https://follow.it/amir-samdani?action=followPub

Sunday 11 February 2024

خلع کے بعد نکاح

 شرعی شرائط کے مطابق خلع ہوجانے کی صورت میں  ایک طلاقِ بائن واقع  ہوجاتی ہے، اس کے بعد اگر دونوں میاں بیوی  باہمی رضامندی سے ایک ساتھ رہنا چاہتے ہیں تو   دو گواہوں  کی موجودگی میں   نئے مہر کے ساتھ دوبارہ نکاح کر کے رہ سکتے ہیں، اور آئندہ کے لیے شوہر کو دو طلاقوں کا اختیار حاصل ہوگا۔

فتاوی شامی میں ہے:

"(و) حكمه أن (الواقع به) ولو بلا مال (وبالطلاق) الصريح (على مال طلاق بائن) وثمرته فيما لو بطل البدل كما سيجيء".(3 / 444، باب الخلع، ط: سعید)

بدائع الصنائع  میں ہے:

"فالحكم الأصلي لما دون الثلاث من الواحدة البائنة، والثنتين البائنتين هو نقصان عدد الطلاق، وزوال الملك أيضاً حتى لا يحل له وطؤها إلا بنكاح جديد ولا يصح ظهاره، وإيلاؤه ولا يجري اللعان بينهما ولا يجري التوارث ولا يحرم حرمةً غليظةً حتى يجوز له نكاحها من غير أن تتزوج بزوج آخر؛ لأن ما دون الثلاثة - وإن كان بائناً - فإنه يوجب زوال الملك لا زوال حل المحلية". (3/187، فصل فی حکم الطلاق البائن ، ط: سعید) فقط

تین طلاق

 صورت  مسئولہ میں اگر واقعۃً شوہر نے اولاً دو مرتبہ ان الفاظ کے ساتھ طلاق دی کہ "میں نے تمہیں طلاق دی "تو اس سے سائلہ پر دو طلاق رجعی واقع ہو  گئیں،شوہر کو بیوی کی عدت کے اندر رجوع کرنے کا حق حاصل تھا،اس کے بعد شوہر نے دوران عدت اگر  رجوع کر لیا تھایعنی ساتھ رہنا شروع کر دیا تھاتو یہ رجوع شرعا درست تھا   اور رجوع کے بعد شوہر آئندہ کے لیے فقط ایک طلاق کا مالک تھا ،پھر اس کے  بعد شوہر نے طلاق دی تو اس سے سائلہ پر تیسری طلاق بھی واقع ہو  چکی تھی ،سائلہ  اپنے شوہر پر حرمت مغلظہ کے ساتھ حرام ہو چکی تھی ،رجوع کی گنجائش نہیں تھی ،اس کے بعد جو دونوں ساتھ رہتے رہے ہیں یہ درست نہیں ،نکاح ختم ہو چکا ہے دونوں میں فی الفور علیحدگی ضروری ہے اور تیسری طلاق کے بعد جو ساتھ رہتے رہے ہیں اس پر صدق دل سے توبہ و استغفار ضروری ہے،سائلہ اپنے شوہر سے علیحدہ ہونے کے وقت سے اپنی عدت (پوری تین ماہواریاں اگر حمل نہ ہو ،اگر حمل ہو تو بچہ کی پیدائش تک )گذار کر دوسری جگہ نکاح کر سکتی ہے۔

فتاوی ہندیہ میں ہے:

              وإن كان الطلاق ثلاثا في الحرة وثنتين في الأمة لم تحل له حتى تنكح زوجا غيره نكاحا صحيحا ويدخل بها ثم يطلقها أو يموت عنها كذا في الهداية ولا فرق في ذلك بين كون المطلقة مدخولا بها أو غير مدخول بها كذا في فتح القدير          

(کتاب الطلاق فصل فیما تحل بہ المطلقہ وما              یتصل بہ ج:1/ص:473/ط:رشیدیہ)

واضح رہے کہ تین طلاقیں خواہ اکھٹی دی جائیں یا الگ الگ نشستوں میں دی جائیں بہر صورت تینوں طلاقیں واقع ہو جاتی ہیں اور یہ قرآن و سنت ،جمہور صحابہ و تابعین اور چاروں اماموں (حنفی،مالکی ،شافعی ،حنبلی)کا متفقہ فیصلہ ہے

موطا امام مالک میں ہے:

"عن مالك أنه بلغه، أن رجلًا قال لعبدالله بن عباس: إني طلقت امرأتي مائة تطليقة فما ذا ترى عليّ؟ فقال له ابن عباس: «طلقت منك لثلاث، وسبع وتسعون اتخذتَ بها آيات الله هزوًا»."

