https://follow.it/amir-samdani?action=followPub

Friday 28 October 2022

طلاق غضبان

علامہ شامیؒ نے رد المحتار میں ’’طلاق المدہوش ‘‘اور’’طلاق الغضبان‘‘پرتفصیلی بحث کی ہے،انہوں نے ابن القیم ؒ کے رسالہ ’’طلاق الغضبان ‘‘ سے نقل کیاہے کہ غصے کی تین حالتیں ہیں۔ایک ابتدائی حالت ہے، جس میں آدمی کوپتا ہوتاہے کہ میں کیا کہہ رہاہوں اورجوکچھ کہہ رہاہوتاہے قصداور ارادے سے کہہ رہاہوتاہے اس حالت میں دی گئی طلاق کے واقع ہونے میں کوئی اشکال نہیں ہے۔ ایک انتہائی حالت ہے کہ غصے کے غلبے کی وجہ سے اسے پتاہی نہ ہو کہ میں کیاکررہاہوں، اوربغیر قصدو ارادے کے اس کے منہ سے الفاظ نکل رہے ہوں، اس حالت میں دی گئی طلاق کے بلاشک وشبہ واقع نہ ہونے کاحکم لگایاجائے گا ۔تیسری حالت وہ ہے جومذکورہ ان دوکیفیتوں کے بین بین ہے ، اس صورت میں دی گئی طلاق کاحکم قابلِ غور ہوسکتاہے، دلائل کامقتضا یہاں بھی یہ معلوم ہوتاہے کہ طلاق واقع نہ ہو۔ ابن القیم کے حوالے سے مذکورہ بالاتفصیل نقل کرنے کے بعد علامہ شامیؒ نے اس پر وارد ہونے والے بعض اشکالات کاجواب دینے کے بعد ابن القیم کی رائے کی تائید کرتے ہوئے اس طرف رجحان ظاہر کیاہے کہ ’’مدہوش‘‘ اور ’’غضبان‘‘ کے بارے میں مذکورہ مثالوں میں فقہاء کی تصریحات اور تعلیلات سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ طلاق کے واقع ہونے کے لیے طلاق دینے والے میں عقل کاجودرجہ ضروری ہے کہ اس میں صرف یہ شرط نہیں ہے کہ علم اورارادہ موجود ہو، بلکہ یہ بھی ضروری ہے کہ یہ تصرف سمجھ بوجھ کی حالت میں کیاہو۔ سمجھ بوجھ سے مرادیہ نہیں ہے کہ طلاق دینے والا بہت زیرک شخص ہو،نہ ہی یہ مراد ہے کہ وہ عملاًتمام عواقب ونتائج پراچھی طرح غورکرکے اس طرح کا قدم اٹھائے بلکہ مراد صرف یہ ہے کہ اس کی ذہنی حالت ایسی ہوکہ اپنی سمجھ بوجھ کو استعمال کرنا چاہے توکرسکتاہو ۔ اگر اس حوالے سے اس کی ذہنی حالت نارمل ہے توبغیر سوچے سمجھے طلاق دے دیتاہے تواس کی حماقت کے باوجود طلاق واقع ہو جائے گی۔ تاہم اگرکوئی ایسا عارضہ لاحق ہے جس کی وجہ سے اس کی ذہنی حالت غیر عادی اورایبنا رمل ہوگئی ہے اوروہ سمجھ بوجھ کر بات نہیں کرسکتا جیسے سکران (بسبب جائز ) مدہوش،معتوہ، مجنون اورنائم وغیرہ میں ہوتاہے یااس کی سمجھ بوجھ شریعت کی نظر میں ابھی نشوونما کے مراحل میں ہے جیسے نابالغ میں ہوتاہے توطلاق واقع نہیں ہوگی۔ حاصل یہ کہ طلاق کے وقو ع کے لیے یہ ضروری ہے کہ طلاق دینے والا شرعی طورپر اکتمالِ عقل (بلوغ)کے بعد اسے استعمال کرنے کی پوزیشن میں ہو، خواہ عملاًاسے استعمال کرے یانہ کرے ۔دوسرے لفظوں میں کہاجاسکتاہے کہ اس کی ذہنی حالت اس کے قابو میں ہو۔ حدیث کے الفاظ ’’المعتوہ المغلوب علی عقلہ ‘‘کا مقتضا بھی یہی ہے۔ کیونکہ حدیث میں جس کو وقوعِ طلاق سے مستثنیٰ کیا جارہا ہے وہ مفقود العقل نہیں بلکہ مغلوب العقل ہے۔ یہاں تک لکھنے کے بعد سرخسی کی ایک عبارت مل گئی جس میں وہ نشے کی حقیقت بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں : لأن بالسکر لایزول عقلہ وانما یعجز عن استعمالہ لغلبۃ السرورعلیہ ۔ اس میں بعینہ وہی بات کہی گئی ہے جو اوپر فقہا کے ذکر کردہ متفرق احکام سے مستنبط کی گئی تھی۔ اوریہ بات طے شدہ ہے کہ اگرنشہ حرام سبب سے نہ ہو تو طلاق واقع نہیں ہوتی ، معلوم ہواکہ عدمِ وقوع طلاق کے لیے آخری درجے کازوالِ عقل ضروری نہیں ، بلکہ اس کے استعمال سے عاجز ہونا کافی ہے۔ مدہوش اور غضبان دونوں میں طلاق واقع نہ ہونے کے لیے یہ ضروری نہیں ہے کہ بد حواسی اس حد تک پہنچ جائے کہ اسے معلوم ہی نہ ہوکہ وہ کیاکررہاہے،بلکہ غلبۂ ہذیان اورسنجیدہ وغیر سنجیدہ گفتگو کاملاجلاہونا کافی ہے، تائید میں انہوں نے ’’سکران‘‘(جبکہ نشہ حرام سبب سے نہ ہو) کی مثال پیش کی ہے کہ اس میں حنفیہ کے مفتی بہ قول کے مطابق نشے کااتنا درجہ ہی کافی ہے، آگے چل کرعلامہ شامیؒ نے مزید وضاحت کرتے ہوئے لکھاہے کہ اگرمدہوش ،غضبان اورسکران وغیرہ جوکچھ کہ رہے ہیں وہ انہیں معلوم بھی ہے اورکہ بھی قصدا اورارادے سے رہے ہیں لیکن عمومی گفتگو سے عقل کااختلال واضح ہورہاہے تب بھی طلاق واقع نہیں ہوگی، اس لیے کہ سمجھ بوجھ کے صحیح نہ ہونے کی وجہ سے ان کاقصد اورارادہ غیرمعتبر ہے جیساکہ صبی ممیز میں ہوتاہے کہ وہ اگرطلاق دے تواپنے قصداورارادے سے دیتاہے لیکن سمجھ بوجھ کے مکمل نہ ہونے کی وجہ سے اس کی طلاق واقع نہ ہوگی۔ علامہ شامی کی بحث کے چند اقتباسات یہاں پیش کیے جاتے ہیں ، وہ لکھتے ہیں: ’’والذی یظہر لی أن کلام المدہوش والغضبان لایلزم فیہ أن یکون بحیث لایعلم مایقول،بل یکتفی فیہ بغلبۃ الہذیان واختلاط الجد بالہزل کما ہو المفتی بہ فی السکران علی مامر‘‘۔ وہ مزید لکھتے ہیں: والذی ینبغی التعویل علیہ فی المدہوش ونحوہ إناطۃ الحکم بغلبۃ الخلل فی أقوالہ وأفعالہ، الخارجۃ عن عادتہ، وکذا یقال فیمن اختل عقلہ لکبر أو مرض أو لمصیبۃ فاجأتہ ،فما دام فی حال غلبۃ الخلل فی الأفعال والأقوال لاتعتبر أقوالہ، وان کان یعلمہا ویرید ہا، لأن ہذہ المعرفۃ والإرداۃ غیرہ معتبرۃ لعدم حصولہا عن إدراک صحیح کما لا تعتبر من الصبی العاقل۔ (شامی ج۳ص ۲۴۴)

