https://follow.it/amir-samdani?action=followPub

Wednesday 6 December 2023

احتیاطاً تجدید نکاح کرنا

 نکاح کے درست ہونے کے لیے گواہ اور مہر کا ہونا شرط ہے، تاہم اگر احتیاطاً تجدیدِ نکاح کیا جائے  یعنی جب  تفریق کے اسباب میں سے کسی سبب کےبغیر تجدیدِ نکاح کیا جائے ،تو اس  میں  نیا مہر مقرر کرنا لازم نہیں ہے، البتہ گواہان کی موجودگی شرط ہے، اس کے بغیر تجدیدِ نکاح درست نہیں ہوگا، آپ کی بالغ اولاد، گھر کے افراد و دیگر رشتہ دار بھی نکاح کے گواہ بن سکتے ہیں ، اس لیے گواہان کی شرط میں  حرج نہیں ہے ، ہاں  مہر کی شرط میں حرج پایا جا رہا تھا اس لیے احتیاطا  تجدیدِ نکاح میں مہر کی شرط کو ساقط کر دیا گیا ہے جب کہ  گواہان کی شرط کو باقی رکھا گیا ہے۔

"الدر المختار مع رد المحتار" میں ہے:

"(و) شرط (حضور) شاهدين (حرين) أو حر وحرتين (مكلفين سامعين قولهما معا) على الأصح (فاهمين)أنه نكاح على المذهب بحر (مسلمين لنكاح مسلمة ولو فاسقين أو محدودين في قذف أَوْ أو أعميين أو ابني الزوجين أو ابني أحدهما، وإن لم يثبت النكاح بهما) بالابنين (إن ادعى القريب.

(قوله: وإن لم يثبت النكاح بهما) أي بالابنين أي بشهادتها، فقوله: بالابنين بدل من الضمير المجرور، وفي نسخة لهما أي للزوجين، وقد أشار إلى ما قدمناه من الفرق بين حكم الانعقاد، وحكم الإظهار أي ينعقد النكاح بشهادتهما، وإن لم يثبت بها عند التجاحد وليس هذا خاصا بالابنين كما قدمناه.

(قوله: إن ادعى القريب) أي لو كانا ابنيه وحده أو ابنيها وحدها فادعى أحدهما النكاح وجحده الآخر لا تقبل شهادة ابني المدعي له بل تقبل عليه، ولو كانا ابنيهما لا تقبل شهادتهما للمدعي، ولا عليه لأنها لا تخلو عن شهادتهما لأصلهما، وكذا لو كان أحدهما ابنها والآخر ابنه لا تقبل أصلا كما في البحر."

(كتاب النكاح، ج:3، ص:21-24، ط:سعید)

"رد المحتار "میں ہے:

"والاحتياط أن ‌يجدد ‌الجاهل إيمانه كل يوم ويجدد ‌نكاح امرأته عند شاهدين في كل شهر مرة أو مرتين، إذ الخطأ وإن لم يصدر من الرجل فهو من النساء كثير."

(مقدمة، ج:1، ص:42، ط:سعيد)

فسخ النكاح بسبب سوء العشرة

 أن أسباب فسخ عقد النكاح عديدة مثل فسخ النكاح بسبب الهجر، وفي حال وجود سبب منهم مع توافر شروط فسخ النكاح، يتم فسخ عقد النكاح من قبل القاضي.

ويعد عدم قدرة الزوح على الإنفاق على الزوجة وتوفير متطلبات الحياة لها من أحد أسباب فسخ عقد النكاح.

  • ففي حال عدم قيام الزوج بواجبه بالإنفاق على زوجته، يحق للزوجة القيام برفع دعوى من أجل فسخ عقد النكاح.
  • حيث يقوم القاضي المختص بالنظر في الأمر، واستدعاء الزوج والاستماع إلى أقواله، وفي حالة إثباته قدرته على الإنفاق، يتم رفض دعوى الزوجة.
  • أما في حالة عجز الزوج عن إثبات قدرته المادية على الإنفاق على الزوجة، يتوجب على الزوجة القيام بحلف اليمين.
  • وفي حالة حلف الزوجة اليمين يحق لها فسخ عقد النكاح، أما في حالة رفضها حلف اليمين يتم رفض الدعوى المقدمة.
  • إذا كنت تبحثين عن محامي متخصص في قضايا النفقة في الرياض أو أي مدينة سعودية أخرى، فلا تتردد في التواصل مع منصة محامي الرياض.
  • فثبت أن سوء العشرة أيضا سبب من الأسباب للفسخ والتفريق فيما بين الزوجين في الأحوال الشخصية عند الجمهور كماتبين من النموذج الحالي (من منصة محامي الرياض)  

فسخ النكاح بسبب عدم النفقة

 جاء في شرح الممتع على زاد المستقنع للعثيمين: إذا تزوجها وهو معسر عالمة بعسرته، فلها أن تطالب بالنفقة على المذهب، وتقول: إما أن تطلق، وإما أن تنفق، وعلة ذلك أن نفقتها تتجدد كل يوم، فإذا أسقطت نفقة غد لم تسقط، لأنها لم تملكها بعد، وإسقاط الشيء قبل وجوبه لا عبرة به. انتهى.

وجاء في أسنى المطالب في شرح روض الطالب: لو نكحته عالمة بإعساره أو رضيت بالمقام معه ثم ندمت فلها الفسخ، لأن النفقة تجب يوما فيوما والضرر يتجدد ولا أثر لقولها رضيت بإعساره أبدا، لأنه وعد لا يلزم الوفاء به. انتهى.

وذهب ابن القيم إلى أن المرأة لا يجوز لها الفسخ بسبب إعسار الزوج سواء تزوجته عالمة بإعساره أو كان موسرا ثم طرأ عليه الإعسار، ولم يجوز لها الفسخ إلا في حالة واحدة وهي ما إذا غرها وخدعها فأظهر لها الغنى واليسار وهو بخلاف ذلك، جاء في نيل الأوطار: وذهب ابن القيم إلى التفصيل وهو إذا تزوجت به عالمة بإعساره أو كان حال الزواج موسرا ثم أعسر فلا فسخ لها، وإن كان هو الذي غرها عند الزواج بأنه موسر ثم تبين لها إعساره كان لها الفسخ. انتهى.

