Authentic Islamic authority, seek here knowledge in the light of the Holy Quran and Sunnah, moreover, free PDFs of Fiqh, Hadith, Indo_Islamic topics, facts about NRC, CAA, NPR, other current topics By الدکتور المفتی القاضی محمد عامر الصمدانی القاسمی الحنفی السنجاری بن مولانا رحیم خان المعروف بر حیم بخش بن الحاج چندر خان بن شیر خان بن گل خان بن بیرم خان المعروف بیر خان بن فتح خان بن عبدالصمد المعروف بصمدخان
یہ لاشہائے بے کفن یہ ٹوٹے پھوٹے جسم وتن
بھلاسا ان کو نام دویہ زیست ہے نہ مرگ تن
شعور ہست وبود کے وہ نکتہائے خفیہ سن
جنہیں ملک نہ کہہ سکے وہ راز کہہ گیا کفن
تری نگاہ میں حیات سلسۂ نفس سے ہے
حیات جاودان دیکھ,یہی ہے اس کا بانکپن
تونوحہ کر سلام لکھ نہ مرثیہ سنا انہیں
نقش دوام بن گئے جو لاشہائے بے کفن
بی جے پی آر ایس ایس اور دیگر مذہب کے نام پر لوگو ں کےبرین واش کرنے والی پارٹیوں نے اتنا زہر اگلا, اتنی نفرت پھیلائی کہ سب سے پہلے وہ اسی نام پر اقتدار میں آئے اورپھردوبارہ لوگوں کو بیوقوف بنایا پھر اقتدار میں آگئے انہوں نے ہندومسلم میں نفرت پیداکی ذہنوں کو بدلا حتی کہ وہ لوگ جن کے مذہب میں چینوٹی کامارنابھی پاپ تھا وہ کھلے عام انسانوں کو مارتے, قتل پر اکساتے بلاوجہ صرف اپنی اکثریت کے زعم میں مارنے کی دھمکی دیتے ہیں اور کھلے عام ایسی باتیں کرتے جو ایک جنونی پاگل ہی کرسکتا ہے.افسوس کی بات یہ ہے کہ وزیر اعظم خوداتنے زہریلے ہیں کہ تین دن بعد وہ قتل عام پر امن شانتی برقرار رکھنے کی اپیل ٹوٹیٹ کرتے ہیں جوذراذراسی باتوں کے ٹویٹ کرتے رہتے ہیں اب اظہارتاسف کے لئے انہیں تین دن بعد وقت ملتاہے,بی جے پی اسے مذہب یا ملک کی خدمت سے اگر تعبیر کرتی ہےتو یہ بھی عوام, ملک اور اپنے ضمیر کو کھلا دھوکہ دینا ہے .گجرات کے فسادات بھی اسی طرز پر ہوئے تھے تب مودی وزیر اعلی تھے.آج وزیر داخلہ وہ ہیں جو کبھی مثبت بات ہی نہیں کرتے سی اے اے انہیں کے دماغ کی اپج ہے.جس کے خلاف آئین وسیکولرازم سے محبت کرنے والے پرامن لوگ احتجاج کرتے رہیں گے
دہلی پولیس بی جی پی کی نگرانی میں کام کرتی ہے اسی کا نتیجہ ہے کہ پولیس نے ملک کے ساتھ اور عوام کے ساتھ غداری کی .ان کا کام عوام کی حفاظت ہے لیکن انہوں جیساکہ ویڈیو فوٹیج سے ظاہر ہےفساد روکنے کے بجائے فسادیوں کا ساتھ دیا.بی جے پی کے لوگوں کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی.ایک جج نے اس کے خلاف ایکشن کی بات کی تو حکومت نے اس کا تبادلہ کردیا.جس ملک میں عدلیہ ہی آزاد نہ ہو ججز آزادانہ فیصلے سے ڈرتے ہوں وہاں جمہوریت اور سیکولرازم ٹوٹی پھوٹی حالت میں ہوتے ہیں یہ طاقت اور اقتدار کا غلط استعمال نہیں ؟