جائزنشہ کی حالت میں طلاق

جائز نشے کی حالت میں طلاق اگرنشہ کسی ایسے سبب سے جوگناہ کاموجب نہ ہو ،مثلاًبعض ادویہ جن میں نشے کی تاثیر بھی ہوتی ہے انہیں دواکی نیت سے استعمال کیا،لیکن اتفاقاً نشہ آگیا اوراسی حالت میں طلاق دے دی تواکثرفقہاء کے نزدیک طلاق واقع نہیں ہوتی۔ لیکن اس نشے کی تعریف کیا ہے ، یا نشے کاکون سا درجہ مرادہے،توامام ابوحنیفہ سے نقل کیاگیاہے کہ’’سکران‘‘سے مراد وہ شخص ہے جس کی عقل اتنی زائل ہوچکی ہو کہ اسے زمین وآسمان اورمرد عورت کی تمییز باقی نہ رہے، جبکہ صاحبین کے نزدیک نشے کی حالت سے مراد ایسی کیفیت ہے جس میں آدمی بے ہودہ اوربے ربط سی باتیں کرتاہو۔یہاں اول تواکثرمشائخِ حنفیہ نے اس مسئلے میں صاحبین کے قول کو اختیار کیاہے، چنانچہ علامہ شامیؒ لکھتے ہیں: ومال أکثرالمشائخ الی قولہما ، وہو قول الأئمۃ الثلاثۃ، واختاروہ للفتوی،لأنہ المتعارف،وتأیّد بقول علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ : ’’اذاسکر ہذی ‘‘۔۔۔ وبہ ظہر أن المختار قولہما فی جمیع الأبواب فافہم (حاشیہ ابن عابدین علی الدر المختار ج ۳، ص ۲۳۹) دوسرے علامہ شامی نے ابن الہمام سے نقل کیاہے کہ امام صاحب نے نشے کے لیے جوشرط لگائی ہے کہ اسے زمین وآسمان کی تمییز نہ رہے اس سے مرادوہ نشہ ہے جس کی وجہ سے حد واجب ہوتی ہے، اس لیے کہ اگرنشہ اس سے کم درجے کاہے توشبہ پیدا ہوجائے گا اورشبہ کی وجہ سے حدساقط ہوجاتی ہے۔جہاں تک حد کے علاوہ باقی احکام کاتعلق ہے مثلاًاس کے تصرفات کانافذ نہ ہونا تواس کے لیے امام صاحب کے نزدیک بھی نشے کی وہی تعریف ہے جوصاحبین کے نزدیک ہے، ابن الہمام کے الفاظ یہ ہیں: ’’وأما تعریفہ عندہ فی غیر وجوب الحد من الأحکام فالمعتبر فیہ عندہ اختلاط الکلام والہذیان کقولہما‘‘۔ پچھلی عبارت میں اکثرمشائخ کی دلیل میں جوکہاگیاتھا’’لأنہ المتعارف‘‘اس سے معلوم ہواکہ کسی شخص کے نشے میں ہونے یانہ ہونے کامدار عرف پر ہے ۔ عرفاً جس شخص کو نشے میں سمجھا جائے وہ شرعاًبھی سکران ہوگا،یہی بات شافعیہ میں سے نووی نے کافی بحث کے بعد نقل کی ہے اور اسے اقرب قرار دیا ہے۔(روضۃ الطالبین ۸/۶۳) اس سے معلوم ہواکہ طلاق کے عدمِ وقوع کے لیے زوالِ عقل کایہ درجہ شرط نہیں ہے کہ اسے اپنے آپ کا، اپنے اردگرد کا اوراپنی کہی ہوئی باتوں کاہی ہوش نہ ہو ،بلکہ اتناہی کافی ہے کہ اسے اپنی گفتگو پرکنٹرول نہ ہو۔

معتوہ کی طلاق

معتوہ کی طلاق جس طرح مجنون کی طلاق واقع نہیں ہوتی اسی طرح فقہاء بالخصوص فقہائے حنفیہ کی تصریح کے مطابق’’معتوہ‘‘کی طلاق بھی واقع نہیں ہوتی، (الدرالمختار ۳/۲۴۳ )۔ ’’عتہ‘‘ کی وضاحت کرتے صاحبِ درمختار نے لکھاہے: ’’ھو اختلال فی العقل‘‘۔ علامہ شامی نے اس کی وضاحت کرتے ہوئے البحرالرائق کے حوالے سے نقل کیاہے کہ مجنون اورمعتوہ کے درمیان فرق کے سلسلے میں سب سے بہتر بات یہ ہے کہ معتوہ وہ ہوتاہے جس کی سمجھ بوجھ کم ہو، اس کی گفتگو غیر مربوط ہو اوراس کی تدبیر فاسدہو، البتہ وہ گالی گلوچ اورمارپیٹ نہ کرتاہو، جبکہ مجنون کی علامات اس سے مختلف ہوتی ہیں۔شامی کے نقل کردہ الفاظ یہ ہیں: وأحسن الاقوال فی الفرق بینہما أن المعتوہ ہوقلیل الفہم، المختلط الکلام ، الفاسد التدبیر،لکن لایضرب ولایشتم ،بخلاف المجنون ۔ (حاشیہ ابن عابدین علی الدرالمختار ج۳ص ۲۴۳)

Wednesday 26 October 2022

کن کن سے پردہ نہیں ہے

۔ وہ افراد جن سے عورت کا پردہ نہیں ہے، وہ یہ ہیں: (1) باپ (2) بھائی (3) چچا (4) ماموں (5) شوہر (6) سسر (7) بیٹا (8) پوتا (9) نواسہ (10) شوہر کا بیٹا (11) داماد (12) بھتیجا (13) بھانجا (14) مسلمان عورتیں (15) کافر باندی (16)ایسے افراد جن کو عورتوں کے بارے میں کوئی علم نہیں۔ ( مثلاً: چھوٹے بچے جن کو ابھی یہ سمجھ نہیں کہ عورت کیا ہے، جسے مرد اور عورت میں فرق ہی نہ معلوم ہو) اس کے علاوہ تمام اجنبیوں سے عورت کا پردہ ہے، ان میں رشتہ دار اور غیر رشتہ دار دونوں شامل ہیں، نامحرم رشتہ دار یعنی وہ رشتہ دار جن سے پردہ فرض ہے، وہ درج ذیل ہیں : (1) خالہ زاد (2) ماموں زاد (3) چچا زاد (4) پھوپھی زاد (5) دیور (6) جیٹھ (7) بہنوئی (8)نندوئی (9) خالو (10) پھوپھا (11) شوہر کا چچا (12) شوہر کا ماموں (13)شوہر کا خالو (14) شوہر کا پھوپھا (15) شوہر کا بھتیجا (16) شوہر کا بھانجا۔

