https://follow.it/amir-samdani?action=followPub

Monday 6 May 2024

مساجد مدارس کوزکات دینا

  مدارس کے مستحقِ زکات طلبہ کو  زکات دینا نہ صرف جائز،  بلکہ مستحسن اور  دوہرے اجر کا باعث ہے۔  باقی  مدارس کے نمائندے  مدرسے  کے طلبہ کے وکیل ہوتےہیں، اور زکات کی رقم مستحق طلبہ تک پہنچانے میں امین بھی ہوتے ہیں،  ان کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ زکات کو  مستحقِ زکات طلبہ کو مالک بنا کردیں، ا ن کو مالک بناکر دینے سے زکات دینے والوں کی زکات ادا ہوجاتی ہے۔ تعمیر میں زکوٰۃ نہیں لگتی ۔

جہاں تک مساجد میں زکات کی رقم دینے کا تعلق ہے تو اس کے لیے پہلے یہ سمجھنا چاہیے کہ زکات اور صدقاتِ واجبہ (مثلاً: نذر، کفارہ، فدیہ اور صدقہ فطر) ادا ہونے کے لیے یہ ضروری ہے کہ  اسے کسی مسلمان مستحقِ زکات شخص کو بغیر عوض کے مالک بناکر دیا جائے؛ اس لیے مساجد کی تعمیر  وغیرہ پر زکات کی رقم نہیں لگائی جاسکتی؛ کیوں کہ اس میں تملیک نہیں پائی جاتی۔ اور مسجد کے عملہ کی تنخواہوں میں بھی  زکات کی رقم استعمال نہیں کی  جاسکتی، اس لیے کہ تنخواہ کام کے عوض میں ہوتی ہے کہ جب کہ  زکات بغیر عوض کے مستحق کو مالک بناکر دینا ضروری ہوتا ہے۔

البتہ نفلی صدقات اور عطیات مسجد میں دیے جاسکتے ہیں۔

پھر  مسجد کےاخراجات کے لیے حیلہ تملیک کرنا درست نہیں ہے، اہلیانِ محلہ کو چاہیے کہ زکاۃ اور واجب صدقات کے علاوہ اپنے خالص حلال مال سے مسجد کی خدمت کرنے کو  اپنی سعادت سمجھیں۔  اگر مسجد پس ماندہ اور غریب علاقے میں ہے اور اہلیانِ مسجد میں مسجد کے اخراجات کو عطیات کی مد سے پورا کرنے کی استطاعت نہیں ہے تو  اس علاقے سے باہر کے دیگر اہلِ خیر حضرات کو اس طرف متوجہ کیا جائے، اورحیلہ تملیک سے بچنے کی آخری حد تک سنجیدہ کوشش کی جائے۔

اس کے بعد بھی اگر مذکورہ کوئی صورت ممکن نہ ہو اور کوئی اس کی ذمہ داری نہیں لیتا، تو اس صورت میں بوجہ مجبوری، شرائط  کے ساتھ  حیلہ کی گنجا ئش ہو گی، یعنی فقیر کو زکاۃ کی رقم دیتے وقت مسجد کی ضروریات تو بتادی جائیں،  لیکن اسے زکاۃ کی رقم مالک بنا کر دی جائے اور دینے والا اور لینے والا یہ سمجھتاہو کہ فقیر مالک ومختار ہے، چاہے تو اسے مسجد کے اخراجات میں صرف کرے اور چاہے تو خود استعمال کرے، اور پھر وہ فقیر دباؤ کے بغیر اپنی خوشی سے مسجد کے مصارف میں دے دے تو اس کی گنجائش ہوگی۔

اگر کوئی تنظیم لوگوں سے زکات اور چندہ کی رقم وصول کر کے اُس کو بینک میں ڈپازٹ کروا کے اس سے سود وصول کرتی ہے تو اس کے ذمے دار سخت گناہ گار ہوں گے، ان کو اللہ سے ڈرنا چاہیے؛ کیوں کہ سود  کی رقم لینا  ہی  ایک بڑے  گناہ کا کام ہے،     ان کو اس عمل سے اجتناب کرنا چاہیے۔ نیز تنظیم یا مدرسے کے ذمہ داران زکات وصدقات وغیرہ کو مصرف میں خرچ کرنے کے پابند ہیں، ان کے لیے زکات وغیرہ کی رقم کو کسی جائز کاروبار میں لگانا بھی امانت کے خلاف اور ناجائز ہے۔ 

"فتاوی عالمگیری"  میں ہے:

" لايجوز أن يبنی بالزكاة المسجد، وكذا القناطر والسقايات، وإصلاح الطرقات، وكري الأنهار والحج والجهاد، وكل ما لا تمليك فيه، ولايجوز أن يكفن بها ميت، ولايقضى بها دين الميت، كذا في التبيين".

