https://follow.it/amir-samdani?action=followPub

Saturday 29 June 2024

کافر،زندیق،ملحد،مرتد،کی تعریف

 "کافر"وہ شخص ہےجودین اسلام کو ظاہراً وباطناً ماننے والانہ ہو۔  "زندیق"  وہ شخص ہے جوزبان سےتومسلمان ہونےکااقرارکررہاہو لیکن احکامِ اسلام کی باطل تاویل کرتاہو۔  "مرتد" وہ شخص ہےکہ اپنی مرضی اوررضامندی سےاسلام قبول کرنےکےبعداسلام سے پھرجائے۔

  ” ملحد“ لغوی تعریف کے اعتبار سےتو کفر کی تمام اقسام کو شامل ہے اور اصطلاحی معنی کے اعتبار سےاس شخص کو کہا جاتا ہے جو   بظاہر تو دین حق کا اقرار کرتا ہے، لیکن ضروریات دین میں سے کسی امر کی ایسی تعبیر وتشریح کرتا ہے جو صحابہ وتابعین نیز اجماع امت کے خلاف ہو  ۔ اور" منافق " اس کو کہا جاتا ہے جو  زبان سے تو دین حق کا  اقرار کرتا ہے، مگر دل سے  اس کا منکر ہو۔  ( فتاوی شامی، ج: ۴، ص: ۳۴۱ ومابعد، ط: سعید) ۔

توسل کی حقیقت

 توسل کی دو قسمیں ہیں: 1) توسل بالاعمال یعنی اپنے کسی نیک عمل کے وسیلے سے یوں دعا کرنا کہ اے اللہ! فلاں عمل کی برکت سے میری فلاں حاجت پوری فرما. یہ صورت بالاتفاق وبلااختلاف جائز ہے اور اس کی دلیل وہ مشہور اور صحیح حدیث ہے جس میں تین افراد ایک غار  میں پھنس گئے تھے اور تینوں نے اپنے نیک عمل کے وسیلے سے دعا کی تو اللہ تعالی نے اس مصیبت سے انہیں نجات عطا فرمائی. (بخاری 1 /  493 قدیمی) 2) توسل بالذوات یعنی کسی نبی، صحابی یا کسی ولی سے اپنے تعلق کا واسطہ دے کر دعا کرنا. یہ صورت بھی جمہور اہل سنت والجماعت کے نزدیک جائز ہے، چناچہ قرآن کریم کی آیت سے ثابت ہے کہ بنوقریظہ اور بنونضیر کے یہود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے پہلے آپ کے وسیلے سے فتح ونصرت کی دعا کیا کرتے تھے. (البقرۃ:89)خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فقرا ومہاجرین کے توسل سے دعا فرماتے تھے. (مشکوۃ : 2 / 447 قدیمی) اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ قحط سالی کے سال حضرت عباس رضی اللہ عنہ (جو اس وقت حیات تھے) کے وسیلے سے دعا فرماتے تھے. ( نیل الاوطار : 4 / 8 طبع مصر) البتہ کسی نبی یا ولی سے حاجت مانگنا شرک ہے، اور ان کی قبر پر جاکر ان سے دعا کی درخواست کرنا بھی علما کے نزدیک مختلف فیہا مسئلہ ہے اور اس سے اجتناب کرنا لازم ہے. (تفصیل کے لیے ملاحظہ فرمائیں: مولانا محمد یوسف لدھیانوی شہید رحمہ اللہ کی کتاب "اختلافِ امت اور صراطِ مستقیم" اور فتاوی بینات کی جلد دوم) مذکورہ تفصیل کی روشنی میں آپ کے سوالات کے جوابات کا حاصل یہ ہوا کہ توسل بالاعمال اور توسل بالذوات دونوں علمائے دیوبند سمیت جمہور اہلِ سنت والجماعت کے نزدیک جائز ہے، قرآن کریم واحادیث مبارکہ اور کتبِ فقہ میں اس کی تصریحات موجود ہیں، علمائے دیوبند کی کتاب المہند علی المفند میں بھی واضح طور پر یہی عقیدہ مذکور ہے، لہذا توسل کا کلی طور پر انکار یا نبی اور ولی میں فرق کرنا درست نہیں، البتہ یہ واضح رہے کہ دعا کی قبولیت کے لیے وسیلہ واجب یا ضروری نہیں، توسل کا انکار کیے بغیر بلاوسیلہ دعا مانگنا بھی جائز ہے.

