https://follow.it/amir-samdani?action=followPub

Sunday 10 July 2022

ذبح کاطریقہ اوردعاء

1۔ذبح کا صحیح طریقہ یہ ہے کہ جانور کو قبلہ رو لٹانے کے بعد ’’بسم اللہ، و اللہ اکبر‘‘ کہتے ہوئے تیز دھار چھرے سے جانور کے حلق اور لبہ کے درمیان ذبح کیا جائے، اور گردن کو پورا کاٹ کر الگ نہ کیا جائے، نہ ہی حرام مغز تک کاٹا جائے، بلکہ ’’حلقوم‘‘ اور ’’مری‘‘ یعنی سانس کی نالی اور اس کے اطراف کی خون کی رگیں جنہیں ’’اَوداج‘‘ کہا جاتا ہے کاٹ دی جائیں، اس طرح جانور کو شدید تکلیف بھی نہیں ہوتی اور سارا نجس خون بھی نکل جاتا ہے، اس طریقہ کے علاوہ باقی تمام طریقوں میں نہ ہی پورا خون نکلتا ہے اور جانور کو بلا ضرورت شدید تکلیف بھی ہوتی ہے۔ جانور کو قبلہ رخ لٹاتے ہوئے جانور کی بائیں کروٹ پر لٹانا پسندیدہ ہے، (یعنی ہمارے ملک میں جانور کی سر والی طرف جنوب میں اور دم والی جانب شمال میں ہو)، تاکہ دائیں ہاتھ سے چھری چلانے میں سہولت رہے۔ "عن أنس، قال: «ضحى النبي صلى الله عليه وسلم بكبشين أملحين أقرنين، ذبحهما بيده، وسمى وكبر، ووضع رجله على صفاحهما»".( صحيح مسلم:3/ 1556) ترجمہ: حضرت انس ؓ فرماتے ہیں کہ نبی کریم ﷺنے دو چتکبرے سینگوں والے مینڈھوں کی قربانی کی، آپ ﷺ نے ان دونوں کو اپنے ہاتھ سے ذبح کیا ،اور ذبح کرتے وقت ’’بسم اللہ ، اللہ اکبر‘‘ پڑھا ،اور ان کے پہلو پر اپنا قدم مبارک رکھا ۔ ’’عن عائشة: أن رسول الله صلى الله عليه وسلم أمر بكبش أقرن يطأ في سواد، ويبرك في سواد، وينظر في سواد، فأتي به ليضحي به، فقال لها: «يا عائشة، هلمي المدية»، ثم قال: «اشحذيها بحجر»، ففعلت: ثم أخذها، وأخذ الكبش فأضجعه، ثم ذبحه، ثم قال: «باسم الله، اللهم تقبل من محمد، وآل محمد، ومن أمة محمد، ثم ضحى به»‘‘. ( صحيح مسلم:3/ 1557) ترجمہ: ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک سینگوں والا مینڈھا لانے کا حکم دیا جو سیاہی میں چلتا ہو، سیاہی میں بیٹھتا ہو اور سیاہی میں دیکھتا ہو (یعنی پاؤں، پیٹ اور آنکھیں سیاہ ہوں)۔ پھر ایک ایسا مینڈھا قربانی کے لیے لایا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اے عائشہ! چھری لاؤ۔ پھر فرمایا کہ اس کو پتھر سے تیز کر و ، تو میں نے تیز کرکے دی۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے چھری لی، مینڈھے کو پکڑا، اس کو لٹایا، پھر ذبح کرتے وقت فرمایا کہ ’’بسم اللہ‘‘، اے اللہ! محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کی طرف سے اور محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کی آل کی طرف سے اور محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کی امت کی طرف سے اس کو قبول کر، پھر اس کی قربانی کی۔ فتاوی ہندیہ میں ہے: "أَمَّا الِاخْتِيَارِيَّةُ، فَرُكْنُهَا الذَّبْحُ فِيمَا يُذْبَحُ مِنْ الشَّاةِ وَالْبَقَرِ، وَالنَّحْرُ فِيمَا يُنْحَرُ وَهُوَ الْإِبِلُ عِنْدَ الْقُدْرَةِ عَلَى الذَّبْحِ وَالنَّحْرِ، وَلَايَحِلُّ بِدُونِ الذَّبْحِ أَوِالنَّحْرِ، وَالذَّبْحِ هُوَ فَرْيُ الْأَوْدَاجِ وَمَحَلُّهُ مَا بَيْنَ اللَّبَّةِ وَاللَّحْيَيْنِ، وَالنَّحْرُ فَرْيُ الْأَوْدَاجِ وَمَحَلُّهُ آخِرُ الْحَلْقِ، وَلَوْ نَحَرَ مَا يُذْبَحُ أَوْ ذَبَحَ مَا يُنْحَرُ يَحِلُّ لِوُجُودِ فَرْيِ الْأَوْدَاجِ لَكِنَّهُ يُكْرَهُ لِأَنَّ السُّنَّةَ فِي الْإِبِلِ النَّحْرُ وَفِي غَيْرِهَا الذَّبْحُ، كَذَا فِي الْبَدَائِعِ ... وَالْعُرُوقُ الَّتِي تُقْطَعُ فِي الذَّكَاةِ أَرْبَعَةٌ: الْحُلْقُومُ وَهُوَ مَجْرَى النَّفَسِ، وَالْمَرِيءُ وَهُوَ مَجْرَى الطَّعَامِ، وَالْوَدَجَانِ وَهُمَا عِرْقَانِ فِي جَانِبَيْ الرَّقَبَةِ يَجْرِي فِيهَا الدَّمُ، فَإِنْ قُطِعَ كُلُّ الْأَرْبَعَةِ حَلَّتْ الذَّبِيحَةُ، وَإِنْ قُطِعَ أَكْثَرُهَا فَكَذَلِكَ عِنْدَ أَبِي حَنِيفَةَ - رَحِمَهُ اللَّهُ تَعَالَى -، وَقَالَا: لَا بُدَّ مِنْ قَطْعِ الْحُلْقُومِ وَالْمَرِيءِ وَأَحَدِ الْوَدَجَيْنِ، وَالصَّحِيحُ قَوْلُ أَبِي حَنِيفَةَ - رَحِمَهُ اللَّهُ تَعَالَى - لِمَا أَنَّ لِلْأَكْثَرِ حُكْمَ الْكُلِّ، كَذَا فِي الْمُضْمَرَاتِ". (كِتَابُ الذَّبَائِحِ وَفِيهِ ثَلَاثَةُ أَبْوَابٍ، الْبَابُ الْأَوَّلُ فِي رُكْنِهِ وَشَرَائِطِهِ وَحُكْمِهِ وَأَنْوَاعِهِ، ٥ / ٢٨٥ - ٢٨٧) 2۔ جب قربانی کا جانور قبلہ رخ لٹائے تو پہلے درج ذیل آیت پڑھنا بہتر ہے: "إِنِّي وَجَّهْتُ وَجْهِيَ لِلَّذِي فَطَرَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ حَنِيفًا ۖ وَمَا أَنَا مِنَ الْمُشْرِكِينَ، إِنَّ صَلَاتِي وَنُسُكِي وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِي لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ". اور ذبح کرنے سے پہلے درج ذیل دعا اگر یاد ہو تو پڑھ لے: "اللّٰهُم َّمِنْكَ وَ لَكَ" پھر ’’بسم اللہ اللہ اکبر‘‘ کہہ کر ذبح کرے ، اور ذبح کرنے کے بعد اگر درج ذیل دعا یاد ہو تو پڑھ لے: "اَللّٰهُمَّ تَقَبَّلْهُ مِنِّيْ كَمَا تَقَبَّلْتَ مِنْ حَبِيْبِكَ مُحَمَّدٍ وَ خَلِيْلِكَ إبْرَاهِيْمَ عليهما السلام". اگر کسی اور کی طرف سے ذبح کر رہا ہو تو "مِنِّيْ" کی جگہ " مِنْ " کے بعد اس شخص کا نام لے لے۔

Thursday 7 July 2022

ایک گھرمیں کئ افراد صاحب نصاب ہوں توسب کی طرف سے الگ الگ قربانی لازم ہے یاایک ہی کافی ہے

