https://follow.it/amir-samdani?action=followPub

Saturday 3 August 2024

سمنون نام رکھنا

 سمنون ایک صوفی شاعر تھے ، اللہ پاک کی محبت میں اشعار پڑھا کرتے، لوگ انہیں سمنون محب(محبت کرنے والا  سمنون) کہا کرتے تھے، لیکن وہ  خود کو سمنون کذاب ( جھوٹا سمنون) کہا کرتے تھے ، کپڑے  بنتے تھےاور  سوت کاتتے تھے ،  کسی  بزرگ ،صوفی کے نام پر رکھناجائزہے،لہذا محمد سمنون نام رکھنا درست ہے۔

معجم الشعراء العرب میں ہے:

"أبو الحسن ‌سمنون بن حمزة الخواص.صوفي شاعر، كان معاصروه يلقبونه بسمنون المحب، وذلك لأنه كان ينسج غزلياته وينظم محبته لله تعالى.أما هو فقد كان يسمي نفسه ‌سمنون الكذاب.عاش في بغداد وصحب ‌سمنون كل من السقطي والقلانسي ومحمد بن علي القصاب، وكانوا جميعاً من جلة مشايخ بغداد وأكابر صوفيتها.وله شعر جيد."

(حرف السین،سمنون المحب،ص:1422)

طبقات الصوفیہ میں ہے:

"ومنهم سمنون بن حمزة ويقال سمنون بن عبد الله أبو الحسن الخواص ويقال كنيته أبو القاسم سمى نفسه سمنون الكذاب لكتمه عسر البول بلا تضرر صحب سريا السقطي ومحمد بن علي القصاب وأبا أحمد القلانسي وسوس وكان يتكلم في المحبة بأحسن كلام وهو من كبار مشايخ العراق."

(‌‌الطبقة الثانية من أئمة الصوفية، ص: 159، ط:دار الکتب العلمیة)

منگل کی شب اور چاند رات میں ہمبستری نہ کرنا

 شرعًا میاں بیوی کی ہم بستری کے لیے کوئی خاص دن متعین نہیں ہیں، اور نہ ہی کسی خاص دن میں اس کی  ممانعت ہے، ہاں دیگر  وجوہات  مثلًا روزہ، احرام  کی حالت اور عورت کے ایام اور نفاس کی حالت میں اس کی ممانعت ہے۔

سوال میں موجود مذکورہ بات درست نہیں ہے۔ اس بات کا شریعت سے کوئی تعلق  نہیں ہے،یہ  بے اصل ہے۔

بدائع الصنائع میں ہے:

"وأما ركنه: فالإمساك....... والجماع....... والجماع في ليالي رمضان لقوله تعالى {‌أحل ‌لكم ‌ليلة ‌الصيام الرفث}."

(کتاب الصوم، ج2، ص:90، ط: دار الکتب العلمیة)

مبسوط سرخسی میں ہے:

"فأما جماع الحائض في الفرج حرام بالنص يكفر مستحله ويفسق مباشره لقوله تعالى{فاعتزلوا النساء في المحيض}  ، وفي قوله تعالى{ولا تقربوهن حتى يطهرن}، دليل على أن الحرمة تمتد إلى الطهر."

(كتاب الاستحسان، باب جماع الحائض في الفرج، ج:10، س:159، ط:دارالمعرفة)

فتح القدیر میں ہے:

" الجماع فيما دون الفرج من جملة الرفث فكان منهيا عنه بسبب الإحرام. وبالإقدام عليه يصير مرتكبا محظور إحرامه. اهـ. وقد يقال: إن كان الإلزام للنهي فليس كل نهي يوجب كالرفث، وإن كان للرفث فكذلك إذ أصله الكلام في الجماع بحضرتهن وليس ذلك موجبا شيئا."

