https://follow.it/amir-samdani?action=followPub

Saturday 2 May 2020

چلی ہے رسم کہ نہ کوئی سر اٹھا کے چلے

نئی دہلی-2 مئی( اردو لیکس)دہلی پولیس نے دہلی اقلیتی کمیشن کے چیئرمین ڈاکٹر ظفر الاسلام خان کے خلاف غداری کا مقدمہ درج کیا ہے۔ ظفر الاسلام خان پر سوشل میڈیا پر اشتعال انگیز تبصرے کرنے کا الزام عائد کیا گیا ہے۔ دہلی اسپیشل پولیس کے جوائنٹ سی پی ایل نیرج ٹھاکر نے بتایا کہ یہ معاملہ دہلی کے وسنت کنج علاقے کے ایک شخص کے ذریعہ دہلی پولیس میں درج شکایت کے تحت آئی پی سی کے سیکشن 124 اے اور 153 اے کے تحت درج کیا گیا ہے۔ وسنت کنج کے رہائشی نے پولیس سے شکایت کی ہے کہ دہلی اقلیتی کمیشن کے چیئرمین ، ظفر الاسلام خان کی 28 اپریل کو ٹویٹر اور فیس بک پر شائع ہونے والی پوسٹ فرقہ وارانہ تشدد کو ہوا دینے کے مترادف ہے۔اس معاملہ کے ظفر الاسلام خان نے سوشل میڈیا پر شائع کی گئی پوسٹ کے لئے معذرت کا اعلان کر دیا ہے۔ اس کے باوجود پولیس نے ان کے خلاف کارروائی کی ہے اسی دوران ظفر الاسلام خان نے کہا کہ وہ ایف آئی آر کی کاپی ملنے کے بعد ہی اس معاملے پر تبصرہ کریں گے ۔

Friday 1 May 2020

ہندوستان میں مذہبی آزادی

لندن۔ 30 اپریل (سیاست ڈاٹ کام) امریکی حکومت کے ایک ادارہ نے زور دیا ہے کہ انڈیا کو مذہبی آزادی کی خلاف ورزی کی پاداش میں بلیک لسٹ کیا جائے کیونکہ وزیراعظم نریندر مودی کی حکومت میں مذہبی آزادی بری طرح انحطاط پذیر ہے۔ امریکی پیانل کی سفارش پر نئی دہلی نے شدید ردعمل ظاہر کیا ہے۔ امریکی کمیشن برائے بین الاقوامی مذہبی آزادی سفارش ضرور کرسکتا ہے لیکن وہ پالیسی طئے نہیں کرتا اور ضروری نہیں کہ اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ اس کی تجویز یا سفارش پر عمل کرے۔ ہندوستان بلاشبہ امریکی حلیف ہے اور دونوں ملکوں کے تعلقات میں حالیہ عرصہ میں گہرائی آئی ہے۔ دو پارٹیوں پر مشتمل پیانل نے سالانہ رپورٹ میں کہا کہ ہندوستان کو تشویش و فکرمندی والے ممالک کی صفوں میں شامل کیا جانا چاہئے۔ اگر وہ اپنے ٹریک ریکارڈ میں بہتری نہیں لاتے ہیں تو ان پر تحدیدات عائد کرنا چاہئے۔ 2019ء میں امریکی پیانل کی رپورٹ کے مطابق انڈیا میں مذہبی آزادی کی صورتحال میں انحطاط آیا اور مذہبی اقلیتوں کو لگاتار حملوں کا نشانہ بنایا جانے لگا ہے۔ پیانل نے امریکہ سے تعزیری اقدامات لاگو کرنے پر زور دیا ہے جیسے ویزا پر پابندی اور مذہبی آزادی کی خلاف ورزی کیلئے ذمہ دار سمجھے جانے والے ہندوستانی عہدیداروں کے امریکہ میں داخلے کو روکنا، ایسے سیول سوسائٹی گروپس کیلئے فنڈس کو بھی روکنا جو نفرت پھیلانے کا کام کرتے ہیں۔ کمیشن نے کہا کہ مودی کی ہندو قوم پرست حکومت جسے 2019ء میں اکثریت حاصل ہوئی، وہ پارلیمنٹ میں اپنی عددی طاقت کا غلط استعمال کرتی پائی گئی ہے۔ کمیشن نے کہا کہ مودی حکومت نے اقلیتوں کے خلاف تشدد پر خاموشی اختیار کی اور ان کی عبادت گاہوں پر نشانہ بنانے پر بھی کوئی کارروائی نہیں کی بلکہ برسراقتدار قائدین نے نفرت انگیز تقاریر کے ذریعہ عوام کو تشدد پر اُکسایا ہے۔ وزیر داخلہ امیت شاہ کے تبصروں کی نشاندہی بھی کی گئی جنہوں نے زیادہ تر مسلم تارکین وطن کو دیمک کہا تھا۔ کمیشن نے شہریت ترمیمی قانون (سی اے اے) کا ذکر بھی کیا جس پر ملک گیر احتجاج چھڑ گئے۔ کشمیر کی خودمختاری کی تنسیخ کو بھی اُجاگر کیا گیا۔ جموں و کشمیر، ہندوستان کی واحد مسلم اکثریتی ریاست تھی لیکن دستور کے آرٹیکل 370 کو منسوخ کرتے ہوئے اسے تقسیم کردیا گیا اور اب وہ ریاست نہیں بلکہ مرکزی علاقہ ہے۔ رواں سال فروری میں دہلی پولیس نے شمال مشرقی دہلی میں فسادات کے دوران اکثریتی غنڈوں کے تشدد پر آنکھیں بند رکھیں۔ ہندوستانی حکومت جو طویل عرصہ سے امریکی کمیشن کے تبصروں سے پریشان ہے، اس نے اس رپورٹ کو فوری مسترد کردیا ہے۔ وزارت خارجہ کے ترجمان انوراگ سریواستو نے کہا کہ یہ ہندوستان کے خلاف جانبدارانہ تاثرات ہیں اور کوئی نئی بات نہیں ہے، لیکن اس موقع پر کمیشن غلط باتوں کو پیش کرنے کی نئی سطح تک پہنچ گیا ہے۔سریواستو نے کہا کہ حکومت اس ادارہ کو مخصوص نوعیت کا پیانل سمجھتی ہے اور اسی کے مطابق اس پر توجہ دی جائے گی۔ اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ نے مذہبی آزادی کی خلاف ورزی کے معاملے پر 9 ممالک چین، ایرٹریا، ایران ، میانمار ، نارتھ کوریا ، پاکستان ، سعودی عرب ، تاجکستان اور ترکمینستان کو نامزد کیا ہے۔

