https://follow.it/amir-samdani?action=followPub

Friday 27 August 2021

بدلتے نام بدلتی تاریخ خاموش قائدین

 بھارت میں مغلیہ دور کے آغاز میں ایک بھارت کا تصور بھی نہیں تھا ، بلکہ بھارت الگ الگ حصوں میں بٹاہوا تھا، اسی بھارت کو ایک کرکے مغل بادشاہوں نے پورے 800 سال حکومت کی تھی اوراس حکومت کے دوران انہوں نے نئے شہر آباد کئے، نئے منصوبے بنائے، نئے محل بنائے، نئے عبادت گاہوں کی تعمیر کی، نئی یادگاریں بنائیں اور بھارت کو نیا روپ دیا۔ اسکے بعد برٹیش حکومت نے مغلیہ دور کے جو منصوبے تھے ان منصوبوں کو کبھی بھی توڑنے یا خراب کرنے کی کوشش نہیں کی بلکہ برٹیش حکومت نے محلوں، یادگاروں اورشہروں کو تاریخ کے صفحات میں نمایاں پیش کرنے کیلئے خاص توجہ دی تھی۔ جس سے ہم اورآپ آج بھی دیکھ سکتے ہیں۔ لیکن پچھلے دو دہائیوں کے دوران بھارت میں ایک غلیظ روایت شروع ہوئی ہے۔ جس کے تحت ملک میں تاریخی شہروں کے نام بدلنا شروع کیا گیا ہے۔

فیض آباد، الہ آباد، علی گڑھ، بہادرشاہ ظفر مارگ، کلکتہ، علی نگر، ہمایوں نگر، اردوبازار، اسلام پور، غازی پور، شاہجہاں پور، حمیر پور، ایسے ہی درجنوں ناموں کو تبدیل کرنے کا جنون موجودہ سیاستدانوں پر طاری ہوا ہے۔ بھارت کے حالات بدلنے کا مطلب انہوں نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ ناموں کو تبدیل کرنے سے ملک کی تقدیر بدل جائےگی اوربھارت ترقی کی راہ پر گامزن ہوجائیگا۔ آہستہ آہستہ بھارت کے وہ شہر جن کا تعلق مغل حکمرانوں سے ہے انکے نام بدلے جارہے ہیں۔ ان ناموں کو تبدیل کرنے کا مقصد نئی روایت یا تاریخ کو دہرانا نہیں ہے بلکہ ایک طرح کا پیٹ جلن ہے جو مغل دور کے حکمرانوں سے ہے اور بھارت کے سنگھی و نفسیاتی امراض کے حکمران جنہیں عادی واسی کہنا بھی ایک طرح کی شرمناک بات ہے وہ آج اپنی بے بسی ولاچاری کو چھپانے کیلئے ناموں کو تبدیل کرنے کا بیڑہ اٹھارکھا ہے۔

روایت یہ رہی ہے کہ جب بھی کوئی حکومت یا حکمران اقتدارپر قابض ہوتاہے تو اپنے کاموں کو یادگارکے طور پر چھوڑجاتاہے،لیکن بھارت میں پہلا دورچل رہاہے جس میں کسی اور کےمنصوبوں کو کسی اورکے نام سے جوڑنا اور کسی اور کے ذریعے قائم کردہ شہروں ویادگاروں کو ذات ومذہب کی بنیاد پر تقسیم کرنا۔بھارت ایک سیکولر ملک ماناجاتاہے لیکن جس طرح سے یہاں مذہب وذات کی بنیادپر زہر پھیلایاجارہاہے،اُ س سے تو یہ بات واضح ہوتی ہے کہ بھارت کی جمہوریت خطرے میں ہے۔ہم چاہیں جتنی بھی کوششیں کرلیں ،تاریخ میں یہ بھی درج ہوگاکہ چند حکمرانوں نےتاریخ کو بدلنے کاکام کیاہے۔اس وقت ایک طرف جنونی حکمران شہروں و تاریخ کوبدلنے کاکام کررہے ہیں تو دوسری طرف بھارت کے سیکولراور مسلم قائدین ان جنونی حکمرانوں کےطریقہ کار پر آواز اٹھانے کے بجائے خاموشی اختیارکئے ہوئے ہیں۔

تقریباً40 سال پہلے اسی طرح کی خاموشی بابری مسجدکی مسمارکی وجہ بنی تھی،اُس وقت بھی بھارت کے بیشتر مسلم لیڈران کانگریس کے حقے کو پکڑکر دم گھسیٹ رہے تھے تو سنگھیوں نے چپکے سے جاکر ان کا دم پکڑلیا اور کلیان سنگھ جیسے شاطر حکمرانوں کو لیکر بابری مسجد کو شہید کردیا۔بابری مسجدکی شہادت بھارت کے مسلمانوں کیلئے ایک مثال تھی کہ مسلمانوں کو اور مسلمانوں سے جڑی ہوئی یادگاروں کو کبھی بھی کیسے بھی ختم کیاجاسکتاہے۔1992 میں جو سبق بھارت کے مسلمانوں کو ملاہے،اُس سبق کو بنیاد بنا کر بھارت کی مسلم تنظیمیں،ادارے،قائدین ہوش کے ناخن لےسکتے تھے،لیکن1992 کے بعد جب چند ایمان فروش مسلم قائدین کو ایم ایل سی،ایم پی،راجیہ سبھا رکن،بورڈ وکارپوریشن کے صدورکے عہدے دئیے گئے تو ان کے ضمیر کو لقویٰ مارگیا تھا اور وہ قوم کی قیادت،قوم کی وکالت،قوم کی امامت کامنصب بھول گئے،

(مدثراحمد) 

Wednesday 25 August 2021

سنگھی دہشت گردوں کے ذریعہ ماب لنچنگ اور خاموش تماشائی بھیڑ

 ذوالقرنین احمد 

اندور میں گزشتہ روز تسلیم نام کے چوڑی فروش کو بھگوا دہشت گردوں نے جس طرح تشدد کا نشانہ بنایا ہے وہ پوری دنیا دیکھ رہی ہے۔ کے بی جے پی کے اقتدار میں اقلیتوں خصوصاً مسلمانوں پر کس طرح سے بھارت کی سرزمین کو تنگ کیا جارہا ہے۔ کھلے عام گائے، غیر مذہبی نعرے بازی کے نام پر ماب لنچنگ، فرقہ وارانہ فسادات کروا کر مسلمانوں کی جان مال کو نقصان پہنچانا اب کوئی تعجب خیز بات نہیں رہی ہے۔ دنیا بھر میں مودی حکومت کی ناکامیوں اور بدنامی کا ڈنکا بج رہا ہے۔ کل جس طرح سنگھی دہشت گردوں نے اندور کے تسلیم نامی چوڑی فروش کو مسلم نام ہونے کی وجہ سے جبراً تشدد کا نشانہ بنایا ، جس کے بعد مسلمانوں میں غصہ دیکھ کر فرقہ پرستوں کے خلاف پولیس نے بہت ساری دفعات کے تحت دہشت گردوں کے خلاف مقدمات درج کیے اور انہیں گرفتا کیا گیا۔ لیکن آج ایک ویڈیوں سوشل میڈیا پر اندور کی وائرل ہورہی ہے جس میں ایک بڑی بھیڑ اندور کے ڈائی آئی جی آفس کے باہر گرفتار کیے گئے سنگھی دہشت گردوں کی رہائی کیلئے احتجاج کرتی دیکھائی دے رہی ہیں۔ یہ عجیب بات ہے کہ چوری تو چوری اور اس پر سینا زوری مطلب ظالم دہشت گردوں کے حق میں ہی اتنی بڑی تعداد میں بھیڑ کا اسے بچانے کیلئے سڑکوں پر بے خوف ہوکر نکلنا اور سرکاری آفس کے باہر احتجاج کرنا یہ بھارت کیلئے بڑے خطرے کی گھنٹی ہے۔

سوچنے کی بات ہے جب فرقہ پرست سنگھی ایک نہتے مسلمان پر بھیڑ کی شکل میں حملہ کرتے ہیں اور ویڈوں بھی بناتے ہیں اور ایسی ایک کیس نہیں بلکہ سیکڑوں کیسز پولس ریکارڈ میں موجود ہے۔ سوشل میڈیا اور اخبارات میں اسکی خبریں شائع ہوچکی ہے۔ عدالتوں میں مقدمات بھی پیش ہوئے ہیں لیکن یہ سب ہونے کے باوجود بھارت کے قانونی اور انصاف مہیا کرنے والے اداروں کی طرف سے کوئی سخت موقف اختیار نا کرنا سوچنے پر مجبور کردینے والی بات ہے اور ان تمام اداروں کی ذہنیت شک کے دائرے میں لاکھڑا کرنے کے برابر ہے۔ بی جے پی کے فرقہ پرست حکم تو میڈیا چینلز پر اس بات کا یقین دلاتے دیکھائی دیتے ہیں کہ کوئی ہندو دہشت گرد ہوہی نہیں سکتا۔ جیسے ایک ویڈوں میں اتر پردیش کے وزیر اعلی نے یہ بات کہی ہے کہ ہندو دہشت گرد ہو ہی نہیں سکتا ہے۔ اور اگر کوئی ایسا کرتا ہے تو اسے قانون کے مطابق سزا ہونی چاہیے، جبکہ ملک کے حالات یہ بنے ہوئے ہیں کہ جو لوگ ماب لنچنگ کر رہے ہیں ان پر کوئی قانونی کروائی نہیں کی جاتی ہے اگر ہوتی بھی ہے تو چند روز میں اسے بری کردیا جاتا ہے اور سنگھی فرقہ پرست تنظیمیں اسکا استقبال کرتی ہیں۔ پونے کے محسن شیخ سے لے کر آج تک سیکڑوں مسلمانوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا ہے۔ لیکن میرے نظر سے کہی ایسی کوئی خبر نہیں گزری کہ قاتلوں کو پھانسی کی سزا دی گئی ہو، کیونکہ جبتک یہ سنگھی فرقہ پرست دہشت گردوں کو تختۂ دار پر نہیں لٹکایا جائے گا تو یہ سلسلہ نہیں رکنے والا ہے۔