(موطا إمام مالك، باب ما جاء في البتة 199)

علامہ ابن ہمام رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

"و ذهب جمهور الصحابة والتابعين ومن بعدهم من أئمة المسلمين إلى أنه يقع ثلاث."

(فتح القدير 3/451، عثمانيه كوئته)

احکام القرآن للجصاص میں ہے:

"فالكتاب والسنة وإجماع السلف توجب إيقاع الثلاث معا وإن كانت معصيةً."

(أحكام القرآن للجصاص 1/529، قديمي)

کتاب الام للشافعی میں ہے:

"والقرآن يدل والله أعلم على أن من طلق زوجةً له دخل بها أو لم يدخل بها ثلاثًا لم تحل له حتى تنكح زوجًا غيره، فإذا قال الرجل لامرأته التي لم يدخل بها: أنت طالق ثلاثًا فقد حرمت عليه حتى تنكح زوجًا."

(5/196، دارالمعرفة بيروت)

 واللہ أعلم بالصواب فقط  

محمد عامر الصمدانی

قاضی شریعت دارالقضاء آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ علی گڑھ 


Friday 9 February 2024

امام کی توہین

الجواب وباللہ التوفیق منہ المستعان وعلیہ التکلان

 (١)

 امام موصوف میں اگر شرعاً موجب کراہت کوئی بات نہیں ہے اوروہ اوصاف امامت سے متصف ہیں تو بلاوجہ ان کو ہٹانا نہیں چاہیے، امام کو مقرر کرنے اور معزول کرنے کا اختیار کمیٹی مسجد کوہے۔انتظامیہ کمیٹی اگرامام سے مطمئن ہےاور بے اطمینانی کی کوئی شرعی وجہ بھی نہیں ہےمثلااگر امام قرآن مجید صحیح نہ پڑھتا ہو یا اس کا عقیدہ صحیح نہ ہو یا وہ  یا دیگر منکرات ومعاصی کا ارتکاب کرتا ہو تو ان وجوہ واسباب کی بنا پر اسے معزول کیا جاسکتا ہے

صرف اس وجہ سے معزول کرنا کہ وہ تراویح میں قرآن مجید نہیں سنا سکتے درست نہیں۔  اگر گستاخی  کرنے والے مقتدی امام سے ناراضگی کی وجہ دینی یا شرعی بتاتے ہیں، اور اس امام کے مقتدی زیادہ ہوں  تو صرف ایک، دو یا دو ،تین مقتدیوں کا اعتراض اور ناراضگی کا اعتبار نہیں ہوگا،  عموماً مقتدی کسی نہ کسی بات پر امام سے ناراض ہوتے رہتے ہیں حالاں کہ امامت ایک عظیم الشان منصب ہے اس منصب کے اہل شخص کا احترام مسلمانوں پر لازم ہے، امام پر بلاشرعی وجہ کے طعن و تشنیع کرنا گستاخی کرنا تراویح میں قرآن مجید نہ سنانے کی بناپر تنگ کرنا درست نہیں

تراویح کے لئے کسی دیگر حافظ کا انتظام کیا سکتا ہے 

۔(٢)کسی عام مسلمان کو بھی برا  کہنا، بہت بڑا گناہ ہے ،اورامام مسجد کی توہین سے تو گناہ کی سنگینی میں کس درجہ اضافہ ہوجاتا ہے!امام کی توہین کبیرہ گناہ ہے،لہذا جو لوگ  بھی اس حرکت میں مبتلا ہیں ،ان کو چاہیے کہ امام سے معافی کے خواستگار ہوں،اور اگرامام صاحب سے واقعی کوئی  معقول شکایت ہے تو ادب واحترام کے دایرہ میں ان کے سامنے پیش کی جایے اور شریعت کی روشنی میں اس کا ازالہ کیا جایے

(٣)

مقتدی  امام سے بغیر کسی شرعی وجہ کے ناراض ہونے کی وجہ سے ملامت کے مستحق ہیں، تاہم بہرصورت  ناراض ہونے کے باجود اس امام کے پیچھے  مخالفت کرنے والے مقتدیوں نے جو نمازیں ادا کی ہیں وہ درست ہیں ان نمازوں کا اعادہ بھی لازم نہیں ہوگا۔

مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح (3/ 865):
"(وإمام قوم) أي: الإمامة الكبرى، أو إمامة الصلاة (وهم له) : وفي نسخة: لها، أي الإمامة (كارهون) أي: لمعنى مذموم في الشرع، وإن كرهوا لخلاف ذلك، فالعيب عليهم ولا كراهة، قال ابن الملك: أي كارهون لبدعته أو فسقه أو جهله، أما إذا كان بينه وبينهم كراهة وعداوة بسبب أمر دنيوي، فلا يكون له هذا الحكم. في شرح السنة قيل: المراد إمام ظالم، وأما من أقام السنة فاللوم على من كرهه، وقيل: هو إمام الصلاة وليس من أهلها، فيتغلب فإن كان مستحقاً لها فاللوم على من كرهه، قال أحمد: إذا كرهه واحد أو اثنان أو ثلاثة، فله أن يصلي بهم حتى يكرهه أكثر الجماعة".

