https://follow.it/amir-samdani?action=followPub

Tuesday 23 July 2024

غریب بیٹے کو زکوٰۃ دینا

 والد کے لیے اپنی زکات اپنے بیٹے کو دینا جائز نہیں ہے۔

الفتاوى الهندية (1 / 188):

"و لايدفع إلى أصله، وإن علا، وفرعه، وإن سفل كذا في الكافي."

زکوٰۃ کے مصارف

  زکاۃ  کے مصارف سات ہیں:  فقیر، مسکین، عامل ، رقاب، غارم، فی سبیل اللہ اور ابن السبیل۔

1۔۔ فقیر وہ شخص ہے جس کے پاس کچھ  مال ہے، مگر اتنا نہیں کہ نصاب کو پہنچ جائے۔

مستحق زکوٰۃ کے  صاحبِ  نصاب نہ ہونے کا مطلب یہ ہے کہ ایسا مسلمان شخص  جو  غریب اور ضروت مند ہو  اور اس کی ملکیت میں اس کی ضرورتِ  اصلیہ سے زائد   ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت کے برابر  رقم نہ ہو ، اور نہ ہی  اس  قدر ضرورت و استعمال سے زائد  سامان ہو کہ جس کی مالیت نصاب (ساڑھے باون تولہ چاندی کی مالیت) کے برابر بنتی ہے اور نہ  ہی  وہ سید  ، ہاشمی ہے تو اس شخص کے لیے زکاۃ لینا جائز ہے، اور اس کو زکاۃ دینے سے زکاۃ ادا ہوجائے گی۔ اگر کسی شخص کے  پاس ساڑھے باون تولہ چاندی  یا  اس کے برابررقم ہو، یا ساڑھے سات تولہ سونا ہو، یا ضرورت سے زائد سامان ساڑھے باون تولہ چاندی کی مالیت کے برابر ہو، یا ان میں بعض کا مجموعہ ساڑھے باون تولہ چاندی کی مالیت کے برابر ہو تو اس کو زکاۃ دینا اور اس کے لیے زکاۃ لینا جائز نہیں ہے۔

2۔ مسکین وہ شخص ہے جس کے پاس کچھ نہ ہو، یہاں تک کہ وہ کھانے اور بدن چھپانے کے لیے بھی لوگوں سے سوال کا محتاج ہو۔

3۔  عامل وہ ہے جسے بادشاہِ اسلام نے زکاۃ اور عشر وصول کرنے کے لیے مقرر کیا ہو، اس کو بھی زکاۃ دی جا سکتی ہے۔

4۔ رِقاب  سے مراد ہے غلامی سے گردن رہا کرانا، لیکن اب نہ غلام ہیں اور نہ اس مدّ میں اس رقم کے صرف کرنے کی نوبت آتی ہے۔

5۔ غارم سے مراد مدیون (مقروض) ہے یعنی اس پر اتنا قرض ہو کہ اسے نکالنے کے بعد نصاب باقی نہ رہے۔

6۔ فی سبیل اللہ کے معنی ہیں راہِ خدا میں خرچ کرنا، اس کی چند صورتیں ہیں مثلاً کوئی شخص محتاج ہے کہ جہاد میں جانا چاہتا ہے اور اس کے پاس رقم نہیں تو اس کو  زکاۃ دے سکتے ہیں۔

7 ۔ابن السبیل سے مراد مسافر ہے، مسافر کے پاس اگر مال ختم ہو جائے   تو اس کو بھی زکاۃ  کی رقم دی جا سکتی ہے اگرچہ اس کے پاس اس کے اپنے وطن میں مال موجود ہو، لیکن وطن سے مال منگوانے کی کوئی صورت نہ ہو

