیے میں چاہتاہوں آپ فقہائے حنفیہ﷭ کی ایک دو تصریحات پرغور فرمائیں:

’’ اگر قرآن سےدیکھ کرپڑھے تواس کی نماز(احناف کےنزدیک) فاسد ہوجائےگی(کیونکہ اس میں تعظیم وتعلم ہے)۔اگرعورت کی شرمگاہ کوشہوت سےدیکھے تونماز فاسد نہیں ہوگی۔،( الاشباہ والنظائر ،ابن نجیم، ص 720)

مولوی احمد رضا صاحب لکھتےہیں:

’’اگر عورت کوطلاق رجعی دی تھی، ہنوذعدت نہ گزری، یہ نماز میں تھا کہ عورت کی فرج داخل پرنظر پڑگئی اورشہوت پیدا ہوئی اورنماز میں فساد نہ آیا۔،، ( فتاوی رضویہ 1؍ 76 )

مولوی صادق صاحب اور دوسرے بریلوی صاحبان دریافت فرمائیں کہ شرمگاہ قرآن سےافضل ہے۔ قرآن سےنماز فاسد ہو، شرمگاہ کےملاحظہ سے سےنماز پرکوئی اثر نہ پڑے۔ شامی عراقی الفلاح میں بھی یہ مسئلہ موجود ہے، جوتوجیہ آپ کے بزرگ اس کےلیے کریں گے،اسی قسم کا عذر سید احمد شہید کےلیے بھی ہوگا۔

دوسرا مسئلہ:

                ’’ اگر امام ایک ماہ امامت کےبعد کہتاہےکہ میں مجوسی تھا۔مقتدی کونماز لوٹانےکی ضرورت نہیں۔ لیکن اگر امام کہےکہ میں نےبےوضویاپلید کپڑے میں نماز پڑھائی ہےتوبصورت بےوضونماز لوٹانی چائیے۔،،( الاشباہ والنظائر، ص : 720 )

اگر آپ پر یہ الزام لگایا جائے کہ آپ مجوسی آتش پرست کوبےوضو مسلمان سےبہتر سمجھتےہیں، کیا آپ اسے پسند کریں گے؟ اگریہاں فقہاء﷭ کی توجیہات صحیح سمجھی جاسکتی ہیں توسید احمدصاحب کےارشاد کی بھی توجیہ ہوسکتی ہے۔آپ اپنےعلماء سےدریافت فرمائیں۔ مجھےخطرہ ہےکہ اگر آپ نےمسائل میں تحقیق شروع کی تو محلے میں آپ کا مقاطعہ کرایا جائے گااور مسجد میں آپ کا داخلہ بند ہوجائے گا۔

 ہم جس طرح ائمہ اربعہ اورفقہائے مذاہب کواپنا بزرگ سمجھتےہیں، ان کےعلوم سےفائدہ اٹھاتےہیں، اسی طرح سیداحمدشہید اورمولانا عبدالحئی صاحب کوباوجود ان کے حنفی ہونے کے اپنابزرگ اورعالم سمجھتےہیں۔ جوباتیں ان کی قرآن وحدیث کےمصالح کےمطابق ہوں انہیں قبول کرتےہیں۔جوسمجھ میں نہ آئیں ، انہیں نظرانداز کردیتے ہیں۔ لیکن ان کو برا بھلا نہیں کہتے نہ ان کوانبیاء کی طرح واجب الاطاعت جانےہیں۔

﴿رَبَّنَا اغفِر لَنا وَلِإِخو‌ٰنِنَا الَّذينَ سَبَقونا بِالإيمـٰنِ وَلا تَجعَل فى قُلوبِنا غِلًّا لِلَّذينَ ءامَنوا... ﴿١٠﴾... سورة الحشر

میں آخر میں آپ کاپھرشکرگزارہوں کہ آپ نےتحقیق کرنے کی جرات فرمائی۔

اللہ تعالیٰ آپ کوسمجھنے کی توفیق عطافرمائے۔آمین

  ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب

فتاویٰ علمائے حدیث

جلد 11 


 

Sunday 18 July 2021

کن موذی جانوروں کامارناجائزہے

 احادیثِ مبارکہ میں جن موذی جانوروں کو قتل کرنے کی صراحت کے ساتھ اجازت ہے وہ یہ ہیں:

1:چھپکلی ،    2:چوہا ،    3:بچھو ،    4:سانپ ،     5:چیل ،     6:کوا ،     7:کتا۔

ان کے علاوہ فقہاءِ کرام رحمہم اللہ نے علتِ ایذاء کی وجہ سے بعض دیگر جانوروں اور حشرات الارض کو بھی اسی حکم میں داخل کیا ہے۔

فقہاء کرام کے کلام کا خلاصہ یہ ہے کہ جو جانور طبعی طور پر موذی ہوں اور تکلیف پہنچانے میں عموماً ابتدا کرتے ہوں، انہیں قتل کرنا ہر حال میں جائز ہے، حتیٰ کہ حالتِ احرام میں بھی انہیں قتل کرنے سے محرم پر کوئی دم وغیرہ نہیں آتا، جیسے: شیر، بھیڑیا، تیندوا، چیتا، وغیرہ۔ اور جو جانور تکلیف پہنچانے میں ابتدا نہیں کرتے، جیسے: گوہ، لومڑی، وغیرہ، وہ جب کسی پر حملہ کریں تو ان کی ایذا  سے بچنے کے لیے انہیں قتل کرنا جائز ہے۔