اس میں ایک بات یہ بھی قابل غور اور نئے بھارت کیلئے فکر مند کرنے والی ہے بلکہ خطرے کی گھنٹی ہے کہ جب ایک مظلوم شخص پر پوری بھیڑ لاٹھیوں، کراڑی، ہتھوڑے، اور لاتوں گھوسوں سے اس پر حملہ کرتی ہے تو باقی لوگ تماشائی بن جاتے ہیں ویڈیوں بنانے لگ جاتے ہیں۔ ان کے اندر انسانیت نہیں جاگتی ہے۔ یہ جو سیکولر ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں انکا سیکولرازم مسلمانوں کو قتل ہوتے دیکھ کر ہندوتوا میں بدل جاتا ہے۔ انکی خاموشی اور کوئی رد عمل ظاہر نا کرنا کھلے طور پر ہندوتوا دہشت گردی کی تائید کرنے کے مترادف ہے۔ مجھے یہ سوچ کر بے حد افسوس ہورہا ہے کہ ہر معاملے میں کسی جانور کے کوئی گارڈن، یا زو، پارک وغیرہ میں مر جانے پر پورے سوشل میڈیا پر غم کا اظہار کرنے والوں کی بھیڑ لگ جاتی ہیں ٹوىٹر پر ٹرینڈ کرنے لگ جاتا ہے۔ انسانیت جاگ جاتی ہے۔ یہ اتنی بڑی تعداد کیا انسان کہلانے کے لائق ہے۔ جو جانور کی کتے ہاتھی کی موت پر جھوٹے آنسوں بہائیں انسانیت کا درس دینے لگ جائے لیکن اسی ملک میں ایک نہتے بے قصور مسلمان پر حملہ ہوتا دیکھ کر ماب لنچنگ ہوتی دیکھ کر خاموش تماشائی بن جائے۔ وہ انسانیت کے درس کی ساری باتیں فراموش کر بیٹھے، وہاں ظالم کی خموشی کے ساتھ تائید کرنے لگ جائے یہ بہت ہی سنگین مسئلہ ہے۔

ایک بات ان فرقہ پرستوں کی سنگھی دہشت گردوں کی بڑی عجیب ہے یا پھر یوں سمجھ لیجئے کہ چالاکی ہے۔ جب یہ مسلمانوں پر ظلم کرتے ہیں تو بھگوا دھاری ان پر حملہ کرتے ہیں اور باقاعدہ ویڈیوں بناتے ہیں۔ تاکہ خوف کی فضا قائم کی جائے۔ اور اقلیتوں کو خوف زدہ کیا جاسکے اور جب یہ کسی دہشت گرد کی گرفتاری کے خلاف سرکاری دفاتر کے سامنے احتجاج کرتے ہیں تو ہاتھوں میں بھگوا جھنڈوں کے ساتھ ترنگا بھی لے کر احتجاج کرتے ہیں۔ ذرا سوچئے یہ کتنے پلاننگ کے ساتھ مجرم کی طرفداری کرتے ہیں اور مجرموں کی رہائی کیلئے کس قدر پرزور احتجاج کرتے ہوئے سڑکوں پر اتر آتے ہیں تاکہ اگر کہیں کچھ کم زیادہ ہوتا بھی ہے تو پھر پولیس اور حکومتی نمائندوں پر یہ الزام لگا دیا جائے کہ ترنگا لہرا رہے دیش بھکتوں پر پولس نے ظلم کیا یا پھر سیدھی بات یہ کے ترنگے کو پروٹیکشن حاصل کرنے کیلئے استعمال کرتے ہیں۔ یہ کیسی تصویر آج نئے بھارت کی ہمارے سامنے ہیں ذرا تصور کیجیے اگر یہی حال رہا تو آئندہ کچھ سالوں میں اقلیتوں کے ساتھ ان فرقہ پرست عناصر کا کیا رؤیہ رہے گا۔ کس قدر ظلم و ناانصافی، زیادتی عروج پر ہوگی، کس قدر مسلمانوں کے حقوق کو غصب کیا جائے گا۔ اگر آج مسلمان ہوش میں نہیں آتے ہیں تو کل کیلئے ہمارے پاس کوئی چارہ نہیں ہوگا۔ نئی نسل کو فرقہ پرست عناصر سے بچانے کیلئے اور ملک کی فضا کو پرامن اور خوشحال بنانے کیلئے ان سنگھی دہشت گردوں کو منہ توڑ جواب دیا جانا بیحد ضروری ہے۔

ایک مومن کی جان عزت و احترام اللہ تعالیٰ کے نزدیک خانۂ کعبہ سے افضل ہے تو اس بات پر غور کرنا چاہیے کہ ہمارے پاس آج کیا لائحہ عمل تیار ہے۔ اور ہم کس طرح سے کن خطوط پر اپنی نسلوں کی تربیت کر رہے ہیں۔ آئیندہ مستقبل قریب میں پیش آنے والے چیلنجز کیلئے ہمارے پاس کیا وہ افرادی قوت اور ہر محاذ پر فرقہ پرستوں سے نبردآزما ہونے کیلئے کونسا لائحہ عمل تیار ہے۔ ہم نے اپنے بچوں اپنی بیٹیوں ماؤں بہنوں کی تربیت کیلئے کیا اقدامات کیے ہے۔ آج یہ بے بات بڑے افسوس کے ساتھ کہنا چاہتا ہوں ہم تو اپنے مذہب کو لے کر بھی ابھی بیدار نہیں ہوئے اللہ اور اسکے رسول ﷺ کی تعلیمات پر عمل کرنے کیلئے ہی تیار نہیں ہے۔ ہماری مساجد کا یہ حال ہے کہ گزشتہ ایک دیڑ دہائی قبل بچوں کی تعداد مساجد میں کم و بیش آدھی پاؤ سف نمازوں میں ہوا کرتی تھی۔ لیکن آج ذرا جائزہ لیجے کہ آخر یہ ارتداد کا مسئلہ کیوں کر اتنی تیزی سے سر اٹھا رہا ہے۔

اول روز سے باطل نے ہمیں اپنے عقائد اور نظریات، تہذیبی اقدار سے دور کرنے کیلئے کافی محنت کی ہے جس کا نتیجہ آج انکے سامنے ہیں۔ کہ کس طرح سے مسلمانوں کی بیٹیاں ارتداد کے دہانے پر کھڑی ہوئی ہے۔ ہماری نسل نو گھریوں تربیتی نظام سے محروم ہوچکی ہے۔ تو سوچیے آئیندہ سا لوں میں کتنے فیصد مساجد میں نمازی باقی رہے گے‌ یہ قوم کیسے مضبوطی سے باطل طاقتوں کا مقابلے کریں گی‌۔ کیسے یہ باطل طاقتوں کو خاک آلود کریں گی۔ جبکہ انکی تربیت کیلئے مذہبی عقائد و نظریات، تہذیبی اقدار کی حفاظت کیلئے مذہبی شعائر کی حفاظت کیلئے یہ نسل کیسے تیار ہوجائیں گی۔ اب کوئی آسمان سے فرشتے تو نہیں اتر کر انکی ترتیب کریں گے۔ اس بات پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔ نئے بھارت کی تصویریں ہمارے سامنے ہیں سوچئے اور عملی اقدامات کرنا شروع کردیجئے۔ ورنہ حالات بد سے بدتر رخ اختیار کرچکے ہیں۔

شکوۂ ظلمت شب سے تو کہیں بہتر تھا 
اپنے حصے کی کوئی شمع جلاتے جاتے۔ 
احمد فراز

Tuesday 24 August 2021

Why no FIR against Anorag Thakur Kapil Mishra in Delhi riots case?

 NEW DELHI: Jamia Millia Islamia Alumni Association President Shifa-Ur-Rehman, who was arrested under the Unlawful Activities (Prevention) Act in connection with the Delhi riots asked in the court on Tuesday why no FIR was registered against Union Minister Anurag Thakur, BJP leader Kapil Mishra, and others for allegedly instigating riots.

During the bail hearing, Shifa's lawyer, Abhishek Singh, showed Additional Sessions Judge Amitabh Rawat a complaint filed by him on January 30, 2020, seeking registration of FIR against Thakur, Mishra, another BJP leader Parvesh Sharma, and Jamia Shooter Ram Bhakt Gopal for allegedly 'instigating riots'.

