https://follow.it/amir-samdani?action=followPub

Friday 21 October 2022

خواتین کاگاڑی چلانا

عورتوں کے لیے شدید ضرورت کی بنا پر اور کوئی شرعی محذور نہ پائے جانے کی صورت میں پردہ کے پورے اہتمام کے ساتھ یعنی برقعہ پہن کر چہرہ چھپا کر چلانے کی اجازت ہے، لیکن بلاضرورت یا بے پردگی کے ساتھ نہ تو باہر نکلنا جائز ہوگا اور نہ ہی گاڑی چلانا جائز ہوگا۔ قرآن کریم میں ہے: { وَقَرْنَ فِي بُيُوتِكُنَّ وَلَا تَبَرَّجْنَ تَبَرُّجَ الْجَاهِلِيَّةِ الْأُولَى وَأَقِمْنَ الصَّلَاةَ وَآتِينَ الزَّكَاةَ وَأَطِعْنَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ} [الأحزاب: 33] اور تم اپنے گھروں میں قرار سے رہو اور قدیم زمانہ جاہلیت کے دستور کے موافق مت پھرو اور تم نمازوں کی پابندی رکھو اور زکاۃ دیا کرو اور اللہ کا اور اس کے رسول (علیہ السلام) کا کہنا مانو ۔ (بیان القرآن) ’’ أحکام القرآن للفقیہ المفسر العلامۃ محمد شفیع رحمہ اللّٰہ ‘‘ میں ہے: "قال تعالی : {وقرن في بیوتکن ولا تبرجن تبرج الجاهلیة الأولی} [الأحزاب :۳۳]فدلت الآیة علی أن الأصل في حقهن الحجاب بالبیوت والقرار بها ، ولکن یستثنی منه مواضع الضرورة فیکتفی فیها الحجاب بالبراقع والجلابیب ۔۔۔۔ ۔۔۔ فعلم أن حکم الآیة قرارهن في البیوت إلا لمواضع الضرورة الدینیة کالحج والعمرة بالنص ، أو الدنیویة کعیادة قرابتها وزیارتهم أو احتیاج إلی النفقة وأمثالهابالقیاس، نعم! لا تخرج عند الضرورة أیضًا متبرجةّ بزینة تبرج الجاهلیة الأولی، بل في ثیاب بذلة متسترة بالبرقع أو الجلباب ، غیر متعطرة ولامتزاحمة في جموع الرجال؛ فلا یجوز لهن الخروج من بیوتهن إلا عند الضرورة بقدر الضرورة مع اهتمام التستر والاحتجاب کل الاهتمام ۔ وما سوی ذلک فمحظور ممنوع"۔ (۳/۳۱۷ – ۳۱۹ ) حدیث شریف میں ہے: "عن أبي أحوص عن عبد اللّٰه عن النبي ﷺ قال : ’’ المرأة عورة، فإذا خرجت استشرفها الشیطان ‘‘ ۔ (سنن الترمذی[۱/۲۲۱ ]، رقم الحدیث :۱۱۷۳) حدیث شریف میں ہے: صحيح مسلم (2/ 1021): "«إن المرأة تقبل في صورة شيطان، وتدبر في صورة شيطان، فإذا أبصر أحدكم امرأة فليأت أهله، فإن ذلك يرد ما في نفسه»"۔ ’’کنز العمال ‘‘ میں ہے: " عن ابن عمر مرفوعاّ: ’’ لیس للنساء نصیب في الخروج إلا مضطرة ‘‘ ۔ (۱۶/۳۹۱، الفصل الأول في الترهیبات) الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3/ 146): "وحيث أبحنا لها الخروج فبشرط عدم الزينة في الكل، وتغيير الهيئة إلى ما لا يكون داعية إلى نظر الرجال واستمالتهم"۔

ویڈیوکال پرمیت کاچہرہ دکھانا

ویڈیو کالنگ میں موبائل کا جو کیمرہ استعمال ہوتا ہے ، وہ عام کیمرہ ہی کی طرح ہوتا ہے جیسے عام کیمروں میں تصویر کشی ہوتی ہے اسی طرح ویڈیو کالنگ میں بھی تصویر کشی وتصویر سازی پائی جاتی ہے اور احادیث میں تصویر کشی اور تصویر سازی پر سخت وعیدیں وارد ہوئی ہیں، لہذا موبائل وغیرہ کے کیمرہ کا رخ اپنی طرف یا کسی اور انسان یا جاندار کی طرف کرکے ویڈیو کالنگ کرنا جائز نہیں ہے، ہر مسلمان کے لیے اس سے بچنا لازم وضروری ہے ۔ لہذاویڈیو کالنگ کے ذریعے میت کا چہرہ دیکھنا جائز نہیں ہے۔ حدیث شریف میں ہے: "عن عبد الله، قال: سمعت النبي صلى الله عليه وسلم يقول: «إن أشد الناس عذاباً عند الله يوم القيامة المصورون»". (صحيح البخاري: كتاب اللباس، باب عذاب المصورين، رقم: 5950، ص: 463، ط: دار ابن الجوزي) فتاوی شامی میں ہے: "وظاهر كلام النووي في شرح مسلم: الإجماع على تحريم تصوير الحيوان، وقال: وسواء صنعه لما يمتهن أو لغيره، فصنعته حرام بكل حال؛ لأن فيه مضاهاة لخلق الله تعالى، وسواء كان في ثوب أو بساط أو درهم وإناء وحائط وغيرها اهـ". (حاشية ابن عابدين: كتاب الصلاة، مطلب: مكروهات الصلاة، 1/647، ط: سعيد) بلوغ القصدوالمرام میں ہے: "يحرم تصوير حيوان عاقل أو غيره إذا كان كامل الأعضاء، إذا كان يدوم، وكذا إن لم يدم على الراجح كتصويره من نحو قشر بطيخ. ويحرم النظر إليه؛ إذا النظر إلى المحرم لَحرام". (جواہر الفقہ، تصویر کے شرعی احکام:۷/264-265، از: .بلوغ القصد والمرام، ط: مکتبہ دار العلوم کراچی البتہ علماء عرب کے نزدیک بالاتفاق جائز ہے بشرطیکہ ممنوعات شرعیہ کا لحاظ رکھاجایے: إذا كانت هذه الأعمال التي تنشرها خالية من المخالفات الشرعية في مضمونها، وفي الصور وفي الأصوات. والتربح من الإعلانات جائز إذا كانت خالية من المحرمات، وراجع الفتاوى ذوات الأرقام التالية: 122925، 272881، 329356. وإذا كانت نيتك بهذه الأعمال رجاء الثواب من الله تعالى، وبقيت هذه النية هي الأصل الدافع للعمل، فلا يضيع الثواب ربح المال منها، وراجع الفتوى رقم: 281986.

Monday 17 October 2022

New courses in Jamia Millia Islamia University

Jamia Millia Islamia's (JMI) Centre for Innovation and Entrepreneurship (CIE) is inviting applications for admissions to three month online and offline skill-based courses. Interested candidates can apply for these courses at the official website — jmi.ac.in. Registrations for these three months long online and offline courses will begin on October 19. These courses are open and suited for professionals/, job seekers, school dropouts and university students. The university is offering a course in basics of digital marketing, which will will be an online course of a totality of 50 hours. Classes will be held for an hour from Monday to Thursday, or two hours classes on the weekend. The aspirants will be charged Rs 5000 for this course. This is the only online course the university is offering in skills-based short-term courses