لیکن موذی جانوروں کو قتل کرنے میں بھی ایسا طریقہ اختیار کرنا چاہیے کہ انہیں تکلیف کم سے کم ہو، مثلاً: گولی وغیرہ سے قتل کرنا یا تیز چھری سے ذبح کرنا۔ باقی انہیں جلانے، ان پر گرم پانی ڈالنے، یا ان کے اعضاء کاٹ کر تکلیف دے کرمارنے یا ضرورت سے زائد تکلیف دے کر مارنے کی بھی اجازت نہیں ہے۔ البتہ اگر موذی جانوروں سے کسی اور طریقہ سے چھٹکارا ممکن نہ ہو یا مشکل ہو تو انہیں جلانے یا گرم پانی ڈالنے کی گنجائش ہوگی، لیکن شدید ضرورت کے بغیر ایسا کرنا درست نہیں ہے۔

صحیح مسلم (ج:4، ص:1758، ط: دار إحياء التراث العربي):

’’عن أبي هريرة رضي الله عنه، قال: قال رسول الله صلى الله عليه و سلم: «من قتل وزغةً في أول ضربة فله كذا و كذا حسنة، و من قتلها في الضربة الثانية فله كذا و كذا حسنة، لدون الأولى، و إن قتلها في الضربة الثالثة فله كذا و كذا حسنة، لدون الثانية».‘‘

’’ترجمہ: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: جس نے پہلے وار میں چھپکلی کو قتل کیا اس کو اتنی اتنی نیکیاں ملیں گی، اور جس نے دوسرے وار میں اسے قتل کیا اسے پہلی مرتبہ مارنے سے کم اتنی اتنی نیکیاں ملیں گی، اور جس نے تیسرے وار میں اسے قتل کیا تو اسے دوسری مرتبہ مارنے سے کم اتنی اتنی نیکیاں ملیں گی۔‘‘

صحيح البخاري (ج:4، ص:129، ط: دار طوق النجاة):

’’عن عائشة رضي الله عنها، عن النبي صلى الله عليه و سلم، قال: «خمس فواسق، يقتلن في الحرم: الفأرة، و العقرب، و الحديا، و الغراب، و الكلب العقور».‘‘

’’ترجمہ: حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم سے روایت کرتی ہیں، آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: پانچ موذی جانور ایسے ہیں جنہیں حرم میں بھی قتل کیا جائے گا: چوہا، بچھو، چیل، کوا اور کاٹنے والا کتا۔‘‘

عمدة القاري شرح صحيح البخاري (ج:10، ص:179، 182، ط: دار إحياء التراث العربي - بيروت):

’’ذكر ما يستفاد منه: و هو على وجوه: الأول: أنه يستفاد من الحديث جواز قتل هذه الخمسة من الدواب للمحرم، فإذا أبيح للمحرم فللحلال بالطريق الأولى ...

قلت: أصحابنا اقتصروا على الخمس إلا أنهم ألحقوا بها: الحية لثبوت الخبر، و الذئب لمشاركته للكلب في الكلبية، و ألحقوا بذلك ما ابتدأ بالعدوان و الأذى من غيرها، و قال بعضهم، و تعقب بظهور المعنى في الخمس و هو: الأذى الطبيعي و العدوان المركب، و المعنى إذا ظهر في المنصوص عليه تعدى الحكم إلى كل ما وجد فيه ذلك المعنى. انتهى. قلت: نص النبي صلى الله عليه و سلم على قتل خمس من الدواب في الحرم و الإحرام، و بين الخمس ما هن، فدل هذا أن حكم غير هذا الخمس غير حكم الخمس، و إلا لم يكن للتنصيص على الخمس فائدة. و قال عياض: ظاهر قول الجمهور أن المراد أعيان ما سمى في هذا الحديث، و هو ظاهر قول مالك و أبي حنيفة، و لهذا قال مالك: لا يقتل المحرم الوزغ، و إن قتله فداه، و لايقتل خنزيرا و لا قردا مما لا ينطلق عليه اسم الكلب في اللغة إذ فيه جعل الكلب صفة لا إسما، و هو قول كافة العلماء، و إنما قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: (خمس) فليس لأحد أن يجعلهن ستا و لا سبعا، و أما قتل الذئب فلا يحتاج فيه أن نقول: إنه يقتل لمشاركته للكلب في الكلبية، بل نقول: يجوز قتله بالنص، و هو ما رواه الدارقطني عن نافع، قال: سمعت ابن عمر يقول: أمر رسول الله صلى الله عليه و سلم بقتل الذئب و الفأرة. قال يزيد بن هارون، يعني: المحرم. و قال البيهقي: و قد روينا ذكر الذئب من حديث ابن المسيب مرسلا جيدا، كأنه يريد قول ابن أبي شيبة: حدثنا يحيى بن سعيد عن ابن عمر عن حرملة عن سعيد حدثنا وكيع عن سفيان عن ابن حرملة عن سعيد به، قال: و حدثنا وكيع عن سفيان عن سالم عن سعيد عن وبرة عن ابن عمر: يقتل المحرم الذئب، و عن قبيصة: يقتل الذئب في الحرم، و قال الحسن وعطاء: يقتل المحرم الذئب و الحية، و أما إذا عدا على المحرم حيوان، أي حيوان كان، و صال عليه فإنه يقتله، لأن حكمه حينئذ يصير كحكم الكلب العقور.‘‘

