https://follow.it/amir-samdani?action=followPub

Monday 22 July 2024

وکیل صدقہ کی رقم خود استعمال کرسکتا ہے کہ نہیں

 وکیل بالصدقہ اور وکیل بالزکاۃ کے لیے  صدقہ یا زکاۃ کا مال  اپنے استعمال میں لانا جائز نہیں ہے اگرچہ وہ زکاۃ  کا مستحق ہو،  لہذا مذکورہ مال قبضہ میں لینے کے بعد بھی وکیل اس کا مالک نہیں بنے گا، بلکہ اس کے ہاتھ میں یہ مال امانت رہے گا   جسے موکل کی ہدایت کے مطابق صرف کرنا لازم ہوگا، تاہم اگر موکل نے وکیل کو  مکمل اختیار دے دیا ہو اور کہہ دیا ہو کہ "جو چاہے کرو، جسے چاہے دو" اس صورت میں اگر وکیل زکاۃ کا مستحق ہو تو اپنے استعمال میں لا سکتا ہے۔

لہذا صورتِ مسئولہ میںاگر آپ کو  موکل نے مکمل اختیار نہ دیا ہو، بلکہ فلاں مدرسے میں دینے کا کہا ہو تو آپ کے لیے یہ صدقہ کا مال خود استعمال کرنا جائز نہیں ہے، بلکہ اسی مدرسہ کے دیگر طلبہ کو دینا لازم ہوگا۔

البحر الرائق شرح كنز الدقائق - (2 / 227):

"وَلِلْوَكِيلِ بِدَفْعِ الزَّكَاةِ أَنْ يَدْفَعَهَا إلَى وَلَدِ نَفْسِهِ كَبِيرًا كان أو صَغِيرًا وَإِلَى امْرَأَتِهِ إذَا كَانُوا مَحَاوِيجَ وَلَا يَجُوزُ أَنْ يُمْسِكَ لِنَفْسِهِ شيأ اه  إلَّا إذَا قال ضَعْهَا حَيْثُ شِئْتَ فَلَهُ أَنْ يُمْسِكَهَا لِنَفْسِهِ كَذَا في الْوَلْوَالِجيَّةِِ".

فتاوی شامی میں ہے:

"ولو خلط زكاة موكليه ضمن وكان متبرعًا إلا إذا وكله الفقراء وللوكيل أن يدفع لولده الفقير وزوجته لا لنفسه إلا إذا قال: ربها ضعها حيث شئت.

(قوله: إذا وكله الفقراء)؛ لأنه كلما قبض شيئًا ملكوه وصار خالطًا مالهم بعضه ببعض ووقع زكاة عن الدافع".

(2/ 269، کتاب الزکوٰۃ، ط: سعید)

ملازم کو زکوٰۃ دینا

  ملازمین میں سے جو مستحقِ زکات ہیں یعنی وہ بنی ہاشم (سید وں یا عباسیوں وغیرہ) میں سے نہ ہوں اور نہ ہی ان کے پاس ساڑھے باون تولہ چاندی یا اس کی قیمت کے مساوی نقدی یا اس مالیت کے برابر ضرورت  اور استعمال سے زائد سامان موجود ہو تو  اس صورت میں ان کو زکات دی جا سکتی ہے۔

ملحوظ رہے کہ زکات کی ادائیگی  صرف مسلمان مستحقین کو  کی جاسکتی ہے ، لہذا غیر مسلم ملازمین کو  زکات نہیں دی جا سکتی۔

  نیز  زکات کی ادائیگی صحیح ہونے کے لیے مستحق کو  زکات دیے جانے کا بتانا ضروری نہیں، البتہ دینے والی کی نیت شرط ہے،  کام لینے کے بعد تنخواہ میں زکات دینے سے زکات ادا نہ ہوگی،ہاں مقررہ تنخواہ الگ سے دی جائے اور زکات کی رقم اضافی دی جائے تو زکات ادا ہوجائے گی۔ اسی طرح  کام  لیے بغیر  ملازم کو   زکات دینے سے  زکات ادا ہوجائے گی، لیکن اس صورت میں بھی ضروری ہے کہ معاہدہ  کے مطابق  مقررہ تنخواہ الگ دی جائے، زکات کی رقم کو تنخواہ کا نام دینے سے بھی  زکات ادا نہ ہوگی۔