مؤلفۃ القلوب(صحیح قول کے مطابق)  وہ  نومسلم  اور ضعیف الاسلام فقراء  کو کہا جاتا ہے،  جن کو   ابتدائے اسلام میں دل جوئی اور اسلام پر پختہ کرنے کے لیے زکوٰۃ دی جاتی تھی؛ کیوں کہ اسلام کا شجرہ طیبہ اس وقت ابتدائی مراحل میں تھا، اور قوت کی ضرورت تھی، لیکن جب اللہ تعالی نے اسلام کو قوت اور غلبہ عطا فرمایا تو یہ مصرف باجماع صحابہ رضوان اللہ تعالی علیھم اجمعین  منسوخ ہوا، اب یہ مصرف باقی نہیں رہا  اور نہ ہی اس میں زکوٰۃ کی رقم صرف کی جاسکتی ہے۔


Monday 22 July 2024

دوران سفر ٹرین میں نماز ادا کرنے کاطریقہ

 ٹرین میں فرض واجب سنت اور نفل نماز پڑھنا جائز ہے، خواہ کوئی عذر ہو یا نہ ہو، ٹرین چل رہی ہو یا رکی ہوئی ہو، البتہ ٹرین میں نماز ادا کرنے میں بھی استقبالِ قبلہ اور قیام شرط ہے، ان دو شرطوں میں سے کوئی ایک شرط اگر عذر کے بغیر فوت ہوجائے تو فرض اور واجب نماز ادا نہیں ہوگی، البتہ سنن ونوافل قیام کے بغیر بھی ادا ہوجاتی ہیں۔

اگر ٹرین میں اس قدر رش ہو کہ قبلہ رو کھڑے ہوکر نماز ادا کرنا ممکن نہ ہو اور وقت کے اندر کسی اسٹیشن پر اتر کر استقبالِ قبلہ اور قیام کے ساتھ نماز پڑھنا بھی ممکن نہ ہو  اور ٹرین مشرق یا مغرب کی سمت جارہی ہو  تو دو سیٹوں کے درمیان قبلہ رو ہو کر قیام اور  رکوع کر کے نماز ادا کرے اور سجدہ کے لیے  پچھلی سیٹ پر کرسی کی طرح بیٹھ جائے، یعنی پاؤں نیچے ہی رکھے اور سامنے سیٹ پر سجدہ کرے، اس عذر کی صورت میں سجدے کے لیے  گھٹنے کسی چیز پر ٹیکنے کی ضرورت نہیں، اور اس کی وجہ سے سجدہ سہو بھی لازم نہیں ہوگا۔ البتہ  اگر ٹرین شمال یا جنوب کی جانب جارہی ہو تو اس صورت میں مذکورہ طریقہ کار کے مطابق نماز ادا کرنا جائز نہ ہوگا۔

اور اگر  مذکورہ صورتوں کے مطابق نماز ادا نہ کی جاسکتی ہو (مثلاً قیام ہی ممکن نہ ہو، یا قیام تو ممکن ہو لیکن قبلہ رخ نہ ہوسکے، یا سجدہ نہ کیا جاسکتاہو) اور نماز کا وقت نکل رہا ہو تو فی الحال "تشبہ بالمصلین" (نمازیوں کی مشابہت اختیار) کرلے، پھر جب گاڑی سے اتر جائے تو فرض اور وتر کی ضرور قضا کرے۔

"وفي الخلاصة: وفتاوی قاضیخان وغیرهما: الأیسر في ید العدو إذا منعه الکافر عن الوضوء والصلاة یتیمم ویصلي بالإیماء، ثم یعید إذا خرج … فعلم منه أن العذر إن کان من قبل الله تعالیٰ لا تجب الإعادة، وإن کان من قبل العبد وجبت الإعادة". (البحر الرائق، الکتاب الطهارة، باب التیمم، رشیديه ۱/ ۱۴۲)