Friday 30 September 2022

حضرت عبد اللہ بن مبارک رحمہ اللہ

حضرت عبداللہ بن مبارک رحمۃ اللہ علیہ زمرۂ تبع تابعین کے گلِ سرسبد ہیں، ان کی زندگی اسلام کا مکمل نمونہ اور اس کی چلتی پھرتی تصویر تھی، ان کا جذبۂ دینی اور شوقِ جہاد ان کی فیاضی اور نرم خوئی، دنیا سے بے رغبتی اور احساسِ ذمہ داری اور اس کے سوانح حیات کے جلی عنوانات ہیں، ان کے ہاتھ میں کوئی مادی طاقت نہیں تھی؛ مگرانہی اخلاقی صفات کی وجہ سے اسلامی مملکت کے ہرفرد کے دل پران کی حکمرانی تھی، ایک بار وہ رقہ آئے، پورا شہر ان کی زیارت کے لیے ٹوٹ پڑا، اتفاق سے ہارون رشید اپنے خدم وحشم کے ساتھ وہاں موجود تھا، محل سے اس کی بیوی یااس کی لونڈی یہ تماشا دیکھ رہی تھی، اس نے پوچھا کہ یہ ہجوم کیسا ہے، لوگوں نے بتایا کہ خراساں کے عالم عبداللہ بن مبارک آئے ہوئے ہیں، یہ انہی کے مشتاقانِ دید کا ہجوم ہے، اس نے بے ساختہ کہا کہ حقیقت میں خلیفۂ وقت یہ ہیں نہ کہ ہارون رشید کہ اس کے گرد پولیس اور فوج کی مدد کے بغیر کوئی مجمع نہیں ہوتا۔ نسب عبداللہ بن مبارک کے والد مبارک ایک شخص کے غلام تھے، ان کی شادی اسی کی لڑکی سے ہوئی تھی، اس وقت تک اسلامی معاشرہ میں عہد سعادت کے آثار باقی تھے، اس لی نسبت نکاح کا معیار حسب ونسب نہیں لکہ لڑکے کی صلاحیت اور اس کا دین وتقویٰ ہوتا تھا، مبارک چونکہ اس حیثیت سے ممتاز تھے، اس لی آقا نے اپنی لڑکی ان سے بیاہ دی؛ گواس کی نسبتیں دوسری بڑی بڑی جگہوں سے بھی آرہی تھیں، مبارک کی جن خصوصیات کی بناپریہ شادی ہوئی، مختصراً ہم اس کا تذکرہ کرتے ہیں: مبارک نہایت دیانت دار ومحتاط شخص تھے، آقا ان کے سپرد جوکام کرتا تھا اس کووہ نہایت دیانت داری اور اطاعت شعاری کے ساتھ انجام دیتے تھے، آقا نے باغ کی نگرانی ان کے سپرد کردی تھی، ایک بار اس نے اُن سے کہا کہ ایک ترش انار باغ سے توڑلاؤ، وہ گئے اور شیریں انار توڑلائے، اس نے دوبارہ اُن سے شیریں انار لانے کے لیے کہا تووہ پھرترش ہی انار توڑ لائے، آقا نے غصہ میں کہا؛ تمھیں ترش وشیریں انار کی بھی تمیز نہیں؟ انہوں نے کہا کہ نہیں، اس نے وجہ پوچھی توبتایا کہ آپ نے مجھے ترش انار کھانے کی اجازت تودی نہیں ہے، اس لیے میں اس کوکیسے پہچان سکتا ہوں، اس نے تحقیق کی تومعلوم ہوا کہ بات صحیح ہے، مبارک کی اس غیرمعمولی دیانتداری اور حق شناسی کا اس پربہت بڑا اثر پڑا اور وہ ان کی بہت قدرومنزلت کرنے لگا۔ مبارک کے آقا کی ایک نیک خداترس لڑکی تھی جس کی شادی کے پیغامات ہرطرف سے آرہے تھے؛ لیکن غالباً وہ ان نسبتوں میں کوئی فیصلہ نہیں کرپارہا تھا، اس نے اس بارے میں ایک روز مبارک سے بھی مشورہ کیا کہ مبارک! میں اس لڑکی کی شادی کہاں اور کس سے کروں؟ انہوں نے کہا کہ: عہدجاہلیت میں لوگ نسبت میں حسب یعنی عزت وشہرت اور نسب کوتلاش کرتے تھے، یہودیوں کومالدار کی جستجو ہوتی تھی اور عیسائی حسن وجمال کوترجیح دیتے تھے؛ لیکن اُمتِ محمدیہ کے نزدیک تومعیار دین وتقویٰ ہے، آپ جس چیز کوچاہیں ترجیح دیں، ااقا کوان کا یہ ایمان افروز اور دانشمندانہ جواب بہت پسند آیا، وہ اپنی بیوی کے پاس آیا اور اس سے کہا کہ میری لڑکی کا شوہر بننے کے لیے مبارک سے بہتر کوئی دوسرا شخص نہیں ہے، بیوی بھی نیک بخت تھیں انہوں نے بھی اس رائے کوپسند کیا اور آقا کی لڑکی سے اُن کی شادی ہوگئی حضرت عبداللہ بن مبارک اسی باسعادت لڑکی کے بطن سے سنہ۱۱۸ھ میں مرو میں پیدا ہوئے، ان کی کنیت ابوعبدالرحمن ہے، ان کا اصلی وطن مرو تھا، اس لیے وہ مروزی کہلاتے ہیں، یہ مرو جہاں ان کی ولادت ہوئی، مسلمانوں کا قدیم شہر ہے، افسوس ہے کہ یہ اس وقت روس کے قبضہ میں ہے، اس سرزمین سے جہاں اخلاق وروحانیت کے سینکڑوں چشمے اُبلے اور اسلامی علم وتمدن کے صدہاسوتے پھوٹے، اب وہاں مادیت ہی کا نہیں بلکہ دھریت کا سیلاب رواں ہے، ان کی ابتدائی تعلیم وتربیت کے متعلق بہت کم معلومات ملتے ہیں؛ لیکن امام ذہبی رحمہ اللہ کے بیان سے اتنا پتہ چلتا ہے کہ وہ ابتائے عمر ہی سے طلب علم کے لیے سفر کی صعوبتیں برداشت کرنے لگتے تھے۔ اس وقت اسلامی مملکت کے کسی قصبہ اور کسی قربیہ میں بھی علماء وفضلاء کی کمی نہیں تھی، مرو جو خراسان کا ایک مشہور شہر تھا، اس کواچھی خاصی مرکزیت حاصل تھی، اس لیے وہاں اہلِ علم کی کیا کمی ہوسکتی تھی، غالباً ابتدائی تعلیم وتربیت وہیں ہوئی، اس کے بعد اس زمانے کے عام مذاق کے مطابق علم حدیث کی طرف توجہ کی، اس کے لیے انہوں نے شام وحجاز، یمن ومصر اور کوفہ وبصرہ کے مختلف شہروں اور قصبوں کا سفر کیا اور جہاں سے جوجواہر علم ملے انہیں اپنے دامن میں سمیٹ لیئے، امام احمد فرماتے ہیں: طلب علم کے لیے عبداللہ بن مبارک سے زیادہ سفر کرنے والا ان کے زمانے میں کوئی دوسرا موجود نہیں تھا؛ انہوں نے دور دراز شہروں کا سفر کیا تھا، مثلاً: یمن، مصر، شام، کوفہ، بصرہ وغیرہ، ابواُسامہ فرماتے ہیں کہ: مارأيت رجلا أطلب للعلم في الآفاق من ابن المبارك۔ترجمہ: میں نے عبداللہ بن مبارک سے زیادہ کسی کوملک درملک گھوم کرطلب علم کرنے والا نہیں دیکھا۔ یہ سفر آج کل کا نہیں تھا کہ چند لمحوں میں انسان نہ جانے کہاں سے کہاں پہنچ جاتا ہے؛ بلکہ اس زمانے کے سفر کا ذکر ہے، جب لوگ پیدل یااونٹ یاگدہوں کے ذریعہ مہینوں میں ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچتے تھے؛ پھرراستو کی دشواریاں توالامان، الحفیظ اور یہ کچھ عبداللہ بن مبارک ہی کی خصوصیت نہ تھی؛ بلکہ سب ہی اکابر ائمہ نے حصولِ علم میں دُور دُور کی خاک چھانی تھی۔ شیوخ کی تعداد موجودہ زمانہ کی طرح اس وقت علم وفن نہ اس طرح مدون تھا اور نہ ایک جگہ محفوظ، خصوصیت سے علومِ دینیہ میں علمِ حدیث کا ذخیرہ تقریباً تمام ممالکِ اسلامیہ میں بکھرا ہوا تھا، اس کی وجہ یہ تھی کہ حدیث کے سب سے پہلے حامل صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کی زندگی گوشہ گیری کی نہیں؛ بلکہ مجاہدانہ تھی، اس لیے وہ شوقِ جہاد اور دوسری دینی ضرورتوں کی بناء پرتمام امصاروقصبات میں پھیل گئے تھے، وہ جہاں پہنچتے تھے، وہاں کے باشندے ان سے اکتساب فیض کرتے تھے اور وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے قول وعمل اور آپ کی سیرت کو ان سے معلوم کرکے اپنے سینوں اور سفینوں میں محفوظ کرتے جاتے تھے، اب جن لوگوں کوصرف عملی زندگی کے لیے حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے ذخیرہ کے معلوم کرنے کی خواہش ہوتی تھی ان کوبہت زیادہ کدوکاوش کی ضرورت نہیں تھی، ان کے لیے ان کے دربار کے صحابہ کرام اور ان کے بعدوہاں کے علماء وفضلاء کی زندگی کا دیکھ لینا بھی کافی تھا؛ مگرجولوگ اس تمام بکھرے ہوئے جواہرریزوں اور شہ پاروں کویکجا مدون اور مرتب کردینا چاہتے تھے کہ ان زندہ ہستیوں کے اُٹھ جانے کے بعد کہیں یہ ذخیرہ ضائع نہ ہوجائے، ان کے لیے دور دور کی خاک چھاننی اور شہروں اور قصبوں کے لیئے زحمتِ سفر اُٹھانی ناگزیر تھی، عبداللہ بن مبارک ان ہی بزرگوں میں تھے، خود فرماتے ہیں: حملت من اربع الاف شیخ فردیت عن الف منہم۔ ترجمہ: میں نے چار ہزار شیوخ واساتذہ سے فائدہ اُٹھایا اور ان میں سے ایک ہزار سے روایت کی ہے۔ دوسری روایت میں ہے کہہ: کتبت عن الف۔ ترجمہ: میں نے ایک ہزار شیوخ کی روایتوں کولکھ لیا ہے۔ یعنی جن لوگوں سے تحصیل علم کیا ان کی تعداد توچار ہزار ہے؛ مگرہرشیخ اس قابل نہیں ہوتا کہ اس کے علم وروایت کومعیاری قرار دیا جائے اس لیے غایت احتیاط میں صرف ایک ہزار شیوخ کی روایت کولکھنا پسند کیا اور اسی کوانہوں نے دوسروں تک منتقل کیا۔ عباس کہتے ہیں کہ ان کے آٹھ سوشیوخ سے تومجھے ملاقات کا موقع ملاہے. ان کے بعض ممتاز اساتذہ کے نام لکھے جاتے ہیں. امام ابوحنیفہ، یہ امام صاحب کے خاص شاگردوں میں ہیں، ان کوامام صاحب سے بڑی محبت اور انسیت تھی، فرماتے کہ مجھ کوجوکچھ حاصل ہوا وہ امام ابوحنیفہ اور سفیان ثوری رحمہ اللہ کی وجہ سے حاصل ہوا، ان کے الفاظ یہ ہیں: لَوْلاَأَنَّ اللهَ أَعَانَنِي بِأَبِي حَنِيْفَةَ وَسُفْيَانَ، كُنْتُ كَسَائِرِ النَّاسِ۔ ترجمہ:اگراللہ تعالیٰ امام ابوحنیفہ اور سفیان ثوری کے ذریعہ میری دستگیری نہ کرتا توعام آدمیوں کی طرح ہوتا۔ مناقب کردری میں ابن مطیع کی روایت ہے کہ میں نے ان کوامام صاحب کے پاس کتاب الرائے کی قرأت کرتے ہوئے دیکھا، ان سے اچھی قرأت کرنے والا میں نے کسی کونہیں دیکھا۔ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کی شان میں ان کے بہت سے اشعار منقول ہیں، خطیب نے ان میں سے چند اشعار نقل کئے ہیں۔ (۲)ان کے دوسرے ممتاز شیخ امام مالک رحمہ اللہ ہیں، امام مالک سے انہوں نے مؤطاکا سماع کیا تھا، موطا کے متعدد نسخے ہیں، جن میں ایک کے راوی ابن مبارک بھی ہیں، امام مالک کے مشہور شاگرد یحییٰ بن یحییٰ اندلسی امام مالک کی مجلسِ درس میں ابن مبارک کی ایک آمد کا ذکر ان الفاظ میں کرتے ہیں۔ ابن مبارک ایک بار امام مالک کی خدمت میں گئے توامام مالک مجلسِ سے اُٹھ گئے اور ان کواپنے قریب بٹھایا، اس سے پہلے امام مالک کسی کے لیے مجلس درس سے نہیں اُ,ھے تھے، جب اُن کوبٹھالیا، تب درس کا سلسلہ جاری کیا، قاری پڑھتا جاتا تھا، جب امام مالک کسی اہم مقام پرپہنچتے توابن مبارک سے دریافت فرماتے کہ اس بارے میں ااپ لوگوں یعنی اہلِ خراسان کے پاس کوئی حدیث یااثر ہوتو پیش کیجئے، عباللہ بن مبارک غایتِ احترام میں بہت آہستہ آہستہ جواب دیتے، اس کے بعد وہ وہاں سے اُٹھے اور مجلس سے باہر چلے گئے (غالباً یہ بات بھی اُستاد کے احترام کے خلاف معلوم ہوئی کہ وہ ان کی موجودگی میں کوئی جواب دیں) امام مالک رحمہ اللہ ان کے اس پاسِ ادب ولحاظ سے بہت متاثر ہوئے اور تلامذہ سے مخاطب ہوکر فرمایا کہ یہ ابنِ مبارک خراسان کے فقیہ ہیں۔ یہ واقعہ غابلاً ان کے طالب علمی کے زمانہ کا نہیں ہے؛ بلکہ اس وقت کا ہے جب ان کی شخصیت مشہور ومعروف ہوچکی تھی اور وہ ایک فقیہ اور محدث کی حیثیت سے جانے جاچکے تھے، اس لیے امام مالک ان کا اعزاز اسی حیثیت سے کررہے تھے اور وہ ایک شاگردِ رشید کی طرح ان سے پیش آرہے تھے، ان ائمہ کے علاوہ ان کے چند معروف وممتاز شیوخ کے نام یہ ہیں، جن میں متعدد کبائر تابعین ہیں۔ وفات ان کی وفات جس طرح ہوئی اس میں ہرمؤمن کے لیئے سامانِ بصیرت ہے، ان کی زندگی زہد واتقا کا مرقع تھی؛ مگران کی سب سے نمایاں خصوصصیت جہاد فی سبیل اللہ تھی، اللہ تعالیٰ کی شان دیکھئے کہ ان کی وفات بھی اسی مبارک سفر میں ہوئی، شام کے علاقہ میں جہاد کے لیے گئے ہوئے تھے کہ اثنائے سفر میں طبیعت خراب ہوئی، ستو پینے کی خواہش کی، ایک شخص نے ستو پیش کیا مگریہ شخص ہارون رشید کا درباری تھا، اس لیے اس کا ستوپینے سے انکار کردیا، وفات سے کچھ دیر پہلے آواز پھنس گئی، اس گلوبندی کی وجہ سے ان کوگمان ہوا کہ زبان سے کلمۂ شہادت نکلنا نہ رہ جائے اس لیے انہوں نے اپنے ایک شاگرد حسن بن ربیع سے کہا کہ دیکھو جب میری زبان سے کلمہ شہادت نکلے توتم اتنی بلند آواز سے دہرانا کہ میں سن لوں، جب تم ایسا کروگے تویہ کلمہ خود بخود میری زبان پرجاری ہوجائے گا، چنانچہ اسی حالت میں وہ اپنے خالق سے جاملے۔ سنہ، عمر اور مقام وفات یہ حادثۂ عظمیٰ سنہ۱۸۱ء میں مقام ہیت (یہ مقام گوحدودِ کوفہ ہی میں داخل تھا؛ مگرصحرائے شام میں واقع ہے، اس وقت اس کی حیثیت ایک قصبہ کی تھی) میں پیش آیا، وفات کے وقت عمر ۶۳/سال تھی۔ مقبولیت وفات گووطن سے سینکڑوں میل دور ہوئی تھی، عام مقبولیت کا حال یہ تھا کہ جب لوگوں کووفات کی اطلاع ملی توجنازہ پراس قدر اژدہام ہوا کہ وہاں کے حاکم کو اس واقعہ کی اطلاع دارالخلافہ بغداد بھیجنی پڑی، زندگی میں وہ ہارون سے ملنا پسند نہیں کرتے تھے؛ مگرجب اس کواس حادثہ کی اطلاع ہوئی تواس نے اپنے وزیرفضل سے کہا کہ آج لوگوں کوعام اجازت دے دو کہ ان کی تعزیت لوگ ہمارے پاس آکر کریں (مقصد یہ تھا کہ ان کی وفات پوری مملکتِ اسلامی کے لیے ایک حادثہ ہے اور میں اس وقت اس کا ذمہ دار ہوں توان کی تعزیت کا میں بھی حقدار ہوں) مگرفضل نے اس کی طرف کوئی خاص توجہ نہیں کی توہارون نے ان کے کچھ اشعار پڑھے اور اس حادثہ کی اہمیت بتلائی، راوی کا بیان ہے کہ ان کی وفات کے بعد مجھے اس آیت کا مفہوم واضح ہوا: إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ سَيَجْعَلُ لَهُمُ الرَّحْمَنُ وُدًّا۔ ] ترجمہ:جولوگ ایمان لائے اور عملِ صالح کیا ان کی محبت اللہ تعالیٰ لوگوں کے دلوں میں پیدا کردے گا۔ اکابرکے ہاں مقام سفیان ابن عیینہ مشہور محدث ہیں، انہوں نے ابن مبارک کی کچھ یوں تعریف کی :میں نے ابن مبارک کے حالا ت پر غور کیا ،اور صحابہٴ کرام کے حالات پر غور کیا تو کیا دیکھتا ہوں کہ ابن مبارک میں آپ کی صحبت ومعیت کے علاوہ تمام فضائل موجو د ہیں، صحابہٴ کرام آپ کی صحبت کی برکت سے اعلیٰ وبلند ہیں۔ ابنِ مبارک کی طرز ِزندگی دیکھ کر سفیان ابنِ عیینہ کہتے تھے کہ میری زندگی کا کم از کم ایک سال ابنِ مبارک کی طرح گذر جائے؛ حالانکہ تین دن بھی ایسے نہیں گزرسکتے ۔ امام ابو حنیفہ کے شاگرد ابن مبارک، امام ابو حنیفہ کے مشہور شاگردوں میں سے تھے اور ابو حنیفہ کے ساتھ ان کا خاص خلوص تھا۔ ان کو اعتراف تھا کہ جو کچھ مجھ کو حاصل ہوا وہ امام ابو حنیفہ اور سفیان ثوری کے فیض سے حاصل ہوا ہے۔ ان کا مشہور قول ہے کہ "اگر اللہ نے ابو حنیفہ و سفیان ثوری کے ذریعہ سے میری دستگیری نہ کی ہوتی تو میں ایک عام آدمی سے بڑھ کر نہ ہوتا۔" لیکن اس کے باوجود بعض مسائل میں ابن مبارک اپنے استاد امام ابو حنیفہ سے بڑھے ہوئے تھے. احادیث سے مضبوط دلائل ہونے کی بنا پر لا جواب کر دیتے تھے جیسے ایک دفعہ رفع یدین کے مسئلہ پر یہ کہہ کر لاجواب کر دیا إن كنت انت تطير في الأولى فأني أطير فيما سواها إن کنت انت تطیر فی الاولیٰ فانی اطیر فیما سواھا امام وکیع نے امام ابن المبارک رحمہ اللہ کے اس جواب کی بڑی تحسین و تعریف کی. حوااہ جات: کتاب السنۃ لعبداللہ بن احمد بن حنبل ، ص : 59 ، تاویل مختلف الحدیث لابن قتیبی ، ص : 66 ، سنن بیہقی ، ج : 2 ، ص :82 ، ثقات ابن حبان ، ج : 4 ، ص : 17، تاریخ خطیب ، ج : 13 ، ص :406 تصنیفات: الزهدوالرقائق الجهاد البر والصلۃ