Tuesday 25 October 2022

مدہوشی میں طلاق

طلاق کے واقع ہونے کے لیے ضروری ہے کہ طلاق دینے والا عاقل ہو یعنی اُس کا دماغی توازن ٹھیک ہو، اگر کوئی آدمی ایسا ہے کہ اُس کا دماغی توازن ٹھیک نہ ہو یا ایسی حالت کبھی کبھی اس پر آتی ہو اور وہ اسی حالت میں طلاق کے الفاظ کہہ دے تو ایسے آدمی کی دی ہوئی طلاق واقع نہیں ہوتی، اور اگر کسی شخص کا دماغی توازن ٹھیک ہو، محض زیادہ غصہ کی حالت میں طلاق دی ہو اور پھر اس کو ہوش میں نہ ہونے سے تعبیر کرے تو یہ درست نہ ہو گا اور ایسی حالت میں دی ہوئی طلاق بھی واقع ہو جائے گی۔ اگر واقعتًا دماغی توازن کبھی کبھی بگڑ جاتا ہو، جس میں اپنے افعال اور اقوال کا بالکل ہوش نہ رہتا ہو اور اسی حالت میں اپنی بیوی کو طلاق دی ہو تو ایسی حالت میں دی ہوئی طلاق واقع نہیں ہو گی، لیکن اگر آپ کا دماغی توازن درست ہو اور سخت غصہ کے طاری ہونے کی حالت میں طلاق دی ہو تو ایسی طلاق واقع سمجھی جائے گی، اس کے بعد ساتھ رہنا جائز نہیں ہو گا۔ الفتاوى الهندية (1/ 353): "(فصل فيمن يقع طلاقه وفيمن لا يقع طلاقه) يقع طلاق كل زوج إذا كان بالغاً عاقلاً سواء كان حرا أو عبداً طائعاً أو مكرهاً، كذا في الجوهرة النيرة". مصنف ابن أبي شيبة (4/ 73): " عن قتادة قال: «الجنون جنونان، فإن كان لا يفيق، لم يجز له طلاق، وإن كان يفيق فطلق في حال إفاقته، لزمه ذلك»".

Friday 21 October 2022

خواتین کاگاڑی چلانا

عورتوں کے لیے شدید ضرورت کی بنا پر اور کوئی شرعی محذور نہ پائے جانے کی صورت میں پردہ کے پورے اہتمام کے ساتھ یعنی برقعہ پہن کر چہرہ چھپا کر چلانے کی اجازت ہے، لیکن بلاضرورت یا بے پردگی کے ساتھ نہ تو باہر نکلنا جائز ہوگا اور نہ ہی گاڑی چلانا جائز ہوگا۔ قرآن کریم میں ہے: { وَقَرْنَ فِي بُيُوتِكُنَّ وَلَا تَبَرَّجْنَ تَبَرُّجَ الْجَاهِلِيَّةِ الْأُولَى وَأَقِمْنَ الصَّلَاةَ وَآتِينَ الزَّكَاةَ وَأَطِعْنَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ} [الأحزاب: 33] اور تم اپنے گھروں میں قرار سے رہو اور قدیم زمانہ جاہلیت کے دستور کے موافق مت پھرو اور تم نمازوں کی پابندی رکھو اور زکاۃ دیا کرو اور اللہ کا اور اس کے رسول (علیہ السلام) کا کہنا مانو ۔ (بیان القرآن) ’’ أحکام القرآن للفقیہ المفسر العلامۃ محمد شفیع رحمہ اللّٰہ ‘‘ میں ہے: "قال تعالی : {وقرن في بیوتکن ولا تبرجن تبرج الجاهلیة الأولی} [الأحزاب :۳۳]فدلت الآیة علی أن الأصل في حقهن الحجاب بالبیوت والقرار بها ، ولکن یستثنی منه مواضع الضرورة فیکتفی فیها الحجاب بالبراقع والجلابیب ۔۔۔۔ ۔۔۔ فعلم أن حکم الآیة قرارهن في البیوت إلا لمواضع الضرورة الدینیة کالحج والعمرة بالنص ، أو الدنیویة کعیادة قرابتها وزیارتهم أو احتیاج إلی النفقة وأمثالهابالقیاس، نعم! لا تخرج عند الضرورة أیضًا متبرجةّ بزینة تبرج الجاهلیة الأولی، بل في ثیاب بذلة متسترة بالبرقع أو الجلباب ، غیر متعطرة ولامتزاحمة في جموع الرجال؛ فلا یجوز لهن الخروج من بیوتهن إلا عند الضرورة بقدر الضرورة مع اهتمام التستر والاحتجاب کل الاهتمام ۔ وما سوی ذلک فمحظور ممنوع"۔ (۳/۳۱۷ – ۳۱۹ ) حدیث شریف میں ہے: "عن أبي أحوص عن عبد اللّٰه عن النبي ﷺ قال : ’’ المرأة عورة، فإذا خرجت استشرفها الشیطان ‘‘ ۔ (سنن الترمذی[۱/۲۲۱ ]، رقم الحدیث :۱۱۷۳) حدیث شریف میں ہے: صحيح مسلم (2/ 1021): "«إن المرأة تقبل في صورة شيطان، وتدبر في صورة شيطان، فإذا أبصر أحدكم امرأة فليأت أهله، فإن ذلك يرد ما في نفسه»"۔ ’’کنز العمال ‘‘ میں ہے: " عن ابن عمر مرفوعاّ: ’’ لیس للنساء نصیب في الخروج إلا مضطرة ‘‘ ۔ (۱۶/۳۹۱، الفصل الأول في الترهیبات) الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3/ 146): "وحيث أبحنا لها الخروج فبشرط عدم الزينة في الكل، وتغيير الهيئة إلى ما لا يكون داعية إلى نظر الرجال واستمالتهم"۔