وفيه أيضاً (3/ 866):
"(من تقدم) أي للإمامة الصغرى أو الكبرى (قوماً) : وهو في الأصل مصدر قام فوصف به، ثم غلب على الرجال (وهم له كارهون) أي لمذموم شرعي، أما إذا كرهه البعض فالعبرة بالعالم ولو انفرد، وقيل: العبرة بالأكثر، ورجحه ابن حجر، ولعله محمول على أكثر العلماء إذا وجدوا، وإلا فلا عبرة بكثرة الجاهلين، قال تعالى: ﴿وَلٰكِنَّ اَكْثَرَهُمْ لَا يَعْلَمُوْنَ﴾ [الأنعام: 37]" . 

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (1/ 559):
"(ولو أم قوماً وهم له كارهون، إن) الكراهة (لفساد فيه أو لأنهم أحق بالإمامة منه كره) له ذلك تحريماً؛ لحديث أبي داود: «لا يقبل الله صلاة من تقدم قوماً وهم له كارهون». (وإن هو أحق لا)، والكراهة عليهم".
الفتاوى الهندية (1/ 87):
"رجل أم قوماً وهم له كارهون إن كانت الكراهة لفساد فيه أو لأنهم أحق بالإمامة يكره له ذلك، وإن كان هو أحق بالإمامة لا يكره. هكذا في المحيط"

امام کی توہین

 صورتِ مسئولہ میں امام سے اگر بغض  اور ناراضگی کسی دینی وجہ سے ہو یعنی امام فاسق، فاجر یا لاپرواہ  ہو، یا اس کا عقیدہ درست نہ ہو، یا وہ سنتوں  کی رعایت نہ کرتا ہو    اور مقتدی اس وجہ سے اس سے ناراض ہیں تو ایسی ناراضگی کا اعتبار ہے  اور  ایسے امام کی امامت مکروہ ہوگی، اور اگر ناراضگی دنیاوی دشمنی یا مخالفت کی وجہ سے ہو  یا اس میں نفس کو دخل ہو تو  ایسی ناراضگی کا اعتبار نہیں ہے اور اس امام کی امامت بالکل درست ہے،  بلکہ اس صورت میں مقتدی  امام سے بغیر کسی شرعی وجہ کے ناراض ہونے کی وجہ سے ملامت کے مستحق ہیں، تاہم بہرصورت  ناراض ہونے کے باجود اس امام کے پیچھے جو نمازیں ادا کرنادرست ہے اور ان نمازوں کا اعادہ بھی لازم نہیں ہوگا۔

نیز یہ ملحوظ رہے کہ  اگر  مقتدی امام کی ناراضگی کی وجہ دینی یا شرعی بتاتے ہیں، اور اس امام کے مقتدی زیادہ ہوں  تو صرف ایک، دو یا دو ،تین مقتدیوں کا اعتراض اور ناراضگی کا اعتبار نہیں ہوگا، نیز اگر اعتراض کرنےوالے زیادہ ہوں لیکن وہ جاہل اور دین سے ناواقف لوگ ہوں تو ان کا بھی اعتبار نہیں ہوگا، ہاں علم وفضل والے لوگ بھی ان کا ساتھ دیں تو پھر اس امام کی امامت مکروہ ہوگی، ورنہ عموماً مقتدی کسی نہ کسی بات پر امام سے ناراض ہوتے رہتے ہیں حالاں کہ امامت ایک عظیم الشان منصب ہے اس منصب کے اہل شخص کا احترام مسلمانوں پر لازم ہے، امام پر بلاوجہ طعن و تشنیع کرنا یا اس کو تنگ کرنا کسی طرح درست نہیں ہے۔

مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح (3/ 865):
"(وإمام قوم) أي: الإمامة الكبرى، أو إمامة الصلاة (وهم له) : وفي نسخة: لها، أي الإمامة (كارهون) أي: لمعنى مذموم في الشرع، وإن كرهوا لخلاف ذلك، فالعيب عليهم ولا كراهة، قال ابن الملك: أي كارهون لبدعته أو فسقه أو جهله، أما إذا كان بينه وبينهم كراهة وعداوة بسبب أمر دنيوي، فلا يكون له هذا الحكم. في شرح السنة قيل: المراد إمام ظالم، وأما من أقام السنة فاللوم على من كرهه، وقيل: هو إمام الصلاة وليس من أهلها، فيتغلب فإن كان مستحقاً لها فاللوم على من كرهه، قال أحمد: إذا كرهه واحد أو اثنان أو ثلاثة، فله أن يصلي بهم حتى يكرهه أكثر الجماعة".

