https://follow.it/amir-samdani?action=followPub

Thursday, 26 December 2024

جتناچندہ کیاہے اس کانصف سفیر کی اجرت رکھنا


جواب

        کسی ادارے کی سفیر کی حیثیت اجیر کی ہوتی ہے اور عقد اجارہ میں ضروری ہے کہ اجرت متعین ہو۔ صورت مسؤلہ میں کمیشن پر چندہ اکٹھا کرنا تین وجوہ سے درست نہیں:

           پہلی وجہ یہ ہے کہ اس میں سفیر کی اجرت مجہول ہوتی ہےجب کہ اجارہ کی صحت کے لیے ضروری ہے کہ اجیر کی اجرت معلوم ہو،لہذا اجرت کی جہالت کی بنا پر یہ معاملہ جائز نہیں۔

          دوسری وجہ یہ ہے کہ اس عقد میں منفعت بھی مجہول ہے،کیونکہ اگر اس کا کام لوگوں سے چندہ وصول کرنا ہے تووہ  اس کے اختیار میں نہیں،اس کا کام تو محض لوگوں کو چندہ کی ترغیب دینا ہے ،لہذا یہ اجارہ ایسے عمل پر ہوا جو اس کے دائرہ اختیار سے باہر ہے ۔اور اگر اجارہ اس پر منعقد ہوا کہ وہ لوگوں کو چندہ کی ترغیب دیا کرے تو اس صورت میں بھی یہ واضح نہیں کہ اس کام میں کتنا وقت خرچ کرے گا ،نیز کن کن مواقع پر لوگوں کو ترغیب دےگا۔

            تیسری وجہ یہ ہے کہ اس معاملہ میں سفیر کی تنخواہ چندہ سے مقرر کی جاتی ہے اور فقہاےکرام کی آراء کے مطابق جو چیز اجیر کے عمل سے حاصل ہوتی ہو،اسے اجرت میں مقرر کرنا جائز نہیں۔

لہذا کسی دینی مدرسہ کے سفیر کی یا مہتمم کی تنخواہ چندہ کی رقم سے بطور کمیشن مقرر کرنا جائز نہیں ۔جائز صورت یہ ہے کہ معین تنخواہ مقرر کی جائے ۔

 

وشرطها:كون الأجرة والمنفعة معلومتين؛لأن جهالتهما تفضي الى المنازعة۔(الدر المختار على صدر رد المحتار:كتاب الإجارة،ج:9،ص:7)

(تفسد الأجارة بالشروط المخالفة لمقتضى العقد،فكل ما أفسد البيع،يفسدها)كجهالة مأجور أوأجرة۔(الدر المختار على صدر رد المحتار:كتاب الإجارة،باب الإجارة الفاسدة:ج:9،ص:64)

محاذات

 مرد اور عورت کے ایک ساتھ  نماز پڑھنے سے مراد اگر یہ ہو کہ نماز پڑھتے ہوئے مرداور عورت دونوں ایک ہی ساتھ صف میں کھڑے ہوں، تو یہ مسئلہ اصطلاح میں ”محاذات“ کا مسئلہ کہلاتا ہے، اس کا شرعی حکم درج ذیل ہے:

اگر کوئی مرد کسی عورت کے دائیں بائیں یا پیچھے اس کی سیدھ میں نماز پڑھے اور وہاں درج ذیل شرائط پائی جائیں تو مرد کی نماز فاسد ہوجائے گی ، وہ شرائط یہ ہیں :

(1)   وہ عورت مشتہاۃ ہو، یعنی  ہم بستری کے قابل ہو خواہ بالغ ہو یا نہ ہو، بوڑھی ہو یا محرم، سب کا حکم یہی ہے۔

(2)  دونوں نماز میں ہوں، یعنی  ایسا نہ ہو کہ ایک نماز میں ہے اور دوسرا نماز میں نہیں ہے۔

(3)  مرد کی پنڈلی، ٹخنہ  یا بدن کا کوئی بھی عضو عورت کے کسی عضو کے مقابلہ میں آرہا ہو۔

(4)  یہ سامنا کم از کم ایک رکن (تین تسبیح پڑھنے کے بقدر) تک برقرار رہا ہو۔

(5)  یہ اشتراک مطلق نماز میں پایا جائے، یعنی نمازِ جنازہ کا یہ حکم نہیں ہے۔

(6)  دونوں کی نماز ایک ہی قسم کی ہو، یعنی  مرد وعورت دونوں ایک ہی امام کی اقتدا میں نماز پڑھ رہے ہوں۔

(7)  تحریمہ دونوں کی ایک ہو،  یعنی برابر نماز پڑھنے والی عورت نے برابر والے مرد کی اقتدا  کی ہو یا دونوں نے کسی تیسرے آدمی کی اقتدا کی ہو۔

(8)  عورت میں  نماز صحیح ہونے کی شرائط موجود ہوں،  یعنی  عورت پاگل یا حیض ونفاس کی حالت میں  نہ ہو۔