زکات کی اہمیت

دین اسلام میں زکوٰۃ ہر مالدار صاحبِ نصاب پر فرض ہے۔زکوٰۃ کی معاشرتی حیثیت ایک مکمل اور جامع نظام کی ہے۔ اگر ہر صاحبِ نصاب زکوٰۃدینا شروع کر دے تو مسلمان معاشی طور پر خوشحال ہو سکتے ہیں اور اس قابل ہو سکتے ہیں کہ کسی غیر سے قرض کی بھیک نہ مانگیں اورزکوٰۃ ادا کرنے کی وجہ سے بحیثیت مجموعی مسلمان سود کی لعنت سے بچ سکتے ہیں۔ زکوٰۃکی فضیلت: قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے تقریباً 32 مقامات پر نماز کے ساتھ زکوٰۃکو ذکر فرمایا ہے۔ جس سے اس کی اہمیت معلوم ہو سکتی ہے۔ اور نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی کئی بے شمار احادیث میں زکوٰۃکی فضیلت ، ترغیب اور افادیت کو اجاگر کیا گیا ہے۔ معلوم یہ ہوا کہ زکوٰۃکو دین میں بہت اہمیت دی گئی ہے۔اور زکوٰۃ ادا نہ کرنے والے کو سخت عذاب کی وعید بتلائی گئی ہے۔ ایک حدیث ملاحظہ ہو ! حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ آپ علیہ السلام کا ارشاد نقل فرماتے ہیں کہ جو شخص اپنے مال کی زکوٰۃ ادا نہیں کرتا قیامت کے دن اس کا مال گنجے سانپ کی شکل میں اس کی گردن میں ڈال دیا جائے گا۔ (راوی کہتے ہیں کہ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن پاک کی آیت کا مصداق ہمیں سمجھایا اور یہ آیت تلاوت کی جس کا ترجمہ یہ ہے)اور ہرگز خیال نہ کریں ایسے لوگ جو ایسی چیز میں بخل کرتے ہیں جو اللہ نے ان کو اپنے فضل سے دی ہے کہ یہ بات کچھ ان کے لیے اچھی ہوگی بلکہ یہ بات ان کی بہت بری ہے وہ لوگ قیامت کے روز طوق پہنادیے جائیں گے اس کا جس میں انہوں نے بخل کیا تھا۔

قصة عبدالله بن المبارك رحمه الله

كان عبد الله بن المبارك يحج سنة ويغزو سنة فلما كانت السنة التى يحج فيها خرج بخمسمائة دينار الى موقف الجمال ليشترى جملا فرأى امرأة على بعض الطريق نتنف ريش بطة فتقدم اليها وسألها ماذا تفعلين؟ فقالت: يرحمك الله انا امرأة علوية ولى اربع بنات مات ابوهن من قريب وهذا اليوم الرابع ما اكلن شيئا وقد حلت لنا الميتة فأخذت هذه البطة اصلحها واحملها الى بناتى فقال عبد الله فى نفسه :( ويحك يا ابن المبارك اين انت من هذه؟ ) فأعطاها عبد الله الدنانير التى كانت معه ورجع عبد الله الى بيته ولم يحج هذه السنة وقعد فى بيته حتى انتهى الناس من مناسك الحج وعادوا الى ديارهم فخرج عبد الله يتلقى جيرانه واصحابه فصار يقول الى كل واحد منهم : ( قبل الله حجتك وشكر سعيك ) فقالوا لعبد الله : ( وانت قبل الله حجتك وشكر سعيك انا قد اجتمعنا معك فى مكان كذا وكذا) (اى اثناء تأدية مناسك الحج) واكثر الناس القول فى ذلك فبات عبد الله مفكرا فى ذلك فرأى عبد الله النبى يقول : ( يا عبد الله لا تتعجب فأنك اغثت ملهوفا فسألت الله عز وجل ان يخلق على صورتك ملكا يحج عنك )

أبوبكرالمسكى

قيل لابى بكر المسكى : انا نشم منك رائحة المسك مع الدوام فما سببه؟ فقال: والله لى سنين عديدة لم استعمل المسك ولكن سبب ذلك ان امرأة احتالت على حتى ادخلتنى دارها واغلقت دونى الابواب وراودتنى عن نفسى(اى:ارادت فعل الفاحشة معى) فتحيرت فى امرى فضاقت بى الحيل فقلت لها: ان لى حاجة الى الطهارة فأمرت جارية لها ان تمضى بى الى بيت الراحة(الحمام) ففعلت فلما دخلت الحمام اخذت الغائط والقيته على جميع جسمى ثم رجعت اليها وانا على تلك الحالة فلما رأتنى دهشت ثم امرت بأخراجى فمضيت واغتسلت فلما كان تلك الليلة رأيت فى المنام قائلا يقول لى:فعلت ما لم يفعلهاحد غيرك لاطيبن ريحك فى الدنيا والاخرة فأصبحت والمسك يفوح منى واستمر ذلك الى الان

