https://follow.it/amir-samdani?action=followPub

Monday 22 May 2023

نماز فجر ختم اورقضانمازپندرہ یابیس منٹ بعد پڑھنے کا اعلان کرنا

شریعت میں قضا کا اعلان معہود نہیں ہے؛ اس لیے اس اعلان کی ضرورت نہیں۔ ہرشخص کی یہ اپنی ذمہ داری ہے کہ جس طرح وہ سفر میں جاتے وقت ٹرین وغیرہ کے اوقات کی رعایت کرتا ہے اسی طرح اس کو چاہیے کہ نمازوں کے اوقات کی بھی رعایت کرے، نماز کا معاملہ سفر سے بڑھ کر ہے اگر وقت پر بیدار نہ ہونے کا خطرہ ہو تو الارم وغیرہ لگاکر سوئے اور سونے میں جلدی کرے، سونے میں تاخیر نہ کرے، دن میں قیلولہ کرلیا کرے، آدمی نماز سے یکسر غافل ہوکر اس طرح نہ سوئے کہ جب نیند کھل جائے گی نماز پڑھ لیں گے یہ کس قدر غفلت کی بات ہے، جہاں تک اوقات مکروہ میں فجر کی نماز ادا کرنے کا مسئلہ ہے تو ان اوقات میں فجر کی نماز پڑھنا جائز نہیں۔ ثلاث ساعات لا تجوز فیہا المکتوبة ولا صلاة الجنازة ولا سجدة التلاوة إذا طلعت الشمس حتی ترتفع․․․ (الہندیة: ۱/ ۵۲)

Saturday 13 May 2023

حج کے موقع پرحاجی عیدالاضحیٰ کی قربانی بھی کرے یانہ کرے

حجِ قران یا حجِ تمتع کرنے کی صورت میں دمِ شکر کے طور پر ایک حصہ قربانی کرنا یا ایک دنبہ، یا بھیڑ، یا بکری حرم کی حدود میں ذبح کرنا لازم ہوتا ہے، یہ اس قربانی کے علاوہ ہے جو ہر سال اپنے وطن میں کی جاتی ہے، دونوں الگ الگ ہیں،عید والی قربانی کا حج والی قربانی سے کوئی تعلق نہیں۔ حاجی کے لیے عید والی قربانی واجب ہونے یا نہ ہونے کا ضابطہ یہ ہے کہ اگر حاجی شرعی مسافر ہو تو اس پر قربانی واجب نہیں، البتہ اگر مسافر حاجی بھی اپنی خوشی سے عید والی قربانی کرے گا تو اس پر ثواب ملے گا، لیکن لازم نہیں ہے۔ اور اگر حاجی مقیم ہے اور اس کے پاس حج کے اخراجات کے علاوہ نصاب کے برابر زائد رقم موجود ہے تو اس پر قربانی کرنا واجب ہوگی۔ نوٹ: اگر حاجی ایام حج میں پندرہ دن یا اس سے زیادہ مکہ میں قیام کی نیت سے ٹھہرے اور 8 ذی الحجہ کو منیٰ روانہ ہونے سے پہلے پندرہ دن مکمل ہو رہے ہوں تو یہ حاجی عید کے دنوں میں مقیم شمار ہوگا، اور صاحبِ استطاعت ہونے کی صورت میں اس پر دمِ شکر کے علاوہ عید کی قربانی بھی واجب ہوگی۔ لیکن اگر منیٰ روانہ ہونے سے پہلے مکہ میں پندرہ دن پورے نہ ہورہے ہوں تو اقامت کی نیت کا اعتبار نہیں ہوگا، لہٰذا یہ حاجی مقیم نہیں کہلائے گا ، بلکہ مسافر شمار ہوگا، چنانچہ اس حاجی پر دمِ شکر کے علاوہ عید کی قربانی واجب نہیں ہوگی۔ بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (2/ 174) '' قال أصحابنا: إنه دم نسك وجب شكراً ؛ لما وفق للجمع بين النسكين بسفر واحد''۔ بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (5/ 63) ''ومنها: الإقامة فلا تجب على المسافر؛ لأنها لا تتأدى بكل مال ولا في كل زمان، بل بحيوان مخصوص في وقت مخصوص، والمسافر لا يظفر به في كل مكان في وقت الأضحية، فلو أوجبنا عليه لاحتاج إلى حمله مع نفسه، وفيه من الحرج ما لا يخفى، أو احتاج إلى ترك السفر، وفيه ضرر، فدعت الضرورة إلى امتناع الوجوب، بخلاف الزكاة؛ لأن الزكاة لا يتعلق وجوبها بوقت مخصوص بل جميع العمر وقتها، فكان جميع الأوقات وقتاً لأدائها، فإن لم يكن في يده شيء للحال يؤديها إذا وصل إلى المال، وكذا تتأدى بكل مال، فإيجابها عليه لا يوقعه في الحرج، وكذلك صدقة الفطر ؛ لأنها تجب وجوباً موسعاً كالزكاة، وهو الصحيح. وعند بعضهم وإن كانت تتوقف بيوم الفطر لكنها تتأدى بكل مال، فلا يكون في الوجوب عليه حرج، وذكر في الأصل وقال: ولا تجب الأضحية على الحاج؛ وأراد بالحاج المسافر، فأما أهل مكة فتجب عليهم الأضحية وإن حجوا''۔ الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2/ 125) ''(فيقصر إن نوى) الإقامة (في أقل منه) أي في نصف شهر، (أو) نوى (فيه لكن في غير صالح) أو كنحو جزيرة، أو نوى فيه لكن (بموضعين مستقلين كمكة ومنى)، فلو دخل الحاج مكة أيام العشر لم تصح نيته؛ لأنه يخرج إلى منى وعرفة فصار كنية الإقامة في غير موضعها، وبعد عوده من منى تصح، كما لو نوى مبيته بأحدهما أو كان أحدهما تبعاً للآخر بحيث تجب الجمعة على ساكنه؛ للاتحاد حكماً''۔ الفتاوى الهندية (1/ 139) ''ولا يزال على حكم السفر حتى ينوي الإقامة في بلدة أو قرية خمسة عشر يوماً أو أكثر، كذا في الهداية. ۔۔۔ ونية الإقامة إنما تؤثر بخمس شرائط: ترك السير، حتى لو نوى الإقامة وهو يسير لم يصح، وصلاحية الموضع، حتى لو نوى الإقامة في بر أو بحر أو جزيرة لم يصح، واتحاد الموضع والمدة، والاستقلال بالرأي، هكذا في معراج الدراية. ۔۔۔ وإن نوى الإقامة أقل من خمسة عشر يوماً قصر، هكذا في الهداية''

