https://follow.it/amir-samdani?action=followPub

Friday 24 December 2021

اگروالدہ نمازنہ پڑھے تو اولاد کو کیاکرناچاہئے.

 شریعتِ  مطہرہ نے والدہ سے حسنِ سلوک کا حکم دیا ہے، اگر کوئی شخص والدہ سے بدسلوکی، بدتمیزی سے پیش آتا ہے تو مختلف احادیث میں ایسے شخص کے  لیے سخت وعیدوں کا ذکر ہے، جیسا کہ حدیث شریف میں ہے:

 "عن ابن عباس قال: قال رسول الله ﷺ: من أصبح مطیعاً لله في والدیه أصبح له بابان مفتوحان من الجنة وإن کان واحداً فواحداً، ومن أصبح عاصیاً لله في والدیه أصبح له بابان مفتوحان من النار، إن کان واحداً فواحداً، قال رجل: وإن ظلماه؟ قال: وإن ظلماه وإن ظلماه وإن ظلماه. رواه البیهقي في شعب الإیمان".

(مشکاة المصابیح، کتاب الآداب، باب البر والصلة، رقم الحديث:4943، ج:3، ص:1382، ط:المكتب الاسلامى)

ترجمہ: حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: جو شخص اس حال میں صبح کرے کہ وہ اپنے والدین کا مطیع وفرماں بردار ہو تو اس کے لیے جنت کے دو دروازے کھول دیے جاتے ہیں، اور اگر والدین میں سے کوئی ایک (حیات) ہو (اور وہ اس کا مطیع ہو) تو ایک دروازہ کھول دیا جاتاہے۔ اور جو شخص اس حال میں صبح کرے کہ وہ اپنے والدین کا نافرمان ہو تو اس کے لیے صبح کے وقت جہنم کے دو دروازے کھول دیے جاتے ہیں، اور اگر والدین میں سے کسی ایک کا نافرمان ہو تو ایک دروازہ جہنم کا کھول دیا جاتاہے۔  ایک شخص نے سوال کیا: اگرچہ والدین ظلم کریں؟ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: اگرچہ وہ دونوں اس پر ظلم کریں، اگرچہ وہ اس پر ظلم کریں، اگرچہ وہ اس پر ظلم کریں۔ 

حدیث شریف میں ہے:

 " عَنْ أَبِي أُمَامَةَ، أَنَّ رَجُلًا قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، مَا حَقُّ الْوَالِدَيْنِ عَلَى وَلَدِهِمَا؟ قَالَ: «هُمَا جَنَّتُكَ وَنَارُكَ»".

(مشکوٰۃ المصابيح، باب البر والصلة، رقم الحديث:4941، ج:3، ص:1382، ط:المكتب الاسلامى)

         ترجمہ:  حضرت ابو  امامہ رضی  اللہ  تعالی عنہ سے روایت ہے، فرماتے ہیں کہ ایک شخص نے پوچھا ،  اے  اللہ کے رسول! والدین کا اولاد کے ذمہ کیا حق ہے؟ فرمایا : وہ تیری جنت یا دوزخ ہیں ، (یعنی ان کی خدمت کروگے تو  جنت میں جاؤ گے ،  ان نافرمانی کروگے  تو دوزخ میں جاؤگے) ۔

حدیث شریف میں ہے:

"وَعَنْ أَبِي بَكْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «كلُّ الذنوبِ يغفرُ اللَّهُ مِنْهَا مَا شاءَ إِلَّا عُقُوقَ الْوَالِدَيْنِ فَإِنَّهُ يُعَجَّلُ لِصَاحِبِهِ فِي الحياةِ قبلَ المماتِ»".

(مشکاۃ المصابیح، باب البر والصلۃ، رقم الحديث:4945، ج:3، ص:1383، ط:المكتب الاسلامى)

         ترجمہ: رسول کریمﷺ نے فرمایا : شرک کے علاوہ تمام گناہ ایسے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ان میں سے جس قدر چاہتا ہے بخش دیتا ہے، مگر والدین کی نافرمانی کے گناہ کو نہیں بخشتا، بلکہ اللہ تعالیٰ ماں باپ کی نافرمانی کرنے والے کو موت سے پہلے اس کی زندگی میں  جلد ہی سزا  دے دیتا ہے۔

  والدہ کے نماز پڑھنے پر قدرت ہونے کے باوجود نماز نہ پڑھنا واقعتًا ایک بڑا گناہ ہے، تاہم والدہ کو حکمت ومصلحت سے نرمی اور محبت کے ساتھ  (بدتمیزی، بے ادبی اور ناروا سلوک کیے بغیر)سمجھانا چاہیے، ان کی خدمت کرنے کے ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ سے مسلسل ان کی ہدایت کی دعا بھی کرنی چاہیے،  

Thursday 23 December 2021

بچے کی پرورش کا حق

 طلاق  کے لیے بچہ دینے کی شرط لگانا کہ بچہ دوگی تبھی طلاق دوں گا ورنہ نہیں ,جائز نہیں،  بلکہ طلاق سے پہلے اور  بعد میں  چھوٹے بچے  کی حضانت (پرورش)  کا حق  ماں کو  حاصل ہے، ہاں سات سال کے بعد بچے کی تربیت کی عمر ہے، اور بچے کی تربیت والد کے ذمے ہے،لہذا بچے  کی عمر سات سال  ہونے کے بعد  والد اسے لے سکتا ہے۔

"و أما بیان من له الحضانة فالحضانة تکون للنساء في وقت و تکون للرجال في وقت، و الأصل فیها النساء لأنهن أشفق و أرفق و أهدی إلی تربیة الصغار، ثم تصرف إلی الرجال لأنهم علی الحمایة و الصیانة و إقامة مصالح الصغار أقدر."

(بدائع الصنائع ۳: ۴۵۶)

"أحق الناس بحضانة الصغیر حال قیام النکاح، أو بعد الفرقة الأم … وإن لم یکن أم تستحق الحضانة بأن کانت غیر أهل للحضانة، أو متزوجة بغیر محرم أو ماتت، فأم الأم أولیٰ. فإن لم یکن للأم أم، فأم الأب أولیٰ ممن سواہا، وإن علت."