ہر صاحبِ نصاب عاقل بالغ مسلمان کے ذمہ قربانی کرنا واجب ہے ، اگر ایک گھر میں متعدد صاحبِ نصاب افراد ہوں تو ایک قربانی سارے گھر والوں کی طرف سے کافی نہیں ہوگی، بلکہ گھر میں رہنے والے ہر صاحبِ نصاب شخص پر الگ الگ قربانی کرنا لازم ہوگی، کیوں کہ حدیث شریف میں آتا ہے کہ جو شخص صاحبِ حیثیت ہونے کے باوجود قربانی نہ کرے وہ ہماری عید گاہ کے قریب بھی نہ آئے، اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ ہر صاحبِ نصاب پر مستقل علیحدہ قربانی کرنا واجب ہے۔ دوسری وجہ یہ بھی ہے کہ قربانی ایک عبادت ہے، لہٰذا دیگر عبادات (نماز ، روزہ، حج، زکاۃ ) کی طرح قربانی بھی ہر مکلف کے ذمہ الگ الگ واجب ہوگی۔ اس کے علاوہ رسول اللہ ﷺ کا عمل مبارک بھی یہ تھا کہ آپ ﷺ اپنی قربانی الگ فرمایا کرتے تھے اور ازواجِ مطہرات کی طرف سے الگ قربانی فرمایا کرتے تھے، اور آپ ﷺ کی صاحب زادی حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کی قربانی مستقل طور پر ہوتی تھی، چنانچہ اس سے بھی پتا چلتا ہے کہ ایک قربانی سارے گھر والوں کی طرف سے کافی نہیں ہے۔ باقی ترمذی شریف میں ایک روایت میں اس بات کا ذکر ہے کہ حضورِ اقدس ﷺ کے زمانے میں ایک شخص اپنی طرف سے اور اپنے گھر والوں کی طرف سے ایک بکری کی قربانی کرتا تھا اور اسی بکری سے خود بھی کھاتا اور دوسروں کو بھی کھلاتا تھا، چنانچہ اس حدیث کی وجہ سے امام مالک رحمہ اللہ اور امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ یہ فرماتے ہیں کہ ایک بکری ایک آدمی کے پورے گھر والوں کی طرف سے کافی ہے، حتیٰ کہ امام مالک رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اگر ایک گھر میں کئی صاحب نصاب افراد ہوں تو ان میں سے ہر ایک کی طرف سے قربانی کرنے کی ضرورت نہیں ہے، بلکہ اگر ایک بکری کی قربانی کردی جائے تو سب کی طرف سے کافی ہوجائے گی، بشرطیکہ وہ سب آپس میں رشتہ دار ہوں اور ایک ہی گھر میں رہتے ہوں۔ لیکن امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے نزدیک یہ حدیث ثواب میں شرکت پر محمول ہے، یعنی اس حدیث سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ اگر کوئی آدمی اپنی طرف سے ایک بکری کی قربانی کرے اور اس کے ثواب میں اپنے ساتھ سارے گھر والوں کو شریک کر لے تو یہ جائز ہے، اس کی نظیر یہ ہے کہ ایک مرتبہ رسول اللہ ﷺ نے ایک مینڈھا اپنی طرف سے قربان فرمایا اور دوسرا مینڈھا قربان کر کے فرمایا : ’’ هذا عن من لم یضح من أمتي ‘‘ یعنی میں یہ قربانی اپنی امت کے ان لوگوں کی طرف سے کر رہا ہوں جو قربانی نہ کرسکیں، لہٰذا جس طرح اس حدیث سے یہ مطلب لینا قطعاً درست نہیں ہوگا کہ چوں کہ آپ ﷺ نے اپنی امت کی طرف سے ایک مینڈھا قربان فرمادیا؛ اس لیے اب امت کے ذمہ سے قربانی ساقط ہوگئی، بلکہ مطلب یہ ہوگا کہ آپﷺ نے ثواب میں ساری امت کو اپنے ساتھ شریک کرلیا۔ اسی طرح ترمذی شریف میں مذکور حدیث سے بھی یہ مطلب لینا درست نہیں کہ ایک صاحب نصاب آدمی ایک بکری کی قربانی اپنی طرف سے اور گھر کے دیگر صاحب نصاب افراد کی طرف سے کرتا تھا اور سب کے ذمہ سے واجب قربانی ساقط ہوجاتی تھی، بلکہ حدیث شریف کا صحیح کا مطلب یہ ہے کہ حضور ﷺ کے زمانہ میں غربت عام ہونے کی وجہ سے بعض اوقات ایک گھر کے اندر ایک ہی شخص صاحبِ نصاب ہوتا تھا، اس وجہ سے پورے گھر میں ایک ہی شخص کے ذمہ قربانی واجب ہوتی تھی، باقی لوگوں کے ذمہ صاحبِ نصاب نہ ہونے کی وجہ سے قربانی واجب ہی نہ ہوتی تھی؛ اس لیے پورے گھر میں سے صرف ایک ہی آدمی قربانی کیا کرتا تھا، لیکن قربانی کرنے والا اپنے گھر کے تمام افراد کو اس قربانی کے ثواب میں شریک کرلیتا تھا۔ اس کے علاوہ حنفیہ یہ بھی فرماتے ہیں کہ اگر ایک بکری پورے گھر والوں کی طرف سے کافی ہوتی تو جن حدیثوں میں بڑے جانور (گائے، اونٹ، وغیرہ) کو سات کی طرف سے متعین کیا گیا ہے، اس کے کیا معنی ہوں گے؟ کیوں کہ نصوص کی روشنی میں یہ بات متفق علیہ ہے کہ ایک بکری گائے کے ساتویں حصے کے برابر ہے، لہٰذا اگر ایک گائے میں آٹھ آدمی شریک ہوجائیں تو بمقتضائے تحدید ’’ البقرة عن سبعة ‘‘ کسی کی بھی قربانی جائز نہیں ہوگی، ورنہ تحدید بے کار ہو جائے گی ، جب کہ اگر ایک گھر میں مثلاً دس افراد صاحبِ نصاب ہوں تب بھی ایک بکری گھر کے تمام دس افراد کی طرف سے کافی ہوجائے اور سب کی قربانی ادا ہو جائے تو یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ ایک بکری تو دس افراد کی طرف سے کافی ہو جائے اور ایک گائے آٹھ افراد کی طرف سے کافی نہ ہو،اور اگر یہ کہا جائے کہ گائے کا ساتواں حصہ سارے گھر والوں کی طرف سے کافی ہوجائے گا تو پھر تو ایک گائے کے اندر صرف سات افراد نہیں بلکہ ساٹھ، ستر افراد کی قربانی ہو سکے گی جو کہ واضح طور پر نصوص کے خلاف ہے۔ خلاصہ یہ ہے کہ گھر میں متعدد صاحبِ نصاب افراد ہونے کی صورت میں تمام گھر والوں کی طرف سے ایک قربانی کرنا کافی نہیں ہے، بلکہ گھر کے ہر صاحبِ نصاب فرد پر اپنی اپنی قربانی کرنا واجب اور لازم ہے، گھر کے کسی ایک فرد کے قربانی کرنے سے باقی افراد کے ذمہ سے واجب قربانی ساقط نہیں ہوگی۔ سنن الترمذي ت شاكر (4/ 89): "حدثنا قتيبة قال: حدثنا مالك بن أنس، عن أبي الزبير، عن جابر قال: «نحرنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم بالحديبية البدنة عن سبعة، والبقرة عن سبعة». هذا حديث حسن صحيح، والعمل على هذا عند أهل العلم من أصحاب النبي صلى الله عليه وسلم وغيرهم، وهو قول سفيان الثوري، [ص:90] وابن المبارك، والشافعي، وأحمد". سنن الترمذي ت شاكر (4/ 91): "حدثنا يحيى بن موسى قال: حدثنا أبو بكر الحنفي قال: حدثنا الضحاك بن عثمان قال: حدثني عمارة بن عبد الله قال: سمعت عطاء بن يسار يقول: سألت أبا أيوب الأنصاري: كيف كانت الضحايا على عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم؟ فقال: «كان الرجل يضحي بالشاة عنه وعن أهل بيته، فيأكلون ويطعمون حتى تباهى الناس، فصارت كما ترى». هذا حديث حسن صحيح، وعمارة بن عبد الله مديني، وقد روى عنه مالك بن أنس، والعمل على هذا عند بعض أهل العلم، وهو قول أحمد، وإسحاق، واحتجا بحديث النبي صلى الله عليه وسلم أنه ضحى بكبش، فقال: «هذا عمن لم يضح من أمتي». وقال بعض أهل العلم: لا تجزي الشاة إلاعن نفس واحدة، وهو قول عبد الله بن المبارك، وغيره من أهل العلم". سنن الترمذي ت شاكر (4/ 100): "عن جابر بن عبد الله قال: شهدت مع النبي صلى الله عليه وسلم الأضحى بالمصلى، فلما قضى خطبته نزل عن منبره، فأتي بكبش، فذبحه رسول الله صلى الله عليه وسلم بيده، وقال: «بسم الله، والله أكبر، هذا عني وعمن لم يضح من أمتي»". سنن ابن ماجه (2/ 1044): "عن أبي هريرة، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: «من كان له سعة، ولم يضح، فلا يقربن مصلانا»". سنن ابن ماجه (2/ 1047): عن ابن عباس، قال: «كنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم في سفر، فحضر الأضحى، فاشتركنا في الجزور، عن عشرة، والبقرة، عن سبعة»". سنن ابن ماجه (2/ 1047): " عن أبي هريرة، قال: «ذبح رسول الله صلى الله عليه وسلم، عمن اعتمر من نسائه في حجة الوداع بقرة بينهن»". بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (5/ 62): "(وأما) الذي يجب على الغني دون الفقير، فما يجب من غير نذر ولا شراء للأضحية بل شكراً لنعمة الحياة وإحياء لميراث الخليل عليه الصلاة والسلام حين أمره الله تعالى عز اسمه بذبح الكبش في هذه الأيام فداء عن ولده ومطية على الصراط ومغفرة للذنوب وتكفيراً للخطايا على ما نطقت بذلك الأحاديث، وهذا قول أبي حنيفة ومحمد وزفر والحسن بن زياد وإحدى الروايتين عن أبي يوسف - رحمهم الله - ... (ولنا) قوله عز وجل ﴿فصل لربك وانحر﴾ [الكوثر: 2] قيل في التفسير: صل صلاة العيد وانحر البدن بعدها، وقيل: صل الصبح بجمع وانحر بمنى ومطلق الأمر للوجوب في حق العمل ومتى وجب على النبي عليه الصلاة والسلام يجب على الأمة؛ لأنه قدوة للأمة، فإن قيل: قد قيل في بعض وجوه التأويل لقوله عز شأنه: ﴿وانحر﴾ [الكوثر: 2] أي ضع يديك على نحرك في الصلاة، وقيل: استقبل القبلة بنحرك في الصلاة، فالجواب أن الحمل على الأول أولى؛ لأنه حمل اللفظ على فائدة جديدة، والحمل على الثاني حمل على التكرار؛ لأن وضع اليد على النحر من أفعال الصلاة عندكم يتعلق به كمال الصلاة، واستقبال القبلة من شرائط الصلاة لا وجود للصلاة شرعاً بدونه فيدخل تحت الأمر بالصلاة، فكان الأمر بالصلاة أمراً به فحمل قوله عز شأنه " وانحر " عليه يكون تكرارا والحمل على ما قلناه يكون حملا على فائدة جديدة فكان أولى. وروي عن النبي عليه الصلاة والسلام أنه قال: «ضحوا فإنها سنة أبيكم إبراهيم، ـ عليه الصلاة والسلام ـ ». أمر عليه الصلاة والسلام بالتضحية، والأمر المطلق عن القرينة يقتضي الوجوب في حق العمل، وروي عنه عليه الصلاة والسلام أنه قال: «على أهل كل بيت في كل عام أضحاة وعتيرة» و " على " كلمة إيجاب، ثم نسخت العتيرة فثبتت الأضحاة، وروي عنه عليه الصلاة والسلام أنه قال: «من لم يضح فلا يقربن مصلانا»، وهذا خرج مخرج الوعيد على ترك الأضحية، ولا وعيد إلا بترك الواجب، وقال عليه الصلاة والسلام : «من ذبح قبل الصلاة فليعد أضحيته ومن لم يذبح فليذبح بسم الله». أمر عليه الصلاة والسلام بذبح الأضحية وإعادتها إذا ذبحت قبل الصلاة، وكل ذلك دليل الوجوب؛ ولأن إراقة الدم قربة والوجوب هو القربة في القربات. (وأما) الحديث فنقول بموجبه: إن الأضحية ليست بمكتوبة علينا، ولكنها واجبة، وفرق ما بين الواجب والفرض كفرق ما بين السماء والأرض على ما عرف في أصول الفقه، وقوله: " هي لكم سنة " إن ثبت لا ينفي الوجوب؛ إذ السنة تنبئ عن الطريقة أو السيرة، وكل ذلك لا ينفي الوجوب". بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (5/ 70): "وأما قدره فلا يجوز الشاة والمعز إلا عن واحد وإن كانت عظيمةً سمينةً تساوي شاتين مما يجوز أن يضحى بهما؛ لأن القياس في الإبل والبقر أن لا يجوز فيهما الاشتراك؛ لأن القربة في هذا الباب إراقة الدم وأنها لا تحتمل التجزئة؛ لأنها ذبح واحد، وإنما عرفنا جواز ذلك بالخبر فبقي الأمر في الغنم على أصل القياس. فإن قيل: أليس أنه روي أن رسول الله صلى الله عليه وسلم ضحى بكبشين أملحين أحدهما عن نفسه والآخر عمن لا يذبح من أمته فكيف ضحى بشاة واحدة عن أمته عليه الصلاة والسلام؟ (فالجواب) أنه عليه الصلاة والسلام إنما فعل ذلك لأجل الثواب؛ وهو أنه جعل ثواب تضحيته بشاة واحدة لأمته، لا للإجزاء وسقوط التعبد عنهم، ولا يجوز بعير واحد ولا بقرة واحدة عن أكثر من سبعة، ويجوز ذلك عن سبعة أو أقل من ذلك، وهذا قول عامة العلماء. وقال مالك - رحمه الله -: يجزي ذلك عن أهل بيت واحد - وإن زادوا على سبعة -، ولا يجزي عن أهل بيتين - وإن كانوا أقل من سبعة -، والصحيح قول العامة؛ لما روي عن رسول الله صلى الله عليه وسلم: «البدنة تجزي عن سبعة والبقرة تجزي عن سبعة». وعن جابر - رضي الله عنه - قال: «نحرنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم البدنة عن سبعة والبقرة عن سبعة من غير فصل بين أهل بيت وبيتين»؛ ولأن القياس يأبى جوازها عن أكثر من واحد؛ لما ذكرنا أن القربة في الذبح، وأنه فعل واحد لا يتجزأ؛ لكنا تركنا القياس بالخبر المقتضي للجواز عن سبعة مطلقاً فيعمل بالقياس فيما وراءه؛ لأن البقرة بمنزلة سبع شياه، ثم جازت التضحية بسبع شياه عن سبعة سواء كانوا من أهل بيت أو بيتين فكذا البقرة

