https://follow.it/amir-samdani?action=followPub

Thursday 5 August 2021

طلاق کے لیے گواہ ضروری نہیں

 حدیث میں ہے الطلاق لمن اخذ بالساق طلاق کا اختیار شوہر کو ہے نیز نکاح سے پہلے لڑکے لڑکی دونوں با اختیار تھے لیکن جب ایجاب و قبول کے ذریعہ دونوں رشتہ نکاح میں بندھ گئے تو اللہ تعالی نے نکاح کی ڈور مرد کے ہاتھ میں دے دی اب اسے رکھنے ختم کرنے کا اختیار مرد کو حاصل ہوگیا قرآن پاک میں بیدہ عُقدة النکاح کے ذریعہ اس حقیقت کی طرف اشارہ کیا گیا ہے یہ اللہ تعالی کا قانون ہے جو شخص قانون الٰہی کو مانتاہے وہ مسلمان کہلاتا ہے یہ ہماری عقل کا بنایا ہوا نہیں ہے کہ عقل انسانی میں آنا ضروری ہو۔ نیز جو شخص اللہ تعالی ہی کو نہیں مانتا تو اگر قانون کو نہ مانے تو تعجب کیا۔ نشہ کی حالت میں بھی طلاق پڑ جاتی ہے حدیث میں ہے ثلاث جدہن جد وہز لہن جدٌ۔ عدت کے سلسلے میں جو بات لکھی ہے اس کا بھی جواب یہی ہے کہ یہ اللہ تعالی کا بنایا ہوا قانون ہے لہٰذا یہ قانون کیوں بنایا اس کی جوابدہی ہمارے ذمہ نہیں ہے۔

تفسیرالقرطبی میں ہے:

"قوله تعالى: {وأشهدوا} أمر بالإشهاد على الطلاق. وقيل: على الرجعة. والظاهر رجوعه إلى الرجعة لا إلى الطلاق. فإن راجع من غير إشهاد ففي صحة الرجعة قولان للفقهاء. وقيل: المعنى وأشهدوا عند الرجعة والفرقة جميعاً. وهذا الإشهاد مندوب إليه عند أبي حنيفة، كقوله تعالى: {وأشهدوا إذا تبايعتم} [البقرة: 282] . وعند الشافعي واجب في الرجعة، مندوب إليه في الفرقة. وفائدة الإشهاد ألايقع بينهما التجاحد، وألايتهم في إمساكها، ولئلايموت أحدهما فيدعي الباقي ثبوت الزوجية". (18 / 157، سورۃ الطلاق، ط؛ الھیۃ المصریۃ العامہ لکتاب

Wednesday 4 August 2021

ترک رفع یدین کے دلائل

 واضح رہے کہ صحیح  احادیث صرف وہی نہیں ہیں جو امام بخاری رحمہ اللہ نے صحیح بخاری میں  ذکر کی ہیں، بلکہ امام بخاری نے  اپنی شرائط اور فقہی ذوق کے مطابق صحیح احادیث میں سے انتخاب کرکے اپنی کتاب میں ان کو ذکر کیا ہے، (حدیث اور تاریخ پر امام بخاری رحمہ اللہ کی دیگر کتابیں بھی ہیں، ان میں بہت سی مزید روایات خود امام بخاری رحمہ اللہ نے جمع کی ہیں۔) صحیح بخاری میں سات ہزار  اور کچھ احادیث ہیں، جن کے بارے میں  خود  امام بخاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ میں نے ان کو  چھ لاکھ احادیث میں سے انتخاب کرکے لیا ہے،  ابراہیم بن معقل رحمہ اللہ ان سے روایت کرتے ہیں: امام بخاری  رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ میں نے اپنی کتاب "صحیح بخاری" میں صرف وہی احادیث ذکر کی ہیں جو صحیح ہوں اور بہت سی  صحیح  احادیث کو طوالت کی وجہ سے ذکر نہیں کیا ہے،   نیز خود امام بخاری رحمہ اللہ سے مروی ہے کہ جو صحیح احادیث میں نے ذکر نہیں کیں وہ ان سے زیادہ ہیں جن کو میں نے اپنی کتاب میں ذکر کیا ہے،  لہذا صحیح حدیث کا مدار یہ نہیں ہے کہ وہ صحیح  بخاری میں موجود ہو، ہاں امام بخاری رحمہ اللہ نے  اپنی سخت شرائط کے ساتھ صحیح احادیث میں سے منتخب کرکے  ان میں سے چند کا انتخاب کیا ہے۔

صحیح احادیث پر مشتمل دیگر کتابیں اور مجموعے بھی موجود ہیں، امام مسلم رحمہ اللہ کی کتاب بھی صحیح ہے، لیکن امام مسلم رحمہ اللہ سے بھی منقول ہے کہ انہوں نے فرمایا: ہر وہ حدیث جو صحیح ہو وہ میں نے اپنی کتاب میں ذکر نہیں کی ہے۔ موطا امام مالک رحمہ اللہ میں بھی صحیح احادیث ہیں، صحیح ابن حبان وغیرہ بھی صحیح ہیں۔ اسی طرح کتب ستہ اور احادیث کی دیگر کتابوں میں بھی صحیح احادیث کا بہت بڑا ذخیرہ موجود ہے۔

دوسری بات یہ ہے کہ  یہ بھی ذہن نشین رہنا چاہیے ہے کہ احادیث کی صرف دو ہی قسمیں صحیح اورضعیف نہیں ؛بلکہ اس کی متعدد اقسام ،مثلاً: صحیح  لذاتہ،صحیح لغیرہ ؛حسن لذاتہ،حسن لغیرہ ، ضعیف، موضوع وغیرہ وغیرہ ، پھر ضعیف کی بھی بہت سی قسمیں ہیں، اور عمل اور استدلال کے اعتبار سے بھی ان میں فرقِ مراتب  ہوتا  ہے، مثلاً حدیث صحیح کی پانچ شرطیں ہیں:

۱:․․․سند کا اتصال۲:․․․راویوں کی عدالت۳:․․․ضبط ۴:․․․شذوذ ۵:․․․علتِ قادحہ سے محفوظ ہونا۔
حدیثِ حسن بھی انہیں صفات کی حامل ہوتی ہے، البتہ اس کے کسی راوی میں ضبط کے اعتبار سے معمولی کمی ہوتی ہے، جس کی وجہ سے اس کی حدیث نہ تو صحیح کہی جاسکتی ہے اور نہ ہی ضعیف میں شمار ہوتی ہے بلکہ وہ حدیث "حسن" شمار ہوتی ہے۔ اور حسن کی ایک قسم وہ ضعیف ہے جو تعدد طرق کی وجہ سے قوت پاکر حسن بن جاتی ہے اس کو "حسن لغیرہ" کہتے ہیں اور جو حدیث اس سے بھی کم درجہ کی  ہو وہ ضعیف کہلاتی ہے، جس کے مراتب مختلف ہوتے ہیں، سب سے کم  موضوع ہے جو  من گھڑت  ہوتی ہیں۔
صحیح اور حسن کے تو قابلِ استدلال ہونے میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔ چنانچہ جمیع ابوابِ دین میں ان سے استدلال کیا جاتا ہے، البتہ ضعیف کے سلسلہ میں علماء کا اختلاف ہے، جمہور کی رائے یہ ہے کہ احکام یعنی حلال وحرام کے باب میں تو ضعیف کو حجت نہیں بنایا جاسکتا ہے، (بشرطے کہ اسے تلقی بالقبول حاصل نہ ہو، اور اس کے متابع اور شواہد موجود نہ ہوں) البتہ فضائلِ اعمال میں،ترغیب وترہیب، قصص، مغازی وغیرہ میں  چند شرائط کے ساتھ اس کو دلیل بنایا جاسکتا ہے۔