Thursday 30 April 2020

Who invented the concept of lockdown

Narrated `Abdullah bin 'Amir:
`Umar went to Sham and when he reached Sarah, he got the news that an epidemic or pandemic had broken out in Sham. `Abdur-Rahman bin `Auf told him that Allah's Messenger (ﷺ) said, "If you hear that it (pandemic ) has broken out in a land, do not go to it; but if it breaks out in a land where you are present, do not go out escaping from it."
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ، أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَامِرٍ، أَنَّ عُمَرَ، خَرَجَ إِلَى الشَّأْمِ، فَلَمَّا كَانَ بِسَرْغَ بَلَغَهُ أَنَّ الْوَبَاءَ قَدْ وَقَعَ بِالشَّأْمِ، فَأَخْبَرَهُ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَوْفٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم قَالَ ‏ "‏ إِذَا سَمِعْتُمْ بِهِ بِأَرْضٍ فَلاَ تَقْدَمُوا عَلَيْهِ وَإِذَا وَقَعَ بِأَرْضٍ وَأَنْتُمْ بِهَا فَلاَ تَخْرُجُوا فِرَارًا مِنْهُ ‏"‏‏.‏
Reference
: Sahih al-Bukhari 5728
In-book reference
: Book 76, Hadith 43
USC-MSA web (English) reference
: Vol. 7, Book 71, Hadith 624
(deprecated numbering scheme)

Wednesday 29 April 2020

حکومت کی بے حسی

15 دن پہلے اتر پردیش کے انصاف علی نے شراوستی ضلع میں اپنے گھر پہنچنے کے لیے ممبئی سے پیدل چلنا شروع کیا تھا۔ ممبئی کے وسئی میں رہنے والے مزدور انصاف علی نے راستے میں کھانے اور پانی کے لیے کافی جدوجہد کی، لیکن انھوں نے چلنا جاری رکھا اور تقریباً 1500 کلو میٹر پیدل چل کر اپنے گاؤں بھی پہنچ گیا۔ وہ پیر کے روز اپنے گاؤں کے باہری علاقے میں پہنچا اور اسے فوراً ضلع کے ملہی پور پولس اسٹیشن کے تحت مٹکھنوا میں ایک کوارنٹائن سنٹر میں لے جایا گیا۔
کچھ گھنٹے بعد پانی کی کمی اور تھکاوٹ کی وجہ سے انصاف علی کی موت ہو گئی۔ شراوستی کے پولس سپرنٹنڈنٹ انوپ کمار سنگھ کا اس معاملے میں کہنا ہے کہ علی صبح 7 بجے کے قریب مٹکھنوا پہنچے اور مقامی اسکول میں شروعاتی جانچ کرنے کے بعد انھیں چھوڑ دیا گیا۔ انوپ سنگھ مزید بتاتے ہیں کہ "انھیں ایک مناسب ناشتہ بھی دیا گیا جس کے بعد انھوں نے آرام کیا۔ لیکن پانچ گھنٹے کے بعد انھیں پیٹ کے اوپری حصے میں درد کی شکایت شروع ہوئی اور تین بار الٹی بھی ہوئی۔" وہ بتاتے ہیں کہ اس سے پہلے کہ ڈاکٹر کو بلایا جاتا، انصاف علی کی موت ہو گئی۔
چیف میڈیکل افسر اے پی بھارگو کا کہنا ہے کہ انھوں نے انصاف علی کے نمونے لیے تھے اور لکھنؤ میں ڈاکٹر رام منوہر لوہیا اسپتال میں کورونا وائرس ٹیسٹ کے لیے بھیج دیا تھا۔ چیف میڈیکل افسر کا کہنا ہے کہ "رپورٹ سامنے آنے کے بعد ہی ہم انصاف علی کی موت کے صحیح اسباب کا پتہ لگانے کے لیے اس کی لاش کا پوسٹ مارٹم کریں گے۔" حالانکہ انھوں نے ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ ڈاکٹروں کی ایک ٹیم کے ذریعہ کیے گئے شروعاتی جانچ کے دوران کورونا وائرس کی کوئی علامت دیکھنے کو نہیں ملی تھی۔
مٹکھنوا کے گرام پردھان اگیارام کا کہنا ہے کہ علی 14 اپریل کو شراوستی پہنچے تھے اور تقریباً 10 کلو میٹر دور اپنی سسرال میں رکے۔ انھوں نے کہا کہ "پیر کو وہ مٹکھنوا گاؤں میں اپنے گھر کے لیے نکلے اور ان کی طبیعت کچھ ٹھیک نہیں تھی۔" بہر حال، انصاف علی کافی مشقت سے اپنے گاؤں پہنچے تھے اور پھر اپنے رشتہ داروں کے ساتھ وقت گزارے بغیر دنیا سے کوچ کر گئے۔ بتایا جاتا ہے کہ انصاف علی اپنے پیچھے بیوی سلمہ بیگم اور 6 سالہ بیٹے کو چھوڑ گئے ہیں۔

