https://follow.it/amir-samdani?action=followPub

Wednesday 27 October 2021

مکروہ اوقات میں عبادت منع کیوں ہے

 حدیث شریف میں آتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین اوقات میں نماز پڑھنے سے منع فرمایا ہے، طلوع کے وقت، استواءِ شمس (جسے عرف میں زوال کہا جاتاہے) کے وقت اور غروب کے وقت۔

ان اوقات میں نماز پڑھنے کی ممانعت کی اصل وجہ تو یہ ہے کہ احادیثِ مبارکہ میں ان اوقات میں نماز کی ادائیگی سے منع کیا گیا ہے، لہٰذا جب حدیث شریف میں ان اوقات میں نماز کی ممانعت ہے تو مسلمان کی شان یہی ہے کہ وہ ان اوقات میں نماز ادا نہ کرے، خواہ اس کی کوئی اور وجہ ہو یا نہ ہو، یا حکمت سمجھ آئے یا نہ آئے۔

تاہم مقاصدِ شریعت سے بحث کرنے والے محققین علماءِ کرام نے اَحکامِ شرع کی حکمتیں اور مصالح اور عقلی توجیہات بھی پیش کی ہیں، جن میں سے بعض احادیثِ مبارکہ میں صراحتاً مذکور ہیں، اور بعض کی طرف نصوص میں اشارہ موجود ہے، اور کچھ عقلِ سلیم کی روشنی میں سمجھ آتی ہیں، لیکن ایسی حکمتوں کی روشنی میں شریعت کے ثابت اَحکام میں تبدیلی نہیں کی جاسکتی۔

مذکورہ ممنوعہ اوقاتِ نماز کی وجہ احادیثِ مبارکہ کی روشنی میں یہ ہے کہ مشرکین و مجوس ان اوقات میں آفتاب کی پرستش کرتے تھے اور اس کو سجدہ کرتے تھے؛ چناں چہ ان کی مشابہت سے بچنےکے لیے اس سے منع کیا گیا۔ (حجۃ اللہ البالغہ 2/21، کتب خانہ رشیدیہ دہلی)

 مزید یہ کہ ان تین اوقات میں شیطان بھی سورج کے قریب ہو جاتا ہے اور  بزعمِ خود اپنے آپ کے معبود اور مسجود ہونے پر خوش ہوتا ہے۔

لیکن واضح رہے کہ اس حکمت کا اعتبار  تشریعِ اَحکام کے وقت کیا گیا، لہٰذا اسے دیکھ  کر اِس دور میں کوئی یہ نہیں کہہ سکتا کہ آج سورج کی پرستش کرنے والے مشرکین فلاں فلاں وقت بھی عبادت کرتے ہیں یا مذکورہ اوقات میں نہیں کرتے تو اب ان اوقات میں نماز کی اجازت دی جائے، اور جن اوقات میں کرتے ہوں ان میں منع کردیا جائے، اب شرعی منصوص اَحکام میں تبدیلی کا کسی کو حق نہیں ہے، خواہ وہ ایسی حکمت کی روشنی میں ہو جو منصوص ہو، کیوں کہ شریعت کے اَحکام مقرر ہوجانے کے بعد کسی کو ان میں تبدیلی کا حق نہیں ہے۔

صحيح البخاري (4 / 122):
قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «إذا طلع حاجب الشمس فدعوا الصلاة حتى تبرز، وإذا غاب حاجب الشمس فدعوا الصلاة حتى تغيب،

3273 - ولاتحينوا بصلاتكم طلوع الشمس ولا غروبها، فإنها  تطلع بين قرني شيطان، أو الشيطان».

ترجمہ : رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ دیکھو! جب آفتاب کا کنارہ طلوع ہو تو نماز ترک کردو یہاں تک کہ وہ پورا طلوع ہوجائے اور جب آفتاب کا کنارہ غروب ہو تو نماز ترک کردو یہاں تک کہ پورا غروب ہوجائے اور تم اپنی نماز آفتاب کے طلوع اور غروب کے وقت نہ پڑھا کرو؛ کیوں کہ وہ شیطان کے دونوں سینگوں کے درمیان طلوع ہوتا ہے۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (1/ 370، 374):

(وكره) تحريماً، وكل ما لايجوز مكروه (صلاة) مطلقاً (ولو) قضاءً أو واجبةً أو نفلاً أو (على جنازة وسجدة تلاوة وسهو) لا شكر قنية (مع شروق) ... (وسجدة تلاوة، وصلاة جنازة تليت) الآية (في كامل وحضرت) الجنازة (قبل) لوجوبه كاملا فلا يتأدى ناقصا، فلو وجبتا فيها لم يكره فعلهما: أي تحريما. وفي التحفة: الأفضل أن لاتؤخر الجنازة.

الفتاوى الهندية (1/ 52):

ثلاث ساعات لاتجوز فيها المكتوبة ولا صلاة الجنازة ولا سجدة التلاوة إذا طلعت الشمس حتى ترتفع وعند الانتصاف إلى أن تزول وعند احمرارها إلى أن يغيب إلا عصر يومه ذلك فإنه يجوز أداؤه عند الغروب. هكذا في فتاوى قاضي خان قال الشيخ الإمام أبو بكر محمد بن الفضل ما دام الإنسان يقدر على النظر إلى قرص الشمس فهي في الطلوع. كذا في الخلاصة. هذا إذا وجبت صلاة الجنازة وسجدة التلاوة في وقت مباح وأخرتا إلى هذا الوقت فإنه لا يجوز قطعا أما لو وجبتا في هذا الوقت وأديتا فيه جاز؛ لأنها أديت ناقصة كما وجبت. كذا في السراج الوهاج وهكذا في الكافي والتبيين لكن الأفضل في سجدة التلاوة تأخيرها وفي صلاة الجنازة التأخير مكروه. هكذا في التبيين ولايجوز فيها قضاء الفرائض والواجبات الفائتة عن أوقاتها كالوتر. هكذا في المستصفى والكافي.