Friday 12 May 2023

حضرت علی بن مدینی کاواقعہ

حضرت علی بن مدینیؒ جلیل القدر محدث اور امام بخاریؒ جیسے محدثین کے استاذ ہیں۔ انہیں علم حدیث میں امام مانا جاتا ہے۔ وہ فرماتے ہیں کہ میرے والد صاحب کا انتقال ہو گیا اور میں خدا تعالیٰ کے فضل و کرم سے حافظ قرآن تھا۔ میرا یہ معمول تھا کہ میں روزانہ والد صاحب کی قبر پر جاتا اور تلاوت قرآن کریم کر کے انہیں ایصال ثواب کرتا۔ ایک مرتبہ رمضان شریف کا مہینہ تھا، ستائیسویں شب تھی، سحری کھا کر فجر کی نماز سے فارغ ہونے کے بعد حسب معمول میں فجر کے بعد والد صاحب کی قبر پر جا کر تلاوت کرنے لگا تو اچانک برابر والی قبر سے مجھے ہائے ہائے کرنے کی آواز آنے لگی۔ جب پہلی مرتبہ یہ آواز آئی تو میں خوف زدہ ہو گیا۔ میں اِھر اُدھر دیکھنے لگا تو اندھیرے کی وجہ سے مجھے کوئی نظر نہیں آیا۔ جب میں نے آواز کی طرف کان لگائے اور غور کیا تو پتہ چلا کہ یہ آواز کسی قریب والی قبر سے آ رہی ہے اور ایسا لگا کہ میت کو قبر میں بہت خوفناک عذاب ہو رہا ہے اور اس عذاب کی تکلیف سے میت ہائے ہائے کر رہی ہے۔ بس پھر کیا تھا میں پڑھنا پڑھانا تو بھول گیا اور خوف کی وجہ سے میرے رونگٹے کھڑے ہو گئے اور میں اسی قبر کی طرف متوجہ ہو کر بیٹھ گیا، پھر جوں جوں دن کی روشنی پھیلنے لگی تو آواز بھی مدھم ہونے لگے، پھر اچھی طرح دن نکلنے کے بعد آواز بالکل بند ہو گئی۔ جب لوگوں نے آنا جانا شروع کیا تو ایک آدمی سے میں نے پوچھا کہ یہ قبر کس کی ہے ؟ اس نے ایک ایسے شخص کا نام لیا، جس کو میں بھی جانتا تھا۔ کیونکہ وہ شخص ہمارے محلے کا تھا اور بہت پکا نمازی تھا۔ پانچ وقت کی نماز باجماعت صف اول میں ادا کرتا تھا اور انتہائی کم گو اورنہایت شریف آدمی تھا۔ کسی کے معاملے میں دخل نہیں دیتا تھا۔ جب بھی کسی سے ملتا تو اچھے اخلاق سے ملتا، ورنہ زیادہ تر وہ ذکر وتسبیح میں مشغول رہتا۔ جب میں اس کو پہچان گیا تو مجھ پر یہ بات بہت گراں گزری کہ اتنا نیک آدمی اور اس پر یہ عذاب !! میں نے سوچا کہ اس کی تحقیق کرنی چاہئے کہ اس نے ایسا کون سا گناہ کیا ہے، جس کی وجہ سے اس کو یہ عذاب ہو رہا ہے ؟ چنانچہ میں محلے میں گیا اور اس کے ہم عصر لوگوں سے پوچھا کہ فلاں شخص بڑا نیک اور عابد و زاہد آدمی تھا، لیکن میں نے اس کو عذاب کے اندر مبتلا دیکھا ہے۔ اس کی کیا وجہ ہے؟ انہوں نے بتایا کہ ویسے تو وہ بڑا نیک اور عبادت گزار تھا، اس کی اولاد بھی نہیں تھی۔ ہاں اس کا کاروبار بہت وسیع تھا، جب وہ بوڑھا ہو گیا اور اس کے اندر کاروبار کرنے کی طاقت نہ رہی اور کوئی دوسرا اس کے کاروبار کو چلانے والا نہیں تھا تو اس نے اپنے ساتھیوں سے مشورہ کیا اور خود بھی سوچا کہ میں اب ذریعہ معاش کیلئے کیا طریقہ اختیار کروں ؟ اس کے نفس نے اس کو یہ تدبیر سمجھائی کہ تو اپنا سارا کاروبار ختم کر اور جو کچھ پیسے آئیں، اس کو سود پر دے دے۔ اس نے سارا حلال کاروبار ختم کیا اور جو رقم آئی، اس کو سود پر لگا دیا۔ چنانچہ کاروبار سے فارغ ہو گیا تھا، اس لئے ہر وقت مسجد میں رہتا۔ اشراق، چاشت، تہجد اوابین وغیرہ تمام نوافل پڑھتا اور پانچوں نمازیں امام کے پیچھے باجماعت صف اول میں تکبیر اولیٰ کے ساتھ پڑھتا اور رات دن ذکر و تسبیح میں مشغول رہتا۔ ادھر لوگوں سے اسے ہر مہینے سود کی معقول رقم مل جاتی تھی، جس کے ذریعے مہینے بھر کا سارا گزارہ چلاتا۔ علی بن مدینیؒ فرماتے ہیں کہ بس یہ سن کر میں سمجھ گیا کہ اس کو جو شدید عذاب ہو رہا تھا، وہ اسی سود خوری کے گناہ کا وبال تھا۔ حق تعالیٰ مسلمانوں کو حرام کھانے اور حرام پہننے سے بچائے۔ آمین۔ (بے مثال واقعات)

مسجد میں نماز جنازہ ادا کرناجائزہےکہ نہیں

مسجد میں نمازِ جنازہ کی تین صورتیں ہیں، اور حنفیہ کے نزدیک علی الترتیب تینوں مکروہ ہیں : ایک یہ کہ جنازہ مسجد میں ہو اور امام و مقتدی بھی مسجد میں ہوں۔ دوم یہ کہ جنازہ باہر ہو اور امام و مقتدی مسجد میں ہوں۔ سوم یہ کہ جنازہ امام اور کچھ مقتدی مسجد سے باہر ہوں اور کچھ مقتدی مسجد کے اندر ہوں۔ اگر کسی عذر صحیح (مثلًا شدید بارش) کی وجہ سے مسجد میں جنازہ پڑھا تو جائز ہے۔(مستفاد از آپ کے مسائل اور ان کا حل) لہذا اگر واقعتًا مسجد کے قریب ایسی کوئی جگہ میسر نہیں ہے جہاں نمازِ جنازہ ادا کی جاسکے، بلکہ ایک کلو میٹر کے فاصلہ پر ہی ایسی جگہ ہے، تو مسجد کے اندر نمازِ جنازہ ادا کرنے کی گنجائش ہوگی، تاہم اس کے لیے تیسری صورت ہی اختیار کی جائے، یعنی جنازہ ،امام اور کچھ مقتدی محراب سے آگے جو مسجد کے باہر کا حصہ ہے، وہاں کھڑے ہوں۔ نیز اہلِ علاقہ کو چاہیے کہ وہ مسجد کے علاوہ، جنازہ کے لیے کسی جگہ کا انتظام کریں، اگر مستقل جنازہ گاہ کی گنجائش نہ ہو تو کسی بھی کشادہ جگہ پر نمازِ جنازہ ادا کی جاسکتی ہے، مثلًا: کسی کمیونٹی ہال یا کھیل کے میدان وغیرہ میں۔ اس لیے کہ رسول اللہ ﷺ کا مستقل معمول کھلے میدان (عیدگاہ/ جنازہ گاہ) میں نمازِ جنازہ ادا کرنے کا تھا، اس لیے سنت طریقہ یہ ہے کہ جنازہ مسجد سے باہر ادا کیا جائے۔ صاحبِ مظاہر حق شرح مشکاۃ المصابیح علامہ قطب الدین خان دہلوی رحمہ اللہ لکھتے ہیں : "مسجد میں نماز جنازہ پڑھنے کا مسئلہ مختلف فیہ ہے ۔ حضرت امام شافعی رحمہ اللہ کے نزدیک تو اس حدیث کے پیش نظر جنازہ کی نماز مسجد میں پڑھی جا سکتی ہے جب کہ حضرت امام اعظم ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے نزدیک مسجد میں نماز جنازہ مکروہ ہے۔ حضرت امام اعظم کی دلیل بھی یہی حدیث ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے کہنے پر صحابہ نے اس بات سے انکار کر دیا کہ سعد ابی وقاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا جنازہ مسجد میں لایا جائے؛ کیوں کہ آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ معمول نہیں تھا کہ مسجد میں نماز جنازہ پڑھتے ہوں، بلکہ مسجد ہی کے قریب ایک جگہ مقرر تھی جہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز جنازہ پڑھا کرتے تھے۔ پھر یہ کہ اس کے علاوہ ابوداؤد میں ایک حدیث بھی بایں مضمون منقول ہے کہ جو شخص مسجد میں نماز جنازہ پڑھے گا اسے ثواب نہیں ملے گا۔ جہاں تک حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے اس ارشاد کا تعلق ہے کہ آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد میں سہیل اور ان کے بھائی کی نماز جنازہ پڑھی ہے تو اس کے بارہ میں علماء لکھتے ہیں کہ ایسا آپ نے عذر کی وجہ سے کیا کہ اس وقت یا تو بارش ہو رہی تھی یا یہ کہ آپ اعتکاف میں تھے؛ اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد ہی میں نماز جنازہ ادا فرمائی، چنانچہ ایک روایت میں اس کی صراحت بھی کی گئی ہے کہ آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم چوں کہ اعتکاف میں تھے؛ اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مسجد میں نماز جنازہ پڑھی۔" الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2/ 225) "(واختلف في الخارجة) عن المسجد وحده أو مع بعض القوم (والمختار الكراهة) مطلقًا خلاصة، بناء على أن المسجد إنما بني للمكتوبة، وتوابعها كنافلة وذكر وتدريس علم، وهو الموافق لإطلاق حديث أبي داود «من صلى على ميت في المسجد فلا صلاة له» أن الصلاة على الميت فعل لا أثر له فى المفعول وإنما يقوم بالمصلي، فقوله من صلى على ميت في مسجد يقتضي كون المصلي في المسجد سواء كان الميت فيه أو لا، فيكره ذلك أخذا من منطوق الحديث، ويؤيده ما ذكره العلامة قاسم في رسالته من أنه روي «أن النبي صلى الله عليه وسلم لما نعى النجاشي إلى أصحابه خرج فصلى عليه في المصلى» قال: ولو جازت في المسجد لم يكن للخروج معنى اهـ مع أن الميت كان خارج المسجد. وبقي ما إذا كان المصلي خارجه والميت فيه، وليس في الحديث دلالة على عدم كراهته لأن المفهوم عندنا غير معتبر في غير ذلك، بل قد يستدل على الكراهة بدلالة النص، لأنه إذا كرهت الصلاة عليه في المسجد وإن لم يكن هو فيه مع أن الصلاة ذكر ودعاء يكره إدخاله فيه بالأولى لأنه عبث محض ولا سيما على كون علة كراهة الصلاة خشيت تلويث المسجد. وبهذا التقرير ظهر أن الحديث مؤيد للقول المختار من إطلاق الكراهة الذي هو ظاهر الرواية كما قدمناه، فاغتنم هذا التحرير الفريد فإنه مما فتح به المولى على أضعف خلقه، والحمد لله على ذلك." الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2/ 224): "(وكرهت تحريمًا) وقيل: (تنزيهًا في مسجد جماعة هو) أي الميت (فيه) وحده أو مع القوم. (واختلف في الخارجة) عن المسجد وحده أو مع بعض القوم (والمختار الكراهة) مطلقا خلاصة." وفی الرد: "(قوله: مطلقًا) أي في جميع الصور المتقدمة كما في الفتح عن الخلاصة." الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2/ 226): "إنما تكره في المسجد بلا عذر، فإن كان فلا، ومن الأعذار المطر كما في الخانية." الفتاوى الهندية (1/ 165): "والصلاة على الجنازة في الجبانة والأمكنة والدور سواء، كذا في المحيط وصلاة الجنازة في المسجد الذي تقام فيه الجماعة مكروهة سواء كان الميت والقوم في المسجد أو كان الميت خارج المسجد والقوم في المسجد أو كان الإمام مع بعض القوم خارج المسجد والقوم الباقي في المسجد أو الميت في المسجد والإمام والقوم خارج المسجد هو المختار، كذا في الخلاصة."