"Did the prosecution even bother to call them as witnesses or accused or issue a notice that we want to know something? Because they said 'shoot xyz' so they know who those people are. They will at least have some evidence. Why was no FIR registered against them? This was the complaint I was pursuing," Singh said.

According to the complaint, as read by the lawyer in the court, Shifa mentioned that Mishra took out a rally in which slogans to shoot were raised, following which Thakur on January 28, 2020, said: "desh ke gaddaron ko...."

In January 2020, Thakur had allegedly egged on participants of an election rally to raise an incendiary slogan.

While the minister raised the slogan "Desh ke gaddaron ko.....(the traitors of the country)", the crowd responded by chanting: "Goli maaro saalon ko.....(shoot them)."

shifa is accused of collecting money to fund various sit-in protests against Citizenship (Amendment) Act (CAA) and National Register of Citizens (NRC).

He, along with several others, has been booked under the anti-terror law in the case for being the "masterminds" of the February 2020 violence, which had left 53 people dead and over 700 injured.

Alluding to the alleged funding, the lawyer affirmed that Shifa had made "some financial arrangements" but questioned whether paying some protestors make it an offence under the stringent UAPA.

Advocate Singh further emphasized that being a member or president of the alumni association or a protester is not an offence as people are entitled to their opinion and can peacefully protest against anything.

"Why have I been roped in? I fail to understand. There is a fundamental right to protest. If a certain section of society is aggrieved by certain legislation and protest against it, that is not a crime. They can protest," the lawyer told the court.

Furthermore, Shifa's counsel sought bail for him saying that there has been a systematic violation of his fundamental rights and that he cannot be put in the bracket of rioters.

He also read his WhatsApp chats to show that there was no instigation of violence.

Besides him, former JNU student leader Umar Khalid, JNU students Natasha Narwal and Devangana Kalita, Jamia Coordination Committee members Safoora Zargar, former AAP councillor Tahir Hussain and several others have also been booked under the stringent law in the case.

Monday 23 August 2021

اندور میں فرقہ پرستوں کی غنڈہ گردی

 اتر پردیش کے ہردوئی ضلع باشندہ تسلیم کے ساتھ مدھیہ پردیش کے اندور میں لنچنگ کی کوشش ہوئی ہے۔ گلیوں میں جا کر اور پھیری لگا کر چوڑی فروخت کرنے والے اس نوجوان کی بھیڑ نے بری طرح پٹائی کی اور ہندوتوا پسند لیڈران کی بھیڑ لگاتار ایسا کرنے کے لیے لوگوں کو اکساتے رہے۔ یہ واقعہ نفرت کی انتہا کو ظاہر کر رہا ہے کیونکہ اب ایسے واقعات ہندوستان کے مختلف گوشوں سے لگاتار سامنے آنے لگے ہیں۔ تسلیم کے ساتھ جو زیادتی ہوئی، اسے بیان نہیں کیا جا سکتا۔ اس کے سامان اور پیسے چھین لیے گئے اور یہ متنبہ بھی کیا گیا کہ کوئی بھی مسلمان شخص ہندو محلے میں سامان فروخت کرنے نہ پہنچے۔ متاثرہ نوجوان تسلیم نے ظلم کا شکار ہونے کے بعد بس یہی سوال کیا کہ ''کیا مسلمان ہونا گناہ ہے؟'' سچ تو یہ ہے کہ بے قصور تسلیم کا صرف یہی ایک قصور ہے کہ وہ مسلمان ہے۔

کانگریس اقلیتی محکمہ کے سربراہ عمران پرتاپ گڑھی نے اس معاملہ پر سخت رد عمل ظاہر کیا ہے۔ انھوں نے فوراً اندور کے مقامی کانگریس کارکنان کو اس نوجوان کی مدد کرنے کی ہدایت دی اور کانگریس رکن اسمبلی عارف مسعود نے نوجوان کی مدد کرتے ہوئے اس کی ایف آئی آر درج کروا دی ہے۔ ابھی تک ملزمین کی گرفتاری نہیں ہوئی ہے۔ اس واقعہ کو لے کر اندور میں کشیدگی کا ماحول ہے۔

واقعہ کے بارے میں بتایا جا رہا ہے کہ ہردوئی ضلع واقع براج مئو کا رہنے والا 25 سالہ تسلیم (ولد مہر علی) پھیری لگا کر چوڑیاں فروخت کرنے کا کام کرتا ہے۔ 22 اگست کو دوپہر تقریباً 2.30 بجے وہ چوڑی فروخت کرنے کے لیے بان گنگا علاقہ میں گیا تھا۔ بتایا جا رہا ہے کہ وہ گوند نگر علاقے میں چوڑی فروخت کر رہا تھا تبھی اس کے پاس 6-5 لوگ آئے جن کا ایک پیلا کپڑا پہنے ہوئے شخص قیادت کر رہا تھا۔ تسلیم کے مطابق اس شخص نے اسے کہا کہ ''مسلمان ہو کر ہندو محلے میں سامان فروخت کرتا ہے''، اور یہ کہتے ہوئے پیٹنا شروع کر دیا اور اس کا سارا سامان چھین لیا۔ خود کو ہندوپرست لیڈر کہنے والے اس شخص نے لوگوں سے فروخت کا سامان چھین کر لے جانے کے لیے بھی کہا اور اس کی جیب سے پیسے بھی نکال لیے۔ اتنا ہی نہیں، اس کے فوراً بعد اس واقعہ کی ویڈیو بھی وائرل ہو گئی۔ اس ویڈیو میں تسلیم کے ذریعہ لگائے گئے الزامات کی تصدیق ہو رہی ہے۔

حالانکہ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ ویڈیو میں صاف صاف سب کچھ پتہ چلنے کے بعد بھی پولیس نے نامعلوم شخص کے خلاف مقدمہ درج کیا ہے۔ تسلیم نے بتایا کہ وہ بری طرح ڈر گیا ہے، اس کا کوئی گناہ نہیں ہے۔ وہ اتر پردیش کے ہردوئی کا رہنے والا ہے اور یہاں چوڑی فروخت کرنے کا کام کر رہا ہے۔ اسے کہا گیا کہ مسلمان ہو کر بھی یہاں سامان کیوں فروخت کر رہا ہے۔ تسلیم کہتا ہے کہ ''پیلے کپڑے والا لیڈر لوگوں سے مجھے پیٹنے کے لیے کہہ رہا تھا۔ کیا میرا مسلمان ہونا ہی گناہ ہے۔ میں اپنی فیملی کا پیٹ پالنے کے لیے چوڑی فروخت کر رہا تھا، میں کچھ بھی غلط نہیں کر رہا تھا۔ میرا دل بہت پریشان ہے۔''

اندور سنٹرل کوتوالی پولیس نے نامعلوم ملزمین کے خلاف فرقہ وارانہ خیرسگالی کو برباد کرنے، لوٹ پاٹ کرنے اور مجرمانہ سازش کا مقدمہ درج کیا ہے۔ کانگریس اقلیتی محکمہ کے سربراہ عمران پرتاپ گڑھی نے 'قومی آواز' سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اس واقعہ سے انھیں بہت زیادہ حیرانی ہوئی اور وہ رات بھر سو نہیں پائے ہیں۔ مقامی کارکنان نے انھیں تسلیم کی لنچنگ کی کوشش کی ویڈیو بھیجی تھی۔ ویڈیو میں برسرعام بے گناہ تسلیم کو صرف اس کے مسلمان ہونے کی وجہ سے ٹارچر کیا جا رہا ہے۔ سب سے خراب بات یہ ہے کہ ایک آدمی کہہ رہا ہے کہ ایک ایک تو سب مار ہی دو۔ ایک نابالغ بچہ بھی مظلوم نوجوان تسلیم کو مار رہا ہے۔ آخر یہ کیسی نفرت ہے۔ مدھیہ پردیش کی شیوراج حکومت کو سمجھنا چاہیے کہ یہ ویڈیو افغانستان کی نہیں ہے بلکہ اندور کے بیچوں بیچ شہر کی ہے۔ یہ واقعہ پریشان کرنے والا ہے۔ عمران پرتاپ گڑھی نے سوال کیا کہ کیا پی ایم نریندر مودی اسی طرح کے خوابوں کا ہندوستان بنانا چاہتے تھے۔ یہ انتہائی تکلیف دہ ہے۔

اس واقعہ کے بعد اندور کے مقامی لوگوں کا رد عمل بھی سامنے آیا ہے۔ مقامی شہری نول کشور نے بتایا کہ واقعہ اندور کی پیشانی پر داغ کی طرح یاد کیا جائے گا۔ اندور کی ثقافت آپسی تعاون اور بھائی چارے کی ہے، اور نفرت کی کھیتی کرنے والے لوگوں نے اس بھائی چارے میں پلیتہ لگانے کا کام کیا ہے۔ یہ پوری طرح غلط ہے۔ جن لوگوں نے بھی یہ کیا ہے، وہ ان کی بالکل بھی حمایت نہیں کرتے ہیں۔