وفيه أيضاً (3/ 866):
"(من تقدم) أي للإمامة الصغرى أو الكبرى (قوماً) : وهو في الأصل مصدر قام فوصف به، ثم غلب على الرجال (وهم له كارهون) أي لمذموم شرعي، أما إذا كرهه البعض فالعبرة بالعالم ولو انفرد، وقيل: العبرة بالأكثر، ورجحه ابن حجر، ولعله محمول على أكثر العلماء إذا وجدوا، وإلا فلا عبرة بكثرة الجاهلين، قال تعالى: ﴿وَلٰكِنَّ اَكْثَرَهُمْ لَا يَعْلَمُوْنَ﴾ [الأنعام: 37]" . 

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (1/ 559):
"(ولو أم قوماً وهم له كارهون، إن) الكراهة (لفساد فيه أو لأنهم أحق بالإمامة منه كره) له ذلك تحريماً؛ لحديث أبي داود: «لا يقبل الله صلاة من تقدم قوماً وهم له كارهون». (وإن هو أحق لا)، والكراهة عليهم".
الفتاوى الهندية (1/ 87):
"رجل أم قوماً وهم له كارهون إن كانت الكراهة لفساد فيه أو لأنهم أحق بالإمامة يكره له ذلك، وإن كان هو أحق بالإمامة لا يكره. هكذا في المحيط"
.فقط واللہ اعلم

Thursday 8 February 2024

امام کو قرآن نہ سنانے کی بناپر پریشان کرنا

 


الجواب وباللّٰہ التوفیق: ذاتی مفاد اور کسی  غرض سے کسی مسجد کے امام کو جس سے کوئی شرعی اختلاف نہیں ہے، الگ یا معزول نہیں کیا جا سکتا یہ بہت بری بات ہے کہ معمولی سے  اختلاف یا ذاتی مفاد کو امام پر یا امامت پر اتارا جائے اس طرح کی گھناؤنی حرکتوں سے بچا جائے کہ یہ حرکت غیر اخلاقی اور غیر شرعی ہے، اگر واقعی امام صاحب میں کوئی کمی ہے، تو ان کو بصد ادب واحترام معروف وسہل انداز میں تمام احترامات کے ساتھ متوجہ کر دینا چاہئے۔ بغیر وجہ شرعی کے موجود ہ امام کو معزول اور الگ کرنا جائز نہیں ہے۔(۱)

(۱) عن عمر و بن الحارث بن المصطلق قال: کان یقال أشد الناس عذابا یوم القیامۃ إثنان إمرأۃ عصت زوجہا، وإمام قوم وہم لہ کارہون، قال ہناد: قال جریر: قال منصور: فسألنا عن أمر الإمام فقیل لنا: إنما عني بہذا الأئمۃ الظلمۃ، فأما من أقام السنۃ، فإنما الإثم علیٰ من کرہہ۔ (أخرجہ الترمذي، في سننہ، ’’أبواب الصلاۃ عن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم، باب ماجاء في من أم قوماً وہم لہ کارہون‘‘: ج۱، ص: ۶۶،رقم:۳۵۹)
ولوأم قوماً وہم لہ کارہون، إن الکراہۃ لفساد فیہ، أو لأنہم أحق بالإمامۃ منہ کرہ لہ ذلک تحریماً (إلیٰ قولہ) وإن ہو أحق لا، والکراہۃ علیہم الخ۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ، مطلب في تکرار الجماعۃ في المسجد‘‘: ج ۲، ص: ۲۹۸)
وفي جامع الفصولین بغض عالمًا أو فقیہًا بلا سبب ظاہر خیف علیہ الکفر۔…(جامع الفصولین، الباب الثامن والثلثون في مسائل کلمات الکفر‘‘: ج ۲، ص: ۳۰۹)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص266اولا ًتو کسی  ایک عام مسلمان کو برا  کہنا، شرعی اعتبار سے بہت بڑا گناہ ہے،پھر جب سامنے مسجد کا امام ہو ،اور اس کے بارے میں غلط الفاظ منہ سے نکالے جائیں ،تو گناہ کی سنگینی میں اور اضافہ ہوجاتا ہے،امامت کا مرتبہ تو وہ مرتبہ ہے ،کہ جس پر انبیاء ،خلفاء راشدین،اللہ کے نیک وکار لوگ فائز تھے،ایسے مبارک منصب پر جو شخص موجود ہو،اس کے بارے میں بلا وجہ نازیبا زبان استعمال کرناگناہ ہے،لہذا جو بھی لوگ اس حرکت میں مبتلا ہیں ،ان کو چاہیے کہ فورا پہلے امام سے جاکر معافی مانگیں،جو بھی گلے شکوے ہیں ،ان کو بیٹھ کر دور کیا جائے ،اور پھر اللہ کے سامنے بھی توبہ واستغفار کرے۔

