https://follow.it/amir-samdani?action=followPub

Monday, 17 February 2025

پرانے کرایہ دار کامسئلہ

 توفيَ والدي عن عمر 71 عام وله زوجة و 8 أبناء (2 ذكور- 6 إناث) وقد ترك محلاً مؤجراً بإيجار قديم ( مطعم فول وطعمية ) حيث كان يدير المحل ، وهو مصدر رزقه الوحيد وكان الابن الأكبر يساعده في المحل ، بجانب عمله كموظف ، وبمقابل مادي ، وكان قد اشتد عليه مرضه قبل موته بسنة ، فقام الابن الأكبر بتحمل مسئولية المحل كاملة . السؤال هو : ما هي طريقة توزيع هذا المحل على الورثة ( الأم – 2 أبناء ذكور – 6 أبناء إناث ) ؟


میرے والد کا انتقال 71 سال کی عمر میں ہوا۔ انہوں نے اپنے پیچھے ایک بیوی اور 8 بچے چھوڑے (2 مرد - 6 خواتین) اور جایدادوں میں ایک دکان کرایہ کی چھوڑی جوبہت پہلے کرایہ پر لی گئی تھی جہاں وہ اس دکان کا انتظام کرتے تھے، یہ دوکان ہی ان کی آمدنی کا واحد ذریعہ تھی اب اس کرایہ کی دکان کے لیے  سوال یہ ہے کہ اس اسٹور کو ورثاء (ماں - 2 بیٹے - 6 بیٹیاں) میں تقسیم کرنے کا طریقہ کیا ہے؟


الجواب

الحمد لله.


إذا كان المقصود من السؤال : أن والدكم قد استأجر ذلك المحل بنظام الإيجار القديم ، وهو نظام قائم على : أن المستأجر ينتفع بالمؤجر ( من بيت أو محل أو نحو ذلك ) مدة غير معلومة ، عادة ما تكون أجرة ذلك النوع من الإيجار أقل من قيمة المثل ، ويبقى ذلك الانتفاع بعد موت المستأجر لورثته من بعده .

فهذا النوع من الإجارة لا يصح ، ويبطل به العقد ؛ لكون المدة غير معلومة ، ومن شرط صحة الإجارة أن تكون مدة العقد فيها معلومة .

قال ابن قدامه رحمه الله في " المغني " (5/261) : " قال ابن المنذر : أجمع كل من نحفظ عنه من أهل العلم , على أن استئجار المنازل والدواب جائز ، ولا تجوز إجارتها ، إلا في مدة معينة معلومة " انتهى .

وعليه ، فليس من أملاك والدكم ذلك المحل ، حتى يتم تقسميه بينكم كميراث ، بل الواجب عليكم رد المحل لصاحبه وفسخ عقد الإيجار بالنظام القديم ، ثم إذا أردتم تأجير المحل بعد ذلك ، فلكم أن تتفقوا مع صاحب المحل على تأجير المحل بشرط أن يكون ذلك على مدة محددة معلومة .

وأما ما في المحل من أغراض وأشياء يملكها والدكم ، فهذه هي التي تدخل في التركة ، وتقسم بين الورثة .

وللفائدة ينظر جواب السؤال رقم : (143602) ، وجواب السؤال رقم : (148597) .


والله أعلم .



جواب

اللہ کا شکر ہے۔

اگر آپ کے سوال کا مطلب یہ ہے کہ آپ کے والد نے وہ دکان پرانے کرائے کے نظام کے تحت کرایہ پر لی تھی، جو کہ کرایہ دار کے مالک مکان (مکان، دکان یا اس سے ملتی جلتی کوئی چیز) سے کسی نامعلوم مدت کے لیے فائدہ اٹھانے پر مبنی نظام ہے، تو اس قسم کے کرایے کا کرایہ عام طور پر مناسب قیمت سے کم ہوتا ہے، اور یہ فائدہ کرایہ دار کی موت کے بعد اس کے ورثاء کے لیے باقی رہتا ہے۔

اس قسم کی کرایہ داری درست نہیں ہے اور معاہدہ کو باطل کر دیتی ہے۔  کیونکہ  اس میں مدت معلوم نہیں ہے اور اجارہ کے صحیح ہونے کی شرائط میں سے ایک شرط یہ ہے کہ عقد کی مدت معلوم ہو۔

ابن قدامہ رحمہ اللہ نے "المغنی" (5/261) میں کہا: "ابن المنذر نے کہا: ہم نے جن علما سے علم حاصل کیا ہے ان میں سے تمام نے اس بات پر اتفاق کیا ہے کہ مکانات اور جانوروں کو کرایہ پر دینا جائز ہے، لیکن ان کا کرایہ پر لینا جائز نہیں ہے، سوائے مخصوص مدت کے۔"

اس کے مطابق وہ دوکان آپ کے والد کی ملکیت نہیں ہے، بلکہ کرایہ کی ہےآپ کا فرض ہے کہ آپ دکان کو اس کے مالک کو واپس کر دیں اور اس کے بعد اگر آپ دکان کرایہ پر لینا چاہتے ہیں تو آپ دکان کے مالک کو اس شرط پر کرایہ پر لینے پر راضی کر سکتے ہیں کہ یہ ایک مخصوص مدت کے لیے ہے۔

جہاں تک آپ کے والد کے پاس سٹور میں موجود اشیاء اور چیزوں کا تعلق ہے تو یہ وہ چیزیں ہیں جو املاک میں شامل ہیں اور ورثاء میں تقسیم ہیں۔

مزید کے لیے سوال نمبر: (143602) کا جواب اور سوال نمبر: (148597) کا جواب ملاحظہ کریں۔

واللہ اعلم بالصواب۔

(الشیخ محمد صالح المنجد)



شفیع کو بیع کا علم ہوتے ہی شفعہ کا دعویٰ ضروری ہے

 جس شخص کوحقِ شفعہ حاصل ہوتاہے، اس پرحقِ شفعہ کے ثبوت کےلیے لازم ہے کہ جس مجلس میں اسےزمین یا جائیداد کے فروخت کئے جانے کی خبر پہنچی ہو  اسی  مجلس میں   اپنےلیےحقِ شفعہ کےمحفوظ ہونے  کا اعلان کرے،پھر وہاں سے اٹھ کر فروخت کنندہ یا خریدار(جس کے قبضے میں زمین یا جائیداد ہو)یااس فروخت شدہ زمین کے پاس جاکر گواہوں کی موجودگی میں شفعہ کرنے کا اعلان کرے، اس صورت میں شفیع(شفعہ کرنےوالے)کاحقِ شفعہ برقرار رہے گا، البتہ اگروہ بیع(فروختگی) کی خبر سن کرخاموش رہااورمجلسِ علم میں شفعہ کرنے کا اعلان نہیں کیا تو اس کا حقِ شفعہ ساقط ہوجائےگا۔