طاقت کا غلط استعمال ملک کے ساتھ غداری نہیں؟ قانون کی پاسداری اور اس کی حفاظت کی قسم کھاکر اقتدار کی کرسی پر براجمان ہونے والے یہ بھول گئے کہ ہم جو کام کررہے ہیں وہ انسانیت کے خلاف ایک جرم ہے.ملک کے قانون کے خلاف بھیدبھاؤکرنااپنے قانون توڑیں تو ان کے خلاف ایکشن نہ لینا اور دوسرے اگر آہ بھی کریں تو ان کاعرصۂ حیات تنگ کردیناملک کے آئین کے ساتھ غداری نہیں؟
لوگوں کو نفرت اور تقسیم کے سبق سکھانے والے حقیقتاََ انسانیت کے دشمن,ملک کے غدار قانون توڑنے والےہیں ایسے لوگوں کو اتنے اہم منصب پر بیٹھنے کے بعداپنا دماغ وسیع کرنا چاہئے. اپنے لئے نہیں تو اپنی کرسی ہی کی عزت ہی کے لئے سہی,لیکن بی جے پی آرایس ایس اور اس سے جڑی پارٹیوں نے ہمیشہ نفرت کی بات کی ,آج پوری دنیا میں ان کی باتوں اور ان کے قول وفعل کے تضاد کو دیکھ کر انسانیت بار بار شرمسار ہورہی ہے. کہتے ہیں سب کا ساتھ سب کا وکاس ,لیکن کام وکاس کے نہیں وناش کے کئے,اکثریت کو خوش کرنے کے لئے سی اے اے بنایا جو حقیقتاََ اسلام اور مسلمانوں کی توہین ہے.کیونکہ مسلمانوں کو اس میں شامل نہیں کیا گیا.جب کہ ہندوستان میں مذہب کی بنیادپر شہریت دینے کی کبھی روایت نہیں رہی کیونکہ یہ ایک سیکولر ملک ہے. حقیقت یہ ہے کہ موجودہ حکومت سیکولرازم کو پاش پاش کرکے منوواد لانا چاہتی ہے.جوقانون پر چلنے والے سیکولر بھارتیوں کو منظور نہیں.
.اسی لئے وہ پرامن احتجاج کررہے ہیں , ایسے نہتے لوگوں پر صرف اس وجہ سے حملہ کرنا مارنا اورپولس کا تماشائی بن کر کھڑے دیکھنا انسانیت سے گری ہوئی حرکت ہے.یہ اپنے مذہب کی بھی توہین ہے کوئی سچا مذہبی انسان کسی بے گناہ کا قتل نہیں کرسکتا
بدھ کی دوپہر کے بارہ بجے شہر کے شمال مشرقی علاقے میں بھڑکنے والی آگ کے تیسرے دن برجپوری علاقے میں عجیب سا سناٹا تھا۔ دور دور تک پولیس کی گشت کرتی گاڑیوں کی آواز کے علاوہ کچھ بھی سنائی نہیں دے رہا تھا۔
گلیوں کے راستے ملبے کے ڈھیر سے بھرے ہوئے تھے۔ کچھ گلیوں میں نوجوان اور ادھیڑ عمر کے لوگ آنکھوں میں سوالیہ نشان لیے بیٹھے تھے۔
پولیس کی موجودگی دیکھ کر محسوس ہوتا تھا کہ اس طرح کی تیاری اگر دو روز پہلے کی گئی ہوتی تو اس طرح کے حالات نہ ہوتے۔
سناٹے کو چیرتی ہوئی ایک چیخ کان میں پڑی تو میں اس آواز کی سمت میں بڑھ گئی۔ جن تنگ گلیوں کی طرف سے یہ آواز آئی وہاں پولیس بھی کھڑی تھی۔ گلیوں میں سناٹا بیتی رات کی چیخوں کو خود میں سمیٹے ہوئے تھا۔