(فتاوی عالمگیری ۱: ۵۴۱)

اولاد کے ذمہ والدکانفقہ کب لازم ہے

 اگر والدکی آمدنی کا کوئی ذریعہ موجود ہویا اس کے پاس جمع پونجی ہو،تو والد پر اسی میں سے اپنے نان ونفقہ کا انتظام کرنا لازم ہوگااور اگر والد کی آمدنی کا کوئی ذریعہ موجود نہ ہو اور کوئی جمع پونجی بھی نہ ہو،تو اس کی صاحب ِ حیثیت اولادپر اس کے نان ونفقہ کا انتظام کرنا برابر سرابر لازم ہے۔

الدرالمختار مع رد المحتار میں ہے:

"(و) تجب (على موسر) ولو صغيرا (يسار الفطرة) على الأرجح...(النفقة لأصوله)۔۔۔(الفقراء) ولو قادرين على الكسب"

"(قوله ولو قادرين على الكسب) جزم به في الهداية، فالمعتبر في إيجاب نفقة الوالدين مجرد الفقر"

(کتاب الطلاق،باب النفقة،ج:3،ص621،ط:سعید)

رد المحتار میں ہے:

"القسم الأول: الفروع فقط: والمعتبر فيهم القرب والجزئية: أي القرب بعد الجزئية دون الميراث كما علمت، ففي ولدين لمسلم فقير ولو أحدهما نصرانيا أو أنثى تجب نفقته عليهما سوية ذخيرة للتساوي في القرب والجزئية وإن اختلفا في الإرث"

(کتاب الطلاق،باب النفقة،ج:3،ص624،ط:سعید)

بیٹے کاوالدہ کے پاؤں دبانا

 بیٹا اپنی والدہ کے پاؤں دبا سکتا ہے بلکہ اولاد کو اپنی والدہ اور والد دونوں کی خدمت کرنی چاہیئے, یہ والدین کا حق ہے  ,أحادیث میں اس کی بہت فضیلت آئی ہے,حدیث میں ہے کہ جس نے اپنی والدہ کا پاؤں چوما گویا اس نے جنت کی چوکھٹ(یعنی دروازہ) کو بوسہ دیا۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (6/ 367)
(وما حل نظره) مما مر من ذكر أو أنثى (حل لمسه) إذا أمن الشهوة على نفسه وعليها «لأنه عليه الصلاة والسلام كان يقبل رأس فاطمة» وقال - عليه الصلاة والسلام -: «من قبل رجل أمه فكأنما قبل عتبة الجنة» وإن لم يأمن ذلك أو شك، فلايحل له النظر والمس كشف الحقائق لابن سلطان والمجتبى (إلا من أجنبية) فلا يحل مس وجهها وكفها وإن أمن الشهوة؛ لأنه أغلظ ولذا تثبت به حرمة المصاهرة وهذا في الشابة
۔

طلاق کے بعد بچوں کووالدین سے ملنے کاپوراحق ہے.

 شوہر کو طلاق کے بعد بچوں کو ماں سے  ملنے سے روکنے کا حق حاصل نہیں ہے،ناہی ماں کویہ حق حاصل ہے کہ وہ ان کواپنے والدسے ملنے سے روکے.  بلکہ بچے اگر بالغ ہوں تو ان پر خود لازم ہے کہ والدہ سے ملیں اور اس کے ساتھ حسنِ سلوک کریں، اور اگر چھوٹے ہوں تو ماں کو ان سے  ملنے کا حق ہے اور شوہر کا انہیں روکنا ناجائز ہے۔

الفتاوى الهندية (1/ 543):

"الولد متى كان عند أحد الأبوين لايمنع الآخر عن النظر إليه وعن تعاهده، كذا في التتارخانية ناقلًا عن الحاوي."

Wednesday 22 December 2021

کسی عورت کو محرم بنانے کے لئے اس کی نابالغ بچی سے غیرجنسی عارضی نکاح کرناکیسا ہے ؟

 بالغ یا نابالغ لڑکی سے نکاح ہوتے ہی اس کی ماں سے حرمتِ  مصاہرت ثابت ہوجاتی ہے، یعنی نکاح کرنے والے پر منکوحہ کی ماں ہمیشہ کے لیے حرام ہوجاتی ہے، بالفاظِ  دیگر منکوحہ کی  ماں سے حرمتِ  مصاہرت کے ثبوت کے  لیے منکوحہ  سے جنسی تعلق قائم کرنا شرط نہیں، لہذا صورتِ  مسئولہ میں نابالغ بچی سے نکاح ہوتے ہی اور جنسی تعلق  قائم کرنے سے پہلے ہی اس کی ماں نکاح کرنے والے پر ہمیشہ کے لئے حرام ہوجائے گی۔

چونکہ اس عمل کا مقصد نکاح کے مقاصد کا حصول نہیں، بلکہ محض اپنی ضرورت پوری کرنا ہے جواصلاََ نکاح کے شرعی مقاصدکے خلاف ہے، علامہ سرخسی رحمہ اللہ نکاح کے چند مقاصد کو بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ:اس عقد کے ساتھ بے شمار دینی اور دنیوی مصلحتیں متعلق ہوتی ہیں، جن میں سے چند یہ ہیں : عورتوں کی حفاظت ونگرانی، ان کا نان ونفقہ،زنا سے بچنا،اللہ تعالی کے بندوں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کی کثرت،(بروزِ قیامت) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کے فخر کا متحقق ہونا،جیساکہ فرمانِِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے کہ: "نکاح کرو اور نسل بڑھاؤ،تمہاری کثرت ہوگی ، سو میں قیامت کے دن تمہاے سبب فخر کروں گا" نکاح کی مشروعیت کا سبب اللہ تعالی کے مقرر کیے ہوئے وقت تک اس عالم کا بقا ہے اور یہ بقا توالد و  تناسل کے ذریعے ہی ممکن ہوگا۔

لہٰذا صورتِ مسئولہ میں صرف بچی کی ماں کو محرم بنانے کے لیے نکاح کرنے سے  شریعتِ مطہرہ کی جانب سے میاں بیوی کےلیے وضع کردہ کئی اَحکام  کی خلاف ورزی اور بہت سے اَحکام کا استحصال ہوگا، چنانچہ اس عارضی  نکاح کے نتیجہ میں بیوی نان نفقہ سے محروم رہے گی، جب کہ نکاح کے عقد کی وجہ سے یہ ذمہ داری شوہر پر عائد ہوتی  ہے، "علامہ ابن نجیم" رحمہ اللہ نے " بدائع الصنائع " کے حوالہ سے نکاح کے اَحکام تفصیلًا ذکر کیے ہیں ، چنانچہ وہ لکھتے ہیں کہ: بدائع میں نکاح کے اَحکام علیحدہ فصل میں ذکر کیے ہیں، فرماتے ہیں کہ نکاح کے اَحکام میں سے مہر کا واجب ہونا، نفقہ اور پوشاک کا شوہر کے ذمہ لازم ہونا،حرمتِ مصاہرت کا ثابت ہونا، جانبین سے وراثت کا اجرا اور ان حقوق کی ادائیگی میں عدل کا واجب ہونا (جب کہ ایک سے زائد بیویاں ہوں) وغیرہ شامل ہیں۔لہذا اس قسم کے عارضی نکاح سے اجتناب کیا جائے۔

البحر الرائق شرح كنز الدقائق  (3 / 100)

"قَوْلُهُ ( وَأُمُّ امْرَأَتِهِ ) بَيَانٌ لِمَا ثَبَتَ بِالْمُصَاهَرَةِ لِقَوْلِهِ تَعَالَى { وَأُمَّهَاتُ نِسَائِكُمْ } النساء 23 أَطْلَقَهُ فَلَا فَرْقَ بين كَوْنِ امْرَأَتِهِ مَدْخُولًا بها أو لَا وهو مُجْمَعٌ عليه عِنْدَ الْأَئِمَّةِ الْأَرْبَعَةِ وَتَوْضِيحُهُ في الْكَشَّافِ".