(كتاب الحج،باب الجنايات،فصل نظر إلي فرج إمرأته بشهوة فأمني، ج:3، ص:42،ط:دار الفكر)

انزلنا نام رکھنا

 لڑکی کا نام"انزلنا" رکھنا درست نہیں ہے،کیوں کہ یہ عربی کا لفظ ہے، جو کہ "انزل" اور "نا" دو الگ الگ کلمات کا مجموعہ ہے،"اَنزَل"درحقیقت "اِنزَال" سے بنا ہے، جس کے معنیٰ ہے:(1)نیچے اتارنا(2)نازل کرنا۔ اور "نا" یہ اسمِ ضمیر برائے جمع متکلم ہے، جس کا معنی ہے:ہم۔مذکورہ تفصیل کی رُو سے "انزلنا" کا معنی  بنا: "ہم نے نازل کیا"یا " ہم نے نیچے اتارا"۔

لہذا بچی کے لیےمذکورہ نام کے بجائے کسی اور اچھےاور بامعنیٰ نام کا انتخاب کیاجائے، اس حوالہ سے بہتریہ ہے کہ  اَزواجِ مطہرات اور صحابیات مکرمات رضوان اللہ علیہن اجمعین کے ناموں میں سے کسی نام پر رکھاجائے تاکہ زیادہ خیر و برکت کا باعث بھی بنے۔

مسند بزار میں  ہے:  

"عن أبي هريرة؛ أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: إن من حق الولد على الوالد أن يحسن اسمه ويحسن أدبه."

(مسند حمزه انس بن مالك، رقم الحديث:8540، ج:15، ص:176، ط:مكتبة العلوم والحكم)

ترجمہ:"حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:"والد کے ذمہ بچےکے حقوق میں سےاس کا اچھا نام رکھنا اور اسے اچھے اخلاق و آداب سکھاناہے"۔

تاج العروس میں ہے:

"النزول، بالضم: الحلول وهو في الأصل انحطاط من علو.

ونزله تنزيلا، وأنزله إنزالاً، ومنزلا كمجمل، واستنزله بمعنى واحد."

(بحث نزل، ج:30، ص:478، ط:دارالهداية)

قرآن کریم کے اوراق ری سائیکل کرنا

 اگر ری سائیکل کرنے والے ادارے سے ری سائیکل کرتے وقت اور اس سے پہلے کسی قسم کی بےحرمتی نہ ہوتی ہو توقرآن کریم کےصفحات اور آیتوں کے علاوہ دیگر مقدّس  اوراق  حوالہ کرنے کی گنجائش ہے۔

فتاوی ٰشامی میں ہے:

"الكتب التي لا ينتفع بها يمحى عنها اسم الله وملائكته ورسله ويحرق الباقي ولا بأس بأن تلقى في ماء جار كما هي أو تدفن وهو أحسن كما في الأنبياء (قوله كما في الأنبياء) كذا في غالب النسخ وفي بعضها كما في الأشباه،،،،،،وإن شاء غسله بالماء أو وضعه في موضع طاهر لا تصل إليه يد محدث ولا غبار، ولا قذر تعظيما لكلام الله عز وجل ۔"

(كتاب الحظر والإباحة، 422/6،ط:سعید)

فتاویٰ ہندیہ میں ہے:

"ولو محا لوحا كتب فيه القرآن واستعمله في أمر الدنيا يجوز، وقد ورد النهي عن محو اسم الله تعالى بالبزاق، كذا في الغرائب۔"

(كتاب الكراهية، الباب الخامس في آداب المسجد والقبلة والمصحف وما كتب فيه شيء من القرآن،322/5، دار الفكر)

محمد نام رکھنے کی نذر ماننا

 نذر صحیح ہونے  کی   شرائط میں سے ایک شرط یہ  بھی ہےکہ جس کام کی نذر مانی جاۓ وہ کام قربت اور  عبادتِ مقصودہ ہو ،جیسے نماز روزہ ،زکاۃ،حج وغیرہ، اسی طرح جس کام کی نذر مانی جاۓ اس کی جنس سے کوئی فرد فرض یا کم از کم واجب ضرورہو،مباح چیزوں کی نذر لازم نہیں ہوتی۔

 لھذا اگر کسی شخص نے یہ نذر مانی کہ كے اس كے هاں بيٹا پيدا هوا تو اس كا نام ”محمد“ رکھوں گا تو   یہ نذر منعقد نہیں ہوئی  اوربیٹے کی پیدائش کے بعد  بیٹے کا ”محمد“ نام رکھنا لازم نہیں ہے، البتہ ”محمد“ نام اچھا ہے، بیٹے کا یہ نام  رکھنا بہتر ہے ۔

فتاوی شامی میں ہے:

"(ومن ‌نذر ‌نذرا ‌مطلقا أو معلقا بشرط وكان من جنسه واجب) أي فرض كما سيصرح به تبعا للبحر والدرر (وهو عبادة مقصودة)... (ووجد الشرط) المعلق به (لزم الناذر).