میں برجپوری کی گلی نمبر 5 میں پہنچی جہاں سے گزشتہ رات اس گلی کی ایک رہائشی کے جوان بیٹے کو ان کی آنکھوں کے سامنے اٹھا لیا گیا تھا۔ 22 سالہ مہتاب ذہنی مریض تھے۔ منگل کی دوپہر تین سے چار بجے کے درمیان وہ دودھ لینے نکلے تھے لیکن واپس نہیں آ سکے۔
مہتاب کی بھابھی کو آج تک گرو تیغ بہادر ہسپتال سے ان کی لاش نہیں ملی۔ مہتاب کی ماں نے روتے ہوئے بتایا ’بچہ تھا وہ، میں نے بولا تھا مت جا باہر لیکن چائے پینے کی ضد میں پیسے لے گیا۔ اچانک اتنا شور مچا کہ سبھی ڈر گئے۔ گلی کے گیٹ پر تالا لگا دیا گیا۔ میرا بچہ باہر رہ گیا۔ کسی نے گیٹ نہیں کھولا۔ میں اس سے بات کر رہی تھی کہ اگلی گلی سے اندر آ جا لیکن اتنے میں ہیلمٹ پہنے اور ہاتھوں میں ڈنڈے لیے لوگوں کی بھیڑ نے میرے بیٹے کو اٹھا لیا۔‘
اس کے تھوڑی دیر بعد مہتاب کی بہن شازیہ کو فون پر کال آئی کہ ’تمہارے بھائی کو آگ کے حوالے کر دیا ہے۔‘ اس کے کچھ دیر بعد ایک دوسرے نمبر سے فون آیا کہ وہ مدینہ کلینک میں ہے۔‘
یاسمین بتاتی ہیں کہ مہتاب کو پہلے ڈنڈوں اور نوکیلے ہتھیاروں سے پیٹا گیا اور پھر اسے زندہ جلا دیا گیا۔ ’اب تک ہسپتال سے مہتاب کی لاش نہیں ملی ہے۔‘
پولیس کے حرکت میں آنے کے بعد حالات سوموار اور منگل کے مقابلے میں بہتر تو ہیں لیکن جو منظر آنکھوں کے سامنے ہے، جو زخم لوگوں کے دلوں میں لگے ہیں انھیں نہ تو اجیت ڈوبھال کے دورے بھر پائیں گے اور نہ ہی سرکار کی طرف سے دیکھتے ہی گولی مارنے کا حکم۔‘
گلی سے کچھ قدم کے فاصلے پر الہدیٰ فاروقیہ مدرسہ ہوا کرتا تھا جو اب خاک ہو چکا ہے۔ اس مدرسے کو جلا دیا گیا۔ میں مدرسے کے اندر داخل ہوئی۔ مدرسہ اب بھی سلگ رہا تھا۔ بچوں کی کچھ چپلیں پڑی تھیں، کچھ بستے پڑے تھے جن میں ننھے ہاتھوں نے کتابیں سجائی ہوں گی۔ کتابیں جو ہمیں بہتر انسان بناتی ہیں لیکن قرآن کے صفحات پورے ہال میں پھیلے ہوئے تھے۔ اردو زبان میں لکھی گئی کچھ کتابیں آدھی جلی ہوئی تھیں۔
ایک بسکٹ کا پیکٹ بھی پڑا ہوا تھا، جو شاید کسی بچے کو اس کی ماں نے دیا ہو گا بالکل ویسے ہی جیسے میری ماں مجھے گھر جانے پر گھر کی بنی ہوئی کھانے کی چیزیں باندھ کر دیتی ہے۔ اس مدرسے کے مولوی اور تعلیم حاصل کرنے والے بچے کہاں ہیں اس کے بارے میں کسی کو صحیح معلومات نہیں۔
فسادات میں سب سے زیادہ شرمسار انسانیت ہوتی ہے۔ وہ انسانیت جو آپ کے ہی اندر سہم کر، دبک کر رہ جاتی ہے اور آپ کی حیوانیت دیکھتی ہے۔ ایک جھٹکے میں آپ کا کام، آپ کا کردار بے معنی ہو جاتا ہے۔ آپ کی موت اور زندگی کا دارومدار آپ کے نام پر ہوتا ہے۔
کتاب کے پھٹے ہوئے اور تقریباً جلے ہوئے صفحے کو دیکھ ہی رہی تھی کہ پیچھے سے آواز آئی ’یہاں کسی چیز کو ہاتھ مت لگاؤ۔‘ پلٹ کر دیکھا تو نیو یارک ٹائمز کے فوٹو جرنلسٹ اتل تھے۔ میں انھیں دیکھ کر مسکرا دی۔ اب تک یہاں کئی اور صحافی بھی آ چکے ہیں۔