أحكام القرآن للجصاص (3 / 71)

"فلما كان قوله وَأُمَّهاتُ نِسائِكُمْ جملة مكتفية بنفسها يقتضى عمومها تحريم أمهات النساء مع وجود الدخول وعدمه وكان قوله تعالى وَرَبائِبُكُمُ اللَّاتِي فِي حُجُورِكُمْ مِنْ نِسائِكُمُ اللَّاتِي دَخَلْتُمْ بِهِنَّ جملة قائمة بنفسها على ما فيها من شرط الدخول لم يجز لنا بناء إحدى الجملتين على الأخرى بل الواجب إجراء المطلق منهما على إطلاقه والمقيد على تقييده وشرطه إلا أن تقوم الدلالة على أن إحداهما مبنية عن الأخرى محمولة على شرطها وأخرى وهي أن قوله تعالى وَرَبائِبُكُمُ اللَّاتِي فِي حُجُورِكُمْ مِنْ نِسائِكُمُ اللَّاتِي دَخَلْتُمْ بِهِنَّ فَإِنْ لَمْ تَكُونُوا دَخَلْتُمْ بِهِنَّ فَلا جُناحَ عَلَيْكُمْ يجرى هذا الشرط مجرى الاستثناء".

في المبسوط للسرخسي:

"ثم يتعلق بهذا العقد أنواع من المصالح الدينية والدنيوية من ذلك حفظ النساء والقيام عليهن والإنفاق، ومن ذلك صيانة النفس عن الزنا، ومن ذلك تكثير عباد الله تعالى وأمة الرسول صلى الله عليه وسلم وتحقيق مباهاة الرسول صلى الله عليه وسلم بهم كما قال: «تناكحوا تناسلوا تكثروا فإني مباه بكم الأمم يوم القيامة» وسببه تعلق البقاء المقدور به إلى وقته فإن الله تعالى حكم ببقاء العالم إلى قيام الساعة وبالتناسل يكون هذا البقاء".

(کتاب النکاح،ج:4،ص:192،ط:دار المعرفة،بیروت)

في البحر الرائق:

"وقد ذكر أحكامه في البدائع في فصل على حدة فقال: منها حل الوطء لا في الحيض والنفاس والإحرام، وفي الظهار قبل التكفير ووجوبه قضاء مرة واحدة وديانة فيما زاد عليها، وقيل يجب قضاء أيضا، ومنها حل النظر والمس من رأسها إلى قدمها إلا لمانع ومنها ملك المنفعة، وهو اختصاص الزوج بمنافع بضعها وسائر أعضائها استمتاعا، ومنها ملك الحبس والقيد، وهو صيرورتها ممنوعة عن الخروج والبروز، ومنها وجوب المهر عليه، ومنها وجوب النفقة والكسوة، ومنها حرمة المصاهرة، ومنها الإرث من الجانبين، ومنها وجوب العدل بين النساء في حقوقهن، ومنها وجوب طاعته عليها إذا دعاها إلى الفراش، ومنها ولاية تأديبها إذا لم تطعه بأن نشزت، ومنها استحباب معاشرتها بالمعروف، وعليه حمل الأمر في قوله تعالى، {وعاشروهن بالمعروف} [النساء: 19] ، وهو مستحب لها أيضا والمعاشرة بالمعروف الإحسان قولا، وفعلا وخلقا إلى آخر ما في البدائع". 

(کتاب النکاح،ج:3،ص:139،ط:دار الکتب العلمیة)

Saturday 18 December 2021

سوتیلی ماں کی بہن سے نکاح

 آدمی پر باپ کی بیوی ہونے کی وجہ سے صرف سوتیلی ماں حرام ہوتی ہے، سوتیلی ماں کی ماں یا بہن حرام نہیں ہوتی؛ اس لیے  سوتیلی  ماں کی بہن سے نکاح کرسکتے ہیں، جائز ہے، مستفاد:قال ابن عابدین عن الخیر الرملي:ولا تحرم أم زوجة الأب ولا بنتھا فأخت زوجة الأب أولى بأن لا تحرم (شامی ۴:۱۰۵، مطبوعہ: مکتبہ زکریا دیوبند)۔

مستورات کاجماعت میں جانا

 قرآنِ  کریم میں عورتوں کو بلا ضرورتِ  شدیدہ گھر سے باہر نکلنے سے منع کیا گیا ہے، ارشاد باری تعالی ہے:

{وَقَرْنَ فِي بُيُوتِكُنَّ وَلَا تَبَرَّجْنَ تَبَرُّجَ الْجَاهِلِيَّةِ الْأُولَى} [الأحزاب : 33]

ترجمہ: تم اپنے گھر میں قرار سے رہو اور قدیم زمانہ جاہلیت کے دستور کے موافق مت پھرو۔(بیان القرآن)

            یہی وجہ ہے کہ عورت کے لیے نبی کریم ﷺ نے گھر میں نماز پڑھنا مسجد میں نماز پڑھنے سے بہتر قراردیا،  نبی کریم ﷺ سے جب عورتوں نے مردوں کی جہاد میں شرکت اور فضائل حاصل کرنے اور ان فضائل کو حاصل کرنے کی تمنا ظاہر کی تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ تم میں سے جو گھر میں بیٹھی رہے وہ مجاہد کا اجر پائے گی۔    

نیز عورتوں کی جماعت کے نکلنے  کی مشروط اجازت دینا بھی فتنوں کا پیش خیمہ ثابت ہوسکتاہے، لہذا اس پر فتن دور میں مشروط اجازت بھی نہیں دی جائے گی۔

مزید تفصیل کے لیے درج ذیل فتوی بھی ملاحظہ کیجیے:

عورتوں کی تبلیغی جماعت کی شرعی حیثیت اور دارالعلوم دیوبند کا فتوی

تفسير ابن كثير / دار طيبة - (6 / 409):

"وقوله: { وَقَرْنَ فِي بُيُوتِكُنَّ } أي: الزمن بيوتكن فلا (1) تخرجن لغير حاجة. ومن الحوائج الشرعية الصلاة في المسجد بشرطه، كما قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "لا تمنعوا إماء الله مساجد الله، وليخرجن وهن تَفِلات" وفي رواية: "وبيوتهن خير لهن".