Friday 28 June 2024

جمعہ کی ایک رکعت ملی

 اگر کوئی جمعہ کی نماز میں تاخیر سے پہنچا جس کی وجہ سے امام صاحب ایک رکعت پڑھاچکے تھے اور دوسری رکعت چل رہی ہو تو اسے چاہیے کہ عام نمازوں کی طرح امام کے ساتھ نماز میں شریک ہوجائے اور امام کے سلام پھیرنے کے بعد اپنی ایک رکعت پوری کرلے۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2/ 157):

(ومن أدركها في تشهد أو سجود سهو) على القول به فيها (يتمها جمعة) خلافا لمحمد (كما) يتم (في العيد) اتفاقا كما في عيد الفتح لكن في السراج أنه عند محمد لم يصر مدركا له (وينوي جمعة لا ظهرا) اتفاقا فلو نوى الظهر لم يصح اقتداؤه ثم الظاهر أنه لا فرق بين المسافر وغيره نهر بحتا
(قوله: ومن أدركها) أي الجمعة (قوله أو سجود سهو) ولو في تشهده ط (قوله: على القول به فيها) أي على القول بفعله في الجمعة. والمختار عند المتأخرين أن لايسجد للسهو في الجمعة والعيدين لتوهم الزيادة من الجهال كذا في السراج وغيره بحر وليس المراد عدم جوازه بل الأولى تركه كي لا يقع الناس في فتنة أبو السعود عن العزمية ومثله في الإيضاح لابن كمال (قوله: يتمها جمعة) وهو مخير في القراءة إن شاء جهر وإن شاء خافت بحر (قوله: خلافا لمحمد) حيث قال: إن أدرك معه ركوع الركعة الثانية بنى عليها الجمعة، وإن أدرك فيما بعد ذلك بنى عليها الظهر لأنه جمعة من وجه وظهر من وجه لفوات بعض الشرائط في حقه فيصلي أربعا اعتبارا للظهر ويقعد لا محالة على رأس الركعتين اعتبارا للجمعة ويقرأ في الأخريين لاحتمال النفلية. ولهما أنه مدرك للجمعة في هذه الحالة حتى تشترط له نية الجمعة وهي ركعتان، ولا وجه لما ذكر لأنهما مختلفان لايبنى أحدهما على تحريمة الآخر كذا في الهداية (قوله: لكن في السراج إلخ) أقول: ما في السراج ذكره في عيد الظهيرية عن بعض المشايخ ثم ذكر عن بعضهم أنه يصير مدركا بلا خلاف، وقال: وهو الصحيح (قوله: اتفاقًا) لما علمت أنها عند محمد ليست ظهرا من كل وجه.

Thursday 27 June 2024

دووطن اصلی میں نمازکا حکم

 اگر کوئی شخص اپنے وطنِ اصلی سے بیوی، بچے اور سامان وغیرہ لے کر دوسری جگہ منتقل ہوجائے اور وہیں مستقل  طور پر  اہل وعیال کے ساتھ عمر گزارنے کی نیت کرلے، اور پہلی جگہ پر دوبارہ منتقل ہونے کا ارادہ نہ ہو  تو اس کا پہلا وطنِ اصلی ختم ہوجاتا ہے،  اور دوسری جگہ اس کا وطنِ اصلی بن جاتا ہے، اور  اگر پہلی جگہ  پر بھی موسم کے لحاظ سے آکر رہنے کا ارادہ ہو یا  وطنِ اصلی سے  اہل وعیال کو تو دوسری جگہ  منتقل کرلیا، لیکن پہلے وطن سے رہائش کا تعلق ختم نہ کیا ہوتو دونوں  جگہیں اس کی وطنِ اصلی شمار ہوں گی ، جب بھی  وہاں جائے گا تو مقیم ہوگا اور جب یہاں آئے گا تب بھی مقیم ہوگااگر چہ یہ اقامت پندرہ دن سے کم ہی کیوں نہ ہو ، البتہ  درمیان کے راستے میں مسافر ہوگا۔

،، زید کے بیوی بچے علی گڑھ مقیم ہیں اور زید نے علی گڑھ میں بھی رہنے کا ارادہ کرلیا ہے تو علی گڑھ بھی زید کے لئے وطن اصلی کی حثیت رکھے گا۔ اب اگر زید علی گڑھ دو چار دنوں کے لیے آتا ہے تو قصر کے بجائے اتمام کرے گا؟

فتاوی شامی  میں ہے:

(الوطن الأصلي) هو موطن ولادته أو تأهله أو توطنه (يبطل بمثله)    إذا لم يبق له بالأول أهل، فلو بقي لم يبطل بل يتم فيهما (لا غير و) يبطل (وطن الإقامة بمثله و) بالوطن (الأصلي و) بإنشاء (السفر) والأصل أن الشيء يبطل بمثله،  وبما فوقه لا بما دونه ولم يذكر وطن السكنى وهو ما نوى فيه أقل من نصف شهر لعدم فائدته، وما صوره الزيلعي رده في البحر (من خرج من عمارة موضع إقامته) من جانب خروجه وإن لم يجاوز من الجانب الآخر. وفي الخانية: إن كان بين الفناء والمصر أقل من غلوة وليس بينهما مزرعة يشترط مجاوزته وإلا فلا (قاصدا) ولو كافرا، ومن طاف الدنيا بلا قصد لم يقصر (مسيرة ثلاثة أيام ولياليها) من أقصر أيام السنة ولا يشترط سفر كل يوم إلى الليل بل إلى الزوال ولا اعتبار بالفراسخ على المذهب (بالسير الوسط مع الاستراحات المعتادة) حتى لو أسرع فوصل في يومين قصر؛ ولو لموضع طريقان أحدهما مدة السفر والآخر أقل قصر في الأول لا الثاني. (صلى الفرض الرباعي ركعتين) وجوبا لقول ابن عباس: «إن الله فرض على لسان نبيكم صلاة المقيم أربعا۔