اس کے بعد وہ عدالت سے رُجوع کرے اور وہاں اپنے استحقاق کا ثبوت پیش کرے،عدالت سے رُجوع کرنےمیں مفتی بہ قول کےمطابق بغیر کسی معقول عذر کے ایک مہینہ تک تاخیر کرنا اوراپنے حق کے حصول سے غفلت اختیا ر کرنا حق چھو ڑنے کے مترا دف ہوتاہے، کیونکہ بلا وجہ اتنی تا خیر بسا اوقا ت مشتری کے لیے ایذاء رسا نی کا با عث ہوتی ہے،لہذا اس قدرتاخیر سےبھی حقِ شفعہ ساقط ہوجاتاہے۔

صورتِ مسئولہ میں مشترکہ زمین میں سےایک حصے کی فروختگی کےوقت اگر دوسرےشریک کو اس کا علم ہو تو اسی مجلس میں اس کےلیےشفعہ کا دعوی کرنا ضروری ہے،اگر دوسرےشریک نے فروختگی کا علم ہونےکےباوجود شفعہ کا دعوی نہیں کیا تو اس کےبعد سہام کی تقسیم کےوقت اس کو شفعہ کا حق نہیں ہوگا،البتہ اگر فروختگی کےوقت اس کو علم نہ ہو تو جب بھی جس مجلس میں بھی اس کو فروختگی کا علم ہوجائے اسی مجلس میں شفعہ کا دعوی کرنا ضروری ہے،بصورتِ دیگر حقِ شفعہ ساقط ہوجائےگا،اس کےبعد وہ شفعہ نہیں کرسکتا۔

فتاوی مفتی محمود میں ہے: 

"اگر بیع کا علم ہوتے ہی شفعہ کرنے کا شرعًا جو طریقہ ہے شفیع اسے علی وجہ الکمال اختیار کر چکا ہے تو اس کے بعد ایک ماہ کے اندر اندر عدالت میں دعوی خصومت دائر کرنا ضروری ہے اور اگر ایک ماہ گزر جائے اور وہ دعوی دائر نہ کرے تو اس کے شفعہ کا حق باطل ہو جائے گا۔"

(کتاب الشفعہ،  468/9،  ط:ادارۃ الفاروق)

"دررالحكام في شرح مجلة الأحكام" میں ہے:

"(مادة 1028)(‌يلزم ‌في ‌الشفعة ثلاثة طلبات وهي طلب المواثبة وطلب التقرير والإشهاد وطلب الخصومة والتملك)." 

"(مادة 1029)(ويلزم الشفيع أن يقول كلاما يدل على طلب الشفعة في المجلس الذي سمع فيه عقد البيع في الحال كقوله أنا شفيع المبيع أو أطلبه بالشفعة ويقال لهذا طلب المواثبة)."

(الكتاب التاسع، الفصل الثالث، 789/2، ط: دارالجيل)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"(و أما) (حكمها) فجواز طلب الشفعة عند تحقق سببها وتأكدها بعد الطلب وثبوت الملك بالقضاء بها و بالرضا، هكذا في النهاية."

‌‌(كتاب الشفعة ، الباب الأول في تفسير الشفعة. . .، 161/5، ط: رشيدية)

وفيه أيضاً:

"الشفعة تجب بالعقد والجوار وتتأكد بالطلب والإشهاد وتتملك بالأخذ ثم الطلب على ثلاثة أنواع طلب مواثبة وطلب تقرير وإشهاد وطلب تمليك (أما طلب المواثبة) فهو أنه إذا علم الشفيع بالبيع ينبغي أن يطلب الشفعة على الفور ساعتئذ وإذا سكت ولم يطلب بطلت شفعته وهذه رواية الأصل المشهور عن أصحابنا وروى هشام عن محمد - رحمه الله تعالى - إن طلب في مجلس العلم فله الشفعة وإلا فلا بمنزلة خيار المخيرة وخيار القبول ۔۔۔ (وأما طلب الإشهاد) فهو أن يشهد على طلب المواثبة حتى يتأكد الوجوب بالطلب على الفور۔۔۔ ثم طلب الإشهاد مقدر بالتمكن من الإشهاد، فمتى تمكن من الإشهاد عند حضرة واحد من هذه الأشياء ولم يطلب الإشهاد بطلت شفعته نفيا للضرر عن المشتري."

(كتاب الشفعة، الباب الثالث قي طلب الشفعة، ج:5، ص:201-202، دارالفكر)

فتاوی شامی میں ہے:

"ثم بعد هذين الطلبين يطلب عند قاض---(وهو) يسمى (طلب تمليك وخصومة وبتأخيره مطلقا) بعذر وبغيره شهرا أو أكثر (لا تبطل الشفعة) حتى يسقطها بلسانه (به يفتى) وهو ظاهر المذهب،وقيل يفتى بقول محمد إن أخره شهرا بلا عذر بطلت كذا في الملتقى، يعني دفعا للضرر.۔۔۔ قال في شرح المجمع: وفي جامع الخاني: الفتوى اليوم على قول محمد لتغير أحوال الناس في قصد الإضرار اهـ."   

(كتاب الشفعة، باب طلب الشقعة، 226/6، ط: سعید)

سیٹی مع تصویر بیچنا

 بچوں  کا باجہ‘ سیٹی‘ سیفٹی ریزر‘  بلیڈ یا کاغذ پر چھپی ہوئی تصویریں جو بچے پانی میں بھگو کر اپنے ہاتھوں یا کتابوں پر اتار لیتے ہیں  اور شیشے کی گولیاں وغیرہ ان چیزوں کی خرید و فروخت جائز ہے یا نہیں؟ (شیخ رشید احمد سوداگر صدر بازار‘دہلی )