وقال الحافظ أبو بكر البزار: حدثنا حميد بن مَسْعَدة حدثنا أبو رجاء الكلبي، روح بن المسيب ثقة، حدثنا ثابت البناني  عن أنس، رضي الله عنه، قال: جئن النساء إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فقلن: يا رسول الله، ذهب الرجال بالفضل والجهاد في سبيل الله تعالى، فما لنا عمل ندرك به عمل المجاهدين في سبيل الله؟ فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "من قعد -أو كلمة نحوها -منكن في بيتها فإنها تدرك عمل المجاهدين  في سبيل الله".

ثم قال: لا نعلم رواه عن ثابت إلا روح بن المسيب، وهو رجل من أهل البصرة مشهو .

وقال  البزار أيضا: حدثنا محمد بن المثنى، حدثنا عمرو بن عاصم، حدثنا همام، عن قتادة، عن مُوَرِّق، عن أبي الأحوص، عن عبد الله، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: "إن المرأة عورة، فإذا خرجت استشرفها الشيطان، وأقرب ما تكون بروْحَة ربها وهي في قَعْر بيتها".

ورواه الترمذي، عن بُنْدَار، عن عمرو بن عاصم، به نحوه.

وروى البزار بإسناده المتقدم، وأبو داود أيضاً، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: "صلاة المرأة في مَخْدعِها أفضل من صلاتها في بيتها، وصلاتها في بيتها أفضل من صلاتها في حجرتها" وهذا إسناد جيد".