ویڈیوکال پرمیت کاچہرہ دکھانا

ویڈیو کالنگ میں موبائل کا جو کیمرہ استعمال ہوتا ہے ، وہ عام کیمرہ ہی کی طرح ہوتا ہے جیسے عام کیمروں میں تصویر کشی ہوتی ہے اسی طرح ویڈیو کالنگ میں بھی تصویر کشی وتصویر سازی پائی جاتی ہے اور احادیث میں تصویر کشی اور تصویر سازی پر سخت وعیدیں وارد ہوئی ہیں، لہذا موبائل وغیرہ کے کیمرہ کا رخ اپنی طرف یا کسی اور انسان یا جاندار کی طرف کرکے ویڈیو کالنگ کرنا جائز نہیں ہے، ہر مسلمان کے لیے اس سے بچنا لازم وضروری ہے ۔ لہذاویڈیو کالنگ کے ذریعے میت کا چہرہ دیکھنا جائز نہیں ہے۔ حدیث شریف میں ہے: "عن عبد الله، قال: سمعت النبي صلى الله عليه وسلم يقول: «إن أشد الناس عذاباً عند الله يوم القيامة المصورون»". (صحيح البخاري: كتاب اللباس، باب عذاب المصورين، رقم: 5950، ص: 463، ط: دار ابن الجوزي) فتاوی شامی میں ہے: "وظاهر كلام النووي في شرح مسلم: الإجماع على تحريم تصوير الحيوان، وقال: وسواء صنعه لما يمتهن أو لغيره، فصنعته حرام بكل حال؛ لأن فيه مضاهاة لخلق الله تعالى، وسواء كان في ثوب أو بساط أو درهم وإناء وحائط وغيرها اهـ". (حاشية ابن عابدين: كتاب الصلاة، مطلب: مكروهات الصلاة، 1/647، ط: سعيد) بلوغ القصدوالمرام میں ہے: "يحرم تصوير حيوان عاقل أو غيره إذا كان كامل الأعضاء، إذا كان يدوم، وكذا إن لم يدم على الراجح كتصويره من نحو قشر بطيخ. ويحرم النظر إليه؛ إذا النظر إلى المحرم لَحرام". (جواہر الفقہ، تصویر کے شرعی احکام:۷/264-265، از: .بلوغ القصد والمرام، ط: مکتبہ دار العلوم کراچی البتہ علماء عرب کے نزدیک بالاتفاق جائز ہے بشرطیکہ ممنوعات شرعیہ کا لحاظ رکھاجایے: إذا كانت هذه الأعمال التي تنشرها خالية من المخالفات الشرعية في مضمونها، وفي الصور وفي الأصوات. والتربح من الإعلانات جائز إذا كانت خالية من المحرمات، وراجع الفتاوى ذوات الأرقام التالية: 122925، 272881، 329356. وإذا كانت نيتك بهذه الأعمال رجاء الثواب من الله تعالى، وبقيت هذه النية هي الأصل الدافع للعمل، فلا يضيع الثواب ربح المال منها، وراجع الفتوى رقم: 281986.

Monday 17 October 2022

New courses in Jamia Millia Islamia University

Jamia Millia Islamia's (JMI) Centre for Innovation and Entrepreneurship (CIE) is inviting applications for admissions to three month online and offline skill-based courses. Interested candidates can apply for these courses at the official website — jmi.ac.in. Registrations for these three months long online and offline courses will begin on October 19. These courses are open and suited for professionals/, job seekers, school dropouts and university students. The university is offering a course in basics of digital marketing, which will will be an online course of a totality of 50 hours. Classes will be held for an hour from Monday to Thursday, or two hours classes on the weekend. The aspirants will be charged Rs 5000 for this course. This is the only online course the university is offering in skills-based short-term courses