واختار الشيخ ابن عثيمين ـ رحمه الله ـ رأيا وسطا وهو: أنه إذا تزوجته عالمة بإعساره فلا فسخ، ولكن لا يمنعها من العمل والكسب، جاء في الشرح الممتع على زاد المستقنع: ولهذا ذهب بعض أهل العلم إلى قول جيد يجمع بين الحقوق، فقال: ليس لها الفسخ في الحالة الثالثة ـ إذا كان موسرا ثم أعسرـ لأن هذا ليس باختياره، وفي الحالة الثانية ـ إذا تزوجته عالمة بإعساره ـ ليس لها الفسخ، لأنها دخلت على بصيرة ولكن لا يمنعها من التكسب، لأنه إذا كان ينفق عليها له الحق أن يمنعها من التكسب، فإذا كان لا ينفق فليرخص لها في التكسب وهذا قول قوي وإليه ذهب أبو حنيفة ـ رحمه الله. انتهى.

والراجح هنا ـ والعلم عند الله ـ هو ما ذهب إليه جمهور العلماء، وعليه فإذا لم يستطع الزوج النفقة فيجوز لزوجته فسخ النكاح أو طلب الطلاق للضرر.

الثاني: أن من حق الزوجة على زوجها أن يوفر لها مسكنا مستقلا عن أهله، على ما بيناه في الفتوى رقم: 34802، فإن لم يوفر لها هذا المسكن فمن حقها طلب الطلاق منه، وإن كان الأولى والأفضل في كل ذلك أن تلزم الصبرـ سواء عند ضيق النفقة أو عدم وجود مسكن مستقل.

Tuesday 5 December 2023

بچوں کے اسلامی نام

 

کا یہ نام منقول ہے مکہ کی طرف نسبت کے اعتبار سے)
اولیحضورصلی اللہ علیہ وسلم کانامآمرحضورصلی اللہ علیہ وسلم کا نام
امینحضورصلی اللہ علیہ وسلم کا ناماولحضورصلی اللہ علیہ وسلم کانام
آخرحضورصلی اللہ علیہ وسلم کانامامامحضورصلی اللہ علیہ وسلم کانام
ایوبنبی کا نامالیاسنبی کا نام
ادریسنبی کا نامابراہیممشہور اولوالعزم نبی اور آپ ﷺ کے جد امجد کا نام
اسماعیلنبی کا نام، (حضرت ابراہیم علیہ السلام کےصاحبزادے)اسحاقنبی کا نام، (حضرت ابراہیم علیہ السلام کےصاحبزادے)
ابوبکرصدیقخلیفۂ راشد اول، عشرہ مبشرہ، صحابی کی کنیت اور کئی صحابہ کی کنیتآدمابو البشر سیدنا آدم علیہ السلام کا نام
احمدنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا نام بمعنی بہت زیادہ قابل تعریفآمنامن سے رہنے والا، بے خوف، مطمئن
آنسمحبت کرنے والا، انس رکھنے والااتصافقابل تعریف ہونا
اجودبہت سخی، (اسم تفضیل)ارتساماطاعت کرنا، نقش اتارنا
اِیاسکئی صحابہ کا ناماحوصصحابی کا نام
ادرعصحابی کا ناماقعسصحابی کا نام، (ایک قول کے مطابق)
اکثمکئی صحابہ کا ناماسمر

مضاربت پر رقم دے کر نفع میں نصف حصہ مقرر کرنا

 اپنے ساتھی کوبطور مضاربت کے رقم دے کر(نفع میں)نصف حصہ مقرر کرناجائز ہے۔

فتاوی ہندیہ میں ہے:

ولو قال: خذ هذا الألف فاعمل بالنصف أو بالثلث أو بالعشر، أو قال: خذ هذا الألف وابتع به متاعاً، فما كان من فضل فلك النصف ولم يزد على هذا شيئاً، أو قال: خذ هذا المال على النصف أو بالنصف ولم يزد على هذا جازت استحساناً، ولو قال: اعمل به على أن ما رزق الله تعالى أو ما كان من فضل فهو بيننا جازت المضاربة قياساً واستحساناً، هكذا في المحيط"

(كتاب المضاربة، الباب الأول في تفسير المضاربة وركنها وشرائطها وحكمها، ج:٤، ص:٢٨٥، ط:دار الفكر بيروت

Monday 4 December 2023

تین طلاق معلق سے بچنے کا حیلہ

 

تین طلاق معلق کا حکم اور اس سے بچنے کا حیلہ


سوال

اگر کسی نے اپنی بیوی کو کہا کہ تو اگر گھر سے نکلی تو  تجھے تین طلاق ہو جائیں گی ، بیوی کے گھر سے نکلنے کی صورت میں طلاق ہو جائے گی؟

 جواب:

تین طلاق سے بچنے کی یہ صورت ہے کہ مذکورہ شخص اپنی اہلیہ کوایک طلاقِ رجعی دے  دے ، اور عدت میں رجوع نہ کرے، جب بیوی کی عدت  ختم ہوجائے (یعنی تین ماہواریاں گزر جائیں  یاحاملہ ہونے کی صورت میں وضع حمل کے بعد) تو وہ گھر سے نکل جائے، ایسا کرنے سے یہ تعلیق ختم ہوجائے گی، اور  چوں کہ اُس وقت وہ مذکورہ شخص کے  نکاح  میں نہیں ہوگی؛ اس لیے تین طلاقیں واقع نہیں ہوں گی اور شرط  پوری  ہوجائے گی، پھر دونوں میاں بیوی دوبارہ باہمی رضامندی سے مہر مقرر کرکے گواہوں کی موجودگی میں نکاح کرلیں۔ لیکن آئندہ کے لیے دو طلاقوں کا حق باقی ہوگا، اور اس شخص کو بات چیت میں احتیاط کرنی چاہیے۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3/ 355):

"فحيلة من علق الثلاث بدخول الدار أن يطلقها واحدة ثم بعد العدة تدخلها فتنحل اليمين فينكحها."