Tuesday 14 December 2021

چھ کلموں کاثبوت

 چھ کلموں میں سے شروع کے چار کلموں کے الفاظ تو بعینہا احادیث سے ثابت ہیں اور باقی دو کلموں کے الفاظ مختلف احادیث سے لیے گئے ہیں۔ جب عقائد کی تدوین ہوئی تو اس زمانہ میں ان کے نام اور مروجہ ترتیب شروع ہوئی، تاکہ عوام کے عقائد درست ہوں اور اُن کو یاد کرکے ان مواقع میں پڑھنا آسان ہوجائے جن مواقع پر پڑھنے کی نبی کریم a نے تعلیم دی اور اس پر جو فضائل بیان کیے ہیں وہ بھی حاصل ہوجائیں۔ تاہم ان میں سے پہلے چار کلموں کے الفاظ تو بعینہا احادیث میں موجود ہیں، پانچویں اور چھٹے کلمے کے الفاظ مختلف احادیث میں متفرق موجود ہیں اور ان کے الفاظ کو ان مختلف ادعیہ سے لیا گیا ہے جو کہ احادیث میں موجود ہیں۔ پہلا کلمہ ’’کنز العمال‘‘ اور ’’مستدرک حاکم‘‘ میں، دوسرا کلمہ ’’ابن ماجہ‘‘ اور ’’بخاری‘‘ میں ، تیسرا کلمہ ’’مصنف ابن ابی شیبہ‘‘ اور ’’ابن ماجہ‘‘ میں، چوتھا کلمہ ’’مصنف عبد الرزاق الصنعانی‘‘، ’’مصنف ابن ابی شیبہ‘‘اور ’’ سنن ترمذی‘‘ میں موجود ہے اور بقیہ دو کلموںکے الفاظ متفرق مذکور ہیں، احادیث ملاحظہ ہوں: پہلا کلمہ کنز العمال میں ہے: ’’لما خلق اللّٰہ جنۃَ عدن وہی أول ما خلق اللّٰہ قال لہا: تکلمی ، قالت لا إلٰہ إلا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ قد أفلح المؤمنون قد أفلح من دخل فیھا و شقی من دخل النار۔‘‘              (کنز العمال،ج:۱،ص:۵۵، باب فی فضل الشہادتین، ط:موسسۃ الرسالۃ، بیروت) وفیہ أیضاً: ’’مکتوب علی العرش لا إلٰہ إلا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ لا أعذب من قالہا۔‘‘           (کنز العمال، ج:۱،ص:۵۷، باب فی فضل الشہادتین،ط:موسسۃ الرسالۃ، بیروت) ’’المستدرک علی الصحیحین للحاکم‘‘ میں ہے: ’’حدثنا علی بن حمشاذ العدل إملائً ثنا ہارون بن العباس الہاشمی، ثنا جندل بن والق، ثنا عمروبن أوس الأنصاری، ثنا سعید بن أبی عروبۃ عن قتادۃ، عن سعید بن المسیب عن ابن عباس رضی اللّٰہ عنہ قال:’’ أوحی اللّٰہ إلٰی عیسی علیہ السلام یا عیسی! آمن بمحمد وأمر من أدرکہ من أمتک أن یؤمنوا بہٖ فلولا محمد ما خلقت آدم ولولا محمد ما خلقت الجنۃ ولا النار ولقد خلقت العرش علی الماء فاضطرب فکتبت علیہ لا إلٰہ إلا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ فسکن۔‘‘ ہٰذا حدیث صحیح الإسناد۔‘‘                  (المستدرک علی الصحیحین للحاکم، ج:۲، ص:۶۷۱، حدیث:۴۲۲۷، دار الکتب العلمیہ بیروت) دوسرا کلمہ ابن ماجہ میں ہے: ’’حدثنا موسٰی بن عبد الرحمٰن قال: حدثنا الحسین بن علی ویزید بن الحباب ’’ح‘‘ وحدثنا محمد بن یحیٰی قال: حدثنا أبو نعیم قالوا: حدثنا عمرو بن عبد اللّٰہ بن وہب أبو سلیمان النخعیؒ، قال حدثنی زید العمی عن أنس بن مالکؓ، عن النبی a قال: من توضأ فأحسن الوضوئ، ثم قال ثلٰث مرات: أشہد أن لا إلٰہ إلا اللّٰہ وحدہٗ لاشریک لہٗ وأشہد أن محمدا عبدہٗ ورسولہٗ ، فتح لہٗ ثمانیۃ أبواب الجنۃ، من أیہا شاء دخل۔‘‘     (ابن ماجہ ، ج:۱،ص: ۱۵۹، حدیث:۴۶۹، دار احیاء الکتب العربیہ) بخاری شریف میں ہے: ’’حدثنا مسدد قال حدثنا یحی عن الأعمش، حدثنی شقیق عن عبد اللّٰہ، قال کنا إذا کنا مع النبی a فی الصلاۃ، قلنا: السلام علٰی اللّٰہ من عبادہٖ، السلام علٰی فلان وفلان فقال النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم: لاتقولوا السلام علی اللّٰہ فإن اللّٰہ ہوالسلام، ولکن قولوا: التحیات للّٰہ والصلوات والطیبات، السلام علیک أیہا النبی ورحمۃ اللّٰہ وبرکاتہ، السلام علینا وعلٰی عباد اللّٰہ الصالحین، فإنکم إذا قلتم أصاب کل عبد فی السماء أو بین السماء والأرض أشہد أن لا إلہ إلا اللّٰہ وأشہد أن محمدا عبدہٗ ورسولہٗ ، ثم یتخیر من الدعاء أعجبہ إلیہ فیدعو۔‘‘              (بخاری شریف، ج:۱، ص:۱۶۷، حدیث:۸۳۵، باب ما یتخیر الدعاء بعد التشہد، دار طوق النجاۃ) تیسرا کلمہ مصنف ابن ابی شیبہ میں ہے: ’’حدثنا أبو أسامۃ عن مسعر عن إبراہیم السکسی عن عبد اللّٰہ بن أبی أوفٰیؓ قال: أتٰی رجلٌ النبی a فذکر أنہٗ لایستطیع أن یأخذ من القرآن وسألہٗ شیئاً یجزئ من القرآن فقال لہ: ’’قل سبحان اللّٰہ والحمد للّٰہ ولا إلٰہ إلا اللّٰہ واللّٰہ اکبر ولاحول ولاقوۃ إلا باللّٰہ۔‘‘         (مصنف ابن ابی شیبہ،ج:۶،ص:۵۴،حدیث:۲۹۴۱۹، مکتبۃ الرشد، ریاض) سنن ابن ماجہ میں ہے: ’’حدثنا عبد الرحمن بن إبراہیم الدمشقی قال: حدثنا الولید بن مسلم قال: حدثنا الأوزاعی قال: حدثنی عمیر بن ہانئی قال حدثنی جنادۃ بن أبی أمیۃ عن عبادۃ بن الصامتؓ قال: قال رسول اللّٰہ a: ’’من تعار من اللیل فقال حین یتقیظ لا إلٰہ إلا اللّٰہ وحدہٗ لاشریک لہٗ لہ الملک ولہٗ الحمد وہو علٰی کل شیئ قدیر، سبحان اللّٰہ والحمد للّٰہ ولا إلٰہ إلا اللّٰہ واللّٰہ أکبر ولاحول ولاقوۃ إلا باللّٰہ العلی العظیم، ثم دعا رب اغفرلی غفر لہٗ قال الولید: أو قال: دعا استجیب لہٗ فإن قام فتوضأ ثم صلی قبلت صلا تہٗ۔‘‘         (سنن ابن ماجہ،ج:۲،ص:۱۲۷۶، حدیث:۳۸۷۸، دار احیاء الکتب العربیہ) چوتھا کلمہ ’’مصنف عبد الرزاق الصنعانی‘‘ میں ہے: ’’عن إسماعیل بن عیاش قال: أخبرنی عبد اللّٰہ بن عبد الرحمٰن بن أبی حسین ولیث عن شہر بن حوشب عن عبد الرحمٰن بن غنم عن رسول اللّٰہ a أنہٗ قال: ’’من قال دبر کل صلاۃ‘‘ قال ابن أبی حسین فی حدیثہٖ: وہو ثانی رجلہ قبل أن یتکلم ’’ لا إلٰہ إلا اللّٰہ وحدہ لاشریک لہٗ، لہ الملک ولہ الحمد، یحیٖی ویمیت بیدہ الخیر وہو علٰی کل شئ قدیر‘‘ عشر مرات کتب اللّٰہ لہٗ بکل واحدۃ عشر حسنات وحط عنہ عشر سیئات ورفع لہٗ عشر درجات۔‘‘                       (مصنف عبد الرزاق ،ج:۲،ص:۲۳۴،حدیث: ۳۱۹۲، المکتب الاسلامی، بیروت) ’’مصنف ابن ابی شیبہ‘‘ میں ہے: ’’أبوبکر قال: حدثنا وکیع، عن البصیر بن عدی، عن ابن أبی حسین قال: قال رسول اللّٰہ a: ’’أکبر دعائی ودعاء الأنبیاء قبلی بعرفۃ، لا إلٰہ إلا اللّٰہ وحدہٗ لاشریک لہٗ ، لہ الملک ولہ الحمد بیدہ الخیر یحیٖی ویمیت، وہو علٰی کل شئ قدیر۔‘‘           (مصنف ابن ابی شیبہ، ج:۳، ص:۳۸۲، حدیث:۱۵۱۳۶، مکتبۃ الرشد، ریاض) پانچواں کلمہ پانچویں کلمہ کے الفاظ یکجا تو موجود نہیں، البتہ متفرق جگہوں پر مذکور ہیں جس کی تفصیل یہ ہے، ’’بخاری شریف‘‘ میں ہے: ’’حدثنا ابو معمر حدثنا عبد الوارث حدثنا الحسین، حدثنا عبد اللّٰہ بن بریدۃ قال: حدثنی بشیر بن کعب العدوی قال: حدثنی شداد بن أوس رضی اللّٰہ عنہ عن النبی a ’’سید الاستغفار أن تقول: أللّٰہم أنت ربی لا إلٰہ إلا أنت خلقتنی وأنا عبدک وأنا علی عہدک ووعدک ما استطعت أعوذ بک من شر ما صنعت أبوء لک بنعمتک علی وأبوء لک بذنبی فاغفرلی، فإنہ لایغفر الذنوب إلا أنت۔‘‘          ( بخاری شریف،ج:۸،ص:۶۷، حدیث: ۶۳۰۶،باب افضل الاستغفار، دار طوق النجاۃ) ’’مصنف ابن ابی شیبہ‘‘ میں ہے: ’’حدثنا عیسٰی بن یونس، عن الأوزاعی، عن حسان بن عطیۃ عن شداد بن أوس، أنہٗ قال: احفظوا عنی ما أقول: سمعت رسول اللّٰہ a یقول:’’ إذا کنز الناس الذہب والفضۃ فاکنزوا ہذہ الکلمات، أللّٰہم إنی أسألک شکر نعمتک وأسألک حسن عبادتک، وأسألک قلبا سلیما وأسألک لسانا صادقا، وأسألک من خیر ما تعلم، وأعوذ بک من شر ما تعلم وأستغفرک لما تعلم، إنک أنت علام الغیوب۔‘‘                                (مصنف ابن ابی شیبہ،ج:۶،ص:۴۶،حدیث:۲۹۳۵۸، مکتبۃ الرشد، ریاض) ’’ہٰکذا فی الترمذی والنسائی: عن عمران بن حسین…قل: أللّٰہم اغفرلی ما أسررت وما أعلنت وما أخطأت وماتعمدت وما جہلت وما علمت۔‘‘                                            (۲/۱۲۵۶،حدیث:۳۸۲۴، دار احیاء الکتب العربیہ) سنن ابن ماجہ میں ہے: ’’حدثنا محمد بن الصباح قال: انبأنا جریر عن عاصم الأحول، عن أبی عثمان عن أبی موسٰی قال: سمعنی النبی a وأنا أقول: لاحول ولاقوۃ إلا باللّٰہ، قال: یا عبد اللّٰہ بن قیس! ألا أدلک علی کلمۃ من کنوز الجنۃ؟ قلت: بلٰی یا رسول اللّٰہ! قال: قل: ’’لاحول ولاقوۃ إلا باللّٰہ۔‘‘         (سنن ابن ماجہ ،ج:۲،ص:۱۲۵۶،حدیث:۳۸۲۴، داراحیاء الکتب العربیہ) چھٹا کلمہ  چھٹے کلمے کے الفاظ بھی متفرق طور پر احادیث میں موجود ہیں، تفصیل درج ذیل ہے، ’’الادب المفرد‘‘ میں ہے: ’’قال سمعت معقل بن یسار یقول: انطلقت مع أبی بکر الصدیقؓ إلی النبی a فقال: یا أبابکر! الشرک فیکم أخفی من دبیب النمل فقال أبوبکر: وہل الشرک إلا من جعل مع اللّٰہ إلٰہا آخر ، فقال النبی a: والذی نفسی بیدہ الشرک أخفٰی من دبیب النمل، ألا أدلک علی شیئ إذا قلتہٗ ذہب عنک قلیلہٗ وکثیرہٗ قال: قل :’’اللّٰہم إنی أعوذ بک أن أشرک بک وأنا أعلم وأستغفرک لما لا أعلم۔‘‘(الادب المفرد، ج:۱،ص:۲۵۰، باب فضل الدعائ، دارالبشائر الاسلامیۃ) ’’کنز العمال‘‘ میں ہے: ’’الصدیق رضی اللّٰہ عنہ عن معقل بن یسار … قل:’’ أللّٰہم إنی أعوذ بک أن أشرک بک وأنا أعلم وأستغفرک لمالا أعلم۔‘‘                  (کنز العمال،ج:۳،ص:۸۱۶،الباب الثانی فی الاختلاف المذموم،ط:مکتبۃ المدینۃ) ’’الادب المفرد‘‘ میں ہے: ’’قال حدثنی عبد الرحمٰن بن أبی بکرۃ أنہٗ قال لابنہٖ: یا أبت إنی أسمعک تدعو کل غداۃ ’’ أللّٰہم عافنی فی بدنی ، أللّٰہم عافنی فی سمعی … وتقول: ’’أللّٰہم إنی أعوذ بک من الکفر والفقر…الخ۔‘‘                       (الادب المفرد، ج:۱، ص:۲۴۴، باب الدعاء عند الکرب، دار البشائر الاسلامیۃ، بیروت) ’’المعجم الاوسط ‘‘ میں ہے: ’’عن عروۃ عن عائشۃؓ أن رسول اللّٰہ a کان یدعو فی الصلاۃ:’’ أللّٰہم إنی أعوذ بک من المأثم والمغرم ‘‘ فقالوا ما أکثر ما تستعیذ من المغرم فقال: إن الرجل إذ غرم حدث فکذب ووعد فأخلف۔‘‘   (المعجم الاوسط،ج:۵،ص:۳۹، باب من اسمہ عبد اللہ، دار الحرمین قاہرہ) ’’الدعاء للطبرانی‘‘ میں ہے: ’’عن علقمۃ عن عبد اللّٰہؓ قال: کان رسول اللّٰہ a إذا صلی أقبل علینا بوجہہٖ کالقمر، فیقول:’’ أللّٰہم إنی أعوذ بک من الہم والحزن والعجز والکسل والذل والصغار والفواحش ما ظہر منہا وبطن…الخ۔‘‘                     (الدعاء للطبرانی،ج:۱،ص:۲۱۰،باب القول عند الاذان، ط: دار الکتب العلمیۃ، بیروت) ’’المستدرک للحاکم‘‘ میں ہے: ’’عن ابن عباسؓ أنہ بینما ہو جالس عند رسول اللّٰہ a إذ جاء ہٗ علی بن أبی طالبؓ… ثم قل آخر ذلک:’’ أللّٰہم ارحمنی أن تکلف مالا یعیننی وارزقنی حسن النظر فیما یرضیک عنی…۔‘‘           (المستدرک للحاکم،ج:۱،ص:۳۱۵، بیرت)     