امام بخاری رحمہ اللہ نے چوں کہ التزام کررکھا ہے کہ وہ اپنی کتاب میں صرف ان ہی راوایات کو جگہ دیں گے ؛ جوان قسموں میں سے اول درجے کی ہوں گی۔ بقیہ قسمیں بخاری اورمسلم میں جگہ نہیں پاسکیں ۔لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ حدیثیں منکرہیں، جیسا کہ اس کی تفصیل شروع میں ذکر ہوئی، بلکہ  محدثین کو جو روایات پہنچیں؛ان کو انہوں نے جانچا ،ان کے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے درمیان جتنے لوگ اس روایت کو نقل کرنے میں واسطہ بنتے؛ ان کے احوالِ زندگی،ان کے قوتِ حفظ ،مہارت ،ضبط اور عدالت وغیرہ کو جانچنے کے بعد اس حدیث پر صحیح ،حسن ،صحیح لغیرہ یا حسن لغیرہ اورضعیف وغیرہ کا حکم لگادیا۔ اگر روایت سب سے اعلی درجہ کی ہوتی ہے؛ تو اس کو صحیح کہہ دیتے، اگر کہیں کوئی کمی کوتاہی نظر آتی تو اس کو حسن وغیرہ کہہ دیتے،بعض مرتبہ تمام شرائط پائی جاتیں؛مگر اس کو محض اپنے خاص ذوق(علۃ خفیہ) کی وجہ سے چھوڑ دیتے۔ ہاں! اگر اس روایت کے بارے میں معلوم ہوجاتاکہ وہ جھوٹی ہے تو اس کو منکراور موضوع قرار دیتے اوراسے اپنی کتابوں میں نقل ہی نہ کرتے ۔ موضوعا ت کی کتابیں الگ سے لکھی گئی ہیں؛تاکہ کسی موضوع روایت کے بارے میں تحقیق کرنی ہوتو اس کتاب میں اس کی تفصیل مل جائے گی۔

اسی طرح صحت کی شرائط کے لحاظ میں بھی محدثین کے اذواق مختلف ہوئے ہیں، بعض ائمہ اس حوالے سے متشدد ہیں، چناں چہ جمہور کے ہاں بعض روایات صحت کے درجے کو پہنچتی ہیں لیکن وہ انہیں بھی صحت کا درجہ نہیں دیتے۔ حوالہ جات جواب کے آخر میں ملاحظہ ہوں!

مذکورہ بالا تفصیل کے بعد  آپ کے سوال کا جواب درج ذیل ہے:

’’ رفع یدین‘‘ دو لفظوں کا مجموعہ ہے، ’’رفع‘‘ کا مطلب ہے اٹھانا اور ’’یدین‘‘ کا مطلب ہے دونوں ہاتھ، چنانچہ ’’رفع یدین ‘‘ کا مطلب ہوا  ’’دونوں ہاتھوں کو اٹھانا‘‘، رفع یدین سے مراد نماز کی حالت میں تکبیر کہتے وقت دونوں ہاتھوں کو کانوں کی لو تک اٹھانا ہے، وتر اور عیدین کی نماز کے علاوہ عام نمازوں میں  صرف تکبیر تحریمہ کہتے وقت ہی رفعِ یدین کرنا مسنون ہے، اور یہ مسئلہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے زمانہ سے مختلف فیہ ہے،حضورصلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے بعد بعض صحابہ کرام رفع یدین کرتے تھے اوربعض نہیں کرتے تھے۔اسی وجہ سے مجتہدینِ امت میں بھی اس مسئلہ میں اختلاف ہواہے،امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ نے ترکِ رفع یدین والی روایات کوراجح قراردیاہے،کئی اکابر صحابہ کرام کامعمول ترکِ رفع کاتھا، اوریہی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کاآخری عمل ہے۔ احناف کے نزدیک  ترکِ رفع یدین ہی  سنت ہے۔

تکبیر تحریمہ کے علاوہ دیگر مواقع پر رفعِ یدین نہ کرنے کے دلائل درج ذیل ہیں:

1۔۔  "حدّثنا إسحاق، حدثنا ابن إدریس قال: سمعت یزید بن أبي زیاد عن ابن أبي لیلی عن البراء قال: رأیت رسول  الله صلی  الله علیه وسلم رفع یدیه حین استقبل الصلاة، حتی رأیت إبهامیه قریبًا من أذنیه ثم لم یرفعهما". (مسند أبي یعلی الموصلي ۲/ ۱۵۳، حدیث: ۱۶۸۸، طحاوي شریف ۱/ ۱۳۲، جدید برقم: ۱۳۱۳، أبوداؤد، ۱/ ۱۰۹، جدید برقم: ۷۴۹)
ترجمہ: حضرت براء بن عازب رضی  اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ میں نے رسول  اللہ صلی  اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ دونوں ہاتھوں کو اٹھایا جس وقت نماز شروع فرمائی تھی، حتی کہ میں نے دیکھا کہ دونوں ہاتھوں کے انگوٹھوں کو دونوں کانوں کے قریب پہنچایا، اس کے بعد پھر اخیر نماز تک دونوں ہاتھوں کو نہیں اٹھایا۔
2۔۔   "عن عقلمة عن عبد الله بن مسعود عن النبي صلی  الله علیه وسلم أنه کان یرفع یدیه في أوّل تکبیرة ثم لایعود". (شرح معاني الآثار، للطحاوي ۱/ ۱۳۲، جدید ۱/ ۲۹۰، رقم: ۱۳۱۶)
ترجمہ: حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی  اللہ عنہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت فرماتے ہیں کہ آپ صرف شروع کی تکبیر میں دونوں ہاتھوں کو اٹھاتے تھے، پھر اس کے بعد اخیر نماز تک نہیں اٹھاتے تھے۔
3۔۔  "عن المغیرة قال: قلت لإبراهيم: حدیث وائل أنه رأی النبي صلی الله علیه وسلم یرفع یدیه إذا افتتح الصلاة وإذا رکع وإذا رفع رأسه من الرکوع، فقال:إن کان وائل رآه مرةً یفعل ذلك فقد رآه عبد الله خمسین مرةً لایفعل ذلك". (شرح معاني الآثار، للطحاوي ۱/ ۱۳۲، جدید ۱/ ۲۹۰، برقم: ۱۳۱۸)    
ترجمہ: حضرت مغیرہؒ نے حضرت امام ابراہیم نخعیؒ سے حضرت وائل ابن حجرؒ کی حدیث ذکر فرمائی کہ حضرت وائل بن حجرؒ سے مروی ہے فرماتے ہیں کہ میں نے رسول  اللہ ﷺ کو دیکھا کہ آپ دونوں ہاتھوں کو اٹھاتے تھے جب نماز شروع فرماتے اور جب رکوع میں جاتے اور جب رکوع سے سر اٹھاتے تو اس پر ابراہیم نخعیؒ نے مغیرہ سے کہا کہ اگر وائل بن حجرؓ نے حضور ﷺ کو اس طرح رفع یدین کرتے ہوئے ایک مرتبہ دیکھا ہے تو حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی  اللہ عنہ نے حضور کو پچاس مرتبہ رفع یدین نہ کرتے ہوئے دیکھا ہے۔ (کیوں کہ حضرت وائل بن حجر رضی اللہ عنہ مدینہ کے رہائشی نہ تھے، بلکہ اسلام قبول کرنے کے بعد چند دن مدینہ منورہ میں رہ کر اسلامی تعلیمات سیکھ کر تشریف لے گئے تھے، جب کہ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سفر وحضر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رہنے والے، آپ ﷺ کے خادمِ خاص بھی تھے، اور لسانِ نبوت سے علم وفضل کی سند بھی حاصل کرچکے تھے، اور آپ ﷺ نے امت کو ان کی پیروی کا حکم بھی دیا ہے، نیز صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین بھی ان سے علم حاصل کرتے تھے اور فتویٰ لیتے تھے، حضرت عمر اور حضرت علی رضی اللہ عنہما جیسے جلیل القدر اور اصحابِ فضل وعلم صحابہ کرام نے ان کے کمالِ علم کی تعریف فرمائی۔)
4۔۔   "عن جابر بن سمرة قال: خرج علینا رسول  الله صلی  الله علیه وسلم فقال: مالي أراکم رافعی أیدیکم کأنها أذناب خیل شمس اسکنوا في الصلاة". (صحیح مسلم  ۱/  ۱۸۱)
ترجمہ : حضرت جابر بن سمرہ رضی  اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور صلی  اللہ علیہ وسلم نے ہماری طرف تشریف لاکر فرمایا : مجھے کیا ہوگیا کہ میں تم لوگوں کو نماز کے اندر اپنے دونوں ہاتھوں کو اٹھاتے ہوئے دیکھتا ہوں، گویا کہ ایسا لگتا ہے جیسا کہ بے چینی میں گھوڑے اپنی دم کو اوپر اٹھا اٹھا کر ہلاتے ہیں، تم نماز کے اندر ایسا ہرگز مت کیا کرو، نماز میں سکون اختیار کرو۔
5۔۔ "عن  علقمة قال: قال عبد الله بن مسعود ألا أصلي بکم صلاة رسول  الله صلی  الله علیه وسلم، فصلی فلم یرفع یدیه إلا في أول مرة". ( جامع الترمذي  ۱/ ۵۹، جدید برقم: ۲۵۷، أبوداؤد شریف ۱/ ۱۰۹، جدید برقم: ۷۴۸)
ترجمہ: حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی  اللہ عنہ سے مروی ہے، وہ فرماتے ہیں کہ تم آگاہ ہوجاؤ! بے شک میں تم کو حضور صلی  اللہ علیہ وسلم کی نماز پڑھاکر دکھاتا ہوں، یہ کہہ کر نماز پڑھائی اور اپنے دونوں ہاتھوں کو صرف اول تکبیر میں اٹھایا پھر پوری نماز میں نہیں اٹھایا۔
6۔۔  " عن علقمة قال: قال عبد الله بن مسعود ألاَ أصلّي بکم صلاة رسول  الله صلی الله علیه وسلم قال:  فصلی فلم یرفع یدیه إلا مرةً واحدةً". (سنن النساائي  ۱/ ۱۲۰، جدید رقم: ۱۰۵۹، أبوداؤد قدیم ۱/ ۱۰۹، جدید برقم: ۷۴۸، ترمذي قدیم    ۱/ ۵۹، جدید رقم: ۲۵۷)
ترجمہ: حضرت علقمہ حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی  اللہ عنہ سے نقل فرماتے ہیں کہ آگاہ ہوجاؤ! میں تمہیں حضور صلی  اللہ علیہ وسلم کی نمازپڑھ کر دکھاتا ہوں، یہ کہہ کر نماز پڑھی تو اپنے دونوں ہاتھوں کو صرف ایک مرتبہ اٹھایا پھر نہیں اٹھایا۔