الفتاوى الهندية (1/ 52):

تسعة أوقات يكره فيها النوافل وما في معناها لا الفرائض. هكذا في النهاية والكفاية فيجوز فيها قضاء الفائتة وصلاة الجنازة وسجدة التلاوة. كذا في فتاوى قاضي خان.
منها ما بعد طلوع الفجر قبل صلاة الفجر.... ومنها ما بعد صلاة الفجر قبل طلوع الشمس. هكذا في النهاية والكفاية ... ومنها ما بعد صلاة العصر قبل التغير. هكذا في النهاية والكفاية.

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (1/ 375):

(لا) يكره (قضاء فائتة و) لو وترا أو (سجدة تلاوة وصلاة جنازة وكذا) الحكم من كراهة نفل وواجب لغيره لا فرض وواجب لعينه (بعد طلوع فجر سوى سنته) لشغل الوقت به، (قوله: أو سجدة تلاوة) لوجوبها بإيجابه تعالى لا بفعل العبد كما علمته فلم تكن في معنى النفل.

بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (1/ 296):

 فالنبي صلى الله عليه وسلم  نهى عن الصلاة في هذه الأوقات من غير فصل فهو على العموم والإطلاق، ونبه على معنى النهي، وهو طلوع الشمس بين قرني الشيطان وذلك؛ لأن عبدة الشمس يعبدون الشمس، ويسجدون لها عند الطلوع تحية لها، وعند الزوال لاستتمام علوها، وعند الغروب وداعا لها فيجيء الشيطان فيجعل الشمس بين قرنيه ليقع سجودهم نحو الشمس له، فنهى النبي - صلى الله عليه وسلم - عن الصلاة في هذه الأوقات لئلا يقع التشبيه بعبدة الشمس.

المبسوط للسرخسي (1/ 151):

 والأصل فيه حديث «عقبة بن عامر - رضي الله تعالى عنه - قال ثلاث ساعات نهانا رسول الله  صلى الله عليه وسلم  أن نصلي فيهن وأن نقبر فيهن موتانا عند طلوع الشمس حتى ترتفع وعند زوالها حتى تزول وحين تضيف للغروب حتى تغرب».
وفي حديث الصنابحي «أن النبي صلى الله عليه وسلم  نهى عن الصلاة عند طلوع الشمس وقال إنها تطلع بين قرني الشيطان كأن الشيطان يزينها في عين من يعبدونها حتى يسجدوا لها فإن ارتفعت فارقها فإذا كان عند قيام الظهيرة قارنها فإذا مالت فارقها فإذا دنت للغروب قارنها فإذا غربت فارقها فلا تصلوها في هذه الأوقات»

Sunday 24 October 2021

Starvation calling NATO forces towards Afghanistan

 Taliban have been struggling to bring stability in the country. Since the Taliban took control of Afghanistan on August 15, locals have been complaining about increasing poverty in the country.

The increasing poverty has in turn led to locals, especially minority communities and orphan children starving. In such a recent case, eight children have been reported to have died due to starvation.

As per local reports, eight children lost their lives to starvation in western Kabul. The children lived in the town of Etefaq, in the 13th district of Kabul, in the Barchi plain.

| Verbal clashes take place between Taliban factions, sources tell WION

The deceased children were orphans and had been struggling to find employment and earn their daily bread since Taliban took control of the country in August.

Mohammad Ali Bamiani, a religious scholar and orator at one of the mosques in western Kabul buried these children. He reported that these eight children, four boys and four girls, had been given some bread to eat earlier by neighbours. However, needless to say, a little portion of bread was not enough to keep eight children in good health and alive.

"When the landlord wanted to invite the children for morning tea, he saw that they were all dead," he said, quoting the homeowner.

The father of these children had recently passed away after suffering from paralysis and a tumour in his head. Their mother, who was also a heart patient, was unable to bear the loss of her husband and died a few days after her partner's death. The family had been unable to treat the father and mother due to poverty.

Now, their children are facing the brunt of the family poverty. The oldest child is 11-year-old and the youngest is less than three-years-old. They had been unable to get employment and earn their daily bread, which led to intermittent starvation, which then became the cause of their death.

Talking about the same, Mohammad Mohaqiq, the leader of the People's Islamic Unity Party of Afghanistan, has urged the world to wake up to the Afghan crisis and help the locals. He also alleged that this incident had not made headlines as the victims belonged to minority community.