عمدة القاري شرح صحيح البخاري (ج:12، ص:34، ط: دار إحياء التراث العربي - بيروت):

’’هذا باب في بيان قتل الخنزير: هل هو مشروع كما شرع تحريم أكله؟ أي: مشروع؟ و الجمهور على جواز قتله مطلقا إلا ما روي شاذا من بعض الشافعية أنه يترك الخنزير إذا لم يكن فيه ضراوة، و قال ابن التين: و مذهب الجمهور أنه إذا وجد الخنزير في دار الكفر و غيرها و تمكنا من قتله قتلناه. قلت: ينبغي أن يستثنى خنزير أهل الذمة لأنه مال عندهم، و نحن نهينا عن التعرض إلى أموالهم.‘‘

بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (ج:2، ص:197، ط: دار الكتب العلمية):

’’و أما غير المأكول فنوعان: نوع يكون مؤذيا طبعا مبتدئا بالأذى غالبا، و نوع لايبتدئ بالأذى غالبا، أما الذي يبتدئ بالأذى غالبا فللمحرم أن يقتله و لا شيء عليه، و ذلك نحو: الأسد، و الذئب، و النمر، و الفهد؛ لأن دفع الأذى من غير سبب موجب للأذى واجب فضلا عن الإباحة، و لهذا أباح رسول الله صلى الله عليه و سلم قتل الخمس الفواسق للمحرم في الحل و الحرم بقوله صلى الله عليه وسلم: «خمس من الفواسق يقتلهن المحرم في الحل و الحرم: الحية، و العقرب، و الفأرة و الكلب العقور، و الغراب و روي و الحدأة» و روي عن ابن عمر - رضي الله عنه - عن النبي صلى الله عليه وسلم  أنه قال: «خمس يقتلهن المحل و المحرم في الحل و الحرم: الحدأة، و الغراب، و العقرب، و الفأرة و الكلب العقور» .

و روي عن عائشة - رضي الله عنها - قالت: «أمر رسول الله صلى الله عليه وسلم بقتل خمس فواسق في الحل و الحرم: الحدأة، و الفأرة، و الغراب، و العقرب، و الكلب العقور» و علة الإباحة فيها هي الابتداء بالأذى و العدو على الناس غالبا فإن من عادة الحدأة أن تغير على اللحم و الكرش، و العقرب تقصد من تلدغه و تتبع حسه و كذا الحية، و الغراب يقع على دبر البعير و صاحبه قريب منه، و الفأرة تسرق أموال الناس، و الكلب العقور من شأنه العدو على الناس و عقرهم ابتداء من حيث الغالب، و لا يكاد يهرب من بني آدم، و هذا المعنى موجود في الأسد، و الذئب و الفهد، و النمر فكان ورود النص في تلك الأشياء ورودا في هذه دلالة قال أبو يوسف: "الغراب المذكور في الحديث هو الغراب الذي يأكل الجيف، أو يخلط مع الجيف إذ هذا النوع هو الذي يبتدئ بالأذى" و العقعق ليس في معناه؛ لأنه لا يأكل الجيف و لا يبتدئ بالأذى.

و أما الذي لا يبتدئ بالأذى غالبا كالضبع، و الثعلب و غيرهما فله أن يقتله إن عدا عليه و لا شيء عليه إذا قتله، و هذا قول أصحابنا الثلاثة و قال زفر: "يلزمه الجزاء"، وجه قوله: أن المحرم للقتل قائم و هو الإحرام فلو سقطت الحرمة إنما تسقط بفعله.‘‘

المبسوط للسرخسي (ج:4، ص:90، ط: دار المعرفة - بيروت):

’’(قال) محرم قتل سبعا فإن كان السبع هو الذي ابتدأه فآذاه فلا شيء عليه، و الحاصل أن نقول ما استثناه رسول الله - صلى الله عليه وسلم - من المؤذيات بقوله «خمس من الفواسق يقتلن في الحل و الحرم» ، و في حديث آخر «يقتل المحرم الحية، و الفأرة، و العقرب، و الحدأة، و الكلب العقور» فلا شيء على المحرم، و لا على الحلال في الحرم بقتل هذه الخمس لأن قتل هذه الأشياء مباح مطلقا، و هذا البيان من رسول الله صلى الله عليه وسلم كالملحق بنص القرآن فلا يكون موجبا للجزاء، و المراد من الكلب العقور الذئب فأما سوى الخمس من السباع التي لا يؤكل لحمها إذا قتل المحرم منها شيئا ابتداء فعليه جزاؤه عندنا، و قال الشافعي - رحمه الله تعالى - لا شيء عليه لأن النبي - صلى الله عليه و سلم - إنما استثنى الخمس لأن من طبعها الأذى فكل ما يكون من طبعه الأذى فهو بمنزلة الخمس مستثنى من نص التحريم فصار كأن الله تعالى قال لا تقتلوا من الصيود غير المؤذي.‘‘

الفتاوی الهندیة (ج:5، ص:361، ط: دار الفکر):