Wednesday 22 April 2020

موت اس کی ہے کرے جس پہ زمانہ افسوس

پریم لتا
پنکھے پر لٹکی ہوئی لاش اورٹیبل پر رکھے سو سائڈ نوٹ نے اسپیکٹراودھیش کمار پانڈے کے سامنے ساری کہانی بیان کر دی تھی۔سوسائڈ نوٹ میں لکھا ہوا تھا۔
میں پریم لتا۔
میری موت کا ذمے دار کوئی ایک شخص نہیں بلکہ پورا سماج ہے۔خاص طور سے میرے پتی پرمیشور جمنا پرشاد شرما اور میرا بیٹا موہن داس شرما۔یہ وہ لوگ ہیں جنھوں نے میری فیلنگس (Feelings)کو کبھی نہیں سمجھا ۔میں آج بھی اپنے پتی کی پوجا کرتی ہوں او ر اپنے اکلوتے بیٹے موہن سے بے انتہاء محبت کرتی ہوں ۔مجھے جیون بھر افسوس رہا اور مرنے کے بعد بھی اس کا دکھ رہے گا کہ نہ میرے پتی مجھے سمجھ سکے اور نہ میرا بیٹا۔۔پتی تو خیر ۔۔۔لیکن میرا بیٹا تو میرا ہی انش ہے۔مجھے اس کا دکھ ہے کہ اس نے بھی مجھے جیتے جی مارنے میں کوئی کسر باقی نہ رکھی۔
میں آج بتانا چاہتی ہوں کہ میں کبھی غلط نہیں تھی۔ہاں اتنا ضرور تھا کہ میں غریب اور پریشان لوگوں کو نہیں دیکھ سکتی تھی۔کیونکہ میری تربیت اسی طرح ہوئی تھی۔مجھے آج بھی یاد ہے کہ ہمارے گھر کے دروازے پر جب کوئی بھیک مانگنے آتا تو ممی میرے پاتھ سے اسے آٹا یا روپئے دلواتیں۔پتا جی دیکھتے تو کہتے۔
'' پریما سے بھیک کیوں دلواتی ہو؟؟؟ تم خود کیوں نہیں دیتیں؟؟؟میں بھی تو گھر میں ہوں ۔۔۔ذرا انتظار کیا کرو۔''تو مری ممی کہتیں۔
''آپ نہیں سمجھیں گے ۔۔۔پریما کو ابھی سے لوگوں کی مدد کی عادت ہونی چاہئے ۔۔۔تاکہ بڑی ہوکر اسے دکھی لوگوں کی سہایتا کرنے میں کوئی جھجھک نہ ہو۔''
اس طرح میری تربیت ہوئی۔مجھے ایک واقعہ اور یاد آرہا ہے جب میں کالج کی چھاترا تھی ۔ہندی میرا سبجیکٹ تھا ۔میں نے ہندی ساہتیہ کا گہن ادھین کیا تو میرے دل میں انسانیت کا جذبہ اور زیادہ ابھرنے لگا مجھے لگتا کہ دنیا میں انسانوں نے انسانوں کا حق مارا ہے اگر ہم غریبوں کی زیادہ سے زیادہ مدد کریں تواس سے بڑا کوئی پنیہ نہیں۔اس لئے میں نے اپنی فیس کے روپے ایک غریب رکشہ والے کو دے دئیے مجھے لگا کہ اگر یہ رکشہ ایک دن نہیں کھینچے گا اور اس کا روپیوں سے خرچہ پورا ہو جائے گا تو میرے من کو بہت شانتی ملے گی۔لیکن جب یہ بات پتا جی کو پتہ چلی تو انھوں نے مجھے بہت ڈانٹاان کا کہنا تھا کہ وہ دن بھر تالوں کی فیکٹری میں کڑی محنت کرکے روپیہ کماتے ہیں اور میں انھیں فضول کے کامو ں میں اڑا دیتی ہوں۔انھیں میری پڑھائی بھی پسند نہیں تھی ان کا کہنا تھا کہ میں ایم اے کر کے کیا کروں گی؟؟؟ جب کہ شادی کے بعد مجھے گھر گرہستی کا کام سنبھالنا ہے۔
اچانک ایک نوجوان کے رونے نے اسپیکٹر اودھیش کمار پانڈے کو اپنی طرف متوجہ کیا۔
''تم ۔۔۔۔تم کون ہو؟؟؟۔''
اسپیکٹر نے آنے والے نوجوان سے سوال کیا ۔
''جی ۔۔۔میں ۔۔موہن داس شرما۔''
''ہمم۔۔۔میڈم کے بیٹے؟؟؟۔''
''جی۔۔۔''
کس لئے ۔۔۔آئے ہو؟؟؟۔۔۔تمہارے پتا جی کہاں ہیں؟؟؟۔''
''جی وہ۔۔۔''
''کیا۔۔۔وہ؟؟؟۔''
''جی ۔۔۔انھوں نے آنے سے انکار کر دیا۔''
''جی !!!
مجھے معلوم ہے۔۔۔ویسے تمہارا آنا بھی۔۔۔تمہیں کوئی فائدہ نہیں پہنچائے گا۔''
''جی!!! میں جانتا ہوں۔۔۔ممی مجھ سے ناراض تھیں۔''
اسپیکٹر نے ذرا خاموش رہ کر کہا۔
''یہ ۔۔۔آپ کی ممی کا سوسائڈ نوٹ ہے ۔۔۔خود ہی پڑھ لو۔''
''نہیں ۔۔۔میں نہیں پڑھ سکتا ۔۔۔مجھ میں اتنی طاقت نہیں۔''موہن نے آستین سے آنسو پہنچتے ہوئے کہااور برابر میں صوفے پر بیٹھ گیا ۔وہیں 'بھوری' بھی بیٹھی تھی۔جو خاموشی کے ساتھ آنسو بہارہی تھی اور بار بار اپنے ملگجی دوپٹے سے اپنی آنکھوں کو صاف کر رہی تھی۔دونوں نے ایک نظر ایک دوسرے کو دیکھا اور اپنی اپنی نگاہیں پھیر لیں۔
پنکھے سے پریم لتا کی لاش اتاری جا چکی تھی اور اسے پوسٹ مارٹم کے لئے بھیجنے کی تیاری ہورہی تھی۔
اسپیکٹر اودھیش نے ایک بار لاش کی طرف دیکھا اس نے دیکھا کہ لاش کے چہرے پر عجیب سا سکون ہے۔اس نے لاش سے نگاہ ہٹاتے ہوئے ایک بار پھر سو سائڈ نوٹ کو پڑھنا شروع کیا۔نوٹ میں لکھا ہوا تھا۔