Wednesday 6 July 2022

نظربد کے متعلق احادیث کی تحقیق

کیا مندرجہ ذیل احادیث صحیح ہیں؟ (1) نظر بدکا لگنا حق ہے، اگر کوئی چیز تقدیر پر سبقت لے جانے والی ہوتی، تو وہ نظر ہوتی۔ (صحیح مسلم 2188) (2) میری امت میں اللہ کی کتاب (لوح محفوظ) اس کے فیصلے اور تقدیر کے بعد سب سے زیادہ تعداد نظر بد کے اثرات سے مرنے والوں کی ہوگی۔ (السلسلۃ الصحیحۃ، 322/3) (3) نظر بد ایک اچھے بھلے انسان کو قبر میں اور اونٹ کو ہنڈیا میں داخل کر دیتی ہے۔ (السلسلۃ الصحیحۃ، 323/3) جواب: پوچھی گئیں تینوں احادیث کو سند ومتن اور مختصر مفہوم کے ساتھ بالترتیب ذکر کیا جاتا ہے: ١- حديث عبد الله بن عباس رضي الله عنهما 2188 - حَدَّثَنَا عَبْدُ اللهِ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الدَّارِمِيُّ، وَحَجَّاجُ بْنُ الشَّاعِرِ، وَأَحْمَدُ بْنُ خِرَاشٍ، - قَالَ عَبْدُ اللهِ: أَخْبَرَنَا، وقَالَ الْآخَرَانِ: -حَدَّثَنَا مُسْلِمُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ: حَدَّثَنَا وُهَيْبٌ، عَنِ ابْنِ طَاوُسٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: "العَيْنُ حَقٌّ، وَلَوْ كَانَ شَيْءٌ سَابَقَ القَدَرَ سَبَقَتْهُ العَيْنُ، وَإِذَا اسْتُغْسِلْتُمْ فَاغْسِلُوا". صحيح مسلم (4/ 1719) باب الطب والمرض والرقى ترجمہ: حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما حضور اکرم ﷺ سے نقل کرتے ہیں کہ نظر حق ہے، (یعنی نظر لگنا ایک حقیقت ہے)، اگر تقدیر پر سبقت لے جانے والی کوئی چیز ہوتی، تو وہ نظر ہی ہوتی اور جب تم سے دھونے کا مطالبہ کیا جائے تو تم دھو دو۔ مفہوم حدیث: مذکورہ بالا حدیث میں ہے: " اگر تقدیر الہٰی بر سبقت لے جانے والی کوئی چیز ہوتی، تو وہ نظر ہوتی"، اس کا مطلب یہ ہے کہ کائنات کا ہر کام تقدیر الہی سے ہوتا ہے، لہذا بڑے سے بڑے کام میں بھی جب تک تقدیر الہی شامل نہ ہو، تو وہ سرانجام نہیں پا سکتا، گویا کوئی چیز بھی تقدیر کے دائرہ کار سے باہر نہیں ہے، لہذا اگر بالفرض کوئی چیز ایسی طاقت رکھ سکتی کہ وہ تقدیر الہی کے دائرہ کو توڑ کر نکل جاتی، تو وہ نظر ہو سکتی تھی، لیکن نظر باوجود اس قدر مؤثر ہونے کے، وہ بھی تقدیر کو نہیں پلٹ سکتی ہے۔ نیز حدیث بالا میں یہ جملہ بھی ہے: "جب تم سے دھونے کا مطالبہ کیا جائے، تو دھو دو" اس کا مطلب یہ ہے کہ اس وقت عرب میں یہ دستور تھا کہ جس شخص کو نظر لگتی تھی، اس کے ہاتھ پاؤں اور زیر ناف حصے کو دھو کر وہ پانی اس شخص پر ڈالتے تھے، جس کو نظر لگتی تھی اور اس چیز کو شفا کا ذریعہ سمجھتے تھے، اس کا سب سے ادنیٰ فائدہ یہ ہوتا تھا کہ اس ذریعہ سے مریض کا وہم دور ہو جاتا تھا، چنانچہ حضور اکرم ﷺ نے اس کی اجازت دی اور فرمایا کہ اگر تمہاری نظر کسی کو لگ جائے اور تم سے تمہارے اعضاء دھو کر مریض پر ڈالنے کا مطالبہ کیا جائے تو اس کی فرمائش کو پورا کرلو۔ ٢- حديث جابر بن عبد الله رضي الله عنهما 3052- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مَعْمَرٍ، ثنا أَبُو دَاوُدَ، ثنا طَالِبُ بْنُ حَبِيبِ بْنِ عَمْرِو بْنِ سَهْلٍ الأَنْصَارِيُّ يُقَالُ لَهُ: ابْنُ الضَّجِيعِ ضَجِيعِ حَمْزَةَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ قَالَ: حَدَّثَنِي عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللهِ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "أَكْثَرُ مَنْ يَمُوتُ مِنْ أُمَّتِي، بَعْدَ كِتَابِ اللهِ وَقَضَائِهِ وَقَدَرِهِ، بِالأَنْفُسِ". قال البزار: يعني: بالعين. كشف الأستار عن زوائد البزار (3/ 403) كتاب الطب/ باب ما جاء في العين قال البزار: لا نعلمه يروى إلا بهذا الإسناد. والحديث أورده الهيثمي في "المجمع" (5/ 183) (8423) كتاب الطب/ باب ما جاء في العين، وقال: رواه البزار، ورجاله رجال الصحيح، خلا الطالب بن حبيب بن عمرو، وهو ثقة ترجمہ: حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللّٰہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اکرم صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ میری امت کے لوگوں کی زیادہ تر اموات کا سبب تقدیر الہی کے بعد نظر لگنا ہو گا۔ مفہوم حدیث: سابقہ حدیث میں جو مضمون گزرا ہے، یہ حدیث اسی کی تائید ہے، کہ ویسے تو تمام اموات ہی قضاء الٰہی سے ہوتی ہیں، تاہم نظر کی وجہ سے بھی بہت سی اموات ہو جاتی ہیں، موت کے دوسرے اسباب میں سے زیادہ تر نظر لگنے کا اثر ہوتا ہے۔ اس حدیث کا حکم : اس حدیث کے بارے میں امام ہیثمی رحمہ اللّٰہ نے اپنی کتاب " مجمع الزوائد" میں فرمایا کہ یہ حدیث امام بزار رحمۃ اللّٰہ علیہ نے اپنی مسند میں روایت کی ہے اور اس کی سند کے تمام راوی مضبوط ہیں، لہذا یہ حدیث صحیح ہے۔ ٣- حديث جابر بن عبد الله رضي الله عنهما حَدَّثَنَا عَبْدُ اللهِ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ جَعْفَرٍ، ثنا أَحْمَدُ بْنُ يَحْيَى بْنِ زُهَيْرٍ، ثنا شُعَيْبُ بْنُ أَيُّوبَ، ثنا مُعَاوِيَةُ بْنُ هِشَامٍ، عَنْ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ المُنْكَدِرِ، عَنْ جَابِرٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "العَيْنُ تُدْخِلُ الرَّجُلَ القَبْرَ، وَالجَمَلَ القِدْرَ". حلية الأولياء وطبقات الأصفياء (7/ 90) وقال: غريب من حديث الثوري تفرد به معاوية والحديث ذكره السيوطي في "الجامع الصغير" (2/ 114) (5748) وعزاه لابن عدي، ولأبي نعيم، عن جابر رضي الله عنه، ورمز له بالصحة، وذكره المناوي في "التيسير بشرح الجامع الصغير" (2/ 159)، وقال: وما ذكر من أن لفظ الحديث: "العين تدخل.. الخ" هو ما وقع في نسخ الكتاب، والذي في أصوله الصحيحة: "العين حق تدخل.. الخ"، فسقط لفظ "حق" من قلم المصنف سهوا (عد حل عن أبي ذر) بإسناد ضعيف وذكره السخاوي في "المقاصد الحسنة" (ص: 470) (726) حديث: العين حق تدخل الجمل القدر، والرجل القبر، أبو نعيم في الحلية من جهة شعيب بن أيوب عن معاوية بن هشام عن الثوري عن محمد بن المنكدر عن جابر به مرفوعا، ونقل عن ابن عدي، أنه إنما يعرف بعلي بن أبي علي الكعبي، عن ابن المنكدر لا عن الثوري، ولكن قد تفرد به شعيب، قال إسماعيل الصابوني: وبلغني أنه قيل له ينبغي أن تمسك عن هذه الرواية ففعل، انتهى. ترجمہ: حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللّٰہ عنہما سے مروی ہے رسول اکرم صلی اللّٰہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ نظر اتنی مؤثر ہوتی ہے کہ (اچھے بھلے) آدمی کو قبر میں اتار دیتی ہے اور اونٹ کو ہنڈیا میں پہنچا دیتی۔ مفہوم حدیث: اس حدیث کا مفہوم بھی واضح ہے، البتہ اونٹ کا ہنڈیا میں پہنچنے کا مطلب یہ ہے کہ جب اونٹ کو نظر لگتی ہے، تو وہ بیمار ہو جاتا ہے، تو اونٹ کا مالک اس کو مرنے سے پہلے ذبح کر کے حلال کر لیتا ہے، اور اونٹ کا گوشت ہنڈیا میں پکنے کے لیے پہنچ جاتا ہے۔ اس حدیث کا حکم : یہ حدیث امام ابو نعیم رحمہ اللّٰہ نے اپنی کتاب "حلیۃ الأولیاء" میں ذکر کی ہے، امام سیوطی رحمۃ اللّٰہ علیہ نے اس حدیث کو اپنی کتاب "الجامع الصغیر" میں ضعیف قرار دیا ہے اور علامہ مناوی رحمۃ اللّٰہ علیہ نے "التیسیر شرح الجامع الصغیر" میں اور حافظ سخاوی رحمۃ اللّٰہ علیہ نے "المقاصد الحسنة" میں اس روایت کو ضعیف قرار دیا ہے۔ اللّٰہ تعالیٰ تمام مسلمانوں کو نظر لگنے سے محفوظ فرمائے، آمین