جبرا"جے شری رام "اور" اشتعال انگیز" بیان دونوں کی الگ الگ سزس

 ڈاکٹر این سی استھانہ

حال ہی میں کانپور میں کچھ لوگوں نے ایک مسلمان ای رکشہ ڈرائیور کو سڑک پر بے دردی سے مارا اور اس سے ‘جئے شری رام کا نعرہ لگوائے۔ اس کی ویڈیو وائرل ہوئی اور ویڈیو کا سب سے تکلیف دہ حصہ یہ تھا کہ رکشہ ڈرائیور کی چھوٹی بچی اس سے لپٹی ہوئی تھی اور حملہ آوروں سے التجا کر رہی تھی کہ اس کے والد کو چھوڑ دیا جائے۔ اس کے بعد جیسا کہ این ڈی ٹی وی نے رپورٹ کیا، بجرنگ دل کے ارکان نے پولیس اسٹیشن کے باہر احتجاج کیا اور پولیس کی 'یقین دہانی' کے بعد ہی وہ واپس آئے۔ 
ملزم کو فورا ضمانت مل گئی۔ ان کے خلاف تعزیرات ہند (آئی پی سی) کی دفعات 147 (فساد، سزا دو سال ) ، 323 (عام چوٹ ، ایک سال کی سزا) ، 504 (امن کی خلاف ورزی کو بھڑکانے کے ارادے کے ساتھ جان بوجھ کر توہین؛ دو سال کی سزا) اور 506 (مجرمانہ دھمکی)؛ دو سال کی سزا) درج کی گئی۔ یہ قابل ضمانتی شقیں ہیں۔ چونکہ کوڈ آف کرمنل پروسیجر (سی آر پی سی) کے سیکشن 41 میں 2008 کی ترامیم کے تحت سات سال سے کم قید کے جرائم کے لیے گرفتاری کا حکم نہیں دیتی ، پولیس نے مجرموں کے علاوہ کوئی غلط کام نہیں کیا۔ وہ اسے تکنیکی طور پر ٹھیک کر رہی تھی۔ 
یہاں ایک اور مسئلہ ہے۔ یہاں مسئلہ یہ ہے کہ سب سے پہلے قانون کا مسئلہ ہے۔ اس کے بعد اس کو نافذ کرنے کا طریقہ بھی ایک مسئلہ ہے۔ کیونکہ پولیس نے سی آر پی سی کے سیکشن 107 (امن کی دیکھ بھال کے لیے سیکورٹی) کے تحت بھی ہجوم کے خلاف کارروائی کرنا مناسب نہیں سمجھا۔ پھر لڑکی کے گھر جا کر ایس پی کا ڈرامہ کرنا زخموں پر مرہم نہیں ہے۔ 
‘جئے شری رام – سلام سے اعلان جنگ تک: 
نعرہ ‘جئے شری رام بطورسماجیات اور تاریخی ثقافتی نقطہ نظر سے نسبتا نیا رجحان ہے۔ ہندی پٹی میں لوگ سالوں تک ایک دوسرے کو سلام کرتے ہیں اور کہتے ہیں ‘رام رام ، ‘جے رام جی کی یا ‘جئے سیا رام۔ ‘جئے شری رام رامانند ساگر کے ٹی وی سیریل ‘رامائن کے ساتھ مقبول ہوا، وہ بھی جنگ کے بگل کے طور پر۔ پھر ایودھیا میں رام مندر تحریک کے دوران اس کی تشہیر کی گئی۔ سلام کے بجائے ، یہ رام کے لیے علامت وآواز بن گیا ، جس میں جارحیت اور ہٹ دھرمی شامل ہے۔ جیسے جنگ کا اعلان کیا جا رہا ہے۔ 
اور بھی کئی واقعات ہیں جہاں لوگوں کو ان کے مذہب کے نام پرذلیل کیا گیا ہے۔ نیز ،ان کے خلاف آئی پی سی کے تحت جرائم کیے گئے ہیں، جیسے حملہ وغیرہ۔حال ہی میں، دی وائر کے رپورٹر یاقوت علی بھی ‘جے شری رام کے نعرے لگاتے ہوئے بحفاظت واپس لوٹنے میں کامیاب ہوئے۔ وہ نئی دہلی کے دوارکا میں حج ہاؤس کی تعمیر کے خلاف بڑے پیمانے پر احتجاج کی کوریج کے لیے گئے تھے۔