میری ممی ہمیشہ میرا دفع کرتیں اور مجھے پڑھنے کے لئے ہر آسانی مہیا کرتیں ۔ان کی محنت کا ہی نتیجہ ہے کہ میں آج 'سینٹ سیموئل کالج آف لٹریچرعلی گڑھ'' کی پرنسپل ہوں۔لیکن ہر آسانی اور دولت کی فراوانی ہونے کے باوجود میں ابھی تک وہی بچی ہوں جو بچپنے میں غریبوں کے لئے دل دکھایا کرتی تھی۔مجھے آج بھی کسی غریب کو سخت سست سنانا اچھا نہیں لگتا ۔میں اپنے دفتر کے پی آن 'اقبال' کو ہمیشہ 'اقبال بھائی' کہہ کر پکارتی ہوں۔مجھے بہت برا لگتا ہے جب کوئی ٹیچر انھیں ان کے نام سے پکارتا ہے۔وہ ہم سے بڑے ہیں انھوں نے کالج کو اپنی زندگی کے پینتیس سال دئیے ہیں ۔ان کے چہرے پر داڑھی ہے تو کیا ہوا ؟؟؟وہ اگر مسلمان ہیں تو کیا ہوا؟؟؟ وہ کوئی آتنک وادی تو نہیں۔
اسپیکٹر اودھیش نے نوٹ کی عبارت ابھی یہیں تک پڑھی تھی کہ اس کو ایک شور نے اپنی جانب متوجہ کیا۔اس نے کانسٹیبل سریش سے کہا ۔
''ذرا پتا لگائو۔۔۔یہ شور کیسا ہے؟؟؟''۔۔۔ان لوگوں سے کہو سوشل ڈسٹنسنگ کا خیال رکھیں۔۔۔کیا انھیں معلوم نہیں کہ کورونا وائرس کی وجہ سے لاک ڈائون ہے؟؟؟۔''
یہ کہہ کر اسپیکٹر اودھیش پھر نوٹ پڑھنے میں مصروف ہوگیا۔اس میں لکھا ہوا تھا۔
وقت بھی کتنا ظالم ہے بڑی جلدی گذر جاتا ہے ۔پتہ نہیں کب میری شادی ہوگئی اور میں بیاہ کر گھنشیام پوری رام گھاٹ روڈ علی گڑھ سے میل روز اپارٹمنٹ بنا دیوی کے فلیٹ نمبر آٹھ میںآگئی۔یہاں کچھ دن تک سب ٹھیک رہا لیکن ایک دن میری تقدیر نے ایک موڑ لیا۔ سیموئل کالج آف لٹریچر علی گڑھ میں ہندی کے ٹیچرس کی جگہ نکلیں میں نے اپنے پتی جمنا پرشاد کو بتا یا تو انھوں نے کہا۔
''تمہیں معلوم ہے کہ ہمارے پاس کوئی کمی نہیں ۔۔۔ممی اور پاپا ۔۔۔تمہیں نوکری میں دیکھ کر خوش نہیں ہوںگے۔اور پھر موہن کی پرورش کا بھی تو سوال ہے۔''
لیکن میں اپنی ضد پر اڑی رہی اور کسی طرح نہ چاہتے ہوئے بھی میرے پتی میری نوکری کے لئے راضی ہوئے۔یہیں سے میری بربادی کا دور شروع ہوا ۔میں نے اسکول جانے کے لئے ایک رکشہ طے کیا ۔رکشہ والا غریب طبقے سے تعلق رکھتا تھا۔ایک دن میں جب کالج سے لوٹ رہی تھی۔تو مجھے اندازہ ہوا کہ وہ کچھ اداس ہے۔مجھ سے رہا نہ گیا میں نے کہا۔
''شاداب بھائی کیا ہوا؟؟؟کیوں اداس ہو؟؟؟
''نہیں !!! میم ساب کوئی بات نہیں۔''
''کچھ تو بات ہے؟؟؟''
''ہاں !!! جے بات ہے کہ ہم کل سے آپ کو کالج نہ لے جاسکیں گے۔''
''کیوں؟؟؟''
''وہ ۔۔۔ہم بتا نہیں سکتے۔۔۔آپ کو گھر پہنچ کر خودی پتہ لگ جائے گا۔''
شام کے پانچ بج چکے تھے فروری کا مہینہ تھا سردی ابھی پائوں پسارے ہوئے علی گڑھ میں اپنے رنگ دکھا رہی تھی۔میں روز کی طرح گھر پہنچی۔دروازہ کھٹکھٹایا ۔تو موہن نے کھولا۔گھر میں ایک چبھتی ہوئی خاموشی نے میرا استقبال کیا۔ڈرائنگ روم میں ہمارے پڑوسی اجے پال یادوبیٹھے تھے۔ان کے برابر میں صوفے پر میری ساس سسر اور میرے پتی بیٹھے تھے۔
جمنا پرشاد نے مجھ سے مخاطب ہو کر کہا ۔۔کہاں سے آرہی ہو؟؟میں نے جواب دیا ۔
''کیا تمہیں نہیں معلوم؟؟؟''
''معلوم ہے۔۔۔یہ بتائو کہ تم جس رکشے والے کے ساتھ آتی ہو وہ تمہیں کیسا لگتا ہے؟؟؟''
میرے پتی کے اس سوال نے میرے دل کو اندر تک زخمی کردیا۔
''کیا ۔۔۔کیا ۔۔مطلب؟؟؟''میں نے اپنے غصے کو قابو کرتے ہوئے کہا۔
''مطلب یہ کہ اجے پال بھائی صاحب نے ۔۔تمہیں ۔۔۔'''
''کیا۔۔۔تمہیں؟؟؟''
اچانک میرے جگر کا ٹکڑا موہن بول اٹھا ۔
''آپ نے رکشے والے کو دس ہزار روپے بینک سے نکال کر دئیے ۔یہ اجے پال انکل نے اپنی آنکھوں سے دیکھا''۔
''تو کیا ہوا؟؟؟ہاں دئیے۔۔۔اس میں غلط کیا ہے؟؟؟''
میں نے برجستہ جواب دیا۔
''ممی ایک تو وہ غریب ۔۔۔اور پھر ۔۔۔پھر ۔۔۔مسلمان۔۔۔آپ نے ایک مسلمان کی مدد کی۔۔۔ کیوں؟؟؟''
''اس کی لڑکی کی شادی تھی۔۔اسے پیسوں کی ضرورت تھی۔''
یکایک میری ساس پائل دیوی بول اٹھیں۔
''تمہارے اس کے ساتھ ۔۔۔۔''
جملہ ادھورا ہی رہ گیا لیکن مجھے تکلیف پہنچا گیا۔ایسا لگا کسی نے میرے دل میں ہزاروں چھریاں پیوست کر دیں ہوں۔
سسر جی بھی کہاں پیچھے رہنے والے تھے۔غصے سے بولے۔
''دیکھ پریما۔۔۔ تیری بہت شکایت آرہی ہیں۔۔۔کبھی تو سبزی والے سے بولتی ہے۔۔کبھی پھل والے کو دیکھ کر مسکراتی ہے۔۔۔ساری سوسائٹی میں تیرے چرچے ہو رہے ہیں۔۔۔اور۔۔۔ہماری ناک کٹ رہی ہے۔''
جمنا پرشاد کی آنکھوں میں لہو تیر رہا تھا اس نے آئو دیکھا نہ تائو میرے بال پکڑ کر ایک طمانچہ لگاتے ہوئے بولا ۔۔۔اب تو کبھی کالج نہیں جائے گی۔''
''میں ضرور جائوں گی۔''