Sunday 7 May 2023

قاعدۂ اولی بھول گیا لقمہ دینے پر تشہد کے لئے لوٹ آیا

اگر امام قعدہ اولی چھوڑ کر اٹھنے لگا اور مقتدیوں کے لقمہ دینے سے واپس بیٹھ گیا تو اگر امام کے گھٹنے سیدھے نہیں ہوئے تھے یعنی وہ بیٹھنے کے قریب تھا اور پھر لوٹ آیا تو نماز ہوگئی اور سجدہ سہو بھی لازم نہیں ہے، اور اگر اس کے گھٹنے سیدھے ہوگئے تھے یعنی وہ کھڑے ہونے کے قریب تھا تو اس کو کھڑا ہی رہنا چاہیے تھا ، دوبارہ لوٹ کر نہیں آنا چاہیے تھا، اور اس پر سجدہ سہو بھی واجب ہوگیا تھا، تاہم اگر واپس لوٹ آیا تو راجح قول کے مطابق نمازفاسد نہیں ہوگی، اور سجدہ سہو لازم ہونے کی صورت میں اگر سجدہ سہو نہیں کیا تو اس نماز کا وقت کے اندر اعادہ واجب تھا، وقت گزرنے کے بعد اعادہ کا وجوب ختم ہوگیا ہے۔ '' فتاوی شامی'' میں ہے: ''(سها عن القعود الأول من الفرض) ولو عملياً، أما النفل فيعود ما لم يقيد بالسجدة (ثم تذكره عاد إليه) وتشهد، ولا سهو عليه في الأصح (ما لم يستقم قائماً) في ظاهر المذهب، وهو الأصح فتح (وإلا) أي وإن استقام قائماً (لا) يعود لاشتغاله بفرض القيام (وسجد للسهو) لترك الواجب (فلو عاد إلى القعود) بعد ذلك (تفسد صلاته) لرفض الفرض لما ليس بفرض، وصححه الزيلعي (وقيل: لا) تفسد، لكنه يكون مسيئاً ويسجد لتأخير الواجب (وهو الأشبه)، كما حققه الكمال، وهو الحق، بحر''۔ (2/ 83، کتاب الصلوٰۃ ، باب سجود السہو

Saturday 6 May 2023

دماغی توازن ٹھیک نہ ہو نے کی صورت میں طلاق

طلاق کے واقع ہونے کے لیے ضروری ہے کہ طلاق دینے والا عاقل ہو، یعنی اس کا دماغی توازن ٹھیک ہو، اگر کوئی آدمی ایسا ہے کہ اُس کا دماغی توازن ٹھیک نہ ہو یا ایسی حالت کبھی کبھی اس پر آتی ہو اور وہ اسی حالت میں طلاق کے الفاظ کہہ دے تو ایسے آدمی کی دی ہوئی طلاق واقع نہیں ہوتی۔ الفتاوى الهندية (1/353): "و لايقع طلاق الصبي و إن كان يعقل و المجنون و النائم و المبرسم و المغمى عليه و المدهوش، هكذا في فتح القدير."

Saturday 29 April 2023

ارکان حج

حج کے ارکان تین ہیں: 1- احرام یعنی حج اور عمرے کی نیت، 2- میدانِ عرفات میں وقوف، رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے: ’’الْحَجُّ عَرَفَة، مَنْ جَاءَ لَیْلَة جَمْعِِ قَبْلَ طُلُوْعِ الْفَجْرِ فَقَدْ اَدْرَکَ الحَجَّ". (الترمذي:۸۸۹، النسائي: ۳۰۱۶، ابن ماجه: ۳۰۱۵) ترجمہ: ’’حج وقوفِ عرفہ سے عبارت ہے۔ جو شخص مزدلفہ کی رات طلوعِ فجر سے قبل میدانِ عرفات میں آجائے اس کا حج ہوگیا‘‘۔ 3- طوافِ زیارت، [اسی کو طوافِ افاضہ بھی کہتے ہیں]؛ فرمانِ باری تعالی ہے: " وَلْيَطَّوَّفُوا بِالْبَيْتِ الْعَتِيقِ". ترجمہ: اور وہ بیت العتیق کا طواف کریں۔[الحج : 29] بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (2/ 125): "الوقوف بعرفة، وهو الركن الأصلي للحج، والثاني طواف الزيارة". بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (2/ 128): "وأما شرطه وواجباته فشرطه النية، وهو أصل النية دون التعيين حتى لو لم ينو أصلاً بأن طاف هارباً من سبع أو طالباً لغريم لم يجز". الموسوعة الفقهية الكويتية (17/ 49): "الوقوف بعرفة ركن أساسي من أركان الحج، يختص بأنه من فاته فقد فاته الحج. وقد ثبتت ركنية الوقوف بعرفة بالأدلة القاطعة من الكتاب والسنة والإجماع: أما القرآن؛ فقوله تعالى: {ثم أفيضوا من حيث أفاض الناس}. فقد ثبت أنها نزلت تأمر بالوقوف بعرفة. وأما السنة: فعدة أحاديث، أشهرها حديث: الحج عرفة. وأما الإجماع: فقد صرح به عدد من العلماء، وقال ابن رشد: أجمعوا على أنه ركن من أركان الحج، وأنه من فاته فعليه حج قابل". الموسوعة الفقهية الكويتية (17/ 51): "وعدد أشواط الطواف سبعة، وكلها ركن عند الجمهور. وقال الحنفية: الركن هو أكثر السبعة، والباقي واجب ينجبر بالدم". الموسوعة الفقهية الكويتية (2/ 129): "أجمع العلماء على أن الإحرام من فرائض النسك، حجاً كان أو عمرةً، وذلك؛ لقوله صلى الله عليه وسلم: إنما الأعمال بالنيات. متفق عليه. لكن اختلفوا فيه أمن الأركان هو أم من الشروط؟ ... الخ