اس حدیث کو امام ترمذی نے حسن کہا ہے، اور صحابہ تابعین تبع تابعین اور بے شمار محدثین اور علماء نے اس حدیث شریف کو اختیار فرمایا، اور یہی امام سفیان ثوری (جلیل القدر محدث) اور اہلِ کوفہ نے کہا  ہے۔
"قال أبو عیسیٰ: حدیث ابن مسعود حدیث حسن، وبه یقول غیر واحد من أهل العلم من أصحاب النبي والتابعین، وهو قول سفیان وأهل الکوفة". ( جامع الترمذي  ۱/ ۵۹، )
7۔۔  "عن علقمة عن عبد الله بن مسعود قال: صلیت خلف النبي صلی  الله علیه وسلم، وأبي بکر وعمرفلم یرفعوا أیدیهم إلا عند افتتاح الصلاة." (السنن الکبری للبیهقي ۲/ ۸۰، ۲/ ۷۹، نسخه جدید دارالفکر بیروت ۲/ ۳۹۳ برقم: ۲۵۸۶)    
ترجمہ: حضرت علقمہ، حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی  اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ ابن مسعودؓ نے فرمایا: میں نے حضور صلی  اللہ علیہ وسلم کے پیچھے اور حضرت ابوبکرؓ وعمرؓ کے پیچھے نماز پڑھی ہے ان میں سے کسی نے اپنے ہاتھوں کو تکبیرِ تحریمہ کے علاوہ کسی اور تکبیر میں نہیں اٹھایا۔ (معلوم ہوا کہ حضرت ابوبکر وعمر رضی اللہ عنہما جو باتفاقِ امت سب صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے افضل ہیں، اور دنیا و آخرت میں آپ ﷺ کے مصاحب ہیں، صحابہ کرام میں سب سے اَعلم ہیں انہوں نے حضور ﷺ کی نماز سے سنت اسی کو سمجھا کہ تکبیرِ تحریمہ کے علاوہ رفعِ یدین نہ کیا جائے۔ آگے حضرت علی رضی اللہ عنہ کا عمل بھی بحوالہ آرہاہے کہ وہ بھی تکبیرِ تحریمہ کے علاوہ رفعِ یدین نہیں کرتے تھے، گویا خلفاءِ راشدین مہدیین رضی اللہ عنہم کا عمل ترکِ رفع یدین ہے، اور آپ ﷺ نے ہمیں خلفاءِ راشدین کا طریقہ اختیار کرنے کا بھی حکم فرمایا ہے، اگر حضور ﷺ سے رفعِ یدین کے بارے میں صریح روایت نہ بھی منقول ہوتی اور خلفاءِ راشدین کا عمل اسی طرح ہوتا تو بھی یہ ترکِ رفع کے سنت ہونے کی کافی دلیل تھی، کیوں کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم دین کے حوالے سے کوئی بات بلادلیل نہ کہتے تھے نہ عمل کرتے تھے۔)
8۔۔   "عن إبراهيم عن الأسود قال: رأیت عمر بن الخطاب یرفع یدیه في أول تکبیرة، ثم لایعود، قال: ورأیت إبراهيم والشعبی یفعلان ذلك". (طحاوي شریف ۱/ ۱۳۳، جدید ۱/ ۲۹۴ برقم: ۱۳۲۹)
ترجمہ: امام نخعیؒ، حضرت اسود بن یزیدؒ سے نقل فرماتے ہیں، وہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت عمر بن خطابؓ کو دیکھا کہ وہ نماز میں صرف شروع کی تکبیر میں ہاتھ اٹھاتے تھے اس کے بعد کسی میں ہاتھ نہیں اٹھاتے تھے۔ اور راوی کہتے ہیں کہ میں نے ابراہیم اور عامر شعبی کو بھی ایسا ہی کیا کرتے دیکھا۔
9۔۔  "عن عاصم بن کلیب الجرمي عن أبیه قال: رأیت علی بن أبي طالب رفع یدیه في التکبیرة الأولی من الصلاة المکتوبة ولم یرفعهما فیما سوی ذلك". (مؤطا إمام محمد/ ۹۲) 

ترجمہ: عاصم بن کلیب اپنے والد کلب جرمی سے نقل فرماتے ہیں کہ انہوں نے فرمایا : میں نے حضرت علی رضی  اللہ عنہ کو دیکھا کہ فرض نماز میں صرف تکبیر تحریمہ میں ہاتھ اٹھاتے تھے، اور اس کے علاوہ کسی اور تکبیر میں ہاتھ نہیں اٹھاتے تھے۔
10۔۔  "عن مجاهد قال: صلّیت خلف ابن عمر فلم یکن یرفع یدیه إلا في التکبیرة الأولی من الصلاة، فهذا ابن عمر قد رأی النبي صلی  الله علیه وسلم یرفع، ثمَّ قد ترک هو الرفع بعد النبي صلی  الله علیه وسلم فلایکون ذلك إلا وقد ثبت عنده نسخ ما قدرأی النبي صلی  الله علیه وسلم فعله وقامت الحجة علیه بذلك". (طحاوي شریف  ۱/ ۱۳۳، جدید ۱/ ۲۹۲ برقم: ۱۳۲۳)
ترجمہ: حضرت امام مجاہدؒ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت عبد اللہ ابن عمر رضی  اللہ عنہ کے پیچھے نماز پڑھی تو وہ دونوں ہاتھوں کو نماز کی صرف پہلی تکبیر میں اٹھاتے تھے، اس کے علاوہ کسی اور تکبیر میں نہیں اٹھاتے تھے، تو یہ حضرت ابن عمرؓ ہیں جنہوں نے حضور صلی  اللہ علیہ وسلم کو ہاتھ اٹھاتے ہوئے دیکھا اور پھر انہوں نے خود حضور صلی  اللہ علیہ وسلم کے زمانہ کے بعد ہاتھ اٹھانا ترک کردیا، اور ان کا ہاتھ اٹھانا ترک کرنا ہو نہیں سکتا، الاّ یہ کہ ان کے نزدیک حضور صلی  اللہ علیہ وسلم کے رفع یدین کا عمل یقینا منسوخ ہوچکا ہے، اور ان کے نزدیک رفع یدین کے منسوخ ہونے پر حجت قائم ہوچکی ہے۔

جواب کے تمہیدی مضامین کے حوالہ جات:

ثمرات النظر في علم الأثر (ص: 137):
" أما قَول البُخَارِيّ لم أخرج فِي هَذَا الْكتاب إِلَّا صَحِيحا وَمَا تركت من الصَّحِيح أَكثر، وَقَوله مَا أدخلت فِي كتابي الْجَامِع إِلَّا مَا صَحَّ فَهُوَ كَلَام صَحِيح إِخْبَار عَن نَفسه أَنه تحري الصَّحِيح فِي نظره".