اذان واقامت میں کلمات کادوہرانا

 اقامت کے کلمات کو مثل اذان کے دو دو مرتبہ کہنا حنفیہ کا مذہب ہے، حنفیہ کی دلیل حضرت عبداللہ بن زید رضی اللہ عنہ کی حدیث ہے، وہ فرماتے ہیں: کان أذان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم شفعًا شفعًا في الأذان والإقامة (ترمذي شریف) یعنی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اذان میں دو، دو کلمات تھے، اذان میں بھی اوراقامت میں بھی، احناف کے علاوہ ائمہ ثلاثہ کے نزدیک اقامت میں ہرکلمہ ایک، ایک مرتبہ کہا جائے گا سوائے تکبیر کے اور قد قامت الصلاة کے یہ حضرات حضرت انس - رضی اللہ عنہ- کی روایت سے استدلال کرتے ہیں کہ حضرت بلال رضی اللہ عنہ حکم دیئے گئے کہ وہ اذان دوہری کہیں اور اذان اکہری (ترمذی شریف) احناف کے نزدیک اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ حضرت بلال رضی اللہ عنہ کو حکم دیا گیا کہ وہ اذان میں مماثل کلمات کو دو سانس میں کہیں،البتہ قد قامت الصلاة دو سانسوں میں کہیں کیوں کہ یہی کلمات اقامت میں مقصود ہیں، حاصل یہ ہے کہ حنفیہ ایتار اقامت کو ایتار صوتی پر محمول کرتے ہیں، اور یہ معنی احناف نے کیوں سمجھیں ہیں اس کی پہلی وجہ وہ حدیث ہے جو اوپر گذری ہے، دوسری وجہ ابومحذورہ رضی اللہ عنہ کی حدیث ہے: إن النبي صلی اللہ علیہ وسلم علمہ الأذان تسع عشرة کلمة والإقامة سبع عشرة کلمة قال أبوعیسی ھذا حدیث حسن صحیح (ترمذی شریف) یعنی حضرت ابومحذورہ رضی اللہ عنہ کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اذان کے سترہ کلمات سکھائے تھے، سترہ عدد خاص ہے اس میں کمی زیادتی نہیں ہوسکتی، پس دونوں حدیثوں میں جمع کی صورت یہی ہے کہ ایتار صوتی مراد لیا جائے، تیسری وجہ یہ ہے کہ ائمہ ثلاثہ کے نزدیک اقامت کے شروع میں بھی اور آخر میں بھی تکبیر دو، دو مرتبہ ہے، اس پر اعتراض ہوتا ہے کہ ایتار کے منافی ہے، حافظ رحمہ اللہ نے اس کا جواب دیا ہے کہ چونکہ دو مرتبہ اللہ اکبر ایک ہی سانس میں کہا جاتا ہے اس لیے یہ ایک ہی کلمہ ہے، پس ایتار صوتی مراد لینا تاویل بعید نہیں دوسرے حضرات بھی بوقت ضرورت یہ تاویل کرتے ہیں۔

Saturday 23 October 2021

پتھروں میں تاثیر کاعقیدہ رکھتے ہوئے انگوٹھی میں پہننا

    اس کائنات میں پیش آنے والا ہر چھوٹا بڑا واقعہ اللہ کے حکم اور منشا کے مطابق ہوتاہے، اس کے حکم کے بغیر کوئی بھی کام نہیں ہوتا، ہم کوتاہ فہموں کو سمجھانے اور کائنات کا مرتب نظام چلانے کے لیے اللہ نے ہمارے روزمرہ کے معاملات کو ظاہری اسباب کے ساتھ جوڑا ہے، روٹی بھوک مٹاتی ہے، پانی پیاس بجھاتا ہے، آگ حرارت کا سامان مہیا کرتی ہے وغیرہ وغیرہ، ان تمام اسباب کے پیچھے حقیقی مؤثر ذات  اللہ تعالی کی ہے، جو اس تمام نظام کو چلا رہی ہے، کسی ظاہری سبب یا شے کا اس نظام کو چلانے اور اس پر اثر انداز ہونے میں  بذاتِ خودکوئی دخل نہیں۔

                         ستارے، سیارے اور ہاتھوں کی لکیروں کا انسانی زندگی کے بنانے یا بگاڑنے میں کوئی اثر نہیں، اسی طرح مخصوص پتھر یا مخصوص اعداد بھی  انسانی زندگی پراثر انداز نہیں ہوتے، انسان کی زندگی مبارک یا نامبارک ہونے میں اس کے اعمال کا دخل ہے، نیک اور اچھے اعمال انسان کی مبارک زندگی اور برے  اعمال ناخوش گوار  زندگی کا باعث ہوتے ہیں،  پتھروں یا اعداد کو اثر انداز سمجھنا مشرک قوموں کا عقیدہ ہے، مسلمانوں کا نہیں، حضرت عمر رضی اللہ عنہ حجر اسود کو بوسہ دیتے وقت اس سے مخاطب ہو کر ارشاد فرماتے ہیں کہ مجھے اچھی طرح معلوم ہے کہ تو پتھر ہے، نفع پہنچا سکتا ہے اور نہ نقصان، اگر میں نے رسولِ خدا محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو تجھے بوسہ دیتے ہوئے نہ دیکھا ہوتا  تو میں تجھے بوسہ نہ دیتا، نئے مسلمان ہونے والے لوگوں  کے دلوں میں پتھروں کی تاثیر کا جاہلی عقیدہ مٹانے کے لیے حضرت عمر رضی اللہ عنہ  ان کے سامنے حجر اسود سےاس انداز میں گویا ہوئے۔

                         لہذا   انگوٹھی میں جو مختلف قسم کے پتھر لگوائے جاتے ہیں، مثلاً: عقیق، فیروز، یاقوت وغیرہ یا تاریخِ پیدائش کے حساب سےکسی پتھر کو متعین کرکے اس کے بارے میں یہ  اعتقاد ویقین رکھنا کہ فلاں پتھر میری زندگی پراچھے اثرات ڈالتا ہے یہ عقیدہ غلط ہے، اس عقیدے کے ساتھ انگوٹھی میں پتھروں کا استعمال ناجا ئز وحرام ہے، مذکورہ عقیدہ نہ ہوتو  اپنے ذوق کے اعتبار سے کوئی بھی پتھر لگانے کی گنجائش ہے، تاہم واضح رہے کہ مرد کے لیے صرف ساڑھے چار ماشا چاندی سے کم وزن کی انگوٹھی پہننے کی اجازت ہے، ساڑھے چار ماشا یا اس سے زائد چاندی یا اس کے علاوہ کسی بھی دھات کی انگوٹھی کی اجازت نہیں ہے، اور عورت کے لیے بھی سونے اور چاندی کی انگوٹھی کے علاوہ دیگر دھاتوں کی انگوٹھی کی اجازت نہیں ہے، مرد چاندی کی انگوٹھی میں اور عورت سونے یا چاندی کی انگوٹھی میں کسی غلط عقیدے کے بغیر پتھر کا نگینہ لگاسکتے ہیں۔

صحیح مسلم میں ہے:

              "حدثنا خلف بن هشام والمقدمى وأبو كامل وقتيبة بن سعيد كلهم عن حماد -قال خلف: حدثنا حماد بن زيد- عن عاصم الأحول عن عبد الله بن سرجس قال: رأيت الأصلع -يعنى عمر بن الخطاب - يقبل الحجر، ويقول: والله إنى لأقبلك وإنى أعلم أنك حجر، وأنك لاتضر ولاتنفع، ولولا أنى رأيت رسول الله صلى الله عليه وسلم قبلك ما قبلتك". (الصحيح لمسلم، كتاب الحج، باب استحباب تقبيل الحجر الأسود فى الطواف (۱/ ۴۱۳) ط:قديمي)

 شرح مسلم نووی میں ہے:

       "وأما قول عمر رضي الله عنه: لقد علمت أنك حجر وأنى لأعلم أنك حجر، وأنت لاتضر ولاتنفع، فأراد به بيان الحث على الاقتداء برسول الله صلى الله عليه وسلم في تقبيله ونبه على أنه أولا الاقتداء به لما فعله، وإنما قال: وأنك لاتضر ولاتنفع؛ لئلايغتر بعض قريبى  العهد بالاسلام الذين كانوا ألفوا عبادة الأحجار وتعظيماً ورجاء نفعها وخوف الضر بالتقصير في تعظيمها، وكان العهد قريباً بذلك، فخاف عمر رضي الله عنه أن يراه بعضهم يقبله ويعتنى به فيشتبه عليه، فبين أنه لايضر ولاينفع بذاته، وإن كان امتثال ما شرع فيه ينفع بالجزاء والثواب، فمعناه أنه لا قدرة له على نفع ولا ضر، وأنه حجر مخلوق كباقي المخلوقات التي لاتضر ولاتنفع، وأشاع عمر هذا في الموسم ليشهد في البلدان ويحفظه عنه أهل الموسم المختلفوا الأوطان والله أعلم". (شرح النووي علي صحيح المسلم، كتاب الحج، باب استحباب تقبيل الحجر (۱/ ۴۱۳) ط:قديمي)

المقاصد الحسنۃ  میں ہے:

 "تختموا بالزبرجد فإنه يسر لا عسر فيه. قال شيخنا: إنه موضوع"

حديث: تختموا بالزمرد؛ فإنه يسر لا عسر فيه. قال شيخنا: إنه موضوع.

 حديث: تختموا بالزمرد فإنه ينفي الفقر. الديلمي عن ابن عباس ولايصح أيضاً.

حديث:  تختموا بالعقيق. له طرق كلها واهية فمنها لابن عدي في كامله من جهة يعقوب بن الوليد عن هشام بن عروة عن أبيه عن عائشة مرفوعاً به ويعقوب كذبه أحمد وأبو حاتم وغيرهما وقد تحرف اسم أبيه على بعض رواته فسماه إبراهيم كذلك أخرجه ابن عدي أيضاً ومن طريقه البيهقي في الشعب وله عن عائشة طرق بألفاظ منها (اشتر له خاتماً وليكن فصه عقيقاً فإنه من تختم بالعقيق لم يقض له إلا الذي هو أسعد ) ومنها ( أكثر خرز أهل الجنة العقيق ) ومنها لابن عدي أيضاً من طريق الحسين بن إبراهيم البابي عن حميد عن أنس مرفوعا بلفظ ( فإنه ينفي الفقر ) بدل ( فإنه مبارك ) زاد ( واليمن أحق بالزينة) والبابي تالف وجزم الذهبي في الميزان بأنه موضوع.

ومنها للديلمي من رواية ميمون بن سليمان عن منصور بن بشر الساعدي عن مالك عن نافع عن ابن عمر عن عمر رفعه بلفظ: (تختموا بالعقيق فإن جبريل أتاني به من الجنة وقال لي: يا محمد تختم بالعقيق وأمر أمتك أن تختم به ) وهو موضوع على عمر فمن دونه إلى مالك ومنها له أيضاً من طريق علي بن مهرويه القزويني عن داود بن سليمان عن علي بن موسى بن جعفر بن محمد بن علي بن الحسين بن علي عن أبيه عن أبيه عن أبيه عن أبيه عن أبيه بلفظ ( تختموا بالخواتم العقيق فإنه لايصيب أحدكم غم ما دام عليه ) وعلي بن مهرويه صدوق وداود سليمان يقال له الغازي وهو جرجاني كذبه ابن معين وله نسخة موضوعة بالسند المذكور من جملتها ( إن الأرض تنجس من بول الاقلف أربعين يوماً ) وهو في أمالي الحسين بن هارون الضبي من وجه آخر عن أبي بكر الأزرق عن جعفر به ولفظه من تختم بالعقيق ونقش فيه وما توفيقي إلا بالله وفقه الله لكل خير واحبه الملكان الموكلان به وفي سنده أبو سعيد الحسن بن علي وهو كذاب وهذا عمله ومنها لابن حبان في الضعفاء من طريق أبي بكر بن شعيب عن مالك عن الزهري عن عمرو بن الشريد عن فاطمة مرفوعاً ( من تختم بالعقيق لم يزل يرى خيراً ) قال: وابن شعيب يروي عن مالك ما ليس من حديثه لايحل الاحتجاج به وهو عند الطبراني من طرق سواه ومع ذلك فهو باطل، وقد قال العقيلي: إنه لايثبت في هذا عن النبي شيء، وذكره ابن الجوزي في الموضوعات وقال: قد ذكر حمزة بن الحسن الأصبهاني في كتاب ( التنبيه على حروف من التصحيف ) قال: كثير من رواة الحديث يروون أن النبي قال: ( تختموا بالعقيق ) وإنما قال: ( تخيموا بالعقيق ) وهو اسم واد بظاهر المدينة، قال ابن الجوزي: وهذا بعيد وتأويله أحق أن ينسب إليه التصحيف لما ذكرنا من طرق الحديث بل قال شيخنا: حمزة معذور، فإن أقرب طرق هذا الحديث كما يقتضيه كلام ابن عدي في رواية يعقوب ولفظه ( تخيموا بالعقيق فإنه مبارك ) وهذا الوصف بعينه قد ثبت لوادي العقيق في حديث عمر الذي أخرجه البخاري في أوائل الحج من رواية عكرمة عن ابن عباس سمعت النبي بوادي العقيق يقول: ( أتاني الليلة آت من ربي فقال: صل في هذا الوادي المبارك ) انتهى. وما رواه المطرز في اليواقيت عن أبي القاسم الصايغ عن ابراهيم الحربي أنه سئل عنه فقال: إنه صحيح قال: ويروى أيضاً بالياء المثناة من تحت أي اسكنوا العقيق واقيموا به فغير معتمد بل المعتمد بطلانه ثم أن قوله في بعض ألفاظه(فانه ينفي الفقر) يروى في اتخاذ الخاتم الذي فصه من ياقوت ولايصح أيضاً قال ابن الأثير يريد أنه إذا ذهب ماله باع خاتمه فوجد به غني وقال غيره بل الأشبه إن صح الحديث أن يكون لخاصية فيه كما أن النار لاتؤثر فيه ولاتغيره وأن من تختم به أمن من الطاعون وتيسرت له أمور المعاش ويقوي قلبه ويهابه الناس ويسهل عليه قضاء الحوائج، انتهى. وكل هذا يمكن قوله في العقيق إن ثبت". (المقاصد الحسنة للسخاوي،حرف التاء، ص:۱۸۱ ط:دار الكتب العلمية)