Sunday 3 July 2022

حرية الشعب

حريتي! حريتي! حريتي! صوتٌ أردده بملء فم الغضب تحت الرصاص وفي اللهب وأظل رغم القيد أعدو خلفها وأظل رغم الليل أقفو خطوها وأظل محمولاً على مدّ الغضب وأنا أناضل داعياً حريتي! حريتي! حريتي! ويردد النهر المقدس والجسور حريتي! والضفتان ترددان: حريتي! ومعابر الريح الغضوب والرعد والإعصار والأمطار في وطني ترددها معي: حريتي! حريتي! حريتي! *** سأظل أحفر اسمها وأنا أناضل في الأرض في الجدران في الأبواب في شرف المنازل في هيكل العذراء في المحراب في طرق المزارع في كل مرتفعٍ ومنحدر ومنعطف وشارع في سجن في زنزانة التعذيب في عود المشانق رغم السلاسل رغم نسف الدور رغم لظى الحرائق سأظل أحفر اسمها حتى أراه يمتد في وطني ويكبر ويظل يكبر ويظل يكبر حتى يغطي كل شبر في ثراه حتى أرى الحرية الحمراء تفتح كل باب والليل يهرب والضياء يدك أعمدة الضباب حريتي! حريتي ويردد النر المقدس والجسور: حريتي! والضفتان ترددان: حريتي! ومعابر الريح الغضوب والرعد والإعصار والأمطار في وطني ترددها معي: حريتي حريتي حريتي

Wednesday 29 June 2022

غني أحبك أن تغني وتحدث الأطياب عني غني أحبك أن تغني وتحدث الأطياب عني غني فما عرف الهوى أحلى على النغمات مني أنا في الغناااء قصيدةٌ حسناءُ لم أنظم بلحني غني غني .. غني عيناي رفُ خميلةٍ خضراءَ من أرض التمني عيناي رفُ خميلةٍ خضراءَ من أرض التمني أشممتَ عطر غلائلي عطرٌ يعيش ببالي عني؟ عيناي رفُ خميلةٍ خضراءَ من أرض التمني أشممتَ عطر غلائلي عطرٌ يعيش ببالي عني؟ أنا أي شعة نجمةٍ أنا أي شعة نجمةٍ أنا أي لونٍ مثلُ لوني؟ أنا أي شعة نجمةٍ أنا أي لونٍ مثلُ لوني؟ في البال يحملني الهوى في الظن يخطر مثل ظني في البال يحملني الهوى في الظن يخطر مثل ظني الحرف يشرك زهوةً لو مسّ حرفك بعدُ حسني بعدُ حسني غني أحبك أن تغني وتحدث الأطياب عني غني أحبك أن تغني وتحدث الأطياب عني غني فما عرف الهوى أحلى على النغمات مني أنا في الغناااء قصيدةٌ حسناءُ لم أنظم بلحني غني غني .. غنيي غني.. غني.. غنيييييييييي ...........

Tuesday 28 June 2022

مسجد میں مکتب قائم کرنا

مسجد میں مستقل بنیادوں پر مدرسہ یا مکتب قائم کرنا شرعاً جائز نہیں، تاہم مدرسہ یا مکتب مسجد کی حدود سے باہر قائم ہو اور جگہ کی تنگی کے باعث عارضی طور پر مسجد میں بلامعاوضہ تعلیم دی جائے اور مسجد کے آداب کی مکمل رعایت رکھی جائے تو اس کی گنجائش ہے، لیکن اجرت لے کر تعلیم دینا جائز نہیں، لہذا متبادل جگہ کا انتظام کیا جائے یا بچوں سے فیس نہ وصول کی جائے۔ حاشية رد المختار على الدر المختار - (6 / 428): "(قوله: ومن علم الأطفال إلخ ) الذي في القنية أنه يأثم ولا يلزم منه الفسق ولم ينقل عن أحد القول به ويمكن أنه بناء على بالإصرار عليه يفسق أفاده الشارح قلت بل في التاترخانية عن العيون جلس معلم أو وراق في المسجد فإن كان يعلم أو يكتب بأجر يكره إلا لضرورة وفي الخلاصة تعليم الصبيان في المسجد لا بأس به اهـ لكن استدل في القنية بقوله عليه الصلاة والسلام جنبوا مسجدكم صبيانكم ومجانينكم". الفتاوى الهندية - (43 / 34): "وَلَوْ جَلَسَ الْمُعَلِّمُ فِي الْمَسْجِدِ وَالْوَرَّاقُ يَكْتُبُ ، فَإِنْ كَانَ الْمُعَلِّمُ يُعَلِّمُ لِلْحِسْبَةِ وَالْوَرَّاقُ يَكْتُبُ لِنَفْسِهِ فَلَا بَأْسَ بِهِ ؛ لِأَنَّهُ قُرْبَةٌ ، وَإِنْ كَانَ بِالْأُجْرَةِ يُكْرَهُ إلَّا أَنْ يَقَعَ لَهُمَا الضَّرُورَةُ ، كَذَا فِي مُحِيطِ السَّرَخْسِيِّ

Monday 27 June 2022

كلمات ليست كالكلمات

He hears me when he dances يُسمعني حينَ يراقصُني Words are not like words كلمـاتٍ ليست كالكلمات He hears me when he dances يُسمعني حينَ يراقصُني Words are not like words كلمـاتٍ ليست كالكلمات Take me under my arms يأخذني من تحتِ ذراعي Plant me in one of the clouds يزرعني في إحدى الغيمات He hears me when he dances يُسمعني حينَ يراقصُني Words are not like words كلمـاتٍ ليست كالكلمات Take me under my arms يأخذني من تحتِ ذراعي Plant me in one of the clouds يزرعني في إحدى الغيمات And the black rain in my eyes والمطرُ الأسودُ في عيني It's raining raindrops يتساقطُ زخاتٍ زخات And the black rain in my eyes والمطرُ الأسـودُ في عيني It's raining raindrops يتساقطُ زخاتٍ زخات Carry me with him, carry me يحملني معهُ، يحملني For evening pink balconies لمساءٍ ورديِ الشُرفات For evening pink balconies لمساءٍ ورديِ الشُرفات He hears me when he dances يُسمعني حينَ يراقصُني Words are not like words كلمـاتٍ ليست كالكلمات Take me under my arms يأخذني من تحتِ ذراعي Plant me in one of the clouds يزرعني في إحدى الغيمات And the black rain in my eyes والمطرُ الأسودُ في عيني It's falling raindrops يتساقطُ زخاتٍ زخات And the black rain in my eyes, in my eyes والمطرُ الأسودُ في عيني، في عيني It's falling raindrops يتساقطُ زخاتٍ زخات He carries me with him, he carries me يحملني معهُ، يحملني For evening pink balconies لمساءٍ ورديِ الشُرفات For evening pink balconies لمساءٍ ورديِ الشُرفات For evening pink balconies لمساءٍ ورديِ الشُرفات For evening pink balconies لمساءٍ ورديِ الشُرفات And I'm like a child in his hand وأنا كالطفلةِ في يدهِ Like a feather carried by the breeze كالريشةِ تحملها النسمات I am I am in his hand أنا أنا أنا أنا في يـدهِ Like a feather carried by the breeze كالريشةِ تحملها النسمات ah ah hand آه آه يدهِ Like a feather carried by the breeze كالريشةِ تحملها النسمات I'm like a child in his hand وأنا كالطفلةِ في يدهِ Like a feather carried by the breeze كالريشةِ تحملها النسمات ah ah hand آه آه يدهِ Like a feather carried by the breeze كالريشةِ تحملها النسمـات ah ah in his hand آه آه في يـدهِ Like a feather carried by the breeze كالريشةِ تحملها النسمـات He gives me sun, he guides me summer يهديني شمساً، يهديني صيفاً He gives me sun, he guides me summer يهديني شمساً، يهديني صيفاً and a flock of swallows وقطيعَ سنونوَّات Give me sun, oh summer يهديني شمساً، آه صيفاً and a herd of swallows وقطيـعَ سنونوَّات He tells me that I am his masterpiece يخـبرني أني تحفتهُ I am worth thousands of stars وأساوي آلافَ النجمات He tells me that I am his masterpiece يخـبرني أني تحفتهُ I am worth thousands of stars وأساوي آلافَ النجمات And that I am a treasure and that I am وبأني كنزٌ وبأني The most beautiful paintings I've seen أجملُ ما شاهدَ من لوحات That I am a treasure and that I am بأني كنزٌ وبأني The most beautiful paintings I've seen أجملُ ما شاهدَ من لوحات words, words كلمـات، كلمـات words, words كلمـات، كلمـات He tells me things that make me mad يروي أشياءَ تدوخني Forget about the discotheque and the steps تنسيني المرقصَ والخطوات He tells me things that make me ahhhhhhhhhhhhhhhhhhhhhhhhhhhhhhhh يروي أشياءَ تدوخني آه آه Forget about the discotheque and the steps تنسيني المرقصَ والخطوات Words of historical fluctuation كلمـاتٍ تقلبُ تاريخي Make me, make me, make me تجعلني، تجعلني، تجعلني Make me a woman in a moment تجعلني إمرأةً في لحظات He builds me a castle out of an illusion يبني لي قصراً من وهمٍ He builds me a castle out of an illusion يبني لي قصراً من وهمٍ I don't live in it, I don't live in it لا أسكنُ فيه، لا أسكنُ فيه I do not live in لا أسكنُ فيهِ only moments سوى لحظات And back to my table وأعودُ أعودُ لطاولتي I go back to my table أعودُ أعودُ لطاولتي I go back to my table أعودُ أعودُ لطاولتي nothing with me لا شيءَ معي nothing with me لا شيءَ معي only words إلا كلمـات Words are not like words كلمـاتٍ ليست كالكلمات Words are not like words كلمـاتٍ ليست كالكلمات Words are not like words كلمـاتٍ ليست كالكلمات I have nothing but words لا شيءَ معي إلا كلمات words كلمـات words كلمـات