میں نے قدم تیز کیے اور بھاگیرتھی وہار کی طرف چل پڑی۔ یہاں بھی ہندو اور مسلمانوں کی ملی جلی آبادی رہتی ہے۔ یہاں گلی نمبر چار کے مکان نمبر 94 میں رام آدھار کا خاندان رہتا ہے۔ انھوں نے بتایا کہ وہ پچھلے 30 سال سے یہاں رہ رہے ہیں اور کبھی اپنے آپ کو غیر محفوظ محسوس نہیں کیا۔
ایسے وقت میں جب دو گروپ ایک دوسرے کے خلاف زہر اگل رہے ہوں ایسے میں جب کوئی بھروسے کی بات کرتا ہے تو یہ سن کر کانوں کو بھی اچھا لگتا ہے کہ کہیں تو امید کی ایک لو ہے جو نفرت کو ٹھینگا دکھا رہی ہے۔
شام کے ساڑھے پانچ بج چکے تھے۔ پچھلے 5 گھنٹوں میں میں اس علاقے کی کئی گلیوں میں گھوم چکی تھی۔ بھاگی رتھی وہار کی ایک گلی میں کچھ ہل چل تھی۔ میں وہاں پہنچی تو کچھ لوگ بتا رہے تھے کہ کیسے کچھ باہر سے آنے والے مسلمان ان کے گھروں پر حملے کر رہے ہیں۔
کچھ عورتیں بھی باہر آئیں اور چوٹیں دکھائیں جو ان کے مطابق انھیں منگل کو لگی تھیں۔ ان کی باتیں سن ہی رہی تھی کہ بھیڑ میں شامل ایک عورت نے کہا ’انھیں فرق نہیں پڑتا ہے، ان کے تو دس دس بچے ہوتے ہیں۔ یہ تو مرنے کے لیے بھیج دیں گے لیکن ہمارا تو ایک ہی مر جائے گا تو ۔۔۔‘
ان کے جواب میں میں نے کہہ دیا ’بچہ ایک ہو یا دس، اس کے کھونے کا دکھ کم کیسے ہو گا۔‘
یہ کہنے پر میرے سامنے موجود لوگوں نے بہت ہی جارحانہ روپ اختیار کر لیا۔ مجھ سے میرا شناختی کارڈ مانگنے لگے۔ میرا نام پوچھا جانے لگا۔ صورتحال دیکھ کر میں نے پلٹ کر دیکھا تو میں پوری طرح گھر چکی تھی۔ وہاں کھڑے کچھ لوگوں نے میری تصویر بھی کھینچی۔ ’آپ ہمیں اپنا نام بتایے۔۔۔ کہاں سے ہیں آپ آئی ڈی دکھایے۔‘ بس یہی آواز گونج رہی تھی۔
میں یہ سمجھ چکی تھی کہ یہاں سے نکلنے کے لیے مجھے اپنا نام بتانا ہی ہو گا کیونکہ جس طرح میں گھِر چکی تھی، وہاں سے ان لوگوں کی مرضی کے بغیر نکلنا نا ممکن تھا۔ میں نے اپنا نام بتایا تو ایک لڑکے نے میرا فیس بک اکاؤنٹ کھول کر مجھے دکھایا اور پوچھا ’یہ آپ ہی ہیں۔‘ میں نے بولا ہاں۔ اب ان کے لفظوں کی تلخی ختم ہو چکی تھی۔
وہاں کھڑی عورتیں کہنے لگیں کہ ہم جاننا چاہ رہے تھے کہ آپ کون ہیں۔ مجھے زندگی میں پہلی بار اپنے نام کا اس طرح کا اثر دیکھنے کو ملا۔ مجھے اس گلی سے جانے دیا گیا۔
دنیا میں کوئی بھی ٹریننگ کیا ’ماب لنچنگ‘ یعنی ہجوم کے تشدد سے بچا سکتی ہے؟ یہ سوچتی ہوئی میں اپنی گاڑی تک پہنچی۔ دفتر کے راستے میں جلی ہوئی موٹرسائیکلیں اور کئی کاریں سڑکوں پر پڑی تھیں۔ سکول کی بسوں کو بھیں نہیں چھوڑا گیا جس میں سبھی مذہبوں کے بچے بیٹھ کر سکول جاتے ہوں گے۔