’’الهرة إذا كانت مؤذيةً لا تضرب و لا تعرك أذنها، بل تذبح بسكين حادٍّ، كذا في الوجيز للكردري. ‘‘

العرف الشذي للكشميري (ج:3 ص:180):
’’و الإحراق عن الصحابة أيضاً، و في الدر المختار، ص:334 : جواز إحراق اللوطي، و روي عن أحمد بن حنبل جواز إحراق الحيوانات المؤذية من القمل و الزنابير و غيرها و به أخذ عنه عدم البدّ منه.‘‘

عشرۂ ذی الحجہ میں بال ناخن نہ کا ٹنے میں حکمتیں

 ام المومنین حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے مروی ہے کہ آپ  ﷺ نےارشاد فرمایا : ’’جب ذوالحجہ کاپہلا عشرہ شروع ہو جائے اور تم میں سے کسی کا قربانی دینے کا  ارادہ ہو تو وہ بال، ناخن یا کھال کا کچھ حصہ نہ کاٹے ، جب تک قر بانی نہ دے دے. ‘‘   ایک روایت میں یہ صراحت بھی موجود ہے کہ ذو الحجہ کا چاند طلوع ہوتے ہی ان چیزوں سے رک جائے۔

اس حدیث کی روشنی میں فقہاءِ کرام نے اس عمل کو مستحب قرار دیا ہے کہ جس کا ارادہ قربانی کرنے کا ہے اس کے لیے مستحب ہے کہ ماہِ ذی الحجہ کے آغاز سے جب تک قربانی کا جانور ذبح نہ کرے جسم کے کسی عضو سے بال اور ناخن صاف نہ کرے ، نیز بلاضرورت کھال وغیرہ بھی نہ کاٹے،   اور یہ استحباب صرف ان لوگوں کے لیے ہے جن کا ارادہ قربانی کرنے کا ہو۔

البتہ  بعض اکابر فرماتے  ہیں کہ قربانی نہ کرنے والے بھی قربانی کرنے والوں کی مشابہت اختیار کرکے  عام لوگوں کی قربانی کے بعد ناخن اور بال وغیرہ کاٹیں تو اللہ سے امید ہے کہ وہ بھی ثواب سے محرو م نہیں ہوں گے۔ نیز  اس میں یہ ملحوظ رہے کہ اگر زیر ناف بال اور ناخنوں کو چالیس دن یا زیادہ ہورہے ہوں تو  ایسی صورت میں ان کی صفائی کرنا ضروری ہے۔

مذکورہ حکم کی حکمتیں:

اور اس کی دو حکمتیں علماء ومحققین سے منقول ہیں:

1۔ پہلی حکمت:

بعض علماء نے اس کی حکمت یہ ذکر کی ہے کہ اس کی ممانعت حجاجِ بیت اللہ سے مشابہت کے لیے ہے کہ ان کے لیے حج کے ایام میں بال اور ناخن وغیرہ کاٹنا منع ہوتا ہے، لہٰذا جو لوگ حج پر نہ جاسکے اور قربانی کررہے ہوں تو وہ بھی حجاج کرام کی کچھ مشابہت اختیار کرلیں تو امید ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنی اس رحمت کا کچھ حصہ انہیں بھی عطا فرمادیں گے جو حجاج بیت اللہ پر نازل ہوتی ہیں۔ اور انہی کے ضمن میں قربانی نہ کرنے والے بھی مشابہت اختیار کرلیں تو وہ بھی رحمت کے حق دار بن جائیں۔

یہ توجیہ ہمارے بعض اکابر علماء سے منقول ہے، خصوصاً جو بیت اللہ اور شعائرِ حج کا عاشقانہ ذوق رکھتے ہیں، اور یہ توجیہ اپنی جگہ درست بھی ہے۔ لیکن محققین علماء کرام اور شراح حدیث نے اس  توجیہ پر کلام کیاہے، اس لیے کہ اگر مقصود حجاج کی مشابہت ہو تو حجاج کرام کے لیے تو سلا ہوا لباس اور خوشبو کا استعمال وغیرہ بھی ممنوع ہے، اگر مشابہت مقصود ہوتی تو تمام احکام میں ہوتی۔ اس کا یہ جواب دیا گیا ہے کہ مشابہت کے لیے تمام امور میں مشابہت ضروری نہیں ہوتی، رحمتِ خداوندی متوجہ کرنے کے لیے ادنیٰ مناسبت بھی کافی ہے۔ لیکن اس پر پھر سوال ہوتا ہے کہ اگر بعض امور میں ہی مشابہت کافی تھی تو  بھی بال، ناخن اور جسم کی کھال وغیرہ کاٹنے کی ممانعت میں ہی کیوں مشابہت اختیار کی گئی؟ احرام کی چادروں اور خوشبو کی پابندی میں بھی مشابہت ہوسکتی تھی! اس لیے مذکورہ حکم کی ایک اور حکمت بیان کی گئی ہے، جو تحقیق کے زیادہ قریب اور راجح ہے، وہ درج ذیل ہے:

2۔ دوسری حکمت:

اس حکمت کو سمجھنے سے پہلے قربانی کی حقیقت اور فلسفہ سمجھنا ضروری ہے۔

قربانی کا فلسفہ:

درحقیقت قربانی تو جان کی قربانی ہی تھی، جیساکہ حضرت اسماعیل علیہ السلام کے واقعے سے معلوم ہوتاہے، اور شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمہ اللہ نے بھی فرمایاہے کہ اصل قربانی تو جان نثاری اور جان سپاری کی قربانی تھی، اللہ تعالیٰ نے اپنی بے پایاں رحمت سے یہ قربانی جان سے ٹال کر مال کی طرف منتقل کی۔ پھر یہ بھی ہوسکتا تھا کہ مالی قربانی صدقے کی صورت میں مقرر کردی جاتی، لیکن اس طرح انسان کو اپنی جانی قربانی کی طرف توجہ اور اس کا استحضار نہ ہوتا۔ اس غرض کے لیے ایسی مالی قربانی مقرر کی گئی جس میں جانور قربان کیا جائے، تاکہ مالی قربانی میں بھی جانی  قربانی کی مشابہت موجود ہو، اور معمولی احساس رکھنے والاانسان بھی بوقتِ قربانی یہ سوچے کہ اس بے زبان جاندار کو میں کس لیے قربانی کررہاہوں؟ اس کا خون کیوں بہا رہاہوں؟ جب یہ احساس اس کے اندر پیدا ہوگا تو اسے استحضار ہوگا کہ درحقیقت یہ میرے نفس اور میری جان کی قربانی تھی، اللہ تعالیٰ نے اسے میرے مال کی صورت قبول کرلیا، یوں اسے مقصدِ اصلی بھی یاد رہے گا اور نفس کی قربانی کے لیے یہ محرک بھی ہوگا۔ اور اللہ تعالیٰ کے سامنے شکر گزاری کا جذبہ بھی بڑھے گا۔

یکم ذی الحجہ سے بال اور ناخن وغیرہ نہ کاٹنے کی راجح حکمت:

اب جب کہ قربانی کا مقصد معلوم اور مستحضر ہوگا تو گویا قربانی کرنے والے نے اپنے آپ کو  گناہوں کی وجہ سے عذاب  کا مستحق سمجھا کہ میں اس قابل ہوں کہ ہلاک ہوجاؤں اور میری جان خدا کے لیے قربان ہوجائے، لیکن شریعت نے جان کے فدیہ میں  جانور کی قربانی مقرر کردی، سو یہ جانور انسان کی نیابت میں قربان ہورہاہے، تو  قربانی کے جانور کا ہر جزو قربانی کرنے والے کے جسم کے ہر جز کا بدلہ ہے ۔ لہٰذا جس وقت جانور قربانی کے لیے خریدا جائے یا قربانی کے لیے خاص کیا جائے اس وقت انسانی جسم جس حالت میں ہو، مختص کردہ جانور اس انسانی جسم کے قائم مقام ہوجائے گا، اور جانور قربانی کے لیے خاص کرنے کے بعد جسم کا کوئی جز (نال، ناخن، کھال وغیرہ) کاٹ کر کم کردیا گیا تو گویا مکمل انسانی جسم کے مقابلے میں جانور کی قربانی نہیں ہوگی، جب کہ جانور انسانی جان کا فدیہ قرار پاچکاتھا۔ لہٰذا مناسب معلوم ہواکہ قربانی اور نزولِ رحمت کے وقت انسانی جسم کا کوئی عضو و جزو  کم ہو کر اللہ تعالیٰ کی  رحمت  اور فیضان الٰہی کی برکات سے محروم نہ رہے،تاکہ اس کو مکمل فضیلت حاصل ہو  اور وہ مکمل طور پر گناہوں سے پاک ہو ،  اس لیے آں حضرتﷺنے مذکور حکم دیا ہے ۔

یکم ذی الحجہ مقرر کرنے کی وجہ:

اس کے لیے قریب ترین کسی زمانے کی تعیین کی ضرورت تھی، یہ بھی ہوسکتا تھا کہ ہر شخص جب اپنا جانور خریدے یا قربانی کے لیے خاص کرے اسی وقت سے اسے ناخن یا بال کاٹنا منع ہو۔ لیکن دینِ اسلام نے زندگی کے ہرمعاملے میں نظم وضبط اور نظام پر زور دیاہے، دین کی عبادات سے لے کر انفرادی اور اجتماعی احکام کو دیکھ لیاجائے، غور کرنے پر ہر حکم میں نظم واضح نظر آئے گا۔ لہٰذا نظام کا تقاضا تھا کہ قربانی کرنے والے تمام مسلمانوں کے لیے ایک وقت مقرر کرکے نظم قائم کردیا جائے ، اس کے لیے ایک قریب ترین مدت مقرر کی گئی۔

