https://follow.it/amir-samdani?action=followPub

Saturday, 16 November 2024

نجاست غلیظہ اور خفیفہ کی مقدار کتنی معاف ہے

  اگر بدن یاکپڑےپر لگنے والی نجاست غلیظہ ہواور نجاست غلیظہ پتلی اور بہنے والی نجاست ہو، جیسے: آدمی کا پیشاب وغیرہ،تو ایسی صورتِ میں پھیلاؤ کا اعتبار ہے، لہذا اگر پھیلاؤ میں ہتھیلی کی گہرائی کے برابر ہے،اوروہ ایک درہم کی مقدار  (یعنی ہاتھ کی ہتھیلی کے گڑھے) سے کم یا ایک درہم کے برابر  ہو تو اگرچہ اس مقدارمیں بھی نجاست کو دھولینا چاہیے، تاہم  اگرکسی کےجسم پراس سےزیادہ ناپاکی لگی ہواوراسےعلم ہوتوناپاکی کی حالت میں نماز پڑھنا مکروہ ہے،لیکن اگراسےناپاکی کاعلم نہ تھااورنماز پڑھ لی توبلاکراہت نماز درست ہوگی،اوراگرایک درہم کی مقدار سے زائد ہوتو   نماز نہیں ہوگی،اگر نجاست غلیظہ گاڑھی ہے، جیسے: پاخانہ وغیرہ تو وزن کا اعتبار ہوگا، لہذا اگر وزن میں ساڑھے چار ماشہ یا اس سے کم ہو، تو معاف ہے، اگر اس مقدار سے زائد ہو، تو معاف نہیں ہے  اور اگربدن یاکپڑےپرلگنےوالی نجاست ِ خفیفہ ہو،جیسے:حرام پرندوں کی بیٹ وغیرہ،تو  بدن یاکپڑےکےجس حصے میں لگی ہو اگر اس حصے کے چوتھائی  سے کم ہو تو معاف ہے،یعنی لاعلمی میں نماز پڑھنے کی صورت میں نماز ہوجاۓ گی، ورنہ جان بوجھ کر پڑھنا مکروہ ہےاور اگر  چوتھائی یا اس سے زیادہ ہو تو معاف نہیں ، نماز توڑ کر نجاست کودھو کرنمازادا کرناواجب ہے،اور اگر اسی طرح نماز پڑھ لی تو  نماز واجب الاعادہ  ہوگی۔ 

فتاویٰ ہندیہ میں ہے:

"وهي نوعان (الأول) المغلظة وعفي منها قدر الدرهم واختلفت الروايات فيه والصحيح أن يعتبر بالوزن في النجاسة المتجسدة وهو أن يكون وزنه قدر الدرهم الكبير المثقال وبالمساحة في غيرها وهو قدر عرض الكف . هكذا في التبيين والكافي وأكثر الفتاوى والمثقال وزنه عشرون قيراطا وعن شمس الأئمة يعتبر في كل زمان بدرهمه والصحيح الأول. هكذا في السراج الوهاج ناقلا."

(كتاب الطهارة، الفصل الثاني في الأعيان النجسة، ج:1، ص:45، ط: دار الفكر بيروت)

Friday, 15 November 2024

اسلام میں لڑکی کی شادی کی عمر کیا ہے

  اسلام میں لڑکے یا لڑکی کے لیے شادی کی کوئی خاص عمر متعین و مقرر  نہیں کی گئی ہے، کسی بھی عمر میں شادی کرائی جاسکتی ہے، البتہ بلوغت سے پہلے لڑکے/ لڑکی خود سے شادی نہیں کرسکتے،  بلکہ  ولی  کو ان کی شادی کرانے کا حق ہوتا ہے، چناں چہ  قرآن پاک میں ہے: 

{وَاللَّائِي يَئِسْنَ مِنَ الْمَحِيضِ مِن نِّسَائِكُمْ إِنِ ارْتَبْتُمْ فَعِدَّتُهُنَّ ثَلَاثَةُ أَشْهُرٍ وَاللَّائِي لَمْ يَحِضْنَ}

 اس آیت میں ان لڑکیوں کی عدت طلاق تین ماہ بیان  کی  گئی  ہے، جن کو ابھی تک حیض نہیں  آیا، ظاہر ہے کہ  عدت کا سوال طلاق کے بعد ہی  ہوسکتا ہے، اور   جب تک  نکاح  صحیح  نہ  ہو  طلاق کا کوئی احتمال ہی نہیں، اس لیے اس آیت  نے نابالغ لڑکیوں کے نکاح کو واضح طور پر جائز قرار دیا ہے، اسی طرح حدیث شریف میں ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی شادی(نکاح) چھ سال کی عمر میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہوئی، ہاں  مباشرت کے حوالے سے اسلام میں یہ قید لگائی گئی ہے اگر لڑکی جماع کی متحمل نہ ہو تو شوہر کو اس سے صحبت کرنے کی اجازت نہیں ہوگی،  اور اگر وہ جماع کی متحمل ہو نیز کسی مرض کا اندیشہ بھی نہ ہو تو ایسی صورت میں شوہر کو اس سے صحبت کرنے  کی اجازت  ہے۔

مذکورہ بالا تفصیل کی رو سے صورتِ مسئولہ میں لڑکی کی شادی اٹھارہ سال سے کم عمر میں کرانا جائز ہے، البتہ صحبت کے حوالے سے دیکھا جائے  گا کہ اگر وہ جماع کی متحمل ہے تو پھر اس سے جسمانی صحبت  بھی جائز ہوگی۔

صحیح مسلم میں ہے:

"عن عائشة، قالت: تزوجني النبي صلى الله عليه و سلم و أنا بنت ست سنين، و بنى بي و أنا بنت تسع سنين."