(9)   مرد وعورت کے نماز پڑھنے کی جگہ سطح کے اعتبار سے برابر ہو، یعنی اگر سطح میں آدمی کے قد کے بقدر فرق ہو، تو محاذات کا حکم نہ ہوگا۔

(10) دونوں کے درمیان کوئی حائل نہ ہو،  یعنی دونوں کے درمیان ایک انگلی کے برابر موٹی اور سترے کی مقدار اونچی کوئی چیز یا  ایک آدمی کے کھڑے ہونے کے بقدر فاصلہ نہ ہو۔

(11)  مردنے اپنے قریب آکر کھڑی ہونے والی عورت کو اشارے سے وہاں کھڑے ہونے سے منع نہ کیا ہو، اگر اشارہ کیا ہو  پھر بھی عورت  مرد کے برابر میں کھڑی رہی، تواب مرد کی نماز فاسد نہ ہوگی۔

(12) اور امام نے مرد کے برابر میں کھڑی ہوئی عورت کی امامت کی نیت بھی کی ہو۔

  اگر مذکورہ شرائط پائی جائیں تو ایک عورت کی وجہ سے تین مردوں ( دائیں بائیں جانب والے دو مردوں کی اور عورت کی سیدھ میں پیچھے ایک مرد) کی نماز فاسد  ہوجائے گی۔

فتاوی عالمگیری میں ہے:

"محاذاة المرأة الرجل مفسدة لصلاته ولها شرائط:

(منها) أن تكون المحاذية مشتهاةً تصلح للجماع ولا عبرة للسن وهو الأصح .... (ومنها) أن تكون الصلاة مطلقةً وهي التي لها ركوع وسجود.... (ومنها) أن تكون الصلاة مشتركةً تحريمةً وأداءً .... (ومنها) أن يكونا في مكان واحد...(ومنها) أن يكونا بلا حائل ... وأدنى الحائل قدر مؤخر الرحل وغلظه غلظ الأصبع والفرجة تقوم مقام الحائل وأدناه قدر ما يقوم فيه الرجل، كذا في التبيين. (ومنها) أن تكون ممن تصح منها الصلاة.... (ومنها) أن ينوي الإمام إمامتها أو إمامة النساء وقت الشروع ... (ومنها) أن تكون المحاذاة في ركن كامل.... (ومنها) أن تكون جهتهما متحدة ..... ثم المرأة الواحدة تفسد صلاة ثلاثة واحد عن يمينها وآخر عن يسارها وآخر خلفها ولا تفسد أكثر من ذلك. هكذا في التبيين.وعليه الفتوى. كذا في التتارخانية والمرأتان صلاة أربعة واحد عن يمينهما وآخر عن يسارهما واثنان خلفهما بحذائهما ،وإن كن ثلاثا أفسدت صلاة واحد عن يمينهن وآخر عن يسارهن وثلاثة خلفهن إلى آخر الصفوف وهذا جواب الظاهر. هكذا في التبيين (1/ 89، کتاب الصلاۃ، الباب الخامس فی الامامہ، الفصل  الخامس فی بیان مقام الامام والماموم، ط:رشیدیہ)

 (حاشیہ الطحطاوی علی مراقی الفلاح، ص: 329، باب مایفسد الصلاۃ، ط: قدیمی)

(شامی، 1/572، کتاب الصلاۃ ،باب الامامہ،ط: سعید) 


Wednesday, 25 December 2024

سلام میں مغفرتہ کا اضافہ کرنا

 سلام کرنے کا مسنون طریقہ یہ ہے کہ   "السَّلَامُ عَلَیکُم و رحمة اللّٰه  و بركاته"  کہا جائے اور جواب ان الفاظ سے دیا جائے "وَعَلَیکُمُ السَّلَام و رحمة اللّٰه  و بركاته"۔ اگر  سلام میں "السلام علیکم ورحمۃ اللہ "  یا  صرف "السلام علیکم " پر اکتفا کیا جائے تب بھی درست ہے، مزید اضافہ کرنا یعنی لفظ" مغفرتہ " جیسے الفاظ نہیں   بڑھانا چاہیے۔

فتاوی محمودیہ میں ہے:

"طریق سلام اور اس کا جواب 

سوال:- ایک شخص کہتا ہے "السلام علیکم " دوسرا شخص جواب میں کہتا ہے "وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ و مغفرتہ" ،  کیا یہ جواب درست ہے؟  اس کا کہیں سے ثبوت ملتا ہے یا نہیں؟

الجواب حامداً ومصلیاً!

