https://follow.it/amir-samdani?action=followPub

Thursday 8 October 2020

لاقانونیت اور تعصب کاامتزاج

 ہاتھرس میں ایک دلت لڑکی کی  چند اونچی ذات کے نوجوانوں کے ذریعےآبروریزی کی گئ اور نہایت بے دردی سے پھرقتل کردیاگیا.پوری دنیامیں ملک کی جگ ہنسائی ہوئی. عالمی اور ملکی میڈیا نے اسے خوب پھیلایا.سیاسی قائدین نے ہاتھرس جاکر اس لڑکی کے اہل خانہ کی غمگساری کی کوشش کی اگرچہ حکومت نے مسلح پولیس کے ذریعہ ان کے اہل خانہ کو ایسانظربند کیاکہ آج تک وہ کسی سے نہیں مل سکتے میڈیا,دانشوران,اور دیگر حضرات کا ایک سیلاب ہاتھرس کے اس گاؤں کا رخ کرنے لگا.اسی  تناظر میں چند مسلم جوانوں کوگرفتارکرلیا اور ان پر ملک سے غداری کا کیس درج کرتے ہوئے حوالات میں بھیج دیا.

بی جے پی حکومت  تعصب گردی کےریکارڈ توڑتے ہوئے ایک گینگ ریپ اور قتل کے معاملہ کو فرقہ وارانہ رنگ دینے کی کوشش کررہی ہے.کیونکہ یہ ایک ایسا موضوع ہے جس میں اس متعصب پارٹی کو مہارت تامہ حاصل ہے اسی مکروفریب سے یہ عوام کوبےوقوف بناتی اور الیکشن میں کامیاب ہوتی ہے.دہلی فسادات پر مرکزی حکومت کی رپورٹ اور دہلی پولیس کا کردار اس کی تازہ مثال تھے لیکن یہ دجل وفریب تازہ ترین ہے.اس کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے.افسوس کی بات یہ ہے آجکل عدلیہ حکومت کے موافق احکام صادر کرنے میں توپیش پیش ہے لیکن اس کے خلاف آج تک کوئی حکم صادر نہیں کیا.شاہین باغ احتجاج پرتوفیصلہ سنادیالیکن سی اے اے میں مذہب کی بنیادپرشہریت دینے کی حیثیت پر زبان عدل گنگ ہے.گویاکوئی واقعہ وقوع پذیر ہی نہیں ہوا. مرکزی حکومت نے ایک نیا قانون ویزہ فیس سے متعلق مذہبی تفریق پرمبنی بنایاہے جس کا ماحصل یہ ہے کہ اگرکوئی غیر ملکی ہندوستان میں ویزہ کی مدت سے زیادہ 91دن سے دوسال تک قیام کرے تواسے اس قیام پر پانچ سو روپے جرمانہ اداکرنا پڑے گا اور اگر کوئی مسلم ہے تو اتنے ہی دن قیام پر اسے یہی جرمانہ ڈالر میں ادا کرنا ہوگا جس کی مقدار اکیس ہزار روپے ہوتی ہے .کیا ایک سیکولر ملک میں اس طر ح کے قوانین سراسر زیادتی اور تفریق پر مبنی نہیں .مشہور انگریزی روزنامہ "دی ہندو"١۰ دسمبر  ۲۰١۹ کا اقتباس درج ذیل ہے جس میں اس کی تفصیل شائع ہوئی ہے:

The FRRO rules, posted on its website, noted that the “penalty of overstay” for “minority communities from Pakistan, Bangladesh and Afghanistan” is ₹500 for more than two years, ₹200 for 91 days to two years and ₹100 for up to 90 days.

On the other hand, if the person who overstayed does not belong to minority community, then the charges are in dollars — $500 (₹35,000), $400 (₹28,000) and $300 (₹21,000) — for the same duration of overstay.

“This means if Liton Das (a Bangladeshi cricketer, a Hindu) overstays for a day, then he will have to pay ₹100, whereas if the person’s name is Saif Hasan, he will have to pay over ₹21,000, which is what Mr. Hasan paid,” a senior Bangladeshi official told The Hindu.

Recently, the Deputy High Commission office staff had to raise funds to send a “poor Bangladeshi woman” back to her country. “She overstayed for a day and was asked to pay ₹21,000. She did not have money and we [DHC staff] had to raise the sum. Why should there be discrimination on religious lines?” the diplomat asked. Bangladesh is even more “hurt” as India’s new rule is equally applicable to Bangladesh and Pakistan. “Can India historically and morally bracket Pakistan and Bangladesh together?”

No comments:

Post a Comment