(الدر المختار۔ ج:۲‘ص:۱۳۲ باب صلاة المسافر۔ط: سعید)

دوران عدت نکاح

 صورتِ مسئولہ میں عدّت کے دوران کیا ہوا نکاح شرعی طور پر منعقد ہی نہیں ہوا .البتہ  اپنی بیوی کو طلاق مغلظہ  دینے کے بعد سالی سے نکاح منعقد ہوگیا بشرطیکہ وہ منکوحہ غیر نہ ہو .طلاق مغلظہ دینے کے بعد دوران عدت سابقہ بیوی سے کیا ہوا نکاح از رُوئے شرع سرے سے منعقدہی نہیں ہوا۔ لہذا دونوں  کے درمیان تفریق لازمی ہے 

لقول الله تعالى: { ولا تعزموا عقدة النكاح حتى يبلغ الكتاب أجله } . ولأن العدة إنما اعتبرت لمعرفة براءة الرحم لئلا يفضي إلى اختلاط المياه، وامتزاج الأنساب. وإن تزوجت فالنكاح باطل، لأنها ممنوعة من النكاح لحق الزوج الأول، فكان نكاحا باطلا، كما لو تزوجت وهي في نكاحه، ويجب أن يفرق بينه وبينها. انتهى.

فتاوی ہندیہ  میں ہے:

"‌لا ‌يجوز ‌للرجل ‌أن ‌يتزوج زوجة غيره وكذلك المعتدة، كذا في السراج الوهاج. سواء كانت العدة عن طلاق أو وفاة أو دخول في نكاح فاسد أو شبهة نكاح، كذا في البدائع."

(كتاب النكاح،الباب الثالث في بيان المحرما،القسم السادس المحرمات التي يتعلق بها حق الغير،280/1دار الفكر بيروت)


Sunday 23 June 2024

عیدین میں تکبیرات چھوٹنے پرنماز کیسے پوری کریں

 جو شخص عیدین کی نماز میں امام کے تکبیرات زوائد کہنے کے بعد شامل ہو اور اس کی پہلی رکعت کی تکبیرات چھوٹ گئی ہوں تو اس کے لیے حکم یہ ہے کہ وہ تکبیر تحریمہ کہنے کے فوراً بعد تکبیراتِ زوائد کہہ لے، اگرچہ امام قرأت شروع کر چکا ہو، اور اگر امام رکوع میں ہو تو اگر تکبیراتِ زوائد کہہ کر رکوع   ملنے کی امید ہو تو تکبیراتِ زوائد کہہ کر رکوع میں جائے ورنہ رکوع میں جاکر تکبیرات زوائد کہہ لے۔

اگر عیدین کی نماز میں کسی کی پہلی رکعت چھوٹ جائے تو وہ امام کے سلام کے بعد کھڑے ہوکر پہلے ثناء، اعوذ باللہ من الشیطان الرجیم، بسم اللہ الرحمٰن الرحیم پڑھ کر سورہ فاتحہ اور کوئی سورت پڑھے، پھر تین تکبیرات زوائد کہہ کر رکوع کرے، اور بقیہ نماز پوری کرے۔ فتویٰ اسی پر ہے، علامہ شامی رحمہ اللہ وغیرہ نے یہی طریقہ لکھاہے۔

البتہ مفتی اعظم پاکستان مفتی ولی حسن صاحب رحمہ اللہ نے عیدین کی نماز کی ایک رکعت نکل جانے کی صورت میں  اسی ترتیب پر ادا کرنے کی اجازت لکھی ہے جس ترتیب پر عام نماز ادا کی جاتی ہے، یعنی پہلے ثناء پڑھے، پھر تکبیرات اور پھر تعوذ وتسمیہ پھر تلاوت۔ لہٰذا اگر کسی شخص نے اس ترتیب کے مطابق چھوٹی گئی رکعت ادا کرلی تو اس کی گنجائش ہوگی۔

الفتاوى الهندية (1/ 151)

"قال محمد - رحمه الله تعالى - في الكبير: ولو أن رجلاً دخل مع الإمام في صلاة العيد في الركعة الأولى بعدما كبر الإمام تكبير ابن عباس - رضي الله تعالى عنهما - ست تكبيرات، فدخل معه وهو في القراءة والرجل يرى تكبيرات ابن مسعود - رضي الله عنهما - فإنه يكبر برأي نفسه في هذه الركعة حال ما يقرأ الإمام، وفي الركعة الثانية يتبع رأي الإمام، كذا في التتارخانية. ولو انتهى رجل إلى الإمام في الركوع في العيدين فإنه يكبر للافتتاح قائماً، فإن أمكنه أن يأتي بالتكبيرات ويدرك الركوع فعل، ويكبر على رأي نفسه، وإن لم يمكنه ركع واشتغل بالتكبيرات عند أبي حنيفة ومحمد - رحمهما الله تعالى -، هكذا في السراج الوهاج. ولا يرفع يديه إذا أتى بتكبيرات العيد في الركوع، كذا في الكافي، ولو رفع الإمام رأسه بعدما أدى بعض التكبيرات فإنه يرفع رأسه ويتابع الإمام وتسقط عنه التكبيرات الباقية، كذا في السراج الوهاج. ولو أدركه في القومة لا يقضي فيها؛ لأنه يقضي الركعة الأولى مع التكبيرات"۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2/ 173)