Saturday 24 September 2022

شیئرز کی خریدوفروخت

شیئرز کی خرید وفروخت یاا سٹاک ایکسچینج کا کاروبار بنیادی طور پر جائز ہے۔ سٹاک مارکیٹ میں تین طرح سے نفع ملتا ہے جس کی وضاحت درج ذیل ہے: پہلی صورت یہ ہے کہ آپ کسی کمپنی کے حصص خرید لیں اور سال کے اختتام پر ان حصص پر کمپنی نفع دے۔ یہ نفع دینا بہرحال کمپنی پر فرض نہیں ہے، بلکہ وہ اپنی پوزیشن اور پرفارمنس دیکھ کر وہ اپنے نفع میں حصہ داروں کو شامل کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ کرتی ہے۔ اس پہلی صورت میں نفع کی شرح بینکوں کے نفع کی طرح فکسڈ یا متعین نہیں ہوتی ہے۔ سو اس میں تو کوئی قباحت نہیں۔ دوسری شکل یہ ہے کہ آپ نے ایک شرح سے حصص خریدے اور کچھ وقت کے بعد انکا ریٹ بڑھ گیا اور آپ نے وہی حصص بیچ کر نفع کمالیا، تو اس میں بھی کوئی قباحت نہیں ہے۔ کیونکہ یہ بعینہ تجارت کی ہی شکل ہے۔ یہی دو صورتیں جائز ہیں۔ تیسری شکل جو آج کل عام اور تمام امراض کی جڑ ہے، وہ سٹے بازی ہے۔ اس میں اصل لین دین کی بجائے، زبانی کلامی سودے ہوتے ہیں، اور دن بھر ہوتے ہی رہتے ہیں۔ دن کے اختتام پر بیٹھ کر حساب کر لیا جاتا ہے کہ کس نے کتنا کھویا اور کتنا پایا ہے۔ یہی صورت چھوٹے سرمایہ داروں کے لیے نقصان دہ ہے۔ اس طرح کی سودے بازی میں سارا نقصان چھوٹے سرمایہ کاروں کا ہوتا ہے۔ لہٰذا سٹاک مارکیٹ میں کاروبار کرتے وقت انتہائی محتاط رہنے کی ضرورت ہے۔ اس کے ساتھ یہ بھی ضروری ہے صرف اسی بینک یا ادارہ کے حصص خریدے جائیں جو اسلامی اصولوں پر کاروبار کرتا ہو۔ اس صورت میں نفع و نقصان دونوں کا امکان رہتا ہے۔ اگر کوئی کمپنی شراب,بینک یاسودی کاروبار کرتا ہی، تو اس میں سرمایہ کاری اور اس پر متعین منافع حاصل کرنا، سود کھانے کے مترادف ہے۔ جو کہ کسی مسلمان کے لیے کسی صورت میں بھی جائز نہیں۔ لہذااسٹاک مارکیٹ, یاشیئربازار میں درج ذیل شرائط کے ساتھ پیسہ لگاسکتے ہیں : 1۔۔ جس کمپنی یا ادارہ کے حصص (شیئرز) کی خرید وفروخت کی جارہی ہو واقعۃً وہ کمپنی یا ادارہ موجود ہو، یعنی اس کے ماتحت کوئی جائیداد، کارخانہ، مل، فیکٹری یا کوئی اور چلتا کاروبار موجود ہو، اور اگر کمپنی یا ادارہ کے تحت مذکورہ اشیاء نہ ہوں یا کمپنی یا ادارہ سرے سے موجود ہی نہ ہو ، صرف اس کا نام ہو اور اس کے شیئرز بازار میں اس لیے چھوڑے گئے ہوں کہ اس پر پہلے سے زیادہ رقم حاصل کی جائے اور منافع حاصل کیے جائیں تو ایسی کمپنی کے شیئرز کی خریدوفروخت جائز نہیں، کیوں کہ ہر شیئر کے مقابل میں جمع شدہ روپے کی رسید ہے، کوئی جائیداد یا ایسا مال نہیں جس پر منافع لے کر فروخت کیا جاسکے۔ 2۔۔ کمپنی کا کل یا کم از کم غالب سرمایہ جائز اور حلال ہو۔ الف : یعنی جس موجود کمپنی اور جاری کاروبار یا کارخانہ کے حصص (شیئرز) خریدوفروخت کیے جارہے ہوں اس کا سرمایہ جائز اور حلال ہو، رشوت، چوری،غصب، خیانت،سود، جوئے اور سٹہ پر حاصل شدہ رقم نہ ہو ، لہذا سودی ادارے جیسے بینک یا انشورنس کمپنی وغیرہ کے شیئرز کی خرید وفرخت جائز نہیں ہے۔ ب : کمپنی کے شرکاء میں سودی کاروبار کرنے والے یا کسی اور ناجائز اور حرام کاروبار کرنے والے اداروں یا افراد کی رقم شامل نہ ہو۔ 3۔۔ کمپنی یا ادارہ کا کاروبار جائز اور حلال ہو ۔ الف : یعنی کمپنی یا ادارہ کے کاروبار کے طریقہ کے درست ہونے کے ساتھ ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ کمپنی یا ادارہ کا کاروبار بھی جائز ہو، مثلاً شرعی شراکت اور شرعی مضاربت کی بنیاد پر کاروبار ہو ، اگر کاروبار ناجائز ہو گا تو اس کمپنی کے شیئرز کی خرید وفروخت جائز نہیں ہوگی۔ ب : اور کمپنی کا کاوربار حلال اور جائز اشیاء کا ہو ، مثلاً شراب، جان دار کی تصاویر ، ٹی وی، وی سی آر اور ویڈیو فلم سینما وغیرہ کے کاروبار والی کمپنیوں کے شیئرز کی خرید وفرخت بھی ناجائز ہے۔ 4۔۔ شیئرز کی خرید وفرخت میں شرائط بیع کی پابندی کرنا۔ یعنی مذکورہ کمپنی یا ادارہ کے شیئرز کی خریدوفروخت بیع وتجارت کے شرعی اصولوں کے مطابق ہو مثلاً آدمی جن شئیرز کو خرید کر بیچنا چاہتا ہے اس پر شرعی طریقہ سے قابض ہو اور دوسروں کو تسلیم اور حوالہ کرنے پر بھی قادر ہو۔ واضح رہے کہ شیئرز میں قبضہ کا حکم ثابت ہونے کے لیے صرف زبانی وعدہ کافی نہیں ہے، نام رجسٹرڈ یا الاٹ ہونا ضروری ہے، اس سے پہلے صرف زبانی وعدہ یا غیر رجسٹرڈ شیئرز کی خرید وفروخت باقاعدہ فزیکلی طور پر ڈیلیوری ملنے سے پہلے ناجائز ہے، البتہ یہ درست ہے کہ شیئرز پہلے بائع کے نام رجسٹرڈ ہوں اور بائع اس کی قیمت بھی ادا کردے اور اس کے پاس ڈیلیوری آجائے ، اس کے بعد اس کی خریدوفروخت جائز ہوگی، یا شیئرز وصول کرلیے ہیں، لیکن ابھی تک قیمت ادا نہیں کی تو اس صورت میں بھی مذکورہ شیئرز کو فروخت کرکے نفع لینا جائز ہے، کیوں کہ مبیع پر قبضہ ثابت ہے۔ 5۔۔ منافع کی کل رقم کو تمام حصہ داروں کے درمیان شیئرز کے مطابق تقسیم کرنا۔ مثلاً کمپنی میں جو منافع ہوا ہے اسے تمام حصہ داروں میں ان کے شیئرز کے مطابق تقسیم کردیا جائے، لیکن اگر کوئی کمپنی مستقبل کے ممکنہ خطرہ سے نمٹنے کے لیے منافع میں سے مثلاً ٪20 فیصد اپنے لیے مخصوص کرتی ہے اور 80 فیصد منافع کو حصہ داروں میں تقسیم کرتی ہے تو اس کمپنی کے شیئرز کی خریدوفروخت ناجائز اور حرام ہے؛ کیوں کہ یہ کمپنی شرعی شراکت کے خلاف ناجا ئز کاروبار کرتی ہے۔ (ماخوذ از جواہر الفتاوی، م؛ مفتی عبد السلام چاٹگامی صاحب، 3/258، ط؛ اسلامی کتب خانہ)

Friday 23 September 2022

احمد مخيمر

أحمد مخيمر هو شاعر مصري ولد عام 1914 وتوفى عام 1978، وقد عاش 64 عاما، من أعماله «شعر القاهرة هو شاعر معاصر ولد بمحافظة الشرقية، وتخرج في دار العلوم وتدرج في المناصب حتى أصبح رئيسًا للجنة القراءة في الهيئة العامة للكتاب. أهم أعماله عدل ديوان «الغابة المنسية» ديوان «في ظلال القمر» ديوان «أسماء الله» كان شاعرا متميزا بين كوكبة الشعراء التي التمعت أسماؤها في ختام ثلاثينيات القرن الماضي، وكان عضوا بارزا في جماعة أبوللو الشعرية، والتي تعد واحدة من أكبر حركات التجديد في الشعر العربي الحديث، وكان من نجوم هذه الجماعة إبراهيم ناجي، علي محمود طه، محمود حسن إسماعيل، محمود أبو الوفا، أحمد فتحي طاهر، وغيرهم. ولكن كان من بين كل هؤلاء الشاعر أحمد مخيمر، أكثرهم ميلا ً من حيث الطبع والنزوع الفلسفي والفكر والتأمل، مما سيجعله يتجه إلى كتابه (لزوميات مخيمر) على نهج لزوميات أبي العلاء المعري. وطني وَصِبَايَ وَأَحْلامي ... وطَـني وهَوَايَ وأيَّـامي ورِضـا أُمِّي وحَنـانُ أبي... وخُطَى وَلَدِي عندَ اللَّعِبِ يخطُو برجاءٍ بَسَّامِ هَتَفَ التـاريخُ به فصَحَـا... ومَضَى وَثـْبـًا ومَشَى مَرَحا حمَلَتْ يَدُهُ شُعَلَ النَّصْرِ... وبَـدَا غَـدُهُ أمَـلَ الدَّهْـرِ يستقبِلُ موكِبَهُ فَرَحا... ويُحَيِّي مَجدَ الأَهـرامِ في فترة الخمسينيات غنى عبد الحليم حافظ من كلمات الشاعر أحمد مخيمر وألحان محمد الموجي أقبل الصباح وفي بداية السبعينيات اتصل عبد الحليم حافظ بالشاعر أحمد مخيمر وطلب منه قصيدة يغنيها فأعطاه من ديوانه الغابة المنسية المطبوع سنة 1965 قصيدة يامالكا قلبي ويوم 5 أبريل عام 1973 غنى عبد الحليم حافظ في حفلته قصيدة رسالة من تحت الماء كلمات نزار قباني وألحان محمد الموجي وغنى أيضا قصيدة يامالكا قلبي كلمات أحمد مخيمر وألحان لحن محمد الموجي كما غنى حاول تفتكرني كلمات محمد حمزة وألحان بليغ حمدي وقبل أن يغني عبد الحليم حافظ قصيدة يامالكا قلبي قدم محمد الموجي الذي سعد وسلم على عبد الحليم وبعده صعدت أنغام ابنة محمد الموجي التي تبلغ من العمر وقتها 16 سنة مع أختها غنوة التي تبلغ من العمر 12 سنة وقدمتا لعبد الحليم بوكيه ورد فقبلهما عبد الحليم فصاح الجمهور فقال عبد الحليم: دول ولاد الموجي والله ثم قدمهما للجمهور. نسبت قصيدة يامالكا قلبي بالخطأ للأمير السعودي عبد الله الفيصل فرفع الشاعر أحمد مخيمر دعوى وحكمت المحكمة لصالحه مع تعويض 41 جنيها وتم الاتفاق على نسب القصيدة لشاعرها أحمد مخيمر وحق الطبع الميكانيكى يعنى الشرائط الصوتية وتم تصحيح الأوضاع في عام 1976 وأكد اتحاد كتاب مصر ومجمع اللغة العربية أن قصيدة يامالكا قلبي للشاعر أحمد مخيمر وليست للأمير عبد الله الفيصل ويذكر أن الفنانة نجاح سلام غنت أيضا هذه القصيدة ولكن بمقاطع أخرى.. من أشعار الشاعر أحمد مخيمر نذكر قصيدته بنت المعز القاهرة: بنت المعز القاهرة... حتى الصباح ساهرة جميلة رقيقة... نبيلة مسامرة ممتلئ ترابها... بالنفحات العاطرة كأنما قد خلطوه... بالورود الناضرة شامخة لا تنحني... كبراً صبور قادرة كم هزمت ممالكً... وكم طوت جبابرة في كل شبر فوقها... ذكرى تطل سافرة تحكي لنا تاريخ مجد.. أو تقص نادرة مدينتي مهما قسا... قلب الزمان صابرة فيها من الأهرام حب... الكبرياء الآمرة فيها ذكاء شعبهاعلى... الليالي الماكرة قلت لها إنكِ يا... مدينتي لا لصايرة أخشى على هذا الجمال... فالليالي غادرة فلملمت رداءها كبراً... وقالت آمرة كم ظالم قد مر بي... وما أزال القاهرة أيضا الشاعر أحمد مخيمر ناجى رمضان بقوله: أنت في الدهر غرة وعلى الأرض سلام وفي السماء دعاء وتسبي ليلة القدر عندهم فرحة العمر تدانت على سناها السماء في انتظار لنورها كل ليل يتمنى الهدى ويدعو الرجاء وتعيش الأرواح في فلق الأشواق حتى يباح فيها اللقاء فإذا الكون فرحة تغمر الخلق إليه تبتل الأتقياء وإذا الأرض في سلام وأمن وإذا الفجر نشوة وصفاء وكأني أرى الملائكة الأبرار فيها وحولها الأنبياء نزلوا فوقها من الملأ الأعلى فأين الشقاء والأشقياء؟ في الثمانينيات كتب الشاعر طاهر أبو فاشا في جريدة الأهرام: أحمد مخيمر شاعر يذكرنا بأبي تمام في شعره ويذكرنا بأحمد شوقي في مسرحه والكلام كثير عن أحمد مخيمر من خلال شهادات وأقلام فاروق شوشة والعوضي الوكيل وبيومي مدكور وثروت أباظة إلا أن المؤسف هو أن كثيرا من تلاميذه الذين استفادوا من موهبته الطاغية وعلمه وفنه جحدوه في حياته الخاصة فلم يتذكره في كبره إلا قليل منهم وفي عام 1978 توفى الشاعر أحمد مخيمر فرحمة الله على روحه.