Monday 13 December 2021

وضوکے بعد کلمۂ شہادت پڑھنے کی فضیلت

 وضو  کے دوران سر کا مسح کرتے ہوئے تو کلمہ شہادت پڑھنے کا ذکر احادیث میں نہیں ہے، البتہ وضو سے فارغ ہونے کے بعدکلمۂ شہادت پڑھنے کی فضیلت حدیث میں وارد ہے، جیساکہ مشکاۃ المصابیح  میں ہے:

"عن عمر بن الخطاب رضي الله عنه قال: قال رسول اللہ صلی الله علیه و سلم: ما منکم من أحدٍ یتوضأ فیبلغ أو فلیسبغ الوضوء ثم یقول: أشهد أن لا إله إلا اللہ وحده لا شریك له وأشهد أن محمدًا عبده و رسوله إلا فتحت له أبواب الجنة الثمانیة. رواہ مسلم." (مشکاة:۳۹)

 حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم میں سے جو کوئی بھی وضو کرے اور کمال کے ساتھ (اچھی طرح)  وضو کرے، پھر کہے: أشهد أن لا إلٰه إلا اللّٰه .․․ تو اس کے لیے جنت کے آٹھوں دروازے کھول دیے جاتے ہیں۔

اور ابوداوٴد شریف میں "ثم رفع نظره إلى السماء ..." الخ یعنی وضو سے فارغ ہونے کے بعد نگاہ کو آسمان کی طرف اٹھائے،  پھر یہ دعا پڑھے۔

لہذا  وضو  سے فارغ ہونے کے بعد کلمہ شہادت پڑھنا  بدعت نہیں، لیکن مسح کے وقت کا ذکر حدیث میں نہیں ہے؛ لہذا سر کے مسح کے وقت کلمہ شہادت پڑھنے کے بجائے آخر میں   پڑھنا چاہیے، اگر  کوئی سر کے مسح کے وقت کلمۂ شہادت  پڑھنے کو لازم یا فضیلت کا باعث سمجھے  یا نہ پڑھنے کو قابلِ ملامت سمجھے تو یہ بدعت ہوگا۔

"قوله: والإتیان بالشهادتین بعده، ذکر الغزنوي: أنه یشیر بسبابته حین النظر إلی السماء."