خلاصہ یہ ہے  زکات دیتے وقت چوں کہ زکات کی صراحت کرنا ضروری نہیں ہے؛ اس لیے اگر ادارے یا کمپنی  کا سربراہ ملازمین کو زکات کی رقم دینا چاہے تو  تعاون یا مدد یا ہدیہ کے نام سے دے سکتاہے، لیکن اسے تنخواہ کا عنوان دینا یا حصہ بنانا جائز نہیں ہوگا

پاگل کو زکوٰۃ دینا

 پاگل/مجنون  مستحقِ زکات شخص  کو  برائے راست زکات دینا جائز نہیں ہے اور نہ ہی اسے  زکات دینے سے زکات ادا  ہوگی،  البتہ  پاگل، مجنون مستحقِ زکات ہونے کی صورت میں اگر  اس کا  ولی/ سرپرست اس کی طرف سے قبضہ کرلے تو زکات ادا  ہوجائے گی۔

بدائع الصنائع میں ہے:

"و كذا لو دفع زكاة ماله إلى صبي فقير أو مجنون فقير وقبض له وليه أبوه أو جده أو وصيهما جاز ؛ لأن الولي يملك قبض الصدقة عنه.و كذا لو قبض عنه بعض أقاربه و ليس ثمة أقرب منه و هو في عياله يجوز."

(ج: 4، صفحہ: 111، ط: دار الكتب العلمية - بيروت - لبنان)

فتاوی شامی میں ہے:

"و التملكيك إشارة إلى أنه لايصرف إلى مجنون وصبي غير مراهق إلا إذا قبض لهما من يجوز له قبضة كالأب والوصي وغيرهما ويصرف إلى مراهق يعقل الأخذ."

(ج:2، ص344، ط: سعيد)

مقروض مستحق زکوٰۃ ہوتو کیا قرض زکوٰۃ کی مد میں معاف کیا جاسکتا ہے

 پہلے سے چڑھے قرضہ کو مقروض پر سے زکاۃ  کی مد میں کاٹ لینے سے زکاۃ  ادا نہیں ہوگی؛ کیوں کہ زکاۃ کی ادائیگی کے وقت یا زکاۃ میں دیے جانے والے مال کو جدا کرتے وقت زکاۃ کی نیت کرنا ضروری ہے، کوئی مال کسی کو دینے کے بعد نیت کا اعتبار نہیں ہے۔ البتہ مذکورہ صورت میں زکاۃ کی ادائیگی کی دو جائز صورتیں ہیں:

1- اگر مقروض واقعۃً بہت مستحق ہے تو اسے زکاۃ  کی رقم کا مالک بنائیں اور  جب رقم اس کی ملکیت میں چلی جائے، تو اس سے اپنے قرضہ وصول کر لیں۔اس طرح دینے والے کی زکاۃ  بھی ادا ہوجائے گی، اور مقروض کا قرض بھی ادا ہوجائے گا۔

2- زیادہ بہتر صورت یہ ہوگی کہ مقروض، قرض کے برابر رقم کسی تیسرے شخص سے ادہار لے کر  قرض خواہ کو اپنا قرض ادا کرے، قرض خواہ  قرض  وصول کرنے کے بعد وہی رقم اپنی زکاۃ کی مد میں سابقہ مقروض کو ادا کردے، پھر یہ مقروض اس تیسرے شخص کو اس کی رقم لوٹا دے جس سے اس نے عارضی طور پر ادہار لیا تھا۔ اس طرح اولاً  قرض خواہ کا قرض وصول ہوجائے گا، لیکن مقروض پھر بھی مقروض اور مستحقِ زکاۃ رہے گا، پھر قرض خواہ جب اسے اپنی زکاۃ ادا کرے گا تو اس کی زکاۃ ادا ہوجائے گی اور قرض خواہ کے پاس اپنی زکاۃ میں دی گئی رقم کا کوئی حصہ واپس اپنی ملکیت میں بھی نہیں آئے گا، اور آخر میں مقروض کا قرض بھی ادا ہوجائے گا۔ ف