(جواب ۲۸۲)  بچوں  کا باجہ‘ سیٹی‘سیفٹی ریزر‘ بلیڈ‘ گولیاں‘ یہ چیزیں بیچنی جائز ہیں  تصویریں بیچنی جائز نہیں ہیں ۔ (۴)محمدکفایت اللہ کان اللہ لہ‘
------------------------------
(۱) قرأ القرآن علی ضرب الدف والقضیب یکفر لا ستخفافہ وادب القرآن ان لا یقرأ فی مثل ہذہ المجالس الخ  فتاویٰ بزازیہ  علی ہامش ہندیۃ ۶/۳۳۸ط کوئٹہ)
(۲) ودلت المسالۃ ان الملاہی کلہا حرام ( الدر المختار مع الرد ۶/۳۴۸ ط سعید)
(۱) وہذہ الکراھۃ تحریمیۃ و ظاہر کلام النووی فی شرح  مسلم الاجماع علی تحریم تصویر الحیوان وقال و سواء صنعہ لما یمتہن او لغیرہ فصنعتہ حرام  بکل حال لان فیہ مضاہا ۃ لخلق اﷲ تعالیٰ و سواء کان فی ثوب او بساط او دراہم واناء وحائط و غیر ہا ( رد المحتار مع الدر ۱/۶۴۷ب سعید)
(۲) عن جابر ؓ انہ سمع رسول اللہ ﷺ یقول عام الفتح بمکۃ ان اللہ و رسولہ حرم بیع الخمر والخنزیر والا صنام (صحّیح بخاری  ۱/۲۹۸)

قدیمی کرایہ داری کی شرعی حیثیت

 فما يسمى بنظام الإيجار القديم من العقود الباطلة شرعا، فالواجب في عقد الإجارة بيان المدة، قال ابن قدامة في المغني: الإجارة إذا وقعت على مدة يجب أن تكون معلومة كشهر وسنة، ولا خلاف في هذا نعلمه، لأن المدة هي الضابطة للمعقود عليه، المعرفة له فوجب أن تكون معلومة. انتهى.

ومن أهل العلم من يرى صحة العقد مشاهرة، أي أن لكل شهر كذا... دون تحديد مدة، وفي هذه الحالة يحق لكل من المتعاقدين فسخ الإجارة متى أراد.. فالقانون المذكور لا يحل حراما ولا يحرم حلالا، وما كان من العقود خاليا من بيان المدة ولم يكن مشاهرة وجب فسخه، ورد العين المستأجرة إلى المالك ودفع أجرة المثل خلال مدة استخدامها إلا إذا تنازل عنها المالك، فلا يجوز لك أن تقيم مع والدك في الشقة المذكورة بل يجب على والدك رد هذه الشقة إلى مالكها، وعليك الاجتهاد في بر والديك بما تقدر عليه وبما لا يخالف الشرع.

علما بأن إجارة الدور المحددة بزمن معين لا تنتهي بموت المستأجر قبل انتهاء المدة المذكورة على المذهب  الراجح وهو مذهب جمهور العلماء، وإنما تظل باقية يرثها ورثته من بعده، وذلك لأن المنفعة مال وقد ملكها المستأجر بالعقد فتورث عنه إذا مات، وذهب الحنفية إلى أن الإجارة تنتهي بموت المستأجر، وللمزيد من الفائدة يمكنك مراجعة الفتاوى ذات الأرقام التالية: 43041، 43972، 58077، 103971.


قالت الدكتورة فتحية الحنفي، أستاذ الفقه بكلية الدراسات الإسلامية والعربية جامعة الأزهر، إن قضية الإيجار القديم مسألة يجوز لولي الأمر التدخل فيها لتحقيق التوازن بين المؤجر والمستأجر في ظل التضخم الحادث وغياب العدالة بين العين المؤجرة والقيمة الاستئجارية التي أقرها الطرفان وقتئذ.

قانون الإيجار القديم


وأكدت "الحنفي" في تصريحات خاصة لـ"صدى البلد"، أن الشريعة الإسلامية جاءت لرفع الضرر ونهت عن الضرر فأصلت لقاعدة فقهية: "لا ضرر ولا ضرار"، لافتة إلى أنه مع الإيمان بحق المستأجر في مراعاة الظروف المالية والاقتصادية وحقه في التزام الطرف الآخر وهو المالك في تطبيق المدة المتفق عليها إلا أنه ينبغي مراعاة ما حدث للقيمة المحصلة من تضاؤل لا يتناسب مع متطلبات واحتياجات العصر.

قدیمی کرایہ داری میں وراثت جاری نہیں ہوتی تمام اھل علم اس پر اتفاق ہے ۔مصری دارالافتاء نے ایک سوال کا درج ذیل جواب دیتے ہوئے ایسے عقد ہی کو باطل قرار دیتے ہوئے لکھا ہے:

الحمد لله، والصلاة والسلام على رسول الله، وعلى آله وصحبه، أما بعد:

 فعقد الإيجار القديم الذي يخلو من تحديد مدة الإجارة، وينص على تأبيدها؛ عقد باطل شرعا، كما بينا ذلك في الكثير من الفتاوى السابقة، وقد جاء في فتاوى دار الإفتاء المصرية: أما لو أمسك المستأجر العين، ولم يسلمها لصاحبها، فكل كسبه وانتفاعه منها حرام، وسحت؛ لأنه ليست هناك إجارة على التأبيد؛ حتى لو أجازها القانون، وكل لحم نبت من سحت، فالنار أولى به. انتهى.

Sunday, 16 February 2025

عفو درگزر

 حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ سلطان دو جہاںﷺ نے ارشاد فرمایا: جسے یہ پسند ہو کہ اس کے لیے (جنت میں) محل بنایا جائے اور اسکے درجات بلند کیے جائیں اسے چاہیے کہ جو اس پر ظلم کرے یہ اسے معاف کرے اور جو اسے محروم کرے یہ اسے عطا کرے اور جو اس سے قطع تعلق کرے یہ اس سے ناطہ جوڑے۔ (مستدرک للحاکم، 3/12، حدیث:3215)

آپ ﷺ کا فرمان رحمت نشان ہے: صدقہ دینے سے مال کم نہیں ہوتا اور بندہ کسی کا قصور معاف کرے تو اللہ اس (معاف کرنے والے) کی عزت ہی بڑھائے گا اور جو اللہ کے لیے تواضع(عاجزی) کرے اللہ اسے بلند فرمائے گا۔ (مسلم، ص 1071، حدیث: 2588)

حضرت جریر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ سرکار دو ﷺ نے ارشاد فرمایا: جو رحم نہیں کرتا اس پر رحم نہیں کیا جاتا اور جو معاف نہیں کرتا اس کو معاف نہیں کیا جائے گا۔ (مسند امام احمد، 7/71، حدیث:1926)

