https://follow.it/amir-samdani?action=followPub

Sunday 16 June 2024

کیااللہ تعالیٰ اپنا جیسا خدا بنانے پر قادر ہے

 اللہ تعالیٰ تو جو چاہیں،جیسا چاہیں پیدا کرنے پر قادر ہیں،لیکن کسی اور ذات میں معبود اور خدا بننے کی صلاحیت ہی نہیں ہے،کیوں کہ خدا وہ ہوتا ہےجو کسی کا محتاج نہیں ہو،اور جب وہ دوسری ذات اپنی تخلیق میں اللہ تعالیٰ کی محتاج ہوئی تو اس کا خدا بننا کیسے ممکن ہوسکتاہے؟،لیکن چوں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کےحوالے سےاس خاص واقعہ کا پیش آنا معلوم نہ ہوسکاکہ کسی یہودی نے صحابہ سے سوال کیاتھا کہ کیا اللہ تعالی اپنا جیسا خدا بنانے پر قادر ہے توحضرت علی رضی اللہ عنہ نے اس کاجواب دیا کہ اللہ تعالی اس پر قادر ہے

لیکن اللہ پھر بھی خالق رہے گا اور دوسرا خدا مخلوق ہو گا،

 اس لیے اس واقعہ کو حضرت کی طرف منسوب کرکے بیان نہ کیا جائے۔

"متن العقیدۃ الطحاوية"میں ہے:

"ذلك بأنه على كل شيء قدير، وكل شيء إليه فقير، وكل أمر عليه يسير، لا يحتاج إلى شيء، ليس كمثله شيء وهو السميع البصير."

(ص:١٠،ط:دار ابن حزم)

"تفسیر الطبری"میں ہے:

"(يَخْلُقُ اللَّهُ مَا يَشَاءُ) يقول: يحدث الله ما يشاء من الخلق (إِنَّ اللَّهَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ) يقول: إن الله على إحداث ذلك وخلقه، وخلق ما يشاء من الأشياء غيره، ذو قدرة لا يتعذّر عليه شيء أراد."

(ص:٢٠٤،ج:١٩،سورۃ النور،الآیة:٤٥،ط:دار التربية والتراث)

Saturday 15 June 2024

علی مشکل کشا کہنا

 مشکل کشا اصل میں فارسی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی ہیں مشکل مسائل کو حل کرنے والا، یہ لفظ عربی زبان کے لفظ 'حل المعضلات'  کا فارسی میں ترجمہ ہے، حل المعضلات یعنی مشکل مسائل کا حل کرنے والا ، یہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کا لقب تھا؛ کیوں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے سامنے جب بھی کوئی مشکل اور پیچیدہ مقدمہ لایا جاتا تو حضرت علی  رضی اللہ عنہ اس کو نہایت آسانی سے حل فرما دیتے، لہٰذا حضرت علی رضی اللہ عنہ کے لیے یہ لفظ  اسی معنی میں استعمال کرنا صحیح ہے،  البتہ بعد میں اسی لفظ 'مشکل کشا'  کو حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ساتھ عقیدت ومحبت میں غلو کرنے والے لوگوں نے یہ سمجھ لیا یا اپنا عقیدہ بنالیا کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ ہرزمانہ میں مشکل کشائی فرماتے ہیں اور یہاں تک غلو میں بڑھے کہ جس طرح مصائب میں اللہ پاک کو پکارا جاتا ہے اسی طرح حضرت علی رضی اللہ عنہ کو پکارنے لگے اور ظاہر ہے کہ یہ عقیدہ تشبہ بالشرک بلکہ شرک ہی ہے؛ کیوں  کہ مشکل کشا، حاجت روا اور متصرف فی الامور ذات صرف اللہ تعالیٰ کی ہے۔ لہذاکسی غیر خدا (حضرت علی رضی اللہ عنہ) کے متعلق   'مشکل کشا' کا عقیدہ رکھنا  یا اس کو 'مشکل کشا' مانناناجائز اور حرام ہے۔  

قرآنِ مجید میں ہے:

"وَإِن يَمْسَسْكَ اللَّهُ بِضُرٍّ فَلَا كَاشِفَ لَهُ إِلَّا هُوَ ۖ وَإِن يُرِدْكَ بِخَيْرٍ فَلَا رَادَّ لِفَضْلِهِ ۚ يُصِيبُ بِهِ مَن يَشَاءُ مِنْ عِبَادِهِ ۚ وَهُوَ الْغَفُورُ الرَّحِيمُ." (يونس، 107)

ترجمہ: "اور اگر تم کو اللہ تعالی کوئی تکلیف پہنچادے تو بجز اس کے اور کوئی اس کا دور کرنے والا نہیں ہے اور اگر وہ تم کو کوئی راحت پہنچانا چاہے تو اس کے فضل کا کوئی ہٹانے والا نہیں وہ اپنا فضل اپنے بندوں میں سے جس پر  چاہیں مبذول فرمادیں اور وہ بڑی مغفرت بڑی رحمت والے ہیں۔"

تفسیر روح المعانی میں ہے:

"أن الناس قد أكثروا من دعاء غير الله تعالى من الأولياء الأحياء منهم والأموات وغيرهم، مثل يا سيدي فلان أغثني وليس ذلك من التوسل المباح في شيء... وقد عدّه أناس من العلماء شركا."

(‌‌ج: 3، ص: 298،297، ط: ار الكتب العلمية - بيروت)

الإحكام في تمييز الفتاوى" میں ہے:

"قولُه صلى الله عليه وسلم: "أقضاكم عليّ.

وفي حاشيته: هذا ثناء عظيم، وتزكية كريمة من رسول الله صلى الله عليه وسلم، لأفضلية معرفة علي رضي الله عنه بالقضاء وإقامة الحقوق والحدود في دين الله تعالى... وقد اشتهر أبو الحسن علي رضي الله عنه بالقضاء حتى صار يضرب به المثل في حل المعضلات وفك المغلقات، حتى قيل في كل مشكلة يستعصي حلها ويصعب كشف كنهها: "قضية ولا أبا حسن لها". يعنون أن علياً أبا الحسن رضي الله عنه وهو حلال المشكلات - قد يعجز عن حل تلك المشكلة التي عجزوا عنها لتوغلها في الصعوبة والإغلاق. ولهذا كان عمر رضي الله عنه وهو المحدث الملهم - يتعوذ من معضلة ليس لها أبو الحسن، وكان يقول؛ لولا علي لهلك عمر. ويقول: علي أقضانا."

(‌‌السؤال الرابع، ص: 47،46، ط: دار البشائر الإسلامية)




 

اولیاء اللہ سے مدد مانگنا

 اللہ کے علاوہ کسی سے مدد مانگنے کی دو صورتیں ہیں :

[۱]: اس کے بارے میں  یہ عقیدہ رکھنا کہ اس میں ذاتی طور پر قدرت و طاقت ہے کہ وہ جو چاہے کر سکتا ہے، یہ شرک اور کفر ہے، اسی طرح  کسی غیر خدا کے متعلق یہ عقیدہ رکھا جائے کہ اس کو خدا نے تمام اختیار دے دیے  ہیں اور وہ جو چاہے کرسکتا ہے، ہر قسم کی مرادیں ہر جگہ سے اس سے مانگنی چاہییں، یا اللہ تعالیٰ کی صفات میں سے کوئی صفت کسی غیر اللہ میں ماننا یہ بھی شرک ہے جو  ناجائز  اور حرام ہے۔مشکل کشا، حاجت روا اور متصرف فی الامور ذات صرف اللہ تعالیٰ کی ہے۔

[۲]: ظاہری استعانت کرنا، یعنی جو چیز عادتاً انسان کی قدرت میں ہو، اس کے بارے میں مدد مانگنا، مثلاً: روپیہ، پیسہ، کپڑا، وغیرہ دینا۔ یہ چیزیں اگر کسی سے مانگی جائیں تو یہ درست ہے۔ 

إن الناس قد أكثروا من دعاء غیر الله تعالى من الأولیاء: الأحیاء منهم والأموات، وغیرهم مثل: یا سیدي فلان أغثني! ولیس ذلك من التوسل المباح في شيء ․․․ وقد عدّه أناس من العلماء شركًا․