جنوری میں ، آندھرا پردیش کے کرنول کے آٹو نگر علاقے میں ایک مسلمان لڑکے کو مبینہ طور پر مارا پیٹا گیا اور زبردستی ‘جے شری رام کا نعرہ لگایا گیا۔ جولائی 2019 میں ، اناؤ کے گورنمنٹ انٹر کالج گراؤنڈ میں کرکٹ کھیلنے والے کچھ مدرسوں کے طالب علموں کو مبینہ طور پر مارا پیٹا گیا اور ‘جئے شری رام کے نعرے لگانے پر مجبور کیا گیا۔ اسی مہینے میں اسی طرح کا ایک واقعہ آسام کے بارپیٹا میں پیش آیا۔ وہاں کچھ مسلمان لڑکوں پر حملہ کیا گیا اور پھر ‘جے شری رام، ‘بھارت ماتا کی جئے اور ‘پاکستان مردہ آباد کے نعرے بلند کرنے کو کہا گیا۔ 
ممبئی میں فیضل عثمان خان نامی ٹیکسی ڈرائیور نے بھی اسی طرح کے حادثے کی اطلاع دی۔ 2021 میں کھجوری ، دہلی میں ایک شخص کو ‘پاکستان مردہ باد کے نعرے لگانے پر بھی مجبور کیا گیا۔ جون 2019 میں ، تبریز انصاری کو جھارکھنڈ میں قتل کردیا گیا۔ مرنے سے پہلے اسے ‘جئے شری رام اور ‘جئے ہنومان کا نعرہ لگایا گیا۔ ایک ویڈیو اپریل 2017 میں گردش کررہی تھی (غالبا مغربی اترپردیش سےکی تھی)۔ ویڈیو میں کچھ نامعلوم افراد ایک مسلمان شخص کو گاڑی کے اندر گھسیٹ رہے تھے۔ انہوں نے اسے ‘جئے شری رام کے نعرے لگانے پر مجبور کیا۔ پھر اس نے دھمکی دی اور گالی دی کہ وہ نعرہ بلند کیوں نہیں کر رہا ہے۔ 
قانون عصمت دری کے معاملات میں فرق کرتا ہے: 
دو مناظر ہیں۔ ایک میں ، ایک مسلمان آدمی کو ‘سیکولر پن کی وجہ سے مارا پیٹا جا رہا ہے، یعنی جس کا کوئی مذہبی نقطہ نظر نہیں ہے، جیسے ایک معمولی سڑک حادثے کے لیے مارا پیٹا جاتا ہے۔ دوسرے منظر میں لوگ اسی شخص کو پیٹ رہے ہیں، وہ بھی کچھ مذہبی معامالت کی وجہ سے (جیسے بین المذاہب شادی کا الزام لگانا ، جسے وہ لو جہاد ، جبری مذہب تبدیلی، یا گائے ذبح وغیرہ کا معاملہ کہہ سکتے ہیں) ، اور اسے اس بات کے لیے مجبور کررہے ہیں کہ جے شری رام کہے، کیا ان مناظر میں کوئی فرق ہے؟ 
ویسے ، ہمارے ملک میں یہ خیال کیا جاتا ہے کہ کسی جرم کی اخلاقی خرابی اس سے متعلقہ ‘سماجی صورت حال پر منحصر ہوتی ہے۔ یہاں تک کہ عصمت دری جیسے ہوس کے جرائم کے معاملے میں بھی قانون اس کے مطابق فیصلہ کرتا ہے کہ یہ برائی کس نے کی ہے۔ عصمت دری کسی ایک فرد نے کی ہے یا اجتماعی زیادتی ہے۔ کیا ریپ کرنے والا ایک ذمہ دار یا طاقتور عہدے پر بیٹھا ہے؟ وہ پولیس افسر ہو یا سرکاری ملازم ہو یا مسلح افواج کا رکن ہو۔ جیل کا منیجر ہے ، یا جیل کا ملازم ہے ، یا ریمانڈ ہوم یا حراست کی دوسری جگہوں پر، یا خواتین یا بچوں کی تنظیموں میں کام کرتا ہے۔ وہ ہسپتال کے انتظام سے وابستہ ہے یا وہاں ملازم ہے ، یا کئی بار جرم کر چکا ہے یعنی بار بار مجرم ہے۔قانون عورت کے ساتھ زیادتی یا 12 سال سے کم عمر کی بچی کے ریپ کے معاملات میں بھی فرق کرتا ہے۔ 
قانون تسلیم کرتا ہے کہ ان تمام حالات میں متاثرہ افراد ان مجرموں کے بجائے نقصان دہ یا کمزور پوزیشن میں ہیں، جو اس پر حاوی ہیں، اور اس لیے زیادہ اخلاقی بدانتظامی کے پیش نظر اسے زیادہ سخت سزا دی جانی چاہیے۔اسی دلیل کو شیڈولڈ کاسٹ اور شیڈولڈ ٹرائبز (پریوینشن آف ایٹروسٹی) ایکٹ، 1989 میں بھی قبول کیا گیا ہے۔ درج فہرست ذاتوں اور درج فہرست قبائل سے تعلق رکھنے والے افراد کو سماجی حیثیت سے انکار کیا گیا ہے اور یہی وجہ ہے کہ جب پارلیمنٹ میں اس موضوع پر بحث کی گئی تو ان گروہوں کو تحفظ دینے والے قانون کی ضرورت پر بحث کی گئی۔ 
بل کو پیش کرتے ہوئے حکومت نے خود تسلیم کیا کہ موجودہ قوانین ان گروہوں پر مظالم کو روکنے میں ناکام رہے ہیں۔ مباحثے کے دوران غریب اور بے بس لوگوں کی بہتری، فلاح وبہبود اور حفاظت جو طویل عرصے سے مختلف مظالم کا شکار رہے” کا حوالہ دیا گیا۔ یہ بھی بتایا گیا کہ ان پر مظالم کے باوجود کوئی بھی ان کے حق میں ثبوت دینے کی جرات نہیں کرتا کیونکہ کوئی بھی طاقتور لوگوں سے دشمنی نہیں مول لینا چاہتا۔ 
یہ صرف نفرت انگیز تقریر کے بارے میں نہیں ہے: 
ظاہر ہے کہ کسی کو شدید زخمی کرنے کی دھمکی دے کر اسےجے شری رامکہنے پر مجبور کرنا ظلم ہے۔ یہ متاثر کوشکست دینے کے مترادف ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ دوسرے مذاہب کے لوگوں نے اسے شکست دی ه، اور وہ لوگ اور ان کا مذہب متاثر فرد پر حاوی ہیں۔ وہ اس سے بولنے کہہ رہا ہے جس کی اس نے دوسرے حالات میں مخالفت کرتا۔اسےنفرت انگیز تقریرسے الگ تھلگ دیکھا جانا چاہیے۔ نفرت انگیز تقریر، یعنی نفرت انگیز بیان دینا،یا دوسرے مذاہب کی توہین کرنا،بعد میں تشدد کو بھڑکانے کا کام کرتا ہے۔ کوئی بھی متاثرفرد اس جرم میں ملوث نہیں ہوتا۔ جب کوئی آپ کے رحم و کرم پر ہو، اوراسے دھمکی دی جائے کہ ‘اگر آپ ہندوستان میں رہنا چاہتے ہیں تو آپ کو جئے شری رام کہنا پڑے گا، یا کسی کوجے شری رام کہنے پر مجبور کیا جائے تو اسے تسلط اور رعب کہا جائے گا۔ 
یعنی آج مسلمانوں کے لیے وہی صورتحال ہے جو درج فہرست ذات، درج فہرست قبائل کی ہے۔ ملک بھر میں ہونے والے حادثات کو محض حادثات کے طور پر نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ اگر ہم اس طرح کے رویے کے پیچھے سماجی قوتوں کو نہیں پہچانتے تو ہم سچ سے آنکھیں بند کرنے کا جرم کریں گے۔ جب کانپور میں یہ واقعہ ہو رہا تھا،پولیس صرف چند قدم پیچھے تھی اور اس کی موجودگی کے باوجود ہجوم اس واقعہ کو انجام دینے سےپیچھے نہیں ہٹا۔ 
اس حقیقت سے انکار نہیں ہے کہ ایسے لوگ بلاشبہ اس خیال سے پرجوش ہیں کہ پولیس ان کے خلاف کارروائی کرنے سے گریز کرے گی۔ اس بات کا ہر امکان موجود ہے کہ اگر پولیس کوئی کارروائی کرتی ہے تو مجرموں کو صرف ابتدائی دور میں پریشانی ہوگی۔ اس کے بعد انہیں آزاد کر دیا جائے گا۔ 
آرٹیکل 14 نامی ویب سائٹ پر ظفر آفاق اور عالیشان جعفری کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ جنتر منتر کی نفرت انگیز تقریر کے سلسلے میں سیکشن 188 (سرکاری ملازم کی جانب سے حکم نامے کی نافرمانی)،260 (نقلی سرکاری اسٹامپ کا استعمال)،269 (جان لیوا اثر کے ساتھ خطرناک بیماری کا انفیکشن غفلت سے پھیلانا)؛ یہ مقدمہ وبائی امراض ایکٹ،1897(سیکشن 188 کے تحت جرم کی سزا)اوردفعہ 51B (حکومت کی طرف سے دی گئی کسی بھی ہدایت کی تعمیل سے انکار) کے دفعہ 3 کے تحت رجسٹر کیا گیا تھا۔
لیکن آئی پی سی کی دفعات 295A (کسی بھی طبقے کے مذہبی جذبات، اس کے مذہب یا مذہبی عقائد: سزا ، تین سال) اور 153A (مذہب ، ذات ، پیدائش کا مقام ، رہائش ، زبان) کو مجروح کرنے کے لیے جان بوجھ کر اور بدنیتی پر مبنی اقدامات مختلف گروہوں کے درمیان دشمنی کو فروغ دینا اور ہم آہنگی کو برقرار رکھنے کے خلاف کام کرنا؛ تین سال کی سزا) جو خاص طور پر نفرت انگیز تقریر کے لیے ہیں۔ایسی صورت حال کے پیش نظر یہ ضروری ہے کہ مسلمانوں کے لیے درج فہرست ذات اور درج فہرست قبائل (مظالم کی روک تھام) ایکٹ 1989 جیسا قانون بنایا جائے۔ کیونکہ وہاں،جرم کے ساتھ ساتھ کسی کو مذہب کی بنیاد پر توہین کی جاتی ہے،وہ ذلیل ہوتا ہے۔لیکن کیا صرف قانون مدد کرے گا؟ 
میں جانتا ہوں کہ پولیس کا ٹریک ریکارڈ داغدار ہے۔ وہ اپنے متعصبانہ رویے کی وجہ سے بدنام ہے۔ لہذا قانون کا نفاذ زمینی سطح پرزیادہ مدد نہیں کرے گا۔ ہاں،حکومت کم از کم اس سے اپنی نیت صاف کر سکتی ہے۔ كوئی قانون زمینی سطح پر نافذ ه بہت سے عوامل پر منحصر ہے، جیسے مقامی سیاست، پولیس کا تعصب، متاثرہ کی سماجی و معاشی حیثیت وغیرہ۔ سنٹر فار ایکویٹی اسٹڈیز اور دیگر کے سربھی چوپڑا اور دیگر كی ریسرچ 'ااونٹبلٹی فار ماس وائیلنس اگزامننگ دی اسٹیٹس ری ارڈ سے پتا چلتا ہے کہ آزادی کے بعد سے اب تک 25،628 افراد فرقہ وارانہ تشدد میں اپنی جانیں گنوا چکے ہیں ، لیکن پولیس نے ہر سطح پر بہت بت زیادبدعنوانی كی ہے۔ اس طرح کے قانون کے نفاذ سے مسلم کمیونٹی کا ایمان بیدار ہو گا ، جس کا امن و امان پر یقین مسلسل ٹوٹا جا رہا ہے۔

(ڈاکٹر این سی استھانا ایک ریٹائرڈ آئی پی ایس افسر ہیں۔ وہ کیرالہ کے ڈی جی پی اور سی آر پی ایف اور بی ایس ایف کے اے ڈی جی رہ چکے ہیں)

آٹھ خطرناک ایپس پرگوگل کی پابندی

 نئی دہلی (ایجنسی):ان دنوں کرپٹوکرنسی(ڈیجیٹل کیش سسٹم کی ایک قسم) کافی مقبول ہو رہی ہیں۔ بہت سے لوگ بٹ کوائن جیسی کرپٹو کرنسیوں میں سرمایہ کاری کر رہے ہیں ، اور کچھ اس کے بارے میں جاننا چاہتے ہیں۔ دھوکے باز عوام کے اس مفاد سے فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں اور انہیں کرپٹو کرنسی کے نام پر دھوکہ دینا چاہتے ہیں۔ حال ہی میں کچھ ایسی ہی خطرناک اسمارٹ فون ایپس منظر عام پر آئی ہیں۔ گوگل نے ایسی 8 ایپس پر پابندی لگا دی ہے ، جو کرپٹو کرنسی کے نام پر لوگوں کو دھوکہ دے رہی تھیں۔ سیکورٹی فرم ٹرینڈ مائیکرو کی ایک رپورٹ کے مطابق تحقیقات میں پتہ چلا کہ 8 خطرناک ایپس صارفین کو اشتہارات دکھا کر دھوکہ دے رہی ہیں اور سبسکرپشن سروس (ماہانہ اوسط 1100 روپے) اور اضافی چارجز وصول کر رہی ہیں۔ ٹرینڈ مائیکرو نے گوگل پلے کو اس بارے میں آگاہ کیا جس کے بعد ان ایپس کو پلے سٹور سے ہٹا دیا گیا ہے۔ تاہم ، پلے اسٹور سے ہٹائے جانے کے بعد بھی ، یہ ایپس اب بھی آپ کے فون میں کام کر رہی ہیں۔گوگل سے 8 خطرناک ایپس کو ہٹا دیا گیا ہے۔

BitFunds - Crypto Cloud Mining

Bitcoin Miner - Cloud Mining

Bitcoin (BTC) - Pool Mining Cloud Wallet

Crypto Holic - Bitcoin Cloud Mining

Daily Bitcoin Rewards - Cloud Based Mining System

Bitcoin 2021

MineBit Pro – Crypto Cloud Mining & btc miner

Ethereum (ETH) – Pool Mining Cloud رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 120 سے زائد جعلی کرپٹو کرنسی ایپس اب بھی آن لائن دستیاب ہیں۔ کمپنی نے ایک بلاگ میں لکھا “یہ ایپس کرپٹوکرنسی مائننگ کے نام پر لوگوں کو دھوکہ دینے کے لیے ایپ میں اشتہارات دکھاتی ہیں۔ ان ایپس نے جولائی 2020 سے جولائی 2021 تک دنیا بھر میں 4500 سے زائد صارفین کو متاثر کیا۔” ایسی کوئی بھی ایپ ڈاؤن لوڈ کرنے سے پہلے ، براہ کرم اس کے جائزے پڑھیں۔

The post 8 خطرناک ایپس پر گوگل کی پابندی، تفصیلات جاننا لازمی appeared first on Roznama Sahara.