(1/ 188،  کتاب الزکاۃ، الباب السابع فی المصارف، ط: رشیدیہ)

فقط واللہ اعلم

قرآن خوانی کی شرعی حیثیت

 ایصالِ ثواب  یا برکت کے حصول کے لیے قرآن خوانی جائز ہے، بشرطیکہ  اس میں چند اُمور کا لحاظ رکھا جائے:

اوّل:… یہ کہ جو لوگ بھی قرآن خوانی میں شریک ہوں، ان کا مطمحِ نظر محض رضائے الٰہی ہو، اہلِ میّت کی شرم اور دِکھاوے کی وجہ سے مجبور نہ ہوں، اور شریک نہ ہونے والوں پر کوئی نکیر نہ کی جائے، بلکہ انفرادی تلاوت کو اجتماعی قرآن خوانی پر ترجیح دی جائے کہ اس میں اِخلاص زیادہ ہے۔

دوم:… یہ کہ قرآنِ کریم کی تلاوت صحیح کی جائے، غلط سلط نہ پڑھا جائے، ورنہ اس حدیث کا مصداق ہوگا کہ: ’’بہت سے قرآن پڑھنے والے ایسے ہیں کہ قرآن ان پر لعنت کرتا ہے!‘‘

سوم:… یہ کہ قرآن خوانی کسی معاوضہ پر نہ ہو، ورنہ قرآن پڑھنے والوں ہی کو ثواب نہیں ہوگا، میّت کو کیا ثواب پہنچائیں گے؟ ہمارے فقہاء نے تصریح کی ہے کہ قرآن خوانی کے لیے دعوت کرنا اور صلحاء و قراء کو ختم کے لیے یا سورہٴ انعام یا سورہٴ اِخلاص کی قرأت کے  لیے جمع کرنا مکروہ ہے۔ (فتاویٰ بزازیہ)(آپ کے مسائل اور ان کاحل4/429،مکتبہ لدھیانوی)

چہارم:...  قرآن خوانی کے لیے کوئی دن خاص کرکے (مثلاً سوئم، چہلم وغیرہ) اس کا التزام نہ کیا جائے، اگر خاص دن کا التزام کیا جائے تو بھی درست نہیں ہوگا۔

لہٰذا اگر مذکورہ بالا شرائط کی رعایت کی جائے، اور  اجتماعی طور پر قرآن خوانی کو لازم نہ سمجھا جائے، بلکہ اگر اتفاقاً اکٹھے ہوجائیں یا  وہاں موجود لوگ مل کر قرآن خوانی کرلیں، یا اگر کوئی پڑھنے والا دست یاب نہ ہو تو جو پڑھنا جانتے ہیں ان سے پڑھوا لیا جائے  اور اس پر اجرت کا لین دین نہ کیا جائے اور نہ ہی اس کے عوض میں دعوت کا التزام کیا جائے  تو  یہ جائز ہے۔ لیکن  جہاں ان شرائط کا لحاظ نہ کیا جائے تو وہاں اس طرح اجتماعی قرآن خوانی کرنا درست نہ ہوگا۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (6/ 56):
" فمن جملة كلامه: قال تاج الشريعة في شرح الهداية: إن القرآن بالأجرة لايستحق الثواب لا للميت ولا للقارئ. وقال العيني في شرح الهداية: ويمنع القارئ للدنيا، والآخذ والمعطي آثمان. فالحاصل أن ما شاع في زماننا من قراءة الأجزاء بالأجرة لايجوز؛ لأن فيه الأمر بالقراءة وإعطاء الثواب للآمر والقراءة لأجل المال؛ فإذا لم يكن للقارئ ثواب لعدم النية الصحيحة فأين يصل الثواب إلى المستأجر! ولولا الأجرة ما قرأ أحد لأحد في هذا الزمان، بل جعلوا القرآن العظيم مكسباً ووسيلةً إلى جمع الدنيا - إنا لله وإنا إليه راجعون - اهـ"

Sunday 5 May 2024

مسبوق اپنی نماز کیسے پوری کرے

 امام کی نماز مکمل ہونے کے بعد مسبوقین (جن کی کوئی رکعت امام کے ساتھ ادا کرنے سے رہ گئی ہو) اپنی بقیہ نماز اس طرح مکمل کریں گے کہ وہ دونوں سلام کے بعد کھڑے ہوکر پہلے ثنا ء،  پھر سورۂ فاتحہ، فاتحہ  کے بعد کوئی سورت پڑھ کر رکوع کریں گے،  پس اگر ایک رکعت رہ گئی تھی تو ایک رکعت کے بعد سلام پھیر دیا جائے، اور اگر دو رہ گئیں ہوں تو امام کے دونوں سلام کے بعد مسبوقین اپنی دونوں رکعات میں سورۂ فاتحہ کے بعد کوئی سورت بھی پڑھیں گے، اور اگر تین رکعات رہ گئی ہوں تو پہلی دو رکعات میں سورۂ فاتحہ کے بعد سورت بھی پڑھیں گے جب کہ تیسری رکعت میں صرف سورۂ فاتحہ پڑھیں گے۔

یہ حکم تو تلاوت کے اعتبار سے تھا، قعدہ (تشہد میں بیٹھنے) سے متعلق حکم درج ذیل ہے:

تین رکعات رہ جانے کی صورت میں ایک رکعت ادا کرنے کے بعد قعدہ کرنا بھی واجب ہوگا۔ اور مغرب کی نماز میں اگر دو رکعات رہ گئی ہوں تو ایک رکعت کے بعد قعدہ کرنا ہوگا؛ کیوں کہ مسبوق کی یہ دوسری رکعت ہوگی۔۔

البحرالرائق میں ہے:

" وحقيقة المسبوق هو من لم يدرك أول صلاة الإمام والمراد بالأول وله أحكام كثيرة، فمنها: أنه منفرد فيما يقضي ... ومن أحكامه: أنه يقضي أول صلاته في حق القراءة وآخرها في حق التشهد، حتى لو أدرك مع الإمام ركعةً من المغرب فإنه يقرأ في الركعتين بالفاتحة والسورة، ولو ترك القراءة في أحدهما فسدت صلاته وعليه أن يقضي ركعة بتشهد؛ لأنها ثانيته، ولو ترك جازت استحساناً لا قياساً. ولو أدرك ركعةً من الرباعية فعليه أن يقضي ركعةً ويقرأ فيها الفاتحة والسورة ويتشهد؛ لأنه يقضي الآخر في حق التشهد ويقضي ركعةً يقرأ فيها كذلك ولايتشهد، وفي الثالثة يتخير والقراءة أفضل. ولو أدرك ركعتين يقضي ركعتين يقرأ فيهما ويتشهد، ولو ترك في أحدهما فسدت. ومن أحكامه أنه لو بدأ ... بقضاء ما فاته، ففي الخانية والخلاصة: يكره ذلك؛ لأنه خالف السنة". (1/401-403)

فتاوی شامی میں ہے:

"مسبوقاً أيضاً ولو عكس صح وأثم لترك الترتيب ( والمسبوق من سبقه الإمام بها أو ببعضها وهو منفرد ) حتى يثني ويتعوذ ويقرأ وإن قرأ مع الإمام لعدم الاعتداد بها لكراهتها،  مفتاح السعادة ( فيما يقضيه ) أي بعد متابعته لإمامه فلو قبلها فالأظهر الفساد ويقضي أول صلاته في حق قراءة وآخرها في حق تشهد فمدرك ركعة  من غير فجر يأتي بركعتين بفاتحة وسورة وتشهد بينهما وبرابعة الرباعي بفاتحة فقط ولايقعد قبلها". (1/596)

حج کے فرائض وسنن

 حج کے دو ارکان ہیں:ا۔وقوف عرفہ۲۔طواف زیارت

سنن حج:

۱۔مفرد آفاقی اور قارن کا طواف قدوم کرنا۔

۲۔طواف قدوم میں یا طواف فرض میں رمل کرنا۔

۳۔صفا مروہ کی سعی میں دونوں سبز نشانوں کے درمیان جلدی چلنا۔

۴۔قربانی کی راتوں میں سے ایک رات منیٰ میں قیام کرنا۔

۵۔سورج نکلنے کے بعد منیٰ سے عرفات جانا۔

۶۔سورج نکلنے سے پہلے مزدلفہ سے منیٰ آجانا۔

۷۔مزدلفہ میں رات گزارنا۔

۸۔گیارہ اور بارہ ذی الحجہ کو تینوں جمرات میں  ترتیب سے سات سات کنکریاں مارنا۔

باقی حج کے فرائض، واجبات، سنن،آداب، مکروہات اور موجباتِ دم سے متعلق تفصیلات کے لیے ان دو کتابوں کا مطالعہ فرمائیں:۱۔معلم الحجاج  ۲۔انوار مناسک۔

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"(وأما ركنه فشيئان) الوقوف بعرفة وطواف الزيارة لكن الوقوف أقوى من الطواف كذا في النهاية حتى يفسد الحج بالجماع قبل الوقوف، ولا يفسد بالجماع قبل طواف الزيارة كذا في شرح الجامع الصغير لقاضي خان.

(وأما سننه) فطواف القدوم والرمل فيه أو في الطواف الفرض، والسعي بين الميلين الأخضرين، والبيتوتة بمنى في ليالي أيام النحر، والدفع من منى إلى عرفة بعد طلوع الشمس، ومن مزدلفة إلى منى قبلها كذا في فتح القدير. والبيتوتة بمزدلفة سنة والترتيب بين الجمار الثلاث سنة هكذا في البحر الرائق."

(کتاب المناسک،ج1،ص209،ط؛دار الفکر

Friday 3 May 2024

سرکٹی ہویی تصاویر

 اگر کسی کپڑے پر ایسی تصویر بنائی گئی ہو جس میں صرف جسم ہو اور سر کاٹ دیا گیا ہو یا بنایا ہی نہ گیا ہو تو ایسے کپڑوں کو پہننا اور اس میں نماز پڑھنا جائز ہو گا۔

البحر الرائق شرح كنز الدقائق (4/ 150):
"(قوله: وأن يكون فوق رأسه أو بين يديه أو بحذائه صورة ) ...... ( قوله: إلا أن تكون صغيرةً )...... ( قوله: أو مقطوع الرأس ) أي سواء كان من الأصل أو كان لها رأس ومحي وسواء كان القطع بخيط خيط على جميع الرأس حتى لم يبق لها أثر أو يطليه بمغرة ونحوها أو بنحته أو بغسله وإنما لم يكره؛ لأنها لاتعبد بدون الرأس عادةً"