سرکار مدینہ منورہ، سردار مکہ مکرمہ ﷺ کا فرمان عالیشان ہے: رحم کیا کرو تم پر رحم کیا جائے گا اور معاف کرنا اختیار کرو اللہ تمہیں معاف فرما دے گا۔ (مسند امام احمد، 2/682، حدیث: 7062)

ہم نے خطا میں نہ کی، تم نے عطا میں نہ کی

کوئی کمی سرورا تم پہ کروڑوں درود

حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا: قیامت کے روز اعلان کیا جائے گا: جس کا اجر اللہ کے ذمہ کرم پر ہے وہ اٹھے اور جنت میں داخل ہو جائے۔ پوچھا جائے گا: کس کیلئے اجر ہے؟ وہ منادی (اعلان کرنے والا) کہے گا ان لوگوں کا جو معاف کرنے والے ہیں، تو ہزاروں آدمی کھڑے ہونگے اور بلا حساب جنت میں داخل ہو جائیں گے۔ (معجم اوسط، 1/542، حدیث: 1998)

الحمد للہ ہم نے درگزر کرنے کے بہت سے فضائل سننے کی سعادت حاصل کی۔ اے میٹھے آقا ﷺ کے دیوانو! خواہ کوئی آپ کو کتنا ہی ستائے، دل دکھائے، عفوو درگزر سے کام لیجیے اور اسکے ساتھ محبت بھرا سلوک کرنے کی کوشش کیجیے۔

عورتوں کو میراث سے محروم کرنا

 والدین کے ترکہ میں  نرینہ اولاد کی طرح بیٹیوں کا بھی شرعی حق اور حصہ ہوتا ہے، والدین کے انتقال کے بعد ان کے ترکہ پر بیٹوں کا  قبضہ کرلینا اور بہنوں کو  ان کے شرعی حصے سے محروم کرنا ناجائز اور گناہ ِ کبیرہ ہے، بہنوں کو ان کا حق اور  حصہ  اس دنیا میں دینا لازم اور ضروری ہے ، ورنہ آخرت میں دینا پڑے گا اور آخرت میں دینا آسان نہیں ہوگا ، احادیثِ مبارکہ  میں اس بارے میں سخت وعیدیں آئی ہیں۔ لہذامیراث میں سےعورتوں کا حصہ دینا لازم اور ضروری ہے ، بہنوں کو میراث سے محروم کرنا یا ان کے حق سے کم دینا ظلم اور ناجائز ہے۔

جو بھائی اپنی  بہنوں کے حصے پر قابض ہوکر ان کا مال کھاتے ہیں متروکہ جائیداد یا اس کے منافع میں سے ان کے لیے اپنے حصے سے زائد لینا حرام ہے، لیکن اگر وہ کوئی کاروبار کرتے ہیں اور اس کاروبار میں متروکہ جائیداد سے رقم نہیں لگاتے تو اس کاروبار کی آمدنی حلال ہوگی، صرف بہنوں کو میراث میں سے حصہ نہ دینے کی وجہ سے ان کا مال حرام نہیں ہوگا۔

مشکاۃ المصابیح میں ہے:

"عن سعيد بن زيد قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «من أخذ شبراً من الأرض ظلماً؛ فإنه يطوقه يوم القيامة من سبع أرضين»".

(مشكاة المصابيح،باب الغصب والعاریة 254/1 ط: قدیمی)

ترجمہ: حضرت سعید  بن زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا؛ جو شخص( کسی کی ) بالشت بھر زمین  بھی  از راہِ ظلم لے گا،قیامت کے دن ساتوں زمینوں میں سے اتنی ہی  زمین اس کے گلے میں   طوق  کے طور پرڈالی  جائے گی۔

"وعن أنس قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «من قطع ميراث وارثه قطع الله ميراثه من الجنة يوم القيامة»، رواه ابن ماجه".

(باب الوصایا، الفصل الثالث 1 / 266  ط:

ترجمہ :حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں : رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جو شخص اپنے وارث کی  میراث کاٹے گا،(یعنی اس کا حصہ نہیں دے گا) تو اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کی جنت کی میراث کاٹ لے گا۔

مرقاة المفاتيح  میں ہے:  

"وقيل: الكبيرة ما أوعد عليه الشارع بخصوصه، وقيل: ما عين له حد، وقيل: النسبة إضافية، فقد يكون الذنب كبيرة بالنسبة لما دونه، صغيرة بالنسبة إلى ما فوقه"

(مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح ، كتاب الإيمان، باب الكبائر و علامات النفاق1/ 121 ط: دار الفكر)

تکملۃ رد المحتار علی الدر المختار میں ہے:   

" الإرث جبري لَايسْقط بالإسقاط".

 (كتاب الدعوى 7 / 505 ط :سعید) فقط

میراث کی تقسیم

 میراث کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایاجاسکتا ہے کہ اللہ رب العزت نے قرآنِ مقدس میں اِس کی تفصیلات کو کئی آیات میں بیان کیا ہے۔ دیگر کئی احکام بھی قرآن مجید میں بیان ہوئے ہیں،مگر اللہ رب العزت نے ان کی جزئیات کو بیان نہیں کیا،مثلاً:نماز،جو کلمے کے بعد سب سے بڑا رکن ہے،اُس کی فرضیت کوتو اللہ تعالیٰ نے سیکڑوں جگہ بیان فرمایا ہے،مگر اس کی رکعتوں اور طریقۂ کا ر کو بیان نہیں فرمایا؛ لیکن میراث کی اہمیت کے پیش نظر اس کو تفصیل کے ساتھ بیان فرمایا اور ورثا ء کے حصوں کو بھی بیان فرمایا۔

وراثت کے ذریعے جو ملکیت ورثا ء کی طرف منتقل ہوتی ہے، وہ جبری ملکیت ہے، نہ تو اِس میں وراثت کا قبول کرنا شرط ہے اور نہ وارث کا اِس پر راضی ہونا شرط ہے، بلکہ اگر وہ اپنی زبان سے صراحتاً یوں بھی کہہ دے کہ میں اپنا حصہ نہیں لیتا/لیتی تب بھی شرعاً وہ اپنے حصے کا مالک بن جاتا/جاتی ہے۔ یہ دوسری بات ہے کہ وہ اپنے حصے کو قبضے میں لینے کے بعد شرعی قاعدے کے مطابق کسی دوسرے کو ہدیہ کر دے یا بیچ ڈالے یا تقسیم کر دے۔(عزیزالفتاویٰ صفحہ 78،معارف القرآن،مفتی محمد شفیعؒ، جلد2ص312)

میراث اور احادیثِ طیبہ:

میراث کی اسی اہمیت کے پیش نظر حضور اقدس ﷺ نے علمِ میراث سیکھنے اور سکھانے والوں کے فضائل بتائے اور میراث میں کوتاہی کرنے والوں کے لیے وعیدیں سنائی ہیں۔ذیل میں میراث کی اہمیت و فضیلت اور اِس میں کوتاہی کرنے والوں کے بارے میں چند احادیث پیش کی جاتی ہیں۔

۱…۔حضرت عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور اقدس ﷺ نے فرمایا تم علم فرائض(علم میراث)سیکھو اور لوگوں کو بھی سکھاؤ، کیونکہ میں وفات پانے والا ہوں اور بلاشبہ عنقریب علم اٹھایا جائے گا اور بہت سے فتنے ظاہر ہوں گے، یہاں تک کہ دو آدمی حصۂ میراث کے بارے میں باہم جھگڑا کریں گے اور انہیں ایسا کوئی شخص نہیں ملے گا، جو اُن کے درمیان اس کا فیصلہ کرے۔(مستدرک حاکم، جز4صفحہ369) ۲…ایک اور حدیث میں ارشاد ہے:تم فرائض(میراث)سیکھو اور لوگوں کو سکھاؤ،کہ وہ نصفِ علم ہے ،بلاشبہ وہ بھلا دیا جائے گا اور میری امت سے یہی علم سب سے پہلے اُٹھالیا جائے گا۔(ابن ماجہ صفحہ 195) ۳…جمع الفوائد میں ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا:وہ عالم جو فرائض (میراث )نہ جانتا ہو، ایسا ہے جیسا کہ بے سر کے ٹوپی (یعنی اس کا علم بے زینت و بے کار ہے۔) ۴…حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضوراقدس ﷺ نے فرمایا :جس نے کسی وارث کے حصۂ میراث کو روکا تو اللہ تعالی قیامت کے دن جنت سے اس کے حصے کو روکیں گے۔(مشکاۃ المصابیح صفحہ 266) ۵…ایک صحیح حدیث کا مضمون ہے کہ بعض لوگ تمام عمر اطاعتِ خداوندی میں مشغول رہتے ہیں، لیکن موت کے وقت میراث میں وارثوں کو ضرر پہنچاتے ہیں(یعنی بلاوجۂ شرعی کسی حیلے سے محروم کر دیتے ہیں یا حصہ کم کر دیتے ہیں)توایسے شخصوں کو اللہ تعالیٰ سیدھا دوزخ میں پہنچا دیتا ہے۔(مشکاۃ المصابیح صفحہ 265)

میراث کی تقسیم میں تاخیر

 میراث کی تقسیم میں حتی الامکان جلدی کرنی چاہیے،بغیر کسی سخت مجبوری کے تاخیر کرنا درست نہیں،اس لیے کہ اگر بر وقت میراث کی تقسیم نہ  کی جائے تو آگے چل کر بہت سے مسائل کھڑے ہوجاتے ہیں، اگربغیر کسی مجبوری کےمیراث کی تقسیم میں تاخیر کی جائےتواس اس کا وبال اس پر ہوگا جو بغیر کسی وجہ کے میراث کی تقسیم میں رکاوٹ بنےگا،بلکہ جتنا جلدی ہوسکےمرحوم کےتمام ترکہ کوتمام ورثاء کے درمیان ان کے شرعی حصوں کے مطابق تقسیم کردیا جائے۔

الدر المختار میں ہے:

"(وقسم) المال المشترك (بطلب أحدهم إن انتفع كل) بحصته (بعد القسمة وبطلب ذي الكثير إن لم ينتفع الآخر لقلة حصته) وفي الخانية: يقسم ‌بطلب ‌كل وعليه الفتوى، لكن المتون على الأول فعليها المعول"

( كتاب القسمة، ج:6، ص:260، ط:سعيد)

میراث کی تقسیم میں تاخیر مناسب نہیں، بسا اوقات تاخیر سے مسائل پیدا ہوجاتے ہیں: قال في واقعات المفتیین: مات وترک امرأة بہا حبل، فإن کانت الولادة قریبة ینتظر لتقع القسمة عن علم، وإن لم تکن قریبة ینتظر لأن في ذلک تأخیرًا․ (واقعات المفتیین: ۲۲۶)

کرایہ داری کا معاہدہ کرایہ دارکی وفات پر ختم ہوجا تا ہے

 کرایہ داری کا معاملہ مالک یا کرایہ دار کے مرنے سےختم  ہوجاتا ہے،لہذا جب  کرایہ دار ی کا معاہدہ کرنے والےفریقین  کا انتقال ہوچکا ہے ،تو ان کا معاہدہ بھی ختم  ہوگیا،اور ان میں سے کسی کی اولاد پر اس کی پاسداری شرعاً ضروری نہیں تھی ،لیکن جب دونوں کی اولاد نے اس معاملہ کو حسب سابق جاری رکھا  ،اس لیے اس کی عملی تجدید ہونے کی وجہ سے جب تک فریقین اس کو حسب سابق جاری رکھنے پر متفق ہوں ،جاری رکھ سکتے ہیں ،البتہ اگر از سرنو دونوں عاقدین کی اولاد  آپس میں نیا معاملہ کرنا چاہیں ،یا اسی سابقہ معاملہ کو تجدید معاہدہ کی صورت میں  برقرار رکھنا چاہیں ،تو باہمی رضامندی سے کرسکتے ہیں ،بلکہ کرلیا جائے ،تو زیادہ مناسب ہے ۔

وإذا مات أحد المتعاقدین وقد عقد الإجارۃ لنفسہ انفسخت الإجارۃ (ہندیۃ، کتاب الإجارۃ، باب فسخ الإجارۃ، اشرفي ۳/ ۳۱۵، شامي، زکریا ۹/ ۱۱۴، کراچی ۶/ ۸۳، مختصر القدوري، ص: ۱۰۵)


فتاوی عالمگیری میں ہے :

"‌‌[الباب الثامن في انعقاد الإجارة بغير لفظ]

وفي الحكم ببقاء الإجارة وانعقادها مع وجود ما ينافيها استأجر دارا شهرا فسكن شهرين لا أجر عليه في الشهر الثاني هذا جواب الكتاب وروي عن أصحابنا يجب وعن الكرخي ومحمد بن سلمة إنهما يوفقان بين الروايتين بين المعد للاستغلال وغير المعد للاستغلال من غير تفصيل بين الدار والحمام والأرض قال الصدر الشهيد - رحمه الله تعالى - وبه يفتى كذا في خزانة الفتاوى۔۔۔۔

استأجرها سنة بأجر معلوم فسكنها ثم سكنها سنة أخرى ودفع الأجر ليس له أن يسترد هذا الأجر قال - رضي الله تعالى عنه - والتخريج على الأصول يقتضي أن تكون له ولاية الاسترداد إذا لم تكن الدار معدة للإجارة. كذا في القنية."