(حاشية الطحطاوي علی مراقي الفلاح) 

Sunday 12 December 2021

کتابیہ سے نکاح کے شرائط

 مسلم مرد کا نکاح کسی مشرک عورت سے جائز نہیں، اگرکتابیہ یعنی یہودیہ یا نصرانیہ وغیرہ ہو تو اس سے  مسلم مرد کا نکاح دو شرطوں کے ساتھ ہو سکتا ہے:

(1)  وہ  صرف نام کی عیسائی/یہودی اور درحقیقت لامذہب دہریہ نہ ہو،بلکہ اپنے مذہبی اصول کوکم ازکم مانتی ہو، اگرچہ عمل میں خلاف بھی کرتی ہو، یعنی اپنے نبی پر ایمان رکھتی ہو اور اس پر نازل ہونے والی کتاب پر بھی ایمان رکھتی ہو، اگرچہ وہ توحید کی قائل نہ ہو۔

(2)  وہ اصل ہی یہودیہ نصرانیہ ہو، اسلام سے مرتدہوکر یہودیت یا نصرانیت اختیار نہ کی ہو۔

جب یہ دو شرطیں کسی کتابیہ عورت میں پائی جائیں  تو اس سے نکاح صحیح و منعقد ہوجاتا ہے، لیکن بلاضرورتِ شدیدہ اس سے نکاح کرنا مکروہ اور بہت مفاسد پر مشتمل ہے۔  آج کل کے پرفتن ماحول میں جب کہ برائی کا اثر قبول کرنے میں اضافہ روز افزوں ہے، اور عام طور پر حال یہ ہے کہ مرد کا اثر بیوی پر قائم ہونے کے بجائے شاطر لڑکیاں مردوں کو اپنا تابع دار بنالیتی ہیں، نیز اہلِ کتاب ماؤں کے فاسد اَثرات اولاد پر بھی بہت زیادہ پڑتے ہیں، اس لیے جواز کے باوجود اہلِ کتاب لڑکیوں سے نکاح نہ کرنے کا مشورہ دیا جاتا ہے، اس لیے حضرت عمرفاروق رضی اللہ عنہ نے اپنے عہدِ خلافت میں  مسلمانوں کو کتابیہ عورتوں کے نکاح سےمنع فرمادیاتھا۔

باقی یہ بات کہ  کیا اہلِ  کتاب ہونے کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ وہ لوگ اپنی کتاب پر صحیح طور پر ایمان و عمل رکھتے ہوں؟ تو اس کے جواب میں حضرت مولانا مفتی شفیع عثمانی صاحب معارف القرآن میں تحریر فرماتے ہیں :
” اب رہا یہ معاملہ کہ یہود و نصاریٰ کو اہلِ کتاب کہنے اور سمجھنے کے لیے کیا یہ شرط ہے کہ وہ صحیح طور پر اصلی تورات و انجیل پر عمل رکھتے ہوں؟  یا محرف تورات اور انجیل کا اتباع کرنے والے اور عیسیٰ و مریم (علیہما السلام) کو خدا کا شریک قرار دینے والے بھی اہلِ کتاب میں داخل ہیں،  سو قرآنِ کریم کی بے شمار تصریحات سے واضح ہے کہ اہلِ کتاب ہونے کے لیے صرف اتنی بات کافی ہے کہ وہ کسی آسمانی کتاب کے قائل ہوں اور اس کی اتباع کرنے کے دعوے دار ہوں۔ خواہ وہ اس کے اتباع میں کتنی گم راہیوں میں جا پڑے ہوں،  قرآنِ کریم نے جن کو اہلِ کتاب کا لقب دیا، انہیں کے بارے میں یہ بھی جابجا ارشاد فرمایا کہ یہ لوگ اپنی آسمانی کتابوں میں تحریف کرتے ہیں۔ {یُحَرِّفُوْنَ الْکَلِمَ عَنْ مَوَاضِعِه}  اور یہ بھی فرمایا کہ یہود نے حضرت عزیر (علیہ السلام) کو خدا کا بیٹا قرار دے دیا اور نصاریٰ نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو، {وَقَالَتِ الْیَهُوْدُ عُزَیْرُ نِ ابْنُ اللّٰهِ وَقَالَتِ النَّصٰری الْمَسِیْحُ ابْنُ اللّٰهِ}، ان حالات وصفات کے باوجود جب قرآن نے ان کو اہلِ کتاب قرار دیا تو معلوم ہوا کہ یہود و نصاریٰ جب تک یہودیت و نصرانیت کو بالکل نہ چھوڑ دیں وہ اہلِ کتاب میں داخل ہیں۔ خواہ وہ کتنے ہی عقائدِ فاسدہ اور اعمالِ سیئہ میں مبتلا ہوں۔ 
 امام جصاص نے ’’احکام القرآن‘‘  میں نقل کیا ہے کہ حضرت فاروق اعظم (رض) کے عہدِ خلافت میں آپ کے کسی عامل یا گورنر نے ایک خط لکھ کر یہ دریافت کیا کہ یہاں کچھ لوگ ایسے ہیں جو تورات پڑھتے ہیں اور یوم السبت یعنی ہفتہ کے دن کی تعظیم بھی یہود کی طرح کرتے ہیں، مگر قیامت پر ان کا ایمان نہیں، ایسے لوگوں کے ساتھ کیا معاملہ کیا جائے؟ حضرت فاروق اعظم (رض) نے تحریر فرمایا کہ وہ اہلِ کتاب ہی کا ایک فرقہ سمجھے جائیں گے۔
 صرف نام کے یہودی و نصرانی جو در حقیقت دہریے ہیں وہ اس میں داخل نہیں۔  آج کل یورپ کے عیسائی اور یہودیوں میں ایک بہت بڑی تعداد ایسے لوگوں کی بھی ہے جو اپنی مردم شماری کے اعتبار سے یہودی یا نصرانی کہلاتے ہیں مگر در حقیقت وہ خدا کے وجود اور کسی مذہب ہی کے قائل نہیں۔ نہ تورات و انجیل کو خدا کی کتاب مانتے ہیں اور نہ موسیٰ و عیسیٰ (علیہما السلام) کو اللہ کا نبی و پیغمبر تسلیم کرتے ہیں۔ یہ ظاہر ہے کہ وہ شخص مردم شماری کے نام کی وجہ سے اہلِ کتاب کے حکم میں داخل نہیں ہوسکتے۔ 
 نصاریٰ کے بارے میں جو حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے فرمایا کہ ان کا ذبیحہ حلال نہیں، اس کی وجہ یہ بتلائی کہ یہ لوگ دینِ نصرانیت میں سے بجز شراب نوشی کے اور کسی چیز کے قائل نہیں۔ ۔۔ ابنِ جوزی نے سندِ صحیح کے ساتھ حضرت علی (رض) کا یہ قول نقل کیا ہے کہ نصاری بنی تغلب کے ذبائح کو نہ کھاؤ۔ کیوں کہ انہوں نے مذہبِ نصرانیت میں سے شراب نوشی کے سوا کچھ نہیں لیا۔ امام شافعی نے بھی سند صحیح کے ساتھ یہ روایت نقل کی ہے۔(تفسیر مظہری 34، جلد ٣ مائدہ) ۔
 حضرت علی کرم اللہ وجہ کو بنی تغلب کے متعلق یہی معلومات تھیں کہ وہ بےدین ہیں نصرانی نہیں،  اگرچہ نصرانی کہلاتے ہیں،  اس لیے ان کے ذبیحہ سے منع فرمایا۔ جمہور صحابہ وتابعین کی تحقیق یہ تھی کہ یہ بھی عام نصرانیوں کی طرح ہیں،  بالکل دین کے منکر نہیں،  اس لیے انہوں نے ان کا ذبیحہ بھی حلال قرار دیا۔
’’وقال جمهور الأمة: إن ذبیحة کل نصراني حلال سواء کان من بني تغلب أو غیرهم وکذلک الیهود‘‘. (تفسیر قرطبی ص 78، جلد 6)
 اور جمہور امت کہتے ہیں کہ نصرانی کا ذیحہ حلال ہے، خواہ بنی تغلب میں سے ہو، یا ان کے سوا کسی دوسرے قبیلہ اور جماعت سے ہو، اسی طرح ہر یہودی کا ذبیحہ بھی حلال ہے۔ 
 خلاصہ یہ ہے کہ جن نصرانیوں کے متعلق یہ بات یقینی طور پر معلوم ہوجائے کہ وہ خدا کے وجود ہی کو نہیں مانتے یا حضرت موسیٰ و عیسیٰ (علیہما السلام) کو اللہ کا نبی نہیں مانتے،  وہ اہلِ کتاب کے حکم میں نہیں ہیں۔ “ ( سورۂ مائدہ آیت نمبر 5)