نابالغ كو زكاة دينا

 اگر کسی غریب آدمی کا نابالغ بچہ سمجھ دار ہو اور زکوٰۃ کی رقم کو اپنے قبضے میں لینا جانتا ہو، زکوٰۃ کا مستحق ہو (یعنی سید بھی نہ ہو اور اس کی ملکیت میں نصاب کے بقدر مال یا ضرورت سے زائد اتنا سامان نہ ہو) تو اسے زکوٰۃ کی رقم دینا درست ہے۔ اور اگر نابالغ بچہ ناسمجھ ہو، مال پر قبضہ کرنا نہ جانتا ہو یا والد مال دار ہو اور بچے کا خرچہ خود اٹھاتا ہو تو اس صورت میں ایسے بچے کو زکوٰۃ کی رقم دینا جائز نہ ہوگا۔

الدر المختار شرح تنوير الأبصار في فقه مذهب الإمام أبي حنيفة - (2 / 356):

"دفع الزكاة إلى صبيان أقاربه برسم عيد أو إلى مبشر أو مهدي الباكورة جاز."

وفي الرد:

"(قوله: إلى صبيان أقاربه) أي العقلاء وإلا فلايصح إلا بالدفع إلى ولي الصغير."

فقیر زکوٰۃ میں ملنے والی چیزیں دوسروں دے سکتاہے کہ نہیں

 جب زکات کسی غریب کو دی جاتی ہے وہ اس  کا مالک  ہوجاتا ہے ، اس لیے وہ جس شرعی مصرف میں خرچ  کرنا چاہیے خرچ کرسکتا ہے ، لہذا   زکات  کے مد میں کسی فقیر  کو  آٹا مل جائے  اور وہ فقیر اس آٹے کو کسی اور کو  پیسوں کے بدلے دےدے  یا بلاعوض بھی دیدےتو  آٹا لینے والے کے لیے  اس کا استعمال کرنا جائز ہے۔

فتاوی شامی میں ہے:

"وهل له أن يخالف أمره؟ لم أره والظاهر نعم..(قوله: والظاهر نعم) البحث لصاحب النهر وقال؛ لأنه مقتضى صحة التمليك قال الرحمتي: والظاهر أنه لا شبهة فيه؛ لأن ملكه إياه عن زكاة ماله."

(كتاب الزكوة، باب مصرف الزكاة والعشر، ج:2، ص:345، ط:سعيد)

فتح القدیر شرح الہدایہ میں ہے:

"(قوله وما أدى المكاتب من الصدقات إلى مولاه ثم عجز فهو طيب للولي لتبدل الملك) وتبدل الملك بمنزلة تبدل العين في الشريعة، كذا في الكافي وعامة الشروح. فإن قيل: إن ملك   الرقبة كان للمولى فكيف يتحقق تبدل الملك؟ قلنا: ملك الرقبة للمولى كان مغلوبا في مقابلة ملك اليد للمكاتب، حتى كان للمكاتب أن يمنع المولى عن التصرف في ملكه، ولم يكن للمولى أن يمنع المكاتب عن التصرف في ملكه، ثم بالعجز ينعكس الأمر، وليس هذا إلا بتبدل الملك للمولى كذا قال جمهور الشراح...لأنه لا خبث في نفس الصدقة، وإنما الخبث في فعل الآخذ لكونه إذلالا به...والفقير إذا استغنى وقد بقي في أيديهما ما أخذا من الصدقة فإنه يطيب لهما."

(كتاب المكاتب،‌‌ باب موت المكاتب وعجزه وموت المولى ، ج:9، ص:214،

غیرمسلم کو زکوٰۃ دینا

 زکوۃ کے صحیح ہونے کے لیے شرط یہ ہے کہ وہ شخص(جس کو زکاۃ دی جارہی ہو) مسلمان ہو، اور زکوۃ کا مستحق ہو ،لہذا غیر مسلم کو زکوٰۃ  کی رقم دینے سے زکوٰۃ ادا نہیں ہوگی، البتہ   غیر مسلم اگر ضرورت مند ہوتو نفلی صدقات وغیرہ سے  اس  کی مدد کی جاسکتی ہے۔

فتاوی عالمگیری میں ہے:

"أما تفسيرها (الزکاۃ) فهي تمليك المال من فقير مسلم غير هاشمي، ولا مولاه بشرط قطع المنفعة عن المملك من كل وجه لله تعالى."