Saturday 18 June 2022

Bulldozer Raj

The apex court's intervention is welcome but the fact remains that the bulldozers of several state governments and the municipal corporations in Delhi, all ruled by the BJP, razed far too many houses and buildings before it was thought fit for them to be advised to follow the basics of the law. At the same time, it is refreshing and reassuring that the court rejected every argument, including the one about third parties approaching the court based only on media reports that the state government advanced to justify its acts. The court made it clear that it hardly mattered who approached the court as long as their case merited legal consideration. India has been independent for the last 75 years but it is unfortunate that the highest court of the land had to tell its governments that there cannot be retaliatory justice. It's a crude reminder that the fundamentals of constitutional democracy are yet to take firm roots in this country and people who think on the lines of khap panchayats with their received wisdom on instant justice get to move the levers of power. It is now up to the proponents of the bulldozer raj to decide if they want to follow the rulebook or go ahead with their versions of it. The petitioners had pointed out in the court that most demolitions happened after senior government functionaries boasted about retaliatory justice, an idea which is alien to modern jurisprudence. The bureaucracy which is paid to act lawfully went along gleefully and has never regretted it; they will also have to do a rethink on what they have been doing to the basic doctrine of governance. Both groups of trigger-happy people must be told that should they invent new means to go ahead with their designs, they will fall foul not only of their own laws but also be guilty of contempt of court. Now that the Supreme Court has made its stand clear, it must also keep a watchful eye on developments and ensure that justice is done per its directives. Attempts to violate them would not be taken lightly.

Monday 13 June 2022

India calling the judiciary

India has entered into a new era of politics—the bulldozer era. Recently, there were riots during Ram Navami processions in various Indian cities. Miscreants and rioters indulged in criminal activities on the streets. Public property was damaged, and many people were killed or injured. The police have to control the riots, arrest the culprits and bring them to the court of law for a trial and subsequent punishment. The miscreants’ faith, race, caste or ethnicity are not a deciding factor before the law. If someone has damaged public property and the same is proven in the court, there is due process to recover the damage from the culprit. No one can have any dispute on any of the above facts. However, in brazen showmanship, some state governments are acting as judge, jury and executioner, and selectively targeting a section of the people based on their faith. If there is an accusation of someone indulging in criminal activity like stone pelting, the authorities send a bulldozer to raze down the home or the business establishment of the accused. There is no trial, no serving of notice, no due process of law, but a theatrical show of brute power to please a cheering crowd. Indian politicians of certain states are competing with each other to earn the sobriquets like Bulldozer Baba, Bulldozer Mama, Bulldozer Chacha and so on. Many people are cheering on this new trend, not understanding that the Indian Constitution and the rule of law are getting bulldozed in the process. Rioting is a serious crime. There are other serious crimes like murder, rape, assault etc. Will the same instant justice be applied to all the crimes in the future? If someone is accused of a crime, will the state be sending bulldozers to raze down the accused person’s home? What if you live in a joint family, an adult member of your extended family is charged with a murder, and the authorities raze down your common home without any notice or trial for a crime in which you have no control or responsibility? If a member of a family has thrown stones, he is the one who needs to be punished. How are his family members, including minor children, responsible for his crime? Why should they be rendered homeless? Which law gives the power to raze down buildings? If it is proved that the accused is innocent in a court of law later, will they be compensated? Will the civil servants who led the bulldozers pay the compensation from their salary? One of the city commissioners who indulged in this brazen lawlessness claimed that bulldozer justice is to instil fear in the minds of miscreants. In other words, it is a state-sponsored act of intimidation. Another excuse given is the state needs to recover the losses for the damage to public property. It defies logic how razing down homes of the accused help the government in recovering damages. If the government wants to recover damages, it must follow the due process of law. It must first prove the crime of the accused in a court of law, assess the quantum of damage caused by the culprit’s criminal act, and then recover the property, as directed by the court. Even if the properties are standing on encroached land, it needs to be proven to be standing in encroached lands. Protest against the regime is not taboo in the democracy but it is crime in the country.

Monday 6 June 2022

بیوی کو مخاطب کئے بغیر طلاق دینا

طلاق واقع ہونےکے لیے یہ ضروری ہے کہ شوہر طلاق کی نسبت بیوی کی طرف کرے، مثلاً میں نے اپنی بیوی کو طلاق دی، یا اپنی بیوی کا نام لے کر کہے کہ طلاق دی اور بیوی کی موجودگی میں بھی طلاق کی نسبت بیوی کی طرف کرنا ضروری ہے خواہ اشارۃً نسبت کرے۔ اور اگر بیوی کی طرف نسبت نہیں کی ہے نہ صراحۃً اور نہ اشارۃً تو شرعاً طلاق واقع نہیں ہوتی۔ فتاوی شامی میں ہے: ’’لكن لا بد في وقوعه قضاءً وديانةً من قصد إضافة لفظ الطلاق إليها‘‘. (3/250، کتاب الطلاق، ط؛ سعید) غمز عيون البصائر في شرح الأشباه والنظائر (1/ 461): ’’ولو أقر بطلاق زوجته ظاناً الوقوع بإفتاء المفتي فتبين عدمه لم يقع، كما في القنية. قوله: ولو أقر بطلاق زوجته ظاناً الوقوع إلى قوله لم يقع إلخ. أي ديانةً، أما قضاء فيقع ،كما في القنية؛ لإقراره به‘‘ مذکورہ صورت میں اگر شوہر یہ کہتا ہےکہ میں نے ان الفاظ کی نسبت اپنی بیوی کی جانب نہیں کی (جیساکہ سوال میں ہے تو شوہر سے اس بات پر حلف لیاجائے گا، اگر شوہر حلف اٹھالیتا ہے تو اس کی بات کا اعتبار کیا جائے گا، اور طلاقیں واقع نہیں ہوں گی، اور اگر قسم سے انکار کرتا ہے تو تینوں طلاقیں واقع شمار ہوں گی۔ بلا قصد وارادہ کے الفاظ طلاق نکل جائیں خصوصاً جبکہ بیوی کی جانب اضافت و نسبت بھی نہ ہو، تو اس سے طلاق نہیں ہوتی۔ نیز طلاق کے اندر بیوی کی جانب صراحۃً یا دلالۃً اضافت و نسبت شرط اور ضروری ہے؛ لہٰذا زید کی زبان سے بلا اضافت الفاظ طلاق نکلنے سے کوئی طلاق نہیں ہوئی۔ (مستفاد: کفایت المفتی قدیم ۶؍۲۱، جدید زکریا۶؍۳۲، جدید زکریا مطول ۸؍۱۶۰ فتاوی محمودیہ قدیم ۸؍۶۴، جدید میرٹھ ۱۸؍۴۰۷، فتاوی دارالعلوم ۹؍۱۹۸-۱۹۹) ولکن لا بد أن یقصدہا باللفظ۔ (الأشباہ قدیم۴۵، جدید زکریا ۱/۹۱) لا یقع من غیرإضافۃ إلیہا۔ (شامي، کتاب الطلاق، باب الصریح، کراچي۳/۲۷۳، زکریا۴/۴۹۳) ومنہا الإضافۃ إلی المرأۃ في صریح الطلاق حتی لو أضاف الزوج صریح الطلاق إلی نفسہ بأن قال: أنا منک طالق لایقع۔ (بدائع الصنائع،