وکیل صدقہ کی رقم خود استعمال کرسکتا ہے کہ نہیں

 وکیل بالصدقہ اور وکیل بالزکاۃ کے لیے  صدقہ یا زکاۃ کا مال  اپنے استعمال میں لانا جائز نہیں ہے اگرچہ وہ زکاۃ  کا مستحق ہو،  لہذا مذکورہ مال قبضہ میں لینے کے بعد بھی وکیل اس کا مالک نہیں بنے گا، بلکہ اس کے ہاتھ میں یہ مال امانت رہے گا   جسے موکل کی ہدایت کے مطابق صرف کرنا لازم ہوگا، تاہم اگر موکل نے وکیل کو  مکمل اختیار دے دیا ہو اور کہہ دیا ہو کہ "جو چاہے کرو، جسے چاہے دو" اس صورت میں اگر وکیل زکاۃ کا مستحق ہو تو اپنے استعمال میں لا سکتا ہے۔

لہذا صورتِ مسئولہ میںاگر آپ کو  موکل نے مکمل اختیار نہ دیا ہو، بلکہ فلاں مدرسے میں دینے کا کہا ہو تو آپ کے لیے یہ صدقہ کا مال خود استعمال کرنا جائز نہیں ہے، بلکہ اسی مدرسہ کے دیگر طلبہ کو دینا لازم ہوگا۔

البحر الرائق شرح كنز الدقائق - (2 / 227):

"وَلِلْوَكِيلِ بِدَفْعِ الزَّكَاةِ أَنْ يَدْفَعَهَا إلَى وَلَدِ نَفْسِهِ كَبِيرًا كان أو صَغِيرًا وَإِلَى امْرَأَتِهِ إذَا كَانُوا مَحَاوِيجَ وَلَا يَجُوزُ أَنْ يُمْسِكَ لِنَفْسِهِ شيأ اه  إلَّا إذَا قال ضَعْهَا حَيْثُ شِئْتَ فَلَهُ أَنْ يُمْسِكَهَا لِنَفْسِهِ كَذَا في الْوَلْوَالِجيَّةِِ".

فتاوی شامی میں ہے:

"ولو خلط زكاة موكليه ضمن وكان متبرعًا إلا إذا وكله الفقراء وللوكيل أن يدفع لولده الفقير وزوجته لا لنفسه إلا إذا قال: ربها ضعها حيث شئت.

(قوله: إذا وكله الفقراء)؛ لأنه كلما قبض شيئًا ملكوه وصار خالطًا مالهم بعضه ببعض ووقع زكاة عن الدافع".

(2/ 269، کتاب الزکوٰۃ، ط: سعید)

ملازم کو زکوٰۃ دینا

  ملازمین میں سے جو مستحقِ زکات ہیں یعنی وہ بنی ہاشم (سید وں یا عباسیوں وغیرہ) میں سے نہ ہوں اور نہ ہی ان کے پاس ساڑھے باون تولہ چاندی یا اس کی قیمت کے مساوی نقدی یا اس مالیت کے برابر ضرورت  اور استعمال سے زائد سامان موجود ہو تو  اس صورت میں ان کو زکات دی جا سکتی ہے۔

ملحوظ رہے کہ زکات کی ادائیگی  صرف مسلمان مستحقین کو  کی جاسکتی ہے ، لہذا غیر مسلم ملازمین کو  زکات نہیں دی جا سکتی۔

  نیز  زکات کی ادائیگی صحیح ہونے کے لیے مستحق کو  زکات دیے جانے کا بتانا ضروری نہیں، البتہ دینے والی کی نیت شرط ہے،  کام لینے کے بعد تنخواہ میں زکات دینے سے زکات ادا نہ ہوگی،ہاں مقررہ تنخواہ الگ سے دی جائے اور زکات کی رقم اضافی دی جائے تو زکات ادا ہوجائے گی۔ اسی طرح  کام  لیے بغیر  ملازم کو   زکات دینے سے  زکات ادا ہوجائے گی، لیکن اس صورت میں بھی ضروری ہے کہ معاہدہ  کے مطابق  مقررہ تنخواہ الگ دی جائے، زکات کی رقم کو تنخواہ کا نام دینے سے بھی  زکات ادا نہ ہوگی۔