Sunday 3 December 2023

بارات کی دعوت اور بڑی تعداد میں بارات لے جانا

 نکاح ہونے کے بعد رخصتی کے موقع پر لڑکے والوں کا لڑکی کو لانے کے لیے بارات لے کر جانا اور لڑکی والوں کا کھانے کا انتظام کرنا ولیمہ کی طرح سنت نہیں ہے، اور اگر لڑکی والے نام و نمود کے لیے یا لڑکے والوں کے مطالبے یا خاندانی دباؤ  کی وجہ سے  یا شرمندگی سے بچنے کے لیے مجبوراً  یہ دعوت کریں تو   اس طرح لڑکے والوں کا پچاس یا کم و بیش افراد لے کر جانا اور لڑکی والوں کی دلی رضامندی کے بغیر ان کی طرف سے دعوت کھانا جائز نہیں ہے، اسی طرح ایسی دعوت میں شرکت کرنا بھی جائز نہیں، چاہے اس دعوت میں دیگر مفاسد ( موسیقی، مرد عورت کا اختلاط وغیرہ) نہ بھی ہو۔

  لیکن اگر لڑکی والے  نام و نمود سے بچتے ہوئے، کسی قسم کی زبردستی اور خاندانی دباؤ کے بغیر اپنی خوشی و رضامندی سے اپنے اعزاء  اور مہمانوں کے ساتھ لڑکے والوں کے متعلقین کو بھی کھانے پر بلائیں تو  ایسی دعوت کرنا جائز ہے، کیوں کہ یہ مہمانوں کا اکرام ہے اور اس میں شرکت کرنا بھی جائز ہے، بشرطیکہ اس دعوت میں دیگر مفاسد  ( موسیقی، مرد عورت کا اختلاط وغیرہ) نہ ہوں، لیکن لڑکے والوں کو  چاہیے کہ بارات کی دعوت میں اتنے افراد کو لے کر جائیں جتنے افراد کو لڑکی والوں نے اپنی وسعت کے مطابق دعوت دی ہو، اس لیے لڑکی والوں سے تعداد پوچھ کر اسی تعداد کے حساب سے اپنے ساتھ متعلقین کو لے جانا چاہیے،  اس تعداد سے زیادہ افراد لے جانے کی صورت میں لڑکی والوں پر بوجھ پڑنے کا اندیشہ رہے گا۔

 

مفتی اعظم ہند مفتی کفایت اللہ صاحب تحریر فرماتے ہیں :

’’لڑکی والوں کی طرف سے براتیوں کو یا برادری کو کھانا دینا لازم یا مسنون اور مستحب نہیں ہے ، اگر  بغیرالتزام کے وہ اپنی مرضی سے کھانا دے دیں تو مباح ہے، نہ دیں تو کوئی الزام نہیں‘‘ ۔ (کفایت المفتی، 7/471، باب العرس والولیمہ، ط: فاروقیہ)

فتاوی  محمودیہ میں ہے: 

’’جو لوگ لڑکی والے کے مکان پر مہمان آتے ہیں اور ان کا مقصود شادی میں شرکت کرنا ہے اور ان کو بلایا بھی گیا ہے تو آخر وہ کھانا کہاں جاکر  کھائیں گے! اور اپنے مہمان کو کھلانا  تو شریعت کا حکم ہے، اور حضرت نبی اکرم ﷺ نے تاکید فرمائی ہے‘‘۔ (12/142، باب العروس والولیمہ، ط:فاروقیہ

حضانت کے احکام

 1۔پرورش کرنے والی خاتون،( والدہ , والدہ کے علاوہ نانی، دادی، خالہ) وغیرہ ، کے لیے درج ذیل آٹھ شرائط ہیں:

  1. آزاد ہو ، لہذا باندی کو پرورش کا حق حاصل نہیں۔
  2. بالغہ ہو، لہذا نابالغ بچی کو پرورش کا حق حاصل نہ ہوگا۔
  3. عقل و شعور رکھتی ہو، لہذا مجنونہ اور پاگل عورت کو پرورش کا حق حاصل نہیں ہوگا۔
  4. زیرِ پرورش بچہ /بچی  کی تربیت کے سلسلے میں اس پر اطمینان کیا جاسکتا ہو؛ تاکہ وہ اس کے پاس ہلاک نہ ہوجائے، مثلاً وہ گانے یا نوحے کو بطورِ پیشہ اختیار کرتی ہو اور  گھر سے باہر نکل جاتی ہو ، جس سے بچے/ بچی کی ہلاکت کا خوف ہو۔
  5. زیرِ پرورش بچے کی پرورش کرنے پر اسے قدرت و اختیار حاصل ہو، لہذا اگر وہ ایسی بیماری کا شکار ہے جس سے بچے کی ضروریات کو پورا کرنا ممکن نہ ہو تو وہ پرورش کی اہل نہ ہوگی۔
  6. وہ مرتدہ نہ ہو، یعنی دینِ اسلام قبول کرنے کے بعد اسے چھوڑنے والی نہ ہو، کیوں کہ مرتدہ کی سزا یہ ہے کہ اسے قید کیا جائےاور قید میں پڑی خاتون بچے کی پرورش نہیں کرسکتی۔
  7. اس عورت نے زیرِ پرورش بچے کے غیر محرم سے شادی نہ کی ہو، اگر عورت نے بچے کے غیر محرم سے نکاح کیا ہو تو س اسے پرورش کا حق ختم ہوجائے گا۔
  8. پرورش کرنے والی خاتون بچے کو اس شخص کے گھر میں نہ رکھے جو اسے ناپسند کرتا ہو۔

2۔سات سال تک بچے اور نو سال تک بچی کی پرورش کا حق والدہ کو حاصل ہوتا ہے، مذکورہ عمر کو پہنچ جانے کے بعد پرورش کا حق والد کو حاصل ہوتا ہے۔

3۔ بچہ سات سال تک اور بچی نو سال تک اپنے روزمرہ کی ضروریات کھانا،  پینا اور استنجا وغیرہ میں مدد اور تعاون کے محتاج ہوتے ہیں، یہ امور والدہ یا دوسری کوئی عورت بخوبی بجا لاسکتی ہے، مرد کے لیے یہ امور سر انجام دینا آسان نہیں، لہذااگر بچے کی والدہ نہ ہو یا اس کا حق کسی وجہ سے ختم ہوگیا ہو تو  مذکورہ عمر تک بچے کی پرورش کا حق والدہ، نانی، دادی یا خالہ کو حاصل ہوگا، حقیقی والد کو نہیں۔

4۔ اگر عورت علیحدگی کے بعد بچی کے غیر محرم سے شادی کرے توپہلے شوہر  کی بیٹی کی پرورش کا حق  ختم ہوجائے  گا اور یہ حق نانی، دادی، بہنوں، خالاؤں یا پھوپھیوں کو حاصل ہوگا، لیکن اگر وہ بچی کے محرم سے شادی کرے تو اس کا حق ختم نہیں ہوگا، پہلے شوہر کی بیٹی کی پرورش کا حق اسے ہی حاصل ہوگا۔