"(ولو أدرك) المؤتم (الإمام في القيام)  بعدما كبر (كبر) في الحال برأي نفسه؛ لأنه مسبوق، ولو سبق بركعة يقرأ ثم يكبر؛ لئلا يتوالى التكبير، (فلو لم يكبر حتى ركع الإمام قبل أن يكبر) المؤتم (لا يكبر) في القيام (و) لكن (يركع ويكبر في الركوع) على الصحيح؛ لأن للركوع حكم القيام فالإتيان بالواجب أولى من المسنون۔

Saturday 22 June 2024

شھیدکے اقسام

 بنیادی طور پر شہید کی دو قسمیں ہیں:حقیقی اور حکمی۔

حقیقی شہید وہ کہلاتا ہے جس پر شہید کے دنیوی احکامات لاگو ہوتے ہوں کہ اس کو غسل وکفن نہیں دیا جائے گا اور جنازہ پڑھ کر ان ہی کپڑوں میں دفن کر دیا جائے جن  میں شہید ہوا ہے ، مثلاً اللہ کے راستہ میں شہید ہونے والا، یا کسی کے ہاتھ ناحق قتل ہونے والا بشرطیکہ وہ بغیر علاج معالجہ اور وصیت وغیرہ موقع پر ہی دم توڑجائے۔

اور حکمی شہید وہ کہلاتا ہے جس کے بارے میں احادیث میں شہادت کی بشارت وارد ہوئی ہو، ایسا شخص آخرت میں تو شہیدوں کی فہرست میں شمار کیا جائے گا ، البتہ دنیا میں اس پر عام میتوں والے احکام جاری ہوں گے،  یعنی اس کو غسل دیا جائے گا اور کفن بھی پہنایا جائے گا۔

متفرق احادیث میں ایسے شہداء کی چالیس سے زیادہ قسمیں مذکور ہیں،تمام  اقسام کےاحاطے کی یہاں گنجائش نہیں، ان میں سے چند یہ ہیں:

ڈوب کر موت آئے یا کسی آسمانی آفت میں اس کی موت آجائے یا ہیضہ ،طاعون یا دیگر ایسے اسباب سے اس کی موت واقع ہو یا مسافر کا سفر میں انتقال ہوجائے وغیرہ۔

علامہ ابن عابدین شامی رحمہ اللہ نے حاشیہ رد المحتار میں تمام اقسام کو جمع کیا ہے 

الموسوعة الفقهية میں ہے:

لا يُغَسَّلُ الشَّهيدُ الذي مات مِنَ المسلمينَ في جهادِ الكُفَّارِ بسببٍ من أسبابِ قتالِهم قبل انقضاءِ الحَرْبِ، وذلك باتِّفاقِ المذاهِبِ الفقهيَّةِ الأربعةِ: الحَنفيَّة، والمالِكيَّة، والشَّافعيَّة، والحَنابِلَة



خلفائے راشدین کی ترتیب

 رسول اللہ صلی اللہ  علیہ والہ وسلم  کے پردہ فرما جانے کے بعد  امت (جميع صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین)  نے حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ  کو بطورِ خلیفہ انتخاب  کیا، اور حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ  نے وصال سے قبل   حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو بلا کر بطورِ وصیت  اپنے ولی عہد  کا نام لکھوا دیا، آپ کے وصال کے بعد تمام صحابہ رضی اللہ عنہم  سے دریافت  کیا گیا کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے  جس شخصیت کے بارے میں خلیفہ مقرر کرنے کی وصیت کی ہے، اس سے سب متفق ہیں؟ جس پر سب نے اتفاق کیا، یوں حضرت عمر رضی اللہ عنہ خلیفہ ثانی مقرر ہوئے،  حضرت عمر رضی اللہ عنہ  کی شہادت کے بعد خلیفہ ثالث  کے انتخاب کی ذمہ داری چھ کبار صحابہ (  حضرت عثمان ، حضرت علی،  حضرت عبد الرحمن بن عوف،  حضرت طلحہ، حضرت زبیر،  اور حضرت سعد بن ابی وقاص  رضی اللہ  عنہم ) کے سپرد  ہوئی، ان چھ حضرات نے خلیفہ ثالث  کے انتخاب کا اختیار حضرت عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ  کو  دے دیا، یوں حضرت عثمان رضی اللہ عنہ خلیفہ ثالث مقرر ہوئے،  حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت  کے بعد  کبار صحابہ  انصار و مہاجرین  رضی اللہ عنہم نے حضرت علی کرم اللہ وجہہ  کے ہاتھ پر بیعت فرمائی، یوں حضرت علی رضی اللہ عنہ  خلیفہ  رابع مقرر ہوئے،پس  خلفائے راشدین کا انتخاب    باجماع صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم تکوینی طور پر ہوا تھا، رہی یہ بات کہ خلفاء اربعہ کی ترتیب اس طرح کیوں ہے ، تو اس کا تعلق تکوینی امور  سے ہے،اس کی حکمت کا علم اللہ تعالی کو ہے، اس طرح کی بحث میں پڑنا جس میں نہ دنیوی اور نہ ہی اخروی فائدہ ہو، لایعنی وبے فائدہ ہے۔