Friday 16 September 2022

Marginalised communities in India

The latest Oxfam India report came up with findings that may seem detrimental to India's economic goals and the idea of equal treatment. Findings from the report indicate that women, Muslims, Dalits, and tribals have been on the receiving end of several discriminatory practices in workplaces. Defining discrimination in the labour market as the situation when people with "identical capabilities are treated differently because of their identity or social backgrounds", CEO of Oxfam India, Amitabh Behar, says that the study collected data between the years 2004 to 2020. Government data on jobs, wages, health and agricultural credit among various social groups was accessed and used to identify the patterns of discrimination. While women in the country have faced the challenges of breaking the glass ceilings for age-long, similar barricades extend further to historically oppressed communities who have been trying to step up in the mainstream. They continue to face discrimination in accessing jobs or securing their livelihoods, said the India Discrimination Report 2022. Continued Struggle Of Women Reflects On Labour Participation Rates The inequality faced by these communities was not attributed to poor access to education qualifications or work experience, instead noted discrimination as the underlying cause. Discriminatory practices in the country caused 100 per cent of employment inequality faced by women in rural areas and 98 per cent in urban areas labour markets, as per the report. The study emphasises that women in the country with high educational qualifications and work experience were still subjected to discrimination when compared to a man on the same levels. A report by the New Indian Express quoted that most of these cases were traced back to prejudices that are deep-rooted within society and employers. In terms of income, women earned lesser wages due to 67 per cent discrimination and 33 per cent due to lack of education or experience. Behar added on to this and noted that a man and woman who start on equal footing in the economic sphere would be treated differently, and the women were found to lag behind in "regular/salaried, casual and self-employment." These factors directly influenced the low Women's Labour Force Participation Rate (LFPR) in India. Supporting this finding further was the Union Ministry of Statistics and Programme Implementation (MoSPI), which said that women LFPR in India was barely 25 per cent in 2020-21 for urban and rural women. This was a drastic drop from 42.7 per cent in 2004-05. Historically Oppressed Communities In The Modern Economy Supporting the discrimination faced by women and the specific social communities, the report elaborated that a man would earn ₹4,000 more than a woman, a non-Muslim earned ₹7,000 more than Muslims, and those at the bottom of the caste system and tribespeople made ₹5,000 less compared to the others in the industry. Caste played a major barrier when it came to accessing agricultural credit, despite many agricultural labourers coming from the scheduled caste (SC) or tribal (ST) communities. STs and SCs have reportedly received less than a quarter of the credit shares that Forward Castes (FCs) receive. In the case of self-employed SC/ST workers, the non-SC/ST earned three times more. The mean income for these marginalised communities in urban areas accounted for about ₹15,312, compared to ₹20,346 that people from the general category earned. This indicated that individuals from the general category earned about 33 per cent more than SCs or STs. Muslims continue to face several prejudices and multidimensional challenges, whether it is a salaried job or a self-employment opportunity. A news report from the The News Minute showed that discrimination against the community had intensified in the past 16 years. In rural regions, this contributed to a sharp increase in unemployment by 17 per cent among Muslims during the first quarter of the Covid-19 pandemic, making their unemployment rate stagnate at 31.4 per cent. Within the urban crowds, 15.6 per cent of the Muslim population aged 15 and above were engaged in regular salaried jobs in 2019-20, compared to the 23.3 per cent of non-Muslims who were able to secure regular salaried jobs. Multiple Independent Studies Point In The Same Direction Earlier several independent studies were conducted by different organisations to understand the employability of several communities post-pandemic. A study by Led By Foundation gained attention in recent times for their findings that there is huge discrimination and discrepancy between Hindu and Muslim women receiving job callbacks. The foundation was developed at the renowned Harvard University to study the representation of Muslim women in the workforce. Titled "Hiring Bias: Employment for Muslim women at entry-level roles", the study was conducted over a span of 9 months from 2021 to 2022. About 2,000 job applications were sent across to 1,000 job postings on prominent job search sites with two dummy profiles, one of a Hindu woman and the other of a Muslim woman. With the exception of their religion indicated through their names, the resumes were kept the same to understand the employer's bias. It deduced that the net discrimination rate faced by Indian Muslim women in the job market, compared to Hindu women, is 47.1 per cent. For every two callbacks that a Hindu woman received, a Muslim woman received only one. It also shed light on the region-wise discrepancy and found discrimination rates to be 39.5 per cent in North India and about 60 per cent in South India. The report by Oxfam solidifies these independent studies through the analysis of available government data. They also said that there is a need for enforcement of effective measures by the government for the "protection and right to equal wages and work for all". Some of the recommendations they put forth are to incentivise participation of women and other socially excluded communities in the workforce through enhancements in pay, upskilling, job reservations and easy return-to-work options after maternity for women.

الصحابى عبدالله بن حذافه السهمى رضى الله عنه

عبدُ الله بنُ حُذَافَةَ السَّهْميُّ، المكنى بِـ «أبي حُذافة». هو أحد صحابة النبي محمد صل الله عليه وسلم الذين بعثوا إلى ملوك الأعاجم برسائل تدعوهم إلى الإسلام. وكانت رسالة عبد الله إلى كسرى ملك الفرس وذلك في السنة السادسة للهجرة. وفي السنة التاسعة للهجرة خرج مع جيش المسلمين لمحاربة الروم في بلاد الشام وقد أسر عندهم. كان عبد الله قد هاجر إلى الحبشة بعد أن اشتد إيذاء المشركين في مكة للمسلمين. وشهد مع النبي محمد غزوة أحد وما بعدها من الغزوات، وشهد كذلك فتح مصر، وقد توفي فيها عام 33هـ. اشتهر عبد الله بين الصحابة بدعابته اللطيفة. عبد الله بن حذافة السهمي :معلومات شخصية هو عبد الله بن حذافة بن قيس بن عدي بن سعد السهمي القرشي الكناني وأمه تميمة بنت حرثان من بني الحارث بن عبد مناة. :سيرته رسالته إلى كسرى : رسائل رسول الله صل الله عليه وسلم في السنة السادسة للهجرة بعد عقد صلح الحديبية مع قريش عزم رسول الله محمد ﷺ أن يدعو ملوك وأمراء ذاك الزمان إلى دين الإسلام؛ فوقف وخطب بصحابته واختار منهم من يحمل رسائله، وكان اختيار النبي لسفرائه قائمًا على مواصفات معينة، اذ كانوا يتحلون بالعلم والفصاحة، والصبر والشجاعة، والحكمة وحسن التصرف، وحسن المظهر. وكان عبد الله بن حذافة ممن اختارهم النبي ليحمل رسالته إلى بلاد فارس حيث كان له دراية بهم ولغتهم، وكان أبي حذافة مضرب الأمثال في الشجاعة وثباته عند الشدائد. وجاء بالرسالة ما يلي: عبد الله بن حذافة السهمي "بسم الله الرحمن الرحيم، من محمد رسول الله إلى كسرى عظيم فارس، سلام على من اتبع الهدى، وآمن بالله ورسوله، وشهد أن لا إله إلا الله وحده لا شريك له، وأن محمدا عبده ورسوله، وأدعوك بدعاية الله، فإني أنا رسول الله إلى الناس كافة، لينذر من كان حيا ويحق القول على الكافرين فأسلم تسلم، فإن أبيت فإن إثم المجوس عليك." عبد الله بن حذافة السهمي فانطلق أبو حذافة راكبًا حصانه متجهًا إلى فارس وعند وصوله بعد حوالي شهر أخذ يسأل ويبحث عن القصر حتى وجده، وكان قصر كبير محاط بالجنود والأسوار، فاقترب من الحراس وأخبرهم أنه يحمل رسالة إلى الملك، فوصل الخبر إلى كسرى وأمر بتزيين الإيوان (مجلس لكبار القوم) ودعا عظماء الفرس ليكونوا في المجلس، وعند انتهائهم من تجهيزات الإستقبال سمحوا لأبي حذافة بالدخول. دخل أبو حذافة قاعة المجلس مرفوع الرأس واثقًا في خطاه فنظر إليه كسرى نظرة احتقار فرآه مرتديًا عباءة قديمة ويظهر عليه بساطة أعراب البادية، فأشار إلى أحد جنوده أن يحمل الرسالة، إلا أن أبي حذافة أبى ذلك وأصر أن يسلمها للملك بيده، وعند تسليمها أمر كسرى أحد الكتبة الذين يجيدون العربية أن يقرأها له، وما إن سمع كسرى أن محمد قد بدأ بنفسه قبل إسمه غضب وأخذ يمزق الرسالة دون أن يعلم ما مضمونها، وأمر أبو حذافة بالخروج؛ فخرج وعاد إلى يثرب، وعندما عاد كسرى إلى رشده أمر جنوده بجلب أبي حذافة عنده فلم يجدوه، وعند وصول أبو حذافة عند النبي أخبره ما حدث معه من تمزيق كسرى للرسالة فقال النبي: «مزّق الله مُلكه». كتب كسرى إلى نائبه في اليمن باذان رسالةً أن يبعث رجلين قويين إلى محمد وأن يحضراه إليه. فبعث باذان إلى النبي محمد رسالةً مع رجلين قويين يأمره بها أن يذهب معهما فورًا للقاء الملك كسرى، فعند وصول الرجلين عند النبي قال لهما «ارجعا إلى رحالكما اليوم وائتياني في الغد». وفي اليوم التالي جاء الرجلان عند النبي فقال لهما النبي أن كسرى قد مات على يد إبنه شيرويه فعادا الرجلين إلى باذان وأخبراه بما حصل. وبعد بضعة أيام وصلت رسالة إلى باذان أن شيرويه قد تولى الحكم فأعلن باذان إسلامه. أسره عند الروم في السنة التاسعة عشر للهجرة بعث الخليفة عمر بن الخطاب جيشًا لمحاربة الروم لفتح بلاد الشام، وأثناء الحرب وقع أسرى من المسلمين في يد الروم وكان من بينهم عبد الله بن حذافة. كان لدى قيصر ملك الروم علمٌ بما يتحلى به المسلمون من استرخاص النفس في سبيل الله، فأمر جنوده بجلب الأسرى عنده؛ إذ أراد أن يختبرهم، وكان من ضمنهم أبو حذافة، فنظر إليه طويلاً ثم عرض عليه أمرين إما الموت وإما أن يتنصر ويُخلى عن سبيله، فاختار أبو حذافة الموت على أن يغير دينه فغضب الملك وأمر جنوده بصلب عبد الله ورميه بالرماح لإخافته وليرجع عن دينه، إلا أن أبي حذافة بثباته وإصراره أمر جنوده يتركوه، وأمرهم بجلب قدر عظيم صُبَّ فيه الزيت ورُفع على النار حتى غلي، ثم دعا بأسيرين من أسرى المسلمين وأمر بأحدهما أن يُلقى فيها فأُلقي، فإذا لحمه يتفتت وعظامه تطفو على السطح، ثم التفت قيصر إلى أبي حذافة وعرض عليه النصرانية مرة أخرة إلا أنه رفض فأمر قيصر جنوده أن يُلقوه في القدر. وقف عبد الله ينظر إلى القدر وعيناه تدمعان، وعندما رآه قيصر على هذه الحال صرخ بجنوده أن يأتوه به لعله يكون قد جزع وخاف من الموت. إلا أن أبو حذافة قال: «واللهِ ما أبكاني إلا أني كنت أشتهي أن يكون لي بعدد ما في جسدي من شعرٍ أنفُسٌ فتُلقى كلُّها في هذه القدر في سبيل الله». فعجب قيصر من شجاعته وقال: «أتقبِّل رأسي وأُخلِّي سبيلك؟» فرد عليه: «عنّي وعن جميع الأسرى؟» فوافق ثم دنا أبو حذافة منه وقبَّل رأسه، فأمر قيصر بإخلاء سبيل جميع أسرى المسلمين. وعندما عاد أبو حذافة مع الأسرى إلى المدينة المنورة سُرَّ الخليفة عمر بن الخطاب بلقائهم وعند علمه بالقصة قال: «حقٌ على كل مُسلم أن يُقبِّل رأس عبد الله بن حذافة، وأنا أبدأ». وفاته توفي أبي حذافة في مصر عام 33هـ أثناء خلافة عثمان بن عفان.