تیجہ چالیسویں کی شرعی حیثیت

کسی میّت کے ایصالِ ثواب کے لیے سوئم، چالیسواں یا کوئی بھی وقت، دن یا کیفیت کا مخصوص کرناشریعت میں ثابت نہیں؛لہٰذا یہ بدعت ہے؛ کیوں کہ ثواب سمجھ کر اس کا اہتمام کیا جاتاہے۔ مسلمان کا فرض ہے کہ غمی ہو یا خوشی کسی حال میں بھی دین کے احکامات سے رو گردانی نہ کرے، بلکہ ہر خوشی و غم کے موقع پر اللہ تعالیٰ کے حکم کو سامنے رکھ کر اس پر چلنے کی پوری کوشش کرے۔ غم کے موقع پر غیر شرعی رسومات و بدعات (مثلاً: تیجہ، چالیسواں، اجرت کے عوض تلاوتِ قرآن پاک ، نوحہ وغیرہ) ناجائز ہیں،میت کے لیے ایصالِ ثواب تو ہر وقت ، ہر موقعہ پر کرنا جائز ہے، اور میت کو اس کا فائدہ پہنچتا ہے، اس لیے گھر میں ہی جو افراد اتفاقًا جمع ہوں اور اعلان و دعوت کے بغیر اپنی خوشی سے کچھ پڑھ لیں، دن وغیرہ کی کوئی تخصیص نہ ہو، اور قرآن پڑھنے کے عوض اجرت کا لین دین نہ ہو تو اس کی اجازت ہے، لیکن اس کے لیے تیسرے دن، اور چالیسویں دن ،اور سال کی تخصیص کرنا شرعاً ثابت نہیں ہے، نیز موجودہ زمانہ میں تیجہ ، چالیسواں اور برسی یا عرس میں اور بھی کئی مفاسد پائے جاتے ہیں، اور اسی ضروری سمجھا جاتاہے، شرکت نہ کرنے والوں کو طعن وتشنیع کا سامنا کرنا پڑتاہے؛ لہذا یہ بدعت ہے اور ناجائز ہے، ایسی تقریبات میں شرکت کرنا اور کھانا کھانا بھی ناجائز ہے۔ اگر کسی نے اس تقریب میں شرکت نہ کی ہو، اور اجرت پر تلاوت بھی نہ کی ہو، اسے یہ کھانا دے دیا جائے تو اس کے لیے یہ کھانا ناجائز نہیں ہوگا۔ فتاوی شامی میں ہے: "یکره اتخاذ الضیافة من الطعام من أهل المیت؛ لأنه شرع في السرور لا في الشرور وهي بدعة مستقبحة، وقوله: ویکره اتخاذ الطعام في الیوم الأول والثالث وبعد الأسبوع، ونقل الطعام إلی القبرفي المواسم، واتخاذ الدعوة لقراءة القرآن وجمع الصلحاء والقرّآء للختم أو لقراء ة سورة الإنعام أوالإخلاص". (ردالمحتار على الدر المختار ، کتاب الصلاة ، باب صلاة الجنازة، مطلب في كراهة الضیافة من أهل المیت، کراچی ۲/۲۴۰) وفیہ ایضا: ومنها: الوصیة من المیت باتخاذ الطعام والضیافة یوم موته أو بعده و بإعطاء دراهم من یتلو القرآن لروحه أو یسبح و یهلل له، وکلها بدع منکرات باطلة، والماخوذ منها حرام للاٰخذ، وهو عاص بالتلاوة والذکر". (رد المحتار مع الدر المختار :۶/۳۳ ط: سعید، کراچی) الاعتصام للشاطبي (ص: 112): "وعن أبي قلابة: " لاتجالسوا أهل الأهواء، ولاتجادلوهم; فإني لاآمن أن يغمسوكم في ضلالتهم، ويلبسوا عليكم ما كنتم تعرفون". قال أيوب: "وكان والله من الفقهاء ذوي الألباب". وعنه أيضاً: أنه كان يقول: "إن أهل الأهواء أهل ضلالة، ولاأرى مصيرهم إلا إلى النار". وعن الحسن: " لاتجالس صاحب بدعة فإنه يمرض قلبك".