شرح العقائد النسفية میں ہے:

"وخلافتهم أي نيابتهم عن الرسول في إقامة الدين، بحيث يجب على كافة الأمم الاتباع، على هذا الترتيب أيضا، يعني أن الخلافة بعد رسول الله عليه السلام لأبي بكر، ثم لعمر، ثم لعثمان، ثم لعلي، وذلك لأن الصحابة قد اجتمعوا يوم توفي رسول عليه السلام في سقيفة بني ساعدة، واستقر رأيهم بعد المشاورة والمنازعة على خلافة أبي بكر رضي الله عنه، فاجمعوا على ذلك وبايعه علي رؤس الأشهاد بعد توقف كان منه، ولو لم تكن الخلافة حقا له لما اتفق عليه الصحابة، و لنازعه علي كما نازع معاوية، ثم إن أبا بكر رضي الله عنه ولا احتج عليهم لو كان في حقه نص، كما زعمت الشيعة، و كيف يتصور في حق أصحاب رسول الله عليه السلام الإتفاق علي الباطل، و ترك العمل بالنص الوارد، ثم إن أبا بكر لما يئس من حياته، دعا عثمان، و أملى عليه كتاب عهده لعمر رضي الله عنه فلما كتب ختم الصحيفة و اخرجها الي الناس، وأمرهم أن يبايعوا لمن في الصحيفة، فبايعوا حتي مرت بعلي فقال: بايعنا لمن فيها و إن كان عمر، و بالجملة وقع الإتفاق علي خلافته، ثم استثهد عمر، وترك الخلافة شورى بين ستة: عثمان، وعلي، وعبد الرحمن بن عوف، وطلحة، وزبير، وسعد ابن أبي وقاص رضي الله عنهم، ثم فوض الأمر خمستهم إلى عبد الرحمن بن عوف، ورضوا بحكمه، فاختار عثمان، وبايعه بمحضر من الصحابة، فبايعوه وانقادوا لأوامره و صلوا معه الجمع و الأعياد، فكان اجماعا، ثم استثهد وترك الأمر مهملا، فأجمع كبار المهاجرين و الأنصار على علي رضي الله عنه، والتمسوا منه قبول الخلافة وبايعوه، لما كان أفضل أهل عصره وأولاهم بالخلافة."

( ص:150-152، ط: المصباح)

Wednesday 19 June 2024

سفرکی فوت شدہ نمازکیسے پڑھیں

 سفرِ شرعی  میں فوت شدہ نماز حضر (حالتِ اقامت )میں بھی قصر کی صورت میں پڑھی جائے گی، مثلاً سفر  میں چار رکعات والی نماز دو رکعت پڑھی جاتی ہے تو حضر (حالتِ اقامت )میں اس کی قضا بھی دو رکعتوں کی صورت میں کی جائے گی،الغرض جیسی  نماز قضاء ہوتی ہے،اسی طرح ادا ہوگی،قصر کی قصر،اور حضر کی حضر ۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2/ 131):

"(والمعتبر في تغيير الفرض آخر الوقت) وهو قدر ما يسع التحريمة (فإن كان) المكلف (في آخره مسافرا وجب ركعتان وإلا فأربع) لأنه المعتبر في السببية عند عدم الأداء قبله.

 (قوله: والمعتبر في تغيير الفرض) أي من قصر إلى إتمام وبالعكس (قوله: وهو) أي آخر الوقت قدر ما يسع التحريمة، كذا في الشرنبلالية والبحر والنهر، والذي في شرح المنية تفسيره بما لايبقى منه قدر ما يسع التحريمة وعند زفر بما لا يسع فيه أداء الصلاة (قوله: وجب ركعتان) أي وإن كان في أوله مقيما وقوله: وإلا فأربع أي وإن لم يكن في آخره مسافرا بأن كان مقيماً في آخره فالواجب أربع. قال في النهر: وعلى هذا قالوا: لو صلى الظهر أربعاً ثم سافر أي في الوقت فصلى العصر ركعتين ثم رجع إلى منزله لحاجة فتبين أنه صلاهما بلا وضوء صلى الظهر ركعتين والعصر أربعاً لأنه كان مسافراً في آخر وقت الظهر ومقيماً في العصر (قوله: لأنه) أي آخر الوقت. (قوله: عند عدم الأداء قبله) أي قبل الآخر.