5۔ ’’خیار التمییز‘‘  کا تصور  امام شافعی رحمہ اللہ کے ہاں ہے، اس کا مطلب یہ ہے کہ بچہ جب سنِ تمییز (وہ عمر جس میں وہ اچھے برے کی تمیز سمجھ جاتاہے) کو پہنچ جائے یعنی جب وہ سات سال کا ہوجائے تو اسے  اختیار دیا جائے کہ وہ والد اور والدہ میں سے جس کے پاس چاہے  رہے، ائمہ احناف کے نزدیک نابالغ بچے کے لیے ’’خیار التمییز‘‘ نہیں، بلکہ بچہ مذکورہ عمر (یعنی بچہ سات سال اور بچی نو سال) کے بعد بالغ ہونے سے پہلے والد کے پاس رہے گا، بالغ ہونے کے بعد وہ والد یا والدہ میں سے کس کے پاس رہے؟ اس سلسلے میں تفصیل یہ ہے:

  1. اگر لڑکی کنواری  اور وہ شعور کی عمر تک نہ پہنچی ہو تو وہ والد کے پاس ہی رہے گی۔
  2. اگر لڑکی کنواری  اور وہ شعور کی عمر تک پہنچ چکی  ہو تو وہ والد یا والدہ میں سے جس کے پاس چاہے رہے۔
  3. اگر وہ ثیبہ ہو اور اس کی ذات پر بھروسہ ہو تو اسے اختیار ہے، جہاں چاہے رہے۔
  4. اگر وہ ثیبہ ہو اور اس کی ذات پر بھروسہ نہ ہو تو اسے اختیار نہ ہوگا، بلکہ والد کے پاس ہی رہے گی۔
  5. اگر لڑکا بالغ ہوجائے، اسے عقل و شعور حاصل ہو اور وہ معاملات میں اپنی رائے قائم کرسکتا ہو تو  اسے اختیار ہے کہ جہاں چاہے رہے۔
  6. اگر لڑکے کی ذات پر بھروسہ نہ ہو تو وہ والد کے پاس ہی رہے گا۔

 (1) الفتاوى الهندية (11 / 315):

"أحق الناس بحضانة الصغير حال قيام النكاح أو بعد الفرقة الأم إلا أن تكون مرتدةً أو فاجرةً غير مأمونة، كذا في الكافي. سواء لحقت المرتدة بدار الحرب أم لا، فإن تابت فهي أحق به، كذا في البحر الرائق. وكذا لو كانت سارقةً أو مغنيةً أو نائحةً فلا حق لها، هكذا في النهر الفائق".

الفتاوى الهندية  (11 / 326):

"ولا حضانة لمن تخرج كل وقت وتترك البنت ضائعةً، كذا في البحر الرائق".

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) - (3 / 555):

"قال الرملي: ويشترط في الحاضنة أن تكون حرةً بالغةً عاقلةً أمينةً قادرةً، وأن تخلو من زوج أجنبي، وكذا في الحاضن الذكر سوى الشرط الأخير، هذا ما يؤخذ من كلامهم. اهـ".

شرح الأحكام الشرعية في الأحوال الشخصية، (3 / 52):

"والحاضنة يشترط فيها ثمانية شروط:

أولاً: أن تكونَ حرَّةً؛ لأن الرقيقةَ مشغولةٌ بخدمة سيدها؛ فلايمكنها القيام بتربيّة الولد.

ثانياً: أن تكون بالغةً؛ لأن القاصرةَ محتاجةٌ إلى مَن يكفلها؛ فكيف تكفل غيرها.

ثالثاً: أن تكون عاقلةً؛ لأن المجنونةَ لاتحفظ الولد، بل يخشى عليه منها الهلاك.

رابعاً: أن تكون أمينةً على المحضون وتربيته بحيث لايضيع الولد عندها بسبب اشتغالها عنه بالخروج إلى ملاهي الفسوق، بأن تكون مغنَّيةً أو نائحةً، أو متهتكةً تهتكاً يترتب عليه ضياع الولد.

خامساً: أن تكون قادرةً على خدمته، فلو كان بها مرضٌ يعجزها عن القيام بمصالحه لم تكن أهلاً للحضانة.

سادساً: أن لاتكون مرتدَّةً: أي خارجةً عن دين الإسلام بعد أن اعتنقته؛ لأن جزاءها الحبس حتى تسلم، ومَن كانت حالتها هكذا فلاتقدر على خدمة الولد.

سابعاً: أن لاتكون متزوِّجةً بغير رحم محرَّم للمحضون؛ لأن الأجنبيَّ ينظر إليه شزراً، ويبطن له الكراهة ويضمر السوء لأمّه؛ لأنه يظنّ أنها تطعمه من ماله، وربّما اشتدّ بين أمّه وزوجها الخلاف، ويترتب على ذلك ما لاتحمد عقباه.

ثامناً: أن لاتمسكَه الحاضنةُ في بيت مَن يبغضه ويكرهه؛ لأن إمساكَها إيّاه عنده يترتّب عليه ضرر الولد وضياعه، والمقصود من الحضانة حفظ الولد والقيام بخدمته".

 (2) ( الدر المختار، كتاب الطلاق، باب الحضانة ۳/ ۵٦٦ إلى ۵٦۹ ط: سعيد):

"(والأم والجدة) لأم، أو لأب (أحق بها) بالصغيرة (حتى تحيض) أي تبلغ في ظاهر الرواية. ولو اختلفا في حيضها فالقول للأم بحر بحثا و أقول: ينبغي أن يحكم سنها ويعمل بالغالب. وعند مالك، حتى يحتلم الغلام، وتتزوج الصغيرة ويدخل بها الزوج عيني (وغيرهما أحق بها حتى تشتهى) وقدر بتسع وبه يفتى وبنت إحدى عشرة مشتهاة اتفاقا زيلعي (ولا خيار للولد عندنا مطلقًا) ذكرًا كان، أو أنثى، خلافًا للشافعي، قلت: وهذا قبل البلوغ، أما بعده فيخير بين أبويه، وإن أراد الانفراد فله ذلك، مؤيد زاده معزيًا للمنية. وأفاده بقوله: (بلغت الجارية مبلغ النساء، إن بكرًا ضمها الأب إلى نفسه) إلا إذا دخلت في السن واجتمع لها رأي فتسكن حيث أحبت حيث لا خوف عليها (وإن ثيبًا لا) يضمها (إلا إذا لم تكن مأمونةً على نفسها) فللأب والجد ولاية الضم لا لغيرهما كما في الابتداء، بحر عن الظهيرية".