میں نے بھی غصے کے عالم میں کہا۔مجھے سب سے زیادہ اس بات کا افسوس تھا کی مجھے پڑوسی کے سامنے مارا گیا تھا۔رات جیسے تیسے کٹی۔اگلی صبح جب میں کالج کے لئے تیار ہوئی تو جمنا پرشادنے موہن سے کہا ۔
''اپنی ممی سے کہہ دے اگر گھر سے باہر گئی تو پھر کبھی لوٹ کر یہاں نہ آئے۔''
ابھی اسپیکٹر سوسائڈ نوٹ پڑھ ہی رہا تھا کہ اس نے دیکھا کہ پریم لتا کا اسٹاف اس کی موت کی خبر پاکر اس کے گھر آچکا تھا۔
ایک ضعیف داڑھی والے بوڑھے نے جیوں ہی یہ منظر دیکھا کہ پریم لتا کی لاش زمین پر پڑی ہوئی ہے ۔بے تحاشہ رونے لگا،ایک تلک دھاری ادھیڑ عمر کے شخص نے اسے خاموش کرایا ۔
''اقبال بھائی ۔۔۔صبر کرو۔۔۔شانت رہو۔۔۔میڈم کے مرنے کا دکھ ہمیں بھی ہے۔''
اچانک اسپیکٹر کو محسوس ہوا کہ سوسائڈ نوٹ ایک بار پھر اسپیکٹر سے مخاطب ہے اور کہہ رہا ہے مجھے مکمل پڑھو۔اس میں آگے لکھا ہوا تھا۔
تقریباً تین سال ہو چکے ہیں اب میں ایک کرائے کے مکان پرکوارسی بائی پاس میں پی اے سی کے پاس رہتی ہوں۔یہاں بھی آکر مجھے سکون نہیں ۔پتی اور بیٹے نے تو کب کا قطع تعلق کر لیا ہے لیکن یہاں کے آس پاس کے لوگ بھی مجھے تکلیف پہنچاتے ہیں مجھ پر طرح طرح کے طنز کرتے ہیں۔اس میں میرا کیا قصور ہے کہ میں ایک غریب بھکارن کو اپنے گھر یہ سوچ کر لے آئی ہوں کہ کورونا وائرس کی وجہ سے غریبوں پر فاقہ کشی کی نوبت ہے۔میری مراد' بھوری' سے ہے یہ مجھے تقریباً ڈیڑھ سال پہلے آکر ملی تھی میں اپنے ڈرائنگ روم میں بیٹھی میرا بائی کی رچنائیں پڑھ رہی تھی کہ کسی نے دروازہ کھٹکھٹایااور آواز آئی۔
''اﷲکے نام پر دے دو باجی۔۔۔۔اﷲکے نام پر دے دو باجی۔۔۔''
مجھے تعجب ہواکہ ہمارے محلے میں اﷲکے نام پر مانگنے والا کون آگیا ؟؟؟کیا اسے یہاں ڈر نہیں لگتا؟؟؟خیر میں نے اسے دس کا نوٹ دیا۔اب وہ روزانہ شام کو میرے دروازے پر یہی صدا دیتی۔
''اﷲکے نام پر دے دو باجی۔۔۔۔اﷲکے نام پر دے دو باجی۔۔۔''
ایک دن میرے ایک پڑوسی کو شکایت ہو ہی گئی ۔
''آپ کو معلوم ہے میڈم یہ مانگنے والی کون ہے؟؟؟''
''کون ہے گپتا جی؟؟؟۔۔۔انسان اور کون؟؟؟۔۔۔وہ بھی غریب۔۔۔میں اس کے بارے میں جانتی ہوں جیون گڑھ میں رہتی ہے۔۔۔اس کا پتی شرابی ہے۔کچھ کماتا نہیں اسے مارتا الگ ہے۔۔۔بچہ کوئی ہے نہیں ۔''
گپتا جی چڑ کر بولے۔
''آپ تو پتہ نہیں کہاں کہاں کی کتھا سنانے لگیں۔۔۔آپ کو معلوم ہے یہ مسلمان ہے۔۔۔اور ۔۔۔مسلمانوں سے میں نفرت کرتا ہوں۔۔''
''وہ کیوں؟؟؟''
''یہ چور۔۔اچکے۔۔۔اور ۔۔۔آتنک وادی ہوتے ہیں۔۔۔دیش سے محبت نہیں کرتے۔۔۔غدار ہیں۔۔۔''
''میں نے مسکراتے ہوئے جواب دیا۔
''کس نے کہا؟؟؟''
''ارے!!! لیجئے ساری دنیا کہتی ہے۔۔۔نیوز چیلنزنہیں دیکھتیںآپ؟؟؟۔''
بات ختم ہوگئی لیکن محلے میں ایک نئے انداز میں میری بدنامی شروع ہوگئی۔اس بدنامی کو اس وقت اور پر لگے جب کورونا وائرس کی وجہ سے لاک ڈائون ہوا تو ایک دن صبح سویرے 'بھوری 'روتی ہوئی میرے گھر آئی۔
''میڈم جی!!! میڈم جی!!! میرے شوہر نے آج مجھے بہت مارا۔''
''کیوں؟؟؟۔''
میں نے اسے ڈارئنگ روم میں پڑے ہوئے صوفے پر بیٹھنے کے لئے اشارہ کرتے ہوئے کہا۔وہ نیچے فرش پر بیٹھنے لگی۔میں نے کہا۔
''زمین پر نہیں صوفے پر بیٹھو۔''
میں نے محسوس کیا کہ اس کے سانولے رنگ میں مزید اضافہ ہو چکا تھا اور اس کی گردن پر کٹے کا نشان تھا۔
اس واقعہ کے بعد وہ میرے گھر پر ہی رہ رہی ہے۔لیکن آج مجھے بہت افسوس ہوا جب میرے پاس میرے بیٹے کا فون آیا۔
''ممی !!! بہت ہوا۔۔۔پہلے آپ رکشے والے کے ساتھ گھومتی تھیں اور اب ایک مسلمان بھکارن کے ساتھ آپ کے۔۔۔۔''
اس کی بات ادھوری ہی رہ گئی اور میں نے فون کاٹ دیا۔
میں سب کچھ برداشت کر سکتی ہوںلیکن اپنوں کی غلط فہمی نہیں ،خاص طور سے اپنے بیٹے موہن کی۔اس لئے میں خود کو ختم کر رہی ہوں بھوری بغل کے کمرے میں سو رہی ہے اور میں ہمیشہ کے لئے سونے جا رہی ہوں۔میرے بعد میرے بینک میں جتنا روپیہ ہے اس کی مالک بھوری ہے اور میرے پتی اور بیٹے کو میرے انتم سنسکار میں نہ آنے دیا جائے۔
پریم لتا ۔شانتی کٹیر۔4/222کوارسی نیر پی اے سی علی گڑھ۔
سوسائڈ نوٹ نے پریم لتا کی ساری کہانی بیان کر دی تھی۔اسپیکٹر اودھیش کمار کی آنکھوں میں چند آنسوئوں کے قطرے جھلک کر خشک ہو گئے۔برابر میں ایک گھر سے ٹی وی کی زور سے آواز آرہی تھی۔''مسلمانوں کی وجہ سے پھیلا کورونا وائرس۔''