(روح المعاني: ۲/۱۲۸)

غیرمسلم مریض کی عیادت کرنا

 (۲) رواداری سے اظہار کے لیے غیرمسلم مریضوں کی عیادت کرنا، ان کے یہاں کسی کے انتقال پر تعزیت کرنا اسی طرح ان کی غیرمذہبی تقریبات میں شریک ہونے کی گنجائش ہے؛ لیکن خالص مذہبی پروگراموں میں شرکت کرنا بہرحال جائز نہیں ہے، حسن تدبیر سے معذرت کردینی چاہیے۔ دونوں مسئلوں کے لیے دیکھیں: امداد الفتاوی: ۴/ ۲۶۸، سوال: ۳۴۷، ۳۴۸، ۳۴۹)

پوجاکے لیے چندہ دینا

 دسہرہ اور پوجا ہندوووٴں کے خالص مذہبی تہوار ہیں، ان کے پروگراموں میں چندہ دینا کفر وشرک اور ناجائز کاموں میں تعاون کرنا ہے جو از روئے آیت کریمہ ”وَلَا تَعَاوَنُوا عَلَی الْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ“ (المائدہ) جائز نہیں ہے۔


Thursday 13 June 2024

دوا کے نسخے پر میڈیکل اسٹور سے ڈاکٹر کا کمیشن لینا

 اگر مریض کو کسی قسم کا دھوکہ نہ دیا جاتا ہو ، اور نہ ہی ڈاکٹر ناقص کارکردگی والی ادویہ تجویز کرتا ہو ، اور اس بیماری کیلئے اس سے بہتر و عمدہ اور سستی کوئی دوسری دوا بھی موجود نہ ہو ، اسی طرح متعلقہ میڈیکل اسٹور سے دوائی کی خریداری یا لیبارٹری سے ٹیسٹ وغیرہ بنسبت دوسری جگہوں کے مہنگے دام نہ ہوں ، نیز ڈاکٹر کا کسی کمپنی کی ناقص کارکردگی والی ادویہ کو پاس کرنا ، محض اپنے ذاتی کمیشن اور فوائد کی بنا پر نہ ہو ، اور دیا جانے والا کمیشن بھی طے شدہ ہو ، تو اس صورت میں کسی ڈاکٹر کا ان تینوں امور پر طے شدہ کمیشن لینا اور کمپنی، میڈیکل اسٹور یا لیبارٹری والے کا اسے کمیشن دینا بلاشبہ جائز ہے ، اس میں شرعاً کوئی قباحت نہیں