(کتاب النکاح، ص:456، ج:1، ط:قدیمی)

فتاوی عالمگیری میں ہے:

"و اختلفوا في وقت الدخول بالصغيرة فقيل: لايدخل بها ما لم تبلغ، و قيل: يدخل بها إذا بلغت تسع سنين، كذا في البحر الرائق. و أكثر المشايخ على أنه لا عبرة للسن في هذا الباب وإنما العبرة للطاقة إن كانت ضخمة سمينة تطيق الرجال و لايخاف عليها المرض من ذلك؛ كان للزوج أن يدخل بها، و إن لم تبلغ تسع سنين، و إن كانت نحيفةً مهزولةً لاتطيق الجماع و يخاف عليها المرض لايحلّ للزوج أن يدخل بها، و إن كبر سنّها و هو الصحيح."

(کتاب النکاح، الباب الرابع فی الأولیاء فی النکاح، ص:287، ج:1، ط:رشیدیه)

Tuesday, 5 November 2024

مفلس بیٹے کو سودی رقم سے کاروبار کروانا

 سودی رقم کو اپنے بیٹے کے لیے کاروبار میں لگانا جائز نہیں ، اگر چہ وہ مفلس ہو بلکہ اسے جلد از جلد ثواب کی نیت کے بغیر مستحق زکوٰۃ افراد کو دینا ضروری ہے۔ جس طرح سائل اپنی زکوٰۃ اپنے مفلس اور مستحق بیٹے کو نہیں دے سکتا ، اسی طرح مذکورہ حرام رقم بھی اپنے بیٹے کو دینا جائز نہیں۔

 ارشادِ باری تعالی ہے :

﴿ أَحَلَّ اللَّهُ الْبَيْعَ وَحَرَّمَ الرِّبَا﴾ (البقرة:275)

ترجمہ:” حالانکہ اللہ  تعالیٰ نے بیع کو حلال فرمایا ہے اور سود کو حرام کردیا ہے ۔“

﴿فَإِن لَّمْ تَفْعَلُوا فَأْذَنُوا بِحَرْبٍ مِّنَ اللَّهِ وَرَسُولِهِ﴾ (البقرة:278)

ترجمہ:”پھر اگر تم نہ کروگے تو اشتہار سن لو جنگ کا اللہ کی طرف سے اور اس کے رسول کی طرف سے ۔“

﴿يَمْحَقُ اللَّهُ الرِّبَا وَيُرْبِي الصَّدَقَاتِ﴾ (البقرة:276)

ترجمہ: ” اللہ تعالیٰ سود کو مٹاتے ہیں اور صدقات کو بڑھاتے ہیں۔“

صحیح مسلم  میں ہے:

"عن جابر بن عبدالله رضی الله تعالیٰ عنه قال: لعن رسول الله صلی الله علیه وسلم آکل الرّبا وموکله وکاتبه وشاهدیه، وقال: هم سواء."

(كتاب البیوع، باب لعن آکل الرّبا وموکله، رقم الحدیث:1598، ج:5، ص:50، ط:دارالمنھاج)

"عمدة القاري شرح صحيح البخاري" میں ہے:

"مطابقته للآية التي هي مثل الترجمة من حيث إن آيات الربا التي في آخر سورة البقرة مبينة لأحكامه وذامة لآكليه، فإن قلت: ليس في الحديث شيء يدل على كاتب الربا وشاهده؟ قلت: لما كانا معاونين على الأكل صارا كأنهما قائلان أيضا: إنما البيع مثل الربا، أو كانا راضيين بفعله، والرضى بالحرام حرام."

(كتاب البيوع، باب آكل الربا وشاهده وكاتبه، رقم الحديث:4802، ج:11، ص:200، ط:دار إحياء التراث العربي)

فتاوی شامیٰ میں ہے:

"والحاصل: أنه إن علم أرباب الأموال وجب رده عليهم، وإلا فإن علم عين الحرام لايحل له ويتصدق به بنية صاحبه."

(كتاب البيوع، باب البيع الفاسد، ج:5، ص:99، ط:سعید)

"الفتاوى الهندية" میں ہے:

"ولايدفع إلى أصله، وإن علا، وفرعه، وإن سفل كذا في الكافي."

(كتاب الزكاة، الباب السابع في المصارف، ج:1، ص:188، ط:رشيدية)

فتاوی شامیٰ میں ہے:

"(قوله: وإلى من بينهما ولاد) أي بينه وبين المدفوع إليه؛ لأن منافع الأملاك بينهم متصلة فلايتحقق التمليك على الكمال هداية والولاد بالكسر مصدر ولدت المرأة ولادةً وولادًا مغرب أي أصله وإن علا كأبويه وأجداده وجداته من قبلهما وفرعه وإن سفل بفتح الفاء من باب طلب والضم خطأ؛ لأنه من السفالة وهي الخساسة مغرب كأولاد الأولاد."