Saturday 18 April 2020

بھارتی مسلمانوں کے لیے 'صورت حال نسل کشی کی طرف جا رہی ہے،' ارون دتی رائے

ارون دتی رائے نے جمعہ سترہ اپریل کو ڈوئچے ویلے کو دیے گئے ایک انٹرویو میں خبردار کیا کہ اس وقت پوری دنیا میں پھیل چکی کورونا وائرس کی وبا کے تناظر میں بھارت میں اس وبائی مرض کی آڑ میں جو صورت حال پیدا ہو رہی ہے، اس پر پوری دنیا کو نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔
ایک ارب تیس کروڑ کی آبادی والے ملک بھارت میں کورونا وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے ملکی سطح پر لاک ڈاؤن کے چھ میں سے تین ہفتے پورے ہو چکے ہیں۔ نئی دہلی میں مودی حکومت کا کہنا ہے کہ اس لاک ڈاؤن کا مقصد کووِڈ انیس نامی مرض کا سبب بننے والے وائرس کے پھیلاؤ کے سلسلے کو منقطع کرنا ہے۔ تاہم جنوبی ایشیا کے اس ملک میں کورونا وائرس کے خلاف جدوجہد کا ایک مذہبی پہلو بھی ہے۔ مثال کے طور پر شہر میرٹھ میں مسلم اقلیتی شہریوں کو اس لیے نشانہ بنایا جا رہا ہے کہ چند مقامی شخصیات کے بقول وہ مبینہ طور پر 'کورونا جہاد' کر رہے تھے۔
'مسلمانوں کے خلاف نفرت کا بحران'
ڈی ڈبلیو نیوز نے اس پس منظر میں معروف بھارتی ناول نگار اور سماجی کارکن ارون دتی رائے کے ساتھ ایک انٹرویو میں ان سے یہ پوچھا کہ وہ کیا کہنا چاہیں گی کہ اس وقت ان کے اپنے وطن میں کیا ہو رہا ہے؟ اس سوال کے جواب میں ارون دتی رائے نے کہا، ''بھارت میں کووِڈ انیس کا مرض اب تک کسی حقیقی بحران کی وجہ نہیں بنا۔ اصل بحران تو نفرت اور بھوک کا ہے۔ مسلمانوں کے خلاف نفرت کا ایک بحران ہے، جس سے قبل دہلی میں قتل عام بھی ہوا تھا۔ قتل عام، جو اس بات کا نتیجہ تھا کہ لوگ شہریت سے متعلق ایک مسلم مخالف قانون کے خلاف احتجاج کر رہے تھے۔ اس وقت بھی جب ہم یہ گفتگو کر ر ہے ہیں، کورونا وائرس کی وبا کی آڑ میں بھارتی حکومت نوجوان طلبہ کو گرفتار کرنے میں لگی ہے۔ وکلاء، سینیئر مدیران، سیاسی اور سماجی کارکنوں اور دانشوروں کے خلاف مقدمات قائم کیے جا چکے ہیں اور ان میں سے کچھ کو تو حال ہی میں جیلوں میں بند بھی کیا جا چکا ہے۔''
ڈی ڈبلیو نیوز کی سارہ کَیلی نے اس انٹرویو میں ارون دتی رائے سے یہ بھی پوچھا کہ اگر ان کے بقول بھارت میں اصل بحران نفرت کا بحران ہے، تو پھر ایک سماجی کارکن کے طور پر خود ان کا بھارت کی ہندو قوم پسند حکومت کے لیے اپنا پیغام کیا ہو گا، جو بظاہر کشیدگی کو ہوا دے رہی ہے؟
اس سوال کے جواب میں متعدد ناولوں کی انعام یافتہ مصنفہ ارون دتی رائے نے کہا، ''مقصد ہی یہی ہے۔ آر ایس ایس نامی وہ پوری تنظیم جس سے وزیر اعظم مودی کا بھی تعلق ہے اور جو حکمران جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے پیچھے فعال اصل طاقت ہے، وہ تو عرصے سے یہ کہتی رہی ہے کہ بھارت کو ایک ہندو ریاست ہونا چاہیے۔ اس کے نظریہ ساز بھارتی مسلمانوں کو ماضی کے جرمنی میں یہودیوں سے تشبیہ دے چکے ہیں۔ جس طرح بھارت میں کووِڈ انیس نامی بیماری کو استعمال کیا جا رہا ہے، وہ طریقہ کافی حد تک ٹائیفائیڈ کے اس مرض جیسا ہے، جسے استعمال کرتے ہوئے نازیوں نے یہودیوں کو ان کے مخصوص رہائشی علاقوں میں ہی رہنے پر مجبور کیا تھا۔ میں بھارت میں عام لوگوں اور دنیا بھر کے انسانوں کو یہی کہوں گی کہ وہ اس صورت حال کو بہت ہلکے پھلکے انداز میں نہ لیں۔''
'بھارت میں صورت حال نسل کشی کی طرف بڑھتی ہوئی'
ارون دتی رائے نے اپنی اس تنبیہ کی وضاحت کرتے ہوئے ڈوئچے ویلے کو بتایا، ''بھارت میں اس وقت صورت حال نسل کشی کی طرف جا رہی ہے، کیونکہ حکومت کا ایجنڈا یہی رہا ہے۔ جب سے موجودہ حکومت اقتدار میں آئی ہے، مسلمانوں کو جلایا گیا اور ان کا شکار کیا گیا۔ لیکن اب مسلمانوں کے اس وبا کے ساتھ نتھی کیے جانے سے حکومتی پالیسیاں کھل کر سڑکوں تک پر آ گئی ہیں۔ آپ ہر جگہ ان کی بازگشت سن سکتے ہیں۔ اس بات کے ساتھ شدید تشدد اور خونریزی کا خطرہ بھی جڑا ہوا ہے۔ اب تو اسی شہریت ترمیمی قانون کا نام لے کر حراستی مراکز کی تعمیر بھی شروع ہو چکی ہے۔ اب اس صورت حال کو بے ضرر سا بنا کر اور کورونا وائرس کی وبا سے منسوب کر کے ایسا کچھ کرنے کی کوشش کی جائے گی، جس پر دنیا کو اچھی طرح نظر رکھنا چاہیے۔ اس سے زیادہ اس خطرے کی نشاندہی میں نہیں کر سکتی۔''
ارون دتی رائے نے حال ہی میں اپنے ایک مضمون میں بھی لکھا تھا کہ بھارت کے موجودہ حالات ایک ایسا المیہ ہیں، جو بہت بڑا اور حقیقی تو ہے لیکن نیا نہیں ہے۔ ''تو پھر اس المیے کی نشاندی کے حوالے سے کس کی آنکھیں کھلی ہیں اور کس کی آنکھیں بند ہیں؟'' اس پر رائے کا جواب تھا، ''دنیا کی آنکھیں بند ہیں۔ ہر بین الاقوامی رہنما وزیر اعظم (نریندر مودی) کا خیر مقدم کرتا اور گلے ملتا نظر آتا ہے، حالانکہ وہ بھی تو خود اس پورے ایجنڈے کا حصہ ہیں۔ جب پرتشدد واقعات شروع ہوتے ہیں، تو مودی خاموش رہتے ہیں۔ دہلی میں جو گزشتہ قتل عام ہوا، وہ وہی وقت تھا جب امریکی صدر ٹرمپ بھی بھارت کے دورے پر تھے۔ لیکن ٹرمپ نے بھی کچھ نہ کہا۔ کوئی بھی کچھ نہیں کہتا۔ اسی طرح بھارتی میڈیا بھی، سارا نہیں لیکن اس کا ایک حصہ، آج کل ایک نسل کش میڈیا بنا ہوا ہے، ان جذبات کی وجہ سے جن کو ابھارنے کا وہ کام کر رہا ہے۔ بھوک کے اس بحران کی تو میں نے ابھی بات ہی نہیں کی، جس کا کئی ملین بھارتی باشندوں کو سامنا ہے۔''

Sunday 12 April 2020

The similarity between Judaism and Islam:


There is a common perception that Muslims and Jews have been at odds for hundreds of years. Consequently, it is often stated that the “Muslim-Jewish conflict” can never be resolved. However, this is historically inaccurate. People mistakenly conflate the Israeli-Palestinian conflict with Islam and Judaism. Even then, the Israeli-Palestinian conflict started in 1948, prior to that there were very few wars between Muslims and Jews. This is not meant to downplay the conflicts that do occur but to contextualize them historically. These two faiths share more in common than many might initially think. With the rise of anti-Semitism and Islamophobia around the world, it is important to understand what these two faiths have in common.
The Qur’ān refers to Jews and Christians as people of the bookأهل الكتاب.This means that they have a special place and treatment because of their similar beliefs with Muslims. Many might be surprised to know that Islam allows Muslim men to marry Jewish or Christian women. Further, Islam allows Muslims to eat meat that was properly slaughtered by a Jew or Christian. The two faiths are not as radically different than some might expect. The purpose of this article is to dispel the myth that Islam and Judaism are completely at odds by highlighting some of the similarities between the two religious traditions.
They worship the same God
Islam and Judaism are resolutely monotheistic faiths. Allah is the Arabic name for God. The Arabic name Allah has linguistic connotations that are not shared with the English term God. For instance, the word Allah cannot be made plural like the word God. Nevertheless, Allah is the same Creator, Sustainer, and Provider that Jews and Christians worship.
Jesus
Because these two faiths are strictly monotheistic in nature, they both do not consider Jesus to be divine. They both consider it blasphemous to attribute a literal son to God. The idea that God has a son is inconsistent with the uncompromising monotheistic message found both in the Qur’ān and Torah. However, unlike Jews, Muslims believe that Jesus is a great Prophet of God who delivered the message of Oneness to the Children of Israel and that his mother Mary was the greatest of all women.
Prophets
Muslims and Jews share beliefs in certain Prophets. They both believe that God sent Prophets to mankind to deliver the message of monotheism. Jews believe that Moses is the greatest of all Prophets who was sent to mankind. Muslims also believe in Moses, who is, in fact, the Prophet most mentioned in the Qur’ān. Muslims and Jews also believe in Abraham, Noah, David, Solomon, Isaac, Jacob, and Joseph. Because Muslims believe in all Prophets and Messengers, they also believe in the scripture they delivered. Therefore, Muslims believe that Moses was given a book called the Torah. However, they believe this book was not preserved in its original form. For Muslims the Prophet Muhammad, God’s final Messenger to mankind who delivered the final book, the Qur’ān.
Jerusalemبيت المقدس
Historically, many of these Prophets resided in the city of Jerusalem. Both Islam and Judaism consider Jerusalem to be a holy city. Prophet Solomon established the first Temple in Jerusalem which made it the religious centre for Judaism. Jerusalem is Islam’s third-holiest city after Mecca and Medina. Prophet Muhammad was taken on a miraculous journey from Mecca to Jerusalem and then ascended to the heavens.
Circumcision
Islamic law and Jewish law share many things in common. In the Bible, Abraham was commanded to undergo circumcision. This practice has been established among Abraham’s children. The Torah instructs that newborns be circumcised on the eighth day after birth. The command for circumcision is not in the Qur’ān, but the Prophet Muhammad peace be upon him required it for his male followers.
Dietary Restrictions
Jews only eat kosher and Muslims only eat halal. There are many similarities between kosher and halal, and in some cases, kosher is considered halal for Muslims. Some kinds of foods, such as pork, are prohibited in both Islam and Judaism. Other kinds of foods must be prepared in a certain way for them to be permissible for consumption. The animal must be slaughtered properly, mentioning the name of God, and for Jews, the person must be Jewish. However, Muslims are allowed to consume an animal if it is slaughtered by a Muslim, Jew, or Christian.
Female Head Covering
Both religions encourage modesty and require that women cover their hair. This is not meant to detract from women’s beauty, but to channel it to her marriage where it truly belongs. Many married Jewish women wear a scarf to cover their hair. Islam instructs that women wear a headscarf (hijab) after puberty. Along with the head covering, both religions encourage women to dress modestly. This includes wearing long and loose-fitting clothing. Although they both cover in very similar ways after 9/11 Muslim women have been targeted for their hijabs more than women of other faiths.

Wednesday 8 April 2020

ہندوستان میں مسلم مخالف میڈیاکی جھوٹی خبریں اور ان کی حقیقت

انڈیا: ’تبلیغی جماعت کا نام آیا تو افواہوں نے مسلم مخالف رنگ اختیار کر لیا‘

دلی کے علاقے نظام الدین میں تبلیغی جماعت کا اجتماع ہوا تھاتصویر کے کاپی رائٹGETTY IMAGES
Image captionدلی کے علاقے نظام الدین میں تبلیغی جماعت کے اجتماع کے بعد ملک میں اس سے جوڑے افراد میں کورونا وائرس کے مثبت کیسز سامنے آئے ہیں
صحافی دیپک چورسیا کا شمار انڈیا کے مشہور ہندی ٹی وی اینکرز میں ہوتا ہے۔ وہ اس وقت ہندی ٹی وی چینل نیوز نیشن کا اہم چہرہ بھی ہیں اور ٹوئٹر پر ان کے فالورز کی تعداد ایک لاکھ سے زیادہ ہے۔
انھوں نے اتوار کی دوپہر اپنے ایک ٹویٹ میں دعویٰ کیا کہ اتر پردیش کے پریاگراج (جسے پہلے الہ آباد کے نام سے جانا جاتا تھا) میں تبلیغی جماعت پر تنقید کرنے کی وجہ سے ایک نوجوان کا قتل کر دیا گیا۔ انہوں نے لکھا تھا ’پریاگراج میں جماعت پر تنقید کرنے کی وجہ سے ایک نوجوان کا قتل کر دیا گیا۔ محمد سونا پر گولی مارکر ہلاک کرنے کا الزام عائد ہوا ہے۔ تبصرہ کرنے پر گولی مارنا، اتنی حیوانیت آتی کہاں سے ہے؟‘

یہ بھی پڑھیے

دیپک چورسیا کی ٹویٹتصویر کے کاپی رائٹDEEPAKCHAURASIA@TWITTER
اسی طرح کی خبر کم از کم ایک ہندی اخبار میں بھی شائع ہوئی۔ تاہم، بعد میں چورسیا کی ٹویٹ کا جواب دیتے ہوئے مقامی پولیس نے کہا کہ ’اس معاملے کا تبلیغی جماعت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔‘
اسی طرح اتوار کو ہی ہندی کے کثیر الاشاعت اخبار ’امر اُجالا‘ کے فرنٹ پیج پر خبر شائع ہوئی، جس میں دعویٰ کیا گیا کہ اتر پردیش کے سہارنپور میں قرنطینہ کے دوران تبلیغی جماعت سے وابستہ لوگوں کی جانب سے ’نان ویج کھانے کے مطالبے کو نہ پورا کیے جانے کے بعد ان کی طرف سے ہنگامہ کیا گیا اور کھلے میں رفع حاجت کی گئی‘۔
’امر اُجالا‘تصویر کے کاپی رائٹAMAR UJALA
اس خبر کو دوسرے میڈیا اداروں نے بھی شائع کیا۔ مقامی انتظامیہ کو جب اس کا علم ہوا تو اس نے اس معاملے کی تفتیش کی اور اسے غلط پایا۔ ضلع پولیس کی طرف سے جاری کردہ ایک بیان میں کہا گیا کہ پولیس معاملے کی تفتیش کے بعد اس نتیجے پر پہنچی ہے کہ ایسا کوئی واقعہ پیش نہیں آیا تھا۔ پولیس نے میڈیا اداروں کو اس خبر کی تردید شائع کرنے کا حکم جاری کیا ہے۔
پیر کو زی نیوز اور کچھ دوسرے میڈیا اداروں نے خبر چلائی کہ ’اتر پردیش فیروز آباد میں تبلیغی جماعت کے کورونا پازیٹو افراد کو لینے پہنچی میڈیکل ٹیم پر پتھراؤ کیا گیا‘۔ پولیس نے اس معاملے کو بھی فیک بتایا ہے۔ مقامی پولیس نے اپنے آفیشل ٹوئٹر اکاؤنٹ پر جاری ایک بیان میں کہا کہ ’ضلعے میں ایسا کوئی واقعہ پیش نہیں آیا ہے اور یہ خبر جھوٹی ہے اور اسے فوراً ڈیلیٹ کیا جائے‘۔ اس کے بعد زی نیوز نے اس خبر کو اپنے ٹوئٹر سے ہٹا لیا ہے۔ لیکن گوگل کرنے پر فیروز آباد کے بارے میں ہی اسی طرح کی خبر مل جاتی ہے۔
زی نیوز اور فیروز آباد پولیس کے ٹویٹتصویر کے کاپی رائٹZEE@TWITTER