سابق مفتی اعظم پاکستان مفتی ولی حسن صاحب رحمہ اللہ ایک سوال کے جواب میں تحریر فرماتے ہیں:

’’اہلِ کتاب کی لڑکی اگر موجودہ انجیل پر ایمان رکھتی ہے خواہ وہ محرف ہو یا حضرت  عیسیٰ کو نبی مانتی ہو خواہ وہ شرک کرے، یہی حال یہودی لڑکی کا ہے تو ان سے مسلمان کا نکاح جائز ہے، تاہم بہتر نہیں ہے، بصورتِ دیگر اگر یہودی یا نصرانی لڑکی دہریہ ہے،  اپنے نبی یا آسمانی کتاب کو نہیں مانتی تو اس سے مسلمان کا نکاح ناجائز و حرام ہے۔ فقط واللہ تعالیٰ اعلم

کتبہ: ولی حسن (6 رجب المرجب 1399ھ)‘‘ 

"عن نافع عن ابن عمر أنه کان یکره نکاح نساء أهل الکتاب ولایری بطعامهن بأسًا". (المصنف لابن أبي شیبة ۳؍۴۶۳ رقم: ۱۶۱۵۹ دار الکتب العلمیة بیروت)

"عن ابن عمر أنه کره نکاح نساء أهل الکتاب وقرأ: {وَلَاتَنْکِحُوْا الْمُشْرِکٰتِ حَتّٰی یُؤْمِنَّ} [البقرة: ۲۲۱]". (المصنف لابن أبي شیبة ۳؍۴۶۳ رقم: ۱۶۱۶۰ بیروت)

الدرالمختار میں ہے:

"(وصح نكاح كتابية)، وإن كره تنزيهاً (مؤمنة بنبي) مرسل (مقرة بكتاب) منزل، وإن اعتقدوا المسيح إلهاً". (ج:۳،ص:۴۵،ط :سعید) 

وفی الشامیۃ:

"(قوله: مقرة بكتاب) في النهر عن الزيلعي: واعلم أن من اعتقد ديناً سماوياً وله كتاب منزل كصحف إبراهيم وشيث وزبور داود فهو من أهل الكتاب؛ فتجوز مناكحتهم وأكل ذبائحهم. (قوله: على المذهب) أي خلافاً لما في المستصفى من تقييد الحل بأن لايعتقدوا ذلك، ويوافقه ما في مبسوط شيخ الإسلام: يجب أن لايأكلوا ذبائح أهل الكتاب إذا اعتقدوا أن المسيح إله، وأن عزيراً إله، ولايتزوجوا نساءهم، قيل: وعليه الفتوى، ولكن بالنظر إلى الدليل ينبغي أنه يجوز الأكل والتزوج. اهـ.
قال في البحر: وحاصله أن المذهب الإطلاق لما ذكره شمس الأئمة في المبسوط من أن ذبيحة النصراني حلال مطلقاً سواء قال بثالث ثلاثة أو لا؛ لإطلاق الكتاب هنا، والدليل ورجحه في فتح القدير بأن القائل بذلك طائفتان من اليهود والنصارى انقرضوا لا كلهم مع أن مطلق لفظ الشرك إذا ذكر في لسان الشرع لاينصرف إلى أهل الكتاب، وإن صح لغةً في طائفة أو طوائف؛ لما عهد من إرادته به من عبد مع الله تعالى غيره ممن لايدعي اتباع نبي وكتاب إلى آخر ما ذكره. اهـ".
   (ج:۳،ص:۴۵،ط:سعید)

بیع مرابحہ

 مرابحہ اپنی اصل کے اعتبار سے خرید و فروخت ( بیعکیایک قسم ہے۔ وہ خصوصیت جو اسے خرید وفروخت(بیعکیباقی اقسام سے ممتاز کرتی ہے، وہ یہ ہے کہ مرابحہ میں فروخت کرنے والا(بائع) صراحتاً خریدار کو یہ بتاتا ہے کہ اُسکی اُس (بیچی جانے والی) چیز پر کتنی لاگت آئی ہے اور وہ اس لاگت پر کتنا نفع کماناچاہتا ہے

بیع تولیہ

 کسی  چیز کو اس  کی قیمتِ  خرید  پر  نفع کے بغیر فروخت کرنا اصطلاحِ  فقہ میں "بیعِ تولیہ"  کہلاتا ہے۔

التعریفات للجرجانی میں ہے:

"التولية: هي بيع المشتري بثمنه بلا فضل."

( باب التاء، ص: ٧١، ط: دار الكتب العلمية)