المرأۃکالقاضی

المرأۃ کالقاضی‘‘ کی اصطلاح ’’المرأۃ کالقاضی‘‘ والی عبارت کتبِ فقہ میں کثرت سے ملتی ہے۔ اور یہ باب طلاق سے متعلق ہی استعمال ہوا کرتی ہے اور اس عبارت میں عورت کو جو قاضی کے حکم میں قرار دیا گیا ہے، اس کا مطلب جب تک واضح نہ ہوگا مسئلہ کی نوعیت سامنے نہیں آسکتی ہے۔ اور یہ عبارت دو حیثیت سے استعمال ہوتی ہے اور دونوں حیثیتوں میں واضح فرق یوں ہوا کرے گا کہ پہلی میں قاضی کا فیصلہ شوہر کے خلاف عورت کے موافق ہوگا۔ اور دوسری میں شوہر کے موافق عورت کے خلاف فیصلہ ہوگا، اب دونوں حیثیتوں کو ملاحظہ فرمائیے: حیثیت ۱؎: عورت کو قاضی کی طرح ظاہر کا اعتبار کرکے اپنے نفس کے متعلق حلت وحرمت کا از خود فیصلہ کرنے کا اختیار دیا گیا ہے، مثلاً جب شوہر نے یہ کہہ دیا: تجھے طلاق، طلاق، طلاق اور از خود طلاق کا اقرار بھی کرتا ہے، مگر کہتا ہے کہ میں نے تکرار وتاکید کا ارادہ کیا تھا، تین طلاق کا ارادہ نہیں کیا ہے ۔ اور عورت نے خود بھی تین طلاق شوہر کی زبان سے سن رکھی ہیں، یا عادل شخص کی شہادت سے اس کو یقین حاصل ہوچکا ہے، اب اگر یہ معاملہ قاضی کی عدالت میں پہنچ جاتا ہے، تو مسئلہ آسان ہے، قاضی شوہر کی نیت کا اعتبار نہیںکرے گا؛ بلکہ ظاہری الفاظ کا اعتبار کرکے تین طلاق کا فیصلہ دے کر رجعت سے منع کردے گا۔ اور بیوی بالکلیہ آزاد ہوجائے گی؛ لیکن وہاں قاضی نہ ہونے کی وجہ سے یا کسی اور عذر شدید کی وجہ سے معاملہ قاضی کی عدالت تک نہیں پہنچ سکتا؟ اور مفتی نے دیانت کا اعتبار کرکے ایک طلاق کا فتویٰ دے کر رجعت کو جائز قرار دیا ہے اور شوہر مفتی کے فتوی کی بنا پر رجعت کرکے بیوی کو اپنے پاس رکھنا چاہتا ہے، تو ایسی صورت میں جس طرح ظاہر پر فیصلہ کرنا قاضی پر لازم ہوتا ہے، اسی طرح عورت کو بھی قاضی کی طرح ظاہر کا اعتبار کرکے اپنے نفس کے متعلق فیصلہ کا حکم دیا گیا ہے؛ اس لئے اب عورت کے لئے اپنے اوپر شوہر کو قدرت دینا جائز نہیں؛ بلکہ خلع کرکے آزادی حاصل کرنا یا مال دے کر طلاق حاصل کرنا ضروری ہے۔ اور اگر شوہر ان میں سے کسی پر بھی راضی نہیں ہے، تو علاقہ چھوڑ کر کسی دوسری جگہ جاکر عدت گذار کر دوسرے مرد سے نکاح کرکے با عصمت زندگی گذار سکتی ہے، اس طرح عورت کو ظاہر کا اعتبار کرکے اپنا فیصلہ خود کرنے کو حضرات فقہاء ’’المرأۃ کالقاضی‘‘ کے لفظ سے تعبیر کرتے ہیں اور مسئلہ کے اس پہلو کو حضرات فقہاء ان الفاظ سے ذکر کرتے ہیں: وإذا قال: أنت طالق، طالق، طالق، وقال: إنما أردت بہ التکرار صدق دیانۃ لا قضاء، فإن القاضي مامور لاتباع الظاہر، واللہ یتولی السرائر، والمرأۃ کالقاضي لا یحل لہا أن تمکنہ إذا سمعت منہ ذلک أو علمت بہ؛ لأنہا لا تعلم إلا الظاہر۔ (تبیین الحقائق، کتاب الطلاق، باب الکنایات، کوئٹہ ۲/ ۲۱۸، جدید زکریا ۳/ ۸۲، ہندیۃ قدیم ۱/ ۳۵۴، جدید زکریا ۱/ ۴۲۲) جب شوہر بیوی کے متعلق کہے کہ تجھے طلاق، طلاق، طلاق اور کہتا ہے کہ میں نے اس سے تکرار وتاکید کا ارادہ کیا تھا، تو دیانۃً مان لیا جائے گا اور قضاء ً تسلیم نہیں کیا جائے گا؛ اس لئے کہ قاضی ظاہر کے اعتبار کرنے کا پابند ہے اور دلوں کی باتوں کا ذمہ دار اللہ تعالیٰ ہے اور عورت کو قاضی کی طرح قرار دیا گیا ہے؛ اس لئے یہ جائز نہیں ہے کہ شوہر کو اپنے اوپر قدرت دے دے، جب کہ اس نے خود شوہر کے یہ الفاظ سن لئے ہیں، یا اس کو یقین سے معلوم ہوگیا ہے؛ اس لئے کہ وہ صرف ظاہر کی بات جان سکتی ہے۔ اور مذکورہ عبارت میں یہ لحاظ رہنا چاہئے کہ شوہر تین بار لفظ طلاق استعمال کرنے کا والمرأۃ کالقاضي إذا سمعتہ أو أخبرہا عدل لا یحل لہا تمکینہ، والفتوی علی أنہ لیس لہا قتلہ ولا تقتل نفسہا بل تفدی نفسہا بمال أو تہرب، (وقولہ) إنہا ترفع الأمر للقاضي فإن حلف ولا بینۃ لہا فلا إثم علیہ۔ شامي، کتاب الطلاق، باب الصریح، مطلب: في قول البحر، کراچی ۳/ ۲۵۱، زکریا ۴/ ۴۶۳، کراچی ۳/ ۳۰۵، زکریا ۴/ ۵۳۸، البحرالرائق، کوئٹہ ۳/ ۲۵۷، جدید زکریا ۳/ ۴۴۸) اور عورت قاضی کے حکم میں ہے، جب کہ اس نے سن رکھا ہے یا اس کو کسی عادل شخص نے بتایا ہے، اس کے لئے شوہر کو اپنے اوپر قدرت دینا جائز نہیں ہے۔ اور فتویٰ اس پر ہے کہ عورت کا شوہر کو قتل کر دینا یا خودکشی کر لینا جائز نہیں ہے؛ بلکہ مال کے بدلے اپنے نفس کو شوہر سے آزاد کرلے یا بھاگ جائے اور بے شک عورت اپنا معاملہ قاضی کی عدالت میں پیش کردے، تو اگر شوہر جھوٹی قسم کھا لیتا ہے اور عورت کے پاس گواہ نہیں ہے، تو گناہ شوہر پر ہوگا۔ وفي البحر: یحل لہا أن تتزوج بزوج آخر فیما بینہ وبین اللہ تعالیٰ۔ (البحرالرائق، کتاب الطلاق، باب الرجعۃ، کوئٹہ ۴/ ۵۷، زکریا ۴/ ۹۶) اور ’’البحرالرائق‘‘ میں ہے کہ: عورت کے لئے دوسرے مرد سے نکاح کرلینا دیانۃً جائز ہے۔ نیز اسی طرح اگر بیوی حنفی المسلک ہے اور شوہر شافعی المسلک ہے اور شوہر نے طلاق کنائی دے دی ہے، تو اگر شافعی المسلک قاضی نے رجوع کا فیصلہ دے دیا ہے، تو ظاہراً اور باطناً دونوں اعتبار سے لازم ہوجائے گا۔ (ف المرأۃ کالقاضی‘‘ کی اصطلاح ’’المرأۃ کالقاضی‘‘ والی عبارت کتبِ فقہ میں کثرت سے ملتی ہے۔ اور یہ باب طلاق سے متعلق ہی استعمال ہوا کرتی ہے اور اس عبارت میں عورت کو جو قاضی کے حکم میں قرار دیا گیا ہے، اس کا مطلب جب تک واضح نہ ہوگا مسئلہ کی نوعیت سامنے نہیں آسکتی ہے۔ اور یہ عبارت دو حیثیت سے استعمال ہوتی ہے اور دونوں حیثیتوں میں واضح فرق یوں ہوا کرے گا کہ پہلی میں قاضی کا فیصلہ شوہر کے خلاف عورت کے موافق ہوگا۔ اور دوسری میں شوہر کے موافق عورت کے خلاف فیصلہ ہوگا، اب دونوں حیثیتوں کو ملاحظہ فرمائیے: حیثیت ۱؎: عورت کو قاضی کی طرح ظاہر کا اعتبار کرکے اپنے نفس کے متعلق حلت وحرمت کا از خود فیصلہ کرنے کا اختیار دیا گیا ہے، مثلاً جب شوہر نے یہ کہہ دیا: تجھے طلاق، طلاق، طلاق اور از خود طلاق کا اقرار بھی کرتا ہے، مگر کہتا ہے کہ میں نے تکرار وتاکید کا ارادہ کیا تھا، تین طلاق کا ارادہ نہیں کیا ہے ۔ اور عورت نے خود بھی تین طلاق شوہر کی زبان سے سن رکھی ہیں، یا عادل شخص کی شہادت سے اس کو یقین حاصل ہوچکا ہے، اب اگر یہ معاملہ قاضی کی عدالت میں پہنچ جاتا ہے، تو مسئلہ آسان ہے، قاضی شوہر کی نیت کا اعتبار نہیںکرے گا؛ بلکہ ظاہری الفاظ کا اعتبار کرکے تین طلاق کا فیصلہ دے کر رجعت سے منع کردے گا۔ اور بیوی بالکلیہ آزاد ہوجائے گی؛ لیکن وہاں قاضی نہ ہونے کی وجہ سے یا کسی اور عذر شدید کی وجہ سے معاملہ قاضی کی عدالت تک نہیں پہنچ سکتا؟ اور مفتی نے دیانت کا اعتبار کرکے ایک طلاق کاحکم دیدیاتوعورت اب قاضی کی طرح اپنی زندگی کافیصلہ کرنے میں قاضی کی طرح. ہے.