الإمام البخاري وكتابه الجامع الصحيح (ص: 39):
"تصريحه بذلك في نصوص كثيرة نقلت عنه تقدم ذكر بعضها في السبب الباعث له على تأليفه وفي التنويه بمدى عنايته في تأليفه ومن ذلك غير ما تقدم ما نقله الإسماعيلي عنه أنه قال: "لم أخرج هذا الكتاب إلا صحيحا وما تركت من الصحيح أكثر". وروى إبراهيم بن معقل عنه أنه قال: "ما أدخلت في كتابي الجامع إلا ما صح وتركت من الصحيح حتى لايطول"…

الجامع لأخلاق الراوي وآداب السامع للخطيب البغدادي (2/ 185):
"حَدَّثَنِي الْحَسَنُ بْنُ مُحَمَّدٍ الدَّرْبَنْدِيُّ، قَالَ: سَمِعْتُ مُحَمَّدَ بْنَ الْفَضْلِ الْمُفَسِّرَ، يَقُولُ: سَمِعْتُ أَبَا إِسْحَاقَ الرَّيْحَانِيَّ، يَقُولُ: سَمِعْتُ عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ رَسَايَنَ الْبُخَارِيَّ، يَقُولُ: سَمِعْتُ مُحَمَّدَ بْنَ إِسْمَاعِيلَ الْبُخَارِيَّ، يَقُولُ: «صَنَّفْتُ كِتَابِي» الصِّحَاحُ «بِسِتَّ عَشْرَةَ سَنَةً خَرَّجْتُهُ مِنْ سِتِّمِائَةِ أَلْفِ حَدِيثٍ وَجَعَلْتُهُ حُجَّةً فِيمَا بَيْنِي وَبَيْنَ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ»".

النكت على مقدمة ابن الصلاح (2/ 308):
" أن الضعيف لايحتج به في العقائد والأحكام، ويجوز روايته والعمل به في غير ذلك، كالقصص وفضائل الأعمال، والترغيب والترهيب، ونقل ذلك عن ابن مهدي وأحمد بن حنبل، وروى البيهقي في المدخل عن عبد الرحمن ابن مهدي أنه قال : " إذا روينا عن النبي صلى الله عليه و سلم في الحلال والحرام والأحكام شددنا في الأسانيد، وانتقدنا في الرجال، وإذا روينا في فضائل الأعمال والثواب والعقاب سهلنا في الأسانيد، وتسامحنا في الرجال." 
 فتح المغيث (1/ 289):
"قد حكى النووي في عدة من تصانيفه إجماع أهل الحديث وغيرهم على العمل به في الفضائل ونحوها خاصةً، فهذه ثلاثة مذاهب

Tuesday 3 August 2021

جمہوریت بچانے کے لئے یوپی سے یوگی راج کاخاتمہ ضروری

 نئی دہلی،مسلم مجلس کے قومی صدر پروفیسر ڈاکٹر بصیر احمد خاں نے کہا ہے کہ آل انڈیا مسلم مجلس نے فیصلہ کیا ہے کہ آنے الے یوپی اسمبلی الیکشن میں وہ بڑی پارٹیوں کے ساتھ سمجھوتہ کرکے حصہ لے گی یہ اطلاع انہوں نے آج یہاں جاری ریلیز میں دی ہے مسٹر بصیر احمد خاں جو اندرا گاندھی نیشنل اوپن یونیورسٹی کے سابق پرووائس چانسلر اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی طلبا یونین کے سابق صدر رہ چکے ہیں، نے ایک بیان میں کہا کہ یوپی میں بی جے پی کو شکست دینے کے لیے اپوزیشن کا اکٹھا ہونا ضروری ہے۔ مختلف محاذ بناکر یا اکیلے لڑکر اسے ہرانا مشکل ہوگا بلکہ اس سے بی جے پی کو فائدہ ہوگا۔ انہوں نے وضاحت کی کہ مسلم مجلس چھوٹی چھوٹی پارٹیوں کے کسی بھی محاذ میں شامل نہیں ہے اور نہ ہی ہم ایسے کسی بھی کارواں کے ساتھ ہیں۔ انہوں نے کہا کہ بی جے پی کو چونکہ ہار کا ڈر ستارہا ہے لہذا وہ اپنے مخالف ووٹوں کی تقسیم کرانے کی پالیسی پر کام کر رہی ہے۔ لہذا نادان دوستوں اور ہمیں دوست نما دشمنوں کو پہچاننا ہوگا۔ بی جے پی کی غلط پالیسیوں کی وجہ سے عوام بیروزگاری، مہنگائی، بد انتظامی اور لاقانونیت کی مار جھیل رہے ہیں، گنگا کے کنارے کو رونا سے مرنے والوں کی لاشیں نکلنے کا سلسلہ ابھی تک جاری ہے۔ کسان مہینوں سے دھرنے دے رہے ہیں لیکن سرکار گونگی بہری ہوگئی ہے۔ سیاست دانوں، میڈیا، دانشوروں اور ججوں تک کی جاسوسی کرائی جارہی ہے۔ بے قصور لوگوں کو گرفتار کیا جارہا ہے، جائیدادیں ضبط کی جارہی ہیں، انکاؤنٹر کی دھمکی دی جارہی ہے لہذا ملک میں جمہوریت کو بچانے اور قانون کا راج قائم کرنے کے لئے اور عوام کو بیروزگاری اور مہنگائی سے چھٹکارا دلانے کے لئے یوپی کو یوگی مُکت کرنا ضرورہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ مسلم مجلس یوپی کی بیس اسمبلی سیٹوں پر الیکشن لڑے گی اور اپنے بانی ڈاکٹر فریدی مرحوم کی پالیسی پر عمل کرتے ہوئے جمہوریت نواز، کسان اور نوجوان حامی پارٹیوں سے انتخابی سمجھوتہ کرے گی۔ ماضی میں مسلم مجلس کے وزیر یوپی اور مرکز کی مخلوط حکومتوں میں شامل رہ چکے ہیں۔ لہٰذا مسلم مجلس اسی پالیسی پر عمل کر رہی ہے۔ آخری فیصلہ ہمارا پارلیمنٹری بورڈ کرے گا۔

سالگرہ منانااوراس کی مبارک باد دینا

 نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے، حضرات صحابہٴ کرام وتابعین سے ائمہ اربعہ سے، بزرگان دین سے جنم دن یا سالگرہ منانے کا کوئی ثبوت نہیں ملتا، یہ غیرقوموں کا طریقہ ہے۔ ہم مسلمانوں کو غیروں کا طریقہ اپنانا جائزنہیں، نہ ہی اس موقعہ پر مبارکباد دینا درست ہے۔ ہمیں اسلامی طریقہ پر زندگی گذارنا چاہیے، غیروں کے طریقوں کو اختیار نہ کرنا چاہیے۔ وَمَنْ یَّبْتَغِ غَیْرَ الْاِسْلاَمِ دِیْنًا فَلَنْ یُّقْبَلَ مِنْہ (القرآن)

محرم اورعزاداری کی توہین

 لکھنو: آل انڈیا شیعہ حسینی کونسل کے صدر معروف دانشور اور عالم دین علی ناصر سعید عبقاتی عرف آغا روحی نے اتر پردیش کے بدلتے منظر نامے کے حوالے سے تشویش کا اظہار کرتے ہوئے واضح کیا ہے کہ اگر عوام کو تحفظ فراہم کرنے اور ریاست میں قیامِ امن کے لیے متعین کئے گئے افسران ہی غیر ذمہ داری کا مظاہرہ کریں گے، تو ملک کے امن پسند اور جمہوریت میں یقین رکھنے والے لوگوں کے کئے مسائل مزید ابتر و پیچیدہ ہوجائیں گے۔