ڈیجیٹل تصویر کے بارے میں علماء کرام کی تین آراء ہیں:
پہلی رائےیہ ہے کہ یہ حرام تصویر کے حکم میں نہیں بلکہ سایہ یا پانی اورشیشےمیں دکھائی دینے والے عکس کی مانندہے،لہذا جس چیز کا عکس اور سایہ دیکھنا جائز ہے اس کی ڈیجیٹل تصویر کھینچنا بھی جائز ہے۔ دوسری رائے یہ ہے کہ یہ عام پرنٹ والی تصویر کی طرح ہے اورصرف ضرورت کے موقع پر جائز ہے۔
تیسری رائے یہ ہے کہ اگر چہ یہ اپنی حقیقت کے لحاظ سے تصویر ہی ہے،لیکن اس کے تصویر ہونے یا نہ ہونے میں علماء کرام کی آراء مختلف ہیں،اس لیے صرف شرعی ضرورت جیساکہ جہاد کی ضروریات،دین کے خلاف پروپیگنڈوں سے دفاع اور صحیح دینی معلومات کی فراہمی کی خاطر یا اس کے علاوہ کسی واقعی اور معتبر دینی یا دنیوی مصلحت کی خاطر ایسی چیزوں اور مناظر کی ڈیجیٹل تصویر اور ویڈیو بنانے کی گنجائش ہے جن میں تصویر ہونے کے علاوہ کوئی اور حرام پہلو مثلا عریانیت،موسیقی یا غیر محرم کی تصاویر وغیرہ نہ ہوں۔
ہم اس تیسرے موقف کو راجح سمجھتےہیں،لہذا کسی معتبر اور واقعی دینی یا دنیوی ضرورت یا مصلحت کی خاطر موبائل سے تصویر یا ویڈیوبنانے کی گنجائش ہے،لیکن بلا ضرورت محض شوقیہ طور پر موبائل سے تصویر یا ویڈیو بنانا صحیح نہیں ہے۔

مقتدیوں کے ناقص وضو کی بناپر امام سے غلطی کی حقیقت

  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے ایک مرتبہ فجر کی نماز میں سورہ روم کی تلاوت شروع کی تو قرأت میں اختلاط و نسیان واقع ہونے لگا، نماز سے فراغت کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:

"مجھے دوران نماز تلاوت قرآن میں اختلاط ونسیان ہو رہا تھا،  جس کی وجہ یہ تھی کہ کچھ لوگ ہمارے ساتھ نمازادا کرتے ہیں  لیکن وہ اچھی طرح وضو نہیں کرتے، جو شخص ہمارے ساتھ نماز ادا کرے اسے چاہیے کہ وہ اچھی طرح وضو کرے۔"

ایک دوسری روایت میں ہے کہ :

’’ لوگوں کو کیا ہوگیا ہے کہ ہمارے ساتھ نماز پڑھتے ہیں،  لیکن اچھی طرح سے وضو نہیں کرتے ہیں، ان کی وجہ سے ہمیں نماز میں قرآن پڑھتے ہوئے التباس ہوجاتا ہے۔‘‘

لہٰذا ان روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ باجماعت نماز میں مقتدیوں کے اچھی طرح سے وضو کیے بغیر شریک ہونے کا اثر امام پر پڑتا ہے اور ان کی وجہ سے امام سے غلطی واقع ہوتی ہے، لیکن ضروری نہیں کہ امام سے غلطی مقتدیوں کے ناقص وضو کی وجہ سے ہی ہو، بلکہ امام کی نماز میں توجہ نہ ہونے  کی وجہ سے  یا ویسے بھی غلطی ہوسکتی ہے۔ 

مسند أحمد مخرجًا (25/ 208):

’’ حدثنا إسحاق بن يوسف، عن شريك، عن عبد الملك بن عمير، عن أبي روح الكلاعي، قال: صلى بنا رسول الله صلى الله عليه وسلم صلاة، فقرأ فيها سورة الروم، فلبس بعضها، قال: «إنما لبس علينا الشيطان، القراءة من أجل أقوام يأتون الصلاة بغير وضوء، فإذا أتيتم الصلاة فأحسنوا الوضوء».‘‘

مسند أحمد مخرجًا (25/ 210):

’’ حدثنا أبو سعيد، مولى بني هاشم، حدثنا زائدة، حدثنا عبد الملك بن عمير، قال: سمعت شبيبا أبا روح، من ذي الكلاع،، أنه صلى مع النبي صلى الله عليه وسلم الصبح فقرأ بالروم، فتردد في آية فلما انصرف قال: «إنه يلبس علينا القرآن، أن أقواما منكم يصلون معنا لا يحسنون الوضوء، فمن شهد الصلاة معنا فليحسن الوضوء».‘‘