افضل یہ ہے کہ سلام کرنے والا اس طرح سلام کرے " السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ" اور جواب دینے والا "وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ "کہے۔ اس سے زیادہ کوئی لفظ بڑھانا جیسے’’ومغفرته‘‘مناسب نہیں، اگرچہ بعض روایات میں لفظ ’’ومغفرته‘‘ سلام کے ساتھ وارد ہوا ہے،  جیسا کہ مشکوٰۃ ج:1، ص:398، میں ہے، مگر حضرت ابن عباسؓ نے فرمایا  ہے کہ سلام کی انتہا ’’وبركاته‘‘ ہے۔

فقط واللہ تعالیٰ اعلم

حررہٗ العبد محمودگنگوہی عفااللہ عنہ معین مفتی مدرسہ مظاہرعلوم سہارنپور "

المنتقى شرح الموطإ میں ہے:

"(ص) : (عَنْ مَالِكٍ عَنْ وَهْبِ بْنِ كَيْسَانَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ عَطَاءٍ أَنَّهُ قَالَ: كُنْت جَالِسًا عِنْدَ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبَّاسٍ فَدَخَلَ عَلَيْهِ رَجُلٌ مِنْ أَهْلِ الْيَمَنِ فَقَالَ: السَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللَّهِ وَبَرَكَاتُهُ، ثُمَّ زَادَ شَيْئًا مَعَ ذَلِكَ أَيْضًا، قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: وَ هُوَ يَوْمَئِذٍ قَدْ ذَهَبَ بَصَرُهُ مَنْ هَذَا قَالُوا: هَذَا الْيَمَانِيُّ الَّذِي يَغْشَاك فَعَرَّفُوهُ إيَّاهُ، قَالَ فَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: إنَّ السَّلَامَ انْتَهَى إلَى الْبَرَكَةِ).

(ش) : قَوْلُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبَّاسٍ - رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ - إنَّ السَّلَامَ انْتَهَى إلَى الْبَرَكَةِ يُرِيدُ أَنَّهُ لَا يَزِيدُ عَلَى ذَلِكَ فِيهِ، وَإِنَّمَا هِيَ ثَلَاثَةُ أَلْفَاظٍ: السَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللَّهِ وَبَرَكَاتُهُ فَمَنْ اقْتَصَرَ عَلَى بَعْضِهَا أَجْزَأَهُ وَمَنْ اسْتَوْعَبَهَا فَقَدْ بَلَغَ الْغَايَةَ مِنْهُ فَلَيْسَ لَهُ أَنْ يَزِيدَ عَلَيْهَا.

وَقَدْ قَالَ الْقَاضِي أَبُو مُحَمَّدٍ: أَكْثَرُ مَا يَنْتَهِي السَّلَامُ إلَى الْبَرَكَةِ يُرِيدُ أَنْ لَا يُزَادَ عَلَى ذَلِكَ، وَيَقْتَضِي ذَلِكَ أَنْ لَا يُغَيَّرَ اللَّفْظُ وَهَذَا فِيمَا يَتَعَلَّقُ بِابْتِدَاءِ السَّلَامِ أَوْ رَدِّهِ وَأَمَّا الدُّعَاءُ فَلَا غَايَةَ لَهُ إلَّا الْمُعْتَادُ الَّذِي يَلِيقُ بِكُلِّ طَائِفَةٍ مِنْ النَّاسِ وَبِاَللَّهِ التَّوْفِيقُ."  

(كتاب الجامع، العمل فى السلام، ج:7، ص:280، ط:مطبعة السعادة) 

فتاوی عالمگیری (الفتاوى الهندية ) میں ہے:

"والأفضل للمسلم أن يقول: السلام عليكم ورحمة الله وبركاته، و المجيب كذلك يرد، ولاينبغي أن يزاد على البركات شيء، قال ابن عباس - رضي الله عنهما - لكل شيء منتهى ومنتهى السلام البركات، كذا في المحيط. "

(كتاب الكراهية، الباب السابع فى السلام، ج:5، ص:325، ط:مكتبه رشيديه)


Saturday, 21 December 2024

طلب الطلاق بسبب الضرب المبرح

 جاء في " شرح مختصر خليل للخرشي " (4 / 9): " إذَا ثَبَتَ بِالْبَيِّنَةِ عِنْدَ الْقَاضِي أَنَّ الزَّوْجَ يُضَارِرُ زَوْجَتَهُ وَهِيَ فِي عِصْمَتِهِ ، وَلَوْ كَانَ الضَّرَرُ مَرَّةً وَاحِدَةً ؛ فَالْمَشْهُورُ أَنَّهُ يَثْبُتُ لِلزَّوْجَةِ الْخِيَارُ، فَإِنْ شَاءَتْ أَقَامَتْ عَلَى هَذِهِ الْحَالَةِ ، وَإِنْ شَاءَتْ طَلَّقَتْ نَفْسَهَا بِطَلْقَةٍ وَاحِدَةٍ بَائِنَةٍ ، لِخَبَرِ لَا ضَرَرَ وَلَا ضِرَارَ ، فَلَوْ أَوْقَعَتْ أَكْثَرَ مِنْ وَاحِدَةٍ فَإِنَّ الزَّائِدَ عَلَى الْوَاحِدَةِ لَا يَلْزَمُ الزَّوْجَ .