خلاصہ یہ ہے  زکات دیتے وقت چوں کہ زکات کی صراحت کرنا ضروری نہیں ہے؛ اس لیے اگر ادارے یا کمپنی  کا سربراہ ملازمین کو زکات کی رقم دینا چاہے تو  تعاون یا مدد یا ہدیہ کے نام سے دے سکتاہے، لیکن اسے تنخواہ کا عنوان دینا یا حصہ بنانا جائز نہیں ہوگا

پاگل کو زکوٰۃ دینا

 پاگل/مجنون  مستحقِ زکات شخص  کو  برائے راست زکات دینا جائز نہیں ہے اور نہ ہی اسے  زکات دینے سے زکات ادا  ہوگی،  البتہ  پاگل، مجنون مستحقِ زکات ہونے کی صورت میں اگر  اس کا  ولی/ سرپرست اس کی طرف سے قبضہ کرلے تو زکات ادا  ہوجائے گی۔

بدائع الصنائع میں ہے:

"و كذا لو دفع زكاة ماله إلى صبي فقير أو مجنون فقير وقبض له وليه أبوه أو جده أو وصيهما جاز ؛ لأن الولي يملك قبض الصدقة عنه.و كذا لو قبض عنه بعض أقاربه و ليس ثمة أقرب منه و هو في عياله يجوز."

(ج: 4، صفحہ: 111، ط: دار الكتب العلمية - بيروت - لبنان)

فتاوی شامی میں ہے:

"و التملكيك إشارة إلى أنه لايصرف إلى مجنون وصبي غير مراهق إلا إذا قبض لهما من يجوز له قبضة كالأب والوصي وغيرهما ويصرف إلى مراهق يعقل الأخذ."

(ج:2، ص344، ط: سعيد)

مقروض مستحق زکوٰۃ ہوتو کیا قرض زکوٰۃ کی مد میں معاف کیا جاسکتا ہے

 پہلے سے چڑھے قرضہ کو مقروض پر سے زکاۃ  کی مد میں کاٹ لینے سے زکاۃ  ادا نہیں ہوگی؛ کیوں کہ زکاۃ کی ادائیگی کے وقت یا زکاۃ میں دیے جانے والے مال کو جدا کرتے وقت زکاۃ کی نیت کرنا ضروری ہے، کوئی مال کسی کو دینے کے بعد نیت کا اعتبار نہیں ہے۔ البتہ مذکورہ صورت میں زکاۃ کی ادائیگی کی دو جائز صورتیں ہیں:

1- اگر مقروض واقعۃً بہت مستحق ہے تو اسے زکاۃ  کی رقم کا مالک بنائیں اور  جب رقم اس کی ملکیت میں چلی جائے، تو اس سے اپنے قرضہ وصول کر لیں۔اس طرح دینے والے کی زکاۃ  بھی ادا ہوجائے گی، اور مقروض کا قرض بھی ادا ہوجائے گا۔

2- زیادہ بہتر صورت یہ ہوگی کہ مقروض، قرض کے برابر رقم کسی تیسرے شخص سے ادہار لے کر  قرض خواہ کو اپنا قرض ادا کرے، قرض خواہ  قرض  وصول کرنے کے بعد وہی رقم اپنی زکاۃ کی مد میں سابقہ مقروض کو ادا کردے، پھر یہ مقروض اس تیسرے شخص کو اس کی رقم لوٹا دے جس سے اس نے عارضی طور پر ادہار لیا تھا۔ اس طرح اولاً  قرض خواہ کا قرض وصول ہوجائے گا، لیکن مقروض پھر بھی مقروض اور مستحقِ زکاۃ رہے گا، پھر قرض خواہ جب اسے اپنی زکاۃ ادا کرے گا تو اس کی زکاۃ ادا ہوجائے گی اور قرض خواہ کے پاس اپنی زکاۃ میں دی گئی رقم کا کوئی حصہ واپس اپنی ملکیت میں بھی نہیں آئے گا، اور آخر میں مقروض کا قرض بھی ادا ہوجائے گا۔ ف