قسط پر ٹریکٹر لینا

 اگرعقد کے وقت گاڑی کی مجموعی قیمت متعین ہوجائے چاہے وہ قیمت نقد کے مقابلے میں کچھ زیادہ ہی کیوں نہ ہو اور پھرقیمت کی وصولیابی کے لیے قسطیں مقرر کرلی جائیں، ہرقسط کی مقدار اور اس کی ادائیگی کی تاریخ بھی طے ہوجائے اور اس معاملے میں وقت مقررہ پر کسی قسط کی عدم ادائیگی یا کمی کی صورت میں اصل قیمت میں اضافے کی کوئی شرط نہ ہو، تو اس طرح قسط پر گاڑی ٹریکٹر خریدنا جائز ہے ۔واضح رہے کہ اکثر گاڑیوں کے شوروم میں قسطوں پر معاملہ بینک کے توسط سے کیا جاتا ہے ، جس میں بینک گاڑی خریدنے والے کے نام لون جاری کرتا ہے پھر اضافے کے ساتھ مقررہ قسطوں کی شکل میں اپنا قرضہ وصول کرلیتا ہے ، وقتِ مقررہ پر کسی قسط کی عدم ادائیگی کی صورت میں قرض کی رقم میں اضافہ ہوتا رہتا ہے ؛ یہ شکل سود کی وجہ سے ناجائز ہے ، جس شوروم میں اس طرح خرید وفروخت کا معاملہ کیا جاتا ہو، اس سے بائک وغیرہ خریدنا شرعا ناجائز ہے ۔

وفی المجلة، رقم المادة: ۲۲۵: البیعُ مع تأجیل الثمن وتقسیطہ صحیح، وفی قضایا فقہیة معاصرة: أما الأئمة الأربعة وجمہور الفقہاء والمحدثین فقد أجازوا البیع الموجل بأکثر من سعر النقد بشرط أن یبتّ العاقدان بأنہ بیع موجل بأجل معلوم بثمن متفق علیہ عند العقد (ص:۷) قال الإمام الترمذی: وقد فَسَّر بعض أہل العلم قالوا بیعتین فی بیعة أن یقول: أبیعُک ہذا الثوب بنقد بعشرة وبنسیئة بعشرین، ولا یفارقہ علی أحد البیعتین فإذا فارقہ علی أحدہما، فلا بأس إذا کانت العقدة علی أحد منہما۔ (الترمذی، بابُ ما جاء فی النہی عن بیعتین فی بیعة، رقم: ۶۲۳۱) وقال السرخسی: وإذا عقد العقد علی أنہ إلی أجل کذا بکذا وبالنقد بکذا، فہو فاسد،وہذا إذا افترقا علی ہذا، فإن کان یتراضیان بینہما ولم یتفرقا، حتی قاطَعہ علی ثمن معلوم، وأتما العقد علیہ؛ جاز (المبسوط للسرخسی: ۸/۱۳، ط: دار المعرفة، بیروت، وکذا فی مجمع الأنہر فی شرح ملتقی الأبحر: ۷۸/۲

Thursday 2 May 2024

عقیقہ کب کرنا سنت ہے

 بچے کی پیدائش پر شکرانہ کے طور پر جو قربانی کی جاتی ہے اسے ’’عقیقہ‘‘ کہتے ہیں،عقیقہ کرنا سنت نہیں، بلکہ مستحب ہے، عقیقہ کا مستحب وقت یہ ہے کہ پیدائش کے ساتویں دن عقیقہ کرے، اگر ساتویں دن عقیقہ نہ کرسکے تو چودھویں (14)  دن ، ورنہ اکیسویں (۲۱) دن کرے،  اس کے بعد عقیقہ کرنا مباح ہے،اگر کرلے تو ادا ہوجاتا ہے،  تاہم جب بھی عقیقہ کرے بہتر یہ ہے کہ پیدائش کے دن  کے حساب سے ساتویں دن کرے۔

المستدرک  میں ہے: 

’’عن عطاء، عن أم كرز، وأبي كرز، قالا: نذرت امرأة من آل عبد الرحمن بن أبي بكر إن ولدت امرأة عبد الرحمن نحرنا جزوراً، فقالت عائشة رضي الله عنها: «لا بل السنة أفضل عن الغلام شاتان مكافئتان، وعن الجارية شاة تقطع جدولاً، ولايكسر لها عظم فيأكل ويطعم ويتصدق، وليكن ذاك يوم السابع، فإن لم يكن ففي أربعة عشر، فإن لم يكن ففي إحدى وعشرين». هذا حديث صحيح الإسناد ولم يخرجاه".  ( المستدرک علی الصحیحین للحاکم(4/ 266) رقم الحدیث: 7595،  کتاب الذبائح، ط: دار الكتب العلمية – بيروت)

اعلاء السنن میں ہے:

’’ أنها إن لم تذبح في السابع ذبحت في الرابع عشر، وإلا ففي الحادي والعشرین، ثم هکذا في الأسابیع‘‘. (17/117، باب العقیقہ، ط: ادارۃ القرآن والعلوم الاسلامیہ