وَمِنْ الضَّرَرِ : قَطْعُ كَلَامِهِ عَنْهَا ، وَتَحْوِيلُ وَجْهِهِ عَنْهَا، وَضَرْبُهَا ضَرْبًا مُؤْلِمًا " انتهى.
فإن طلَّقْتَها في هذه الحالة ، وجب عليك أن توفيها حقها بالكلية ، ومنها النفقة فترة العدة ؛ لأن الْمُطَلَّقَةَ طَلاَقًا رَجْعِيًّا لَهَا السُّكْنَى وَالنَّفَقَةُ وَالْكِسْوَةُ وَمَا يَلْزَمُهَا لِمَعِيشَتِهَا ، سَوَاءٌ أَكَانَتْ حَامِلاً أَمْ غير حامل ، لِبَقَاءِ آثَارِ الزَّوْجِيَّةِ مُدَّةَ الْعِدَّةِ ، وهذا باتفاق أهل العلم ، كما سبق بيانه في الفتوى رقم : (139833) .
وكذا يجب عليك أن توفيها كامل مهرها ، مقدمه ومؤخره ، فلا يجوز لك أن تأخذ منه شيئا ، قال تعالى : ( وَإِنْ أَرَدْتُمُ اسْتِبْدَالَ زَوْجٍ مَكَانَ زَوْجٍ وَآتَيْتُمْ إِحْدَاهُنَّ قِنْطَارًا فَلَا تَأْخُذُوا مِنْهُ شَيْئًا أَتَأْخُذُونَهُ بُهْتَانًا وَإِثْمًا مُبِينًا . وَكَيْفَ تَأْخُذُونَهُ وَقَدْ أَفْضَى بَعْضُكُمْ إِلَى بَعْضٍ وَأَخَذْنَ مِنْكُمْ مِيثَاقًا غَلِيظًا ) النساء/ 20، 21 ، ولا يجوز لك أن تضيق عليها ، ولا أن تضارها لتتنازل لك عنه ، قال تعالى : (وَلَا تَعْضُلُوهُنَّ لِتَذْهَبُوا بِبَعْضِ مَا آتَيْتُمُوهُنَّ إِلَّا أَنْ يَأْتِينَ بِفَاحِشَةٍ مُبَيِّنَةٍ)النساء/ 19 .
وفي كل حال ، سواء أكان من حقها طلب الطلاق للضرر ، أم لم يكن ذلك من حقها ، فلا يجوز لها التحاكم إلى المحاكم الوضعية التي تحكم بما يخالف شرع الله ويضاد حكمه ، إذ الواجب على المسلم أن يُحَكِّم شرعَ الله تعالى في جميع أحواله ، وما يحصِّله الشخص من مال ، أو منفعة عن طريق هذه المحاكم ، خلافاً لما شرعه الله تعالى فهو سحت ، وحرام ، لا يحل له الانتفاع به .
وأما إذا ثبت لها حق شرعي ، وقضى لها به قاض يعلم شرع الله ، ويقضي به ، إلا أنه ليس له سلطان لإلزام الخصم بما قضى به ، فلا حرج عليها ، أو على صاحب الحق أيا ما كان ، في أن يترافع إلى المحاكم الوضعية ، ليستنقذ له حقه الشرعي ، ويلزم خصمه به .
وينظر للفائدة : الفتوى رقم : (114850).
وإن كان من نصيحة لنا في هذا المقام فإنا ننصحك أن تصلح ما بينك وبين زوجك ، وأن تستوعب ما حدث بينكما من خلاف وشقاق ، فإن الرجل هو الذي يطالب بالصبر والتحمل ، والتغافل والتغاضي ، إذ هو أكمل دينا وأوفر عقلا ، وننصحك بأن تتجنب ضربها مستقبلا ، خصوصا إذا ظهر لك أن الضرب سيؤدي إلى عكس المطلوب من زجرها وتأديبها ، إلى الزيادة في التمرد والنشوز.

طلب الطلاق بسبب السب والشتم

 فلا يجوز لزوجك أن يسبك أو يلعنك أو يلعن أهلك، وإذا فعل ذلك فمن حقك طلب الطلاق ولا إثم عليك في ذلك ـ إن شاء الله ـ ولو تكرر ذلك مع أكثر من زوج، فإنما تنهى المرأة عن طلب الطلاق من غير بأس، قال السندي في شرح الحديث: أي في غير أن تبلغ من الأذى ما تعذر في سؤال الطلاق معها.

وقد نص الفقهاء على أن السب واللعن من الضرر المبيح لطلب الطلاق، قال الدرديرولها ـ أي للزوجة ـ التطليق على الزوج بالضرر، وهو ما لا يجوز شرعا كهجرها بلا موجب شرعي وضربها كذلك وسبها وسب أبيها نحو: يا بنت الكلب يا بنت الكافر، يا بنت الملعون، كما يقع كثيرا من رعاع الناس، ويؤدب على ذلك زيادة على التطليق.

وليس من حق زوجك أن يأخذ شيئا من مالك بغير رضاك إلا إذا كان قد اشترط عليك أن يأذن لك في الخروج إلى العمل مقابل أن تعطيه قدرا من راتبك، فيلزمك الوفاء بذلك، وراجعي الفتويين رقم: 35014، ورقم: 19680.