Friday 30 September 2022

حضرت عبد اللہ بن مبارک رحمہ اللہ

حضرت عبداللہ بن مبارک رحمۃ اللہ علیہ زمرۂ تبع تابعین کے گلِ سرسبد ہیں، ان کی زندگی اسلام کا مکمل نمونہ اور اس کی چلتی پھرتی تصویر تھی، ان کا جذبۂ دینی اور شوقِ جہاد ان کی فیاضی اور نرم خوئی، دنیا سے بے رغبتی اور احساسِ ذمہ داری اور اس کے سوانح حیات کے جلی عنوانات ہیں، ان کے ہاتھ میں کوئی مادی طاقت نہیں تھی؛ مگرانہی اخلاقی صفات کی وجہ سے اسلامی مملکت کے ہرفرد کے دل پران کی حکمرانی تھی، ایک بار وہ رقہ آئے، پورا شہر ان کی زیارت کے لیے ٹوٹ پڑا، اتفاق سے ہارون رشید اپنے خدم وحشم کے ساتھ وہاں موجود تھا، محل سے اس کی بیوی یااس کی لونڈی یہ تماشا دیکھ رہی تھی، اس نے پوچھا کہ یہ ہجوم کیسا ہے، لوگوں نے بتایا کہ خراساں کے عالم عبداللہ بن مبارک آئے ہوئے ہیں، یہ انہی کے مشتاقانِ دید کا ہجوم ہے، اس نے بے ساختہ کہا کہ حقیقت میں خلیفۂ وقت یہ ہیں نہ کہ ہارون رشید کہ اس کے گرد پولیس اور فوج کی مدد کے بغیر کوئی مجمع نہیں ہوتا۔ نسب عبداللہ بن مبارک کے والد مبارک ایک شخص کے غلام تھے، ان کی شادی اسی کی لڑکی سے ہوئی تھی، اس وقت تک اسلامی معاشرہ میں عہد سعادت کے آثار باقی تھے، اس لی نسبت نکاح کا معیار حسب ونسب نہیں لکہ لڑکے کی صلاحیت اور اس کا دین وتقویٰ ہوتا تھا، مبارک چونکہ اس حیثیت سے ممتاز تھے، اس لی آقا نے اپنی لڑکی ان سے بیاہ دی؛ گواس کی نسبتیں دوسری بڑی بڑی جگہوں سے بھی آرہی تھیں، مبارک کی جن خصوصیات کی بناپریہ شادی ہوئی، مختصراً ہم اس کا تذکرہ کرتے ہیں: مبارک نہایت دیانت دار ومحتاط شخص تھے، آقا ان کے سپرد جوکام کرتا تھا اس کووہ نہایت دیانت داری اور اطاعت شعاری کے ساتھ انجام دیتے تھے، آقا نے باغ کی نگرانی ان کے سپرد کردی تھی، ایک بار اس نے اُن سے کہا کہ ایک ترش انار باغ سے توڑلاؤ، وہ گئے اور شیریں انار توڑلائے، اس نے دوبارہ اُن سے شیریں انار لانے کے لیے کہا تووہ پھرترش ہی انار توڑ لائے، آقا نے غصہ میں کہا؛ تمھیں ترش وشیریں انار کی بھی تمیز نہیں؟ انہوں نے کہا کہ نہیں، اس نے وجہ پوچھی توبتایا کہ آپ نے مجھے ترش انار کھانے کی اجازت تودی نہیں ہے، اس لیے میں اس کوکیسے پہچان سکتا ہوں، اس نے تحقیق کی تومعلوم ہوا کہ بات صحیح ہے، مبارک کی اس غیرمعمولی دیانتداری اور حق شناسی کا اس پربہت بڑا اثر پڑا اور وہ ان کی بہت قدرومنزلت کرنے لگا۔ مبارک کے آقا کی ایک نیک خداترس لڑکی تھی جس کی شادی کے پیغامات ہرطرف سے آرہے تھے؛ لیکن غالباً وہ ان نسبتوں میں کوئی فیصلہ نہیں کرپارہا تھا، اس نے اس بارے میں ایک روز مبارک سے بھی مشورہ کیا کہ مبارک! میں اس لڑکی کی شادی کہاں اور کس سے کروں؟ انہوں نے کہا کہ: عہدجاہلیت میں لوگ نسبت میں حسب یعنی عزت وشہرت اور نسب کوتلاش کرتے تھے، یہودیوں کومالدار کی جستجو ہوتی تھی اور عیسائی حسن وجمال کوترجیح دیتے تھے؛ لیکن اُمتِ محمدیہ کے نزدیک تومعیار دین وتقویٰ ہے، آپ جس چیز کوچاہیں ترجیح دیں، ااقا کوان کا یہ ایمان افروز اور دانشمندانہ جواب بہت پسند آیا، وہ اپنی بیوی کے پاس آیا اور اس سے کہا کہ میری لڑکی کا شوہر بننے کے لیے مبارک سے بہتر کوئی دوسرا شخص نہیں ہے، بیوی بھی نیک بخت تھیں انہوں نے بھی اس رائے کوپسند کیا اور آقا کی لڑکی سے اُن کی شادی ہوگئی حضرت عبداللہ بن مبارک اسی باسعادت لڑکی کے بطن سے سنہ۱۱۸ھ میں مرو میں پیدا ہوئے، ان کی کنیت ابوعبدالرحمن ہے، ان کا اصلی وطن مرو تھا، اس لیے وہ مروزی کہلاتے ہیں، یہ مرو جہاں ان کی ولادت ہوئی، مسلمانوں کا قدیم شہر ہے، افسوس ہے کہ یہ اس وقت روس کے قبضہ میں ہے، اس سرزمین سے جہاں اخلاق وروحانیت کے سینکڑوں چشمے اُبلے اور اسلامی علم وتمدن کے صدہاسوتے پھوٹے، اب وہاں مادیت ہی کا نہیں بلکہ دھریت کا سیلاب رواں ہے، ان کی ابتدائی تعلیم وتربیت کے متعلق بہت کم معلومات ملتے ہیں؛ لیکن امام ذہبی رحمہ اللہ کے بیان سے اتنا پتہ چلتا ہے کہ وہ ابتائے عمر ہی سے طلب علم کے لیے سفر کی صعوبتیں برداشت کرنے لگتے تھے۔ اس وقت اسلامی مملکت کے کسی قصبہ اور کسی قربیہ میں بھی علماء وفضلاء کی کمی نہیں تھی، مرو جو خراسان کا ایک مشہور شہر تھا، اس کواچھی خاصی مرکزیت حاصل تھی، اس لیے وہاں اہلِ علم کی کیا کمی ہوسکتی تھی، غالباً ابتدائی تعلیم وتربیت وہیں ہوئی، اس کے بعد اس زمانے کے عام مذاق کے مطابق علم حدیث کی طرف توجہ کی، اس کے لیے انہوں نے شام وحجاز، یمن ومصر اور کوفہ وبصرہ کے مختلف شہروں اور قصبوں کا سفر کیا اور جہاں سے جوجواہر علم ملے انہیں اپنے دامن میں سمیٹ لیئے، امام احمد فرماتے ہیں: طلب علم کے لیے عبداللہ بن مبارک سے زیادہ سفر کرنے والا ان کے زمانے میں کوئی دوسرا موجود نہیں تھا؛ انہوں نے دور دراز شہروں کا سفر کیا تھا، مثلاً: یمن، مصر، شام، کوفہ، بصرہ وغیرہ، ابواُسامہ فرماتے ہیں کہ: مارأيت رجلا أطلب للعلم في الآفاق من ابن المبارك۔ترجمہ: میں نے عبداللہ بن مبارک سے زیادہ کسی کوملک درملک گھوم کرطلب علم کرنے والا نہیں دیکھا۔ یہ سفر آج کل کا نہیں تھا کہ چند لمحوں میں انسان نہ جانے کہاں سے کہاں پہنچ جاتا ہے؛ بلکہ اس زمانے کے سفر کا ذکر ہے، جب لوگ پیدل یااونٹ یاگدہوں کے ذریعہ مہینوں میں ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچتے تھے؛ پھرراستو کی دشواریاں توالامان، الحفیظ اور یہ کچھ عبداللہ بن مبارک ہی کی خصوصیت نہ تھی؛ بلکہ سب ہی اکابر ائمہ نے حصولِ علم میں دُور دُور کی خاک چھانی تھی۔ شیوخ کی تعداد موجودہ زمانہ کی طرح اس وقت علم وفن نہ اس طرح مدون تھا اور نہ ایک جگہ محفوظ، خصوصیت سے علومِ دینیہ میں علمِ حدیث کا ذخیرہ تقریباً تمام ممالکِ اسلامیہ میں بکھرا ہوا تھا، اس کی وجہ یہ تھی کہ حدیث کے سب سے پہلے حامل صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کی زندگی گوشہ گیری کی نہیں؛ بلکہ مجاہدانہ تھی، اس لیے وہ شوقِ جہاد اور دوسری دینی ضرورتوں کی بناء پرتمام امصاروقصبات میں پھیل گئے تھے، وہ جہاں پہنچتے تھے، وہاں کے باشندے ان سے اکتساب فیض کرتے تھے اور وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے قول وعمل اور آپ کی سیرت کو ان سے معلوم کرکے اپنے سینوں اور سفینوں میں محفوظ کرتے جاتے تھے، اب جن لوگوں کوصرف عملی زندگی کے لیے حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے ذخیرہ کے معلوم کرنے کی خواہش ہوتی تھی ان کوبہت زیادہ کدوکاوش کی ضرورت نہیں تھی، ان کے لیے ان کے دربار کے صحابہ کرام اور ان کے بعدوہاں کے علماء وفضلاء کی زندگی کا دیکھ لینا بھی کافی تھا؛ مگرجولوگ اس تمام بکھرے ہوئے جواہرریزوں اور شہ پاروں کویکجا مدون اور مرتب کردینا چاہتے تھے کہ ان زندہ ہستیوں کے اُٹھ جانے کے بعد کہیں یہ ذخیرہ ضائع نہ ہوجائے، ان کے لیے دور دور کی خاک چھاننی اور شہروں اور قصبوں کے لیئے زحمتِ سفر اُٹھانی ناگزیر تھی، عبداللہ بن مبارک ان ہی بزرگوں میں تھے، خود فرماتے ہیں: حملت من اربع الاف شیخ فردیت عن الف منہم۔ ترجمہ: میں نے چار ہزار شیوخ واساتذہ سے فائدہ اُٹھایا اور ان میں سے ایک ہزار سے روایت کی ہے۔ دوسری روایت میں ہے کہہ: کتبت عن الف۔ ترجمہ: میں نے ایک ہزار شیوخ کی روایتوں کولکھ لیا ہے۔ یعنی جن لوگوں سے تحصیل علم کیا ان کی تعداد توچار ہزار ہے؛ مگرہرشیخ اس قابل نہیں ہوتا کہ اس کے علم وروایت کومعیاری قرار دیا جائے اس لیے غایت احتیاط میں صرف ایک ہزار شیوخ کی روایت کولکھنا پسند کیا اور اسی کوانہوں نے دوسروں تک منتقل کیا۔ عباس کہتے ہیں کہ ان کے آٹھ سوشیوخ سے تومجھے ملاقات کا موقع ملاہے. ان کے بعض ممتاز اساتذہ کے نام لکھے جاتے ہیں. امام ابوحنیفہ، یہ امام صاحب کے خاص شاگردوں میں ہیں، ان کوامام صاحب سے بڑی محبت اور انسیت تھی، فرماتے کہ مجھ کوجوکچھ حاصل ہوا وہ امام ابوحنیفہ اور سفیان ثوری رحمہ اللہ کی وجہ سے حاصل ہوا، ان کے الفاظ یہ ہیں: لَوْلاَأَنَّ اللهَ أَعَانَنِي بِأَبِي حَنِيْفَةَ وَسُفْيَانَ، كُنْتُ كَسَائِرِ النَّاسِ۔ ترجمہ:اگراللہ تعالیٰ امام ابوحنیفہ اور سفیان ثوری کے ذریعہ میری دستگیری نہ کرتا توعام آدمیوں کی طرح ہوتا۔ مناقب کردری میں ابن مطیع کی روایت ہے کہ میں نے ان کوامام صاحب کے پاس کتاب الرائے کی قرأت کرتے ہوئے دیکھا، ان سے اچھی قرأت کرنے والا میں نے کسی کونہیں دیکھا۔ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کی شان میں ان کے بہت سے اشعار منقول ہیں، خطیب نے ان میں سے چند اشعار نقل کئے ہیں۔ (۲)ان کے دوسرے ممتاز شیخ امام مالک رحمہ اللہ ہیں، امام مالک سے انہوں نے مؤطاکا سماع کیا تھا، موطا کے متعدد نسخے ہیں، جن میں ایک کے راوی ابن مبارک بھی ہیں، امام مالک کے مشہور شاگرد یحییٰ بن یحییٰ اندلسی امام مالک کی مجلسِ درس میں ابن مبارک کی ایک آمد کا ذکر ان الفاظ میں کرتے ہیں۔ ابن مبارک ایک بار امام مالک کی خدمت میں گئے توامام مالک مجلسِ سے اُٹھ گئے اور ان کواپنے قریب بٹھایا، اس سے پہلے امام مالک کسی کے لیے مجلس درس سے نہیں اُ,ھے تھے، جب اُن کوبٹھالیا، تب درس کا سلسلہ جاری کیا، قاری پڑھتا جاتا تھا، جب امام مالک کسی اہم مقام پرپہنچتے توابن مبارک سے دریافت فرماتے کہ اس بارے میں ااپ لوگوں یعنی اہلِ خراسان کے پاس کوئی حدیث یااثر ہوتو پیش کیجئے، عباللہ بن مبارک غایتِ احترام میں بہت آہستہ آہستہ جواب دیتے، اس کے بعد وہ وہاں سے اُٹھے اور مجلس سے باہر چلے گئے (غالباً یہ بات بھی اُستاد کے احترام کے خلاف معلوم ہوئی کہ وہ ان کی موجودگی میں کوئی جواب دیں) امام مالک رحمہ اللہ ان کے اس پاسِ ادب ولحاظ سے بہت متاثر ہوئے اور تلامذہ سے مخاطب ہوکر فرمایا کہ یہ ابنِ مبارک خراسان کے فقیہ ہیں۔ یہ واقعہ غابلاً ان کے طالب علمی کے زمانہ کا نہیں ہے؛ بلکہ اس وقت کا ہے جب ان کی شخصیت مشہور ومعروف ہوچکی تھی اور وہ ایک فقیہ اور محدث کی حیثیت سے جانے جاچکے تھے، اس لیے امام مالک ان کا اعزاز اسی حیثیت سے کررہے تھے اور وہ ایک شاگردِ رشید کی طرح ان سے پیش آرہے تھے، ان ائمہ کے علاوہ ان کے چند معروف وممتاز شیوخ کے نام یہ ہیں، جن میں متعدد کبائر تابعین ہیں۔ وفات ان کی وفات جس طرح ہوئی اس میں ہرمؤمن کے لیئے سامانِ بصیرت ہے، ان کی زندگی زہد واتقا کا مرقع تھی؛ مگران کی سب سے نمایاں خصوصصیت جہاد فی سبیل اللہ تھی، اللہ تعالیٰ کی شان دیکھئے کہ ان کی وفات بھی اسی مبارک سفر میں ہوئی، شام کے علاقہ میں جہاد کے لیے گئے ہوئے تھے کہ اثنائے سفر میں طبیعت خراب ہوئی، ستو پینے کی خواہش کی، ایک شخص نے ستو پیش کیا مگریہ شخص ہارون رشید کا درباری تھا، اس لیے اس کا ستوپینے سے انکار کردیا، وفات سے کچھ دیر پہلے آواز پھنس گئی، اس گلوبندی کی وجہ سے ان کوگمان ہوا کہ زبان سے کلمۂ شہادت نکلنا نہ رہ جائے اس لیے انہوں نے اپنے ایک شاگرد حسن بن ربیع سے کہا کہ دیکھو جب میری زبان سے کلمہ شہادت نکلے توتم اتنی بلند آواز سے دہرانا کہ میں سن لوں، جب تم ایسا کروگے تویہ کلمہ خود بخود میری زبان پرجاری ہوجائے گا، چنانچہ اسی حالت میں وہ اپنے خالق سے جاملے۔ سنہ، عمر اور مقام وفات یہ حادثۂ عظمیٰ سنہ۱۸۱ء میں مقام ہیت (یہ مقام گوحدودِ کوفہ ہی میں داخل تھا؛ مگرصحرائے شام میں واقع ہے، اس وقت اس کی حیثیت ایک قصبہ کی تھی) میں پیش آیا، وفات کے وقت عمر ۶۳/سال تھی۔ مقبولیت وفات گووطن سے سینکڑوں میل دور ہوئی تھی، عام مقبولیت کا حال یہ تھا کہ جب لوگوں کووفات کی اطلاع ملی توجنازہ پراس قدر اژدہام ہوا کہ وہاں کے حاکم کو اس واقعہ کی اطلاع دارالخلافہ بغداد بھیجنی پڑی، زندگی میں وہ ہارون سے ملنا پسند نہیں کرتے تھے؛ مگرجب اس کواس حادثہ کی اطلاع ہوئی تواس نے اپنے وزیرفضل سے کہا کہ آج لوگوں کوعام اجازت دے دو کہ ان کی تعزیت لوگ ہمارے پاس آکر کریں (مقصد یہ تھا کہ ان کی وفات پوری مملکتِ اسلامی کے لیے ایک حادثہ ہے اور میں اس وقت اس کا ذمہ دار ہوں توان کی تعزیت کا میں بھی حقدار ہوں) مگرفضل نے اس کی طرف کوئی خاص توجہ نہیں کی توہارون نے ان کے کچھ اشعار پڑھے اور اس حادثہ کی اہمیت بتلائی، راوی کا بیان ہے کہ ان کی وفات کے بعد مجھے اس آیت کا مفہوم واضح ہوا: إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ سَيَجْعَلُ لَهُمُ الرَّحْمَنُ وُدًّا۔ ] ترجمہ:جولوگ ایمان لائے اور عملِ صالح کیا ان کی محبت اللہ تعالیٰ لوگوں کے دلوں میں پیدا کردے گا۔ اکابرکے ہاں مقام سفیان ابن عیینہ مشہور محدث ہیں، انہوں نے ابن مبارک کی کچھ یوں تعریف کی :میں نے ابن مبارک کے حالا ت پر غور کیا ،اور صحابہٴ کرام کے حالات پر غور کیا تو کیا دیکھتا ہوں کہ ابن مبارک میں آپ کی صحبت ومعیت کے علاوہ تمام فضائل موجو د ہیں، صحابہٴ کرام آپ کی صحبت کی برکت سے اعلیٰ وبلند ہیں۔ ابنِ مبارک کی طرز ِزندگی دیکھ کر سفیان ابنِ عیینہ کہتے تھے کہ میری زندگی کا کم از کم ایک سال ابنِ مبارک کی طرح گذر جائے؛ حالانکہ تین دن بھی ایسے نہیں گزرسکتے ۔ امام ابو حنیفہ کے شاگرد ابن مبارک، امام ابو حنیفہ کے مشہور شاگردوں میں سے تھے اور ابو حنیفہ کے ساتھ ان کا خاص خلوص تھا۔ ان کو اعتراف تھا کہ جو کچھ مجھ کو حاصل ہوا وہ امام ابو حنیفہ اور سفیان ثوری کے فیض سے حاصل ہوا ہے۔ ان کا مشہور قول ہے کہ "اگر اللہ نے ابو حنیفہ و سفیان ثوری کے ذریعہ سے میری دستگیری نہ کی ہوتی تو میں ایک عام آدمی سے بڑھ کر نہ ہوتا۔" لیکن اس کے باوجود بعض مسائل میں ابن مبارک اپنے استاد امام ابو حنیفہ سے بڑھے ہوئے تھے. احادیث سے مضبوط دلائل ہونے کی بنا پر لا جواب کر دیتے تھے جیسے ایک دفعہ رفع یدین کے مسئلہ پر یہ کہہ کر لاجواب کر دیا إن كنت انت تطير في الأولى فأني أطير فيما سواها إن کنت انت تطیر فی الاولیٰ فانی اطیر فیما سواھا امام وکیع نے امام ابن المبارک رحمہ اللہ کے اس جواب کی بڑی تحسین و تعریف کی. حوااہ جات: کتاب السنۃ لعبداللہ بن احمد بن حنبل ، ص : 59 ، تاویل مختلف الحدیث لابن قتیبی ، ص : 66 ، سنن بیہقی ، ج : 2 ، ص :82 ، ثقات ابن حبان ، ج : 4 ، ص : 17، تاریخ خطیب ، ج : 13 ، ص :406 تصنیفات: الزهدوالرقائق الجهاد البر والصلۃ