روح الملت کے مطابق کورونا کی گائڈ لائن کے نام پر اتر پردیش کے ڈی جی پی کے تحریری بیان اور ہدایت نامے نے صرف اہل تشیع حضرات کے جذبات کو ہی مشتعل و مجروح نہیں کیا ہے بلکہ محرم کی تقدیس اور کربلا کی روح پر بھی ضرب کاری کی ہے۔ ہندوستان کی سب سے بڑی ریاست کے ڈائرکٹر جنرل پولس کی زبان اور طرز تحریر نے ان تمام لوگوں کو مایوس کیا ہے جو ملک اور بالخصوص اتر پردیش میں شیعہ سنی اور ہندو مسلم اتحاد کے حامی ہیں۔ اور اس اتحاد و اتفاق کے لیے اپنے جائز حقوق جذبوں اور خواہشوں کی قربانیاں بھی پیش کرتے رہے ہیں۔ 

واضح رہے کہ اتر پردیش کے ڈی جی پی کی جانب سے کورونا کے نام پر جاری کی گئی اڈوائزری میں محرم کے دوران ادا کیے جانے والے عوامل کے تعلق سے جو کچھ تحریر کیا گیا تھا، اس کو لے کر علماء کرام اور عوام کی جانب سے سخت رد عمل کا اظہار کیا گیا ہے۔ کچھ علماء نے مطالبہ کیا ہے کہ ڈی جی پی کو معافی مانگنی چاہئے جبکہ کچھ لوگوں نے یہ الزام بھی عائد کیا کہ آئندہ الیکشن میں مفاد حاصل کرنےکے لئے حکومت اپنی پرانی حکمت عملی کی طرف لوٹ رہی ہے اور ڈی جی پی کا یہ ہدایت نامہ اسی منصوبہ بند حکمت عملی کا ایک شاخسانہ ہے۔ 

Monday 2 August 2021

استغفارکے فوائداورسیدالاستغفار

 استغفار کے فوائد:

٭استغفار کرنے سے انسان کے تمام چھوٹے بڑے گناہ معاف کر دئیے جاتے ہیں جن کو انسان شمار بھی نہیں کر سکتا،لیکن اللہ تعالیٰ کے پاس ان گناہوں کا پورا پورا ریکارڈ ہوتا ہے،جبکہ انسان بھول جاتا ہے۔
٭ظاہراً وباطناً خضوع وخشوع کا حصول ،کیونکہ جب انسان دل سے عاجزی کا اظہار کرتا ہے تب جا کر وہ توبہ کرتا ہے۔
٭نبی کریمﷺ کی اقتداء اور پیروی،کیونکہ نبی کریمﷺ کثرت سے استغفار کیا کرتے تھے۔
٭گناہوں سے بچنے اور اطاعت کرنے میں کوتاہی کا اعتراف،کیونکہ جب انسان اپنی کوتاہی کا اعتراف کر لیتا ہے تب وہ زیادہ سے زیادہ نوافل ادا کرتا ہے اورنیک اعمال کر کے اللہ تعالیٰ کے قریب ہونے کوشش کرتا ہے۔
٭استغفار دل کی سلامتی اور صفائی کا ذریعہ ہے۔کیونکہ حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
((ان العبد اذا أخطا خطیئۃ نکتت فی قلبہ نکتۃ سوداء ،فان ھو نزع واستغفر وتاب،صقل قلبہ))[رواہ الترمذی]
’’جب انسان گناہ کرتا ہے تو اس کے دل پر سیاہ نکتہ لگا دیا جاتا ہے،اگر انسان اس گناہ کو چھوڑ دے اور اس پر توبہ واستغفار کرے تو اس کے دل کودھو کر چمکا دیا جاتا ہے۔‘‘
سید الاستغفار:

حضرت شداد بن اوس روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا جو شخص یقین کامل کے ساتھ صبح کی نماز کے بعد سید الاستغفار پڑھے گا ،اگر اسی دن شام سے پہلے پہلے مر گیا تو سیدھا جنت میں جائے گا،اسی طرح جو شخص یقین کامل کے ساتھ مغرب کی نماز کے بعد سید الاستغفار پڑھے گا ،اگر اسی رات صبح سے پہلے پہلے مر گیا تو سیدھا جنت میں جائے گا۔سید الاستغفار یہ ہے:
((اللھم أنت ربی لاالہ الا أنت،خلقتنی وأنا عبدک ،وأنا علی عھدک ووعدک مااستطعت،أعوذبک من شر ما صنعت ، أبوء لک بنعمتک علی وأبوء بذنبی ،فاغفرلی فانہ لا یغفر الذنوب الا أنت))[رواہ مسلم]

’’اے اللہ تو ہی میرا رب ہے ، تیرے علاوہ کوئی عبادت کے لائق نہیں،تو نے مجھے پیدا کیا اور میں تیرا بندہ ہوں اور تیرے عہد اور وعدے پر قائم ہوںجس قدرطاقت رکھتا ہوں،میں نے جو کچھ کیا اس کے شر سے تیری پناہ چاہتا ہوں،اپنے آپ پر تیری نعمت کا اقرار کرتا ہوںاور اپنے گناہوں کا اعتراف کرتا ہوں،پس مجھے بخش دے کیونکہ تیرے علاوہ کوئی گناہوں کو نہیں بخش سکتا۔‘‘

درود شریف کب پڑھ سکتے ہیں اور کب نہیں پڑھنا چاہیے

 سات جگہوں پر درود شریف پڑھنامکروہ ہے، ان کے علاوہ ہر جگہ، چلتے پھرتے، اٹھتے بیٹھتے، ہر وقت (با وضو اور بے وضو بھی) پڑھ سکتے ہیں، اور بہت ہی خیر وبرکت کا باعث ہے۔

وہ سات جگہیں درج ذیل ہیں: 

(۱)  ہم بستری کے وقت۔ (۲) پیشاب وپاخانہ کرتے وقت۔ (۳) کسی چیز کے بیچنے کے ارادے سے کسی کو دکھانے کے وقت (تاکہ اس سے سامنے والے کو چیز کی عمدگی معلوم ہو)۔ (۴)  ٹھوکر لگتے وقت۔ (۵)  تعجب کے وقت۔(۶)  ذبح کرتے وقت۔ (۷)  چھینک آنے پر۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (1/ 518):
"تكره الصلاة عليه صلى الله عليه وسلم في سبعة مواضع: الجماع، وحاجة الإنسان، وشهرة المبيع والعثرة، والتعجب، والذبح، والعطاس على خلاف في الثلاثة الأخيرة شرح الدلائل، ونص على الثلاثة عندنا في الشرعة فقال: ولا يذكره عند العطاس، ولا عند ذبح الذبيحة، ولا عند التعجب".