واعلمي أن من حقك على زوجك أن يوفر لك مسكنا مناسبا، لكن لا يشترط أن يكون المسكن مملوكا، وإنما يكفي أن يملك منفعته بإجارة أو إعارة أو غيرها، قال الشربيني الشافعيولا يشترط في المسكن كونه ملكه قطعا، بل يجوز إسكانها في موقوف ومستأجر ومستعار.

والذي ننصحك به أن تصبري على زوجك وتعاشريه بالمعروف وتتفاهمي معه ليعاشرك بالمعروف ويجتنب الإساءة إليك، فإن تضررت من البقاء معه فلتوازني بين ضرر الطلاق وضرر بقائك معه على تلك الحال وتختاري ما فيه أخف الضررين، مع التنبيه إلى أن الطلاق ينبغي ألا يصار إليه إلا بعد تعذر جميع وسائل الإصلاح، وإذا أمكن للزوجين الاجتماع والمعاشرة بالمعروف ولو مع التغاضي عن بعض الهفوات والتنازل عن بعض الحقوق، كان ذلك أولى من الفراق، كما أن وجود المودة والألفة بين الزوجين يحتاج أحيانا إلى الصبر وإلى التغافل عن بعض الأمور والنظر إلى الجوانب الطيبة في أخلاق الطرف الآخر.

Friday, 20 December 2024

بینک ملازم سے ٹیوشن فیس لینا

 اگر کوئی شخص کسی بینک کے ملازم کے گھر اُس کے بچے کو ٹیوشن پڑھانے جاتا ہو اور اُس سے فیس وصول کرتا ہو تو ٹیوشن پڑھانے والا چوں کہ  اپنے پڑھانے کی فیس وصول کرتا ہے اور پڑھانا ایک جائز کام ہے ؛ اور مذکورہ صورت میں فیس میں دی گئی رقم (یعنی نوٹ کا سودی ہونا مصرح و ) متعین نہیں؛  اس لیے ٹیوٹر   کا بینک ملازم سے فیس وصول کرنا جائز ہو گا، تاہم اس میں کراہت ہوگی 

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (6/ 189):

"وإن كانا مما لايتعين فعلى أربعة أوجه: فإن أشار إليها ونقدها فكذلك يتصدق (وإن أشار إليها ونقد غيرها أو) أشار (إلى غيرها) ونقدها (أو أطلق) ولم يشر (ونقدها لا) يتصدق في الصور الثلاث عند الكرخي قيل: (وبه يفتى) والمختار أنه لايحلّ مطلقًا، كذا في الملتقى. و لو بعد الضمان هو الصحيح، كما في فتاوى النوازل. و اختار بعضهم الفتوى على قول الكرخي في زماننا لكثرة الحرام، و هذا كله على قولهما."

بینک ملازم سے رکشہ کا کرایہ لینا

 سواری سے اپنے رکشہ کے کرایہ کی رقم لینا جائز ہے ۔

الدر المختار مع رد المحتار میں ہے:

"اكتسب حراما واشترى به أو بالدراهم المغصوبة شيئا. قال الكرخي: إن نقد قبل البيع تصدق بالربح وإلا لا وهذا قياس وقال أبو بكر كلاهما سواء ولا يطيب له وكذا لو اشترى ولم يقل بهذه الدراهم وأعطى من الدراهم".

وفي الرد:"(قوله اكتسب حراما إلخ) توضيح المسألة ما في التتارخانية حيث قال: رجل اكتسب مالا من حرام ثم اشترى فهذا على خمسة أوجه: أما إن دفع تلك الدراهم إلى البائع أولا ثم اشترى منه بها أو اشترى قبل الدفع بها ودفعها، أو اشترى قبل الدفع بها ودفع غيرها، أو اشترى مطلقا ودفع تلك الدراهم، أو اشترى بدراهم أخر ودفع تلك الدراهم. قال أبو نصر: يطيب له ولا يجب عليه أن يتصدق إلا في الوجه الأول، وإليه ذهب الفقيه أبو الليث، لكن هذا خلاف ظاهر الرواية فإنه نص في الجامع الصغير: إذا غصب ألفا فاشترى بها جارية وباعها بألفين تصدق بالربح. وقال الكرخي: في الوجه الأول والثاني لا يطيب، وفي الثلاث الأخيرة يطيب، وقال أبو بكر: لا يطيب في الكل، لكن الفتوى الآن على قول الكرخي دفعا للحرج عن الناس اهـ. وفي الولوالجية: وقال بعضهم: لا يطيب في الوجوه كلها وهو المختار، ولكن الفتوى اليوم على قول الكرخي دفعا للحرج لكثرة الحرام اه".