Thursday 15 September 2022

صلوۃ الحاجۃ

صلاۃ الحاجۃ بھی عام نفل نمازوں کی طرح ایک نما ز ہے ، جو اس نیت سے پڑھی جاتی ہے کہ اپنی کسی غرض کے لیے اللہ تعالی سے اس کے بعد دعا کی جائے۔ حدیث میں ہے کہ جس شخص کو اللہ تعالیٰ سے کوئی خاص حاجت یا اس کے کسی بندے سے کوئی خاص کام پیش آجائے تو اس کو چاہیے کہ وضو کرے خوب اچھی طرح، پھر دو رکعت (اپنی حاجت کی نیت سے) نمازِ حاجت پڑھے، اس کے بعد اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا کرے اور رسول اللہﷺ پرصلاۃ وسلام بھیجے (یعنی درود شریف پڑھے) اس کے بعد یہ دعا کرے: '' لَا اِلٰـهَ اِلَّا اللّٰهُ الْحَلِیْمُ الْکَرِیْمُ، سُبْحَانَ اللّٰهِ رَبِّ الْعَرْشِ الْعَظِیْمِ، اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ، اَسْئَلُکَ مُوْجِبَاتِ رَحْمَتِکَ، وَعَزَائِمَ مَغْفِرَتِکَ، وَالْعِصْمَةَ مِنْ کُلِّ ذَنْبٍ، وَالْغَنِیْمَةَ مِنْ کُلِّ بِرٍّ، وَّالسَّلَامَةَ مِنْ کُلِّ إِثْمٍ، لَا تَدَعْ لِیْ ذَنْبًا إِلَّا غَفَرْتَه وَلَا هَمًّا إِلَّا فَرَّجْتَه وَلَا حَاجَةً هِيَ لَکَ رِضًا إِلَّا قَضَیْتَهَا یَا أَرْحَمَ الرّٰحِمِیْنَ صلاۃ حاجت سے متعلق کوئی متعین روایت ثابت نہیں ہے بلکہ موضوع اور ضعیف روایات میں اس کی فضیلت بیان ہوئی لہذا اس کا کوئی خاص طریقہ مشروع نہیں ہے۔ البتہ اگر کسی کو کوئی حاجت پیش آئے تو دو رکعت نفل نماز پڑھ کر دعا مانگنا جائز ہے اور اس نفل نماز کا کوئی خاص طریقہ مشروع نہیں ہے۔ ارشاد باری تعالی ہے: يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اسْتَعِينُوا بِالصَّبْرِ‌ وَالصَّلَاةِ ۚ إِنَّ اللَّـهَ مَعَ الصَّابِرِ‌ينَ ﴿١٥٣﴾ اے ایمان والو صبر اور نماز سے مدد لیا کرو بےشک خدا صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔ صلاۃ حاجت کے مروجہ طریقوں کا رد کرتے ہوئے شیخ صالح المنجد لکھتے ہیں: سوال : كيا نماز حاجت مشروع ہے اور اس كا تجربہ فائدہ مند ہو گا ؟ - 70295 نماز حاجت بارہ ركعت پڑھى جاتى ہے اور ہر دو ركعت كے درميان تشھد اور آخرى تشھد ميں ہم اللہ كى حمد و ثنا بيان كرتے اور نبى صلى اللہ عليہ وسلم پر درود پڑھ كر پھر سجدہ كرے ہيں سات بار سورۃ الفاتحہ اور سات بار آيۃ الكرسى اور دس بار " لا إله إلا الله وحده لا شريك له له الملك وله الحمد وهو على كل شيء قدير " پڑھتے پھر يہ كہتے ہيں: " اللهم إني أسألك بمعاقد العز من عرشك ومنتهى الرحمة من كتابك واسمك الأعظم وجدك الأعلى وكلماتك التامة " پھر ہم اپنى ضرورت طلب كرتے اور سر سے اپنا سر اٹھا كر دائيں بائيں سلام پھير ديتے ہيں. ميرا سوال يہ ہے كہ: مجھے يہ بتايا گيا ہے كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے سجدہ ميں قرآن مجيد پڑھنے سے منع كيا ہے، ميں نے دوران تعليم اس نماز حاجت كا تجربہ بھى كيا تھا تو اللہ تعالى نے ميرى دعا قبول فرمائى اب مجھے پھر ايك ضرورت پيش آئى ہے جو ميں اللہ سے طلب كرنى چاہتى ہوں اس كے ليے نماز حاجت ادا كروں يا نہ كروں آپ مجھے كيا نصيحت فرماتے ہيں ؟ الحمد للہ: نماز حاجت كا ذكر چار احاديث ميں ملتا ہے، جن ميں سے دو احاديث تو موضوع اور من گھڑت ہيں، اور ان دو حديثوں ميں سے ايك ميں بارہ اور دوسرى حديث ميں دو ركعت كا ذكر ملتا ہے، اور تيسرى حديث بھى بہت زيادہ ضعيف ہے، اور چوتھى حديث بھى ضعيف ہے اور ان دونوں حديثوں ميں دو ركعت كا ذكر ہوا ہے. پہلى حديث: وہ ہے جس كا سوال ميں ذكر كيا گيا ہے اور يہ حديث عبد اللہ بن مسعود رضى اللہ تعالى عنہما سے روايت كى جاتى ہے كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے: " تم بارہ ركعتيں دن ميں يا رات ميں كسى وقت ادا كروا ور ہر دو ركعت ميں تشھد پڑھو جب تم اپنى نماز كى آخرى تشھد پڑھو تو اس ميں اللہ كى حمد و ثنا بيان كرو اور نبى صلى اللہ عليہ وسلم پر درود پڑھو، اور سجدہ ميں سات بار سورۃ الفاتحہ پڑھو اور دس بار " لا إله إلا الله وحده لا شريك له ، له الملك وله الحمد وهو على كل شيء قدير " پھر يہ كلمات كہو: " اللهم إني أسألك بمعاقد العز من عرشك ومنتهى الرحمة من كتابك واسمك الأعظم وجدك الأعلى وكلماتك التامة " اور اس كے بعد اپنى حاجت طلب كروا ور سجدہ سے سر اٹھا كر دائيں بائيں سلام پھير دو، اور يہ بےوقوفوں كو مت سكھاؤ كيوكہ وہ اس سے مانگيں گے تو ان كى دعا قبول كر لى جائيگى " اسے ابن جوزى نے الموضوعات ( 2 / 63 ) ميں عامر بن خداش عن عمرو بن ھارون البلخى كے طريق سے روايت كيا ہے. اور ابن جوزى رحمہ اللہ نے عمرو البلخى كى ابن معين سے تكذيب نقل كى ہے، اور كہا ہے: سجدہ ميں قرآن كى ممانعت صحيح ثابت ہے . ديكھيں: الموضوعات ( 2 / 63 ) اور ترتيب الموضوعات للذھبى ( 167 ). اور اس دعاء " معاقد العز من عرش اللہ " سے مقصود ميں علماء كرام كے ہاں اختلاف پايا جاتا ہے جو شرع ميں وارد نہيں بلكہ بعض اہل علم جن ميں امام ابو حنيفہ رحمہ اللہ شامل ہيں نے يہ دعا كرنے سے منع كيا ہے؛ كيونكہ يہ بدعتى وسيلہ ميں سے ہے، اور كچھ دوسرے علماء نے اسے جائز قرار ديا ہے ان كا اعتقاد ہے كہ اللہ كى صفات ميں سے كسى بھى صفت كا وسيلہ جائز ہے اس ليے نہيں كہ ان كے ہاں مخلوق كا وسيلہ جائز ہے. شيخ البانى رحمہ اللہ كہتے ہيں: " ميں كہتا ہوں: ليكن جس اثر اور روايت كى طرف اشارہ كيا گيا ہے وہ باطل ہے صحيح نہيں، اسے ابن جوزى نے " الموضوعات " ميں روايت كيا ہے اور كہا ہے: يہ حديث بلاشك و شبہ موضوع ہے، اور حافظ زيلعى رحمہ اللہ نے نصب الرايۃ ( 273 ) ميں ان كے اس فيصلے كو برقرار ركھا ہے. اس ليے اس سے حجت پكڑنا صحيح نہيں، اگرچہ قائل كا قول ہى ہو " أسألك بمعاقد العز من عرشك " جو اللہ كى صفات ميں سے ايك صفت كے ساتھ وسيلہ ہے، اور دوسرے دلائل كے ساتھ يہ توسل مشروع ہے جو اس موضوع احاديث سے غنى كر ديتى ہيں. ابن اثير رحمہ اللہ كہتے ہيں: " أسألك بمعاقد العز من عرشك " يعنى ان خصلتوں كے ساتھ جن كا عرش عزت مستحق ہے، يا ان كے منعقد ہونے كى جگہوں كے ساتھ، اور اس كے معنى كى حقيقت يہ ہے كہ: تيرے عرش كى عزت كے ساتھ، ليكن ابو حنيفہ رحمہ اللہ كے اصحاب اس لفظ كے ساتھ دعا كرنا مكروہ سمجھتے ہيں. اس شرح كى پہلى وجہ پر وہ خصلتيں ہوئيں جن كا عرش عزت مستحق ہے، تو يہ اللہ كى صفات ميں سے ايك صفت سے توسل ہوا لہذا جائز ہو گا. ليكن دوسرى وجہ كى بنا پر جو كہ عرش سے عزت كے حصول كى جگہيں معنى ہے تو يہ مخلوق سے توسل ہے اس ليے جائز نہيں، بہر حال يہ حديث كسى بحث و تمحيث كى مستحق نہيں اور نہ ہى تاويل كى؛ كيونكہ يہ حديث جب ثابت ہى نہيں اس ليے اوپر جو بيان ہوا ہے اس پر اكتفاء كرتے ہيں. علامہ البانى رحمہ اللہ كى كلام ختم ہوئى. ديكھيں: التوسل انوعہ و حكامہ ( 48 - 49 ). اور شيخ صالح فوزان حفظہ اللہ كہتے ہيں: " اس حديث ميں غرابت پائى جاتى ہے جيسا كہ كہ سائل نے بيان كيا ہے كہ قيام كے علاوہ ركوع يا سجدہ ميں سورۃ الفاتحہ مشروع ہے، اور يہ تكرار كے ساتھ ہے، اور پھر سوال ميں يہ بھى ہے كہ " أسألك بمعاقد العز من عرشك " جيسے اور كلمات بھى ہيں اور يہ سب امور غريب اور اچھنبے ہيں، اس ليے سائل كو چاہيے كہ وہ اس حديث پر عمل مت كرے. اور پھر نبى كريمص لى اللہ عليہ وسلم سے جو صحيح احاديث ثابت ہيں جن ميں كوئى اشكال بھى نہيں جن ميں نوافل اور عبادات نماز و اطاعت كا بيان ملتا ہے ان احاديث ميں ہى ان شاء اللہ كفائت ہے " انتہى ديكھيں: المنتقى من فتاوى الشيخ الفوزان ( 1 / 46 ). نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے صحيح حديث ميں ثابت ہے كہ آپ صلى اللہ عليہ وسلم نے ركوع اور سجدہ ميں قرآن مجيد كى تلاوت سے منع فرمايا ہے. على بن ابى طالب رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ: " مجھے رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے ركوع اور سجدہ ميں قرآت كرنے سے منع فرمايا " صحيح مسلم حديث نمبر ( 480 ). سوال نمبر ( 34692 ) كے جواب ميں مستقل فتوى كميٹى كے علماء كرام كى جانب سے حديث كے متن اور سند كے ضعف كا بيان ہو چكا ہے آپ اس كا مطالعہ ضرور كريں. نماز حاجت كے متعلق دوسرى حديث درج ذيل ہے: ابن عباس رضى اللہ تعالى عنہما بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا: " ميرے پاس جبريل عليہ السلام كچھ دعائيں لے كر آئے اور كہا: اگر آپ كو كوئى دنياوى پريشانى ہو تو آپ يہ دعائيں پڑھ كر اپنى ضرورت مانگيں: " يا بديع السموات والأرض ، يا ذا الجلال والإكرام ، يا صريخ المستصرخين ، يا غياث المستغيثين ، يا كاشف السوء ، يا أرحم الراحمين ، يا مجيب دعوة المضطرين ، يا إله العالمين ، بك أنزل حاجتي وأنت أعلم بها فاقضها " اے آسمان و زمين كے پيدا كرنے والے، يا ذالجلال و اكرام، اے لوگوں كى پكار سننے والے، اے مدد طلب كرنے والوں كى مدد كرنے والے، اے برائى اور شر كو دور كرنے والے، اے ارحم الراحمين، اے مجبور و لاچار كى دعا قبول كرنے والے، يا الہ العالمين، مجھے ضرورت اور حاجت ہے اور تو اسے زيادہ جانتا ہے ميرى اس حاجت كو پورا فرما " اسے اصبھانى نے روايت كيا ہے ديكھيں الترغيب و الترھيب ( 1 / 275 ) اور علامہ البانى رحمہ اللہ نے اسے ضعيف الترغيب حديث نمبر ( 419 ) اور السلسلۃ الاحاديث الضعيفۃ حديث نمبر ( 5298 ) ميں اسے موضوع قرار ديا ہے. اور تيسرى حديث درج ذيل ہے: عبد اللہ بن ابى اوفى بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا: " جس كسى كو بھى اللہ سبحانہ و تعالى كى جانب يا پھر كسى بنى آدم كى طرف كوئى حاجت ہو تو وہ اچھى طرح وضوء كرے اور دو ركعت ادا كر كے اللہ كى حمد و ثنا بيان كر كے نبى صلى اللہ عليہ وسلم پر درود پڑھے اور پھر يہ كلمات كہے: " لا إله إلا الله الحليم الكريم ، سبحان الله رب العرش العظيم ، الحمد لله رب العالمين ، أسألك موجبات رحمتك ، وعزائم مغفرتك ، والغنيمة من كل بر ، والسلامة من كل إثم ، لا تدع لي ذنبا إلا غفرته ، ولا هما إلا فرجته ، ولا حاجة هي لك رضا إلا قضيتها يا أرحم الراحمين " اللہ حليم و كريم كے علاوہ كوئى معبود برحق نہيں، رب عرش عظيم كا مالك اللہ سبحانہ و تعالى پاك ہے، سب تعريفات و حمد اللہ رب العالمين كے ليے ہيں، اے اللہ ميں تجھ سے تيرى رحمت واجب ہونے والے امور طلب كرتا ہوں، اور تيرے بخشش كا طلبگار ہوں، اور ہر نيكى كى غنيمت چاہتا ہوں، اور ہر گناہ سے سلامتى طلب كرتا ہوں، ميرے سب گناہ معاف كر دے، اور ميرے سارے غم و پريشانياں دور فرما، اور تيرى رضا و خوشنودى كى جو بھى حاجت و ضرورت ہے وہ پورى فرما اے ارحم الراحمين " سنن ترمذى حديث نمبر ( 479 ) سنن ابن ماجہ حديث نمبر ( 1384 ). امام ترمذى اس حديث كے متعلق كہتے ہيں: يہ حديث غريب ہے، اور اس كى سند ميں كلام كى گئى ہے. اور علامہ البانى رحمہ اللہ نے اسے ضعيف الترغيب حديث نمبر ( 416 ) ميں ذكر كيا اور اسے ضعيف جدا يعنى بہت زيادہ ضعيف قرار ديا ہے. اس حديث كا ضعف سوال نمبر ( 10387 ) كے جواب ميں بيان ہو چكا ہے آپ اس كا مطالعہ كريں. چوتھى حديث درج ذيل ہے: انس رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيںكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا: " اے على كيا ميں تجھے ايك دعا نہ سكھاؤں جب تجھے كوئى غم و پريشانى ہو تو اپنے رب سے دعا كرو تو اللہ كے حكم سے يہ دعاء قبول ہو اور تيرى پريشانى و غم دور ہو جائے ؟ وضوء كر كے دو ركعت ادا كرو اور اللہ كى حمد و ثنا بيان كرنے كے بعد اپنے نبى صلى اللہ عليہ وسلم پر درود پڑھو اور اپنے ليے اور مومن مردوں اور مومن عورتوں كے ليے بخشش كى دعا كر كے يہ كلمات ادا كرو: " اللهم أنت تحكم بين عبادك فيما كانوا فيه يختلفون ، لا إله إلا الله العلي العظيم ، لا إله إلا الله الحليم الكريم ، سبحان الله رب السموات السبع ورب العرش العظيم ، الحمد لله رب العالمين ، اللهم كاشف الغم ، مفرج الهم ، مجيب دعوة المضطرين إذا دعوك ، رحمن الدنيا والآخرة ورحيمهما ، فارحمني في حاجتي هذه بقضائها ونجاحها رحمة تغنيني بها عن رحمة من سواك " اے اللہ تو اپنے بندوں كے مابين فيصلہ كرنے والا ہے جس ميں وہ اختلاف كرتے ہيں، اللہ على العظيم كے علاوہ كوئى معبود برحق نہيں، اللہ حليم و كريم كے علاوہ كوئى معبود برحق نہيں، آسمان و زمين اور عرش عظيم كا مالك اللہ سبحانہ و تعالى پاك ہے، سب تعريفات اللہ رب العالمين كے ليے ہيں، اے غموں كو دور كرنے والے اللہ، اور پريشانيوں كو دور كرنے والے، مجبور و لاچار كى دعا كو قبول كرنے والے، دنيا و آخرت كے رحمن اور دونوں كے رحيم، ميرى اس حاجت و ضرورت ميں مجھ پر رحم فرما كر اس ضرورت كو پورا كر اور مجھ پر ايسى رحمت فرما جو مجھے تيرى رحمت كے علاوہ باقى سب سے مستغنى كر دے " اسے اصبھانى نے روايت كيا ہے ديكھيں: الترغيب و الترھيب ( 1 / 275 ). علامہ البانى رحمہ اللہ نے اسے ضعيف الترغيب ( 417 ) ميں ضعيف قرار ديا اور كہا ہے: اس كى سند مظلم يعنى اندھيرى ہے اس ميں ايسے روات ہيں جو معروف نہيں. اور السلسلۃ الاحاديث الضعيفۃ ( 5287 ) بھى ديكھيں. خلاصہ يہ ہوا كہ: اس نماز كے متعلق كوئى حديث صحيح نہيں، اس ليے مسلمان شخص كے ليے يہ نماز ادا كرنا مشروع نہيں، بلكہ اس كے مقابلہ ميں جو صحيح احاديث ميں نمازيں اور دعائيں اور اذكار ثابت ہيں وہى كافى ہيں. دوم: سوال كرنے والى كا يہ كہنا كہ: ميں نے اس كا تجربہ كيا ہے اور اسے فائدہ مند پايا ہے" اس كے علاوہ بھى كئى لوگ ايسى بات كر چكے ہيں، اور پھر اس طرح كے اقوال سے شريعت ثابت نہيں ہوتى اور كوئى امر مشروع نہيں ہو جاتا. شوكانى رحمہ اللہ كہتے ہيں: " صرف تجربہ كى بنا پر ہى سنت ثابت نہيں ہو جاتى اور نہ ہى دعاء كى قبوليت اس پر دلالت كرتى ہے كہ قبول كا سبب رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے ثابت ہے، بعض اوقات اللہ تعالى تو سنت كے علاوہ كسى اور چيز كے توسل سے بھى دعا قبول فر ليتا ہے، كيونكہ اللہ ارحم الراحمين ہے، اور بعض اوقات دعا كى قبوليت بتدريج ہوتى ہے " انتہى مختصرا فتوى علماء عرب هل صح عن النبي صلى الله عليه وسلم صلاة تسمى بصلاة الحاجة؟ وإن صحت فكيف يتم أداؤها؟ أجيبونا جزاكم الله خيرا. الإجابــة الحمد لله والصلاة والسلام على رسول الله وعلى آله وصحبه أما بعد: فقد ورد في سنن الترمذي وابن ماجه وغيرهما من حديث عبد الله بن أبي أوفى أن النبي صلى الله عليه وسلم قال: "من كانت له إلى الله حاجة أو إلى أحد من بني آدم فليتوضأ فليحسن الوضوء ثم ليصل ركعتين ثم ليثن على الله وليصل على النبي صلى الله عليه وسلم ثم ليقل لا إله إلا الله الحليم الكريم سبحان الله رب العرش العظيم الحمد لله رب العالمين أسألك موجبات رحمتك وعزائم مغفرتك والغنيمة من كل بر والسلامة من كل إثم لا تدع لي ذنبا إلا غفرته ولا هما إلا فرجته ولا حاجة هي لك رضا إلا قضيتها يا أرحم الراحمين " زاد ابن ماجه في روايته " ثم يسأل الله من أمر الدنيا والآخرة ما شاء فإنه يقدر". فهذه الصلاة بهذه الصورة سماها أهل العلم صلاة الحاجة. وقد اختلف أهل العلم في العمل بهذا الحديث بسبب اختلافهم في ثبوته فمنهم من يرى عدم جواز العمل به لعدم ثبوته عنده لأن في سنده فائد بن عبد الرحمن الكوفي الراوي عن عبد الله بن أبي أوفى وهو متروك عندهم. ومنهم من يرى جواز العمل به لأمرين. 1. أن له طرقا وشواهد يتقوى بها. وفائد عندهم يكتب حديثه. 2. أنه في فضائل الأعمال وفضائل الأعمال يعمل فيها بالحديث الضعيف إذا اندرج تحت أصل ثابت ولم يعارض بما هو أصح. وهذا الحاصل هنا . وهذا الرأي أصوب إن شاء الله تعالى وعليه جماعة من العلماء . وأما كيفية أدائها فهي هذه الكيفية المذكورة في الحديث. والله أعلم.