الفتاوى الهندية - (11 / 327):

"والأم والجدة أحق بالغلام حتى يستغني، وقدر بسبع سنين. وقال القدوري: حتى يأكل وحدَه، ويشرب وحدَه، ويستنجي وحدَه. وقدره أبو بكر الرازي بتسع سنين، والفتوى على الأول. والأم والجدة أحق بالجارية حتى تحيض. وفي نوادر هشام عن محمد رحمه الله تعالى: إذا بلغت حد الشهوة فالأب أحق، وهذا صحيح، هكذا في التبيين".

(3) بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (8 / 234):

" وأما بيان من له الحضانة، فالحضانة تكون للنساء في وقت، وتكون للرجال في وقت، والأصل فيها النساء؛ لأنهنّ أشفق وأرفق وأهدى إلى تربية الصغار، ثم تصرف إلى الرجال؛ لأنهم على الحماية والصيانة وإقامة مصالح الصغار أقدر".

البناية شرح الهداية - (5 / 646):

"لأن هذه الولاية تستفاد من قبل الأمهات، فإن لم تكن، فأم الأب أولى من الأخوات؛ لأنها من الأمهات، ولهذا تحرز ميراثهن السدس، ولأنها أوفر شفقة للأولاد".

 (4) (قوله: بغير محرم) أي من جهة الرحم فلو كان محرمًا غير رحم كالعم رضاعًا، أو رحمًا من النسب محرمًا من الرضاع كابن عمه نسبًا هو عمه رضاعًا فهو كالأجنبي".

(5) فتح القدير لكمال بن الهمام (9 / 407):

"( قوله: ولا خيار للغلام ) يعني إذا بلغ السن الذي يكون الأب أحق به كسبع مثلًا أخذه الأب ولايتوقف على اختيار الغلام ذلك، و عند الشافعي يخير الغلام في سبع أو ثمان، وعند أحمد وإسحاق يخير في سبع".

بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع - (8 / 244):

" وأما بيان من له الحضانة، فالحضانة تكون للنساء في وقت، وتكون للرجال في وقت، والأصل فيها النساء؛ لأنهنّ أشفق وأرفق وأهدى إلى تربية الصغار، ثم تصرف إلى الرجال؛ لأنهم على الحماية والصيانة وإقامة مصالح الصغار أقدر".

البناية شرح الهداية - (5 / 646):

"لأن هذه الولاية تستفاد من قبل الأمهات، فإن لم تكن، فأم الأب أولى من الأخوات؛ لأنها من الأمهات، ولهذا تحرز ميراثهن السدس، ولأنها أوفر شفقة للأولاد".

 (4) (قوله: بغير محرم) أي من جهة الرحم فلو كان محرمًا غير رحم كالعم رضاعًا، أو رحمًا من النسب محرمًا من الرضاع كابن عمه نسبًا هو عمه رضاعًا فهو كالأجنبي".

(5) فتح القدير لكمال بن الهمام (9 / 407):

"( قوله: ولا خيار للغلام ) يعني إذا بلغ السن الذي يكون الأب أحق به كسبع مثلًا أخذه الأب ولايتوقف على اختيار الغلام ذلك، و عند الشافعي يخير الغلام في سبع أو ثمان، وعند أحمد وإسحاق يخير في سبع".

بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع - (8 / 244):

"ولا خيار للغلام والجارية إذا اختلف الأبوان فيهما قبل البلوغ عندنا، وقال الشافعي: يخير الغلام إذا عقل التخيير. واحتج بما روي عن أبي هريرة رضي الله عنه أن امرأة أتت رسول الله صلى الله عليه وسلم فقالت: زوجي يريد أن ينتزع ابنه مني، وإنه قد نفعني وسقاني من بئر أبي عنبة، فقال: { استهما عليه، فقال الرجل: من يشاقني في ابني؟ فقال النبي صلى الله عليه وسلم للغلام: اختر أيهما شئت، فاختار أمه، فأعطاها إياه}؛ ولأن في هذا نظر للصغير؛ لأنه يحتاج الأشفق. ولنا ما روينا عن النبي صلى الله عليه وسلم أنه قال للأم: { أنت أحق به ما لم تنكحي ولم يخير}؛ ولأن تخيير الصبي ليس بحكمة؛ لأنه لغلبة هواه يميل إلى اللذة الحاضرة من الفراغ والكسل والهرب من الكتاب وتعلم آداب النفس ومعالم الدين فيختار شر الأبوين وهو الذي يهمله ولايؤدبه.

وأما حديث أبي هريرة رضي الله عنه فالمراد منه التخيير في حق البالغ؛ لأنها قالت: نفعني وسقاني من بئر أبي عنبة، ومعنى قولها: نفعني أي: كسب علي، والبالغ هو الذي يقدر على الكسب. وقد قيل: إن بئر أبي عنبة بالمدينة لايمكن الصغير الاستقاء منه، فدل على أن المراد منه التخيير في حق البالغ، ونحن به نقول: إن الصبي إذا بلغ يخير. والدليل عليه ما روي عن عمارة بن ربيعة المخزومي أنه قال: غزا أبي البحرين؛ فقتل، فجاء عمي ليذهب بي، فخاصمته أمي إلى علي بن أبي طالب رضي الله عنه، ومعي أخ لي صغير، فخيرني علي رضي الله عنه ثلاثًا، فاخترت أمي فأبى عمي أن يرضى، فوكزه علي رضي الله عنه بيده وضربه بدرته، وقال: لو بلغ هذا الصبي أيضًا خيّر، فهذا يدل على أن التخيير لايكون إلا بعد البلوغ".

مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح  (6 / 2210):

"قال ابن الهمام: إذا بلغ الغلام السن الذي يكون الأب أحق به كسبع مثلًا أخذه الأب، ولايتوقف على اختيار الغلام ذلك، وعند الشافعي يخير الغلام في سبع أو ثمان، وعند أحمد وإسحاق يخير في سبع لهذا الحديث".