(‌‌كتاب البيوع، باب المتفرقات من أبوابها، مطلب إذا اكتسب حراما ثم اشترى فهو على خمسة أوجه، 5/ 235، ط: سعيد)

Wednesday, 18 December 2024

موزوں پر مسح کی مدت

 موزوں پر مسح کی مدت مقیم آدمی کے لیےایک دن اور ایک رات ہے، اور اس کا اعتبار وقت حدث سے ہے، یعنی: جس وقت حدث لاحق ہوا ہے اس وقت سے لے کر ایک دن اور  رات پورا ہونے پر مسح کی مدت مقیم کے لیے  مکمل ہو جائے گی، اس کے بعد وضو کے وقت موزوں کو اتار کر پاؤں دھونا ضروی ہے۔ لہذا صورت مسئولہ میں رات کو جس وقت حدث لاحق ہوا  (وضو ٹوٹا) ہے، اس وقت سے سے کر دوسرے دن اس وقت تک مدت پوری ہو جائے گی، اس کے بعد مسح کرنا جائز نہیں بلکہ پاؤں کا دھونا لازم ہے، بغیر پاؤں دھوئے  مسح کر کے نماز پڑھنا درست نہیں ہے۔

حدیث شریف میں ہے:

أخبرنا الثوري، عن عمرو بن قيس الملائي، عن الحكم بن عتيبة، عن القاسم بن مخيمرة، عن شريح بن هانئ، قال: أتيت عائشة أسألها عن المسح على الخفين، فقالت: عليك بابن أبي طالب، فسله فإنه كان يسافر مع رسول الله صلى الله عليه وسلم فسألناه فقال: «جعل رسول الله صلى الله عليه وسلم ثلاثة أيام ولياليهن للمسافر، ويوما وليلة للمقيم» قال: وكان سفيان، إذا ذكر عمرا، أثنى عليه.

(صحیح مسلم، کتاب الطہارۃ، باب التوقيت في المسح على الخفين، ج: 1، صفحہ: 204، رقم الحدیث: 276، ط: دار إحياء التراث العربي - بيروت)

فتاوی عالمگیری میں ہے:

(ومنها) أن يكون في المدة وهي للمقيم يوم وليلة وللمسافر ثلاثة أيام ولياليها. هكذا في المحيط سواء كان السفر سفر طاعة أو معصية. كذا في السراجية وابتداء المدة يعتبر من وقت الحدث بعد اللبس حتى إن توضأ في وقت الفجر ولبس الخفين ثم أحدث وقت العصر فتوضأ ومسح على الخفين فمدة المسح باقية إلى الساعة التي أحدث فيها من الغد إن كان مقيما. هكذا في المحيط ومن اليوم الرابع إن كان مسافرا. هكذا في محيط السرخسي.

(کتاب الطہارۃ، الباب الخامس في المسح على الخفين، الفصل الأول في الأمور التي لا بد منها في جواز المسح، ج: 1، صفحہ: 33، ط: دار الفکر)

مقتدی نے امام کے پیچھے سجدہ تلاوت نہیں کیا

 مقتدی کی نماز ہوجائے گی، نماز لوٹانے کی ضرورت نہیں ہے، البتہ اگر قصداً امام کے ساتھ سجدہ تلاوت نہیں کیا  تو ایسی صورت میں توبہ واستغفار کرنا  لازم ہوگا۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (1/ 472):
’’وإنما تفسد بمخالفته في الفروض كما بسطناه في الخزائن.

(قوله: وإنما تفسد) أي الصلاة بمخالفته في الفروض المراد بالمخالفة هنا عدم المتابعة أصلاً بأنواعها الثلاث المارة، والفساد في الحقيقة إنما هو بترك الفرض، لا بترك المتابعة، لكن أسند إليها لأنه يلزم منها تركه، وخص الفرض؛ لأنه لا فساد بترك الواجب أو السنة‘‘. 

وفیه أیضاً (2/ 82):
’’(ومقتد بسهو إمامه إن سجد إمامه)؛ لوجوب المتابعة (لا بسهوه) أصلاً‘‘.
وفي الرد: ’’... بل الأولى التمسك بما روى ابن عمر عنه صلى الله عليه وسلم: «ليس على من خلف الإمام سهو» اهـ‘‘.

وفیه أیضاً (2/ 110):
’’(ولو تلاها في الصلاة سجدها فيها لا خارجها)؛ لما مر. وفي البدائع: وإذا لم يسجد أثم فتلزمه التوبة.
(قوله: وإذا لم يسجد أثم إلخ) أفاد أنه لا يقضيها. قال في شرح المنية: وكل سجدة وجبت في الصلاة ولم تؤد فيها سقطت أي لم يبق السجود لها مشروعاً؛ لفوات محله. اهـ.
أقول: وهذا إذا لم يركع بعدها على الفور وإلا دخلت في السجود وإن لم ينوها كما سيأتي وهو مقيد أيضاً بما إذا تركها عمداً حتى سلم وخرج من حرمة الصلاة. أما لو سهواً وتذكرها ولو بعد السلام قبل أن يفعل منافياً يأتي بها ويسجد للسهو، كما قدمناه‘‘.