علامہ نووی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"کیا ولادت کا دن سات دنوں میں شمار ہو گا؟ تو اس میں دو موقف ہیں، جن میں سے صحیح ترین موقف یہ ہے کہ اس دن کو شمار کیا جائے لہذا ولادت کے بعد چھٹے دن عقیقہ کیا جائے گا۔
دوسرا موقف یہ ہے کہ ولادت والا دن شمار نہیں کیا جائے گا، چنانچہ ولادت کے بعد ساتویں دن عقیقہ کیا جائے گا۔ یہی موقف بویطی میں صراحت کے ساتھ منقول ہے۔ لیکن پہلا موقف احادیث کے قریب تر محسوس ہوتا ہے۔ البتہ اگر بچے کی پیدائش رات کے وقت ہو تو پھر متفقہ طور پر رات آئندہ دن میں شمار ہو گی ، اس میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔۔۔" ختم شد
ماخوذ از: "المجموع" (8/411)

اسی طرح "الموسوعة الفقهية" (30/279) میں ہے کہ:
"جمہور فقہائے کرام اس بات کے قائل ہیں کہ پیدائش کا دن سات دنوں میں شمار کیا جائے گا، لیکن رات کے وقت پیدائش ہو تو رات شمار نہیں ہو گی، بلکہ آئندہ دن شمار ہو گا۔" ختم شد

شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان : (ساتویں دن عقیقہ ذبح کیا جائے گا۔) کا مطلب یہ ہے کہ ساتویں دن عقیقہ کرنا مسنون ہے، چنانچہ اگر بچے کی پیدائش ہفتے کو ہوئی ہے تو جمعہ کے دن عقیقہ کیا جائے یعنی : اصول یہ ہے کہ: جس دن پیدائش ہوئی ہے آئندہ ہفتے میں اس سے ایک دن پہلے ۔ لہذا اگر جمعرات کو پیدائش ہوئی ہے تو بدھ کو عقیقہ ساتویں دن ہو گا۔ اسی طرح دیگر دنوں کا معاملہ ہو گا۔" ختم شد
"الشرح الممتع"(7/493)

اس لیے سنت یہ ہے کہ آپ اپنے بچے کا عقیقہ بدھ کے دن کریں۔

سوم:
یہ بات کہ اگر بچے کی پیدائش زوال کے بعد ہو تو وہ دن شمار نہیں کیا جائے گا۔ یہ کچھ اہل علم رحمہم اللہ سے منقول ہے۔ بلکہ ان کا موقف یہ ہے کہ پیدائش کا دن سرے سے ہی شمار نہیں ہو گا، چاہے بچے کی پیدائش زوال سے پہلے ہو یا بعد میں اس دن کو شمار ہی نہیں کیا جائے گا، یہ مالکی فقہائے کرام کا موقف ہے۔

جیسے کہ "مختصر خلیل" میں ہے کہ: "مستحب ہے کہ قربانی کے لائق ایک جانور دن میں پیدائش ہونے کی صورت میں ساتویں دن ذبح کیا جائے گا۔ اور اگر پیدائش فجر سے پہلے ہو تو وہ دن شمار نہیں ہو گا۔"

علامہ مواق رحمہ اللہ ابن رشد سے بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں:
"ابن القاسم نے امام مالک سے روایت کی ہے جو کہ مدونہ وغیرہ میں موجود ہے کہ: اگر بچہ فجر کے بعد پیدا ہو تو یہ دن شمار نہیں ہو گا، آئندہ دن سے سات دن شمار کیے جائیں گے، اور اگر فجر سے پہلے پیدائش رات کے وقت ہو تو پھر دن شمار کیا جائے گا۔" ختم شد
"التاج والإكليل"(4/390)

صحیح موقف جمہور اہل علم کا ہے کہ عقیقہ ولادت سے ساتویں دن ذبح کیا جائے گا اس لیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان ہے: (ساتویں دن مولود کی طرف سے عقیقہ ذبح کیا جائے گا۔)

الشیخ محمد بن محمد الختار شنقیطی حفظہ اللہ کہتے ہیں:
"[حدیث کے عربی الفاظ "يوم سابعه" میں] مرکب اضافی اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ حکم مضاف الیہ کے ساتھ مقید ہو۔ تو مطلب یہ ہوا کہ: ساتواں دن بچے کی پیدائش کے دن کی طرف مضاف ہے، اس بنا پر ولادت کا دن ساتواں دن ہو گا۔" ختم شد

یہاں مسئلہ صرف استحباب کا ہے، چنانچہ اگر ولادت سے ساتویں دن عقیقہ میسر ہو تو ذبح کر دیا جائے یہ اچھا عمل ہے، اور اگر ساتویں دن کے گزرنے کے بعد ہی میسر ہو تو تب بھی عقیقہ کر دے یہ کافی ہو گا۔


Monday 29 April 2024

زبان سے نیت کرنا

 نیت کرنے سے مقصود شرعاً دو چیزیں ہیں:

 (۱)  عبادات کو عادات سے امتیاز کرنا (مثلاً: کھڑا ہونا کبھی محض طبعی خواہش کی بنا پر ہوتا ہے اور یہی کھڑا ہونا جب نماز کی نیت سے ہو تو عبادت بن جاتا ہے)