الفوائد المجموعۃ  میں ہے:

"تختموا بالعقيق فإنه مبارك. ضعيف جداً أو طرقه كلها واهية جداً". (الفوائد المجموعة في الأحاديث الموضوعة،كتاب اللباس والتختم ص: ۱۹۳ و ۱۹۴ ط:مطبعة السنة المحمدية

تفسیر قل بفضل اللہ وبرحمتہ الخ

 یہ آیت مبارکہ سورہٴ یونس (پ: ۱۱) میں ہے اوپر والی آیاتِ شریفہ میں قرآن مجید کی عجیب و غریب رہنمائی کا ذکر چلا آرہا ہے یَا اَیُّہَا النَّاسُ قَدْ جَآئَتْکُمْ مَوْعِظَةٌ مِنْ رَبِّکُمْ وَشِفَآءٌ لِمَا فِیْ الصُّدُوْرِ وَہُدًی وَرَحْمَةٌ لِلْمُؤْمِنِیْنَ (57) یعنی اے لوگو! تمہارے پاس تمہارے رب کی جانب سے ایسی چیز آگئی ہے کہ جو (برے کاموں سے روکنے کے لئے ) نصیحت ہے اور (اگر اس پر عمل کرکے برے کاموں سے بچیں تو) دِلوں میں جو (برے کاموں سے) روگ (ہو جاتے ہیں) ان کے لئے شفاء ہے اور (نیک کاموں کے کرنے کے لئے) رہنمائی کرنے والی ہے اور (اگر عمل کرکے نیک کاموں کو اختیار کریں تو) رحمت (اور ذریعہ ثواب) ہے (اور یہ سب برکات) ایمان والوں کے لئے ہیں (کیونکہ عمل وہی کرتے ہیں پس قرآن کے یہ برکات سناکر) آپ (اُن سے) کہہ دیجئے کہ (جب قرآن ایسی چیز ہے) پس لوگوں کو خدا کے اس انعام و رحمت پر خوش ہونا چاہئے (اور اس کو دولت عظیمہ سمجھ کر لینا چاہئے) وہ اس (دُنیا) سے بدرجہا بہتر ہے جس کو جمع کر رہے ہیں (کیونکہ دنیا کا نفع قلیل اور فانی اور قرآن کا نفع کثیر اور باقی ہے) اھ تفسیر بیان القرآن: ۱/۷۰۰- ۷۰۱ (مطبوعہ: مکتبہ الحق ، ممبئی، ۱۰۲)

وفی التفسیر الطبری :