انسان اسی مٹی سے پیدا ہوتا ہے جہاں دفن ہوتاہے والی روایت

 صحیح روایات کا اہتمام کرنے والے مفسرین میں سے کسی نے بھی یہ بات نقل نہیں کی۔

تفسیر قرطبی میں اس حوالے سے دو تین روایتیں ہیں، فرماتے ہیں:
وَرَوَى أَبُو هُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: (مَا مِنْ مَوْلُودٍ إِلَّا وَقَدْ ذُرَّ عَلَيْهِ مِنْ تُرَابِ حُفْرَتِهِ) أَخْرَجَهُ أَبُو نُعَيْمٍ الْحَافِظُ فِي بَابِ ابْنِ سِيرِينَ، وَقَالَ: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ مِنْ حَدِيثِ عَوْنٍ لَمْ نَكْتُبْهُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ أَبِي عَاصِمٍ النَّبِيلِ، وَهُوَ أَحَدُ الثِّقَاتِ الْأَعْلَامِ مِنْ أَهْلِ الْبَصْرَةِ. وَقَدْ مَضَى هَذَا الْمَعْنَى مُبَيَّنًا فِي سُورَةِ (الْأَنْعَامِ)(٧) عَنِ ابْنِ مَسْعُودٍ. وَقَالَ عَطَاءٌ الْخُرَاسَانِيُّ: إِذَا وَقَعَتِ النُّطْفَةُ فِي الرَّحِمِ انْطَلَقَ الْمَلَكُ الْمُوَكَّلُ بِالرَّحِمِ فَأَخَذَ مِنْ تُرَابِ الْمَكَانِ الَّذِي يُدْفَنُ فِيهِ فَيَذُرُّهُ عَلَى النُّطْفَةِ فَيَخْلُقُ اللَّهُ النَّسَمَةَ مِنَ النُّطْفَةِ وَمِنَ التُّرَابِ، فَذَلِكَ قَوْلُهُ تَعَالَى:" مِنْها خَلَقْناكُمْ وَفِيها نُعِيدُكُمْ وَمِنْها نُخْرِجُكُمْ تارَةً أُخْرى [٢٠: ٥٥]".
قرطبی نے یہاں تین روایات کا حوالہ دیا ہے:
پہلی روایت ابی ہریرۃ:
حلیۃ الأولیاء کے حوالے سے:
حلية الأولياء وطبقات الأصفياء (2/ 280)
حدثنا القاضي محمد بن إسحاق بن إبراهيم الأهوازي قال: ثنا محمد بن نعيم، قال: ثنا أبو عاصم، قال: ثنا ابن عون، عن محمد بن سيرين، عن أبي هريرة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «ما من مولود إلا وقد ذر عليه من تراب حفرته» قال أبو عاصم: ما تجد لأبي بكر، وعمر رضي الله تعالى عنهما فضيلة مثل هذه لأن طينتهما من طينة رسول الله صلى الله عليه وسلم هذا حديث غريب من حديث ابن عون عن محمد، لم نكتبه إلا من حديث أبي عاصم النبيل عنه، وهو أحد الثقات الأعلام من أهل البصرة-
اس سند میں محمد بن إسحاق نامی راوی وضاع(حدیث گھڑنے والا) ہے۔(لسان الميزان(ج6ص553)
یہ روایت مصنف عبد الرزاق میں بھی ہے
مصنف عبد الرزاق الصنعاني (3/ 516)
6533 - عن الأسلمي قال: أخبرني نوح بن أبي بلال، عن أبي سليمان الهذلي، عن أبي هريرة قال: «ما من مولود يولد إلا بعث الله ملكا فأخذ من الأرض ترابا فجعله على مقطع سرته فكان فيه شفاؤه، وكان قبره في موضع أخذ التراب منه»
لیکن اس کی سند بھی مشکوک ہے۔

دوسری روایت عطاء الخراسانی والی:
ایک تو یہ بلاسند ہے، اگر سند ملے بھی تو عطا الخراسانی صغار تابعین میں سے ہیں، ان کی بات ایسے غیبی امور سے متعلق قابل اعتماد نہیں۔ واللہ اعلم۔
تیسری روایت ابن مسعود:
تفسير القرطبي (6/ 387)
وقد روى أبو نعيم الحافظ في كتابه عن مرة عن ابن مسعود أن الملك الموكل بالرحم يأخذ النطفة فيضعها على كفه ثم يقول: يا رب مخلقة أو غير مخلقة؟ فإن قال مخلقة قال: يا رب ما الرزق ما الأثر ما الأجل؟ فيقول: انظر في أم الكتاب فينظر في اللوح
المحفوظ فيجد فيه رزقه وأثره وأجله وعمله ويأخذ التراب الذي يدفن في بقعته ويعجن به نطفته فذلك قوله تعالى:" منها خلقناكم وفيها نعيدكم"
قرطبی نے یہ روایت امام ابو نعیم کے حوالے سے بیان کی ہے، لیکن ابو نعیم کے ہاں یہ روایت مل نہیں سکی۔

عن أبي سعيد أن النبي صلى الله عليه وسلم مر بالمدينة فرأى جماعة يحفرون قبراً فسأل عنه فقالوا‏:‏ حبشي قدم فمات‏.‏ فقال النبي صلى الله عليه وسلم‏:‏