(قوله وهو عبادة مقصودة) ...وفي البدائع: ومن شروطه أن يكون قربة مقصودة فلا يصح النذر بعيادة المريض، وتشييع الجنازة، والوضوء، والاغتسال، ودخول المسجد، ومس المصحف، والأذان، وبناء الرباطات والمساجد وغير ذلك، وإن كانت قربا إلا أنها غير مقصودة."

(كتاب الأيمان، 3/ 735، ط: سعيد)

فقط واللہ أعلم

حلال جانور کی اوجھڑی

 حلال جانور کی اوجھڑی کھانا جائز ہے، البتہ خوب پاک وصاف کرکے کھائیں۔

فتاوی رحیمیہ میں ہے:

"فقہاء نے جانور کی سات چیزوں کو حرام قراردیا ہے، ان سات چیزوں میں اوجھڑی شامل نہیں ہے، لہذا اسے حلال کہا جائے گا،  جو  اِسے حرام قرار دیتے ہیں وہ دلیل پیش کریں"۔

(ما یجوز اکلہ من الحیوان ومالا یجوز،ج:10،ص:81،دارالاشاعت)

عیسائی کے ساتھ کھانا کھانا

 اگر  عیسائی کے کھانے کے برتن پاک ہے، اور کھانا بھی کوئی حرام چیز پر مشتمل نہیں ہےتو ان کے ساتھ کھانا کھانا جائز ہے،

فتاویٰ عالمگیری  میں ہے:

"قال محمد - رحمه الله تعالى - ويكره الأكل والشرب في أواني المشركين قبل الغسل ومع هذا لو أكل أو شرب فيها قبل الغسل جاز ولا يكون آكلا ولا شاربا حراما وهذا إذا لم يعلم بنجاسة الأواني فأما إذا علم فأنه لا يجوز أن يشرب ويأكل منها قبل الغسل ولو شرب أو أكل كان شاربا وآكلا حراما وهو نظير سؤر الدجاجة إذا علم أنه كان على منقارها نجاسة فإنه لا يجوز التوضؤ به والصلاة في سراويلهم نظير الأكل والشرب من أوانيهم إن علم أن سراويلهم نجسة لا تجوز الصلاة فيها وإن لم يعلم تكره الصلاة فيها ولو صلى يجوز ولا بأس بطعام اليهود والنصارى كله من الذبائح وغيرها ويستوي الجواب بين أن يكون اليهود والنصارى من أهل الحرب أو من غير أهل الحرب وكذا يستوي أن يكون اليهود والنصارى من بني إسرائيل أو من غيرهم كنصارى العرب".

(کتاب الکراهية، الباب الرابع عشر في أهل الذمة والأحكام التي تعود إليهم، ج:5، ص:347، ط:مکتبه رشیدیة)

مردار مچھلی کا حکم

 مری ہوئی مچھلیاں دو طرح کی ہوتی ہیں :1۔جو پانی میں اپنی طبعی موت مر گئی ہو،اس کی علامت یہ ہے کہ پانی کی سطح پر الٹی تیر  رہی ہو،ایسی مچھلیاں بالکل حلال نہیں ہیں۔

2۔جو کسی آفت ِ سماویہ یا کسی خارجی سبب سے مرگئی ہو مثلاً ،پانی کے ٹھندے یاگرم ہونے کی وجہ سے یا پانی سے باہر نکالنے کی وجہ سے مرگئی ہو،ایسی مچھلیاں  حلال ہیں،اور یہ اس وقت تک حلال ہے ،جب تك سڑ نہ جائےاور بدبو نہ آئے۔

در مختار  میں ہے:

"(ولا) يحل (حيوان مائي إلا السمك) الذي مات بآفة۔۔۔۔۔۔(غير الطافي) على وجه الماء الذي مات حتف أنفه وهو ما بطنه من فوق، فلو ظهره من فوق فليس بطاف فيؤكل كما يؤكل ما في بطن الطافي، وما مات بحر الماء أو برده وبربطه فيه أو إلقاء شيء فموته بآفة وهبانية ."

(كتاب الذبائح،ج:6،ص:307،ط:سعید)

فتاوی عالمگیری میں ہے:

"واللحم إذا أنتن يحرم أكله."