(کتاب الزکاۃ ، ج:1، ص:170، ط:دارالفکر بیروت)

الدر مع الرد میں ہے:

"(من مسلم فقير) ولو معتوها (غير هاشمي ولا مولاه) أي معتقه(قوله: من مسلم إلخ) متعلق بتمليك، واحترز بجميع ما ذكر عن الكافر والغني والهاشمي ومولاه والمراد عند العلم بحالهم."

(كتاب الزكوة، ج:2، ص:258، ط:سعيد)

الہدایۃ مع فتح القدیر میں ہے:

"(ولا يجوز أنه يدفع الزكاة إلى ذمي) «لقوله - عليه الصلاة والسلام - لمعاذ - رضي الله عنه - خذها من أغنيائهم وردها في فقرائهم» . قال (ويدفع ما سوى ذلك من الصدقة)(قوله لقوله - صلى الله عليه وسلم - لمعاذ إلخ) رواه أصحاب الكتب الستة من حديث ابن عباس قال: قال - عليه الصلاة والسلام - «إنك ستأتي قوما أهل كتاب، فادعهم إلى شهادة أن لا إله إلا الله وأني رسول الله، فإن هم أطاعوا لذلك فأعلمهم أن الله افترض عليهم خمس صلوات في كل يوم وليلة، فإن هم أطاعوا لذلك فأعلمهم أن الله افترض عليهم صدقة تؤخذ من أغنيائهم فترد على فقرائهم، فإن هم أطاعوا لذلك فإياك وكرائم أموالهم واتق دعوة المظلوم فإنه ليس بينها وبين الله حجاب» ،(قوله ويدفع لهم) أي لأهل الذمة (ما سوى ذلك) كصدقة الفطر والكفارات، ولا يدفع ذلك لحربي ومستأمن، فقراء المسلمين أحب."

(كتاب الزكوة، ج:2، ص:266، ط:دار الفکر)

کسی اور کے لیے زکوٰۃ لے کر خود استعمال کرنا

 جب زید نے کسی اور کے لیے عمر سے  زکات کی رقم لی ہے تو زید کے لیے اس سے اپنا قرض ادا کرنا ناجائز ہے، اگر چہ زید مستحقِ زکات کیوں نہ ہو ! البتہ اگر عمر نے دیتے وقت یہ کہا ہو کہ "جیسے چاہو خرچ کرو" تو زید کے لیے اس رقم سے اپنا قرض اتارنے کی اجازت ہوگی۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2/ 269):
"وللوكيل أن يدفع لولده الفقير وزوجته لا لنفسه إلا إذا قال: ربها ضعها حيث شئت"

زکوٰۃ کی رقم سے مریض کو دواء دلاناوعلاج کرانا

 زکوٰۃ کی ادائیگی کے لیے مستحق ِ زکوٰۃ  شخص  (یعنی  ایسا  غریب آدمی  جو نصاب  کے بقدر رقم یا ضرورت و استعمال سے زائد اتنے سامان کا  مالک نہ ہو  اور  نہ ہی سید، ہاشمی اور عباسی ہو )  کو بغیر عوض کے مالک بنانا  ضروری ہے، مستحق زکوٰۃ شخص کو  مالک بنائے  بغیر  زکوۃ ادا نہیں ہوتی، لہذا  صورتِ مسئولہ میں زکاۃ کی رقم سے کسی مریض کو مالک بنائے بغیراس کا  علاج کروانا جائز نہیں ہے،تاہم زکاۃ کی رقم سے دوائی وغیرہ خرید کر مریض کو دینا یا مستحق کو رقم کا مالک بنانے کے بعد اس رقم  سے علاج کروانا جائز ہوگا۔

بدائع الصنائع میں ہے:

"وكذلك إذا اشترى بالزكاة طعاما فأطعم الفقراء غداء وعشاء ولم يدفع عين الطعام إليهم لا يجوز لعدم التمليك."