ایام تشریق میں قضاء نماز پڑھیں تو تکبیر پڑھیں گے کہ نہیں

 ایامِ تشریق میں اگر کوئی نماز قضاہوئی اور اس کی قضا اسی سال ایام تشریق میں کی گئی تو اس نماز کے فوراً  بعد تکبیراتِ تشریق پڑھنا ضروری ہوگا، تاہم اگر سابقہ فوت شدہ نماز ایامِ تشریق میں پڑھی گئی، یا ایامِ تشریق میں فوت شدہ نماز ایامِ تشریق گزرنے کے بعد قضا کی گئی تو تکبیرات نہیں پڑھی جائیں گی۔ جیساکہ "فتاوی ہندیہ" میں ہے:

"ومن نسي صلاة من أيام التشريق فذكرها في أيام التشريق من تلك السنة قضاها و كبرها، كذا في الخلاصة". (١/ ١٥٢، ط: رشيدية) ۔ فقط 

١٣,ذوالحج کو قربانی کرسکتے ہیں کہ نہیں

 عید  کے  چوتھے دن یعنی 13 ذو الحجہ کے دن قربانی کرنا معتبر نہیں ہے؛  اس لیے  کہ  حضرت عمر، حضرت علی، حضرت ابن عباس، حضرت ابنِ عمر اور حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہم جیسے جلیل القدر صحابۂ کرام سے مروی ہے کہ قربانی کے تین دن ہیں اور پہلے دن قربانی کرنا افضل ہے۔ اور یہ بات واضح ہے کہ عبادات کے مخصوص اوقات صحابہ کرام خود سے نہیں، بلکہ نبی کریم ﷺ  کے بیان کی روشنی میں بتاتے تھے۔

بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (5 / 65):

"وأيام النحر ثلاثة: يوم الأضحى - وهو اليوم العاشر من ذي الحجة - والحادي عشر، والثاني عشر وذلك بعد طلوع الفجر من اليوم الأول إلى غروب الشمس من الثاني عشر، وقال الشافعي - رحمه الله تعالى -: أيام النحر أربعة أيام؛ العاشر من ذي الحجة والحادي عشر، والثاني عشر، والثالث عشر، والصحيح قولنا لما روي عن سيدنا عمر وسيدنا علي وابن عباس وابن سيدنا عمر وأنس بن مالك - رضي الله تعالى عنهم - أنهم قالوا: أيام النحر ثلاثة أولها أفضلها، والظاهر أنهم سمعوا ذلك من رسول الله صلى الله عليه وسلم؛  لأن أوقات العبادات والقربات لا تعرف إلا بالسمع فإذا طلع الفجر من اليوم الأول فقد دخل وقت الوجوب فتجب عند استجماع شرائط الوجوب."


والقول بأن وقت الذبح يختص بيوم النحر ـ فقط ـ هو قول محمد بن سيرين ـ رحمه الله ـ وهو خلاف قول الجماهير، والحجة مع من قال إن وقت الذبح يمتد إلى آخر أيام التشريق، فقد روى أحمد في مسنده من حديث جبير بن مطعم ـ رضي الله عنه ـ أنه صلى الله عليه وسلم قال: وكل أيام التشريق ذبح.

قال الإمام المحقق ابن القيم ـ رحمه الله ـ مبينا رجحان هذا القول وخلاف العلماء في المسألة ما عبارته: وقد قال علي بن أبي طالب ـ رضي الله عنه: أيام النحر: يوم الأضحى وثلاثة أيام بعده ـ وهو مذهب إمام أهل البصرة الحسن، وإمام أهل مكة عطاء بن أبي رباح، وإمام أهل الشام الأوزاعي، وإمام فقهاء أهل الحديث الشافعي ـ رحمه الله ـ واختاره ابن المنذر، ولأن الثلاثة تختص بكونها أيام منى وأيام الرمي وأيام التشريق ويحرم صيامها فهي إخوة في هذه الأحكام فكيف تفترق في جواز الذبح بغير نص ولا إجماع، وروي من وجهين مختلفين يشد أحدهما الآخر عن النبي صلى الله عليه وسلم أنه قال: كل منى منحر وكل أيام التشريق ذبح ـ وروي من حديث جبير بن مطعم ـ وفيه انقطاع ـ ومن حديث أسامة بن زيد عن عطاء عن جابر قال يعقوب بن سفيان: أسامة بن زيد عند أهل المدينة ثقة مأمون، وفي هذه المسألة أربعة أقوال هذا أحدها.

والثاني: أن وقت الذبح يوم النحر ويومان بعده، وهذا مذهب أحمد ومالك وأبي حنيفة ـ رحمهم الله ـ قال أحمد: هو قول غير واحد من أهل أصحاب محمد صلى الله عليه وسلم وذكره الأثرم عن ابن عمر وابن عباس ـ رضي الله عنهم.

الثالث: أن وقت النحر يوم واحد وهو قول ابن سيرين، لأنه اختص بهذه التسمية فدل على اختصاص حكمها به ولو جاز في الثلاثة لقيل لها: أيام النحر كما قيل لها: أيام الرمي وأيام منى وأيام التشريق، ولأن العيد يضاف إلى النحر وهو يوم واحد كما يقال: عيد الفطر.