(كتاب الكراهية،الباب الحادي عشر في الكراهة في الاكل وما يتصل به،ج:5،ص:339،ط:دار الفكر)

بہرام اور ولی نام رکھنا

 ’’ولی‘‘  کے معنی دوست کے ہیں، اس کا شمار آپ ﷺ کے صفاتی ناموں میں سے بھی ہوتا ہے، لہذا’’ ولی‘‘  نام رکھنا درست ہے۔’’بہرام ‘‘  ایک ستارہ"مریخ"کا نام ہے۔(فیروز اللغات، ص: 227ط:فیروز سنز)،سلف صالحین کے انساب میں بھی اس نام کا استعمال ملتا ہے،اور عراق کے ایک بادشاہ کا نام بھی تھا ،لہٰذا یہ نام رکھنا جائز ہے۔باقی اس سے بہتر معنی والا لفظ ہو تو زیادہ بہتر ہے۔ 

اسد الغابۃ میں ہے:

"5533- يزيد بن بهرام

س: يزيد بن بهرام قَالَ أبو حاتم بن حبان: هُوَ المقعد الَّذِي دعا عَلَيْهِ رسول الله صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذكر فِي الميم.

أخرجه أبو موسى مختصرا."

(أسد الغابة في معرفة الصحابة ،5/ 445، ط : دار الكتب العلمية)

تاریخ کبیر میں ہے:

"[7672] عبد الحميد بن بهرام، الفزاري، المدائني .

سمع شهر بن حوشب.

سمع منه ابن المبارك، ومحمد بن يوسف.

قال علي، عن يحيى: من أراد حديث شهر فعليه بعبد الحميد."

(التاريخ الكبير للبخاري،‌‌ حرف العين،  ‌‌باب عبد الحميد، 7/ 60، الناشر: الناشر المتميز للطباعة والنشر والتوزيع، الرياض)

گناہ کے بعد گناہ کا اظہار

   گناہ کے بعد گناہ کا اظہار یا اس کی خبر کسی کو دینا شرعاً درست نہیں،او اس شخص( زانی) سے مکمل لا تعلقی اور پردہ کرے، ورنہ پھر گناہ کا خطرہ ہے۔

گناه كركے كسی دوسرے  دوسرے شخص كو گناه بتانے  كے بارے ميں سخت وعيدات آئی ہيں،چناں چہ صحابی رسول  حضرت ابوھریرہ  رضي الله عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اکرم ﷺ کو یہ فرماتے ہوۓ سنا:"میری ساری امت کو معاف کیا جائے گا، سوائے گناہوں کو اعلانیہ اور کھلم کھلا کرنے والوں کے، اور یہ بھی اعلانیہ گناہ ہے کہ ایک شخص رات کو کوئی (گناہ کا) کام کرے، حالانکہ اللہ تعالی نے اس کے گناہ کو چھپا دیا ہے، مگر صبح ہونے پر وہ کہنے لگے کہ اے فلاں! میں نے کل رات فلاں فلاں برا کام کیا تھا۔ رات گزر گئی تھی اور اس کے رب نے اس کا گناہ چھپائے رکھا، لیکن جب صبح ہوئی تو وہ خود اللہ کے پردے کو کھولنے لگا۔"

علامہ ابن قیم رحمہ اللہ ‏فرماتے ہیں:فحاشی (گناہ) کے  فساد کے اعتبار سے مختلف درجات ہیں، عورتوں کے ساتھ خفیہ دوستی لگانے والے مرد اور مرد کےساتھ خفیہ دوستی لگانے والی عورت کا شر زنا اور بدکاری کرنے والے مرد اور عورت سے کم ہے، اور اسی طرح چوری چھپ کر معصیت کا ارتکاب کرنے والا اعلانیہ معصیت کرنے والے سے کم گناہ رکھتا ہے، اور چھپا کر گناہ کرنے والا لوگوں کو معصیت کرکے خبریں بتانے والے سے کم گناہ رکھتا ہے ، اور یہ اللہ تعالی کے عفو درگزر سے دور ہے، جیسا کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: میری ساری امت سے درگزر کیا گیا ہے، لیکن اعلانیہ طور پر معصیت کرنے والوں کو معاف نہیں کیا جائے گا۔

 بخاری شریف میں ہے:

"عن سالم بن عبد الله قال: سمعت أبا هريرة يقول: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: «كل أمتي معافى ‌إلا ‌المجاهرين، وإن من المجاهرة أن يعمل الرجل بالليل عملا ثم يصبح وقد ستره الله، فيقول: يا فلان، عملت البارحة كذا وكذا، وقد بات يستره ربه، ويصبح يكشف ستر الله عنه."