(کتاب الاجارۃ ،الباب الثامن في انعقاد الإجارة بغير لفظ،ج:4،ص:427،ط:دار الفکر)

فتاوی شامی میں ہے :

"آجر داره كل شهر بكذا فلكل الفسخ عند تمام الشهر."

(کتاب الاجارۃ،ج:6،ص:45،ط:سعید

Saturday, 15 February 2025

عفو درگذر


دوسروں کے قصور اور ان کی غلطیاں معاف کر دینا یہ خدا کی صفت ہے۔ یہی صفت خدا اپنے بندوں میں بھی پسندکرتا ہے۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے اس بات کو اہلِ ایمان کو مخاطب کرتے ہوئے یوں ذکر کیا ہے کہ ’’پس معاف کردو اور درگزر کرو کیا تمہیں یہ پسند نہیں ہے کہ اللہ تمہیں معاف کر دے، اور اللہ تو بخشنے والا رحم کرنے والا ہے‘‘۔ (النور:22)، آیت مبارکہ میں اللہ نے دوسروں کے قصور معاف کر دینے پر ابھارا ہے اور اس کیلئے یہ بات ارشاد فرمائی ہے کہ معاف کر دینے والے کو اللہ بھی معاف کر دیتا ہے۔ اس کی مزید وضاحت نبی کریمﷺ کے اس ارشاد سے ہوتی ہے کہ’’تم مخلوق پر رحم کرو تو تم پر رحم کیا جائے گا اور تم لوگوں کو معاف کر دو اللہ تمہیں معاف کر دے گا‘‘۔ (مسند احمد:7041)، یہ بالکل ایسے ہی ہے جیسے کہ قرآنِ مجید میں مومنوں کو انفاق پر ابھارا گیا ہے اور انفاق کرنے والوں سے کئی گنا کرکے واپس لوٹانے کا وعدہ کیا گیا ہے۔ اب جو جتنا لوگوں کو معاف کرے گا اتنا ہی اللہ تعالیٰ اسے بھی معاف کریں گے۔ 

اللہ تعالیٰ کے اسما الحسنی میں سے ایک نام ’’العفو‘‘ ہے، اس کا مطلب ہے درگزر کرنے والا اور یہ صفت خدا کی مخلوق میں سے جس میں بھی ہوگی اللہ تعالیٰ اسے پسند کرتے ہیں۔ قرآنِ مجید میں اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کے اوصاف کا ذکر کرتے ہوئے ارشاد فرمایا ’’(وہ) لوگوں کو معاف کردینے والے (ہوتے ہیں۔) اور اللہ محسنین کو پسند کرتا ہے‘‘۔ (آلِ عمران: 134)۔اوپر خدا کی جس صفت العفو کا ذکر ہوا وہی الفاظ اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں اہلِ ایمان کیلئے ذکر کیے ہیں۔ یعنی اللہ تعالیٰ کو دوسروں کے قصور اور غلطیاں معاف کر دینے والے بہت پسند ہیں۔ جب خدا اپنی تمام تر عظمت و جلال کے باوجود انسانوں کو معاف کر دیتا ہے۔ ہر وہ شخص جو خدا سے اپنے گناہوں کی معافی کا طلب گار ہے اُسے چاہیے کہ پہلے خود دسروں کو معاف کرے کہ جو معاف کرے گا، وہ معاف کر دیا جائے گا۔

معاف کرنا سنت ِ رسول ﷺ

نبی کریم ﷺ کی پوری زندگی عفو و درگزر، رحم و کرم، محبت و شفقت سے عبارت ہے اور اس کی گواہی خود قرآن نے اور آپ ﷺ کے ساتھیوں نے دی۔ اللہ تعالیٰ نے ایک مقام پر آپ ﷺ کے اخلاق کا ذکر کرتے ہوئے ارشاد فرمایا ’’اللہ تعالیٰ کی عنایت اور رحمت سے آپﷺ ان کے لیے نرم خو ہیں، اگر آپﷺ کج خلق اور سخت مزاج ہوتے تو یہ (لوگ جو آپ کے گرد جمع ہوئے ہیں) آپﷺ کے پاس سے ہٹ جاتے۔ (آلِ عمران: 159)، ایک اور مقام پر ارشاد فرمایا ’’تم میں سے ایک رسول آیا ہے جس پر تمہاری تکلیف بہت شاق گزرتی ہے، وہ تمہاری بھلائی کا خواہاں ہے اور ایمان والوں پر نہایت شفیق اور مہربان ہے۔ (التوبہ:128)

اُم المومنین حضرت عا ئشہ صدیقہؓ کہتی ہیں کہ ’’آپ ﷺ نے کبھی کسی غلام، لونڈی، عورت، بچہ یا خادم کو نہیں مارا، سوائے جہاد فی سبیل اللہ کے اور کبھی آپﷺ نے اپنی ذات کیلئے کسی سے انتقام نہیں لیا لیکن اگر کوئی حدود اللہ کی بے حرمتی کرتا تو نبی کریم ﷺاسے برداشت نہیں کرتے اور اللہ کے لیے اس کا انتقام لیتے۔ (مسلم: 2328)

آپ ﷺ نے مکہ والوں کو معاف کردیا، طائف والوں کو معاف کردیا، حضرت عائشہ صدیقہؓ پر جھوٹا الزام لگانے والوں کو معاف کردیا۔ ’’بلاشبہ رسول اللہﷺ کی زندگی تمہارے لیے بہترین نمونہ ہے‘‘۔ (الاحزاب) 

اگر کوئی اپنے اوپر ہونے والے ظلم اور زیادتی کا بدلہ لینا چاہے تو شریعت نے اس کی بھی اجازت دی ہے۔ لیکن وہ بدلہ بھی اتنا ہی ہونا چاہے جتنا ظلم کیا گیا ہو۔ البتہ اس بدلے کو بھی قرآن نے ایک طرح سے برائی ہی کہا ہے۔ اس کے برعکس جو معاف کردینے کو ترجیح دیتا ہے اسے اللہ تعالیٰ نے اصلاح کرنے والا قرار دیا ہے اور اس کا اجر اللہ کے ذمے ہے۔ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں ’’برائی کا اسی مقدار میں برائی سے بدلہ دیا جائے لیکن جو معاف کر دے اور اصلاح کر لے تو اس کا اجر اللہ کے ذمے ہے‘‘ (الشوری:40)۔ 