(كتاب الزكاة،فصل في ركن الزكاة، ج:2، ص:39، ط: دار الكتب العلمية)

البحر الرائق میں ہے:

"لو أطعم يتيما بنيتها لا يجزئه لعدم التمليك إلا إذا دفع له الطعام كالكسوة."

(كتاب الزكاة،باب مصرف الزكاة،بناء المسجد وتكفين ميت وقضاء دينه وشراء قن من الزكاة، ج:2، ص:261، ط: دار الكتاب الاسلامي)

حاشیۃ الطحطاوی علی مراقی الفلاح میں ہے:

"وأخرج بالتمليك الإباحة فلا تكفي فيها فلو ‌أطعم يتيما ناويا به الزكاة لا تجزيه إلا إذا دفع إليه المطعوم كما لو كساه بشرط أن يعقل القبض."

(كتاب الزكاة، ص:713، ط: دار الكتب العلمية بيروت )

زكات وعشر جمع كرنے والوں کو زکوٰۃ کی رقم سے تنخواہ دینا

 عاملینِ صدقہ وہ لوگ کہلاتے ہیں جو اسلامی حکومت کی طرف سے زکات اور عشر جمع کرنے پر مامور ہوں۔  ان لوگوں  کو اسلامی حکومت  زکات کی مد سے تنحواہ (یعنی بقدر محنت اجرت)  دے سکتی ہے، کیونکہ اسلامی حکومت میں امیرالمؤمنین فقراء کا وکیل ہوتا ہے۔لیکن ہندوستان میں   اسلامی حکومت نہیں ہے اس لئے  مدارس ، انجمنوں اور ٹرسٹوں کی طرف سے زکات اور عشر کو جمع کرنے والے لوگوں  کو زکات مد سے  تنخواہ اور مزدوری دینا جائز نہیں۔

بدائع الصنائع ميں ہے:

"وأما العاملون عليها فهم الذين نصبهم الإمام لجباية الصدقات واختلف فيما يعطون، قال أصحابنا: يعطيهم الإمام كفايتهم منها.............ولنا أن ما يستحقه العامل إنما يستحقه بطريق العمالة لا بطريق الزكاة بدليل أنه يعطي وإن كان غنيا بالإجماع ولو كان ذلك صدقة لما حلت للغني وبدليل أنه لو حمل زكاته بنفسه إلى الإمام لا يستحق العامل منها شيئا ولهذا قال أصحابنا أن حق العامل فيما في يده من الصدقات حتى لو هلك ما في يده سقط حقه كنفقة المضارب إنها تكون في مال المضاربة حتى لو هلك مال المضاربة سقطت نفقته كذا هذا دل أنه إنما يستحق بعمله لكن على سبيل الكفاية له ولأعوانه لا على سبيل الأجرة لأن الأجرة مجهولة أما عندنا فظاهر لأن قدر الكفاية له ولأعوانه غير معلوم."

(بدائع الصنائع: كتاب الزكاة،  فصل وأما الذي يرجع إلى المؤدى إليه فأنواع (2/ 44)،ط. دار الكتاب العربي،سنة النشر 1982)

Sunday 21 July 2024

ایمازون سے کاروبار اور کمیشن

 ایمازون ویب سائٹ پر فروخت ہونے والی جائز  اشیاء کی قیمتوں میں سے مخصوص تناسب کے عوض  تشہیری اور ترویجی مہم میں حصہ لینا جائز ہےاور اس پر فیصد کے اعتبار سے کمیشن مقرر کرکے کمیشن لینے میں کوئی مضائقہ نہیں،شرعاً یہ  کام دلالی کے حکم میں ہے،جس کی اجرت لینا جائز ہے۔

البتہ  یہ ضروری ہے کہ  اس میں شرعًا کوئی ایسا مانع نہ ہو جس کی وجہ سے اصلاً بیع ہی ناجائز ہوجائے جیسے مبیع کاحرام ہونا،لہذا صرف ان ہی مصنوعات کی تشہیر کی جائے جو اسلامی نقطہ نظر سے حلال ہو ں، جوچیزیں  شرعاًحرام ہیں ان کی تشہیر کرکے پیسہ کمانا جائز نہیں ہے۔اسی طرح جس کمپنی کی مصنوعات  کی  تشہیر کرنا ہو اس  کمپنی کی طرف سےمصنوعات کے حقیقی  اوصاف، قیمت  وغیرہ  واضح طور پر درج ہو۔ سامان نہ ملنے یا غبن ہوجانے کی صورت میں مصنوعات خریدنے کے لئےجمع کی گئی رقم کی  واپسی کی ضمانت دی گئی ہو۔