نابالغ كو زكاة دينا

 اگر کسی غریب آدمی کا نابالغ بچہ سمجھ دار ہو اور زکوٰۃ کی رقم کو اپنے قبضے میں لینا جانتا ہو، زکوٰۃ کا مستحق ہو (یعنی سید بھی نہ ہو اور اس کی ملکیت میں نصاب کے بقدر مال یا ضرورت سے زائد اتنا سامان نہ ہو) تو اسے زکوٰۃ کی رقم دینا درست ہے۔ اور اگر نابالغ بچہ ناسمجھ ہو، مال پر قبضہ کرنا نہ جانتا ہو یا والد مال دار ہو اور بچے کا خرچہ خود اٹھاتا ہو تو اس صورت میں ایسے بچے کو زکوٰۃ کی رقم دینا جائز نہ ہوگا۔

الدر المختار شرح تنوير الأبصار في فقه مذهب الإمام أبي حنيفة - (2 / 356):

"دفع الزكاة إلى صبيان أقاربه برسم عيد أو إلى مبشر أو مهدي الباكورة جاز."

وفي الرد:

"(قوله: إلى صبيان أقاربه) أي العقلاء وإلا فلايصح إلا بالدفع إلى ولي الصغير."

فقیر زکوٰۃ میں ملنے والی چیزیں دوسروں دے سکتاہے کہ نہیں

 جب زکات کسی غریب کو دی جاتی ہے وہ اس  کا مالک  ہوجاتا ہے ، اس لیے وہ جس شرعی مصرف میں خرچ  کرنا چاہیے خرچ کرسکتا ہے ، لہذا   زکات  کے مد میں کسی فقیر  کو  آٹا مل جائے  اور وہ فقیر اس آٹے کو کسی اور کو  پیسوں کے بدلے دےدے  یا بلاعوض بھی دیدےتو  آٹا لینے والے کے لیے  اس کا استعمال کرنا جائز ہے۔

فتاوی شامی میں ہے:

"وهل له أن يخالف أمره؟ لم أره والظاهر نعم..(قوله: والظاهر نعم) البحث لصاحب النهر وقال؛ لأنه مقتضى صحة التمليك قال الرحمتي: والظاهر أنه لا شبهة فيه؛ لأن ملكه إياه عن زكاة ماله."

(كتاب الزكوة، باب مصرف الزكاة والعشر، ج:2، ص:345، ط:سعيد)

فتح القدیر شرح الہدایہ میں ہے:

"(قوله وما أدى المكاتب من الصدقات إلى مولاه ثم عجز فهو طيب للولي لتبدل الملك) وتبدل الملك بمنزلة تبدل العين في الشريعة، كذا في الكافي وعامة الشروح. فإن قيل: إن ملك   الرقبة كان للمولى فكيف يتحقق تبدل الملك؟ قلنا: ملك الرقبة للمولى كان مغلوبا في مقابلة ملك اليد للمكاتب، حتى كان للمكاتب أن يمنع المولى عن التصرف في ملكه، ولم يكن للمولى أن يمنع المكاتب عن التصرف في ملكه، ثم بالعجز ينعكس الأمر، وليس هذا إلا بتبدل الملك للمولى كذا قال جمهور الشراح...لأنه لا خبث في نفس الصدقة، وإنما الخبث في فعل الآخذ لكونه إذلالا به...والفقير إذا استغنى وقد بقي في أيديهما ما أخذا من الصدقة فإنه يطيب لهما."