الرابع: قول سعيد بن جبير وجابر بن زيد: أنه يوم واحد في الأمصار وثلاثة أيام في منى، لأنها هناك أيام أعمال المناسك من الرمي والطواف والحلق فكانت أياماً للذبح بخلاف أهل الأمصار. انتهى.

Tuesday 18 June 2024

قربانی کتنے دن کرسکتے ہیں

 :ایامِ اضحیہ (یعنی قربانی کے ایام) تین ہیں:  دس، گیارہ  اور  بارہ  ذی الحجہ (یعنی عید کا پہلا، دوسرا اور تیسرا دن)، لہٰذا  عید  کے چوتھے دن (یعنی ۱۳ ذی الحجہ کے دن)  قربانی کرنا معتبر نہیں ہے؛  اس لیے  کہ  حضرت عمر، حضرت علی، حضرت ابن عباس، حضرت ابنِ عمر اور حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہم جیسے جلیل القدر صحابۂ کرام سے مروی ہے کہ قربانی کے تین دن ہیں اور پہلے دن قربانی کرنا افضل ہے۔ اور یہ بات واضح ہے کہ عبادات کے مخصوص اوقات صحابہ کرام خود سے نہیں، بلکہ نبی کریم ﷺ  کے بیان کی روشنی میں بتاتے تھے۔ اگر کوئی شخص قربانی کے ایّام میں جانور ذبح نہیں کرسکا، تو اس کے بعد صدقہ کرنا ضروری ہے۔

2: امام محمد بن ادریس الشافعی رحمہ اللہ  عید کے چوتھے دن (یعنی تیرہ ذوالحجہ) بھی  قربانی کے درست ہونے کے قائل  ہیں، ان کی دلیل حضرت علی  و عباس  رضی اللہ عنہما سے مروی روایت ہے :

" کُلُّ اَیَّامِ التَّشرِیقِ ذِبح.

(موارد الظمآن ، ص:249، ط:المکتبة السلفیة)

یعنی ایامِ  تشریق سب قربانی کے دن ہیں ،  جب کہ احناف  رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ  صحیح قول وہی ہے جو   حضرت  علی، عمر، ابوہریرہ، انس ، ابن عباس ، ابن عمر رضوان اللہ علیہم اجمعین  سے مروی ہے کہ" أيام النحر ثلاثة، أولها أفضلها"،  (قربانی کےدن تین ہیں، اور ان میں پہلا افضل ہے) اور  اسی قول کو جمہور  نے  قبول کیا ہے؛کیوں کہ قربانی ایک  عبادت ہے اور عبادات کے لیے اوقات کی پہچان سماع  سے ہوتی ہے،باقی  جو  دلیل حضرت عباس وعلی رضی اللہ عنہما کے حوالے سے مذکور ہے، تو ان کا یہ قول مجمل ہے، جس کی  تشریح  خود ان ہی کے قول : "أيام النحر ثلاثة، أولها أفضلها" سے ہورہی  ہے، یعنی حضرت علی  اور حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما  سے ہی تمام ایامِ تشریق میں ذبح کی روایت موجود ہے، جب کہ آپ  دونوں رضی اللہ عنہما  ہی سے ایامِ نحر کی تحدید تین دن منقول ہے، لہٰذا معلوم ہوا کہ  ان دونوں صحابہ رضی اللہ عنہما کے ہاں بھی قربانی کے تین دن ہیں، البتہ ایامِ تشریق میں چوں کہ حجاجِ کرام منٰی اور حدودِ حرم میں ہی ہوتے ہیں تو  عرب اس میں جانور ذبح کرنے کا اہتمام کرتے تھے، اس کی اجازت اس روایت میں منقول ہے۔

بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع میں ہے:

"وأيام النحر ثلاثة: يوم الأضحى - وهو اليوم العاشر من ذي الحجة - والحادي عشر، والثاني عشر وذلك بعد طلوع الفجر من اليوم الأول إلى غروب الشمس من الثاني عشر، وقال الشافعي - رحمه الله تعالى -: أيام النحر أربعة أيام؛ العاشر من ذي الحجة والحادي عشر، والثاني عشر، والثالث عشر، والصحيح قولنا؛ لما روي عن سيدنا عمر وسيدنا علي وابن عباس وابن سيدنا عمر وأنس بن مالك - رضي الله تعالى عنهم - أنهم قالوا: أيام النحر ثلاثة أولها أفضلها، والظاهر أنهم سمعوا ذلك من رسول الله - صلى الله عليه وسلم - لأن أوقات العبادات والقربات لا تعرف إلا بالسمع".

(کتاب التضحیة، فصل في وقت وجوب الأضحية، ج:5، ص:65، ط:دارالکتب العلمیة)

الموسوعة الفقهية  میں ہے:

"ذهب الحنفية و المالكية و الحنابلة إلى أن أيام التضحية ثلاثة، و هي يوم العيد، و اليومان الأولان من أيام التشريق، فينتهي وقت التضحية بغروب شمس اليوم الأخير من الأيام المذكورة ، و هو ثاني أيام التشريق.و احتجوا بأن عمر وعليًّا و أبا هريرة و أنسًا و ابن عباس و ابن عمر رضي الله عنهم أخبروا أن أيام النحر ثلاثة .و معلوم أن المقادير لايهتدى إليها بالرأي ، فلا بد أن يكون هؤلاء الصحابة الكرام أخبروا بذلك سماعًا.