تعویذ کی شرعی حیثیت

حضرت عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ: جو شخص اپنی نیند میں گھبرا جائے اُسے چاہیے کہ وہ یہ کلمات پڑھے : ’’اَعُوْذُ بِکَلِمَاتِ اللہِ التَّامَّاتِ مِنْ غَضَبِہٖ وَعِقَابِہٖ وَشَرِّ عِبَادِہٖ وَمِنْ ھَمَزَاتِ الشَّیَاطِیْنِ وَاَنْ یَّحْضُرُوْنَ۔‘‘ تو وہ خواب اُسے ہر گز نقصان نہ دے گا ، آپؓ کے پوتے کہتے ہیں کہ: حضرت عبد اللہؓ کی اولاد میں جو بالغ ہو جاتا تو آپ اُسے یہ کلمات سکھادیتے ، اور جو نابالغ ہوتا تو آپ اس کے گلے میں یہ دعا لٹکا دیتے تھے : ’’و کان عبد اللہ بن عمروؓ یعلمھا من بلغ من ولدہٖ و من لم یبلغ منھم کتبھا في صک ، ثم علقھا في عنقہٖ۔‘‘ (رواہ ابو داؤد و الترمذی، بحوالہ مشکوٰۃ، ص: ۲۱۷) اس سے معلوم ہوا کہ کلام پاک کا پڑھنا اور کلماتِ مبارکہ تعویذ لکھ کر بنانا اور اُسے بدن سے باندھنا دونوں عمل جائز ہیں۔ اگر یہ عمل ناجائز ہوتا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے جلیل القدر صحابیؓ کبھی بھی اپنے بچوں کے گلے میں تعویذ نہ ڈالتے ۔ حضرت عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ کے اس عمل سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ آپ تعویذات کے اثر کے قائل تھے ، جبھی تو آپ نے تعویذ لکھا اور اسے اپنے بچوں کے گلے میں ڈالا۔ یہ کلمات کوئی روحانی تاثیر نہ دیتے تو آپ ہی بتلائیں کیا صحابی رسول ایسا عمل کرتے ؟ تاثیر میں اذنِ الٰہی کو شرط جاننا ضروری ہے ۱: دسویں صدی کے مجدد حضرت ملا علی قاری ؒ (متوفی:۱۰۱۴ھ) اس حدیث پر لکھتے ہیں کہ : ’’و ھٰذا أصل في تعلیق التعویذات التي فیھا أسماء اللہ تعالٰی۔‘‘ ( مرقات ،ج: ۵، ص: ۲۳۶) ا س سے واضح ہوتا ہے کہ وہ تعویذات جو اسمائے الٰہیہ اور کلماتِ مبارکہ پر مشتمل ہوں ، اپنے اندر ایک روحانی ا ثر رکھتے ہیں اور اس سے مریضوں کا علاج کرنا علاج بالقرآن ہی ہے۔ ہاں! وہ تعویذات جو شرکیہ الفاظ پر مشتمل ہوں‘ ان کی قطعاً اجازت نہیں۔ جن روایات میں تمائم اور رُقٰی کو شرک کہا گیا ہے، اس سے مراد اسی قسم کے دم اور تعویذ ہیں، جن میں شرکیہ الفاظ و اعمال کا دخل پایا جائے۔ ’’التمائم‘‘ میں ’’ الف لام‘‘ اسی کے لیے ہے ، اور جو دم اور تعویذ اس سے خالی ہوں، ان کا استعمال جائز ہے اور اس کے روحانی اثرات ثابت ہیں۔ حضرت عوف بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم دورِ جاہلیت میں دم کیا کرتے تھے ،ہم نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے اس بابت پوچھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ’’أعرضوا عَلَیَّ رقاکم ، لا بأس بالرقی ما لم یکن فیہ شرک۔‘‘ (رواہ مسلم ، مشکوٰۃ، ص: ۳۸۸) اس سے پتہ چلتا ہے کہ دم اور تعویذ میں اصل وجہِ منع کفر و شرک ہے، جب یہ نہ ہو تو وہ دم اور تعویذ جائز ہے، چنانچہ ابن تیمیہؒ اپنی کتاب ’’ مجموعۃ الفتاویٰ‘‘ میں تعویذ کے جواز پر ایک مستقل فصل ’’ فصل : في جواز أن یکتب لمصاب و غیرہ ۔۔۔ الخ‘‘ باندھ کر اس کے تحت لکھتے ہیں: ’’و یجوز أن یکتب للمصاب و غیرہ من المرضٰی شیئًا من کتاب اللہ و ذکرہ بالمداد المباح ، ویغسل و یسقٰی ، کما نص علٰی ذلک أحمد و غیرہ۔‘‘ (مجموعۃ الفتاویٰ، ج: ۱۹، ص: ۳۶، ط: مکتبۃ العبیکان ) کسی مریض کے لیے کتاب اللہ میں کچھ لکھ کر دینا یا اس کو دھو کر پانی میں گھول کر پلانا، یہ دونوں جائز ہیں۔حضرت مفتی کفایت اللہ صاحب ؒ ’’ کفایت المفتی‘‘ میں رقم طراز ہیں کہ : ’’ قرآن شریف کی آیت تعویذ میں لکھنا جائز ہے۔‘‘ (کفایت المفتی ، الحظر والاباحۃ ، الفصل الثانی فیما یتعلق بالعوذۃ، ج: ۱۲، ص: ۴۸۲، ط: فاروقیہ) حضرت مفتی محمد تقی عثمانی صاحب اپنی کتاب ’’ تکملۃ فتح الملہم‘‘ میں لکھتے ہیں کہ : ’’ ۔۔۔۔۔۔ فتبین بھٰذا أن التمائم المحرمۃ لا علاقۃ لھا بالتعاویذ المکتوبۃ المشتملۃ علٰی أٰیات من القرآن أو شيء من الذکر ؛ فإنھا مباحۃ عند جماھیر فقھاء الأمۃ ، بل استحبھا بعض العلماء إذا کانت بأذکار مأثورۃ ، کما نقل عنھم الشوکاني في النیل ، واللہ أعلم۔‘‘ (تکملہ فتح الملہم، کتاب الطب ، باب رقیۃ المریض، کتابۃ التعویذات، ج: ۴، ص: ۳۱۸، ط: دار العلوم، کراچی ) وہ تعویذات جن میں اللہ کے کلام اور مسنون دعاؤں کا ذکر ہو تو وہ قطعاً حرام نہیں ، ان کاحرمت سے کوئی تعلق نہیں، ایسے تعویذات تو عام جمہور علماء کے نزدیک جائز ہیں، بلکہ بعض علماء نے اس کو مستحسن قرار دیا ہے ، علامہ شوکانی ؒ نے ان سے یہ ’’نیل الأوطار‘‘ میں نقل بھی کیا ہے۔ حافظ ابن حجر عسقلانی ؒ ’’ فتح الباري‘‘ میں لکھتے ہیں کہ : ’’أجمع العلماء علٰی جواز الرقیٰ عند اجتماع ثلاثۃ شروط: أن یکون بکلام اللہ أو بأسمائہ و صفاتہ و باللسان العربي أو بما یعرف معناہ من غیرہ و أن یعتقد أن الرقیۃ لا تؤثر بذاتھا بل بذات اللہ تعالٰی۔‘‘( فتح الباری ،ج: ۱۰ ، ص: ۱۹۵ ، ط: دار الفکر بیروت ) ’’علماء نے دم اور تعویذ کے جواز پر اجماع کیاہے ، جب ان میں درج ذیل شرائط پائی جائیں: ۱:- وہ اللہ کے کلام ،اسماء یا اس کی صفات پر مشتمل ہو ں۔ ۲ :- وہ عربی زبان یاپھر ایسی زبان میں ہوں جس کا معنی سمجھ میں آتا ہو ۔ ۳ :- یہ یقین رکھنا کہ اس میں بذاتِ خود کوئی اثر نہیں ، بلکہ مؤثر حقیقی اللہ جل شانہ کی ذات ہے۔ علامہ شامیؒ بھی اپنی کتاب ’’رد المحتار‘‘ میں تعویذ کا جواز نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ : ’’و إنما تکرہ العوذۃ اذا کانت بغیر لسان العرب و لا یدری ما ھو ، ولعلہ یدخلہ سحر أو کفر أو غیر ذلک و أما ما کان من القرآن أو شیء من الدعوات، فلا بأس بہ۔‘‘ ( رد المحتار ، ج: ۶، ص: ۳۶۳) ’’فتاویٰ ہندیہ‘‘ میں ہے کہ : ’’ و اختلف في الاسترقاء بالقرآن نحو : ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔أن یکتب في ورق و یعلق أو یکتب في طست ،فیغسل و یسقیٰ المریض ،فأباحہ عطاء و مجاھد و أبو قلابۃ و کرھہ النخعي و البصري ،کذا في ’’ خزانۃ الفتاویٰ‘‘ قد ثبت ذلک في المشاھیر من غیر إنکار ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔و لابأس بتعلیق التعویذ ۔۔الخ۔‘‘ (الفتاوی الہندیۃ، الباب الثامن عشر فی التداوي ، ج: ۵، ص؛۳۵۶ ، ط: دار الفکر ) ’’قرآنی آیات کے ذریعہ دم میں علماء نے اختلاف کیا ہے، مثلاً : ......کسی کاغذ پر قرآن کی آیت لکھ کر مریض کے جسم پر باندھ لیا جائے ، یا کسی برتن میں آیات لکھ کر دھویا جائے اور مریض کو پلایا جائے ، تو عطاءؒ ، مجاہدؒ اور ابو قلابہؒ اس کو جائز سمجھتے ہیں اور امام نخعیؒ اور بصریؒ اس کو مکروہ سمجھتے ہیں ، لیکن مشہور کتابوں میں اس کے جواز پر کوئی نکیر وارد نہیں ہوئی ہے...... آگے لکھتے ہیں کہ تعویذ کے لٹکانے میں کوئی حرج نہیں۔‘‘ ابن القیم الجوزیۃؒ اپنی کتاب ’’ زاد المعاد‘‘ میں لکھتے ہیں : ’’قال المروزي : و قرأ علیٰ أبي عبد اللہ وأنا أسمع أبو المنذر عمرو بن مجمع ، حدثنا یونس بن حبان ، قال : سألت أبا جعفر محمد بن علي أن أعلق التعویذ ، فقال : إن کان من کتاب اللہ أو من کلام عن نبي اللہ فعلقہ و استشف بہ ما استطعت۔‘‘ (زاد المعاد فی ہدی خیر العباد ، کتاب عسر الولادۃ، ج:۴، ص: ۳۳۷، ط: مؤسسۃ الرسالۃ ،بیروت ۔ کذا فی الطب النبوی لابن القیم الجوزیۃ، حرف الکاف ، ج: ۱ ،ص: ۳۷۰، ط: دار الہلال، بیروت ) ’’راوی کہتا ہے کہ میں نے ابو جعفر محمد بن علی سے تعویذ باندھنے کے بارے میں دریافت کیا کہ اس کا کیا حکم ہے ؟ تو آپ نے فرمایا :کہ اگر وہ اللہ اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے کلام پر مشتمل ہو تو اس کو باندھ لیا کرو، اس میں کوئی حرج نہیں ۔ ‘‘ تفسیر ’’روح البیان‘‘ میں ہے کہ : ’’وأما تعلیق التعویذ و ھو الدعاء المجرب أو الآیۃ المجربۃ أو بعض أسماء اللہ تعالٰی لدفع البلاء ، فلا بأس بہٖ و لکن ینزعہ عند الخلاء و الجماع۔‘‘ (روح البیان ، سورۃ یوسف ، آیۃ : ۶۸، ج: ۴، ص:۲۹۵، ط: دار الفکر ،بیروت ) ’’تعویذ اگر مجرب دعا ، مجرب آیت یا اللہ کے اسماء پر مشتمل ہو ، اور کسی مصیبت یا بیماری کے دفعیہ کے غرض سے لٹکایا ہو تو یہ جائز ہے ، لیکن جماع اور بیت الخلاء جانے کے وقت نکالے گا ۔ ‘‘ ’’ تفسیر قرطبی‘‘ میں ہے کہ : ’’و سئل ابن المسیب عن التعویذ أیعلق ؟ قال : إذا کان في قصبۃ أو رقعۃ یحرز، فلابأس بہٖ ۔ و ھٰذا علیٰ أن المکتوب قرآن ۔ وعن الضحاک أنہ لم یکن یری بأسا أن یعلق الرجل الشيء من کتاب اللہ إذا و ضعہ عند الجماع و عند الغائط ، و رخص أبو جعفر محمد بن علي في التعویذ یعلق علی الصبیان ، وکان ابن سیرین لا یری بأسا بالشيء من القرآن یعلقہ الإنسان۔‘‘ (تفسیر قرطبی، سورۃ الاسراء: ۸۲ ، ج:۱۰ ، ص:۳۲۰،ط: دار المعرفۃ ) سعید ابن المسیب ؒ ،ضحاک اور ابن سیرین جیسے اکابر علماء اس کے جواز کے قائل تھے ۔ حضرت مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ لکھتے ہیں کہ : ’’۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ قرآنی آیات کا تعویذ جائز ہے، جبکہ غلط مقاصد کے لیے نہ کیاگیا ہو ، حدیث میں جن ٹونوں ، ٹوٹکوں کو شرک فرمایا گیا ہے، ان سے زمانۂ جاہلیت میں رائج شدہ ٹونے اور ٹوٹکے مراد ہیں، جن میں مشرکانہ الفاظ پائے جاتے تھے، اور جنات وغیرہ سے استعانت حاصل کی جاتی تھی، قرآنی آیات پڑھ کر دم کرنا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام ؓ سے ثابت ہے اور بزرگانِ دین کے معمولات میں شامل ہے۔‘‘ ( آپ کے مسائل اور ان کا حل، تعویذ گنڈے اور جادو، ج: ۲، ص: ۴۹۹، ط: مکتبہ لدھیانوی) علامہ شوکانی ؒ ابن ارسلانؒ سے نقل کرتے ہیں کہ : ’’قال ابن أرسلان ،فالظاہر أن ھٰذا جائز لا أعرف الاٰن ما یمنعہ في الشرع۔‘‘ (فتاویٰ اہل حدیث، ج: ۱ ،ص: ۱۹۳ ) ’’ابن ارسلان کہتے ہیں کہ ظاہر یہی ہے کہ یہ جائز ہیں، شریعت میں اس کے منع کی کوئی دلیل میں نہیں جانتا۔‘‘ شفاء بنت عبد اللہ سے روایت ہے کہ میں ام المؤ منین حضرت حفصہ رضی اللہ عنہاکے پاس بیٹھی تھی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے، آپ نے مجھے کہا : ’’ألا تعلمین ھٰذہ رقیۃ النملۃ کما علمتھا الکتابۃ۔‘‘ (مسند احمد ج: ۱۷ ، ص: ۱۷۹ ،مبوب ) ’’اے شفاء! کیا تو انھیں ( یعنی حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا کو) نملہ کا دم نہیں سکھادیتی، جیسا کہ تو نے انھیں لکھنا سکھادیا ہے؟ ۔‘‘ اس سے واضح ہوتا ہے کہ وہ دم اور تعویذ جس میں کفر و شرک اور غیر معروف الفاظ نہ ہوں اور الفاظ میں ذاتی تاثیر نہ سمجھی جائے ، اس کے منع پر کوئی دلیل وارد نہیں ۔شیخ احمد عبد الرحمٰن البنا ؒ لکھتے ہیں کہ یہ ہر گز ممنوع نہیں ، بلکہ سنت ہے: ’’فلا نھيَ فیہ ، بل ھو السنۃ۔