(‌‌كتاب الزكاة، باب مصرف الزكاة والعشر، ج:2، ص:346، ط:سعید)

وفيه أيضا:

"مطلب فيمن ورث مالا حراما ... لكن إذا علم المالك بعينه فلا شك في حرمته ووجوب رده عليه."

(کتاب البیوع، مطلب فيمن ورث مالا حراما، ج:5، ص:99، ط:سعید)

وفيه أيضا:

"في المجتبى: ‌مات ‌وكسبه ‌حرام فالميراث حلال، ثم رمز وقال: لا نأخذ بهذه الرواية، وهو حرام مطلقا على الورثة فتنبه. اهـ. ح، ومفاده الحرمة وإن لم يعلم أربابه وينبغي تقييده بما إذا كان عين الحرام ليوافق ما نقلناه، إذ لو اختلط بحيث لا يتميز يملكه ملكا خبيثا، لكن لا يحل له التصرف فيه ما لم يؤد بدله كما حققناه قبيل باب زكاة المال فتأمل."

 (‌‌كتاب البيوع، باب البيع الفاسد، مطلب رد المشترى فاسدا إلى بائعه فلم يقبله، ج:5، ص:99، ط:سعيد)

ماخوذ فتاویٰ جامعہ العلوم) الاسلامیہ بنوری ٹاؤن کراچی)

Saturday, 2 November 2024

مسجد میں دعوت کاکھانا کھلانا

 واضح ہو کہ مسجد بنانے کا مقصد ذکراللہ اور عبادتِ الہٰی  ہے، مسافر اور معتکف کے علاوہ افراد کے لیے مسجد میں کھانا، پینا اور سونا مکروہ ہے؛ کیوں کہ مسجد اس طرح کے کاموں کے لیے نہیں ہے، البتہ صرف مسافر اور معتکف کے لیے بوجہ ضرورت مسجد میں کھانے، پینے اور سونے کی گنجائش ہے، اسی طرح اگر کبھی چھوٹی موٹی چیز (مثلًا کھجور یا پانی وغیرہ) کھانے کی نوبت آجائے تو معتکف اور مسافر کے علاوہ عام آدمی بھی اعتکاف کی نیت کر کے کھا پی سکتا ہے، لیکن اگر معتکفین یا مسافر لوگوں کے علاوہ عام لوگوں کے لیے کسی بھی عنوان سے کوئی دعوت کرنی ہو تو اس دعوت کا انعقاد مسجد کی حدود سے باہر کسی جگہ کرنا چاہیے، مساجد میں بلاضرورت کھانے کی دعوتوں کا انعقاد کرنا درست نہیں ہے، نیز یہ بات بھی مشاہدہ میں کثرت سے آتی رہتی ہے کہ مساجد میں دعوت کے انعقاد سے مسجد کے دیگر آداب کی بھی بہت زیادہ خلاف ورزی ہوتی ہے اور دعوتوں کے دوران لوگ شور و غوغا، ہنسی مذاق اور لایعنی گفتگو کر کے مسجد کی بے حرمتی کے مرتکب ہوتے ہیں، البتہ اگر مسجد میں معتکفین یا مسافر لوگوں کے لیے کھانے کا انتظام کیا گیا ہو اور کوئی شخص جو نہ تو معتکف ہو اور نہ مسافر ہو وہ اس کھانے میں شریک ہونا چاہے تو اسے چاہیے کہ مسجد میں اعتکاف کی نیت سے داخل ہو کر یا داخل ہونے کے بعد اعتکاف کی نیت کر کے کچھ نماز اور ذکر اللہ میں مشغول ہونے کے بعد، پھر کھانے میں شریک ہوجائے۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (1/ 661)

’’ وأكل، ونوم إلا لمعتكف وغريب.

(قوله: وأكل ونوم إلخ) وإذا أراد ذلك ينبغي أن ينوي الاعتكاف، فيدخل ويذكر الله تعالى بقدر ما نوى، أو يصلي ثم يفعل ما شاء، فتاوى هندية.‘‘

الفتاوى الهندية (5/ 321):

’’ويكره النوم والأكل فيه لغير المعتكف، وإذا أراد أن يفعل ذلك ينبغي أن ينوي الاعتكاف فيدخل فيه ويذكر الله تعالى بقدر ما نوى أو يصلي ثم يفعل ما شاء، كذا في السراجية. ‘‘

Tuesday, 29 October 2024

الکوحل والے پرفیوم

 الکحل کی متعدد قسمیں ہیں:

(1) ایک وہ جو منقیٰ، انگور،کشمش یا کھجور کی شراب سےحاصل کی گئی ہو،  یہ بالاتفاق ناپاک  وحرام ہے، اس کا استعمال اور اس کی خرید و فروخت ناجائز ہے۔

(2) دوسری  وہ جو مذکورہ  بالا اشیاء کے علاوہ کسی اور چیز مثلاً جو، آلو، شہد، گنا، سبزی وغیرہ سے حاصل کی گئی ہو، اس کا استعمال اور اس کی خریدوفروخت جائز ہے بشر ط یہ کہ نشہ آور نہ ہو۔

(3)آج کل الکحل کی ایک تیسری قسم بھی ہے، یعنی وہ کیمیکل سے بنایا جاتا ہے، اس کا شراب وغیرہ سے تعلق نہیں ہے۔