Muslim bangles seller thrashed in MP

 Bhopal: A 25-year-old bangle seller was mercilessly thrashed by a mob in full public view in Indore, Madhya Pradesh on Sunday. In the video which has gone viral on social media, the mob can be heard using communal slurs against him while they beat him black and blue.

Authorities registered a case after hundreds of people from the minority community surrounded the police station to demand action against the accused. Madhya Pradesh Home Minister Narottam Mishra said a police investigation revealed that the man, Tasleem, was using a fake identity for his profession, adding that strict action will be taken against both the sides.

Congress and other political parties have criticised the Shivraj Singh Chouhan government over the incident. Imran Pratapgarhi, who is the national chairman of Congress' minority department, tweeted a video of the incident, and said the clip is not of Afghanistan, but from Indore where, he said, the bangles seller was looted and thrashed in full public view.

The video shows a group of men taking the trader's wares out of his bag and hurling abuses at him. They then began beating up the helpless man. Pratapgarhi asked when will the government take action against such 'terrorists'?

Former Aam Aadmi Party leader, Kumar Vishwas, retweeted Pratapgarhi's video, and urged Chief Minister Shivraj Singh Chouhan to take action against such anarchy. Vishwas added that anyone who violates the Constitution, irrespective of their religion, is a traitor and should be treated like one.

The state home minister, on the other hand, has highlighted a police report which said that Tasleem had two Aadhaar cards and was using a Hindu name to sell bangles to women during Sawan after which the incident took place.

Indore Superintendent of Police (East), Ashutosh Bagari, said they are investigating the incident and assured that they will soon nab the culprits. He also urged the common public to not view the case communally, adding that some people are trying to disrupt the communal harmony in Indore for the past few days. 

Sunday 22 August 2021

جسٹس عقیل قریشی انصاف کے منتظر

 نئی دہلی:۲۲؍اگست(پریس ریلیز) آل انڈیا لائرس کونسل (AILC) نے کولیجیم کی جانب سے سپریم کورٹ کیلئے ترقی پانے والے ججوں کی فہرست میں سینئر ترین چیف جسٹس عقیل قریشی کا نام شامل نہ کرنے پر افسوس کا اظہار کیا ہے۔ جسٹس عقیل قریشی ایک بار پھر امتیازی سلوک کا شکار دکھائی دیتے ہیں جب ان کا نام سپریم کورٹ کے کولیجیم نے کسی بھی وجہ کا حوالہ دیئے بغیر شامل نہیں کیا ہے۔ عقیل قریشی کو گجرات ہائی کورٹ کا جج بنایا گیا تھا۔ انہوں نے 2010میں گینگسٹر سہراب الدین شیخ سے متعلق ایک مقدمے میں امیت شاہ کو سی بی آئی تحویل میں بھیج دیا جس پر مبینہ طور پر گجرات ہائی کورٹ کے سینئر ترین جج ہونے کے باوجود طے شدہ پالیسی کے تحت انہیں ہائی کورٹ کا چیف جسٹس نہیں بنایا گیااور بطور چیف جسٹس تقرری کی امید میں ممبئی ہائی کورٹ منتقل کردیا گیا لیکن انہیں ممبئی ہائی کورٹ میں بھی یہ عہدہ نہیں دیا گیا۔ کالیجیم نے ان کی سینئریاٹی کو مد نظر رکھتے ہوئے مدھیہ پردیش ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کے طور پران کی تقرری کی سفارش کی، لیکن مودی حکومت نے ان کے نام کو منظور نہیں کیا۔ سپریم کورٹ کے کولیجیم نے مدھیہ پردیش ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کے طور پر ان کی تقرری کی سفار کرتے ہوئے ایک اور قرار داد منظور کی، لیکن اس قرارداد کو روک دیا گیا، اس دوران گجرات ہائی کورٹ کی بار اسوسی ایشن نے عقیل قریشی کی بطور چیف جسٹص تعیناتی کی منظوری کا مطالبہ کرتے ہوئے ہڑتال کیاور یہاں تک کہ سپریم کورٹ میں ایک ایس ایل پی دائر کیا۔ مودی حکومت نے ان حالات میں جسٹس عقیل قریشی کو تریپورہ ہائی کورٹ کا چیف جسٹس مقرر کیا جس میں صرف 4جج ہیں اور مدھیہ پردیش ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کے طور پر تقرری کو مسترد کیا جہاں ہائی کورٹ ججوں کی تعداد 40ہے۔ جسٹس عقیل قریشی ہندوستان کے سینئر ترین چیف جسٹس ہیں۔ ان کے جونیئر جسٹسوں کو سپریم کورٹ میں ترقی کیلئے سفارش کی گئی ہے اور واحد طور پر انہیں ترقی دینے سے انکار کیا گیا ہے۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ جسٹس آر ایف نریمن، مبینہ طو رپر اصرار کررہے تھے جب وہ سپریم کورٹ کے کولیجم کا حصہ تھے کہ جسٹس قریشی جیسے سینئر جج کو دوسرے ناموں پر غور کرنے سے پہلے سپریم کورٹ میں ترقی دی جائے۔ اس کے نتیجے میں ججوں کی سپریم کورٹ میں ترقی کے حوالے سے ایک تعطل پیدا ہوا۔جسٹس نریمن 12اگست 2021کو ریٹائر ہوچکے ہیں۔ سپریم کورٹ میں 5اراکین پر مشتمل کولیجیم کی تشکیل نو کے بعد ان کی ریٹائرمنٹ کے صرف دو دن بعد سپریم کورٹ میں 5ارکان پر مشتمل کولیجیم کی تشکیل نو کے بعد سپریم کورٹ کے نئے تشکیل شدہ کولیجیم نے 9ججس، 8ججس اور 1اڈوکیٹ کے ناموں کو سپریم کورٹ میں ترقی دینے کیلئے منظوری دی اور جسٹس قریشی کا نام چھوڑ دیا گیا۔ترقی پانے والے چیف جسٹس اور ججس ہائی کورٹ کے جج کے طور پر تجربے اور مدت کے لحاظ سے جسٹس عقیل قریشی سے نسبتا جونیئر ہیں۔ ایک کنونشن کے طور پر سینئریاٹی کو اعلی ترجیح دی جاتی ہے۔ جسٹس قریشی کو مدھیہ پردیش ہائی کورٹ کا چیف جسٹس بنانے سے انکار کردیا گیا اور ساتھ ہی ساتھ سپریم کورٹ میں ترقی دینے پر بھی غور نہیں کیا گیا جبکہ 9ججوں کو عدالت عظمی میں ترقی دیتے ہوئے کسی بھی عنصر کو مدنظر نہیں رکھا گیااور کولیجیم کی تجویز کردہ فہرست سے سینئر ججوں کا نام خارج کیا گیا ہے۔ آل انڈیا لائرس کونسل(AILC)عاجزانہ التماس کرتی ہے کہ جسٹس عقیل قریشی کو ان کا حق دیا جائے اور بظاہران کے ساتھ ہونے والے امتیازی سلوک کو دور کیا جائے۔ قانونی برادری کی خواہش ہے کہ انصاف کو نہ صرف غالب ہونا چاہئے بلکہ عوامی نظرمیں بھی شفا ف ہونا چاہئے۔