مزید یہ کہ آڈر کرنے کے بعد مقررہ تاریخ تک مصنوعات نہ ملنے پر یا زیادہ تاخیر ہونے کی صورت میں کسٹمر کو  آڈر کینسل کرنے کا بھی اختیارہو۔ نیز آن لائن تجارت کرنے والےایسے ادارے اور  افراد  بھی ہیں جن کے یہاں مصنوعات موجود نہیں ہوتیں، محض اشتہار ات ہوتے ہیں اس لئے اس بات کو بھی یقینی بنایا جائے کہ اس کمپنی کے پاس مصنوعات کا حقیقی وجود ہے۔

مذکورہ تفصیل کے بعد اگر ایمازون ایفلیٹ  مارکیٹنگ میں درج بالا شرائط کا مکمل لحاظ رکھا جاۓ تو شرعاً یہ کام اور اس سے حاصل شدہ کمائی جائز ہوگی ،بصورتِ  دیگر اگر ان شرائط میں سے کوئی شرط بھی نہ پائی جاۓ گی تو مذکورہ کام ناجائز ہوگا، صورتِ مسئولہ میں چوں کہ سوال میں ذکر کردہ تشہیر  غیر شرعی  امور مثلاً موسیقی اور خواتین وغیرہ کی تصویر اور ویڈیو پر مشتمل  ہے اس لیے مذکورہ طریقے سے کمائی کرنا شرعاً جائز نہیں ،ایسی صورت میں حاصل شدہ تمام آمدنی کو صدقہ کرنا لازم ہے۔

فتاوی شامی میں ہے:

    "وأما الدلال فإن باع العين بنفسه بإذن ربها فأجرته على البائع وإن سعى بينهما وباع المالك بنفسه يعتبر العرف وتمامه في شرح الوهبانية".

(قوله: فأجرته على البائع) وليس له أخذ شيء من المشتري؛ لأنه هو العاقد حقيقة شرح الوهبانية وظاهره أنه لا يعتبر العرف هنا؛ لأنه لا وجه له. (قوله: يعتبر العرف) فتجب الدلالة على البائع أو المشتري أو عليهما بحسب العرف جامع الفصولين."

(کتاب البیوع ج:4 ص: 560ط: سعید

ڈراپ شپنگ جائزہے کہ نہیں

 ڈراپ شپنگ کے کام کا عام طور  پر طریقہ یہ ہے کہ بائع اپنی مصنوعات کی تصاویر اور تمام تفصیلات اپنی ویب سائٹ پر یا اپنے پیج پر ظاہر کردیتا ہے، ویب سائٹ یا پیج دیکھنے والا اشیاء  کو دیکھ کراپنی پسند کردہ شے (چیز) پر کلک کرکےاس چیز کو خریدنے کا اظہار کرتا ہے،اب اگر ڈراپ شپنگ کرنے والے کے پاس وہ چیز موجود ہے، تو اس کا بیچنا درست ہے، اور اگر وہ چیز اس کے پاس موجود نہیں بل کہ کسی اور سے دلوائے گا تو ڈراپ شپنگ کرنے والا حتمی سودا نہ کرے بل کہ وعدہ کر لے پھر وہ چیز اپنے پاس منگوا کر پہلے اس پر خود قبضہ کرے یا پھر اپنے وکیل کے ذریعہ قبضہ کرے،اور پھر اس خریدار کی طرف پارسل کر دے، جب خریدار پارسل قبول کرکے رقم کی ادائیگی کرے گا اس وقت بیع ( سودا) ہو جائے گا، نیز اگر ڈراپ شپنگ کرنے والے نے خود اس چیز پر قبضہ نہیں کیا یا وکیل کے ذریعہ قبضہ نہ کیا  اور دوسرے سے لے کر اسی کے ذریعے خریدار تک وہ چیز پہنچا دی تو یہ بیع فاسد ہوگی اور نفع حلال نہیں ہوگا۔

سنن ترمذی میں ہے:

"عن حكيم بن حزام قال: أتيت رسول الله صلى الله عليه وسلم فقلت: يأتيني الرجل يسألني من البيع ما ليس عندي، أبتاع له من السوق، ثم أبيعه؟ قال: ‌لا ‌تبع ‌ما ‌ليس ‌عندك."