عام طور پر ادویات ، پرفیوم اور دیگر مرکبات  میں جو الکحل استعمال ہوتی ہے وہ مذکورہ  اشیاء اربعہ یعنی  انگوریا کھجور وغیرہ سے حاصل نہیں کی جاتی، بلکہ  دیگر اشیاء سے بنائی جاتی ہے،یا کیمیکل سے بنایا جاتا ہے، لہذا  کسی چیز  کے بارے میں جب تک  تحقیق سے ثابت  نہ ہوجائے کہ اس  میں  پہلی قسم (منقیٰ، انگور،کشمش یا کھجور کی شراب )سے حاصل شدہ الکحل ہے، اس وقت تک اس کے استعمال کو  ناجائز اور حرام نہیں کہہ سکتے۔

موجودہ دور میں جو الکوحل پرفیومزمیں  استعمال ہوتی ہے، وہ انگوریا کھجور وغیرہ سے حاصل نہیں کی جاتی، بلکہ  دیگر اشیاء سے بنائی جاتی ہے، یہ نجس نہیں، بلکہ پاک ہے۔ لہذا ان پرفیوم کا استعمال بھی جائز ہے اور نماز بھی ہوجاتی ہے، تاہم جس پرفیوم میں انگور یا کھجور سے کشیدہ الکحل شامل کیا گیا ہو، اس کا استعمال  ناجائز ہے، اور ایسا پرفیوم لگانے سے جسم یا کپڑے ناپاک ہوجاتے ہیں۔ اگر کسی وجہ سے ممنوعہ ’’الکحل‘‘  کے شامل ہونے کا شک ہو تو احتیاط بہترہے۔

تکملہ فتح الملہم میں ہے:

"و أما غير الأشربة الأربعة، فليست نجسة عند الإمام ابي حنيفة رحمه الله تعالي. و بهذا يتبين حكم الكحول المسكرة (Alcohals) التي عمت بها البلوي اليوم، فإنها تستعمل في كثير من الأدوية و العطور و المركبات الأخري، فإنها إن اتخذت من العنب أو التمر فلا سبيل الي حلتها أو طهارتها، و إن اتخذت من غيرهما فالأمر فيها سهل علي مذهب أبي حنيفة رحمه الله تعالي، و لايحرم استعمالها للتداوي أو لأغراض مباحة أخري ما لم تبلغ حد الإسكار، لأنها إنما تستعمل مركبةً مع المواد الأخري، ولايحكم بنجاستها أخذًا بقول أبي حنيفة رحمه الله.

و إن معظم الحكول التي تستعمل اليوم في الأودية و العطور و غيرهما لاتتخذ من العنب أو التمر، إنما تتخذ من الحبوب أو القشور أو البترول و غيره، كما ذكرنا في باب بيوع الخمر من كتاب البيوع".

(کتاب الاشربۃ ،حکم الکحول المسکرۃ،ج:3،ص:408،دارالعلوم)

Wednesday, 23 October 2024

سنت مؤکدہ وغیر مؤکدہ کی ادائیگی میں فرق اور طریقہ

 سنت مؤکدہ وہ سنت نماز ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ہمیشہ مداومت کے ساتھ پڑھی ہے، اور کبھی بھی بلا کسی شدید عذر کے اسے چھوڑا نہیں ہے، جب کہ سنت غیر مؤکدہ وہ سنت نماز ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے کبھی پڑھی ہے اور کبھی بلا کسی عذر کے چھوڑی بھی ہے۔

حضور صلی اللہ علیہ وسلم نےدن رات میں بارہ رکعات سنتیں پڑھنے کی خود پابندی کی اور تاکید بھی فرمائی ہے، وہ بارہ رکعتیں یہ ہیں: 

دو رکعت فجر سے پہلے  ،چار رکعت ظہر سے پہلے اور دو رکعت ظہر کے بعد ،دو رکعتمغرب کے بعد اور دو رکعت عشاءکے کے بعد۔

 سنت مؤکدہ اور غیر مؤکدہ میں فرق یہ ہے کہ سنت مؤکدہ کا پڑھنا لازم ہے اور اس نماز کو بلا کسی عذر کے چھوڑنے والا گناہ گار ہوتا ہے، جب کہ سنت غیر مؤکدہ کے پڑھنے پر بہت ثواب ملتا ہے لیکن  بلا عذر چھوڑنے پر کوئی گناہ نہیں ملتا۔ چوں کہ  سنت غیر مؤکدہ نفل نماز کے درجہ میں ہے، اس لیے اس پر نفل نماز والے احکام ہی جاری ہوتے ہیں۔