(كتاب الأدب، باب ستر المسلم على نفسه، ج: 8، ص: 20، رقم: 6069، ط: دار طوق النجاة)

علی مراد نام رکھنا

 "علی مراد" نام رکھنا درست ہے، البتہ  اگر "مراد" والد کے نام کا حصہ یا خاندانی نام کا حصہ نہیں ہے تو بہتر  یہ ہے کہ "محمدعلی" یا پھر صرف"  علی " نام رکھ دیا جائے۔

أسد الغابة  میں ہے:

"عليّ بْن أَبِي طَالِب بْن عَبْد المطلب بْن هاشم بْن عَبْد مناف بْن قصي بْن كلاب بْن مرة بْن كعب بْن لؤي الْقُرَشِيّ الهاشمي ابْن عم رَسُول اللَّه صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ واسم أَبِي طَالِب عَبْد مناف، وقيل: اسمه كنيته، واسم هاشم: عَمْرو، وأم عليّ فاطمة بِنْت أسد بْن هاشم، وكنيته: أَبُو الْحَسَن أخو رَسُول اللَّه صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وصهره عَلَى ابنته فاطمة سيدة نساء العالمين، وَأَبُو السبطين، وهو أول هاشمي والد بين هاشميين، وأول خليفة من بني هاشم، وكان عليّ أصغر من جَعْفَر، وعقيل، وطالب."

(حرف العین، باب العین و اللام ،ج :4،ص:87،ط:دار الکتب العلمیة)

ہفتہ وار ذکر کی مجلس

 اگر کوئی متبع شریعت شیخِ کامل اپنے مریدوں کی اصلاح وتربیت کے لیے  جہری ذکر کی مجلس منعقد کرے اور اس میں درج ذیل شرائط کا اہتمام کیا جائے تو یہ جائز ہے:

  1.  ریا ونمود کا خوف نہ ہو۔
  2.    اصرار والتزام نہ ہو، یعنی شرکت نہ کرنے والوں کو اصرار کرکے شرکت پر آمادہ نہ کیا جائے اور شریک نہ ہونے والوں پر طعن وتشنیع نہ کی جائے۔
  3. آواز شرکاءِ حلقہ تک ہی محدودو رکھی جائے،  مسجد میں  ذکر  یا کوئی بھی ایسا عمل اتنی  آواز سے کرنا جس سے دیگر لوگوں یااہلِ محلہ کو تشویش ہوتی ہو قطعاً جائز نہیں ہے۔ 
  4.  جہر مفرِط نہ ہو یعنی بہت زیادہ تیز آواز جس سے ذکر کرنے والا اپنے آپ کو مشقت میں ڈال دے ۔

صحيح البخاري (9/ 121):

"حدثنا عمر بن حفص، حدثنا أبي، حدثنا الأعمش، سمعت أبا صالح، عن أبي هريرة رضي الله عنه، قال: قال النبي صلى الله عليه وسلم: "يقول الله تعالى: أنا عند ظن عبدي بي، وأنا معه إذا ذكرني، فإن ذكرني في نفسه ذكرته في نفسي، وإن ذكرني في ملإ ذكرته في ملإ خير منهم."

صحيح مسلم (4/ 2061):

"حدثنا قتيبة بن سعيد، وزهير بن حرب - واللفظ لقتيبة - قالا: حدثنا جرير، عن الأعمش، عن أبي صالح، عن أبي هريرة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: يقول الله عز وجل: «أنا عند ظن عبدي بي، وأنا معه حين يذكرني، إن ذكرني في نفسه، ذكرته في نفسي، وإن ذكرني في ملإ، ذكرته في ملإ هم خير منهم."