پھر یہ بھی ہوسکتاتھا کہ عیدالاضحی سے ایک آدھ دن پہلے وقت مقرر کردیاجاتا، لیکن اس کے لیے ذی الحجہ کا چاند مقرر کیا گیا، اس لیے کہ قربانی کی عبادت کا تعلق عید الاضحٰی اور حج کی عبادت سے ہے، جیساکہ رمضان المبارک کے روزوں کے بعد عیدالفطر ہے، اور اسلام نے شرعی احکام کو اوقات کے ساتھ جوڑا ہے، اور ان کا مدار قمری مہینے اور تاریخ پر رکھاہے، چناں چہ رمضان المبارک چاند دیکھ کر شروع اور چاند دیکھ کر ختم ہوتاہے، ذی الحجہ کا چاند دیکھتے ہی حج کی تیاری تقریباً اختتام کو پہنچتی ہے، اور ذی الحجہ کے چاند سے عیدالاضحیٰ کا دن اور صحیح وقت متعین ہوتاہے، لہٰذا قربانی کی تعیین میں بھی ذی الحجہ کے چاند کو دخل ہوا۔ نیزضمنی طور پر اس بات کی ترغیب بھی دے دی گئی کہ مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ قربانی کا جانور کچھ ایام پہلے لے کر پالیں، تاکہ ان سے انسیت قائم ہونے کے بعد قربانی کرنے سے نفس کی قربانی اور جان نثاری کے جذبات مزید ترقی پائیں۔ اسی طرح جانور جلدی لے کر، اس کی خدمت کرنے، اور بال، ناخن وغیرہ نہ کاٹنے سے جو میل کچیل کی کیفیت ہوگی تو اس سے انسان کو اپنی حقیقت کی طرف بھی دھیان ہو اور تواضع وعاجزی کی ترقی بھی بنے۔

 صحيح مسلم (3/ 1565)

'سمع سعيد بن المسيب، يحدث عن أم سلمة، أن النبي صلى الله عليه وسلم قال: «إذا دخلت العشر، وأراد أحدكم أن يضحي، فلا يمس من شعره وبشره شيئاً»۔'

سنن النسائي (7/ 211)
'عن أم سلمة، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: «من رأى هلال ذي الحجة، فأراد أن يضحي، فلا يأخذ من شعره، ولا من أظفاره حتى يضحي»۔'
مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح (3/ 1081)
 ' قال التوربشتي: ذهب بعضهم إلى أن النهي عنهما للتشبه بحجاج بيت الله الحرام المحرمين، والأولى أن يقال: المضحي يرى نفسه مستوجبةً للعقاب وهو القتل، ولم يؤذن فيه، ففداها بالأضحية، وصار كل جزء منها فداءً كل جزء منه، فلذلك نهي عن مس الشعر والبشر ؛ لئلا يفقد من ذلك قسط ما عند تنزل الرحمة، وفيضان النور الإلهي، ليتم له الفضائل، ويتنزه عن النقائص. قال ابن حجر: ومن زعم أن المعنى هنا التشبه بالحجاج غلطوه بأنه يلزم عليه طلب الإمساك عن نحو الطيب ولا قائل به اهـ.وهو غلط فاحش من قائله ؛ لأن التشبه لا يلزم من جميع الوجوه، وقد وجه توجيهاً حسناً قي خصوص اجتناب قطع الشعر أو الظفر

قربانی کا طریقہ

 1۔ذبح کا صحیح طریقہ یہ ہے کہ جانور کو قبلہ رو لٹانے کے بعد ’’بسم اللہ، و اللہ اکبر‘‘  کہتے ہوئے تیز دھار چھرے سے جانور کے حلق اور لبہ کے درمیان ذبح کیا جائے، اور گردن کو پورا کاٹ کر الگ نہ کیا جائے، نہ ہی حرام مغز تک کاٹا جائے، بلکہ ’’حلقوم‘‘  اور ’’مری‘‘  یعنی سانس کی نالی اور اس کے اطراف  کی خون کی رگیں جنہیں ’’اَوداج‘‘  کہا جاتا ہے کاٹ دی جائیں، اس طرح جانور کو شدید تکلیف بھی نہیں ہوتی اور سارا نجس خون بھی نکل جاتا ہے، اس طریقہ کے علاوہ باقی تمام طریقوں میں نہ ہی پورا خون نکلتا ہے اور جانور کو بلا ضرورت شدید تکلیف بھی ہوتی ہے۔

جانور کو قبلہ رخ لٹاتے ہوئے جانور کی بائیں کروٹ پر لٹانا پسندیدہ ہے، (یعنی ہمارے ملک میں جانور کی سر والی طرف جنوب میں اور دم والی جانب شمال میں ہو)، تاکہ دائیں ہاتھ سے چھری چلانے میں سہولت رہے۔ 

"عن أنس، قال: «ضحى النبي صلى الله عليه وسلم بكبشين أملحين أقرنين، ذبحهما بيده، وسمى وكبر، ووضع رجله على صفاحهما»".( صحيح مسلم:3/ 1556)

ترجمہ: حضرت انس ؓ فرماتے ہیں کہ نبی کریم ﷺنے دو چتکبرے سینگوں والے مینڈھوں کی قربانی کی، آپ ﷺ نے ان دونوں کو اپنے ہاتھ سے ذبح کیا ،اور ذبح کرتے وقت ’’بسم اللہ ، اللہ اکبر‘‘  پڑھا ،اور ان کے پہلو پر اپنا قدم مبارک رکھا ۔

’’عن عائشة: أن رسول الله صلى الله عليه وسلم أمر بكبش أقرن يطأ في سواد، ويبرك في سواد، وينظر في سواد، فأتي به ليضحي به، فقال لها: «يا عائشة، هلمي المدية»، ثم قال: «اشحذيها بحجر»، ففعلت: ثم أخذها، وأخذ الكبش فأضجعه، ثم ذبحه، ثم قال: «باسم الله، اللهم تقبل من محمد، وآل محمد، ومن أمة محمد، ثم ضحى به»‘‘. ( صحيح مسلم:3/ 1557)