بی جے پی ملک کے ٹکڑے ٹکڑے کرنا چاہتی ہے:محبوبہ مفتی

 کولگام،22 اگست - پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی (پی ڈی پی) صدر و سابق وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی نے الزام لگایا کہ بھارتیہ جنتا پارٹی ملک کے ٹکڑے ٹکڑے کرنا چاہتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر 1947 میں بی جے پی کی حکومت ہوتی تو شاید کشمیر آج ہندوستان کا حصہ نہیں ہوتا۔ محبوبہ مفتی نے ان باتوں کا اظہار پی ڈی پی کے ایک جلسے کے حاشئے پر نامہ نگاروں سے گفتگو کرتے ہوئے کہیں۔انہوں نے کہا کہ 'ایسا لگتا ہے کہ بی جے پی اس ملک کے ٹکڑے ٹکڑے کرنا چاہتی ہے۔ ہندو-مسلم کے نام پر لوگوں کو تقسیم کرنا چاہتی ہے۔ بی جے پی ایجنسیاں کا غلط استعمال کر رہی ہے۔ اگر بی جے پی نے ہوش کے ناخن نہیں لئے تو اس خوبصورت ملک کو کافی نقصان ہو سکتا ہے'۔محبوبہ مفتی کا مزید کہنا تھا کہ 'جموں و کشمیر کا ہندوستان سے الحاق جموں و کشمیر کی وجہ سے نہیں بلکہ جواہر لعل نہرو کی وجہ سے ہوا تھا۔ وہ بڑے ہی سیکولر اور جمہوریت پسند رہنما تھے۔ انہوں نے جموں و کشمیر کے لوگوں کو یقین دلایا تھا کہ ہم آپ کا تشخص برقرار رکھیں گے۔ اگر اس وقت بی جے پی ہوتی تو شاید کشمیر آج بھارت کا حصہ نہیں ہوتا'۔ قبل ازیں محبوبہ مفتی نے جلسے کے شرکا سے خطاب کرتے ہوئے مرکزی حکومت کو بات چیت کا سلسلہ شروع کرنے کی ایک بار پھر تاکید کرتے ہوئے کہا کہ متواتر مرکزی سرکاروں نے ملی ٹنتوں کے ساتھ بات چیت کی ہے۔محبوبہ مفتی نے کہا کہ سابق وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی نے بھی علاحدگی پسندوں کے ساتھ بات چیت کی اور وی پی سنگھ نے بھی اس کی کوشش کی۔ ان کا کہنا تھا کہ جموں و کشمیر کا مسئلہ ایک زندہ مسئلہ ہے یہی وجہ ہے یہاں اس قدر سیکورٹی تعینات ہے۔ موصوفہ نے کہا کہ الحاق کے وقت اگر پنڈت نہرو کے بجائے آج کا جیسا لیڈر ہوتا تو شاید جموں و کشمیر کا ہندوستان کے ساتھ الحاق نہیں ہوا ہوتا۔ انہوں نے کہا کہ 'دلی کی متواتر سرکاروں نے ملی ٹنٹوں کے ساتھ بات چیت کی ہے واجپائی جی نے بھی بات چیت کی اور وی پی سنگھ نے بھی اپنی حکومت کے دوران کوشش کی'۔ان کا کہنا تھا کہ 'لیکن جب میں پاکستان کے ساتھ بات چیت کرنے کو کہتی ہوں تو ان کو غصہ آتا ہے'۔ سابق وزیر اعلیٰ نے کہا کہ اس وقت بی جے پی کو لگتا ہے کہ وہ طاقت ور ہے لہٰذا بات چیت نہیں کرے گی لیکن ایک وقت ضرور آئے گا جب یہ لوگ بات چیت کی میز پر خود آئیں گے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کے ساتھ آج بھی در پردہ بات چیت چل رہی ہے۔ افغانستان پر طالبان کے قبضے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے موصوفہ نے کہا کہ 'ہمیں دیکھنا چاپئے ہمارے ہمسایہ ملک میں کیا ہوا امریکہ جیسے طاقتور ملک کو طالبان کے ساتھ بات کرنی پڑی'۔محبوبہ مفتی نے کہا کہ جموں وکشمیر کا مسئلہ زندہ ہے یہی وجہ ہے کہ یہاں اس قدر سیکورٹی فورسز تعینات ہیں، سڑکوں پر تار بچھا دی گئی ہے اور گزشتہ کچھ دنوں کے دوران ہی دو چار لوگوں کو مارا گیا جو ایک غلط بات ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ یہاں خیالات کی جنگ ہے جو کبھی ختم نہیں ہوتی ہے اور اگر ایک بچہ کوئی چیز مانگتا ہے تو اس کو اس چیز کا متبادل دیا جانا چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ اگر مفتی سعید اس وقت زندہ ہوتے تو شاید جموں و کشمیر کی یہ صورتحال نہیں ہوتی۔محبوبہ مفتی نے پارٹی ورکروں کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے کہا کہ 'آپ لوگ ہمت نہ ہاریں آپ کے دم سے ہی میں کھڑی ہوں جب آپ کے حوصلے پست ہوں گے تو میں اکیلے نہیں لڑ سکتی'۔ انہوں نے کہا کہ کشمیر کے لوگ بزدل نہیں بلکہ ہمت والے ہیں اور صبر کرنے کے لئے ہمت کی سب سے زیادہ ضرورت ہوتی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ جب برداشت کا باندھ ٹوٹ جائے گا تو کوئی بھی نہیں بچے گا۔کانگریس صدر سونیا گاندھی کے ساتھ حالیہ آن لائن میٹنگ کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ 'میں نے سونیا جی سے کہا کہ ہم نے نہرو جی سے الحاق کیا ہے اگر اس وقت ہندوستان کے لیڈر آج کے لیڈر جیسے ہوتے تو شاید جموں وکشمیر ہندوستان کی طرف نہیں ہوتا'۔ موصوفہ نے مزکری حکومت پر جموں و کشمیر کے خصوصی درجے کی بحالی کا مطالبہ دہراتے ہوئے کہا کہ جو چیز ہم سے غیر آئینی طور پر لوٹی گئی اس کو بحال کیا جانا چاہئے۔

سرکار کشمیر کے لوگوں سے مذاکرات کرے:محبوبہ مفتی

 جموں و کشمیر کی سابق وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی نے ہفتہ کوطالبان کے بہانے مرکز کو نشانہ بنایا۔ انہوں نے مرکزی حکومت سے اپیل کی کہ وہ جموں و کشمیر کے لوگوں سے بات چیت شروع کرے۔ انہوں نے کہاہے کہ جموں و کشمیر کو دوبارہ خصوصی حیثیت دی جائے۔ مفتی نے کہا ہے کہ طالبان نے امریکہ کو بھاگنے پر مجبور کیا۔ ہمارے صبر کا امتحان نہ لیں۔ جس دن صبر کا امتحان ٹوٹ جائے گا ، آپ بھی وہاں نہیں ہوں گے۔ آپ غائب ہو جائیں گے۔محبوبہ مفتی نے کہا ہے کہ اگرمرکزی حکومت جموں و کشمیر میں امن کو یقینی بنانا چاہتی ہے۔ اس لیے اسے آرٹیکل 370 کو بحال کرنا ہوگا اور کشمیر کے مسائل کو بات چیت کے ذریعے حل کرنا ہوگا۔کولگام میں اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے محبوبہ مفتی نے کہاہے کہ طالبان نے امریکہ کو افغانستان میں بھاگنے پر مجبور کیا۔ لیکن پوری دنیا طالبان کے رویے کو دیکھ رہی ہے۔ میں طالبان سے اپیل کرتی ہوں کہ وہ کوئی ایسا کام نہ کریں جس سے دنیا ان کے خلاف ہو۔ طالبان میں بندوقوں کا کردار ختم ہو چکا ہے اور عالمی برادری دیکھ رہی ہے کہ وہ لوگوں کے ساتھ کیسا سلوک کریں گے۔پی ڈی پی کی سربراہ نے کہاہے کہ1947 میں اس وقت کے وزیر اعظم جواہر لال نہرو نے جموں و کشمیر کی قیادت سے وعدہ کیا تھا کہ عوام کی شناخت کو ہر طرح سے محفوظ رکھا جائے گا اور خصوصی حیثیت دی جائے گی۔ انہوں نے کہاہے کہ اگر آزادی کے وقت بی جے پی حکومت میں ہوتی تو جموں و کشمیر بھارت کا حصہ نہ ہوتا۔

Saturday 21 August 2021

14 people arrested for social media posts supporting Taliban:Assam Police

 New Delhi: Fourteen people have been arrested in Assam on Saturday for allegedly supporting the Taliban takeover in Afghanistan on social media, the police said.

The arrested have been booked under different sections of the Unlawful Activities (Prevention) Act, IT Act and CrPC. "We were on alert and monitoring social media for inflammatory posts," a senior police officer told PTI.

Deputy Inspector General Violet Baruah said the Assam Police is taking stern legal action against pro-Taliban comments on social media that are harmful to national security.

"We're registering criminal cases against such persons. Please inform the police if any such thing comes to your notice," she tweeted.

#assampolice are taking stern legal action against pro #Taliban comments in the social media platform that are harmful to the National Security. We're registering criminal cases against such persons. Please inform the police if any such thing comes to your notice

- Violet Baruah IPS (@violet_baruah)

As per the police, two people each have been arrested from Kamrup Metropolitan, Barpeta, Dhubri and Karimganj districts. While one person each was arrested from Darrang, Cachar, Hailakandi, South Salmara, Goalpara and Hojai districts.