بلااضافت ونسبت طلاق طلاق کہنے سے طلاق ہوگی کہ نہیں

محض خیالی اور بلا قصد وارادہ کے الفاظ طلاق نکل جائیں خصوصاً جبکہ بیوی کی جانب اضافت و نسبت بھی نہ ہو، تو اس سے طلاق نہیں ہوتی۔ نیز طلاق کے اندر بیوی کی جانب صراحۃً یا دلالۃً اضافت و نسبت شرط اور ضروری ہے؛ لہٰذا زید کی زبان سے خیالی طور پر بلا اضافت الفاظ طلاق نکلنے سے کوئی طلاق نہیں ہوئی۔ (مستفاد: کفایت المفتی قدیم ۶؍۲۱، جدید زکریا۶؍۳۲، جدید زکریا مطول ۸؍۱۶۰ فتاوی محمودیہ قدیم ۸؍۶۴، جدید میرٹھ ۱۸؍۴۰۷، فتاوی دارالعلوم ۹؍۱۹۸-۱۹۹) ولکن لا بد أن یقصدہا باللفظ۔ (الأشباہ قدیم۴۵، جدید زکریا ۱/۹۱) لا یقع من غیرإضافۃ إلیہا۔ (شامي، کتاب الطلاق، باب الصریح، کراچي۳/۲۷۳، زکریا۴/۴۹۳) ومنہا الإضافۃ إلی المرأۃ في صریح الطلاق حتی لو أضاف الزوج صریح الطلاق إلی نفسہ بأن قال: أنا منک طالق لایقع۔ (بدائع الصنائع،