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) - (3 / 567):

"(ولا خيار للولد عندنا مطلقًا) ذكرًا كان، أو أنثى خلافًا للشافعي. قلت: وهذا قبل البلوغ، أما بعده فيخير بين أبويه، وإن أراد الانفراد فله ذلك مؤيد زاده معزيًا للمنية، وأفاده بقوله: (بلغت الجارية مبلغ النساء، إن بكرًا ضمها الأب إلى نفسه) إلا إذا دخلت في السن واجتمع لها رأي فتسكن حيث أحبت حيث لا خوف عليها (وإن ثيبًا لا) يضمها (إلا إذا لم تكن مأمونةً على نفسها) فللأب والجد ولاية الضم لا لغيرهما كما في الابتداء، بحر عن الظهيرية.

(والغلام إذا عقل واستغنى برأيه ليس للأب ضمه إلى نفسه) إلا إذا لم يكن مأمونًا على نفسه فله ضمه لدفع فتنة، أو عار، وتأديبه إذا وقع منه شيء، ولا نفقة عليه إلا أن يتبرع، بحر". فقط 



Saturday 2 December 2023

بالغ اولاد کانفقہ

 بلوغت کے بعد جب تک اولاد   کمانے کے قابل نہ ہو،  اور بیٹی کی جب تک شادی نہ ہوجائے ،ان کے نفقہ کی ذمہ داری شرعاً  والد پر ہی ہوتی ہے،لیکن  اگر نرینہ اولاد معذور نہ ہو اور کمانے کے قابل بھی ہو تو بیٹے کے بالغ ہونے کے بعد اس کی مناسب جگہ پر شادی کی فکر وکوشش کرنا تو والدین کی ذمہ داری بنتی ہے، لیکن شادی کا خرچہ اور بیوی کا نفقہ والدین کے ذمہ نہیں ہے، اس کا انتظام لڑکے کو خود کرنا ہوگا۔

لہٰذا والد  اور بیٹے دونوں کو چاہیے کہ کسبِ حلال کی بھرپور کوشش کریں اور بیٹے کو اپنی نگرانی میں ہر جائز اور حلال کمائی کرنے کا موقع فراہم کریں، تاہم جب تک کوئی ترتیب نہیں بن جاتی اور والد کی استطاعت بھی ہو تو والد کو چاہیے کہ بیٹے کی جائز ضروریات کا خرچہ خوش دلی سے اُٹھائیں،  یہ ان کے لیے باعثِ اجر و ثواب ہوگا۔

اگر بیٹا خود مختاری کے ساتھ زیادہ بہتر کما سکتاہے تو والد پر اس کا خرچہ لازم نہیں ہوگا، ایسی صورت میں بیٹے کو چاہیے کہ مناسب تدبیر سے خود کفالتی کی طرف قدم اٹھالے، اور والد کے حقوق کا خیال بھی رکھتا رہے، نیز والد کی جائیداد چوں کہ والد کی ملکیت ہے، لہٰذا جب تک وہ حیات ہیں اولاد کو اس میں سے حصہ مانگنے کا حق نہیں ہوتا۔

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"الذكور من الأولاد إذا بلغوا حد الكسب و لم يبلغوا في أنفسهم يدفعهم الأب إلى عمل ليكسبوا أو يؤاجرهم و ينفق عليهم من أجرتهم وكسبهم، و أما الإناث فليس للأب أن يؤاجرهن في عمل أو خدمة، كذا في الخلاصة". (١/ ٥٦٢)

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3/ 612):

"(وتجب) النفقة بأنواعها على الحر (لطفله) يعم الأنثى والجمع (الفقير) الحر ... (وكذا) تجب (لولده الكبير العاجز عن الكسب) كأنثى مطلقاً وزمن.

(قوله: لطفله) هو الولد حين يسقط من بطن أمه إلى أن يحتلم، ويقال: جارية، طفل، وطفلة، كذا في المغرب. وقيل: أول ما يولد صبي ثم طفل ح عن النهر (قوله: يعم الأنثى والجمع) أي يطلق على الأنثى كما علمته، وعلى الجمع كما في قوله تعالى: {أو الطفل الذين لم يظهروا} [النور: 31] فهو مما يستوي فيه المفرد والجمع كالجنب والفلك والإمام - {واجعلنا للمتقين إماما} [الفرقان: 74]- ولاينافيه جمعه على أطفال أيضاً كما جمع إمام على أئمة أيضاً فافهم.... (قوله: كأنثى مطلقاً) أي ولو لم يكن بها زمانة تمنعها عن الكسب فمجرد الأنوثة عجز إلا إذا كان لها زوج فنفقتها عليه ما دامت زوجة ... (قوله: وزمن) أي من به مرض مزمن، والمراد هنا من به ما يمنعه عن الكسب كعمى وشلل، ولو قدر على اكتساب ما لايكفيه فعلى أبيه تكميل الكفاية".

ادھار پر زیادہ قیمت میں بیچنا

 اشیاء کی   خرید و فروخت میں اصل حکم نقد خریداری کی طرح ادھار پر خریدنا بھی جائز ہے ،اسی بناء پر نقد اور ادھار کی قیمت میں فرق رکھنے میں بھی شرعا کوئی حرج نہیں ہے،بشرط یہ ہے کہ سودا کرتے وقت پیسوں کی ادائیگی کا وقت کے ساتھ  کسی ایک قیمت  کو(نقد وادھار کے  اعتبار سے) بھی متعین کر دیاجائے،لہذااگر سودا کرتے وقت نقد ہو یا ادھار کسی ایک متعین قیمت پر سودا ہوجائے  اور ادائیگی کا وقت بھی طے ہوجائے تو خریدار پر  اسی متعین مدت پر طے شدہ  قیمت ادا کرنا لازم ہوگی،سودے کےبعد خریدار چاہے جلد ادائیگی کرے یا  کسی مجبوری کی  وجہ سے تاخیر سے پیسے ادا کرے ،اُس پر وہی متعین قیمت ادا کرنا ہی  لازم ہوگی لہذا صورت مسئولہ میں پانچ سو روپے والی چھ مہینہ کے ادھار پر آٹھ سو روپے کی دینا درست ہے۔

بدائع الصنائع میں ہے:

"إذا قال: بعتك هذا العبد بألف درهم إلى سنة أو بألف وخمسمائة إلى سنتين؛ لأن الثمن مجهول .......فإذا علم ورضي به جاز البيع؛ لأن المانع من الجواز هو الجهالة عند العقد وقد زالت في المجلس وله حكم حالة العقد فصار كأنه كان معلوما عند العقد وإن لم يعلم به حتى إذا افترقا تقرر الفساد."