Sunday, 8 December 2024

ملازمت کے مقام پر ایک ہفتہ ٹھہرنے سے قصر ہیکہ نھیں

 ملازمت کی جگہ وطن اقامت ہے وطن اصلی نہیں ہے اور وطن اقامت میں جب پندرہ دن قیام کی نیت ہو جب آپ لوگ مقیم ہوں گے۔ پندرہ دن سے کم کی نیت ہو تو آپ مسافر رہیں گے اور اپنی نماز قصر کریں گے۔ آپ لوگ ہفتہ میں ایک بار اپنے وطن جاتے ہیں جائے ملازمت پر پندرہ دن ٹھہرنا نہیں ہوتا، اس لیے یہاں آپ لوگ قصر نماز پڑھیں گے۔


الدر المختار شرح تنوير الأبصار وجامع البحار (ص: 105):

"(من خرج من عمارة موضع إقامته) ... (قاصدًا) ... (مسيرة ثلاثة أيام ولياليها) من أقصر أيام السنة، ولا يشترط سفر كل يوم إلى الليل بل إلى الزوال، ولا اعتبار بالفراسخ على المذهب (بالسير الوسط مع الاستراحات المعتادة) حتى لو أسرع فوصل في يومين قصر، ولو لموضع طريقان أحدهما مدة السفر والآخر أقل قصر في الاول لا الثاني. (صلى الفرض الرباعي ركعتين) وجوبا لقول ابن عباس: إن الله فرض على لسان نبيكم صلاة المقيم أربعًا والمسافر ركعتين."

Tuesday, 3 December 2024

قرآن مجید کو بلا وضو چھونا

 بغیر وضو کے قرآنِ کریم کو چھونا جائز نہیں ہے، یہی جمہور علما ء کامسلک ہے ۔ سورہ واقعہ کی آیت: { لَايَمَسُّهٗٓ اِلَّا الْمُطَهَّرُوْنَ} ترجمہ: ’’جسے بغیر پاکوں کے اور کوئی نہیں چھوتا‘‘  کی تفسیر میں حضر ت مولانا مفتی محمد شفیع صاحب رحمہ اللہ لکھتے ہیں:

’’بعض حضرات مفسرین نے فرمایا کہ قرآن سے مراد وہ مصحف ہے جو ہمارے ہاتھوں میں ہے اور مطہرون سے مراد وہ لوگ ہیں جو نجاست ظاہری اور معنوی یعنی حدث اصغر و اکبر سے پاک ہوں ، حدث اصغر کے معنی بے وضو ہونے کے ہیں ، اس کا ازالہ وضو کرنے سے ہو جاتا ہے اور حدث اکبر جنابت اور حیض و نفاس کو کہا جاتا ہے جس سے پاکی کے لئے غسل ضروری ہے ، یہ تفسیر حضرت عطاء، طاؤس ، سالم اور حضرت محمد باقر سے منقول ہے (روح) اس صورت میں جملہ’’لا یمسہ‘‘  اگرچہ جملہ خبریہ ہے، مگر اس خبر کو بحکمِ انشاء یعنی نہی و ممانعت کے معنی میں قرار دیا جائے گا اور مطلب آیت کا یہ ہوگا کہ مصحف قرآن کو چھونا بغیر طہارت کے جائز نہیں اور طہارت کے مفہوم میں یہ بھی داخل ہے کہ ظاہری نجاست سے بھی اس کا ہاتھ پاک ہو اور بے وضو بھی نہ ہو اور حدث اکبر یعنی جنابت بھی نہ ہو ، قرطبی نے اسی تفسیر کو اظہر فرمایا ہے، تفسیر مظہری میں اسی کی ترجیح پر زور دیا ہے ۔

حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ  کے اسلام لانے کے واقعہ میں جو مذکور ہے کہ انہوں اپنی بہن کو قرآن پڑھتے ہوئے پایا تو اوراق قرآن کو دیکھنا چاہا ، ان کی بہن نے یہی آیت پڑھ کر اوراق قرآن ان کے ہاتھ میں دینے سے انکار کیا کہ اس کو پاک لوگوں کے سوا کوئی نہیں چھو سکتا ، فاروق اعظم نے مجبور ہو کر غسل کیا ، پھر یہ اوراق پڑھے ، اس واقعہ سے بھی اسی آخری تفسیر کی ترجیح ہوتی ہے اور روایات حدیث جن میں غیر طاہر کو قرآن کے چھونے سے منع کیا گیا ہے ، ان روایات کو بھی بعض حضرات نے اس آخری تفسیر کی ترجیح کے لیے  پیش کیا ہے ۔

مگر چوں کہ اس مسئلے میں حضرت ابن عباس اور حضرت انس  رضی اللہ عنہم وغیرہ کا اختلاف ہے جو اوپر آ چکا ہے ، اس لیے بہت سے حضرات نے بے وضو قرآن کو ہاتھ لگانے کی ممانعت کے مسئلے میں آیت مذکورہ سے استدلال چھوڑ کر صرف روایات حدیث کو پیش کیا (روح المعانی) وہ احادیث یہ ہیں :