‘‘(ایضاًص: ۱۷۷) نواب صدیق حسن خانؒ نے ’’ الدین الخالص‘‘ میں اس پر تفصیلی بحث کی ہے ، اور انہوں نے بھی دم اور تعویذ کو جائز قرار دیا ہے، البتہ ان سے پرہیز کرنے کو افضل کہتے ہیں اور یہ اپنے آپ کو ابرار میں لانا ہے جو اسباب اختیار نہیں کرتے۔ حافظ عبد اللہ روپڑی صاحبؒ نواب صاحبؒ کی یہ عبارت پیش کر کے لکھتے ہیں : ’’اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ صرف شرک والی صورتیں منع ہیں، باقی جائز ہیں۔ ہاں! پرہیز بہتر ہے۔‘‘ ( فتاویٰ اہل حدیث ، ج: ۱ ، ص: ۱۹۳) حضرت مولانا ثناء اللہ صاحب امرتسری رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں : ’’راجح یہ ہے کہ آیات یا کلماتِ صحیحہ دعائیہ جو ثابت ہوں ، ان کا تعویذ بنانا جائز ہے ، ہندو ہو یا مسلمان، صحابہ کرام ؓ نے ایک کافر بیمار پر سورۂ فاتحہ پڑھ کر دم کیا تھا۔‘‘ (فتاویٰ ثنائیہ، ج:۱،ص: ۳۳۹) اہلِ حدیث کے ایک مشہور عالم مولاناشرف الدین دہلویؒ اس کی تائید میں لکھتے ہیں کہ : ’’ حضرت عبد اللہ ابن عمرو بن العاص ؓ صحابی ’’ أعوذ بکلمات اللہ ۔۔۔۔ الخ‘‘ساری دعا لکھ کر اپنے بچوں کے گلے میں لٹکایا کرتے تھے۔‘‘ (ایضا) غرض یہ کہ مذکورہ بالا دلائل و حوالہ جات سے یہ بات واضح اور عیاں ہوگئی کہ علاج بالقرآن کی ایک قسم تعویذ بھی ہے، اور اس کے روحانی اثرات کا انکار نہیں کیا جا سکتا۔ بہت سے مریض تعویذوں میں لکھی گئی آیاتِ قرآنیہ اور کلماتِ دعائیہ کی برکت سے کئی لا علاج امراض سے بھی نجات پا گئے ہیں ۔ ہاں! ان میں تاثیر ان کلمات کی ذات سے نہیں، بلکہ اللہ رب العزت کے حکم ہی سے آتی ہے۔ اگر ان تعویذات اور دموں میں کوئی روحانی تاثیر نہ ہوتی ، اور اس کا باطنی فائدہ نہ ہوتا ، تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سونے سے پہلے قرآن کی آخری تین سورتیں پڑھ کر اپنے ہاتھوں پر پھونک نہ مارتے اور انھیں اپنے بدن پر نہ ملتے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہ عمل تین مرتبہ فرماتے، حتیٰ کہ مرض الوفات میں جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم خود کمزوری کی وجہ سے ایسا نہ کرسکے ، تو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے انہی سورتوں کو پڑھا ، اور آپ کے ہاتھوں پر پھونک لگائی اور پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھوں کو آپ کے بدن پر مل لیا ۔ ایک مرتبہ حضرت جبرائیل علیہ السلامنے بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دم کیا تھا۔ (رواہ مسلم) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ان سورتوں کو پڑھ کر ہاتھوں پر دم کرنا اور پھر اپنے ہاتھوں سے پورے بدن کو ملنا اس بات کا پتہ دیتا ہے کہ ان آیات میں ضرور روحانی اثر ہے ، اور یہ شیطانی اثرات سے بچانے کا ایک خاص عمل ہے ، جو بظاہر نگاہوں سے مخفی ہوتا ہے ، لیکن باطنی آنکھ والے ان کی تاثیرات کھلے طور پر دیکھتے ہیں ، اور پڑھنے کے ساتھ ہاتھ پھیرنا یہ بھی ہر گز منع نہیں ۔ یاد رہے کہ کہ دم اور تعویذمیں وہی فرق ہے جو کلام میں اور کتاب میں ہے ، دونوں کا اپنا اپنا مقام ہے اور دونوں کا اپنا اپنا احترام ہے ۔ لیکن تعویذ کے سلسلہ میں بعض فحش غلطیاں سرزد ہو جاتی ہیں ، جس کی بیخ کنی نہایت اہم ہے اور اس سے قطعی پرہیز اور کنارہ کشی اختیار کرنا بہت ہی ضروری ہے : ۱:- بعض جاہلوں نے لکھا ہے کہ : مسلمان کی خیر خواہی کے لیے بوقتِ ضرورت شرکیہ الفاظ سے دم کرنا جائز ہے ، سو یہ بالکل غلط ہے اور اس کا شریعت میں بالکل ثبوت نہیں ۔ ۲:- اکثر عوام عملیات ( اور تعویذات وغیرہ ) کو ایک ظاہری تدبیر سمجھ کر نہیں کرتے ، بلکہ اس کو سماوی اور اور ملکوتی چیز سمجھ کر کرتے ہیں ، یہی وجہ ہے کہ تعویذ گنڈوں کے متعلق عوام کے عقائد نہایت برے ہیں، حالانکہ عملیات ،تعویذ اور گنڈے وغیرہ بھی طبی دواؤں کی طرح ایک ظاہری سبب اور تدبیر ہے ، ( کوئی آسمانی اور ملکوتی چیز نہیں ) بس جس طرح دواء سے کبھی فائدہ ہوتا ہے اور کبھی نہیں ، اسی طرح تعویذ میں بھی کبھی فائدہ ہوتا اور کبھی نہیں، پھر بھی دونوں برابر نہیں ، بلکہ دونوں میں یہ فرق ہے کہ عملیات میں فتنہ ہے اور دواء میں فتنہ نہیں ، اور وہ فتنہ یہ ہے کہ کہ عامل کی طرف بزرگی کا خیال و اعتقاد پیدا ہوتا ہے ، طبیب کی طرف بزرگی کا خیال پیدا نہیں ہوتا ۔ ۳:- ایک اور بہت بڑی خرابی یہ ہے کہ اگر تعویذ گنڈے وغیرہ سے کام نہ ہوا ، تو پھر آیاتِ الٰہیہ سے بد عقیدگی اور بد گمانی پیدا جاتی ہے۔ ۴:- عملیات قریب قریب سب اجتہادی ہیں، روایات سے ثابت نہیں ، جیسا کہ عوام کا خیال ہے کہ ان عملیات کو اوپر ہی سے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت سمجھتے ہیں ، یہ صحیح نہیں ہے ، بلکہ عاملین مضمون کی مناسبت سے ہر کام کے لیے مناسب آیات وغیرہ تجویز کرتے ہیں ۔ ۵:- آج کل لوگ اپنے مقاصد میں اور امراض و مصائب کے دفعیہ میں تعویذ گنڈوں کی تو بڑی قدر کرتے ہیں ، اس کے لیے کوششیں بھی کرتے ہیں، اور جو اصل تدبیر ہے یعنی اللہ سے دعا ، تو اس میں غفلت برتتے ہیں۔ میرا تجربہ ہے کہ کوئی نقش و تعویذ دعا کے برابر مؤثر نہیں، بشرطیکہ تمام آداب و شرائط کی رعایت رکھی جائے۔ خلاصہ یہ کہ تعویذ بذاتہ جائز ہے ، بشرطیکہ مذکورہ بالا شرائط کی رعایت رکھی جائے ، اور درج بالا ناجائز اعتقادات سے خود کو پاک اور منزہ کیا جائے ۔ وقد أجمع العلماء علی جواز الرقی عند اجتماع ثلاثة شروط أن یکون بکلام اللہ تعالی أو بأسمائہ وصفاتہ وباللسان العربی أو بما یعرف معناہ من غیرہ وأن یعتقد أن الرقیة لا تؤثر بذاتہا بل بذات اللہ تعالی (فتح الباري: الطب والرقی بالقرآن والمعوذات: ۵۷۳۵) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صراحتاً ایسے رقیے اور تعویذ کی اجازت دی ہے جس میں شرک نہ ہو: عَنْ عَوْفِ بْنِ مَالِکٍ ، قَالَ: کُنَّا نَرْقِی فِی الْجَاہِلِیَّةِ، فَقُلْنَا: یَا رَسُولَ اللَّہِ، کَیْفَ تَرَی فِی ذَلِکَ؟ فَقَالَ: اعْرِضُوا عَلَیَّ رُقَاکُمْ، لَا بَأْسَ بِالرُّقَی مَا لَمْ یَکُنْ فِیہِ شرکٌ، رواہ مسلم (مشکاة: ۲/۳۸۸) نیز آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم حضرت ابودجانہ رضی اللہ عنہ کو تعویذ کے کلمات لکھ کر دیے تھے جس کی وجہ سے ان کو پریشان کرنے والا شیطان ہلاک ہوگیا۔ وأخرج البیہقي عن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: فَقَالَ لِعَلِیِّ رضي اللہ عنہ اکْتُبْ: بِسْمِ اللہِ الرَّحْمَنِ الرَّحِیمِ. ہَذَا کِتَابٌ مِنْ مُحَمَّدٍ رَسُولِ رَبِّ الْعَالَمِینَ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، إِلَی مَنْ طَرَقَ الدَّارَ مِنَ الْعُمَّارِ وَالزُّوَّارِ وَالصَّالِحِینَ، إِلَّا طَارِقًا یَطْرُقُ بِخَیْرٍ یَا رَحْمَنُ․ أَمَّا بَعْدُ: فَإِنَّ لَنَا وَلَکُمْ فِی الْحَقِّ سَعَةً، فَإِنْ تَکُ عَاشِقًا مُولَعًا، أَوْ فَاجِرًا مُقْتَحِمًا أَوْ رَاغِبًا حَقًّا أَوْ مُبْطِلًا، ہَذَا کِتَابُ اللہِ تَبَارَکَ وَتَعَالَی یَنْطِقُ عَلَیْنَا وَعَلَیْکُمْ بِالْحَقِّ، إِنَّا کُنَّا نَسْتَنْسِخُ مَا کُنْتُمْ تَعْمَلُونَ وَرُسُلُنَا یَکْتُبُونَ مَا تَمْکُرُونَ، اتْرُکُوا صَاحِبَ کِتَابِی ہَذَا، وَانْطَلِقُوا إِلَی عَبَدَةِ الْأَصْنَامِ، وَإِلَی مَنْ یَزْعُمُ أَنَّ مَعَ اللہِ إِلَہًا آخَرَ لَا إِلَہَ إِلَّا ہُوَ کُلُّ شَیْء ٍ ہَالِکٌ إِلَّا وَجْہَہُ لَہُ الْحُکْمُ وَإِلَیْہِ تُرْجَعُونَ یُغْلَبُونَ، حم لَا یُنْصَرُونَ، حم عسق تُفَرِّقَ أَعْدَاء َ اللہِ، وَبَلَغَتْ حُجَّةُ اللہِ، وَلَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللہِ فَسَیَکْفِیکَہُمُ اللہُ وَہُوَ السَّمِیعُ الْعَلِیمُ․ (دلائل النبوة ما یذکر من حرز أبی دجانة: ۷/۱۱۸) ایک اورحدیث میں ہے: عَنْ یَعْلَی بْنِ مُرَّةَ، عَنْ أَبِیہِ، قَال: سَافَرْتُ مَعَ رَسُولِ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ․․․وَأَتَتْہُ امْرَأَةٌ فَقَالَتْ: إِنَّ ابْنِی ہَذَا بِہِ لَمَمٌ مُنْذُ سَبْعِ سِنِینَ یَأْخُذُہُ کُلَّ یَوْمٍ مَرَّتَیْنِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: أَدْنِیہِ فَأَدْنَتْہُ مِنْہُ فَتَفَلَ فِی فِیہِ وَقَالَ: اخْرُجْ عَدُوَّ اللَّہِ أَنَا رَسُولُ اللَّہِ․ (رواہ الحاکم في المستدرک) اس کے علاوہ صحابہ میں حضرت عبد اللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ وغیرہ اور ان کے علاوہ تابعین میں حضرت عطا وغیرہ اس کے جواز کے قائل تھے، اور آج بھی اس پر لوگوں کا عمل ہے: عن عمرو بن شعیب، عن أبیہ، عن جدہ، أن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کان یعلمہم من الفزع کلمات: أعوذ بکلمات اللہ التامة، من غضبہ وشر عبادہ، ومن ہمزات الشیاطین وأن یحضرون․ وکان عبد اللہ بن عمر یعلمہن من عقل من بنیہ، ومن لم یعقل کتبہ فأعلقہ علیہ․ (أبوداوٴد: ۳۸۹۳، والترمذي: ۳۵۲۸ وقال: حسن غریب، اور علامہ شامی لکھتے ہیں: اخْتُلِفَ فِی الِاسْتِشْفَاء ِ بِالْقُرْآنِ بِأَنْ یُقْرَأَ عَلَی الْمَرِیضِ أَوْ الْمَلْدُوغِ الْفَاتِحَةُ، أَوْ یُکْتَبَ فِی وَرَقٍ وَیُعَلَّقَ عَلَیْہِ أَوْ فِی طَسْتٍ وَیُغَسَّلَ وَیُسْقَی. وَعَنْ النَّبِیِّ -صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ- أَنَّہُ کَانَ یُعَوِّذُ نَفْسَہُ قَالَ - رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ -: وَعَلَی الْجَوَازِ عَمَلُ النَّاسِ الْیَوْمَ، وَبِہِ وَرَدَتْ الْآثَارُ․ (شامي: ۹/۵۲۳) واضح رہے کہ تعویذ میں جس طرح پڑھ کر دم کرنا جائز ہے اسی طرح قرآنی آیات وغیرہ کو کسی کاغذ پر لکھ کر اس کو باندھنا بھی جائز ہے، علامہ سیوطی تحریر فرماتے ہیں: وأما قول ابن العربي: السُّنة في الأسماء والقرآن الذکر دون التعلیق فممنوع (فیض القدیر: ۶/۱۰۷) جہاں تک ان احادیث کا تعلق ہے جن میں تمیمہ کو لٹکانے پر شرک کا حکم مذکور ہے، جیسا کہ امام اسیوطی کی جامع صغیر میں ہے: من تعلق شیئا وکل إلیہ (فیض القدیر: ۶/۱۰۷) اسی طرح دوسری حدیث میں ہے: من علق ودعة فلا ودع اللہ ومن علق تمیمة فلا تمم اللہ لہ (فیض القدیر: ۶/۱۸۱) تو یہ اس صورت پر محمول ہیں جب کہ اسی تعویذ کومؤثربالذات سمجھے یااس میں شرکیہ الفاظ ہوں یا ایسے الفاظ ہوں جن کے معانی معلوم نہ ہوں، ان حدیثوں کی شرح کرتے ہوئے علامہ سیوطی رحمہ اللہ تحریر فرماتے ہیں: أو المراد من علق تمیمة من تمائم الجاہلیة یظن أنہا تدفع أو تنفع فإن ذلک حرام والحرام لا دواء فیہ وکذا لو جہل معناہا وإن تجرد عن الاعتقاد المذکور فإن من علق شیئا من أسماء اللہ الصریحة فہو جائز بل مطلوب محبوب فإن من وکل إلی أسماء اللہ أخذ اللہ بیدہ․ (فیض القدیر: ۶/۱۰۷)