وقال الشافعية - وهو القول الآخر للحنابلة واختاره ابن تيمية - أيام التضحية أربعة ، تنتهي بغروب شمس اليوم الثالث من أيام التشريق ، وهذا القول مروي عن علي وابن عباس رضي الله عنهم أيضا ، ومروي كذلك عن جبير بن مطعم رضي الله عنه ، وعن عطاء والحسن البصري وعمر بن عبد العزيز وسليمان بن موسى الأسدي ومكحول . وحجة القائلين بهذا قوله عليه الصلاة والسلام :كُل أَيَّامِ التَّشْرِيقِ ذَبْح".

(اضحیة، نهاية وقت التضحية، ج:5، ص:93، ط:امیرحمزہ کتب خانه)

ایام تشریق کون کون سے ہیں

 ایام تشریق  چار دن ہیں، دس ذی الحجہ سے تیرہ ذی الحجہ تک، البتہ   تکبیرات "الله أكبر الله أكبر لا إله لا الله والله أكبر الله أكبر ولله الحمد" نو ذی الحجہ کی فجر سے ایامِ تشریق کے آخری دن یعنی 13 ذی الحجہ کی شام تک پڑھی جاتی ہیں، ان ایام میں 9تاریخ کے سوا باقی سارے ایام،  ایامِ تشریق ہیں، اس لیے تغلیباً  (یعنی اکثر دنوں کا اعتبار کرتے ہوئے) ان تکبیرات کو تکبیراتِ تشریق کہتے ہیں، اگرچہ ان  تکبیرات کے حکم میں ایک دن ایامِ تشریق سے پہلے کا (یعنی نو ذی الحجہ ) بھی شامل ہے۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2 / 177):

" مَطْلَبٌ فِي تَكْبِيرِ التَّشْرِيقِ

(قَوْلُهُ: وَيَجِبُ تَكْبِيرُ التَّشْرِيقِ) نُقِلَ فِي الصِّحَاحِ وَغَيْرِهِ أَنَّ التَّشْرِيقَ تَقْدِيدُ اللَّحْمِ وَبِهِ سُمِّيَتْ الْأَيَّامُ الثَّلَاثَةُ بَعْدَ يَوْمِ النَّحْرِ. وَنَقَلَ الْخَلِيلُ بْنُ أَحْمَدَ وَالنَّضْرُ بْنُ شُمَيْلٍ عَنْ أَهْلِ اللُّغَةِ أَنَّهُ التَّكْبِيرُ فَكَانَ مُشْتَرَكًا بَيْنَهُمَا وَالْمُرَادُ هُنَا الثَّانِي"

يقول الدكتور عبد الرحمن العدوي أستاذ الفقه بجامعة الأزهر:

فإن أيام التشريق هي الأيام الثلاثة بعد يوم النحر، أي أنها أيام الحادي عشر، والثاني عشر، والثالث عشر من شهر ذي الحجة، وهي الأيام المعدودات التي أمر الله تعالى بذكره فيها في قوله جل شأنه: (واذكروا الله في أيام معدودات فمن تعجل في يومين فلا إثم عليه ومن تأخر فلا إثم عليه لمن اتقى واتقوا الله واعلموا أنكم إليه تحشرون) وهذه الأيام هي التي يبيت الحجيج لياليها في منى، فيبيتون ليلة الحادي عشر من شهر ذي الحجة، والثاني عشر، ومن تعجل يغادر “منى” في يوم الثاني عشر بعد أن يرمي الجمرات بعد الزوال، ومن لم يتعجل يبيت ليلة الثالث عشر، ويرمي الجمرات بعد الزوال في يوم الثالث عشر، ثم يغادر منى بعد ذلك. وهذه الأيام الثلاثة بعد يوم الأضحى هي أيام أكل وشرب وذكر لله ـ عز وجل ـ كما قال رسول الله ـ ﷺ ـ وهذه الأيام المعدودات غير الأيام المعلومات التي جاء ذكرها في قول الله تعالى: (ليشهدوا منافع لهم ويذكروا اسم الله في أيام معلومات على ما رزقهم من بهيمة الأنعام فكلوا منها وأطعموا البائس الفقير).

قال البخاري: وقال ابن عباس: واذكروا الله في أيام معلومات أيام العشر يعني أيام العشر من شهر ذي الحجة. والأيام المعدودات أيام التشريق.

قال وكان ابن عمر وأبو هريرة يخرجان إلى السوق أيام العشر يكبران، ويكبر الناس بتكبيرهما، قال: وكان عمر يكبر في قبته بمنى، فيسمعه أهل المسجد فيكبرون، ويكبر أهل الأسواق حتى ترتج منى تكبيرًا.