درودشریف کے فضائل

 درود شریف کے فضائل

- ایک مرتبہ درود شریف پڑھنے پر اللہ تعالیٰ کی دس رحمتیں نازل ہوتی ہیں ۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
(مَنْ صَلّٰی عَلَیَّ وَاحِدَۃً ، صَلَّی اﷲُ عَلَیْہِ بِہَا عَشْرًا)
’’ جو شخص مجھ پر ایک مرتبہ درود بھیجتا ہے ، اللہ تعالیٰ اس پر دس رحمتیں نازل فرماتا ہے۔‘‘ [ مسلم : ۴۰۸]
- ایک مرتبہ درود شریف پڑھنے پر دس گناہ معاف ہوتے ہیں اور دس درجات بلند کردیے جاتے ہیں ۔
حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
(مَنْ صَلّٰی عَلَیَّ وَاحِدَۃً ، صَلَّی اﷲُ عَلَیْہِ عَشْرَصَلَوَاتٍ ، وَحَطَّ عَنْہُ عَشْرَ خَطِیْئَاتٍ ، وَرَفَعَ عَشْرَ دَرَجَاتٍ) [ صحیح الجامع : ۶۳۵۹ ]
’’ جو شخص مجھ پر ایک مرتبہ درود بھیجتا ہے ، اللہ تعالیٰ اس پر دس رحمتیں نازل فرماتا ہے ، اس کے دس گناہ مٹا دیتا ہے اور اس کے دس درجات بلند کردیتا ہے۔‘‘
- درود شریف کثرت سے پڑھا جائے تو پریشانیوں سے نجات ملتی ہے ۔
حضرت ابی بن کعب رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا :
’’اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! میں آپ پر زیادہ درود پڑھتا ہوں ، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا کیا خیال ہے کہ میں آپ پر کتنا درود پڑھوں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : مَا شِئْتَ جتنا چاہو۔ میں نے کہا : چوتھا حصہ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : مَا شِئْتَ ، فَإِنْ زِدْتَّ فَہُوَ خَیْرٌ لَّکَ جتنا چاہواور اگر اس سے زیادہ پڑھو گے تو وہ تمہارے لئے بہتر ہے۔ میں نے کہا : آدھا حصہ ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : مَا شِئْتَ ، فَإِنْ زِدْتَّ فَہُوَ خَیْرٌ لَّکَ جتنا چاہو اور اگر اس سے زیادہ پڑھو گے تو وہ تمہارے لئے بہتر ہے۔ میں نے کہا : دو تہائی ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : مَا شِئْتَ ، فَإِنْ زِدْتَّ فَہُوَ خَیْرٌ لَّک یعنی جتنازیادہ سے زیادہ پڑھو گے تو وہ تمہارے لئے بہتر ہے۔میں نے کہا : میں آپ پر درود ہی پڑھتا رہوں تو ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :إِذًا تُکْفٰی ہَمَّکَ ، وَیُغْفَرُ لَکَ ذَنْبُکَ تب تمھیں تمھاری پریشانی سے بچا لیا جائے گا اور تمھارے گناہ معاف کر دئیے جائیں گے ۔ایک روایت ہے میں ہے :إِذَنْ یَکْفِیْکَ اﷲُ ہَمَّ الدُّنْیَا وَالآخِرَۃِتب تمھیں اللہ تعالیٰ دنیا وآخرت کی پریشانیوں سے بچا لے گا۔‘‘ [ ترمذی : ۲۴۵۷ ، وصححہ الالبانی ]
روزِ قیامت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سب سے زیادہ قریب وہی ہو گا جو سب سے زیادہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر درود شریف بھیجتا تھا ۔
حضرت ابن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(أَوْلَی النَّاسِ بِیْ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ أَکْثَرُہُمْ عَلَیَّ صَلاَۃً)
’’ قیامت کے دن لوگوں میں سے سب سے زیادہ میرے قریب وہ ہو گا جو سب سے زیادہ مجھ پر درود بھیجے گا۔‘‘
[رواہ الترمذی وابن حبان وابو یعلی وغیرہم]

درودشریف کے فوائد

 علامہ ابن قیم ؒ نے درود شریف پڑھنے کے ۳۹ فوائد ذکر کئے ہیں ، ان میں سے چند اہم فوائد یہ ہیں :

 درود شریف پڑھنے سے اللہ تعالیٰ کے حکم پر عمل ہوتا ہے۔
ایک مرتبہ درود شریف پڑھنے سے اللہ تعالیٰ کی دس رحمتیں نازل ہوتی ہیں ۔
 دس نیکیاں لکھی جاتی ہیں ۔
دس گناہ معاف کردییجاتے ہیں ۔
دس درجات بلند کردیے جاتے ہیں ۔
دعاسے پہلے درود شریف پڑھنے سے دعا کی قبولیت کا امکان زیادہ ہوتا ہے۔
 اذان کے بعد کی مسنون دعا سے پہلے درود شریف پڑھا جائے تو قیامت کے روز آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت نصیب ہوگی۔
درود شریف کثرت سے پڑھنے سے پریشانیاں ٹل جاتی ہیں ۔
قیامت کے روز نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا قرب نصیب ہو گا۔
 درود شریف پڑھنے سے مجلس بابرکت ہو جاتی ہے۔
جب انسان نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود شریف بھیجتا ہے تواللہ تعالیٰ فرشتوں کے سامنے اس کی تعریف کرتا ہے۔
 درود شریف پڑھنے والے شخص کی عمر اس کے عمل اور رزق میں برکت آتی ہے۔
 درود شریف کے ذریعے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنی محبت کا اظہار ہوتا ہے۔
 درود شریف پڑھنے سے دل کو ترو تازگی اور زندگی ملتی ہے۔
آخر میں اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ وہ ہم سب کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے تمام حقوق ادا کرنے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کرنے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے سچی محبت کرنے کی توفیق دے ۔ اور روزِ قیامت ہمیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت اور آپ کے ہاتھوں حوضِ کوثر کا پانی نصیب کرے ۔ آمین ثم آمین
٭٭٭٭٭

قسم کاکفارہ

 اگر کوئی شخص یہ قسم کھا لے کہ ’’میں فلاں شخص سے بات نہیں کروں گا‘‘ اور اب وہ فلاں شخص  اس سے بات کرتا ہے لیکن یہ اس سے بات نہیں کرتا تو اس صورت میں یہ حانث نہ ہوگا اور اگر وہ فلاں شخص بات کرے اور یہ اسے جواب دے یا یہ اس سے بات کرے تو اس صورت میں یہ شخص حانث ہو جائے گا اور اس پر قسم کا کفارہ لازم آئے گا۔

قسم کا کفارہ یہ ہے کہ  دس مسکینوں کو دو وقت کا کھانا کھلا دیں  یا دس مسکینوں میں سے ہر ایک کو صدقۃ الفطر کی مقدار کے بقدر گندم یا اس کی قیمت دے دیں ( یعنی پونے دو کلو گندم یا اس کی رقم )اور اگر جو دیں تو اس کا دو گنا (تقریباً ساڑھے تین کلو) دیں،  یا دس فقیروں کو  ایک ایک جوڑا کپڑا پہنا دیں۔ اور اگر مالی حالت ایسی ہے کہ نہ تو کھانا کھلا سکتے ہیں اور نہ کپڑے دے سکتے ہیں تو مسلسل تین روزے رکھیں، اگر الگ الگ کر کے تین روزے پورے کر لیے  تو کفارہ ادا نہیں ہوگا۔ اگر دو روزے رکھنے کے بعد درمیان میں کسی عذر کی وجہ سے ایک روزہ چھوٹ گیا تو اب دوبارہ تین روزے رکھیں۔

﴿ لا يُؤاخِذُكُمُ اللَّهُ بِاللَّغْوِ فِي أَيْمانِكُمْ وَلكِنْ يُؤاخِذُكُمْ بِما عَقَّدْتُمُ الْأَيْمانَ فَكَفَّارَتُهُ إِطْعامُ عَشَرَةِ مَساكِينَ مِنْ أَوْسَطِ مَا تُطْعِمُونَ أَهْلِيكُمْ أَوْ كِسْوَتُهُمْ أَوْ تَحْرِيرُ رَقَبَةٍ فَمَنْ لَمْ يَجِدْ فَصِيامُ ثَلاثَةِ أَيَّامٍ ذلِكَ كَفَّارَةُ أَيْمانِكُمْ إِذا حَلَفْتُمْ وَاحْفَظُوا أَيْمانَكُمْ كَذلِكَ يُبَيِّنُ اللَّهُ لَكُمْ آياتِهِ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ﴾(المائدة: 89)

Sunday 1 August 2021

یارسول اللہ اور لبیک یاحسین کہنا

  اہل سنت والجماعت کا اجماعی عقیدہ ہے کہ حاضر و ناظر ذات صرف باری تعالی کی ذاتِ اقدس ہے، اس کے علاوہ کائنات میں کوئی بھی ایسی ذات نہیں جو ہر جگہ موجود ہو اور سب کچھ دیکھ اور سن رہی ہو، یہاں تک کہ نبی آخر الزماں صلی اللہ علیہ وسلم بھی حاضر و ناظر نہیں، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں حاضر و ناظر کا عقیدہ رکھنا بتصریحاتِ فقہاء کفر ہے، جیساکہ فتاوی قاضی خان میں ہے:

"رجل تزوج بإمرأة بغير شهود، فقال الرجل للمرأة: ’’خدائے را و پیغمبر را گواہ کردیم‘‘قالوا: يكون كفراً؛ لأنه اعتقد أن رسول الله صلي الله عليه وسلم يعلم الغيب، و هو ما كان يعلم الغيب حين كان في الأحياء فكيف بعد الموت". ( ٢ / ١٨٥)