زکات کی اہمیت

دین اسلام میں زکوٰۃ ہر مالدار صاحبِ نصاب پر فرض ہے۔زکوٰۃ کی معاشرتی حیثیت ایک مکمل اور جامع نظام کی ہے۔ اگر ہر صاحبِ نصاب زکوٰۃدینا شروع کر دے تو مسلمان معاشی طور پر خوشحال ہو سکتے ہیں اور اس قابل ہو سکتے ہیں کہ کسی غیر سے قرض کی بھیک نہ مانگیں اورزکوٰۃ ادا کرنے کی وجہ سے بحیثیت مجموعی مسلمان سود کی لعنت سے بچ سکتے ہیں۔ زکوٰۃکی فضیلت: قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے تقریباً 32 مقامات پر نماز کے ساتھ زکوٰۃکو ذکر فرمایا ہے۔ جس سے اس کی اہمیت معلوم ہو سکتی ہے۔ اور نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی کئی بے شمار احادیث میں زکوٰۃکی فضیلت ، ترغیب اور افادیت کو اجاگر کیا گیا ہے۔ معلوم یہ ہوا کہ زکوٰۃکو دین میں بہت اہمیت دی گئی ہے۔اور زکوٰۃ ادا نہ کرنے والے کو سخت عذاب کی وعید بتلائی گئی ہے۔ ایک حدیث ملاحظہ ہو ! حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ آپ علیہ السلام کا ارشاد نقل فرماتے ہیں کہ جو شخص اپنے مال کی زکوٰۃ ادا نہیں کرتا قیامت کے دن اس کا مال گنجے سانپ کی شکل میں اس کی گردن میں ڈال دیا جائے گا۔ (راوی کہتے ہیں کہ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن پاک کی آیت کا مصداق ہمیں سمجھایا اور یہ آیت تلاوت کی جس کا ترجمہ یہ ہے)اور ہرگز خیال نہ کریں ایسے لوگ جو ایسی چیز میں بخل کرتے ہیں جو اللہ نے ان کو اپنے فضل سے دی ہے کہ یہ بات کچھ ان کے لیے اچھی ہوگی بلکہ یہ بات ان کی بہت بری ہے وہ لوگ قیامت کے روز طوق پہنادیے جائیں گے اس کا جس میں انہوں نے بخل کیا تھا۔

قصة عبدالله بن المبارك رحمه الله

كان عبد الله بن المبارك يحج سنة ويغزو سنة فلما كانت السنة التى يحج فيها خرج بخمسمائة دينار الى موقف الجمال ليشترى جملا فرأى امرأة على بعض الطريق نتنف ريش بطة فتقدم اليها وسألها ماذا تفعلين؟ فقالت: يرحمك الله انا امرأة علوية ولى اربع بنات مات ابوهن من قريب وهذا اليوم الرابع ما اكلن شيئا وقد حلت لنا الميتة فأخذت هذه البطة اصلحها واحملها الى بناتى فقال عبد الله فى نفسه :( ويحك يا ابن المبارك اين انت من هذه؟ ) فأعطاها عبد الله الدنانير التى كانت معه ورجع عبد الله الى بيته ولم يحج هذه السنة وقعد فى بيته حتى انتهى الناس من مناسك الحج وعادوا الى ديارهم فخرج عبد الله يتلقى جيرانه واصحابه فصار يقول الى كل واحد منهم : ( قبل الله حجتك وشكر سعيك ) فقالوا لعبد الله : ( وانت قبل الله حجتك وشكر سعيك انا قد اجتمعنا معك فى مكان كذا وكذا) (اى اثناء تأدية مناسك الحج) واكثر الناس القول فى ذلك فبات عبد الله مفكرا فى ذلك فرأى عبد الله النبى يقول : ( يا عبد الله لا تتعجب فأنك اغثت ملهوفا فسألت الله عز وجل ان يخلق على صورتك ملكا يحج عنك )

أبوبكرالمسكى

قيل لابى بكر المسكى : انا نشم منك رائحة المسك مع الدوام فما سببه؟ فقال: والله لى سنين عديدة لم استعمل المسك ولكن سبب ذلك ان امرأة احتالت على حتى ادخلتنى دارها واغلقت دونى الابواب وراودتنى عن نفسى(اى:ارادت فعل الفاحشة معى) فتحيرت فى امرى فضاقت بى الحيل فقلت لها: ان لى حاجة الى الطهارة فأمرت جارية لها ان تمضى بى الى بيت الراحة(الحمام) ففعلت فلما دخلت الحمام اخذت الغائط والقيته على جميع جسمى ثم رجعت اليها وانا على تلك الحالة فلما رأتنى دهشت ثم امرت بأخراجى فمضيت واغتسلت فلما كان تلك الليلة رأيت فى المنام قائلا يقول لى:فعلت ما لم يفعلهاحد غيرك لاطيبن ريحك فى الدنيا والاخرة فأصبحت والمسك يفوح منى واستمر ذلك الى الان