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (1/ 660):

’’مطلب في رفع الصوت بالذكر

(قوله: و رفع صوت بذكر إلخ) أقول: اضطرب كلام صاحب البزازية في ذلك؛ فتارةً قال: إنّه حرام، وتارةً قال: إنّه جائز. وفي الفتاوى الخيرية من الكراهية والاستحسان: جاء في الحديث به اقتضى طلب الجهر به نحو: "«وإن ذكرني في ملإ ذكرته في ملإ خير منهم» رواه الشيخان. وهناك أحاديث اقتضت طلب الإسرار، والجمع بينهما بأن ذلك يختلف باختلاف الأشخاص و الأحوال كما جمع بذلك بين أحاديث الجهر و الإخفاء بالقراءة و لايعارض ذلك حديث «خير الذكر الخفي»؛ لأنه حيث خيف الرياء أو تأذي المصلين أو النيام، فإن خلا مما ذكر؛ فقال بعض أهل العلم: إن الجهر أفضل؛ لأنه أكثر عملًا و لتعدي فائدته إلى السامعين، و يوقظ قلب الذاكر فيجمع همّه إلى الفكر، و يصرف سمعه إليه، و يطرد النوم، و يزيد النشاط. اهـ. ملخصًا، و تمام الكلام هناك فراجعه. وفي حاشية الحموي عن الإمام الشعراني: أجمع العلماء سلفًا و خلفًا على استحباب ذكر الجماعة في المساجد و غيرها إلا أن يشوش جهرهم على نائم أو مصل أو قارئ ...إلخ ‘‘

مشت زنی

 مشت زنی ناجائز اور گناہ ہے،  اس کی حرمت قرآنِ کریم سے ثابت ہے۔نیز  احادیث مبارکہ میں بھیاس فعلِ بد  پر بہت سخت وعیدیں وارد ہوئی ہیں، اور اس فعل کے مرتکب پر لعنت کی گئی ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ : سات لوگ ایسے ہیں جن سے اللہ تعالٰی قیامت کے دن نہ گفتگو فرمائیں گے اور نہ ان کی طرف نظرِ کرم فرمائیں گے ، اُن میں سے ایک وہ شخص ہے جو اپنے ہاتھ سے نکاح کرتا ہے (یعنی مشت زنی کرتا ہے )۔

قرآن کریم میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:

وَالَّذِينَ هُمْ لِفُرُوجِهِمْ حَافِظُونَ (5) إِلَّا عَلَى أَزْوَاجِهِمْ أَوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُهُمْ فَإِنَّهُمْ غَيْرُ مَلُومِينَ (6) فَمَنِ ابْتَغَى وَرَاءَ ذَلِكَ فَأُولَئِكَ هُمُ الْعَادُونَ (7) (سورۃ المؤمنون آیت نمبر۵ تا۷)

ترجمہ: اور جو اپنی شہوت کی جگہ کو تھامتے ہیں مگر اپنی عورتوں پر اور اپنے ہاتھ کے مال باندیوں پر سو  ان پر نہیں کچھ الزام ، پھر جو کوئی ڈھونڈے اس کے سوا سو  وہی ہیں حد سے بڑھنے والے۔ 

ان آیات مبارکہ کی تفسیر میں علامہ  شبیراحمد عثمانی صاحب نور اللہ مرقدہ لکھتے ہیں: یعنی اپنی منکوحہ عورت یاباندی کے سواء کوئی اور راستہ قضائے شہوت کا ڈھونڈے وہ حلال کی حد سے آگے نکل جانے والا ہے، اس میں زنا، لواطت اور استمناء بالید وغیرہ سب صورتیں آگئیں۔

(ماخوذ از تفسیر عثمانی، ص: ۴۵۵)

حدیث شریف میں ہے:

"عن أنس بن مالك، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: "سبعة لا ينظر الله عز وجل إليهم يوم القيامة، ولايزكيهم، ولايجمعهم مع العالمين، يدخلهم النار أول الداخلين إلا أن يتوبوا، إلا أن يتوبوا، إلا أن يتوبوا، فمن تاب تاب الله عليه: الناكح يده، والفاعل والمفعول به، والمدمن بالخمر، والضارب أبويه حتى يستغيثا، والمؤذي جيرانه حتى يلعنوه، والناكح حليلة جاره". "تفرد به هكذا مسلمة بن جعفر هذا". قال البخاري في التاريخ".

(السنن الکبری للبیہقی، ج: 7، ص: 329، رقم الحدیث: 5087، ط: مكتبة الرشد للنشر والتوزيع بالرياض بالتعاون مع الدار السلفية ببومباي بالهند)