امام مالک نے موطأ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا وہ مکتوبِ گرامی نقل کیا ہے جو آپ نے حضرت عمرو بن حزم کو لکھا تھا ، جس میں ایک جملہ یہ بھی ہے ’’لایمس القران إلا طاهر‘‘ (ابن کثیر) یعنی قرآن کو وہ شخص نہ چھوئے جو طاہر نہ ہو ۔

اور روح المعانی میں روایت مسند عبدالرزاق، ابن ابی داؤد اور ابن المنذر سے بھی نقل کی ہے اور طبرانی و ابن مردویہ نے حضرت عبداللہ بن عمر سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’لایمس القران إلا طاهر‘‘ (روح المعانی) یعنی قرآن کو ہاتھ نہ لگائے بجز اس شخص کے جو پاک ہو ۔

روایاتِ مذکورہ کی بنا پر جمہور امت اور ائمہ اربعہ کا اس پر اتفاق ہے کہ قرآنِ کریم کو ہاتھ لگانے کے لیے طہارت شرط ہے، اس کے خلاف گناہ ہے، ظاہری نجاست سے ہاتھ کا پاک ہونا، باوضو ہونا، حالتِ جنابت میں نہ ہونا سب اس میں داخل ہے، حضرت علی مرتضیٰ، ابن مسعود، سعد بن ابی وقاص، سعید ابن زید، عطاء اور زہری، نخعی ، حکم، حماد ، امام مالک، شافعی، ابو حنیفہ رحمہم اللہ سب کا یہی مسلک ہے‘‘

Friday, 29 November 2024

تیمم کب کیا جاسکتا ہے

 تیمم کرنا اس شخص کے لیے  جائز  ہے جس کو  پانی کے استعمال پر قدرت نہ ہو، اور پانی کے استعمال پر قدرت نہ ہونے کی دو صورتیں ہیں:

1- پانی میسر  نہ ہو، مثلًا شہر سے باہر ہو اور  آس پاس ایک میل تک پانی دست یاب نہیں ہو، یا کنواں تو ہے مگر کنویں سے پانی نکالنے کی کوئی صورت نہیں ہے،  یا پانی پر کوئی درندہ بیٹھا ہے یا پانی پر دشمن کا قبضہ ہے،  اس کے خوف کی وجہ سے پانی تک پہنچنا ممکن نہیں ہے، تو ان تمام صورتوں میں  اس شخص کو گویا پانی میسر ہی نہیں ہے، ایسا شخص وضو اور غسل کے لیے تیمم کرکے نماز پڑھ سکتا ہے۔

2- پانی تو موجود ہے لیکن وہ شخص بیمار ہے، اور وضو یا غسل سے جان کی ہلاکت یا کسی عضو کے تلف ہوجانے کا یا بیماری میں اضافہ ہوجانے کا  یا بیماری کے طول پکڑجانے کا اندیشہ ہے  یا خود وضو یا غسل کرنے سے معذور ہے اور کوئی دوسرا آدمی وضو یا غسل کرانے والا موجود نہیں ہے تو ایسا آدمی تیمم کرسکتا ہے۔

 جواب دے چکی تھی، میں مسجد میں داخل ہوگیا، اور ایک کونے میں بیٹھ کر موت کا انتظار کرنے لگا۔

کھانا لیے ایک عجمی نوجوان کی آمد

اتنے ہی میں ایک عجمی نوجوان صاف ستھری روٹیاں اور بھنا ہوا گوشت لے کر آیا اور بیٹھ کر انہیں کھانا شروع کردیا وہ جب لقمہ لیکر ہاتھ اوپر کرتا تو بھوک کی شدت کی وجہ سے بے اختیار میرا منھ کھل جاتا، کچھ دیر کے بعد میں نے اپنے آپ کو ملامت کی، اور دل میں کہا: یہ کیاحرکت ہے؟ یا تو خدا کھانے پینے کا کوئی انتظام کرے گا،اوراگرموت کا فیصلہ لکھ چکا ہے تو پھر وہ پورا ہوکر رہے گا!!

کھانے کے لئے اصرار

اچانک عجمی کی نظر میرے اوپر پڑی، اوراس نے مجھے دیکھ کر کہا: بھائی، آؤ کھانا کھالو، میں نے منع کردیا، اس نے قسم دی تو میرے نفس نے لپک کر کہا کہ اس کی بات مان لو، لیکن میں نے اس کی مخالفت کرتے ہوئے پھر انکار کردیا، اس نے پھر قسم دی، اور آخر میں راضی ہوگیا اور رُک رُک کر تھوڑا تھوڑا کھانے لگا، وہ مجھ سے پوچھنے لگا، تم کیا کرتے ہو؟ کہاں کے ہو؟ اور کیا نام ہے؟ میں نے کہا: میں جیلان سے پڑھنے کے لئے آیا ہوں، اس نے کہا: ”میں بھی جیلان کا ہوں“ کیا تم ابوعبداللہ صومعی درویش کے نواسے، عبدالقادر نامی، جیلانی نوجوان کو جانتے ہو؟ میں نے کہا: میں وہی تو ہوں!۔(۲)