صورتِ مسئولہ میں مذکورہ شخص جو امام کو برا بھلا کہے،اس کو گالیاں دے،تو ایسے شخص کی نماز اس امام کے پیچھے ہوجائے گی ،اعادہ کی ضرورت نہیں ۔ 

احکام القرآن للجصاص میں ہے:

"أن ‌اسم ‌الإمامة يتناول ما ذكرناه، فالأنبياء عليهم السلام في أعلى رتبة الإمامة، ثم الخلفاء الراشدون بعد ذلك، ثم العلماء والقضاة العدول ومن ألزم الله تعالى الاقتداء بهم، ثم الإمامة في الصلاة ونحوها."

(باب القول في بسم الله الرحمن الرحيم، ج:١، ص:٨٣، ط:دار الكتب العلمية)

البحر الرائق میں ہے:

" ومن أبغض عالماً من غير سبب ظاهر خيف عليه الكفر، ولو صغر الفقيه أو العلوي قاصداً الاستخفاف بالدين كفر، لا إن لم يقصده".

(باب احكام المرتدين، ج:٥، ص:١٣٤، ط:دار الكتاب الإسلامي)

فتاوٰی مفتی محمود میں ہے:

"س:کیافرماتےہیں علمائے دین دریں مسئلہ کہ ایک آدمی کی امام مسجد سے کافی عرصہ سے بول چال نہیں ہے،وجہ یہ ہوئی کہ دونوں میں جھگڑا صرف دنیاداری پرہے،اورباقی لوگوں نے دونوں کومنانے کی کوشش کی لیکن صلح نہیں ہوسکی،نہ امام مسجد مانتاہے ،نہ مقتدی مانتاہے،گزارش یہ ہے کہ اگرمقتدی اس امام کے پیچھےنمازپڑھ لے تونماز ہوسکتی ہے یانہیں؟

ج:شخص ِمذکور اگرامام ِمذکور کی پیچھے نمازپڑھے گاتو نمازاداہوجائےگی۔"

(باب الامامۃ، ج:2، ص:208، ط:جمعیت پبلیکیشنز)

Friday 2 February 2024

ایک یا دو طلاق کے بعد رجوع کا طریقہ

 پہلی اور دوسری صریح طلاق کو ’طلاقِ‌ رجعی‘ کہا جاتا ہے، اس کا حکم یہ ہے کہ طلاق کی عدت مکمل ہونے تک نکاح قائم رہتا ہے، عورت بدستور اِسی شوہر کے عقد میں‌ ہوتی ہے۔ اس دوران اگر میاں بیوی کی صلح ہو جائے تو طلاق کا اثر ختم ہو جاتا ہے، اسی عمل کو ’رجوع‘ کہا جاتا ہے۔ رُجوع کے مخصوص الفاظ‌ ہیں نہ کوئی خاص طریقہ ہے۔ شوہر زبان سے کہہ دے کہ میں نے طلاق واپس لے لی، بیوی کو ہاتھ لگا دے، بیوی سے ہمبستری کر لے، رجوع کی نیت سے فون کر لے، رجوع کی نیت سے برقی پیغام (message) بھیج دے تو رجوع ہو جاتا ہے۔ اگر عدت کی مدت مکمل ہو جائے تو رجوع کے لیے دوبارہ نکاح کرنا لازم ہوتا ہے۔

رجوع کے بعد اگرچہ طلاق کا اثر ختم ہوجاتا ہے، لیکن طلاق کا یہ حق استعمال ہونے کے بعد شوہر کے پاس اب باقی طلاقوں کا اختیار ہوگا۔ عقد نکاح کے وقت شوہر کو طلاق کے کُل تین حق ملے تھے اگر اس نے ایک حق استعمال کر کے رجوع کر لیا اُس کے پاس دو حق باقی ہیں، اگر دو حق استعمال کر کے رجوع کر لیا اس کے پاس صرف ایک حق باقی ہوگا۔ اگر اس نے یہ تیسرا حق بھی استعمال کر لیا تو اس کی بیوی اس پر ہمیشہ کے لیے حرام ہوجائے گی۔


الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3/ 397):

"(هي استدامة الملك القائم) بلا عوض ما دامت (في العدة) ... (بنحو) متعلق باستدامة (رجعتك) ورددتك ومسكتك بلا نية لأنه صريح (و) بالفعل مع الكراهة (بكل ما يوجب حرمة المصاهرة) كمس.