( کتاب البیوع  ، فصل فی شرائط الصحة فی البیوع جلد 5 ص: 158 ط: دارالکتب العلمیة)

دررالحکام فی شرح مجلۃ الاحکام

"إذا عقد البيع على تأجيل الثمن إلى كذا يوما أو شهرا أو سنة أو إلى وقت معلوم عند العاقدين كيوم قاسم أو النيروز صح البيع.

يعني أن التأجيل إذا كان بالأيام أو الشهور أو السنين أو بطريق آخر فهو صحيح ما دام الأجل معلوما (بحر) وعلى هذا إذا باع إنسان من آخر متاعا وهو صحيح وسلمه إليه ثم توفي فليس لورثته أن يأخذوا الثمن من المشتري قبل حلول الأجل؛ لأن الأجل الذي هو حق المدين لا يبطل بوفاة الدائن علي أفندي وهذه المادة فرع للمادة."

(الکتاب البیوع ، الفصل الثاني في بيان المسائل المتعلقة بالبيع بالنسيئة والتأجيل جلد 1 ص: 228 ط: دارالجیل)

انسانی بالوں کی خریدوفروخت

 انسانی بالوں کی خریدوفروخت جائزنہیں ،اوراگرکسی نےخریدوفروخت کردی،تویہ معاملہ ختم کرناضروری ہے؛بالوں کے بدلے خریدی ہوئی چیزفقراء میں بغیرنیتِ ثواب صدقہ کردیں۔

الموسوعۃ الفقہیۃ الکویتیہ میں ہے:

"شعر ‌الإنسان طاهر حيا أو ميتا، سواء أكان الشعر متصلا أم منفصلا، واستدلوا لطهارته بأن النبي صلى الله عليه وسلم ناول أبا طلحة شعره فقسمه بين الناس.واتفق الفقهاء على عدم جواز الانتفاع بشعر الآدمي بيعا واستعمالا؛ لأن الآدمي مكرم لقوله سبحانه وتعالى: {ولقد كرمنا بني آدم}.

فلا يجوز أن يكون شيء من أجزائه مهانا مبتذلا."  

(حرف الشين،102/26،ط:وزارة الأوقاف والشئون الإسلامية - الكويت)

بدائع الصنائع میں ہے:

"وأما الذي يرجع إلى المعقود عليه فأنواع. . . (ومنها) أن يكون مالا لأن البيع مبادلة المال بالمال، فلا ينعقد بيع الحر؛ لأنه ليس بمال."

(كتاب البيوع،‌‌فصل في الشرط الذي يرجع إلى المعقود عليه،١٣٨/٥،دار الكتب العلمية وغيرها)

ہدایہ کی شرح بنایہ میں ہے:

"وأما شرطه فأنواع: منها في العاقد، وهو أن يكون عاقلا مميزا، ومنها في الآلة، وهو أن يكون بلفظ الماضي، ومنها في المحل وهو ‌أن ‌يكون ‌مالا متقوما."

(كتاب البيوع،٣/٨،ط:دار الكتب العلمية)

دررالحکام میں ہے:

"(بطل بيع ما ليس بمال والبيع به) أي جعله ثمنا بإدخال الباء عليه (كالدم والريح والحر والميتة)...(وحكمه) أي حكم البيع الباطل (أن المبيع به لا يملك) أي لا يكون ملكا للمشتري؛ لأن الباطل لا يترتب عليه الحكم بخلاف الفاسد كما مر."

(كتاب البيوع،باب البيع الفاسد،١٦٨/٢،ط:دار إحياء الكتب العربية)

الاختیار لتعلیل المختار میں ہے:

"والملك الخبيث ‌سبيله ‌التصدق به، ولو صرفه في حاجة نفسه جاز. ثم إن كان غنيا تصدق بمثله، وإن كان فقيرا لا يتصدق."

(كتاب  الغصب ،3/61،ط:دارالفكر)

Friday 1 December 2023

پرانا سامان نیے سامان کے ساتھ بیچنا

 اگر کوئی شخص اپنی دکان میں رکھے ہوئے پرانے اسٹاک کو نئے اسٹاک کے ساتھ ملا کر بڑھی ہوئی قیمت کے ساتھ بیچتا ہے تو ایسا کرنا جائز ہے؛ اس لیے کہ ہر آدمی اپنی مملوکہ اشیاء کو اپنی مرضی کی مناسب قیمت پر فروخت کرنے کا حق رکھتا ہے، بشرطیکہ اتنی زیادہ رقم میں فروخت نہ کرے جتنی رقم میں عام طور پر بازار میں نہ بیچا جاتا ہو۔

تاہم اگر پرانے اسٹاک کو حسبِ سابق کم قیمت پر ہی بیچا جائے تو زیادہ بہتر ہے۔

مجلۃالاحکام العدلیہ میں ہے:

"(المادة 153) الثمن المسمى هو الثمن الذي يسميه ويعينه العاقدان وقت البيع بالتراضي، سواء كان مطابقا للقيمة الحقيقية أو ناقصا عنها أو زائدا عليها."

(الكتاب الأول في البيوع، ‌‌المقدمة: في بيان الاصطلاحات الفقهية المتعلقة بالبيوع، صفحہ:33، طبع: نور محمد)

سیکورٹی پر مکان یا پروپرٹی دینا یا لینا

 مالک مکان کا  کر ایہ دار سے سیکورٹی کے طور پر (ایڈوانس)  رقم وصول کرناشرعاً جائز ہے، اور یہ رقم فی نفسہ مالک کے پاس امانت ہوتی ہے، البتہ چوں کہ عرفاً مالک مکان یا دکان کو  اس رقم کے استعمال کی اجازت ہوتی ہے؛ اس بنا پر  یہ رقم شرعاً مالک کے ذمے  قرض شمار  ہوگی، اور اس پر قرض والے اَحکام لاگو ہوں  گے۔باقی اگر مالک مکان کرایہ دارسے پیسے نہیں لیتا تو اس طرح کرنا بھی جائز ہے بشرطیکہ کرایہ نہ دینے کو ایڈوانس کی رقم کے ساتھ مشروط نہ کیا گیا ہو اگر یوں طے کیا گیا کہ کرایہ دار ایڈوانس دے گا تو کرایہ نہیں لیا جائے گا تو  یہ معاملہ سود کی اقسام میں داخل ہونے کی وجہ سے جائز نہیں ہوگا۔ 