سنتِ غیر مؤکدہ کی ادائیگی کا طریقہ وہی ہے جو سنتِ مؤکدہ کا ہے، دونوں میں کوئی خاص فرق نہیں ہے، دونوں کی ہر رکعت میں سورہ فاتحہ پڑھنا اور اس کے ساتھ کوئی سورت یا تین مختصر آیات یا ایک طویل آیت پڑھنا واجب ہے۔ البتہ صرف اتنا فرق ہے کہ چار رکعات سنتِ غیر مؤکدہ میں ہر دو رکعت کی حیثیت مستقل نماز کی ہے؛ اس لیے اس میں افضل یہ ہے کہ دوسری رکعت کے قعدہ میں التحیات کے بعد درود شریف اور دعا بھی پڑھی جائے، پھر تیسری رکعت کے لیے کھڑا ہوا جائے، اور تیسری رکعت کے لیے کھڑے ہونے کے بعد سورہ فاتحہ سے پہلے ثناء اور تعوذ و تسمیہ بھی پڑھ لیا جائے، لیکن یہ طریقہ افضل ہے، لازم نہیں، لہٰذا اگر کوئی سنتِ غیر مؤکدہ پڑھتے ہوئے سنتِ مؤکدہ کی طرح پہلے قعدہ میں صرف التحیات پڑھ کر کھڑا ہوجائے اور تیسری رکعت میں ثناء نہ پڑھے تو بھی اس کی نماز درست ہوجائے گی، جب کہ چار رکعت والی سنت  مؤکدہ کے پہلے قعدہ میں تشہد پڑھنے کے فورًا بعد تیسری رکعت کے  لیے کھڑا ہونا ضروری ہے، غلطی یا بھول سے درود شریف پڑھنے کی صورت میں قیام میں تاخیر کی وجہ سے سجدہ سہو لازم ہوجائے گا۔ اسی طرح سنت مؤکدہ میں ثناء  بھی صرف پہلی رکعت میں ہی پڑھی جاتی ہے۔

ایک اور فرق یہ بھی ہے کہ  چوں کہ سنت غیر مؤکدہ کا ہر شفعہ (دو رکعت) مستقل علیحدہ حیثیت رکھتا ہے اور ہر شفعہ کا قعدہ ،قعدہ اخیرہ شمار ہوتا ہے، اس  لیے چار رکعت والی سنت غیر مؤکدہ نماز میں اگر پہلے شفعہ میں قعدہ میں (تشہد پڑھنے کے  لیے)  نہ بیٹھے تو وہ شفعہ باطل ہوجائے گا، البتہ چار رکعت والی سنت مؤکدہ نماز میں اگر پہلے شفعہ کے قعدہ میں نہ بیٹھے، لیکن آخری قعدہ میں سجدہ سہو کرلے تو  نماز ہوجائے گی۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2/ 16):

’’(ولا يصلى على النبي صلى الله عليه وسلم في القعدة الأولى في الأربع قبل الظهر والجمعة وبعدها) ولو صلى ناسيا فعليه السهو، وقيل: لا شمني (ولا يستفتح إذا قام إلى الثالثة منها) لأنها لتأكدها أشبهت الفريضة (وفي البواقي من ذوات الأربع يصلي على النبي) صلى الله عليه وسلم (ويستفتح) ويتعوذ ولو نذرا لأن كل شفع صلاة.‘‘

البحرالرائق میں ہے:

Friday, 18 October 2024

بغیر نیت طلاق کہا میری طرف سے تم آزاد ہو طلاق ہویی کہ نہیں

 صورتِ  مسئولہ میں طلاق واقع نہیں ہوئی ہے،  نکاح بدستور برقرار ہے، تاہم "تم آزاد ہو" وغیرہ اس طرح کے الفاظ کے استعمال سے اجتناب کریں۔

امداد الاحکام میں ہے :

"… میں نے اپنی بیوی کو آزاد کیا چاہے  وہ میرے پاس رہے یا اپنے گھر،  اور وہ آزاد ہے جب اس کا جی چاہے آوے ، ان استعمالات میں ہرگزکوئی شخص محض مادہ آزاد کی  وجہ سے اس کلام کو کنایہ طلاق سے نہیں کہہ سکتا،  بلکہ اباحتِ  فعل وتخییر وغیرہ پر محمول کرےگا…"تم بھی آزاد ہو اور وہ بھی آزاد ہے جب چاہے آؤ" اس میں "جب چاہے آؤ" یہ قرینہ نفی ارادۂ  طلاق کا ہے۔"

(۲/۴۷۰، مکتبہ دار العلوم کراچی)

:حوالہ جات

قال العلامۃ الحصکفی رحمہ اللہ تعالی :فنحو أخرجی و إذھبی یحتمل ردا، و نحو خلیۃ،  بریۃ ، حرام  یصلح سبا  ،  ونحوإعتدی وأنت حرۃ ..لایحتمل الردوالسب، ففی حالۃ الرضا تتوقف الأقسام) الثلاثۃ تاثیرا( علی نیۃ)للإحتمال، والقول لہ بیمینہ فی عدم النیۃ ، و یکفی تحلیفھا لہ فی منزلہ ، فإن أبی رفعتہ للحاکم ، فان نکل فرق بینھما .مجتبی).وفی الغضب) توقف) الأولان )إن نوی وقع وإلالا )و فی مذاکرۃ الطلاق( یتوقف )الأول فقط( ویقع بالأخیرین  وإن لم ینو.