القول في تأويل قوله تعالى : قُلْ بِفَضْلِ اللَّهِ وَبِرَحْمَتِهِ فَبِذَلِكَ فَلْيَفْرَحُوا هُوَ خَيْرٌ مِمَّا يَجْمَعُونَ (58)
قال أبو جعفر: يقول تعالى ذكره لنبيه محمد صلى الله عليه وسلم:(قل) يا محمد لهؤلاء المكذِّبين بك وبما أنـزل إليك من عند ربك ،(5) (بفضل الله)، أيها الناس ، الذي تفضل به عليكم، وهو الإسلام، فبيَّنه لكم ، ودعاكم إليه ،(وبرحمته)، التي رحمكم بها، فأنـزلها إليكم، فعلَّمكم ما لم تكونوا تعلمون من كتابه، وبصَّركم بها معالم دينكم، وذلك القرآن ، (فبذلك فليفرحوا هو خير مما يجمعون)، يقول: فإن الإسلام الذي دعاهم إليه ، والقرآن الذي أنـزله عليهم، خيرٌ مما يجمعون من حُطَام الدنيا وأموالها وكنوزها.
* * *
وبنحو ما قلنا في ذلك قال جماعة من أهل التأويل.
*ذكر من قال ذلك:
17668- حدثني علي بن الحسن الأزدي قال ، حدثنا أبو معاوية، عن الحجاج، عن عطية، عن أبي سعيد الخدري في قوله: (قل بفضل الله وبرحمته فبذلك فليفرحوا) ، قال: بفضل الله القرآن (وبرحمته) أن جعَلَكم من أهله. (6)
17669- حدثني يحيى بن طلحة اليربوعي قال ، حدثنا فضيل، عن منصور، عن هلال بن يساف: (قل بفضل الله وبرحمته فبذلك فليفرحوا)، قال: بالإسلام الذي هداكم، وبالقرآن الذي علّمكم.
17670- حدثنا أبو هشام الرفاعي قال ، حدثنا ابن يمان قال ، حدثنا سفيان، عن منصور، عن هلال بن يساف: (قل بفضل الله وبرحمته)، قال: بالإسلام والقرآن ، (فبذلك فليفرحوا هو خير مما يجمعون)، من الذهب والفضَّة.
17671- حدثنا ابن بشار قال ، حدثنا عبد الرحمن قال ، حدثنا سفيان، عن منصور، عن هلال بن يساف، في قوله: (قل بفضل الله وبرحمته) ، قال: " فضل الله " ، الإسلام، و " رحمته "، القرآن.
17672- حدثني علي بن سهل قال ، حدثنا زيد قال ، حدثنا سفيان، عن منصور، عن هلال بن يساف، في قوله: (قل بفضل الله وبرحمته)، قال: الإسلام والقرآن.
17673- حدثني المثنى قال ، حدثنا أبو نعيم وقبيصة قالا حدثنا سفيان، عن منصور، عن هلال بن يساف مثله.
17674- حدثنا ابن حميد قال ، حدثنا جرير، عن منصور، عن هلال، مثله.
17675- حدثنا بشر قال ، حدثنا يزيد قال ، حدثنا سعيد، عن قتادة: (قل بفضل الله وبرحمته فبذلك فليفرحوا)، أما فضله فالإسلام، وأما رحمته فالقرآن.
17676- حدثنا محمد بن عبد الأعلى قال ، حدثنا محمد بن ثور، عن معمر، عن الحسن: (قل بفضل الله وبرحمته)، قال: فضله: الإسلام، ورحمته القرآن.
17677- حدثني المثنى قال ، حدثنا أبو حذيفة قال ، حدثنا شبل، عن ابن أبي نجيح، عن مجاهد: (قل بفضل الله وبرحمته)، قال: القرآن.
17678- حدثنا القاسم قال ، حدثنا الحسين قال ، حدثني حجاج، عن ابن جريج، عن مجاهد: (وبرحمته) ، قال: القرآن.
17679- حدثنا القاسم قال ، حدثنا الحسين قال ، حدثني حجاج، عن ابن جريج، قال: قال ابن عباس، قوله:(هو خير مما يجمعون) ، قال: الأموال وغيرها.

Friday 22 October 2021

طلب التفريق أو الفسخ لحبس الزوج

 جاء في الموسوعة الكويتية : إذا حبس الزوج مدة عن زوجته , فهل لزوجته طلب التفريق كالغائب ؟ الجمهور على عدم جواز التفريق على المحبوس مطلقا , مهما طالت مدة حبسه , وسواء أكان سبب حبسه أو مكانه معروفين أم لا , أما عند الحنفية والشافعية فلأنه غائب معلوم الحياة , وهم لا يقولون بالتفريق عليه , وأما عند الحنابلة فلأن غيابه لعذر. وذهب المالكية إلى جواز التفريق على المحبوس إذا طلبت زوجته ذلك وادعت الضرر , وذلك بعد سنة من حبسه , لأن  الحبس غياب , وهم يقولون بالتفريق للغيبة مع عدم العذر , كما يقولون بها مع العذر على سواء  . انتهى من الموسوعة

حافظ قرآن کی فضیلت

حدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ الحَفَرِيُّ، وَأَبُو نُعَيْمٍ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ أَبِي النَّجُودِ، عَنْ زِرٍّ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " يُقَالُ - يَعْنِي لِصَاحِبِ الْقُرْآنِ -: اقْرَأْ وَارْتَقِ وَرَتِّلْ كَمَا كُنْتَ تُرَتِّلُ فِي الدُّنْيَا، فَإِنَّ مَنْزِلَتَكَ عِنْدَ آخِرِ آيَةٍ تَقْرَأُ بِهَا ": «هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ» حَدَّثَنَا بُنْدَارٌ قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ عَاصِمٍ، بِهَذَا الإِسْنَادِ نَحْوَهُ

عبداللہ بن عمرو رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”(قیامت کے دن) صاحب قرآن سے کہا جائے گا: (قرآن) پڑھتا جا اور (بلندی کی طرف) چڑھتا جا۔ اور ویسے ہی ٹھہر ٹھہر کر پڑھ جس طرح تو دنیا میں ٹھہر ٹھہر کر ترتیل کے ساتھ پڑھتا تھا۔ پس تیری منزل وہ ہو گی جہاں تیری آخری آیت کی تلاوت ختم ہو گی“۔
الكتاب: سنن الترمذي:۲۹۱۴ ومسند احمد:۲۸۹۹ وابوداود:۱۴۶۴ والنسائی الکبری:۷۰۵۶ وصحیح ابن حبان:۱۷۹۰

Thursday 21 October 2021

سمدھن سے نکاح

 سمدھی کا اپنی سمدھن کے ساتھ نکاح جائز ہے۔ (فتاوی محمودیہ: ۱۶/۳۹۵، ط: جامعہ محمودیہ، میرٹھ یوپی)

جمعہ کے دن کی سنتیں

 جمعہ کے دن درج ذیل امور مسنون ومستحب ہیں:

(۱)غسل کرنا۔(۲)مسواک کرنا۔(۳)خوشبو لگانا۔( ۴)عمدہ لباس پہننا۔( ۵)تیل لگانا۔ فا لمستحب فی یوم الجمعة لمن یحضر الجمعة ان یدہن ویمس طیبا ویلبس احسن ثیابہ ان کان عندہ ذالک ویغتسل ،لان الجمعة من اعظم شعائر الاسلام،فیستحب ان یکون المقیم لہا علی احسن وصف(بدائع الصنائع فی ترتیب الشرائع: ۱ / ۴۰۶) ( ۶)نماز فجر میں امام کا سورہ سجدہ اور سورہ دہر کی تلاوت کرنا-(۷)نماز جمعہ کے لئے پیدل جانا-(۸)جمعہ کے لئے مسجد میں جلدی جانا-(۹)امام کے قریب بیٹھنا-(۱۰)جمعہ کے خطبے کو خاموشی کے ساتھ سننا-(۱۱)نماز جمعہ میں امام صاحب کا سورہ اعلی اور سورہ غاشیہ یاسورہ جمعہ اور سورہ منافقین کی تلاوت کرنا۔ عن ابن عباس انہ قال :"سمعت النبی صلی اللہ علیہ وسلم یقرأ فی صلاة الجمعة فی الرکعة الاولی سورةالجمعة،وفی الثانیة :سورة المنافقین(بدائع الصنائع:۱ /۶۰۳/ ط زکریا دیوبند)۔( ۱۲)جمعہ کے دن درود پاک کثرت سے پڑھنا ۔اکثرو الصلاة علی یوم الجمعة فانہ مشہود یشہد ہ الملائکة الخ(مشکوة شریف:۱/ ۱۲۱) (۳۱)جمعہ کے دن دعا مانگناخاص کر دونوں خطبوں اور عصر سے مغرب کے درمیان واضح رہے کہ دونوں خطبوں کے درمیان دعاصرف دل دل میں کی جائے ،زبان سے نہیں اور نہ ہی اس کے لیے ہاتھ اٹھائے جائیں ۔ فی الجمعة لساعة لا یوافقہا عبد مسلم یسأل اللہ تعالی فیہا خیرا الا اعطاہ ایاہ(مشکوة شریف:۱ /۱۱۹)التمسوا الساعة التی ترجی فی یوم الجمعة بعد العصر الی غیوبة الشمش(مشکوة شریف: ۱ / ۱۲۰) جہاں تک مسئلہ ہے کہ جمعہ کے دن کون سی سورت کی تلاوت کرنا افضل ہے ،تو جمعہ کے دن سورہ کہف کی تلاوت کرناافضل ہے احادیث شریفہ میں اس کے بڑے فضائل مذکور ہیں؛چنانچہ نبئ پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو شخص جمعہ کے روز سورہ کہف پڑھے وہ اگلے آٹھ دن تک ہر فتنہ سے محفوظ رہے گا،حتی کہ اگر دجال نکل آئے تو اس کے فتنے سے بھی محفوظ رہے گا۔من قرأ سورة الکہف یوم الجمعة فہو معصوم الی ثمانیة ایام من کل فتنة وان خرج الدجال عصم منہ(ابن کثیر عن الحافظ المقدسی/ ۸۰۳)

سگریٹ پینا گٹکا کھانا کیسا ہے

 سگریٹ اور نسوار کا استعمال عام حالات میں مکروہِ تنزیہی ہے، نہ توحرام ہے اور نہ ہی بالکل مباح، ایسا مباح بھی نہیں جیسے کھانا پینا،  اور ایسا حرام بھی نہیں جیسے شراب وغیرہ۔  البتہ سگریٹ اور بیڑی منہ میں بدبو کا باعث ہونے کی وجہ سے ناپسندیدہ ہے، لہٰذا مذکورہ اشیاء اگر استعمال کی ہوں تو منہ صاف کرکے بدبو زائل کرکے نماز وتلاوت کرناچاہیے،یہ بھی واضح رہے کہ سگریٹ وغیرہ کی بدبو کے ساتھ مسجد میں داخل ہونا مکروہِ تحریمی ہے۔

فتاوی رشیدیہ میں ہے:

’’سوال: حقہ پینا، تمباکو کا کھانا یا سونگھنا کیسا ہے؟ حرام ہے یا مکروہ تحریمہ یا مکروہ تنزیہہ ہے؟ اور تمباکو فروش اور نیچے بند کے گھر کا کھانا کیسا ہے؟

جواب: حقہ پینا، تمباکو کھانا مکروہِ تنزیہی ہے اگر بو آوے، ورنہ کچھ حرج نہیں اور تمباکو فروش کا مال حلال ہے، ضیافت بھی اس کے گھر کھانا درست ہے‘‘۔

( کتاب جواز اور حرمت کے مسائل، ص: 552، ط: ادراہ صدائے دیوبند) 

جہاں تک گٹکے کی بات ہے تو یہ صحت کے لیے مضر ہے، اس لیے اس سے بھی اجتناب لازم ہے۔

تاہم ان اشیاء میں ایسا نشہ نہیں ہوتا ہے جس کی وجہ سے عقل مغلوب ہو جائے؛  اس لیے اسے نشہ آور نہیں کہا جا سکتا، بلکہ ان کے استعمال کی عادت پڑجانے کی وجہ سے ان کا ترک مشکل ہوجاتاہے، اور جب ان اشیاء کا عادی ان چیزوں کا استعمال نہ کرے تو اسے سر میں درد ہوتاہے، یا مشکل پیش آتی ہے، جیساکہ بعض لوگوں کو چائے کی ایسی عادت ہوجاتی ہے۔

فتاوی شامی میں ہے:

"قلت: وألف في حله أيضاً سيدنا العارف عبد الغني النابلسي رسالة سماها الصلح بين الإخوان في إباحة شرب الدخان وتعرض له في كثير من تآليفه الحسان وأقام الطامة الكبرى على القائل بالحرمة أو بالكراهة فإنهما حكمان شرعيان لا بد لهما من دليل ولا دليل على ذلك فإنه لم يثبت إسكاره ولا تفتيره ولا إضراره بل ثبت له منافع فهو داخل تحت قاعدة الأصل في الأشياء الإباحة وأن فرض إضراره للبعض لايلزم منه تحريمه على كل أحد فإن العسل يضر بأصحاب الصفراء الغالبة وربما أمرضهم مع أنه شفاء بالنص القطعي".