ترجمہ: ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک سینگوں والا مینڈھا لانے کا حکم دیا جو سیاہی میں چلتا ہو، سیاہی میں بیٹھتا ہو اور سیاہی میں دیکھتا ہو (یعنی پاؤں، پیٹ اور آنکھیں سیاہ ہوں)۔ پھر ایک ایسا مینڈھا قربانی کے لیے لایا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اے عائشہ! چھری لاؤ۔ پھر فرمایا کہ اس کو پتھر سے تیز کر و ، تو میں نے تیز کرکے دی۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے چھری لی، مینڈھے کو پکڑا، اس کو لٹایا، پھر ذبح کرتے وقت فرمایا کہ ’’بسم اللہ‘‘، اے اللہ! محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کی طرف سے اور محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کی آل کی طرف سے اور محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کی امت کی طرف سے اس کو قبول کر، پھر اس کی قربانی کی۔

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"أَمَّا الِاخْتِيَارِيَّةُ، فَرُكْنُهَا الذَّبْحُ فِيمَا يُذْبَحُ مِنْ الشَّاةِ وَالْبَقَرِ، وَالنَّحْرُ فِيمَا يُنْحَرُ وَهُوَ الْإِبِلُ عِنْدَ الْقُدْرَةِ عَلَى الذَّبْحِ وَالنَّحْرِ، وَلَايَحِلُّ بِدُونِ الذَّبْحِ أَوِالنَّحْرِ، وَالذَّبْحِ هُوَ فَرْيُ الْأَوْدَاجِ وَمَحَلُّهُ مَا بَيْنَ اللَّبَّةِ وَاللَّحْيَيْنِ، وَالنَّحْرُ فَرْيُ الْأَوْدَاجِ وَمَحَلُّهُ آخِرُ الْحَلْقِ، وَلَوْ نَحَرَ مَا يُذْبَحُ أَوْ ذَبَحَ مَا يُنْحَرُ يَحِلُّ لِوُجُودِ فَرْيِ الْأَوْدَاجِ لَكِنَّهُ يُكْرَهُ لِأَنَّ السُّنَّةَ فِي الْإِبِلِ النَّحْرُ وَفِي غَيْرِهَا الذَّبْحُ، كَذَا فِي الْبَدَائِعِ ... وَالْعُرُوقُ الَّتِي تُقْطَعُ فِي الذَّكَاةِ أَرْبَعَةٌ: الْحُلْقُومُ وَهُوَ مَجْرَى النَّفَسِ، وَالْمَرِيءُ وَهُوَ مَجْرَى الطَّعَامِ، وَالْوَدَجَانِ وَهُمَا عِرْقَانِ فِي جَانِبَيْ الرَّقَبَةِ يَجْرِي فِيهَا الدَّمُ، فَإِنْ قُطِعَ كُلُّ الْأَرْبَعَةِ حَلَّتْ الذَّبِيحَةُ، وَإِنْ قُطِعَ أَكْثَرُهَا فَكَذَلِكَ عِنْدَ أَبِي حَنِيفَةَ - رَحِمَهُ اللَّهُ تَعَالَى -، وَقَالَا: لَا بُدَّ مِنْ قَطْعِ الْحُلْقُومِ وَالْمَرِيءِ وَأَحَدِ الْوَدَجَيْنِ، وَالصَّحِيحُ قَوْلُ أَبِي حَنِيفَةَ - رَحِمَهُ اللَّهُ تَعَالَى - لِمَا أَنَّ لِلْأَكْثَرِ حُكْمَ الْكُلِّ، كَذَا فِي الْمُضْمَرَاتِ". (كِتَابُ الذَّبَائِحِ وَفِيهِ ثَلَاثَةُ أَبْوَابٍ، الْبَابُ الْأَوَّلُ فِي رُكْنِهِ وَشَرَائِطِهِ وَحُكْمِهِ وَأَنْوَاعِهِ، ٥ / ٢٨٥ - ٢٨٧)

2۔ جب قربانی کا جانور قبلہ رخ لٹائے تو پہلے درج ذیل  آیت پڑھنا بہتر ہے:

"إِنِّي وَجَّهْتُ وَجْهِيَ لِلَّذِي فَطَرَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ حَنِيفًا ۖ وَمَا أَنَا مِنَ الْمُشْرِكِينَ، إِنَّ صَلَاتِي وَنُسُكِي وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِي لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ".

اور ذبح کرنے سے پہلے درج ذیل دعا اگر یاد ہو تو پڑھ لے:

"اللّٰهُم َّمِنْكَ وَ لَكَ" پھر ’’بسم اللہ اللہ اکبر‘‘  کہہ  کر ذبح کرے ، اور ذبح کرنے کے بعد اگر درج ذیل دعا یاد ہو تو پڑھ لے:

"اَللّٰهُمَّ تَقَبَّلْهُ مِنِّيْ كَمَا تَقَبَّلْتَ مِنْ حَبِيْبِكَ مُحَمَّدٍ وَ خَلِيْلِكَ إبْرَاهِيْمَ عليهما السلام". 