‏"‏لا إله إلا الله سيق من أرضه وسمائه إلى التربة التي خلق منها‏"‏‏.‏

رواه البزار وفيه عبد الله والد علي بن المديني وهو ضعيف‏.‏

4227- وعن أبي الدرداء قال‏:‏ مر بنا النبي صلى الله ونحن نحفر قبراً فقال‏:‏

‏"‏ما تصنعون‏؟‏‏"‏‏.‏ فقلنا‏:‏ نحفر قبراً لهذا الأسود فقال‏:‏ ‏"‏جاءت به منيته إلى تربته‏"‏‏.‏ قال أبو أسامة تدرون‏:‏ يا أهل الكوفة لم حدثتكم بهذا الحديث‏؟‏ لأن أبا بكر وعمر خلقا من تربة رسول الله صلى الله عليه وسلم‏.‏

رواه الطبراني في الأوسط وفيه الأحوص بن حكيم وثقه العجلي وضعفه الجمهور‏.‏

4228- وعن ابن عمر أن حبشياً دفن بالمدينة فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم‏:‏

‏"‏دفن بالطينة التي خلق منها‏"‏‏.‏

رواه الطبراني في الكبير وفيه عبد الله بن عيسى الخزاز وهو ضعيف‏.‏

(مجمع الزوائد ومنبع الفوائد)


لنور الدين الهيثمي 

عصراورفجرکےبعد سجدۂ تلاوت

 ۔نماز فجر کے بعد طلوعِ آفتاب سے پہلے تک اور عصر کے بعد سورج کے زرد ہونے تک  سجدہ تلاوت کی ادائیگی درست ہے۔البتہ عین طلوع اور عین غروب کے اوقات میں سجدہ تلاوت جائز نہیں، الا یہ کہ اسی وقت آیتِ سجدہ کی تلاوت کی تو اس سجدہ تلاوت کی ادائیگی کی اجازت ہوگی۔''فتاوی ہندیہ'' میں ہے:

''( الفصل الثالث في بيان الأوقات التي لا تجوز فيها الصلاة وتكره فيها ) ثلاث ساعات لا تجوز فيها المكتوبة ولا صلاة الجنازة ولا سجدة التلاوة: إذا طلعت الشمس حتى ترتفع وعند الانتصاف إلى أن تزول وعند احمرارها إلى أن يغيب إلا عصر يومه ذلك فإنه يجوز أداؤه عند الغروب''۔(2/257)

نیز نماز فجر اور عصر کے بعد فرائض کی قضادرست ہے ،نوافل پڑھنامکروہ ہے،لہذا فرائض کی قضا کے دوران اگر سجدہ سہو لازم ہوجائے تو جس طرح قضا نماز درست ہے سجدہ سہو بھی درست ہے۔

Wednesday 12 June 2024

میاں بیوی کاجماعت سے نماز پڑھنا

 بلاعذر  مسجد میں جماعت سے نماز چھوڑ  کر گھر پر نماز پڑھنا مکروہ ہے،  اگر کبھی کسی عذر کی وجہ سے جماعت رہ جائے تو کوشش کرنی چاہیے کہ کسی قریبی مسجد میں جماعت سے ادا کرلے، بہرحال اگر کسی عذر کی وجہ سے جماعت رہ جائے تو گھر میں جماعت کی جاسکتی ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک مرتبہ صلح کرانے تشریف لے گئے تھے، واپسی پر مسجد کی جماعت نکل گئی تو آپ ﷺ نے گھر والوں کو جمع کرکے گھر میں جماعت سے نماز ادا فرمائی۔ اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے اگر جماعت چھوٹ جاتی تھی تو وہ یا انفرادی طور پر نماز ادا کرتے یا دوسری مسجد میں جاکر جماعت کی نماز میں شریک ہوجاتے تھے۔

تاہم گھر والوں کو جماعت سے نماز پڑھاتے ہوئے  بیوی کو اپنے برابر میں کھڑا نہ کرے،  بلکہ کچھ  پیچھے ہو یعنی  شوہر کے قدم سے بیوی کاقدم پیچھے ہونا چاہیے، پچھلی صف میں بھی کھڑی ہوسکتی ہے۔

لما في الشامیة:

(قوله: وخصه الزيلعي ... الخ) ... وقال: المرأة إذا صلت مع زوجها في البیت، إن کان قد مها حذاء قدم الزوج لاتجوز صلاتهما بالجماعة، و إن کان قدماها خلف قدم الزوج إلا أنها طویلة تقع رأس المرأة في السجود قبل رأس الزوج جازت صلاتهما؛ لأن العبرة للقدم". ( ج 1 ، ص 567) فقط

محاذات کامسئلہ

 مرد اور عورت کے ایک ساتھ  نماز پڑھنے سے مراد اگر یہ ہو کہ نماز پڑھتے ہوئے مرداور عورت دونوں ایک ہی ساتھ صف میں کھڑے ہوں، تو یہ مسئلہ اصطلاح میں ”محاذات“ کا مسئلہ کہلاتا ہے، اس کا شرعی حکم درج ذیل ہے:

اگر کوئی مرد کسی عورت کے دائیں بائیں یا پیچھے اس کی سیدھ میں نماز پڑھے اور وہاں درج ذیل شرائط پائی جائیں تو مرد کی نماز فاسد ہوجائے گی ، وہ شرائط یہ ہیں :

(1)   وہ عورت مشتہاۃ ہو، یعنی  ہم بستری کے قابل ہو خواہ بالغ ہو یا نہ ہو، بوڑھی ہو یا محرم، سب کا حکم یہی ہے۔

(2)  دونوں نماز میں ہوں، یعنی  ایسا نہ ہو کہ ایک نماز میں ہے اور دوسرا نماز میں نہیں ہے۔

(3)  مرد کی پنڈلی، ٹخنہ  یا بدن کا کوئی بھی عضو عورت کے کسی عضو کے مقابلہ میں آرہا ہو۔

(4)  یہ سامنا کم از کم ایک رکن (تین تسبیح پڑھنے کے بقدر) تک برقرار رہا ہو۔

(5)  یہ اشتراک مطلق نماز میں پایا جائے، یعنی نمازِ جنازہ کا یہ حکم نہیں ہے۔

(6)  دونوں کی نماز ایک ہی قسم کی ہو، یعنی  مرد وعورت دونوں ایک ہی امام کی اقتدا میں نماز پڑھ رہے ہوں۔

(7)  تحریمہ دونوں کی ایک ہو،  یعنی برابر نماز پڑھنے والی عورت نے برابر والے مرد کی اقتدا  کی ہو یا دونوں نے کسی تیسرے آدمی کی اقتدا کی ہو۔

(8)  عورت میں  نماز صحیح ہونے کی شرائط موجود ہوں،  یعنی  عورت پاگل یا حیض ونفاس کی حالت میں  نہ ہو۔

(9)   مرد وعورت کے نماز پڑھنے کی جگہ سطح کے اعتبار سے برابر ہو، یعنی اگر سطح میں آدمی کے قد کے بقدر فرق ہو، تو محاذات کا حکم نہ ہوگا۔

(10) دونوں کے درمیان کوئی حائل نہ ہو،  یعنی دونوں کے درمیان ایک انگلی کے برابر موٹی اور سترے کی مقدار اونچی کوئی چیز یا  ایک آدمی کے کھڑے ہونے کے بقدر فاصلہ نہ ہو۔

(11)  مردنے اپنے قریب آکر کھڑی ہونے والی عورت کو اشارے سے وہاں کھڑے ہونے سے منع نہ کیا ہو، اگر اشارہ کیا ہو  پھر بھی عورت  مرد کے برابر میں کھڑی رہی، تواب مرد کی نماز فاسد نہ ہوگی۔

(12) اور امام نے مرد کے برابر میں کھڑی ہوئی عورت کی امامت کی نیت بھی کی ہو۔

  اگر مذکورہ شرائط پائی جائیں تو ایک عورت کی وجہ سے تین مردوں ( دائیں بائیں جانب والے دو مردوں کی اور عورت کی سیدھ میں پیچھے ایک مرد) کی نماز فاسد  ہوجائے گی۔

فتاوی عالمگیری میں ہے:

"محاذاة المرأة الرجل مفسدة لصلاته ولها شرائط:

(منها) أن تكون المحاذية مشتهاةً تصلح للجماع ولا عبرة للسن وهو الأصح .... (ومنها) أن تكون الصلاة مطلقةً وهي التي لها ركوع وسجود.... (ومنها) أن تكون الصلاة مشتركةً تحريمةً وأداءً .... (ومنها) أن يكونا في مكان واحد...(ومنها) أن يكونا بلا حائل ... وأدنى الحائل قدر مؤخر الرحل وغلظه غلظ الأصبع والفرجة تقوم مقام الحائل وأدناه قدر ما يقوم فيه الرجل، كذا في التبيين. (ومنها) أن تكون ممن تصح منها الصلاة.... (ومنها) أن ينوي الإمام إمامتها أو إمامة النساء وقت الشروع ... (ومنها) أن تكون المحاذاة في ركن كامل.... (ومنها) أن تكون جهتهما متحدة ..... ثم المرأة الواحدة تفسد صلاة ثلاثة واحد عن يمينها وآخر عن يسارها وآخر خلفها ولا تفسد أكثر من ذلك. هكذا في التبيين.وعليه الفتوى. كذا في التتارخانية والمرأتان صلاة أربعة واحد عن يمينهما وآخر عن يسارهما واثنان خلفهما بحذائهما ،وإن كن ثلاثا أفسدت صلاة واحد عن يمينهن وآخر عن يسارهن وثلاثة خلفهن إلى آخر الصفوف وهذا جواب الظاهر. هكذا في التبيين (1/ 89، کتاب الصلاۃ، الباب الخامس فی الامامہ، الفصل  الخامس فی بیان مقام الامام والماموم، ط:رشیدیہ)

 (حاشیہ الطحطاوی علی مراقی الفلاح، ص: 329، باب مایفسد الصلاۃ، ط: قدیمی)

(شامی، 1/572، کتاب الصلاۃ ،باب الامامہ،ط: سعید

سونے چاندی کے دانت یاخول چڑھوانا

 دانتوں پر چاندی یا سونے کا خول بلا ضرورت چڑھانا مکروہ ہے، لیکن اگر ضرورت کی وجہ سے چڑھائے جائیں تو مکروہ نہیں، اور بہر صورت چڑھانے کے بعد یہ خول وضو اور غسل کے جواز پر اثر انداز نہیں ہوتے۔‘‘

(کتاب الطہارت، دوسرا باب انسان اور اس کے عوارض، فصلِ چہارم وضو غسل اور تیمم، ج:2، ص:319، ط:دار الاِشاعت)

 فتاوی محمودیہ میں ہے:

’’الجواب حامداً ومصلیاً:

اگر بغیر خول چڑھائے دانت کا قائم رہنا دشوار ہو تو چاندی کا چڑھالینا درست ہے، غسل کے وقت اس کو اتارنے سے معذوری ہو تو بغیر اتارے بھی غسل درست ہو جائے گا، نماز بھی درست ہو جائے گی۔‘‘

(کتاب الطہارت، باب الغسل، فصل اول فرائضِ غسل کے بیان میں، ج:5، ص:82، ط:ادارۃ الفاروق)

فتاوی شامی میں ہے:

"(و) لا يمنع (ما على ظفر صباغ و) لا (طعام بين أسنانه) أو في سنه المجوف به يفتى. وقيل إن صلبا منع، وهو الأصح۔"

(کتاب الطہارۃ،فرض الغسل،  ج:1، ص:154، ط:سعید)

وفيه ايضاً:

"‌الأصل ‌وجوب ‌الغسل إلا أنه سقط للحرج."

(كتاب الطہارۃ،فرض الغسل، ج:1، ص:153، ط:سعید)

وفيه ايضاً:

"(لا) يجب (غسل ما فيه حرج كعين) وإن اكتحل بكحل نجس (وثقب انضم و) لا (داخل قلفة)."