مسلمانوں کے خلاف فیک نیوز اور افواہیں

در اصل کورونا وائرس کے معاملے میں تبلیغی جماعت والوں کا نام آنے کے بعد انڈیا میں تبلیغی جماعت اور مسلمانوں کے بارے میں فیک نیوز اور افواہوں کا سیلاب سا آ گیا ہے۔ اور اس کا دائرہ صرف اتر پردیش اور ہندی میڈیا تک محدود نہیں ہے۔ ملک کی دوسری ریاستوں اور زبانوں میں بھی ایسی خبریں عام کی جا رہی ہیں، جس کے ذریعے کورونا کی وبا کے لیے مسلمانوں کو ذمہ دار ٹہرایا جا سکے۔
گذشتہ دنوں میڈیا میں یہ خبر عام کی گئی کہ جنوبی ہند کی ریاست تامل ناڈو میں تبلیغی جماعت سے تعلق رکھنے والے 18 افراد کو کورونا وائرس سے متاثر پایا گیا ہے. تاہم بعد میں پتہ چلا کہ ان کا ٹیسٹ بھی نہیں ہوا تھا اور میڈیا میں یہ خبر بنا کسی ٹھوس بنیاد کے عام کر دی گئی۔ اصل معاملہ یہ تھا کہ تبلیغی جماعت سے تعلق رکھنے والے افراد خود ٹیسٹ کروانے ہسپتال گئے تھے لیکن ان کا ٹیسٹ نہیں ہوا تھا۔
ڈیکن کرانیکلتصویر کے کاپی رائٹDECCAN CHRONICLE
ہندوستان میں فیک نیوز پر نظر رکھنے اور اس کا انکشاف کرنے والے ادارے آلٹ نیوز کے سربراہ پرتیک سنہا کا کہنا ہے کہ حالیہ دنوں میں کورونا وائرس اور مسلمان مخالف افواہوں میں زبردست اضافہ ہوا ہے۔ انہوں نے احمد آباد سے فون پر بتایا کہ شروع میں جب کورونا وائرس کے متعلق خبریں عام ہوئیں تو افواہوں کی نوعیت بنیادی طور پر صحت پر اس کے اثرات اور اس کے علاج کے متعلق غلط فہمیوں تک محدود تھی مگر جیسے ہی اس معاملے میں تبلیغی جماعت کا نام آیا تو افواہوں اور فیک نیوز نے مسلم مخالف رنگ اختیار کر لیا۔
ان کا کہنا ہے کہ گذشتہ چند دنوں میں خود ان کی ٹیم نے ایک درجن سے زیادہ معاملوں کا انکشاف کیا ہے۔ ان کے مطابق ’پرانی تصویروں، ویڈیوز اور خبروں کے ذریعے ملک میں مسلم مخالف ماحول بنایا جا رہا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس کے لیے پاکستانی تصاویر کا بھی استعمال کیا جا رہا ہے‘۔
اس کا فوری اثر یہ ہوا کہ بعض لوگوں میں تبلیغی جماعت اور مسلمانوں کی مخالفت میں اضافہ ہوا جن میں ایسے لوگ بھی شامل تھے جن سے آپ عمومی طور پر توقع نہیں کرتے کہ وہ ایسی فواہیں سن کر بغیر تصدیق کیے اس پر اعتماد کر لیں گے۔ ان حالات نے مسلمانوں میں بھی اضطراب کی کیفیت پیدا کر دی ہے۔ کئی مقامات سے مساجد اور مسلمانوں پر حملوں کی خبریں بھی موصول ہو رہی ہیں۔ کئی مقامات پر مسلمانوں کے سماجی اور معاشی بائیکاٹ کی اپیل بھی کی جا رہی ہے۔
کورونا بینر
لائن

دلشاد محمود کی خودکشی

ان مسلم اور تبلیغی جماعت مخالف خبروں کا اثر تھا کہ ریاست ہماچل پردیش کے ضلع اُنا میں دلشاد محمود نامی شخص نے اتوار کو خودکشی کرلی۔ دلشاد کو لوگوں نے تبلیغی جماعت سے جڑے رہنے پر ملامت کی جس سے پریشان ہوکر انھوں نے یہ قدم اٹھایا۔ مقامی پولیس انچارج راکیش کمار کے مطابق، علاقے کے دو افراد تبلیغی مرکز کے اجتماع میں شامل ہوئے تھے جن سے دلشاد کے تعلقات تھے۔ احتیاط کے پیش نظر دلشاد نے کورونا کی جانچ کروائی تھی تاہم ان کی رپورٹ نگیٹیو آئی تھی۔
دلشاد کی والدہ نے کہا کہ ان کے ’بیٹے کی بےعزتی کی گئی، حتیٰ کہ لوگوں نے اس سے دودھ خریدنا بند کردیا جس سے مجبور ہو کر اس نے یہ قدم اٹھایا‘۔ وہیں دلشاد کی اہلیہ نے انگریزی روزنامے دی ٹریبیون کو بتایا کہ لوگوں نے ان کے حاندان والوں سے بھی تعلقات منقطع کر لیے تھے اور انھیں مسلسل ہراساں کیا جارہا تھا۔ اتنا ہی نہیں کورونا وائرس کی رپورٹ نگیٹیو آنے کے بعد بھی ان کے شوہر کے ساتھ بدسلوکی کی گئی جس سے مجبور ہوکر انھوں نے خود کی جان لی۔

’نفرت کے تاجر‘

دلی یونیورسٹی کے استاد اور سماجی تجزیہ کار پروفیسر اپورو آنند اس سلسلے میں کہتے ہیں کہ اس سب کے پیچھے ایک خاص نفسیات کام کر رہی ہے، جس کی بنیاد مسلم مخالفت ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ مسلمانوں کے خلاف فیک نیوز اور افواہیں نہ صرف ’ایک قسم کی سماجی بیماری ہے بلکہ اس نے ایک انڈسٹری کی شکل اختیار کر لی ہے۔ یہ خبریں خوب چلتی ہیں، اور خبر نویس ایسی خبریں نہ صرف لکھتا ہے بلکہ گڑھتا ہے۔ ایڈیٹرز اور مالکان ایسی خبریں تیار کرنے کا حکم دیتے ہیں۔ افسوس کی بات ہے کہ ان سب کو ایک متبادل نقطہ نظر کے طور پر پیش کیا جاتا ہے، جس پر اندھا دھند یقین کرنے والوں کی اچھی خاصی تعداد ہے۔‘
اس مسئلے سے نجات پانے کے سلسلے میں وہ کہتے ہیں کہ اس صورتحال کا مقابلہ صرف قانون کے ذریعے نہیں کیا جا سکتا۔ ’جب تک سماج میں مسلمانوں کے تئیں نفرت کا مادہ موجود ہے، صورتحال میں بہتری ناممکن ہے‘۔
ایک سینئر صحافی کے ساتھ اپنی ایک گفتگو کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ انھوں نے ایک بار’مجھ سے پوچھا تھا کہ آخر کب تک ہندوستان کی مذہبی اقلیتوں کو ہندوؤں کے ذہنی طور پر درست ہونے کا انتظار کرنا پڑے گا؟‘
پروفیسر اپورو آنند نے مزید کہا کہ ’یہ سوال سارے ہندوؤں کو سننا ہوگا۔ انھیں اس پر سوچنا ہوگا اور جب تک ایسا نہیں ہوگا، نفرت کے تاجر اس کا فائدہ اٹھاتے رہیں گے۔‘