حضرت انسؓ سے مروی ہے رسول اللہ ﷺ نے ارشادفرمایا ’’جب بندہ حساب کیلئے میدان حشر میں کھڑا ہوگا تو ایک منادی آواز دے گا جس کا اجر اللہ کے ذمہ ہے وہ کھڑا ہو جائے اور جنت میں داخل ہو جائے، کوئی کھڑا نہ ہوگا پھر دوبارہ اعلان کیا جائے گا،فرشتہ کہے گا یہ وہ افراد ہیں جو لوگوں کو معاف کرتے تھے پس ایسے ہزاروں لوگ کھڑے ہو جائیں گے اوربغیر حساب کے جنت میں داخل ہو جائیں گے‘‘ (طبرانی:55)۔ 

ابو ہریرہؓ ایک حدیث روایت کرتے ہیں جس میں رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایاکہ  ’’حضرت موسیؑ نے رب سے پوچھا آپ کے بندوں میں سے آپ کے نزدیک سب سے معزز کون ہیں تو اللہ تعالیٰ نے جواب دیا جو بدلے کی طاقت رکھنے کے باوجود معاف کر دے‘‘۔ (شعب الایمان: 7974)

معاف کرنا عزت میں اضافے کا باعث

اگر کوئی کسی کو معاف کر دیتا ہے تو یقینا ً اس سے ضائع شدہ حقوق واپس نہیں آتے لیکن دلوں سے نفرت، کینہ، بغض اور دشمنی کے جذبات ختم ہو جاتے ہیں۔ انتقام لینے کا جذبہ ٹھنڈا پڑ جاتا ہے، باہمی تعلقات میں استحکام پیدا ہوتا ہے۔

ایک دوسرے کو معاف کر دینے کا عمل ہی دراصل تمام افرادِ معاشرہ کو درپیش انفرادی و اجتماعی مسائل کے حل کا واحد راستہ ہے۔معافی کی صفت اپنانے سے انسان خود بھی پرسکون، چین و اطمینان میں رہتا ہے اور معاشرے میں بھی ایک دوسرے کو معاف کر دینے کا رجحان پروان چڑھتا ہے۔ جو طاقت رکھنے کے باوجود لوگوں کی زیادتیوں و مظالم کو معاف کر دے تو اللہ تعالی اس کی عزت میں اضافہ کرتے ہیں۔ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا ’’معاف کرنے والے کی اللہ عزت بڑھا دیتے ہیں۔ (مسلم:2588)، 

Friday, 14 February 2025

بہنوں کو میراث سے محروم کرنا

 والدین کے ترکہ میں  نرینہ اولاد کی طرح بیٹیوں کا بھی شرعی حق اور حصہ ہوتا ہے، والدین کے انتقال کے بعد ان کے ترکہ پر بیٹوں کا  قبضہ کرلینا اور بہنوں کو  ان کے شرعی حصے سے محروم کرنا ناجائز اور گناہ ِ کبیرہ ہے، بہنوں کو ان کا حق اور  حصہ  اس دنیا میں دینا لازم اور ضروری ہے، ورنہ آخرت میں دینا پڑے گا اور آخرت میں دینا آسان نہیں ہوگا، احادیثِ مبارکہ  میں اس بارے میں سخت وعیدیں آئی ہیں۔

مشکاۃ المصابیح میں ہے:

"عن سعيد بن زيد قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «من أخذ شبراً من الأرض ظلماً؛ فإنه يطوقه يوم القيامة من سبع أرضين»".

(مشكاة المصابيح،باب الغصب والعاریة 254/1 ط: قدیمی)

ترجمہ: حضرت سعید  بن زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جو شخص(کسی کی) بالشت بھر زمین  بھی  از راہِ ظلم لے گا، قیامت کے دن ساتوں زمینوں میں سے اتنی ہی  زمین اس کے گلے میں   طوق  کے طور پرڈالی  جائے گی۔

"وعن أنس قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «من قطع ميراث وارثه قطع الله ميراثه من الجنة يوم القيامة»، رواه ابن ماجه".

(باب الوصایا، الفصل الثالث 1 / 266  ط: قدیمی)

ترجمہ :حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جو شخص اپنے وارث کی  میراث کاٹے گا، (یعنی اس کا حصہ نہیں دے گا) تو اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کی جنت کی میراث کاٹ لے گا۔

مرقاة المفاتيح  میں ہے:  

"وقيل: الكبيرة ما أوعد عليه الشارع بخصوصه، وقيل: ما عين له حد، وقيل: النسبة إضافية، فقد يكون الذنب كبيرة بالنسبة لما دونه، صغيرة بالنسبة إلى ما فوقه"

(مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح ، كتاب الإيمان، باب الكبائر و علامات النفاق1/ 121 ط: دار الفكر)

تکملۃ رد المحتار علی الدر المختار میں ہے:   

" الإرث جبري لَايسْقط بالإسقاط". (كتاب الدعوى 7 / 505 ط :سعید)

مشترکہ کاروبار میں نفع کی تقسیم

 باہمی رضامندی سے نفع کا جو تناسب شرکاء طے کرلیں درست ہے۔ چونکہ کاروبای ذمہ داری آپ کے ذمہ ہے، اس لیے آپ اپنے لیے نفع کا جو بھی تناسب طے کرنا چاہیں کرسکتے ہیں، البتہ آپ کے شریک کے ذمہ کاروباری سرگرمی نہیں ہے، اس لیے ان کے لیے نفع کا تناسب ان كے سرمایہ کے تناسب کے برابر یا اس سے کم طے کیا جاسکتا ہے، اس سے زائد طے کرنا درست نہیں۔ماہانہ یا سالانہ بنیاد پر منافع تقسیم کرتے وقت مشترکہ سرمایہ سے جتنا سامان خریدا گیا ہے، ان سب کی قیمت لگائی جائے گی اور اس میں راس المال کو الگ کیا جائے گا اور اس سے زائد رقم کو طے شدہ تناسب سے تقسیم کیا جائے گا۔