Thursday 27 April 2023

ایک بہن اورتین بھائی میں ترکہ کی تقسیم

مرحوم کی جائیدادمنقولہ وغیرمنقولہ کی تقسیم کا طریقہ کار شرعاً یہ ہے کہ اولاً مرحوم کے ترکہ میں سے اُس کی تجہیز و تکفین کے اخراجات ادا کیے جائیں گے، پھر اگر مرحوم کے ذمے کوئی قرضہ ہو تو اُس کو کل ترکہ میں سے ادا کیا جائے، اس کے بعد اگر مرحوم نے کوئی جائز وصیت کی تو اس کو ایک تہائی میں سے نافذ کر کے مرحوم کے کُل ترکہ کو 7 حصوں میں تقسیم کیا جائے، جس میں سے2دودوحصے مرحوم کے ہر بھائی کواور ایک حصہ مرحوم کی بہن کو دیا جائے گا ۔ باقی بھائی کی موجودگی میں بھتیجے اور بھتیجیاں محروم ہوں گی اور بھانجے اور بھانجیوں کا بھی کوئی حصہ نہیں ہوگا ۔.لہذامرحوم کی وصیت کوتہائی مال میں نافذ کیاجائے اوربقیہ مذکورہ طریقہ پرتقسیم کیاجائے گا.