(كتاب المكاتب،‌‌ باب موت المكاتب وعجزه وموت المولى ، ج:9، ص:214،

غیرمسلم کو زکوٰۃ دینا

 زکوۃ کے صحیح ہونے کے لیے شرط یہ ہے کہ وہ شخص(جس کو زکاۃ دی جارہی ہو) مسلمان ہو، اور زکوۃ کا مستحق ہو ،لہذا غیر مسلم کو زکوٰۃ  کی رقم دینے سے زکوٰۃ ادا نہیں ہوگی، البتہ   غیر مسلم اگر ضرورت مند ہوتو نفلی صدقات وغیرہ سے  اس  کی مدد کی جاسکتی ہے۔

فتاوی عالمگیری میں ہے:

"أما تفسيرها (الزکاۃ) فهي تمليك المال من فقير مسلم غير هاشمي، ولا مولاه بشرط قطع المنفعة عن المملك من كل وجه لله تعالى."

(کتاب الزکاۃ ، ج:1، ص:170، ط:دارالفکر بیروت)

الدر مع الرد میں ہے:

"(من مسلم فقير) ولو معتوها (غير هاشمي ولا مولاه) أي معتقه(قوله: من مسلم إلخ) متعلق بتمليك، واحترز بجميع ما ذكر عن الكافر والغني والهاشمي ومولاه والمراد عند العلم بحالهم."

(كتاب الزكوة، ج:2، ص:258، ط:سعيد)

الہدایۃ مع فتح القدیر میں ہے:

"(ولا يجوز أنه يدفع الزكاة إلى ذمي) «لقوله - عليه الصلاة والسلام - لمعاذ - رضي الله عنه - خذها من أغنيائهم وردها في فقرائهم» . قال (ويدفع ما سوى ذلك من الصدقة)(قوله لقوله - صلى الله عليه وسلم - لمعاذ إلخ) رواه أصحاب الكتب الستة من حديث ابن عباس قال: قال - عليه الصلاة والسلام - «إنك ستأتي قوما أهل كتاب، فادعهم إلى شهادة أن لا إله إلا الله وأني رسول الله، فإن هم أطاعوا لذلك فأعلمهم أن الله افترض عليهم خمس صلوات في كل يوم وليلة، فإن هم أطاعوا لذلك فأعلمهم أن الله افترض عليهم صدقة تؤخذ من أغنيائهم فترد على فقرائهم، فإن هم أطاعوا لذلك فإياك وكرائم أموالهم واتق دعوة المظلوم فإنه ليس بينها وبين الله حجاب» ،(قوله ويدفع لهم) أي لأهل الذمة (ما سوى ذلك) كصدقة الفطر والكفارات، ولا يدفع ذلك لحربي ومستأمن، فقراء المسلمين أحب."

(كتاب الزكوة، ج:2، ص:266، ط:دار الفکر)

کسی اور کے لیے زکوٰۃ لے کر خود استعمال کرنا

 جب زید نے کسی اور کے لیے عمر سے  زکات کی رقم لی ہے تو زید کے لیے اس سے اپنا قرض ادا کرنا ناجائز ہے، اگر چہ زید مستحقِ زکات کیوں نہ ہو ! البتہ اگر عمر نے دیتے وقت یہ کہا ہو کہ "جیسے چاہو خرچ کرو" تو زید کے لیے اس رقم سے اپنا قرض اتارنے کی اجازت ہوگی۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2/ 269):
"وللوكيل أن يدفع لولده الفقير وزوجته لا لنفسه إلا إذا قال: ربها ضعها حيث شئت"