 (قوله: بنحو راجعتك) الأولى أن يقول بالقول نحو راجعتك ليعطف عليه قوله الآتي وبالفعل ط، وهذا بيان لركنها وهو قول، أو فعل... (قوله: مع الكراهة) الظاهر أنها تنزيه كما يشير إليه كلام البحر في شرح قوله والطلاق الرجعي لا يحرم الوطء رملي، ويؤيده قوله في الفتح - عند الكلام على قول الشافعي بحرمة الوطء -: إنه عندنا يحل لقيام ملك النكاح من كل وجه، وإنما يزول عند انقضاء العدة فيكون الحل قائماً قبل انقضائها. اهـ. ... (قوله: كمس) أي بشهوة، كما في المنح".

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3/ 409):

"(وينكح مبانته بما دون الثلاث في العدة وبعدها بالإجماع) ومنع غيره فيها لاشتباه النسب".

Thursday 1 February 2024

جہری نماز امام نے سری پڑھادی

 جن نمازوں میں یا جن رکعتوں میں  آہستہ آواز سے قراءت کرنا ضروری ہےاس میں اگر امام بلند آواز سے تلاوت کرلیتا ہے یا سری نماز میں بلند آواز سے تلاوت کرلیتا ہے تو اگر اتنی مقدار بلند آواز سے یا آہستہ آواز سے  قراءت کرلے کہ جس  مقدارِ قراءت سے نماز درست  ہوجاتی ہے یعنی تین مختصر آیتوں یا ایک لمبی آیت کے بقدر تو اس سے سجدہ سہو لازم ہوجاتا ہے، صرف ایک دو کلمہ  سری نماز میں  بلند آواز سے اور جہری نمازوں میں آہستہ آواز سے قراءت کرلینے سے سجدہ سہو لازم نہیں ہوتا۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2/ 81):

"(والجهر فيما يخافت فيه) للإمام، (وعكسه) لكل مصل في الأصح، والأصح تقديره (بقدر ما تجوز به الصلاة في الفصلين. وقيل:) قائله قاضي خان، يجب السهو (بهما) أي بالجهر والمخافتة (مطلقاً) أي قل أو كثر.

(قوله: والجهر فيما يخافت فيه للإمام إلخ) في العبارة قلب، وصوابها: والجهر فيما يخافت لكل مصل، وعكسه للإمام، ح وهذا ما صححه في البدائع والدرر، ومال إليه في الفتح وشرح المنية والبحر والنهر والحلية على خلاف ما في الهداية والزيلعي وغيرهما، من أن وجوب الجهر والمخافتة من خصائص الإمام دون المنفرد.

والحاصل: أن الجهر في الجهرية لا يجب على المنفرد اتفاقاً؛ وإنما الخلاف في وجوب الإخفاء عليه في السرية، وظاهر الرواية عدم الوجوب، كما صرح بذلك في التتارخانية عن المحيط، وكذا في الذخيرة وشروح الهداية كالنهاية والكفاية والعناية ومعراج الدراية. وصرحوا بأن وجوب السهو عليه إذا جهر فيما يخافت رواية النوادر اهـ فعلى ظاهر الرواية لا سهو على المنفرد إذا جهر فيما يخافت فيه، وإنما هو على الإمام فقط.

(قوله: والأصح إلخ) وصححه في الهداية والفتح والتبيين والمنية؛ لأن اليسير من الجهر والإخفاء لا يمكن الاحتراز عنه، وعن الكثير يمكن، وما تصح به الصلاة كثير، غير أن ذلك عنده آية واحدة، وعندهما ثلاث آيات هداية. (قوله: في الفصلين) أي في المسألتين مسألة الجهر والإخفاء".فقط واللہ اعلم

دواء کے نشے میں طلاق

 اگر نشہ دوا کی وجہ سے ہو تو نشے کی حالت میں دی گئی طلاق واقع نہیں ہوتی،   البتہ اگر نشہ کسی  گناہ  کی وجہ سے ہو،  مثلاً شراب پی ہو اور نشہ آگیا، تو ایسے نشے کی حالت میں طلاق ہوجاتی ہے۔

صورتِ  مسئولہ میں اگر دماغ کی دوا کے اثر سے نشے کی حالت ہوئی اور طلاق دی تو طلاق واقع نہیں ہوگی۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3 / 240):

"(قوله: أو أفيون أو بنج) الأفيون: ما يخرج من الخشخاش. البنج: بالفتح نبت منبت. وصرح في البدائع وغيرها بعدم وقوع الطلاق بأكله معللًا بأن زوال عقله لم يكن بسبب هو معصية. والحق التفصيل، وهو إن كان للتداوي لم يقع لعدم المعصية، وإن للهو وإدخال الآفة قصدا فينبغي أن لايتردد في الوقوع.