(الدر المختارمع التنویر:4/532،(533

و فی الفتاوی الھندیۃ : الکنایات ، لا يقع بها الطلاق إلا بالنية أو بدلالة حال....وما يصلح جوابا وردا لا غير : أخرجي، إذهبي  .والأحوال ثلاثة:حالة الرضا  ، وحالة  مذاكرة الطلاق وحالةالغضب   ، ففي حالة الرضا لا يقع الطلاق في الألفاظ كلها إلا بالنية ،  والقول قول الزوج في ترك النية مع اليمين، وفي حالة مذاكرة الطلاق يقع الطلاق في سائر الأقسام قضاء إلا فيما يصلح جوابا وردا  ؛ فإنه لا يجعل طلاقا .كذا في الكافي. وفي حالة الغضب يصدق في جميع ذلك لاحتمال الرد والسب.(الفتاوی الھندیۃ: 1/410 )

قال الإمام محمد رحمہ اللہ تعالی : أنت منى بائن أو برية أو خلية، فإنه يسأل عن نيته ، وإن لم ينو الطلاق لم يقع عليها الطلاق . وإن نوى الطلاق فهو مانوى . وكذاك كل كلام يشبه الفرقة مما أراد به الطلاق فهو مثل هذا ، كقوله ... أنت حرة ، ينوى الطلاق .(کتاب الأصل محمد : ٤٥٣/٤)

فى التتارخانية : وأما مدلولات الطلاق ، فهو مثل قوله : إذهبي ، وقومى ..... وما شاكلها ، إذا نوى الطلاق بهذه الألفاظ يقع بائنا ، وإن نوى الثلاث ثلاثاً .... وإن قال :" لم أرد به الطلاق " أولم تحضره النية لا يكون طلاقا ، سواء كانت الحالة حالة الرضا أو حالة مذاكرة الطلاق أو حالة الغضب ، هذا فى ظاهر الرواية . (الفتاوى التارخانية : ٤٦٠/٤)

قال العلامة الزیلعی رحمه الله : وقسم يصلح جوابا وردا ولا يصلح سبا و شتيمة، وهي خمسة ألفاظ : أخرجى ، إذهبي ، أغربى ، قومی ، تقنعى ومرادفها ، ففى حالة الرضا لا يقع الطلاق بشيء منها إلا بالنية للإحتمال، والقول قوله مع يمينه في عدم النية. (تبيين الحقائق : 3/80)

قال العلامۃ المرغینانی ر حمہ اللہ  تعالی :و بقیۃ الکنایات إذا نوی بھا الطلاق  :کانت وا حدۃ بائنۃوھذا مثل قولہ : أنت بائن….وأنت حرۃ واذھبی إلا أن یکونا فی حال مذاکرۃ الطلاق : فیقع بھا الطلاق فی القضاء ، ولایقع فیما بینہ وبین اللہ تعالی  ، إلا أن ینویہ.

(الھدایۃ : 3/192)


Tuesday, 15 October 2024

چھ لاکھ بیس ہزار چاربہن اور چھ بھائیوں میں کیسے تقسیم کریں'

 حقوقِ متقدمہ: تجہیز و تکفین کا خرچہ نکالنے کے بعد، نیز مرحوم کے ذمہ کوئی قرض ہو تو اسے ادا کرنے کے بعد،اور اگر مرحوم نے کوئی جائز وصیت کی ہو تو اسے ایک تہائی ترکہ میں نافذ کریں۔غرض چھ لاکھ بیس ہزار چاربہن اور چھ بھائیوں کے درمیان تقسیم کا شرعی طریقہ یہ ہے کہ اس رقم کو سولہ (16)حصوں میں ،  تقسیم کرکے 38750 اڑتیس ہزار سات سو پچاس مرحوم کی ہرایک بیٹی کاحصہ ہے یعنی ایک لاکھ پچپن ہزار سب بہنوں میں تقسیم کردیاجائے۔ اوراس38750 کا ڈبل یعنی 77500مرحوم کے ہر ایک بیٹے کو باقاعدہ للذکر مثل حظ الانثیین دیدیا جایے ۔مرحوم کی جوبیٹی ان کی زندگی میں فوت ہوگئی ان کا حصہ شرعاً نہیں ہے ۔

فتاوی شامی میں ہے:

"وشروطه: ثلاثة: موت مورث حقيقةً، أو حكمًا كمفقود، أو تقديرًا كجنين فيه غرة و وجود وارثه عند موته حيًّا حقيقةً أو تقديرًا كالحمل والعلم بجهة إرثه، وأسبابه وموانعه سيأتي."

(كتاب الفرائض، شرائط الميراث، ج:6، ص:758، ط:ايج ايم سعيد)فقط واللہ اعلم بالصواب 

محمد عامرالصمدانی 

١١ربیع الآ خر ١٤٤٦ھ/١٥اکتوبر٢٠٢٤ء

Sunday, 13 October 2024

سجدۂ سہو میں ایک سجدہ کیا

 سجدہ سہو میں دو سجدے کرنا واجب ہیں، لہٰذا اگر کسی نے صرف ایک سجدہ کیا تو سجدہ سہو ادا نہیں ہوگا، اور اس نماز کا وقت گزرنے سے پہلے پہلے اعادہ واجب ہوگا، وقت گزرنے کے بعد اعادہ مستحب ہوگا۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2/ 77):

"(يجب بعد سلام واحد عن يمينه فقط) لأنه المعهود، وبه يحصل التحليل وهو الأصح بحر عن المجتبى. وعليه لو أتى بتسليمتين سقط عنه السجود؛ ولو سجد قبل السلام جاز وكره تنزيها. وعند مالك قبله في النقصان وبعده في الزيادة، فيعتبر القاف بالقاف والدال بالدال (سجدتان)".