(أبواب البيوع، باب ما جاء في كراهية بيع ما ليس عندك، ج:2، ص: 525، ط: دار الغرب الإسلامي بيروت)

بدائع الصنائع میں ہے:

"(ومنها) وهو شرط انعقاد البيع للبائع أن يكون مملوكا للبائع عند البيع فإن لم يكن لا ينعقد، وإن ملكه بعد ذلك بوجه من الوجوه إلا السلم خاصة، وهذا بيع ما ليس عنده «، ونهى رسول الله - صلى الله عليه وسلم - عن بيع ما ليس عند الإنسان، ورخص في السلم."

(کتاب البیوع، ج:5، ص:147، ط: دار الکتب العلمیة)

فتح القدیر میں ہے:

"(قوله: و من اشترى شيئًا مما ينقل ويحول لم يجز له بيعه حتى يقبضه) إنما اقتصر على البيع ولم يقل إنه يتصرف فيه لتكون اتفاقية، فإن محمدا يجيز الهبة والصدقة به قبل القبض ... أخرج النسائي أيضا في سننه الكبرى عن يعلى بن حكيم عن يوسف بن ماهك عن عبد الله بن عصمة عن حكيم بن حزام قال: قلت يا رسول الله إني رجل أبتاع هذه البيوع وأبيعها فما يحل لي منها وما يحرم؟ قال: لا تبيعن شيئا حتى تقبضه  ورواه أحمد في مسنده وابن حبان."

(کتاب البیوع، باب المرابحة و التولیة، ج:6، ص:511، ط: دار الفکر

فون اور انٹرنیٹ کے ذریعے خریداری

 ٹیلی فون  اور انٹرنیٹ کے ذریعہ  خرید و فروخت  میں اگر خریدوفروخت کی  تمام  شرائط  کی رعایت رکھی جاتی ہو، تو اس کے ذریعے خرید و فروخت جائز ہوگی، مثلاً: مبیع(بیچی جانے والی چیز) اور ثمن (قیمت) کی مکمل تفصیلات بتائی جائیں، جس سے ہر قسم کی جہالت مرتفع ہوجائے، اور کوئی بھی شرط فاسد نہ لگائی گئی ہو وغیرہ ۔

 چنانچہ   اگر مبیع بائع کی ملکیت میں موجود ہو اور خریدنے والا فون کرکے یا موبائل کے ایپ کے ذریعے آرڈر دے کر  بائع  مشتری کو اس مال کی   تصویر دکھلا کر اس  پر فروخت کر دے اور مشتری سے قیمت وصول کرلی جائے تو یہ بیع درست ہوگی۔ 

باقی  سائل کس قسم کی آن لائن خرید و فروخت   کرنا چاہتا ہے ، اس کی تفصیل لکھ کر بھیج دے،ان شاء اللہ اس کے شرعی حکم کے متعلق راہ نمائی کر دی جائے گی۔

صحیح مسلم میں ہے:

"عن ابن عباس، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال:  من ابتاع طعاماً فلايبعه حتى يستوفيه ، قال ابن عباس: وأحسب كل شيء مثله."

(کتاب البیوع، باب بطلان بیع المبیع قبل القبض، ج:3، ص:1159، ط:دار إحیاءالتراث العربي)

بدائع الصنائع فی ترتیب الشرائع میں ہے:

"وأما الذي يرجع إلى المعقود عليه فأنواع (منها) : أن يكون موجودا فلا ينعقد بيع المعدوم."

(کتاب البیوع، فصل في الشرط الذي يرجع إلى المعقود عليه، ج:5ص:138،ط:دار الكتب العلمية)