اگر کسی اور کی طرف سے ذبح کر رہا ہو تو "مِنِّيْ" کی جگہ " مِنْ "  کے بعد اس شخص کا نام لے لے

قربانی کس پر واجب ہے

 قربانی واجب ہونے کا نصاب وہی ہے جو صدقۂ فطر کے واجب ہونے کا نصاب ہے، یعنی جس عاقل، بالغ ، مقیم ، مسلمان  مرد یا عورت کی ملکیت میں قربانی کے ایام میں قرض کی رقم منہا کرنے بعد ساڑھے سات تولہ سونا، یا ساڑھے باون تولہ چاندی، یا اس کی قیمت کے برابر رقم ہو،  یا تجارت کا سامان، یا ضرورت سےزائد اتنا سامان  موجود ہو جس کی قیمت ساڑھے باون تولہ چاندی کے برابر ہو، یا ان میں سے کوئی ایک چیز یا ان پانچ چیزوں میں سے بعض کا مجموعہ ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت کے برابر  ہوتو ایسے مرد وعورت پر قربانی واجب ہے۔

قربانی  واجب ہونے کے لیے نصاب کے مال ، رقم یا ضرورت سے  زائد سامان پر سال گزرنا شرط نہیں ہے، اور تجارتی ہونا بھی شرط نہیں ہے، ذی الحجہ کی بارہویں تاریخ کے سورج غروب ہونے سے پہلے  اگر نصاب کا مالک ہوجائے تو ایسے شخص پر قربانی  واجب ہے۔

ضرورتِ اصلیہ سے مراد وہ ضرورت ہے جو جان اور آبرو سے متعلق ہو یعنی اس کے پورا نہ ہونے سے  جان یا عزت وآبرو جانے کا اندیشہ ہو، مثلاً: کھانا ، پینا، پہننے کے کپڑے، رہنے کا مکان، اہلِ صنعت وحرفت کے لیے ان کے پیشہ کے اوزار ضرورتِ اصلیہ میں داخل ہیں۔

اور ضرورت سے زائد سامان سے مراد یہ ہے کہ وہ چیزیں انسان کی استعمال میں نہ ہوں، اور  ہر  انسان کی ضروریات اور حاجات عموماً دوسرے سے مختلف ہوتی ہیں ، اور راجح قول کے مطابق ضروریات کو پوری کرنے کے لیے  اشیاء کو جائز طریقہ سے اپنی ملکیت میں رکھنے کی کوئی خاص  تعداد شریعت کی طرف سے مقرر نہیں ہے، بلکہ جو چیزیں انسان کے استعمال میں ہوں اور انسان کو اس کے استعمال کی حاجت پیش آتی ہو اور وہ اشیاء تجارت کے لیے نہ ہوں تو  ضرورت اور حاجت کے سامان میں داخل ہے۔

لہذا جو چیزیں ان انسان کے استعمال میں نہ ہوں اور اس کو ان کی حاجت بھی نہ ہوتی ہو تو وہ ضرورت سے زائد سامان میں شامل ہے، قربانی کے نصاب میں اس کی مالیت کو شامل کیا جائے گا۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (6/ 312)
'' وشرائطها: الإسلام والإقامة واليسار الذي يتعلق به) وجوب (صدقة الفطر)،

(قوله: واليسار إلخ) بأن ملك مائتي درهم أو عرضاً يساويها غير مسكنه وثياب اللبس أو متاع يحتاجه إلى أن يذبح الأضحية، ولو له عقار يستغله فقيل: تلزم لو قيمته نصاباً، وقيل: لو يدخل منه قوت سنة تلزم، وقيل: قوت شهر، فمتى فضل نصاب تلزمه. ولو العقار وقفاً، فإن وجب له في أيامها نصاب تلزم''

قرضدار پر قربانی کا مسئلہ

 اگر قرضدار کے پاس سونا، چاندی وغیرہ یا گھر کا کوئی ایسا سامان ہے جسے بیچ کر قربانی کا جانور خرید سکتا ہے یا بڑے جانور میں حصہ لے سکتا ہے تو اس پر قربانی کرنا لازم وضروری ہوگا، اور اگر اس کے پاس ان میں سے کچھ نہ ہو لیکن جن کے پاس اس کا پیسہ ادھار ہے اگر یہ ان سے قربانی کے بقدر پیسے مانگے تو ظن غالب یہ ہو کہ وہ دیدیں گے تو ایسی صورت میں ان سے قربانی کے بقدر پیسے لے کر قربانی کرنا لازم ہوگا، اسی طرح اگر قرضہ ایسا ہے کہ جب چاہے قرض خواہوں سے مانگ سکتا ہے تو قربانی کے لیے ان سے ادائیگی قرض کا مطالبہ لازم ہوگا ”لہ دین حال علی مقر ملئ ولیس عندہ ما یشتریہا بہ لا یلزمہ الاستقراض ولا قیمة الأضحیة إذا وصل الدین إلیہ ولکن یلزمہ أن یسأل منہ ثمن الأضحیة إذا غلب علی ظنہ أنہ یعطیہ، لہ مال کثیر غائب في ید مضاربہ أو شریکہ ومعہ من الحجرین أو متاع البیت ما یشتری بہ الأضحیة تلزم“ (فتاوی بزازیہ برہامش ہندیہ ۶: ۲۸۷، ۲۸۸ مطبوعہ مکتبہ زکریا دیوبند) اور اگر ان میں سے کوئی صورت نہ ہو تو اس پر قربانی واجب نہ ہوگی۔