Wednesday 26 April 2023

خواتین کاقبرستان جانا

اگر کوئی بوڑھی عورت کبھی کبھار عبرت اور آخرت کی یاد کے لیے قبرستان جائے تو اس شرط کے ساتھ اجازت ہے کہ وہ قبرستان جاکر رونا دھونا نہ کرے، کوئی خلاف شرع کام نہ کرے۔اور جوان عورت کے لیے موت کی یاد اور آخرت کی نیت سے جانا بھی مکروہ ہے؛ کیوں کہ جوان عورت کا گھر سے نکلنا خطرات سے خالی نہیں ہوتا ، اور شرعی ضرورت کے بغیر اس کے لیے گھر سے نکلنا پسندیدہ نہیں ہے، یہاں تک کہ نماز باجماعت کے لیے جانا خواتین کے لیے مکروہ ہے، اور قبرستان جانا شرعًا ضرورت میں داخل نہیں ہے۔ بذل المجہود شرح سنن ابی داود میں ہے: "قلت: وفي رواية عائشة - رضي الله عنها - عند مسلم قالت: "كيف أقول يا رسول الله؟ تعني في زيارة القبور، قال: قولي السلام على أهل الديار من المؤمنين والمسلمين، ويرحم الله المستقدمين منّا والمستأخرين، وإنا إن شاء الله بكم للاحقون"، دليل على أن النساء أذن لهن في زيارة القبور.وكذلك ما أخرجه البخاري: "أن النبي - صلى الله عليه وسلم - مر بامرأة تبكي عند قبر فقال: اتقي الله واصبري، الحديث". ولم ينكر عليها الزيارة. وكذلك ما رواه الحاكم: "أن فاطمة بنت رسول الله - صلى الله عليه وسلم - كانت تزور قبر عمها حمزة كل جمعة فتصلي وتبكي عنده". فالصواب الذي ينبغي الاعتماد عليه هو جواز الزيارة للنساء إذا كان الأمن من تضييع حق الزوجة والتبرج والجزع والفزع ونحو ذلك من الفتن؛ لأن الزيارة عُلِّلَ بتذكر الموت، ويحتاج إليه الرجال والنساء، فلا مانع من الإذن لهن. (بذل المجهود شرح سنن أبي داود: باب في زيارة النساء للقبور (10/ 527، 528)،ط. مركز الشيخ أبي الحسن الندوي للبحوث والدراسات الإسلامية، الهند، الطبعة: الأولى، 1427 هـ - 2006 م) فتاوی شامی میں ہے: قوله: ( ولو للنساء)، وقيل: تحرم عليهن، والأصح: أن الرخصة ثابتة لهن بحر. وجزم في شرح المنية بالكراهة ؛ لما مر في اتباعهن الجنازة. وقال الخير الرملي: إن كان ذلك لتجديد الحزن والبكاء والندب على ما جرت به عادتهن فلا تجوز، وعليه حمل حديث "لعن الله زائرات القبور". وإن كان للاعتبار والترحم من غير بكاء والتبرك بزيارة قبور الصالحين فلا بأس إذا كن عجائز، ويكره إذا كن شوابّ كحضور الجماعة في المساجد آه. وهو توفيق حسن. (حاشية ابن عابدين على الدر المختار: كتاب الصلاة، باب صلاة الجنائز، مطلب في زيارة القبور (2/ 242)،ط. سعيد، كراتشي)

Tuesday 25 April 2023

شش عید کے روزوں کے ساتھ قضاروزوں کی نیت درست نہیں

نفل روزہ الگ ہے اور فرض کی قضا کا روزہ الگ اور مستقل حیثیت رکھتا ہے، روزہ میں نفل کی نیت کرنے سے وہ نفلی روزہ ہوگا اور قضا کی نیت کرنے سے وہ قضا کا روزہ ہوگا، ایک روزہ میں نفل اورقضا دونوں کی نیت نہیں کرسکتے ہیں؛ لہذا شوال کے چھ روزوں یا ذی الحجہ، عاشورہ کے روزوں کے ساتھ،قضا روزوں کی ادائیگی کی نیت کرناصحیح نہیں ہے۔اس لیے اگر شوال کے مہینے میں شوال کے چھ روزوں کی نیت کی ہےتو وہ نفلی روزے ہوں گے قضا کے نہیں ہوں گے، اور اگر ان دنوں میں قضا کی نیت کی ہے تو وہ قضا کے روزے ہوں گے اور اس سے نفلی کا ثواب نہیں ملے گا۔ اگر یہ گمان ہو کہ شوال کے روزے رکھے تو بعد میں قضا روزے رکھنا مشکل ہوگا تو پہلے قضا روزے رکھنے چاہییں، بصورتِ دیگر شوال میں نفل روزے رکھ لے، اور پھر قضا کرلے۔ البحر الرائق شرح كنز الدقائق ومنحة الخالق وتكملة الطوري (2/ 299) : "ولو نوى قضاء رمضان والتطوع كان عن القضاء في قول أبي يوسف، خلافاً لمحمد فإن عنده يصير شارعاً في التطوع، بخلاف الصلاة فإنه إذا نوى التطوع والفرض لايصير شارعاً في الصلاة أصلاً عنده، ولو نوى قضاء رمضان وكفارة الظهار كان عن القضاء استحساناً، وفي القياس يكون تطوعاً، وهو قول محمد، كذا في الفتاوى الظهيرية". الفتاوى الهندية (1/ 196): "ومتى نوى شيئين مختلفين متساويين في الوكادة والفريضة، ولا رجحان لأحدهما على الآخر بطلا، ومتى ترجح أحدهما على الآخر ثبت الراجح، كذا في محيط السرخسي. فإذا نوى عن قضاء رمضان والنذر كان عن قضاء رمضان استحساناً، وإن نوى النذر المعين والتطوع ليلاً أو نهاراً أو نوى النذر المعين، وكفارة من الليل يقع عن النذر المعين بالإجماع، كذا في السراج الوهاج. ولو نوى قضاء رمضان، وكفارة الظهار كان عن القضاء استحساناً، كذا في فتاوى قاضي خان. وإذا نوى قضاء بعض رمضان، والتطوع يقع عن رمضان في قول أبي يوسف - رحمه الله تعالى -، وهو رواية عن أبي حنيفة - رحمه الله تعالى - كذا في الذخيرة". تبيين الحقائق شرح كنز الدقائق وحاشية الشلبي (3/ 13): "ولو نوى صوم القضاء والنفل أو الزكاة والتطوع أو الحج المنذور والتطوع يكون تطوعاً عند محمد؛ لأنهما بطلتا بالتعارض فبقي مطلق النية فصار نفلاً، وعند أبي يوسف يقع عن الأقوى ترجيحاً له عند التعارض، وهو الفرض أو الواجب".

Saturday 22 April 2023

عيد

أَيُّ شَيءٍ في العيدِ أُهدي إِلَيكِ يا مَلاكي وَكُلُّ شَيءٍ لَدَيكِ أَسِواراً أَم دُمُلجاً مِن نُضارٍ لا أُحِبُّ القُيودَ في مِعصَمَيكِ أَمخُموراً وَلَيسَ في الأَرضِ خَمرٌ كَالَّتي تَسكُبينَ مِن لَحظَيكِ أَم وُروداً وَالوَردُ أَجمَلُهُ عِندي الَّذي قَد نَشَقتُ مِن خَدَّيكِ أَم عَقيقاً كَمُهجَتي يَتَلَظّى وَالعَقيقُ الثَمينُ في شَفَتَيكِ لَيسَ عِندي شَيءٌ أَعَزُّ مِنَ الروحِ وَروحي مَرحونَةٌ في يَدَيكِ