ترجمہ: کسی آدمی نے بغیر گواہوں کے کسی خاتون سے شادی کی اور کہا کہ: اللہ اور پیغمبر کو گواہ بنایا، فقہاء نے کہا کہ یہ کفر ہے؛ اس  لیے کہ اس نے یہ اعتقاد رکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم غیب جانتے ہیں، حال آں کہ وہ ( پیغمبر علیہ السلام) اپنی حیاتِ دنیوی میں غیب نہیں جانتے تھے تو موت کے بعد کیسے غیب جان سکتے ہیں۔

نیز اہلِ سنت والجماعت کا اجماعی عقیدہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی قبر اطہر میں حیات ہیں، اور جو شخص روضہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر حاضر ہوکر سلام پیش کرتا ہے، رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بنفسِ نفیس اسے سنتے اور جواب دیتے ہیں، جس کی وجہ سے روضہ رسول پر کھڑے ہو کر ندا و صیغہ خطاب کے ذریعہ سلام پیش کرنا جائز ہے، البتہ روضہ مبارک کے علاوہ دنیا کے کسی اور مقام سے درود پڑھا جائے تو اللہ رب العزت کی جانب سے مامور فرشتے پڑھے جانے والے درود کو پڑھنے والے کے نام کے ساتھ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کرتے ہیں، جس کا آپ صلی اللہ علیہ وسلم جواب دیتے ہیں، جیساکہ احادیث میں ہے:

"٩٣٤ - وَعَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ - رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ - قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " «مَنْ صَلَّى عَلَيَّ عِنْدَ قَبْرِي سَمِعْتُهُ، وَمَنْ صَلَّى عَلَيَّ نَائِيًا أُبْلِغْتُهُ»". رَوَاهُ الْبَيْهَقِيُّ: فِي: "شُعَبِ الْإِيمَانِ ". (مشكاة، بَابُ الصَّلَاةِ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَفَضْلِهَا، الْفَصْلُ الثَّالِثُ)

"٩٣٤ - (وَعَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «وَمَنْ صَلَّى عَلَيَّ عِنْدَ قَبْرِي سَمِعْتُهُ» ) : أَيْ [سَمْعًا] حَقِيقِيًّا بِلَا وَاسِطَةٍ، قَالَ الطِّيبِيُّ: هَذَا لَايُنَافِي مَا تَقَدَّمَ مِنَ النَّهْيِ عَنِ الِاعْتِيَادِ الدَّافِعِ عَنِ الْحِشْمَةِ، وَلَا شَكَّ أَنَّ الصَّلَاةَ فِي الْحُضُورِ أَفْضَلُ مِنَ الْغَيْبَةِ. انْتَهَى. لِأَنَّ الْغَالِبَ حُضُورُ الْقَلْبِ عِنْدَ الْحَضْرَةِ وَالْغَفْلَةُ عِنْدَ الْغَيْبَةِ، ("وَمَنْ صَلَّى عَلَيَّ نَائِيًا ") ، أَيْ: مِنْ بَعِيدٍ كَمَا فِي رِوَايَةٍ: أَيْ بَعِيدًا عَنْ قَبْرِي (" أُبْلِغْتُهُ ") : وَفِي نُسْخَةٍ صَحِيحَةٍ: بُلِّغْتُهُ مِنَ التَّبْلِيغِ، أَيْ: أُعْلِمْتُهُ كَمَا فِي رِوَايَةٍ، وَالضَّمِيرُ رَاجِعٌ إِلَى مَصْدَرِ صَلَّى كَقَوْلِهِ تَعَالَى: {اعْدِلُوا هُوَ أَقْرَبُ لِلتَّقْوَى} [المائدة: ٨]، (رَوَاهُ الْبَيْهَقِيُّ فِي شُعَبِ الْإِيمَانِ)  قَالَ مِيرَكُ نَقْلًا عَنِ الشَّيْخِ: وَرَوَاهُ أَبُو الشَّيْخِ، وَابْنُ حِبَّانَ فِي كِتَابِ: ثَوَابِ الْأَعْمَالِ، بِسَنَدٍ جَيِّدٍ". (مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابح، بَابُ الصَّلَاةِ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَفَضْلِهَا، الْفَصْلُ الثَّالِثُ)

"  ٩٢٤ - وَعَنْهُ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " «إِنَّ لِلَّهِ مَلَائِكَةً سَيَّاحِينَ فِي الْأَرْضِ يُبَلِّغُونِي مِنْ أُمَّتِيَ السَّلَامَ» "، رَوَاهُ النَّسَائِيُّ، وَالدَّارِمِيُّ". (مشكاة، بَابُ الصَّلَاةِ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَفَضْلِهَا، الْفَصْلُ الثاني)

"٩٢٤ - (وَعَنْهُ) ، أَيْ: عَنِ ابْنِ مَسْعُودٍ (قَالَ: «قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِنَّ لِلَّهِ مَلَائِكَةً» ") ، أَيْ: جَمَاعَةً مِنْهُمْ (" سَيَّاحِينَ فِي الْأَرْضِ ") ، أَيْ: سَيَّارِينَ بِكَثْرَةٍ فِي سَاحَةِ الْأَرْضِ مِنْ سَاحَ: ذَهَبَ، فِي الْقَامُوسِ: سَاحَ الْمَاءُ جَرَى عَلَى وَجْهِ الْأَرْضِ، (" يُبَلِّغُونِي ") : مِنَ التَّبْلِيغِ، وَقِيلَ: مِنَ الْإِبْلَاغِ، وَرُوِيَ بِتَخْفِيفِ النُّونِ عَلَى حَذْفِ إِحْدَى النُّونَيْنِ، وَقِيلَ: بِتَشْدِيدِهَا عَلَى الْإِدْغَامِ، أَيْ: يُوَصِّلُونَ (" مِنْ أُمَّتِيَ السَّلَامَ ") : إِذَا سَلَّمُوا عَلَيَّ قَلِيلًا أَوْ كَثِيرًا، وَهَذَا مَخْصُوصٌ بِمَنْ بَعُدَ عَنْ حَضْرَةِ مَرْقَدِهِ الْمُنَوَّرِ وَمَضْجَعِهِ الْمُطَهَّرِ، وَفِيهِ إِشَارَةٌ إِلَى حَيَاتِهِ الدَّائِمَةِ وَفَرَحِهِ بِبُلُوغِ سَلَامِ أُمَّتِهِ الْكَامِلَةِ، وَإِيمَاءٌ إِلَى قَبُولِ السَّلَامِ حَيْثُ قَبِلَتْهُ الْمَلَائِكَةُ وَحَمَلَتْهُ إِلَيْهِ عَلَيْهِ السَّلَامُ، وَسَيَأْتِي أَنَّهُ يَرُدُّ السَّلَامَ عَلَى مَنْ سَلَّمَ عَلَيْهِ، (رَوَاهُ النَّسَائِيُّ، وَالدَّارِمِيُّ) : قَالَ مِيرَكُ: وَرَوَاهُ ابْنُ حِبَّانَ، وَالْحَاكِمُ، وَلَيْسَ فِي رِوَايَتِهِمَا " فِي الْأَرْضِ ". وَاعْلَمْ أَنَّ الْمَفْهُومَ مِنْ كَلَامِ الشَّيْخِ الْجَزَرِيِّ أَنَّ هَذَا الْحَدِيثَ مَرْوِيٌّ عَنْ أَبِي مَسْعُودٍ الْأَنْصَارِيِّ، وَظَاهِرُ إِيرَادِ الْمُصَنِّفِ يَقْتَضِي أَنَّهُ مَرْوِيٌّ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ، فَتَأَمَّلْ. قَالَ ابْنُ حَجَرٍ: وَرَوَاهُ أَحْمَدُ، وَأَبُو نُعَيْمٍ، وَالْبَيْهَقِيُّ، وَذَكَرَ ابْنُ عَسَاكِرَ طُرُقًا مُتَعَدِّدَةً وَحَسَّنَ بَعْضَهَا، ثُمَّ قَالَ: وَفِي رِوَايَةٍ بِسَنَدٍ حَسَنٍ إِلَّا أَنَّ فِيهِ مَجْهُولًا، " «حَيْثُمَا كُنْتُمْ فَصَلُّوا عَلَيَّ فَإِنَّ صَلَاتَكُمْ تَبْلُغُنِي» ". (مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح، بَابُ الصَّلَاةِ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَفَضْلِهَا، الْفَصْلُ الثَّالِثُ)