وفي تصحيح القدوري عن الجواهر: وفي هذا الزمان إذا سكر من البنج والأفيون يقع زجرا، وعليه الفتوى، وتمامه في النهر (قوله: زجرًا) أشار به إلى التفصيل المذكور، فإنه إذا كان للتداوي لا يزجر عنه لعدم قصد المعصية."

Wednesday 31 January 2024

عبیر کا مطلب

 ’عبیر‘‘ عربی زبان کا لفظ ہے، ’’عبیر‘‘ ایک خاص قسم کی خوشبو کو کہتے ہیں جو متعدد قسم کی خوشبوؤں کا مجموعہ ہوتی ہے، ’’عبیر‘‘ نام رکھنا درست ہے۔

تاج العروس(12/ 508):

(والعبير: الزعفران) وحده. عند أهل الجاهلية، قال الأعشى:

وتبرد برد رداء العرو

س في الصيف رقرقت فيه العبيرا

وقال أبو ذؤيب:

وسرب تطلى بالعبير كأنه                               دماء ظباء بالنحور ذبيح

(أو) العبير: (أخلاط من الطيب) يجمع بالزعفران. وقال ابن الأثير: العبير: نوع من الطيب ذو لون يجمع من أخلاط.

قلت: وفي الحديث: أتعجز إحداكن أن تتخذ تومتين ثم تلطخهما بعبير أو زعفران) ففي هاذا الحديث بيان أن العبير غير الزعفران.

حالت حيض میں قرآن پڑھنا

  ایام کے دنوں میں عورتوں کے لیے  تلاوت کی غرض سے قرآنِ پاک پڑھنا (خواہ ایک آیت ہی ہو) کسی صورت بھی جائز نہیں ہے، نہ چھو کر اور نہ ہی بغیر چھوئے،  اسی طرح تعلیم و تعلم کی غرض سے بھی  تسلسل کے ساتھ قرآن پاک پڑھنا یاپڑھانا جائزنہیں ہے، البتہ تعلیم و تعلم کی غرض سے ایک ایک کلمہ علیحدہ علیحدہ کرکے پڑھنے یا پڑھانے کی گنجائش ہے۔

ایامِ حیض میں حائضہ عورت بوقتِ ضرورت قرآن مجیدکو ایسے کپڑے کے ساتھ چھو سکتی ہے جو اس نے پہنا نہ ہو، مثلاً: رومال وغیرہ سے جو بدن سے جدا ہو، لیکن دستانے چوں کہ ملبوس (پہنے ہوئے) ہوتے ہیں اور بدن سے جدا نہیں ہوتے؛ اس لیے  ہاتھ پر دستانے پہن کر اس سے قرآن پاک کو پکڑنا یا چھونا جائز نہیں ہے۔ قاعدے میں جس جگہ قرآن پاک کی کوئی آیت لکھی ہوئی ہو، اس جگہ کو بغیر حائل کے چھونا بھی جائز نہیں ہے۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (1/ 292)

''(وقراءة قرآن) بقصده (ومسه) ولو مكتوباً بالفارسية في الأصح، (وإلا بغلافه) المنفصل، كما مر (وكذا) يمنع (حمله) كلوح وورق فيه آية.

 (قوله: وقراءة قرآن) أي ولو دون آية من المركبات لا المفردات؛ لأنه جوز للحائض المعلمة تعليمه كلمةً كلمةً كما قدمناه، وكالقرآن التوراة والإنجيل والزبور، كما قدمه المصنف، (قوله: بقصده) فلو قرأت الفاتحة على وجه الدعاء أو شيئاً من الآيات التي فيها معنى الدعاء ولم ترد القراءة لا بأس به، كما قدمناه عن العيون لأبي الليث، وأن مفهومه أن ما ليس فيه معنى الدعاء كسورة أبي لهب لا يؤثر فيه قصد غير القرآنية، (قوله: ومسه) أي القرآن ولو في لوح أو درهم أو حائط، لكن لا يمنع إلا من مس المكتوب، بخلاف المصحف فلا يجوز مس الجلد وموضع البياض منه. وقال بعضهم: يجوز، وهذا أقرب إلى القياس، والمنع أقرب إلى التعظيم، كما في البحر: أي والصحيح المنع، كما نذكره، ومثل القرآن سائر الكتب السماوية، كما قدمناه عن القهستاني وغيره، وفي التفسير والكتب الشرعية خلاف مر، (قوله: إلا بغلافه المنفصل) أي كالجراب والخريطة دون المتصل كالجلد المشرز، هو الصحيح، وعليه الفتوى؛ لأن الجلد تبع له، سراج، وقدمنا أن الخريطة الكيس. أقول: ومثلها صندوق الربعة، وهل مثلها كرسي المصحف إذا سمر به؟ يراجع''۔