البحر الرائق شرح كنز الدقائق ومنحة الخالق وتكملة الطوري (2/ 99، ۱۰۰ ):

"(قوله: يجب بعد السلام سجدتان بتشهد وتسليم بترك واجب وإن تكرر) بيان لأحكام الأول وجوب سجدتي السهو وهو ظاهر الرواية لأنه شرع لرفع نقص تمكن في الصلاة ورفع ذلك واجب وذكر القدوري أنه سنة كذا في المحيط وصحح في الهداية وغيرها الوجوب لأنها تجب لجبر نقصان تمكن في العبادة فتكون واجبة كالدماء في الحج ويشهد له من السنة ما ورد في الأحاديث الصحيحة من الأمر بالسجود والأصل في الأمر أن يكون للوجوب ومواظبة النبي صلى الله عليه وسلم وأصحابه على ذلك وفي معراج الدراية إنما جبر النقصان في باب الحج بالدم وفي باب الصلاة بالسجود؛ لأن الأصل أن الجبر من جنس الكسر وللمال مدخل في باب الحج فيجبر نقصانه بالدم ولا مدخل للمال في باب الصلاة فيجبر النقصان بالسجدة. اهـ. ... فرجعنا إلى قوله المروي في سنن أبي داود أنه عليه الصلاة والسلام قال: «لكل سهو سجدتان بعد السلام». وفي صحيح البخاري في باب التوجه نحو القبلة حيث كان في حديث قال فيه: «إذا شك أحدكم في صلاته فليتحر الصواب فليتم عليه ثم ليسلم ثم ليسجد سجدتين» فهذا تشريع عام قولي بعد السلام عن سهو الشك والتحري ولا قائل بالفصل بينه وبين تحقق الزيادة والنقص".

حاشية الطحطاوي على مراقي الفلاح شرح نور الإيضاح (ص: 440):

"كل صلاة أديت مع كراهة التحريم تعاد أي وجوباً في الوقت، وأما بعده فندب "

Tuesday, 1 October 2024

نماز کن فیکون کا حکم



کن فیکون والی نماز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، صحابہ یا بزرگان دین میں سے کسی سے ثابت نہیں ہے، بلکہ یہ لوگوں کی اپنی طرف سے بنائی ہوئی ہے، لہذا اس سے بچنا چاہیئے، اور حاجت روائی کے لیے سنت کے مطابق دو رکعت صلاۃ الحاجت پڑھ کر دعا مانگنی چاہیے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:

سنن الترمذي: (أبواب الوتر، رقم الحدیث: 344، 344/2، ط: شركة مكتبة و مطبعة مصطفى البابي)
عن عبد الله بن أبي أوفى، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " من كانت له إلى الله حاجة، أو إلى أحد من بني آدم فليتوضأ وليحسن الوضوء، ثم ليصل ركعتين، ثم ليثن على الله، وليصل على النبي صلى الله عليه وسلم، ثم ليقل: لا إله إلا الله الحليم الكريم، سبحان الله رب العرش العظيم، الحمد لله رب العالمين، أسألك موجبات رحمتك، وعزائم مغفرتك، والغنيمة من كل بر، والسلامة من كل إثم، لا تدع لي ذنبا إلا غفرته، ولا هما إلا فرجته، ولا حاجة هي لك رضا إلا قضيتها يا أرحم الراحمين "

انگلیوں کے عربی نام

 انگلی کو عربی میں    "إِصْبَع"اور"أُصْبُع"کہتے ہیں،  جس کی جمع  "أصابعُ"آتی ہے یعنی انگلیاں۔ نیز یہ لفظ عربی میں نو طرح پڑھا جاتاہے، یعنی:

إِصْبَعُ و أُصْبَعُ و أَصْبَعُ و إِصْبِعُ و أُصْبِعُ و أَصْبِعُ و إِصْبُعُ و أُصْبُعُ و أَصْبُعُ

پانچوں انگلیوں کے نام ترتیب وار درج ذیل ہیں:

الإبْهامُ: انگوٹھا۔

السَّبَّابَةُ: انگوٹھے کے برابر والی انگلی، جسے شہادت کی انگلی یا اشارہ کرنے والی انگلی بھی کہتے ہیں۔

الوُسْطى: شہادت کی انگلی کے برابر والی انگلی، جو بالکل درمیان میں ہوتی ہے اور اس کے دائیں بائیں دو دو انگلیاں ہوتی ہیں۔

البِنْصِرُ: درمیانی اور سب سے آخری انگلی کے بیچ والی انگلی۔

الخِنْصِرُ: سب سے آخری چھوٹی والی انگلی، جسے چھنگلی بھی کہتے ہیں۔

التَّلخِيص في مَعرفَةِ أسمَاءِ الأشياء (ص:61، ط:دار طلاس للدراسات والترجمة والنشر، دمشق):

’’و الأصابع، الواحدة إصبع، و هي الإبهام ثم السبابة ثم الوسطى ثم البنصر ثم الخنصر.‘‘

مجمع البحرين لليازجي (ص:412، ط:المطبعة الأدبية، بيروت):

قل: أول الأصابع الإبهام ... و بعدها سبابة تقام

و بعدها الوسطى، يليها البنصر ... و بعدها الصغرى أخيراً خنصر

تیمم کا طریقہ

 اگر پانی موجود نہ ہو یا کسی شرعی عذر کی بنا پر پانی کے استعمال پر قدرت نہ ہو  تو شریعتِ مطہرہ نے پاکی کے لیے تیمم کا طریقہ تجویز فرمایا ہے۔ قرآن مجید میں ارشاد ہے :