Saturday 24 September 2022

شیئرز کی خریدوفروخت

شیئرز کی خرید وفروخت یاا سٹاک ایکسچینج کا کاروبار بنیادی طور پر جائز ہے۔ سٹاک مارکیٹ میں تین طرح سے نفع ملتا ہے جس کی وضاحت درج ذیل ہے: پہلی صورت یہ ہے کہ آپ کسی کمپنی کے حصص خرید لیں اور سال کے اختتام پر ان حصص پر کمپنی نفع دے۔ یہ نفع دینا بہرحال کمپنی پر فرض نہیں ہے، بلکہ وہ اپنی پوزیشن اور پرفارمنس دیکھ کر وہ اپنے نفع میں حصہ داروں کو شامل کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ کرتی ہے۔ اس پہلی صورت میں نفع کی شرح بینکوں کے نفع کی طرح فکسڈ یا متعین نہیں ہوتی ہے۔ سو اس میں تو کوئی قباحت نہیں۔ دوسری شکل یہ ہے کہ آپ نے ایک شرح سے حصص خریدے اور کچھ وقت کے بعد انکا ریٹ بڑھ گیا اور آپ نے وہی حصص بیچ کر نفع کمالیا، تو اس میں بھی کوئی قباحت نہیں ہے۔ کیونکہ یہ بعینہ تجارت کی ہی شکل ہے۔ یہی دو صورتیں جائز ہیں۔ تیسری شکل جو آج کل عام اور تمام امراض کی جڑ ہے، وہ سٹے بازی ہے۔ اس میں اصل لین دین کی بجائے، زبانی کلامی سودے ہوتے ہیں، اور دن بھر ہوتے ہی رہتے ہیں۔ دن کے اختتام پر بیٹھ کر حساب کر لیا جاتا ہے کہ کس نے کتنا کھویا اور کتنا پایا ہے۔ یہی صورت چھوٹے سرمایہ داروں کے لیے نقصان دہ ہے۔ اس طرح کی سودے بازی میں سارا نقصان چھوٹے سرمایہ کاروں کا ہوتا ہے۔ لہٰذا سٹاک مارکیٹ میں کاروبار کرتے وقت انتہائی محتاط رہنے کی ضرورت ہے۔ اس کے ساتھ یہ بھی ضروری ہے صرف اسی بینک یا ادارہ کے حصص خریدے جائیں جو اسلامی اصولوں پر کاروبار کرتا ہو۔ اس صورت میں نفع و نقصان دونوں کا امکان رہتا ہے۔ اگر کوئی کمپنی شراب,بینک یاسودی کاروبار کرتا ہی، تو اس میں سرمایہ کاری اور اس پر متعین منافع حاصل کرنا، سود کھانے کے مترادف ہے۔ جو کہ کسی مسلمان کے لیے کسی صورت میں بھی جائز نہیں۔ لہذااسٹاک مارکیٹ, یاشیئربازار میں درج ذیل شرائط کے ساتھ پیسہ لگاسکتے ہیں : 1۔۔ جس کمپنی یا ادارہ کے حصص (شیئرز) کی خرید وفروخت کی جارہی ہو واقعۃً وہ کمپنی یا ادارہ موجود ہو، یعنی اس کے ماتحت کوئی جائیداد، کارخانہ، مل، فیکٹری یا کوئی اور چلتا کاروبار موجود ہو، اور اگر کمپنی یا ادارہ کے تحت مذکورہ اشیاء نہ ہوں یا کمپنی یا ادارہ سرے سے موجود ہی نہ ہو ، صرف اس کا نام ہو اور اس کے شیئرز بازار میں اس لیے چھوڑے گئے ہوں کہ اس پر پہلے سے زیادہ رقم حاصل کی جائے اور منافع حاصل کیے جائیں تو ایسی کمپنی کے شیئرز کی خریدوفروخت جائز نہیں، کیوں کہ ہر شیئر کے مقابل میں جمع شدہ روپے کی رسید ہے، کوئی جائیداد یا ایسا مال نہیں جس پر منافع لے کر فروخت کیا جاسکے۔ 2۔۔ کمپنی کا کل یا کم از کم غالب سرمایہ جائز اور حلال ہو۔ الف : یعنی جس موجود کمپنی اور جاری کاروبار یا کارخانہ کے حصص (شیئرز) خریدوفروخت کیے جارہے ہوں اس کا سرمایہ جائز اور حلال ہو، رشوت، چوری،غصب، خیانت،سود، جوئے اور سٹہ پر حاصل شدہ رقم نہ ہو ، لہذا سودی ادارے جیسے بینک یا انشورنس کمپنی وغیرہ کے شیئرز کی خرید وفرخت جائز نہیں ہے۔ ب : کمپنی کے شرکاء میں سودی کاروبار کرنے والے یا کسی اور ناجائز اور حرام کاروبار کرنے والے اداروں یا افراد کی رقم شامل نہ ہو۔ 3۔۔ کمپنی یا ادارہ کا کاروبار جائز اور حلال ہو ۔ الف : یعنی کمپنی یا ادارہ کے کاروبار کے طریقہ کے درست ہونے کے ساتھ ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ کمپنی یا ادارہ کا کاروبار بھی جائز ہو، مثلاً شرعی شراکت اور شرعی مضاربت کی بنیاد پر کاروبار ہو ، اگر کاروبار ناجائز ہو گا تو اس کمپنی کے شیئرز کی خرید وفروخت جائز نہیں ہوگی۔ ب : اور کمپنی کا کاوربار حلال اور جائز اشیاء کا ہو ، مثلاً شراب، جان دار کی تصاویر ، ٹی وی، وی سی آر اور ویڈیو فلم سینما وغیرہ کے کاروبار والی کمپنیوں کے شیئرز کی خرید وفرخت بھی ناجائز ہے۔ 4۔۔ شیئرز کی خرید وفرخت میں شرائط بیع کی پابندی کرنا۔ یعنی مذکورہ کمپنی یا ادارہ کے شیئرز کی خریدوفروخت بیع وتجارت کے شرعی اصولوں کے مطابق ہو مثلاً آدمی جن شئیرز کو خرید کر بیچنا چاہتا ہے اس پر شرعی طریقہ سے قابض ہو اور دوسروں کو تسلیم اور حوالہ کرنے پر بھی قادر ہو۔ واضح رہے کہ شیئرز میں قبضہ کا حکم ثابت ہونے کے لیے صرف زبانی وعدہ کافی نہیں ہے، نام رجسٹرڈ یا الاٹ ہونا ضروری ہے، اس سے پہلے صرف زبانی وعدہ یا غیر رجسٹرڈ شیئرز کی خرید وفروخت باقاعدہ فزیکلی طور پر ڈیلیوری ملنے سے پہلے ناجائز ہے، البتہ یہ درست ہے کہ شیئرز پہلے بائع کے نام رجسٹرڈ ہوں اور بائع اس کی قیمت بھی ادا کردے اور اس کے پاس ڈیلیوری آجائے ، اس کے بعد اس کی خریدوفروخت جائز ہوگی، یا شیئرز وصول کرلیے ہیں، لیکن ابھی تک قیمت ادا نہیں کی تو اس صورت میں بھی مذکورہ شیئرز کو فروخت کرکے نفع لینا جائز ہے، کیوں کہ مبیع پر قبضہ ثابت ہے۔ 5۔۔ منافع کی کل رقم کو تمام حصہ داروں کے درمیان شیئرز کے مطابق تقسیم کرنا۔ مثلاً کمپنی میں جو منافع ہوا ہے اسے تمام حصہ داروں میں ان کے شیئرز کے مطابق تقسیم کردیا جائے، لیکن اگر کوئی کمپنی مستقبل کے ممکنہ خطرہ سے نمٹنے کے لیے منافع میں سے مثلاً ٪20 فیصد اپنے لیے مخصوص کرتی ہے اور 80 فیصد منافع کو حصہ داروں میں تقسیم کرتی ہے تو اس کمپنی کے شیئرز کی خریدوفروخت ناجائز اور حرام ہے؛ کیوں کہ یہ کمپنی شرعی شراکت کے خلاف ناجا ئز کاروبار کرتی ہے۔ (ماخوذ از جواہر الفتاوی، م؛ مفتی عبد السلام چاٹگامی صاحب، 3/258، ط؛ اسلامی کتب خانہ)