(۲)  بعض عبادات کو بعض سے ممتاز کرنا (مثلاً: ظہر اور عصر کی رکعات ایک جیسی ہیں, مگر نیت الگ الگ ہونے سے یہ الگ الگ عبادتیں قرار پاتی ہیں)

نیت صرف دل سے ارادہ کرلینے کا نام ہے، لہٰذا نیت کی صحت کے لیے زبان سے نیت کے الفاظ ادا کرنا لازم نہیں ہے، زبان سے نیت کا ادا کرنا بھی جائز ہے ، بدعت نہیں ہے، اور جو شخص زبان سے الفاظِ نیت ادا کیے بغیر اپنے دل کو مستحضر کرنے پر قادر نہ ہو تو اس کے لیے زبانی نیت کرنا بھی کافی ہے؛ بلکہ بہتر ہے۔ فرض، سنت اور نفل سب کا یہ حکم ہے۔

اکیلے نماز پڑھنے والے کے لیے صرف دل سے یہ ارادہ کرلینا کافی ہے کہ میں فلاں وقت کی فرض نماز (مثلاً ظہر، عصر) ادا کر رہا ہوں (تعدادِ رکعات اور قبلہ رخ ہونے کی نیت لازم نہیں) اور جماعت میں شامل ہونے والے مقتدی کے لیے دوباتوں کی نیت ضروری ہے: اول یہ کہ متعین کرے کہ کون سی نماز پڑھ رہا ہے؟ دوسرے یہ نیت کرے کہ میں اس محراب میں کھڑے ہوئے امام کی اقتدا میں نماز پڑھ رہا ہوں، اور  جماعت کی نماز میں امام کے امام بننے کے لیے یہ لازم نہیں ہے کہ وہ نماز کے ساتھ اپنے امام ہونے کی بھی نیت کرے؛ بلکہ امامت کی نیت کے بغیر بھی مقتدیوں کے لیے اس کی اقتداکرنا درست ہوجائے گا، تاہم امام کو امامت کا ثواب اسی وقت ملے گا جب کہ امامت کی نیت کرے۔

نیز عام نمازوں میں (جن میں مجمع زیادہ نہیں ہوتا) عورتوں کی نماز باجماعت میں شمولیت اسی وقت درست ہوگی جب کہ امام (عموماً یا خصوصاً) ان کی اقتدا کی بھی نیت کرے، اگر امام نے عورتوں کی نیت نہیں کی تو مقتدی عورتوں کی نماز درست نہ ہوگی؛ البتہ جمعہ وعیدین (یا جہاں مجمع کثیر ہو مثلاً حرمین شریفین) میں امام کی نیت کے بغیر بھی عورتوں کی اقتدا درست ہے، (لیکن موجودہ دور میں عورتوں کا مسجد میں باجماعت نماز پڑھنے کے لیے آنا مکروہ تحریمی ہے)۔

باقی سننِ مؤکدہ میں صرف یہ نیت کافی ہے کہ میں اتنی رکعت نماز پڑھ رہا ہوں، یہ کہنا لازم نہیں کہ میں مثلاً: فجر یا ظہر کی سنت ادا کررہا ہوں، اس تعیین کے بغیر بھی سنتیں ادا ہوجاتی ہیں(اور اگر کوئی متعین کرلے تو کوئی حرج بھی نہیں)، اور نفل نمازوں میں صرف یہ نیت کافی ہے کہ میں نماز پڑھ رہا ہوں وقت وغیرہ کی تعیین ضروری نہیں ہے۔ (کتاب المسائل) ۔

Wednesday 24 April 2024

بیوہ،دوبیٹیوں،دوبہنوں میں میراث کی تقسیم

 صورتِ مسئولہ میں مرحوم کے ترکہ کی تقسیم کا شرعی طریقہ یہ ہے کہ سب سے پہلے مرحوم کی کل جائیداد منقولہ و غیر منقولہ میں سے مرحوم کے   حقوقِ متقدمہ یعنی تجہیز و تکفین کے اخراجات نکالنے کے بعد ، اگر مرحوم کے ذمہ کوئی قرضہ ہو (مثلا بیوی کا مہر وغیرہ) تو قرضہ کی ادائیگی کے بعد، اگر مرحوم نے کوئی جائز وصیت کی ہو تو ایک تہائی مال میں سے وصیت نافذ کرنے کے بعد باقی کل جائیداد منقولہ و غیر منقولہ کو   48 حصوں میں تقسیم کر کے اس میں سے 6 حصے مرحوم کی بیوہ کو ،  16 ، 16 حصے مرحوم کی ہر ایک بیٹی کو اور 5، 5حصے مرحوم کی ہر بہن کو ملیں گے۔

یعنی سو روپے میں سے مرحوم کی بیوہ کو 12.50روپے،  ہر ہر بیٹی کو 33.33 روپے اور ہر بہن کو10.41 روپے ملیں گے