مثال کے طور پر آپ کا کتابوں کا کاروبار ہے، آپ نے اس کاروبار میں ایک شخص کو شریک کیا ہوا ہے، نفع کا تناسب آدھا آدھا طے کیا ہے، آپ کی دکان میں 5 لاکھ روپے کی کتابیں موجود ہیں جس میں سے ڈھائی لاکھ روپے آپ کے ہیں اور باقی ڈھائی لاکھ روپے آپ کے شریک کے ہیں۔ ایک سال میں چارلاکھ روپےکی کتابیں فروخت ہوئی اور اس میں آپ کو 6 لاکھ روپے کا منافع ہواتو اس میں5 لاکھ روپے کو الگ کیا جائےگا۔ اس لیے کہ یہ آپ کا مشترکہ سرمایہ ہے اور ایک لاکھ روپے آپ کے اور آپ کے شریک کے درمیان آدھے آدھےتقسیم ہوں گے۔ اس لیے کہ یہ آپ کا مشترکہ نفع ہے۔
حوالہ جات
"المادة (1372) إذا كان رأس مال الشريكين متفاضلا كأن كان رأس مال أحدهما مائة ألف درهم ورأس مال الآخر مائة وخمسين ألف درهم فإذا شرط تقسيم الربح بينهما بالتساوي فيكون بمعنى أنه شرط زيادة حصة في الربح للشريك صاحب رأس المال القليل بالنسبة إلى رأس ماله ويكون ذلك كشرط ربح زائد لأحد الشريكين حال كون رأس مالهما متساويا , فلذلك إذا عمل شرط كليهما أو شرط عمل الشريك صاحب الحصة الزائدة في الربح أي صاحب رأس المال القليل صحت الشركة واعتبر الشرط , وإذا شرط العمل على صاحب الحصة القليلة من الربح أي صاحب رأس المال الكثير فهو غير جائز ويقسم الربح بينهما بنسبة مقدار رأس مالهما."
(مجلة الأحكام العدلية (ص: 264)نور محمد)
"(قوله: ومع التفاضل في المال دون الربح) أي بأن يكون لأحدهما ألف وللآخر ألفان مثلا واشترطا التساوي في الربح، وقوله وعكسه: أي بأن يتساوى المالان ويتفاضلا في الربح، لكن هذا مقيد بأن يشترط الأكثر للعامل منهما أو لأكثرها عملا، أما لو شرطاه للقاعد أو لأقلهما عملا فلا يجوز كما في البحر عن الزيلعي والكمال."
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار)4/312 ط:دار الفکر بیروت) (
"وإن شرطا العمل على أحدهما، فإن شرطاه على الذي شرطا له فضل الربح؛ جاز، والربح بينهما على الشرط فيستحق ربح رأس ماله بماله والفضل بعمله، وإن شرطاه على أقلهما ربحا لم يجز؛ لأن الذي شرطا له الزيادة ليس له في الزيادة مال.ولا عمل ولا ضمان؛ وقد بينا أن الربح لا يستحق إلا بأحد هذه الأشياء الثلاثة"
(بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع6/63 ط:دارالکتب العلمیۃ)
"وعندنا " شركة العقد تصح باعتبار الوكالة، وتوكيل كل واحد منهما صاحبه بالشراء، على أن يكون المشترى بينهما نصفين أو أثلاثا، صحيح. فكذلك الشركة التي تتضمن ذلك إلا أن في هذا العقد لا يصح التفاضل في اشتراط الربح بعد التساوي في ملك المشتري؛ لأن الذي يشترط له الزيادة ليس له في نصيب صاحبه رأس مال ولا عمل ولا ضمان. فاشتراط جزء من ذلك الربح له يكون ربح ما لم يضمن، ونهى رسول الله - صلى الله عليه وسلم - عن ذلك، فإن أراد التفاوت في الربح فينبغي أن يشترط التفاوت في ملك المشترى؛ بأن يكون لأحدهما الثلث، وللآخر الثلثان؛ حتى يكون لكل واحد منهما الربح بقدر ملكه. وهذه الشركة " عندنا " تجوز عنانا ومفاوضة."
المبسوط للسرخسي11/154 ط:دار المعرفۃ) (
"وحاصل ذلك كله أنه إذا تفاضلا في الربح، فإن شرطا العمل عليهما سوية جاز: ولو تبرع أحدهما بالعمل وكذا لو شرطا العمل على أحدهما وكان الربح للعامل بقدر رأس ماله أو أكثر ولو كان الأكثر لغير العامل أو لأقلهما عملا لا يصح وله ربح ماله فقط،"
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار)4/312 ط:دار الفکر بیروت) (
" (وتفسد باشتراط دراهم مسماة من الربح لأحدهما) لقطع الشركة كما مر لا لأنه شرط لعدم فسادها بالشرط، وظاهره بطلان الشرط لا الشركة بحر ومصنف. قلت: صرح صدر الشريعة وابن الكمال بفساد الشركة ويكون الربح على قدر المال….. وبيان القطع أن اشتراط عشرة دراهم مثلا من الربح لأحدهما يستلزم اشتراط جميع الربح له على تقدير أن لا يظهر ربح إلا العشرة، والشركة تقتضي الاشتراك في الربح وذلك يقطعها فتخرج إلى القرض أو البضاعة كما في الفتح."
(الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار)4/316 ط:دار الفکر بیروت)

مشترکہ کاروبار میں سے ذاتی اخراجات منھا کرنا

 شراکت داری کے دوران شرکاء بھائیوں  نے باہمی رضامندی سے جو ذاتی نوعیت کے اخراجات (  بچوں کی شادی، حج  وغیرہ)  باہمی رضامندی سے  کیے تھے، مشترکہ کاروبار کی  تقسیم کے وقت ان اخراجات کو  حساب میں  شامل نہیں کیا جائے گا، البتہ مشترکہ کاروبار سے جو مکان بنایا گیا ہے، اگر وہ سب کے  لیے بنایا گیا ہے، تو یہ مشترکہ مکان ہوگا، اور اگر بنانے والے نے اپنے  لیے بنایا تھا، تو اس کا شمار ہوگا۔

العقود الدرية في تنقيح الفتاوى الحامديةمیں ہے:

"(سئل) في إخوة خمسة سعيهم وكسبهم واحد وعائلتهم واحدة حصلوا بسعيهم وكسبهم أموالا فهل تكون الأموال المذكورة مشتركة بينهم أخماسا؟

(الجواب) : ما حصله الإخوة الخمسة بسعيهم وكسبهم يكون بينهم أخماسا ."

( كتاب الشركة، شركة العنان، ١ / ٩٤، ط: دار المعرفة)