﴿فَلَمْ تَجِدُوْا مَآءً فَتَيَمَّمُوْا صَعِيْدًا طَيِّبًا فَامْسَحُوْا بِوُجُوْهِكُمْ وَاَيْدِيْكُمْ مِّنْهُ﴾(  المائدہ : 6)

ترجمہ: تم کو پانی نہ ملے تو تم پاک زمین سے تیمم کر لیا کرو یعنی اپنے چہروں اور ہاتھوں پر ہاتھ اس زمین (کی جنس)  پر  سے (مار کر) پھیر لیا کرو"۔

تیمم کا طریقہ:

اولاً نیت کر لیں،  پھر پاک مٹی پر دونوں ہاتھ مار کر جھاڑ لیں، پھر پورے  چہرے پر ایک مرتبہ اس طرح پھیریں کہ کوئی جگہ  باقی نہ رہے، پھر دوسری مرتبہ اسی طرح زمین پر  ہاتھ ماریں اور  دونوں ہاتھوں پر کہنیوں سمیت اس طرح  ہاتھ پھیریں کہ کوئی جگہ باقی نہ رہے اور  انگلیوں کے درمیان بھی  خلال  کریں۔

تیمم کے فرائض:

۱۔ایک مرتبہ پاک مٹی پر ہاتھ مار کر سارے چہرہ پر ہاتھ پھیرنا۔
۲۔ دوسری مرتبہ پھر ہاتھ مار کر دونوں ہاتھوں پر کہنیوں تک ہاتھ پھیرنا۔

تیمم کی شرائط:

نیت کرنا۔

ہاتھوں کا پھیرنا۔

تین یا زائد انگلیوں کا ستعمال۔

مٹی یا زمین کی جنس سے تعلق رکھنے والی کسی چیز سے تیمم کرنا۔

جس چیز (مٹی وغیرہ) سے تیمم کیا جارہا ہو اس کا پاک ہونا۔

پانی کا نہ ہونا۔


تیمم کی سنتیں:

شروع میں بسم اللہ پڑھنا۔
ہاتھوں کوہتھیلیوں کی طرف سے  مٹی (یا اس کی جنس پر) مارنا۔
دونوں ہاتھ مٹی پر رکھنے کے بعد آگے کھینچنا۔
پھر دونوں ہاتھوں کو مٹی پر رکھتے ہوئے پیچھے کو کھینچنا۔
پھر دونوں ہاتھوں کو جھاڑنا۔
ہاتھ مارتے وقت انگلیوں کو کشادہ کرنا۔

ترتیب کا خیال رکھنا۔
پے درپے کرنا۔

تیمم  کے نواقض:

تیمم کو ہر وہ چیز توڑ دیتی ہے جو وضو کو توڑ دیتی ہے، اس کے علاوہ پانی کے استعمال پر قادر ہونا بھی تیمم کے  لیے ناقض ہے۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (1/ 231):

"و سننه ثمانية: الضرب بباطن كفيه، و إقبالهما، و إدبارهما، و نفضهما؛ و تفريج أصابعه، و تسمية، و ترتيب و ولاء".

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (1/ 230):

"و شرطه ستة: النية، و المسح، و كونه بثلاث أصابع فأكثر، و الصعيد، و كونه مطهرًا، و فقد الماء."

الفتاوى الهندية (1/ 26):

Friday, 27 September 2024

عصرکی نماز شافعی مسلک کے مطابق اول وقت پرپڑھنا

 اگر کسی جگہ   کوئی ایسی مسجد موجود ہو جہاں حنفی مذہب کے مطابق وقت داخل ہونے کے بعد  عصر کی نماز ہوتی ہو تو وہیں جاکر نماز پڑھنا ضروری ہوگا، اسی طرح اگر وہاں حنفی متبعین اپنی جماعت خود کراسکتے ہیں تب بھی مثلِ ثانی کے بعد ہی عصر کی نماز پڑھنا لازم ہوگا، اور  اگر ایسی صورت نہیں، بلکہ اس ملک میں  مثلِ اول کے بعد عصر کی  نماز پڑھنے کا تعامل ہو اور  دو مثل  کے بعد نماز پڑھنے کی صورت میں مستقل طور پر جماعت کا ترک لازم آتا ہو، یعنی قریب میں کوئی اور مسجد نہ ہو جہاں عصر کی نماز مثلین کے بعد پڑھی جاتی ہو اور نہ ہی اپنی مرضی سے خود جماعت کراسکتا ہو تو  اکیلےنمازپڑھنےکےبجائےمثلِ ثانی میں عصر کی نماز کی گنجائش ہوگی،بالخصوص حرمین شریفین میں توجماعت کےساتھ ہی نمازپڑھناچاہئے۔

کتاب الاصل للامام محمد:

"قلت: أرأيت رجلا مريضا صلى صلاة قبل وقتها متعمدا لذلك مخافة أن يشغله المرض عنها، أو ظن أنه في الوقت ثم علم بعد ذلك أنه صلى قبل الوقت؟ قال: لا يجزيه في الوجهين جميعا، وعليه أن يعيد الصلاة."

(كتاب الصلاة باب صلاة المريض في الفريضة،ج:1،ص:189،ط:دارابن حزم بيروت)

المبسوط للسرخسی:

"وأداء ‌الصلاة ‌قبل ‌وقتها لا يجوز."

(كتاب الصلاة باب مواقيت الصلاة،ج:1،ص:154،ط:دارالمعرفة)