زکوٰۃ کی رقم سے مریض کو دواء دلاناوعلاج کرانا

 زکوٰۃ کی ادائیگی کے لیے مستحق ِ زکوٰۃ  شخص  (یعنی  ایسا  غریب آدمی  جو نصاب  کے بقدر رقم یا ضرورت و استعمال سے زائد اتنے سامان کا  مالک نہ ہو  اور  نہ ہی سید، ہاشمی اور عباسی ہو )  کو بغیر عوض کے مالک بنانا  ضروری ہے، مستحق زکوٰۃ شخص کو  مالک بنائے  بغیر  زکوۃ ادا نہیں ہوتی، لہذا  صورتِ مسئولہ میں زکاۃ کی رقم سے کسی مریض کو مالک بنائے بغیراس کا  علاج کروانا جائز نہیں ہے،تاہم زکاۃ کی رقم سے دوائی وغیرہ خرید کر مریض کو دینا یا مستحق کو رقم کا مالک بنانے کے بعد اس رقم  سے علاج کروانا جائز ہوگا۔

بدائع الصنائع میں ہے:

"وكذلك إذا اشترى بالزكاة طعاما فأطعم الفقراء غداء وعشاء ولم يدفع عين الطعام إليهم لا يجوز لعدم التمليك."

(كتاب الزكاة،فصل في ركن الزكاة، ج:2، ص:39، ط: دار الكتب العلمية)

البحر الرائق میں ہے:

"لو أطعم يتيما بنيتها لا يجزئه لعدم التمليك إلا إذا دفع له الطعام كالكسوة."

(كتاب الزكاة،باب مصرف الزكاة،بناء المسجد وتكفين ميت وقضاء دينه وشراء قن من الزكاة، ج:2، ص:261، ط: دار الكتاب الاسلامي)

حاشیۃ الطحطاوی علی مراقی الفلاح میں ہے:

"وأخرج بالتمليك الإباحة فلا تكفي فيها فلو ‌أطعم يتيما ناويا به الزكاة لا تجزيه إلا إذا دفع إليه المطعوم كما لو كساه بشرط أن يعقل القبض."

(كتاب الزكاة، ص:713، ط: دار الكتب العلمية بيروت )

زكات وعشر جمع كرنے والوں کو زکوٰۃ کی رقم سے تنخواہ دینا

 عاملینِ صدقہ وہ لوگ کہلاتے ہیں جو اسلامی حکومت کی طرف سے زکات اور عشر جمع کرنے پر مامور ہوں۔  ان لوگوں  کو اسلامی حکومت  زکات کی مد سے تنحواہ (یعنی بقدر محنت اجرت)  دے سکتی ہے، کیونکہ اسلامی حکومت میں امیرالمؤمنین فقراء کا وکیل ہوتا ہے۔لیکن ہندوستان میں   اسلامی حکومت نہیں ہے اس لئے  مدارس ، انجمنوں اور ٹرسٹوں کی طرف سے زکات اور عشر کو جمع کرنے والے لوگوں  کو زکات مد سے  تنخواہ اور مزدوری دینا جائز نہیں۔

بدائع الصنائع ميں ہے:

"وأما العاملون عليها فهم الذين نصبهم الإمام لجباية الصدقات واختلف فيما يعطون، قال أصحابنا: يعطيهم الإمام كفايتهم منها.............ولنا أن ما يستحقه العامل إنما يستحقه بطريق العمالة لا بطريق الزكاة بدليل أنه يعطي وإن كان غنيا بالإجماع ولو كان ذلك صدقة لما حلت للغني وبدليل أنه لو حمل زكاته بنفسه إلى الإمام لا يستحق العامل منها شيئا ولهذا قال أصحابنا أن حق العامل فيما في يده من الصدقات حتى لو هلك ما في يده سقط حقه كنفقة المضارب إنها تكون في مال المضاربة حتى لو هلك مال المضاربة سقطت نفقته كذا هذا دل أنه إنما يستحق بعمله لكن على سبيل الكفاية له ولأعوانه لا على سبيل الأجرة لأن الأجرة مجهولة أما عندنا فظاهر لأن قدر الكفاية له ولأعوانه غير معلوم."

(بدائع الصنائع: كتاب الزكاة،  فصل وأما الذي يرجع إلى المؤدى إليه فأنواع (2/ 44)،ط. دار الكتاب العربي،سنة النشر 1982)