طالبان کے بہانے ہندوستانی مسلمانوں پر نشانہ کیوں :شکیل رشد

 طالبان ہم ہندوستانی مسلمانوں کے لیے اتنے اہم نہیں ہیں جتنا کہ اس ملک کے عوام کو باور کرانے کی کوشش کی جارہی ہے ۔ اس کوشش میں سب سے آگے 'گودی میڈیا' ہے ، ' وہاٹس ایپ یونیورسٹی ' ہے اور وہ اندھ بھکت ہیں جنہیں کچھ لوگ ہندوستان کے طالبانی کہتے ہیں ، مگر ہم انہیں طالبانی نہ کہہ کر ' ہندوتوا کے کٹر وادی' کہیں گے ۔ طالبان کو اسلام کا چہرہ بتانے کے پسِ پشت کیا مقصد ہے ، اس سوال کا جواب کوئی مشکل نہیں ہے ۔ اس کا سب سے بڑا مقصد اسلام کو بدنام کرنا ہے ، اور جب اسلام بدنام ہوگا تو مسلمان بدنام ہوں گے ہی۔ اور اِن دنوں اس ملک کی مرکزی اور اکثر ریاستی سرکارو ںکی ' سیاسی نیّا' اسلام اور مسلمانوں کو بدنام کرنے سے جو نفرت کا دریا بہتا ہے ، اسی پر چل رہی ہے ۔ طالبان پر کیا الزامات ہیں ؟ یہی کہ اس نے شریعت کو لاگو کرنے کے لیے زبردستی کی، عورتوں کو تعلیم سے دور کیا اور ان پر ملازمت کے دروازے بند کیے، میوزک پر پابندی لگائی وغیرہ وغیرہ ۔۔۔ کیا اس ملک میں بھی یہی نہیں ہورہا ہے ، کیا 'پدماؤت' فلم نہیں تھی ، کیا اس فلم کو، اور اس فلم کی ہی طرح بہت ساری فلموں کو اس لیے نشانہ نہیں بنایا گیا کہ وہ ' ہندوتوا' کے نظریے پر درست نہیں بیٹھتی تھیں؟ اس ملک میں کیا اقلیت پر ملازمت کے دروازے نہیں بند کیے گیے؟ کیا اس ملک میں خواتین کو بری طرح سے اس لیے نہیں مارا پیٹا گیا کہ وہ اپنے مذہب کے کسی لڑکے یا کسی عورت سے نہیں دوسرے مذہب والوں سے باتیں کررہی یا ان کے ساتھ کہیں گھوم رہی تھیں؟ کیا اس ملک میں لوگ جموں کے ایک مندر کا واقعہ بھلادیں گے جہاں آصفہ کا ریپ کیا گیا اور پھر اسے قتل کیا گیا تھا؟ دلت عورتوںکو ننگا گھمانے ، ان کی عصمت کو تارتار کرنےاور پھر انہیں قتل کرنے کے واقعے تو اس ملک میں روز کا معمول ہیں ۔ کیا کوئی مظفر نگر اور دہلی کی ان دلت بچیوں کو بھول سکتا ہے جن کی آتمائیںآج بھی انصاف کے لیے بھٹک رہی ہیں ؟ مسلم خواتین کو ، جنہیں اس وقت، جب گجرات میں مودی راج تھا، جس طرح کے ظلم وستم سے گزرنا پڑا ، جس طرح حاملہ بلقیس بانو کے ساتھ زنابالجبر کیا گیا ، کیاکوئی بھول سکتا ہے ؟ بیسٹ بیکری کق جلانے اور اندر کے لوگوں کو،اوراحمدآباد میں احسان جعفری کو زندہ جلاکر ماردیئے جانے کے ظالمانہ عمل کو کیا بھلایا جاسکتا ہے ؟ دہلی کے فسادات کہیں بھلائے جاسکتے ہیں؟ یہ تو دھرم کے نام پر ،ذات پات کی بنیاد پر کیے گیے مظالم ہیں ، ایسے مظالم جن کی تعلیم 'ہندوتوادی' نظریات رکھنے والےاندھ بھکت دیتے ہیں، ان کے گرنتھ دیتے ہیں۔ طالبان کو جویہ ' گودی میڈیا' یہ 'وہاٹس ایپ یونیورسٹی' یہ 'اندھ بھکت' گالیاں دے رہے ہیں ، کس منھ سے؟ ان کے اپنے کرتوت تو بے انتہا سیاہ ہیں۔خیر یہ ان کی اپنی اخلاقیات ہیں ،یہ گالیاں دیتے ہیں دیں مگر اس میں اپنے گندے سیاسی مفادات کے لیے مسلمانوں کا نام شامل نہ کریں ۔

(ماخوذ از ڈیلی ہنٹ )

جموں کشمیر میں سنسکرت زبان کوفروغ دیاجائے گا

 جموں : جموں و کشمیر کے لیفٹیننٹ گورنر منوج سنہا نے جموں و کشمیر میں سنسکرت زبان کو زندہ کرنے کی ضرورت پر زور دیا ہے ۔ کیونکہ یہ ہمیشہ سے اس قدیم زبان کا ایک بڑا مرکز رہا ہے۔ ایل جی کے مطابق بنارس کی طرح ، جے اینڈ کے ہمیشہ سنسکرت کا ایک بڑا مرکز رہا ہے اور اسی لیے حکومت نے اس کا اعلان کیا۔ آنے والے دنوں میں جموں و کشمیر میں سنسکرت کے فروغ کے لیے ابھینو گپتا انسٹی ٹیوٹ قائم کرنے کا منصوبہ ہے۔ ایل جی کے اس اعلان کو جموں و کشمیر کے تمام سنسکرت سے محبت کرنے والے لوگوں نے سراہا ہے۔ 

جموں و کشمیر کے ایل جی منوج سنہا نے سنسکرت کے فروغ کے حوالے سے کئی اعلانات کئے ۔ کٹھوعہ بسلوہلی علاقہ میں چودامانی سنسکرت سنستھان کی نئی عمارت کا سنگ بنیاد رکھنے کے دوران لیفٹیننٹ گورنر منوج سنہا نے کہا کہ سنسکرت زبان کی اقدار کو البرٹ آئنسٹائن ، اوپن ہائیمر اور میکس مولر جیسی عظیم شخصیات نے بھی تسلیم کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہماری کوشش ہونی چاہئے کہ اسکولوں میں جدید تقاضوں کے مطابق سنسکرت کو پڑھایا جائے۔ انہوں نے کہا کہ آج کی نسل ابھرتے ہوئے چیلنجوں سے نمٹنے کے دوران سنسکرت کے صحیفوں میں حکمت سے آشنا ہونا چاہے گی ۔ چنانچہ انہوں نے یہ کہہ کر ایک بڑا اعلان کیا کہ یو ٹی انتظامیہ نئی تعلیمی پالیسی کی سفارشات کے مطابق سنسکرت زبان کو فروغ دینے کی کوشش کر رہی ہے ، جس کے تحت ابھینو گپتا انسٹی ٹیوٹ برائے فروغ جموں و کشمیر میں جلد ہی قائم کیا جائے گا۔ 

سنسکرت پروموشن کے حوالے سے ایل جی کے اس اعلان نے سنسکرت سے محبت کرنے والے لوگوں کے اس قدم کا خیرمقدم کرتے ہوئے زبردست ردعمل ظاہر کیا ہے۔ سنسکرت کی تعلیم دینے والی فیکلٹی جیسے جموں سنسکرت کے پروفیسر رام بہادر شکولا کا کہنا ہے کہ انہیں خوشی ہے کہ ابھینو گپتا کے نام سے ایک نیا سنسکرت انسٹی ٹیوٹ جموں و کشمیر میں قائم ہونے والا ہے ۔ اس سے جو سنسکرت زبان اپنا وجود کھونے لگی تھی ، اس سے وہ اپنے وجود میں واپس آسکتی ہے اور یہ انتظامیہ کا بہت ہی اچھا فیصلہ ہے۔ ہم اس کا خیر مقدم کرتے ہیں۔ 

جموں و کشمیر کے عام لوگ بھی ایل جی انتظامیہ کی طرف سے جموں و کشمیر میں سنسکرت زبان کا جائزہ لینے کے اعلان پر کافی پرجوش ہیں ۔ وہ تسلیم کرتے ہیں کہ حکومت اور عوام دونوں اس زبان کی موجودہ قابل رحم صورتحال کیلئے ذمہ دار ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ زبان سکولوں میں پڑھائی جانی چاہئے تاکہ نوجوان نسل اس سے جڑ جائے۔ 

جموں کے رہنے والے وکاس رینا کا کہنا ہے کہ انتظامیہ نے جو یہ فیصلہ کیا ہے ، ہم اس کا خیرمقدم کرتے ہیں ۔ اس فیصلے سے سنسکرت زبان جو کہ جموں کشمیر میں بہت کم لوگ جانتے ہیں ، اگر اس کو سکولوں میں لاگو کیا جائے تو اس سے نئی نسل کو سنسکرت زبان ، کلچر کے بارے میں پتا چلے گا اور اس سے ان کو بھی کافی فائدہ ملے گا۔ وہیں جموں کی رہنے والی دیکشا گپتا نے کہا کہ سنسکرت زبان جموں و کشمیر میں کافی حد تک اپنا وجود کھو چکی ہے اور اس بات کا ہمیں افسوس بھی ہے۔ انتظامیہ نے جو یہ فیصلہ کیا ہے اس کا ہم خیرمقدم کرتے ہیں اور یہ اُمید کرتے ہیں جلد سے جلد اس زبان کو سکولوں میں لاگو کیا جائے۔ 
جموں کشمیر میں سنسکرت کوفروغ دینے سے مسلم تہذیب وتمدن کوکھلم کھلانظرانداز کرنا ہے. مسلمانوں میں اس اعلان سے شدید اضطراب پیدا ہوگیا ہے. یہاں سنسکرت کے بجائے کشمیری  اور عربی کوفروغ کیوں نہیں دیاجاسکتا ؟سنسکرت  کاکشمیر سے کوئی تعلق نہیں. یہ سراسر زیادتی ہے.