(حاشية رد المحتار على الدر المختار کتاب الأشربة،ج:6  ص:459 ط:ایچ ایم سعید) 

صحیح مسلم میں ہے:

"(من أكل ثومًا أو بصلًا فليعتزل مسجدنا وليقعد في بيته؛ فإن الملائكة تتأذى مما يتاذى منه بنو آدم".

(صحيح مسلم، المساجد، باب نهي من أكل ثومًا أو بصلًا...الخ ح:564)

Monday 18 October 2021

انابیہ نام کے معنی

 ”انابیہ“ ”اَناب“ (ہمزہ کے فتحہ کے ساتھ )سے اسم منسوب موٴنث ہے جس کے معنی ہیں مشک، یا مشک کی  مانند ایک خاص قسم کی خوشبو۔ ففی المعجم الوسیط: الأناب: المسک أو عطر یشبهه (ص۲۸،الأنب، ط: دیوبند، وکذا فی القاموس الوحید،ص: ۱۳۷، ط: دار اشاعت) لہٰذا ”انابیہ“ نام رکھنا درست ہے

”انابیہ“ ”اَناب“ (ہمزہ کے فتحہ کے ساتھ )سے اسم منسوب موٴنث ہے جس کے معنی ہیں مشک، یا مشک کی  مانند ایک خاص قسم کی خوش بو۔

ففي المعجم الوسیط: "الأناب: المسک أو عطر یشبهه". (ص۲۸،الأنب، ط: دیوبند، وکذا في القاموس الوحید،ص: ۱۳۷، ط: دار اشاعت)

 ’’أَنَابَ‘‘ فعل ماضی واحد مذکر غائب کا صیغہ ہے، جس کا معنی ہے" اس شخص نے اللہ کی طرف رجوع کیا" ،جیساکہ قرآن کریم میں بعض مقامات پر یہ لفظ آیاہے:

{قُلْ اِنَّ اللّٰهَ يُضِلُّ مَنْ يَّشَآءُ وَيَهْدِيْ اِلَيْهِ مَنْ اَنَابَ} [رعد:27]

ترجمہ:آپ کہہ دیجیے کہ واقعی اللہ تعالیٰ جس کو چاہیں گم راہی میں چھوڑ دیتے ہیں اور جو شخص ان کی طرف متوجہ ہوتا ہے اس کو اپنی طرف ہدایت کر دیتے ہیں ۔

لیکن اس معنی کے اعتبار سے اسم فاعل (رجوع کرنے والا)"مُنِیْب" استعمال ہوتاہے،جس کی مؤنث "مُنِیْبَة"ہے، نہ کہ "انابیۃ"؛ لہذا اس لفظ کا پہلا معنی (مشک/خوش بو)  ہی متعین ہے اور اس معنی کے لحاظ سے یہ نام رکھنا درست ہے

کیاصدقے کابکرابدعت ہے

 جانور صدقہ کرنے میں کوئی حرج نہیں،البتہ اگر جانور کے ذبح سے مقصود فقط خون بہاناہو اور یہ نیت ہو کہ جان کے بدلہ جان چلی جائے یہ رواج درست نہیں۔ البتہ ذبح کرکے اس کا گوشت فقراء ومساکین میں تقسیم کرنامقصود ہوتویہ درست ہے۔لیکن صدقہ کی یہ صورت بھی لازم نہیں، لہذا ذبح کے بدلہ نقدرقم یادیگر اشیائے ضرورت فقراء ومساکین کو دینابھی جائز ہے۔مفتی اعظم ہند مفتی کفایت اللہ رحمہ اللہ لکھتے ہیں:

''زندہ جانور صدقہ کردینابہتر ہے،شفائے مریض کی غرض سے ذبح کرنا اگر محض لوجہ اللہ(رضائے الہی کے لیے)ہوتومباح تو ہے ، لیکن اصل مقصد بالاراقۃ(خون بہانے سے )صدقہ ہوناچاہیے نہ کہ فدیہ جان بجان''۔(8/252

پیروجمعرات کاروزہ

 پیر اور جمعرات کا روزہ سنت سے ثابت ہے، اور حکم کے اعتبار سے مستحب ہے، خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی پیر اور جمعرات کے روزے رکھتے تھے، البتہ کبھی اس کے علاوہ ایام میں بھی رکھتے تھے۔

"حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ ، حَدَّثَنَا أَبَانٌ ، حَدَّثَنَا يَحْيَى ، عَنْ عُمَرَ بْنِ أَبِي الْحَكَمِ بْنِ ثَوْبَانَ ، عَنْ مَوْلَى قُدَامَةَ بْنِ مَظْعُونٍ ، عَنْ مَوْلَى أُسَامَةَ بْنِ زَيْدٍ ، أَنَّهُ انْطَلَقَ مَعَ أُسَامَةَ إِلَى وَادِي الْقُرَى فِي طَلَبِ مَالٍ لَهُ، فَكَانَ يَصُومُ يَوْمَ الِاثْنَيْنِ وَيَوْمَ الْخَمِيسِ، فَقَالَ لَهُ مَوْلَاهُ : لِمَ تَصُومُ يَوْمَ الِاثْنَيْنِ وَيَوْمَ الْخَمِيسِ وَأَنْتَ شَيْخٌ كَبِيرٌ ؟ فَقَالَ : إِنَّ نَبِيَّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَصُومُ يَوْمَ الِاثْنَيْنِ وَيَوْمَ الْخَمِيسِ، وَسُئِلَ عَنْ ذَلِكَ فَقَالَ : " إِنَّ أَعْمَالَ الْعِبَادِ تُعْرَضُ يَوْمَ الِاثْنَيْنِ وَيَوْمَ الْخَمِيسِ ".

 (سنن أبي داود ،  كِتَاب  الصَّوْمُ ، بَابٌ  فِي صَوْمِ الِاثْنَيْنِ وَالْخَمِيسِ ،  رقم الحديث : ٢٤٣٦)