Tuesday 30 January 2024

أدوات الاستفهام والتعجب فى اللغة الاسبانية

 أدوات الاستفهام والتعجب

  • ¿Qué ما
  • ¿Por qué? لماذا؟
  • ¿Quién? من؟
  • ¿Cuál? اي
  • ¿Dónde? اين
  • ¿Cuándo? متى
  • ¿Cuánto? كم
  • ¿Cómo? كيف

أمثلة على أدوات الاستفهام

  • ¿Qué idiomas habla usted?
  • ما اللغات التي تتكلمها؟
  • ¿Qué va a tomar?
  • ماذا تريد أن تتناول؟
  • لماذا تدرس اللغة الإسبانية؟
  • ¿Por qué estudias el español?
  • من يكون؟
  • ¿Quién es?
  • أي هذه الكتب يكون كتابك؟
  • ¿Cuál es tu libro?
  • أين تعيش؟
  • ¿Dónde vives?
  • متى يصل القطار؟
  • ¿Cuándo llega el tren?
  • كم أخًا لديك؟
  • ¿Cuántos hermanos tienes?
  • كيف حالك؟
  • ¿Cómo estas?

أمثلة على أدوات التعجب

  •  Qué bonito!
  •  يا للجمال!
  •  Qué calor!
  •  يا للحر!
  •  Qué bien!
  •  يا للحسن!
  •  يا لكثرة ما يشربه!
  •  Cuánto! bebe!
  •  يا لطريقته في اللعب!
  •  Cómo juega!

ملاحظات ضرورية على ضمائر الربط وأدوات الاستفهام والتعجب:

أولا:- حيث إن جميع ضمائر الربط التى سبق ذكرها ما عدا الضمير
Cuyas) – Cuyo– Cuya – Cuyos) يمكن استخدامهما كأدوات للاستفهام أو للتعجب، ولتحويلهم إلى أدوات استفهام أو تعجب يجب أن نقوم بوضع شدة مكتوبة على هذه الضمائر

ثانيا :- إذا استخدم ثالث ضمائر الربط كأداة استفهام أو تعجب لا يجب أن تسبقه أية أداة.
(Las cuales – El cual – La cual – Los cuales) أى أنه لا يجب أن نحذف منه أدوات التعريف

ثالثا :- كما أنه هناك العديد من الكلمات التي تستخدم كضمائر للربط بين جملتين على الرغم من أنها لم توضع لهذا الغرض أصلًا، ويمكن أن يحل محلها (Que – Cual )، مثل:

Donde: يستخدم كضمير للربط بشرط أن يكون عائدا على مكان، وقد نستخدم بدلًا منه (Que – Cual) مسبوقتين بأدوات التعريف ( و تأتي أدوات التعريف إما مؤنثة أو مذكرة على حسب اسم المكان الذي يسبق الضمير) ، ومصحوبة بحرف الجر للدلالة على المكان ( وغالبًا ما يكون حرف en)

مثل:

  • المنزل الذي أعيش فيه يكون كبيرًا.
  • La casa donde vivo es grande

ومن الممكن استخدام ( Que – Cual )

  • أما المنزل الذي أعيش فيه يكون كبيرًا.
  • La casa en la que vivo es grande
  • أو المنزل الذي أعيش فيه يكون كبيرًا.
  • La casa en la cual vivo es grande

Como : تستخدم كضمير للربط بشرط أن يكون عائدا على اسم يدل على الكيفية أو الأسلوب أو الطريقة، مثل:

  • أعجبتني الطريقة التي أُنهيت بها المشكلة.
  • Me gusta la manera como se terminaba el problema

Cuando: تستخدم كضمير للربط بشرط أن يكون عائدا على اسم يدل على زمن معين ( ساعة – يوم – سنة ) ، مثل

  • Aquel dia cua


الضمائر في اللغة الإسبانية

Monday 29 January 2024

طلاق دیدوں گا سے طلاق ہویی کہ نہیں


اگر واقعۃ  نے یہی الفاظ کہے ہیں کہ "میں  تجھےطلاق دے دوں گا تیرا بھائی اور تیری بہن ہی تجھے رکھے گی"اس کے علاوہ کوئی اور الفاظ نہیں کہے ہیں تو  ایسی صورت میں مذکورہ الفاظ آئندہ مستقبل میں طلاق دینے کی دھمکی کے ہیں اور شرعا دھمکی کے ان الفاظ سے کوئی طلاق واقع نہیں ہوتی ہے  ،لہذا نکاح بدستور قائم اور برقرار ہے۔

العقود الدریۃ فی تنقیح الفتاوی الحامدیہ میں ہے:

"صيغة المضارع لا يقع بها الطلاق إلا إذا غلب في الحال كما صرح به الكمال بن الهمام۔"

(كتاب الطلاق ج:1 ،ص:38،ط:دار المعرفة)