 (كتاب الطہارۃ،فرض الغسل،ج:1، ص:152، ط:سعید)



عبد المصطفیٰ نام رکھنا

 اللہ تعالی کے پسندیدہ نام ”عبد اللہ اور عبد الرحمن“ ہیں،ان ناموں کے پسندیدہ ہونے کی وجہ ان ناموں میں اللہ کے ذاتی نام ”اللہ“ اور اللہ کے صفاتی نام ”الرحمن“ کی طرف ”عبد “کی اضافت کا ہونا ہے،دراصل اللہ تعالیٰ کو اپنے بندوں کی طرف سے عبدیت کا اظہار پسند ہے اور ان ناموں کے ذریعے اظہارِ عبدیت علیٰ وجہ الکمال ہوتاہے۔ اسی وجہ سے اللہ کے علاوہ کسی اور کے نام کی طرف عبد کی اضافت کرکے نام رکھنا جائز نہیں ہے ،مثلاً: عبد الرسول، عبد النبی، عبد الحسین، عبد المصطفیٰ، عبد الحجر وغیرہ۔ 

اگر اس میں"عبد" سے مراد بندہ ہو تو یہ نام شرکیہ ہوں گے، اور اگر تاویل کی جائے  کہ عبد سے خادم وغیرہ مراد ہوں تب بھی شبہ تو موجود ہی ہے؛ لہذ ا  عبد النبی نام رکھنا درست نہیں ہے، اس کو تبدیل کرکے انبیاء کرام علیہم السلام یا صحابہ یا نیک مسلمان مردوں کے ناموں پر نام  پر رکھے جائیں یا ایسا نام رکھیں جس کے معنی اچھے ہوں

کیاایمان میں کمی زیادتی ہوتی ہے

:ایمان جو کفر کے مقابل ہے اس میں کمی زیادتی نہیں ہوتی؛ کیونکہ کمی کی صورت میں وہ شرعاً ایمان ہی نہیں کہلائے گا۔ اہل علم نے ایمان میں کمی و زیادتی کی جو بحث کی ہے اس کا تعلق اس معنی (ایمان بمقابل کفر) سے نہیں ہے؛ بلکہ ایمان کے تقاضہ کے مطابق

 احکام شرعیہ پر اخلاص کے ساتھ عمل کرنے اور تقویٰ اختیار کرنے کی وجہ سے دل میں جو نور پیدا ہو اور احکام شرعیہ کی اطاعت کرنے سے اعمال صالحہ میں روز بروز جو اضافہ ہوتا ہے اور مخالفت کرنے کی صورت میں جو گناہ کا صدور ہوتا ہے اس کو ایمان میں کمی زیادتی کہا گیا ہے۔ اور یہ صورت حال حضرات صحابہ رضی اللہ عنہم کے ایمان میں بھی پائی جاتی ہے۔ اہل علم نے اس کے علاوہ بھی دوسرے معانی بیان کئے ہیں۔

 وذہب جمہور المحققین إلی أن الإیمان ہو التصدیق بالقلب، وإنما الإقرار شرط لإجراء الأحکام في الدنیا لما أن تصدیق القلب أمر باطني لا بد لہ من علامۃ، فمن صدق بقلبہ ولم یقر بلسانہ فہو مؤمن عند اللّٰہ تعالیٰ وإن لم یکن مؤمنا في أحکام الدنیا۔ (أبو حنیفہ -رحمہ اللّٰہ- شرح الفقہ الأکبر، ”بحث في أن الإیمان ہو التصدیق والإقرار“: ص: ۳۴۱)

(أَلَّذِیْنَ قَالَ لَھُمُ النَّاسُ إِنَّ النَّاسَ قَدْ جَمَعُوْا لَکُمْ فَاخْشَوْھُمْ فَزَادَھُمْ إِیْمَانًاصلے ق وَّقَالُوْا حَسْبُنَا اللّٰہُ وَنِعْمَ الْوَکِیْلُ ہ۳۷۱) (سورۃ آل عمران، آیۃ: ۳۷۱)

قالوا: ولا تظہر المغایرۃ بین قول أصحاب الحدیث وبین سائر أہل السنۃ، لأن امتثال الأوامر واجتناب الزواجر من کمال الإیمان إتفاقاً لا من ماہیتہ فالنزاع لفظي لا علی حقیقۃ، وکذلک اختلافہم في نقصان الإیمان وزیادتہ۔ (ملا علي قاري، مرقاۃ المفاتیح، ”کتاب الإیمان: الفصل الأول“: ج ۱، ص: ۶۰۱)