Tuesday 23 April 2024

عمرہ کے سفر میں بیوی سے مجامعت

 عمرہ کا احرام باندھنے سے پہلے سائل نے اپنی بیوی سے ہم بستری کی ہے تو سائل پر کوئی دم لازم نہیں ہے، لیکن عمرہ کا احرام باندھنے کے بعد اور طواف کے چار چکر مکمل کرنے  سے  پہلے ہم بستری کی صورت میں عمرہ فاسد ہوجائے گا، اس عمرہ کو مکمل کیاجائے گا اور دم میں ایک بکری ذبح کی جائے گی ، اور پھر اس عمرہ کا اعادہ کیا جائے گا،  اگر چار چکر کے بعد ہم بستری  کرلی  تو پھر عمرہ  فاسد نہیں ہوگا،  لیکن دم کے طور پر بکری ذبح کرنی ہوگی،  عمرہ مکمل ہونے  (یعنی طواف، سعی اور حلق یا قصر ) کے بعد بیوی سے ہم بستری کرنا جائز ہے۔ اسی طرح عمرہ کے سفر میں احرام باندھنے سے پہلے بیوی سے ہم بستری کرنا جائز ہے۔

فتاوی شامی میں ہے:

" و) وطؤه (في عمرته قبل طوافه أربعة مفسد لها فمضى وذبح وقضى) وجوبا (و) وطؤه (بعد أربعة ذبح ولم يفسد) خلافا للشافعي»

قوله ووطؤه في عمرته) شمل عمرة المتعة ط (قوله وذبح) أي شاة بحر (قوله ووطؤه بعد أربعة ذبح ولم يفسد) المناسب أن يقول لم يفسد وذبح ليصح الإخبار عن المبتدأ بلا تكلف إلى تقدير العائد.قال في البحر: وشمل كلامه ما إذا طاف الباقي وسعى أولا لكن بشرط كونه قبل الحلق، وتركه للعلم به لأنه بالحلق يخرج عن إحرامها بالكلية؛ بخلاف إحرام الحج. ولما بين المصنف حكم المفرد بالحج والمفرد بالعمرة علم منه حكم القارن والمتمتع اهـ."

(کتاب  الحج ،باب الجنایات فی الحج ، ج:2، ص:560،  ط: سعید)

فتاویٰ ہندیہ میں ہے:

"‌ومن ‌المستحب ‌عند ‌إرادة ‌الإحرام جماع زوجته أو جاريته إن كانت معه ولا مانع من الجماع فإنه من السنة، هكذا في البحر الرائق."

(كتاب المناسك، الباب الثالث في الإحرام، ج:1، ص: 222، ط:دار الفکر)

جنایت احرام

 صابون جن سے چہرہ دھویا جاتا ہے ان میں خوشبو ہوتی ہے لہٰذا ایسا صابون اگر ایک مرتبہ استعمال کیا تو اس سے صدقہ واجب ہوگا، یعنی ایک کلو چھ سو تینتیس گرام (1.633 KG) گیہوں اور اگر کئی مرتبہ استعمال کیا تو دم واجب ہوگا۔ (۲) بیچ قدم کی ہڈی چھپ جانے کی صورت میں اگر ایسا چپل ایک دن ایک رات پہنے رہا تو دم واجب ہوگا اور اس سے کم میں صدقہ۔

حالت احرام میں ماسک پہننا

 مروجہ ماسک چوں کہ چہرے کے چوتھائی یا اس سے زیادہ حصہ کو چھپالیتا ہے، لہذا اگر کوئی شخص (خواہ مرد ہو یا عورت) احرام کی حالت میں مروجہ ماسک سے چوتھائی چہرہ یا اس سے زیادہ چھپاکر پورا دن یا پوری رات (یعنی بارہ گھنٹۓ) پہنے رکھے تو اس صورت میں دم دینا لازم ہوگا، اور اس سے کم پہننے کی صورت میں صدقہ لازم ہوگا، بلا عذر ماسک پہننے والا گناہ گار ہوگا، البتہ اگر کسی عذر کی وجہ سے پہنا ہو تو گناہ نہ ہوگا، تاہم دم یا صدقہ کا وجوب تفصیل بالا کے مطابق بہر صورت ہوگا؛ لہٰذا عمرہ کرنے والے شخص کو ماسک پہننا مجبوری ہو تو اسے چاہیے کہ وہ وقتًا فوقتًا ماسک اتارتا رہے، یا چوتھائی چہرہ نہ چھپائے؛ تاکہ چوتھائی چہرہ چھپائے ہوئے بارہ گھنٹے پورے نہ ہوں۔

غنية الناسك میں ہے:

"و أما تعصيب الرأس و الوجه فمكروه مطلقاً، موجب للجزاء بعذر أو بغير عذر، للتغليظ إلا ان صاحب العذر غير آثم".

( باب الإحرام، فصل في مكروهات الإحرام، ص: ٩١، ط: إدارة القرآن)

و فيه أيضًا:

"و لو عصب رأسه أو وجهه يومًا أو ليلةً فعليه صدقة، إلا ان يأخذ قدر الربع فدم".

( باب الجنايات، الفصل الثالث: في تغطية الرأس و الوجه، ص: ٢٥٤، ط: إدارة القرآن)