مذکورہ بالا تمہید کے بعد  جواب یہ ہے کہ ”یارسول اللہ“ کہنا مطلقاً ممنوع نہیں ہے، بلکہ اس کی مختلف صورتیں ہوسکتی ہیں، ان صورتوں کے اعتبار سے اس کا حکم بھی مختلف ہوگا:

1- غائبانہ اس عقیدے سے کہنا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم  یا امام حسین یا حضرت علی رضی اللہ عنہما اللہ تعالیٰ کی طرح ہرجگہ حاضر وناظر ہیں، ہماری ہرپکار اور فریاد کو سننے والے ہیں، حاجت روا ہیں؛ ناجائز اور شرک ہے۔ (فتاوی رحیمیہ: ۲/۱۰۸، کتاب السنة والبدعة، ط: دار الاشاعت، پاکستان)

2- روضہٴ اطہر کے سامنے کھڑے ہوکر ’’السلام علیکم یا رسول الله‘‘یا ’’السلام علیك یا رسول الله‘‘یا ’’الصلاة والسلام علیك یا رسول الله‘‘  کہنا جائز ہے، اس لیے کہ لفظ ”یا“ کے ذریعے اسی کو مخاطب کیا جاتا ہے، جو سامنے حاضر ہو،اور روضہ اطہر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نہ صرف حیات ہیں، بلکہ سلام کا خواب بھی دیتے ہیں، لہٰذا سامنے موجود ہونے کی صورت میں خطاب درست ہے۔

3- صحیح عقیدہ ( کہ  میرا سلام فرشتے پہنچا دیں گے) کے ساتھ دور سے "الصلاة والسلام علیك یا رسول الله" پڑھنے کی اگرچہ اجازت ہے، تاہم اس طرح پڑھنے سے لوگوں کو شبہ ہوتا ہے کہ حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو (اہلِ بدعت کی طرح) حاضر وناظر سمجھ کر اس طرح پڑھا جارہاہے، دل کا حال کسی کو معلوم نہیں، اس لیے روضۂ رسول ﷺ کے علاوہ دیگر جگہوں میں اس جملہ سے احتیاط بہتر ہے، اس لیے علمائے کرام غائبانہ اس لفظ کے ذریعہ درود و سلام پڑھنے سے منع کرتے ہیں، لہذا درود و سلام کا وہ طریقہ اپنانا چاہیے، جس میں کسی قسم کا شبہ شرک نہ ہو،۔  اور ایسے الفاظ میں درود و سلام بھیجنا جو  رسول اللہ ﷺ سے ثابت ہوں، زیادہ بہتر ہے

ماتم کرناکیساہے

 واضح رہے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآنِ  پاک میں مصیبت کے وقت صبر کی تلقین فرمائی ہے اور صبر کرنے والوں کے لیے انعامات کا ذکر فرمایا ہے،جیسا کہ قرآن مجید میں ہے:

ترجمہ: اے ایمان والو صبر اور نماز سے مدد لو۔ بے شک اللہ تعالیٰ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے اور اللہ تعالی کی راہ میں شہید ہونے والوں کو مردہ نہ کہو، بلکہ وہ زندہ ہیں لیکن تم کو شعور نہیں۔

(سورۃ البقرۃ: 153،154)

اسی  طرح   قرآن  مجید  میں ایمان والوں کی صفت یوں بیان ہوئی:

ترجمہ: اور خوش خبری دیجیے صبر کرنے والوں کو جب ان پر کوئی مصبت پڑے تو کہیں:  ہم اللہ کے مال ہیں اور ہم کو اسی کی طرف پھرنا ہے،  یہی ہے وہ لوگ  جن پر ان کے رب کی خصوصی عنایات ہیں اور رحمت، اور یہی لوگ راہ پر ہیں۔

(سورہ بقرہ:156،157) 

جب کہ مروجہ ماتم قرآنِ مجید میں  دیے گئے حکمِ  صبر کے  بھی خلاف  ہے اور احادیثِ مبارکہ میں دیے گئے احکام کے صریح خلاف ہے۔

بصورتِ  مسئولہ رنج وغم ایک غیراختیاری چیز ہے جس  پر شریعتِ مطہرہ  میں مؤاخذہ نہیں ہے،البتہ کسی کے انتقال پر آواز سے رونا،چیخنا،سینہ کوبی کرنا، اور لباس  چیر کر سے اس غم کا اظہار کرنا، ماتم کرنا شرعًا ناجائز اور حرام ہے، رسول اکرم ﷺ  نے اس سےمنع فرمایا ہے،  چنانچہ حضرت  عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا:

"جو منہ پر طمانچے مارے ، گریبان چاک کرے اور زمانۂ  جاہلیت کی طرح چیخ و پکار کرے  وہ ہمارے دین پر نہیں ۔"

نیز  جس طرح ماتم کرنا اور اس میں شریک ہونا  گناہ اور ناجائز ہے، اسی طرح اسے دیکھنے کے  لیے جانا کثرت کا سبب بننے کی وجہ سے   ناجائز اور گناہ ہے،کیوں کہ دیکھنے والا اگرچہ اس میں شریک نہیں ہے لیکن دوسرے لوگ یہی سمجھیں گے کہ یہ شریکِ  ماتم ہے،لہذا ماتم  دیکھنے کے لیے جانا بھی ناجائز ہے۔

تحفة الأحوذي لمحمد المباركفوري میں ہے:

"قال النووي: أي يبعثون مختلفين على قدر نياتهم فيجازون بحسبها، وفي هذا الحديث من الفقه التباعد من أهل الظلم والتحذير من مجالستهم ومجالسة البغاة ونحوهممن المبطلين لئلايناله مايعاقبون به، وفيه: إن من كثر سواد قوم جرى عليهم حكمهم في ظاهر عقوبات الدنيا انتهى."

(باب ماجاء في الخسف، ج:6، ص:347، ط: دار الكتب العلمية،بيروت)

نصب الراية برهان الدين المرغيناني میں ہے:

"عن عمرو بن الحارث أنّ رجلًا دعا عبد الله بن مسعود إلى وليمة فلما جاء ليدخل سمع لهوًا، فلم يدخل فقال له: لم رجعت؟ قال: إني سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: من كثر سواد قوم فهو منهم، ومن رضى عمل قوم كان شريك من عمل به. انتهى ورواه علي بن معبد في كتاب الطاعة والمعصية."

(باب مايوجب القصاص، ج:4، ص:346، ط:مكتبة الريان،لبنان)

یوم مسلم خواتین کی حقیقت

 تین طلاق کا قانون مسلم خواتین کے لئے سخت نقصاندہ


مولانا خالد سیف اللہ رحمانی (کارگزار جنرل سکریٹری آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ)  کا بیان


نئی دہلی، یکم اگست 2021ء

مرکزی حکومت نے آج تین طلاق قانون کے پس منظر میں یوم مسلم خواتین منانے کا اعلان کیا ہے، یہ چوری اور سینہ زوری کا مصداق ہے، اس قانون نے مسلمان عورتوں کی دشواریوں کو بڑھا دیا ہے؛ کیونکہ حکومت اس کو طلاق تسلیم نہیں کرتی اور مسلم سماج شریعت کے خلاف ہونے کی وجہ سے اس کو طلاق تصور کرتا ہے، اس کے نتیجہ میں ایسی عورتیں قانون کی رو سے دوسرا نکاح کرسکتی ہیں، اور مسلم سماج میں کوئی ان سے نکاح کے لیے تیار نہیں ہوتا اور کوئی بھی فرد اپنے سماج سے سے کٹ کر زندگی نہیں گزار سکتا، اس قانون میں مطلقہ عورت کو شوہر کی طرف سے نفقہ کا مستحق قرار دیا گیا ہے،  دوسری طرف مرد کے لیے تین سال جیل کی سزا رکھی گئی ہے، سوال یہ ہے کہ جب شوہر جیل میں ہوگا تو یہ بیوی کا نفقہ کیسے ادا کرے گا، پس یہ قانون تضاد سے بھرا ہوا ہے، اور عورتوں کے لئے سخت نقصان دہ ہے؛ اسی لیے بڑے پیمانہ پر خواتین اس قانون کے خلاف احتجاج کرتی رہی ہیں، اس لئے حکومت کو چاہیے کہ علماء کے مشورہ سے اس میں مناسب ترمیم کا بل لائے۔