واضح رہے کہ مکان کرائے پر لیتے وقت   جو سکیورٹی  (زر ضمانت) مالک مکان کو ادا کی جاتی ہے یہ تو شرعا قرض کے حکم میں ہوتی ہے ۔ رہائشی مکان کے بدلہ سکیورٹی (زر ضمانت)  کی تین ممکنہ صورتیں ہیں :

۱) مارکیٹ ریٹ کے مطابق مکان کرائے پر لیا جائے اور مالک مکان کے پاس سکیورٹی جمع کروائی جائے۔

۲) مالک مکان کو معروف سکیورٹی سے کچھ زیادہ سکیورٹی جمع کروائی جائے اور اس زیادہ سکیورٹی کی وجہ سے مارکیٹ ریٹ کے حساب سے کم کرایا طے کیا جائے۔

۳) مالک مکان کو سکیورٹی جمع کروائی جائے اور کسی قسم کا کرایہ  طے نہ کیا جائے بلکہ اس سکیورٹی کے عوض رہائش پر مکان مل جائے۔

ان تین صورتوں میں سے پہلی صورت جائز ہے باقی دونوں صورتیں  نا جائز ہیں کیونکہ اخیر کی دونوں صورتوں میں سکیورٹی جو کہ قرض ہے اس کے بدلہ نفع کا حاصل کرنا پایا جارہا ہے (دوسری صورت میں یہ نفع کرائے میں کمی کی شکل میں ہے اور تیسری صورت میں بغیر کرائے کے مکان میں رہائش کی شکل میں ہے) اور قرض کے بدلہ نفع حاصل کرنا سود کے حکم میں ہے۔

لہذا صورت مسئولہ میں  سکیورٹی ادا  کر کے  بلا اجرت مکان رہائش  کے لیے لینا شرعا نا جائز ہے۔نیز  جن ایام میں مکان میں رہائش اختیار کی ان ایام کی  اجرت مکان میں رہنے والے پر اجرت مثل کے اعتبار سے واجب ہوگی کہ وہ مالک مکان کو اس  جیسے مکان کا کرایہ ادا کرے خواہ علیحدہ سے رقم دے کر کرایہ دے یا ایسی سکیورٹی والی رقم میں سے منہا کر کے دے۔

فتاوی شامی میں ہے:

"وفي الأشباه كل قرض جر نفعا حرام فكره للمرتهن سكنى المرهونة بإذن الراهن.

(قوله كل قرض جر نفعا حرام) أي إذا كان مشروطا كما علم مما نقله عن البحر، وعن الخلاصة وفي الذخيرة وإن لم يكن النفع مشروطا في القرض، فعلى قول الكرخي لا بأس به ويأتي تمامه."

(کتاب البیوع ، باب المرابحہ وا لتولیۃ ج نمبر ۵ ص نمبر ۱۶۶،ایچ ایم سعید)

فتاوی ہندیہ  میں ہے:

"(أما تفسيرها شرعا) فهي عقد على المنافع بعوض، كذا في الهداية. (وأما) (ركنها) فالإيجاب والقبول بالألفاظ الموضوعة في عقد الإجارة."

(کتاب الاجارہ ، باب اول ج نمبر ۴ ص نمبر ۴۰۹، ایچ ایم سعید)

بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع میں ہے:

"وأما الإجارة ‌الفاسدة، وهي التي فاتها شرط من شروط الصحة فحكمها الأصلي هو ثبوت الملك للمؤاجر في أجر المثل لا في المسمى بمقابلة استيفاء المنافع المملوكة ملكا فاسدا؛ لأن المؤاجر لم يرض باستيفاء المنافع إلا ببدل."

(کتاب الاجارۃ، فصل فی حکم الاجارۃ ج نمبر ۴ ص نمبر ۲۱۸، دار الکتب العلمی

فتاوی شامی میں ہے:

"وفي الخانية: رجل استقرض دراهم وأسكن المقرض في داره، قالوا: يجب أجر المثل على المقرض؛ لأن المستقرض إنما أسكنه في داره عوضا عن منفعة القرض لا مجانا وكذا لو أخذ المقرض من المستقرض حمارا ليستعمله إلى أن يرد عليه الدراهم اهـ وهذه كثيرة الوقوع."

(کتاب الاجارۃ ، باب الاجارۃ الفاسدۃ جلد ۶ ص :۶۳ ، ۶۴  ط : دارالفکر)

آپ کے مسائل اور ان کے حل  میں ہے:

"کرایہ دار سے ایڈوانس لی ہوئی رقم کا شرعی حکم

س… مالکِ مکان کا کرایہ دار سے ایڈوانس رقم لینا امانت ہے یا قرضہ ہے؟
ج… ہے تو امانت، لیکن اگر کرایہ دار کی طرف سے استعمال کی اجازت ہو  (جیسا کہ عرف یہی ہے) تو یہ قرضہ شمار ہوگا۔
س… مالکِ مکان ایک طرف کرایہ میں بھاری رقم لیتا ہے، پھر ایڈوانس کے نام کی رقم سے فائدہ اُٹھاتا ہے، پھر سال دو سال میں کرایہ میں اضافہ بھی کرتا ہے، تو کیا یہ صریح ظلم نہیں، اس مسئلے کا سرِ عام عدالت کے  واسطے سے، یا علمائے کرام کی تنبیہ کے ذریعے سے سدِ باب ضروری نہیں؟

ج… زَرِ ضمانت سے مقصد یہ ہے کہ کرایہ دار بسااوقات مکان کو نقصان پہنچادیتا ہے، بعض اوقات بجلی، گیس وغیرہ کے واجبات چھوڑ کر چلا جاتا ہے، جو مالکِ مکان کو ادا کرنے پڑتے ہیں، اس کے  لیے کرایہ دار سے زَرِ ضمانت رکھوایا جاتا ہے، ورنہ اگر پورا اعتماد ہو تو زَرِ ضمانت کی ضرورت نہ رہے۔"

(کرایہ دار سے لی ہوئی رقم کا شرعی حکم جلد ۷ ص:۱۶۷ ، ۱۶۸ ط: مکتبہ لدھیانوی)