Sunday 5 June 2022

بیوی کی طرف نسبت کئے بغیرطلاق طلاق کہنے سے طلاق ہوگی کہ نہیں

شوہر نے اپنی بیوی کے سامنے کہا: ’’طلاق، طلاق، طلاق‘‘ ان الفاظ سے شوہر کی نیت اپنی بیوی کو طلاق دینے کی ہو یا شوہر ان الفاظ کی ادائیگی سے اپنی بیوی کو طلاق دینے کی نیت سے انکار کردے لیکن اس انکار پر قسم نہ اٹھاسکے تو اس صورت میں ان الفاظ سے مذکورہ شخص کی بیوی پر تین طلاقیں واقع ہوچکی ہیں، اب اس کی زوجہ اس پر حرمتِ مغلظہ کے ساتھ حرام ہوچکی ہے، نکاح ختم ہوچکا ہے، لہٰذا رجوع اور دوبارہ نکاح ناجائز اور حرام ہے، زوجہ عدت (تین ماہواریاں اگر حمل نہ ہو اور اگر حمل ہو تو بچہ کی پیدائش تک) گزار کر دوسری جگہ نکاح کرنے میں آزاد ہے، البتہ جب بیوی اپنی عدت گزار کر دوسری جگہ شادی کرے اور دوسرے شوہر سے صحبت (جسمانی تعلق) قائم ہوجائے پھر اس کے بعد دوسرا شوہر اس کو طلاق دے دے یا اس کا انتقال ہوجائے تو اس کی عدت گزار کر پہلے شوہر کے ساتھ دوبارہ نکاح کرسکتی ہے۔ مذکورہ صورت میں اگر شوہر یہ کہتا ہو کہ میں نے ان الفاظ کی نسبت اپنی بیوی کی جانب نہیں کی (جیساکہ صراحتاً الفاظ میں شوہر نے بیوی کی جانب نسبت کا ذکر نہیں کیا) تو شوہر سے اس بات پر حلف لیاجائے گا، اگر شوہر حلف اٹھالیتا ہے تو اس کی بات کا اعتبار کیا جائے گا، اور طلاقیں واقع نہیں ہوں گی، اور اگر قسم سے انکار کرتا ہے تو تینوں طلاقیں واقع شمار ہوں گی۔ امداد الفتاویٰ میں ہے: ’’سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین اس مسئلہ میں: میں نے حالت غصہ میں یہ کلمے کہے ہیں: (طلاق دیتا ہوں طلاق طلاق) اور میں نے کوئی کلمہ فقرہ بالا سے زیادہ نہیں کہا اور نہ میں نے اپنی منکوحہ کا نام لیا اور نہ اس کی طرف اشارہ کیا اور نہ وہ اس جگہ موجود تھی اور نہ اس کی کوئی خطا ہے، یہ کلمہ صرف بوجہ تکرار (یعنی نزاع) یعنی میری منکوحہ کی تائی کے نکلے، جس وقت میرا غصہ فرو ہوا، فوراً اپنی زوجہ کو لے آیا، گواہ دو اشخاص ہیں: ایک میرے ماموں اور ایک غیرشخص ہے اور مستوراتیں ہیں؟ الجواب: چوں کہ دل میں اپنی منکوحہ کو طلاق دینے کا قصد تھا؛ لہٰذا تینوں طلاقیں واقع ہوگئیں۔‘‘ فتاویٰ دارالعلوم دیوبند میں ہے: ’’سوال: زید نے اپنے والدین سے غصہ کی حالت میں بوجہ خفگی والدین اس کی زوجہ پر اور اس پر یہ الفاظ کہے: طلاق، طلاق، طلاق، تین مرتبہ یعنی اس لفظ طلاق کو کسی طرف منسوب نہیں کیا اور یہ کہا کہ میں کہیں چلا جاؤں گا یا بھیک مانگ کر کھاؤں گا، آیا یہ طلاق ہوگئی یا نہیں؟ جواب: موافق تصریح علامہ شامی کے اس صورت میں زید کی زوجہ مطلقہ ثلاثہ ہوگئی۔‘‘ (کتاب الطلاق 9/196، ط: دارالاشاعت) کفایت المفتی میں ہے : "بغیر نسبت کے صرف ’’ لفظ طلاق‘‘ کہنے سے طلاق واقع ہوتی ہے یا نہیں؟ (سوال) زید کی والدہ و ساس کے درمیان ایک عرصے سے خانگی جھگڑے ہورہے تھے زید سخت بیمار ہے ایک روز زید کے برادر خورد نے زید کی والدہ سے کہا کہ اماں یہ جھگڑے ختم نہ ہوں گے ہم اور تم کہیں چلیں، ان دونوں کو یہاں رہنے دو اور زید کا بھائی اپنی والدہ کو لے جانے لگا، زید نے کہا کہ تم نہ جاؤ میں اس جھگڑے کو ہی ختم کیے دیتا ہوں اور یہ کہہ کر کہا کہ میں نے طلاق دی، یہ الفاظ اپنی والدہ سے مخاطب ہوکر کہے، پھر اس کے بعد جوش میں آکر صرف طلاق طلاق طلاق پانچ چھ مرتبہ کہا، لیکن اپنی زوجہ کا نام ایک مرتبہ بھی نہیں لیا اور نہ اس سے مخاطب ہوکر کہا اور زید کا خیال بھی یہی تھا کہ صرف لفظ طلاق کہنے سے طلاق نہیں ہوتی، زوجہ گھر میں موجود تھی، لیکن اس نے الفاظ مذکورہ نہیں سنے۔ المستفتی نمبر ۳۱۱ ۔۲۲ صفر ۱۳۵۳؁ھ م ۶ جون ۹۳۴!ء (جواب ۳۵) زید کے ان الفاظ میں جو سوال میں مذکور ہیں لفظ طلاق تو صریح ہے، لیکن اضافت الی الزوجہ صریح نہیں ہے، اس لیے اگر زید قسم کھاکر یہ کہہ دے کہ میں نے اپنی بیوی کو یہ الفاظ نہیں کہے تھے تو اس کے قول اور قسم کا اعتبار کرلیا جائے گا، اور طلاق کا حکم نہیں دیا جائے گا- محمد کفایت اللہ کان اللہ لہ"۔ (6/53،54دارالاشاعت) غصہ کی حالت میں بیوی کی طرف نسبت کئے بغیر زبان سے تین طلاق کا لفظ نکالا‘ تو کیا حکم ہے؟ (سوال) زید نے اپنی منکوحہ کے بارے میں بحالت غصہ زبان سے تین طلاق کا لفظ نکالا بلا اضافت کسی کے، زید نے جو تین طلاق کا لفظ زبان سے نکالا تو زید کے دل میں کچھ بھی نہیں تھا۔ بنیوا توجروا المستفتی نمبر ۳۹۴ مولوی عبدالخالق (رنگون) ۲۹ جمادی الاول ۱۳۵۳؁ھ ۱۰ ستمبر ۱۹۳۴؁ء (جواب ۳۶) اگر زید نے زبان سے صرف یہ لفظ نکالا ’’ تین طلاق‘‘ اس کے علاوہ اور کچھ نہیں کہا تو ظاہر ہے کہ اس میں اضافت طلاق نہیں ہے، لیکن اگر یہ لفظ سوال طلاق کے جواب میں کہے ہوں، مثلًا: زوجہ یا اس کے کسی ولی یا رشتہ دار نے زید سے کہا کہ اپنی زوجہ کو طلاق دے دو اور زید نے کہا کہ ’’تین طلاق‘‘ تو اس صورت میں قرینہ حالیہ اضافتہ الی المنکوحہ کے ثبوت کے لیے کافی ہوگا، اور قاضی طلاق کا حکم کرے گا، سوال میں غصہ کی حالت کا ذکر ہے، لیکن غصہ کی مختلف صورتیں ہوتی ہیں بعض صورتیں تو سوال طلاق کی حالت کا حکم رکھتی ہیں اور بعض نہیں۔ اب چوں کہ مجلسِ قضا کا وجود بھی نہیں اس لیے حکم دیانت یہ ہے کہ زید کو کہا جائے کہ اگر تو نے اپنی بیوی ہی کو یہ لفظ کہا تھا تو طلاق مغلظہ ہوگئی اور اگر بیوی کو نہیں کہا تھا تو طلاق نہیں ہوئی یہ تو عند اللہ حکم ہے اور لوگوں کے اطمینان کے لیے اس سے حلف لیا جائے گا اگر وہ حلف سے کہہ دے کہ میں نےبیوی کوتین طلاق نہیں کہا تھا تو لوگوں کو بھی اس کے تعلق زنا شوئی سے تعرض نہیں کرنا چاہیے اور بیوی بھی ا س کے پاس رہ سکتی ہے اور اگر وہ قسم سے انکار کرے تو زوجین میں تفریق کردی جائے۔ محمد کفایت اللہ کان اللہ لہ‘ دہلی۔(6/54.55 دارالاشاعت) قرآن کریم میں ہے: {فإن طلقها فلاتحل له من بعد حتى تنكح زوجاً غيره فإن طلقها فلا جناح عليهما أن يتراجعا إن ظنا أن يقيما حدود الله وتلك حدود الله يبينها لقوم يعلمون} [البقرة: 230] رد المحتار میں ہے: "لو أراد طلاقها تكون الإضافة موجودةً ويكون المعنى فإني حلفت بالطلاق منك أو بطلاقك، ولايلزم كون الإضافة صريحةً في كلامه؛ لما في البحر لو قال: طالق فقيل له: من عنيت؟ فقال: امرأتي، طلقت امرأته، العادة أن من له امرأة إنما يحلف بطلاقها لا بطلاق غيرها، فقوله: إني حلفت بالطلاق ينصرف إليها ما لم يرد غيرها؛ لأنه يحتمله كلامه". (كتاب الطلاق، باب صريح الطلاق، مطلب سن بوشن ج:3/ص348، ط: سعيد) فتاویٰ تاتارخانیہ میں ہے: "وفي الظهيرية: ومتى كرر لفظ الطلاق بحرف الواو أو بغير حرف الواو يتعدد وإن عنى بالثاني الأول لم يصدق في القضاء كقوله يا مطلقة أنت طالق ... وفي الحاوي: ولو قال ترا يك طلاق يك طلاق يك طلاق! بغير العطف وهي مدخول بها تقع ثلاث تطليقات". (كتاب الطلاق، الفصل الرابع، فيما يرجع إلى صريح الطلاق 4/427/ 429، ط: مكتبة زكريا، ديوبند هند) بدائع الصنائع میں ہے: "وحال الغضب ومذاكرة الطلاق دليل إرادة الطلاق ظاهرًا فلايصدق في الصرف عن الظاهر". (كتاب الطلاق، فصل في النية في نوعي الطلاق ج3، ص: 102، دار الكتب العلمية) ہندیہ میں ہے: "وإن كان الطلاق ثلاثًا في الحرة وثنتين في الأمة لم تحل له حتى تنكح زوجًا غيره نكاحًا صحيحًا ويدخل بها ثم يطلقها أو يموت عنها، كذا في الهداية". (3/473، ط: ماجدية) البحر الرائق میں ہے: "وعدة الحامل وضع الحمل؛ لقوله تعالى: ﴿وأولات الأحمال أجلهن أن يضعن حملهن﴾ (الطلاق: 4) (باب العدة: ج4، ص133، ط: سعيد) بدائع الصنائع میں ہے: "وأما الطلقات الثلاث فحكمها الأصلي هو زوال الملك، وزوال حل المحلية أيضًا حتى لايجوز له نكاحها قبل التزوج بزوج آخر". (كتاب الطلاق، فصل في حكم الطلاق البائن 3/187، ط: سعيد) البحر الرائق میں ہے: "(قوله: ومبدأ العدة بعد الطلاق والموت) یعنی ابتداء عدة الطلاق من وقته ... سواء علمت بالطلاق والموت أو لم تعلم حتى لو لم تعلق ومضت مدة العدة فقد انقضت؛ لأن سبب وجوبها الطلاق ... فيعتبر ابتداؤها من وقت وجود السبب، كذا في الهداية". (كتاب الطلاق، باب العدة، 4/144/ ط: سعيد)

مجرد التلفظ بكلمة الطلاق بدون إسنادلايقع

المكتبة الشاملة الحديثة كتاب فتاوى الشبكة الإسلامية [مجموعة من المؤلفين] الرئيسيةأقسام الكتب الفتاوى فصول الكتاب ج: ص: 9576 مسار الصفحة الحالية: فهرس الكتاب فقه الأسرة المسلمة 17865 الفرقة بين الزوجين 4339 الطلاق 2985 الأركان والشروط 29 مجرد التلفظ بكلمة (طالق) دون إسناد لا يقع [مجرد التلفظ بكلمة (طالق) دون إسناد لا يقع] ƒـ[قرأت يا شيخ في كتاب فقه السنة أن التلفظ بكلمة من ألفاظ الطلاق الصريح بدون أن يكون فيه إضافه للزوجة أو ضمير يعود عليها أنه يمنع وقوعه, كأن يقول رجل كلمة طالق فقط دون أن يقول أنت، هل هذا صحيح علما بأني سمعت هذا أيضا من شيخين أحسب أنهما من أهل السنة والجماعة؟]ـ ^الحمد لله والصلاة والسلام على رسول الله وعلى آله وصحبه، أما بعد: فقول سيد سابق في فقه السنة: ويشترط في وقوع الطلاق الصريح: أن يكون لفظه مضافا إلى الزوجة، كأن يقول: زوجتي طالق، أو أنت طالق. انتهى، أي يشترط للفظ (طالق) ليكون صريحا أن يكون مضافا إلى الزوجة، فإن تجرد من الإضافة والإشارة فهو كناية فيقع إن نوى به الطلاق، وقد أشار إلى ذلك العلامة قليوبي في حاشيته على شرح جلال الدين المحلي فقال: قوله: (كطلقتك) فلا بد من إسناد اللفظ للمخاطب أو عينه أو ما يقوم مقامها. انتهى. فلا بد من إسناد لفظ الطلاق إلى الزوجة إما بالإشارة أو المخاطبة كأنت طالق أو زوجتي طالق أو طلقتك أو أم أولادي طالق، ولم يكن له أولاد من غيرها وهكذا، أما مجرد التلفظ بكلمة (طالق) دون إسناد فلا يقع به طلاق إلا مع النية