https://follow.it/amir-samdani?action=followPub

Saturday 25 September 2021

آسام میں دومظاہرین کی ہلاکت اورلاش کی بے حرمتی

 بھارتی ریاست آسام میں پولیس کارروائی میں ایک مہلوک کی لاش کی بے حرمتی کے بعد حالات کشیدہ ہوگئے ہیں۔ حکومت کی جانب سے تحقیقات کے احکامات جاری کر دیے گئے ہیں۔بھارت کی شمال مشرقی ریاست آسام میں 'غیر قانونی تجاوزات‘ کے خلاف پولیس کارروائی میں دو مسلمانوں کی ہلاکت اور لاش کی بے حرمتی کے واقعے کی سخت مذمت کی جارہی ہے اور اسے 'حیوانیت کی انتہا‘ قرار دیا جا رہا ہے۔ آسام کے درانگ ضلع کے سیپا جھار علاقے میں مبینہ 'غیر قانونی تجاوزات‘ کے خلاف حکومتی کارروائی میں پولیس اور لوگوں کے مابین جھڑپ کے دوران پولیس فائرنگ میں دو افراد ہلاک اور متعدد دیگر زخمی ہوگئے۔ اس تصادم کی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوگئی، جس میں دیکھا جاسکتا ہے کہ پولیس ایک شخص کو انتہائی بے رحمی سے پیٹ رہی ہے اور فائرنگ میں ہلاک ہوجانے والے ایک شخص کی لاش پر ایک کیمرہ مین نہ صرف کود رہا ہے بلکہ اسے گھونسے بھی مار رہا ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ ضلعی انتظامیہ نے صورت حال کو ریکارڈ کرنے کے لیے ایک مقامی کیمرہ مین کی خدمات حاصل کی تھیں۔ ’غیر قانونی تجاوزات‘ کے خلاف حکومت کی کارروائی آسام میں ہندو قوم پرست جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومت قائم ہے۔ چند ماہ قبل ہیمنت بسوا سرما کو وہاں کا وزیر اعلی مقرر کیا گیا تھا۔ اقتدار میں آنے کے ساتھ ہی انہوں نے ریاست کے مختلف حصوں میں 'غیر قانونی تجاوزات‘ کے خلاف مہم شروع کردی۔ تاہم تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ برسوں سے رہنے والے افراد کو بے دخلی کے نام پر دراصل مسلم اقلیتوں اور بنگالی برادری کو نشانہ بنایا جارہا ہے۔ اسامی روزنامے پرتی دن کے دہلی بیورو چیف اشیش چکرورتی نے ڈی ڈبلیو اردو سے بات چیت کرتے ہوئے کہا، ”وزیر اعلیٰ سرما کھلے عام مسلمانوں اور بنگالیوں کے خلاف باتیں کررہے ہیں۔ وہ لوگوں کو ان کے گھروں سے بے دخل کرنے کا یہ کام پچھلے کئی ماہ سے کررہے ہیں۔ اور جمعرات کے روز کا واقعہ بھی اسی کی ایک کڑی تھا۔" بھارت: مسلمانوں کی فیملی پلاننگ پر بی جے پی کا نیا شوشہ اشیش چکرورتی کا کہنا تھاکہ چونکہ سرما کا تعلق آرایس ایس سے نہیں ہے اس لیے وہ اپنی 'کارکردگی‘ سے آر ایس ایس اور بی جے پی کو 'خوش‘ کرنا چاہتے ہیں۔ چکرورتی کے بقول، ”جمعرات کے روز کا واقعہ نہ صرف انتہائی افسوس ناک بلکہ انسانی حقوق کے بھی خلاف ہے۔ یہ حیوانیت کی انتہا ہے۔" ’کارروائی جاری رہے گی‘ اس مہم کے تحت اب تک ایک ہزار سے زائد کنبوں کو بے گھر کیا جا چکا ہے۔ متاثرین کا کہنا ہے کہ حکومت انہیں جو متبادل جگہ فراہم کررہی ہے وہاں ہر برس سیلاب کی وجہ سے زمین کٹتی رہتی ہے، جس کی وجہ سے وہاں آباد ہونا ممکن نہیں۔ وزیر اعلیٰ بسوا سرما نے میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ پولیس کواپنی کارروائی جاری رکھنے اور 'غیرقانونی تجاوزات‘ کو ہر حال میں خالی کرانے کا حکم دیا گیا ہے۔ سرما کے بقول، ”وہ اپنی ذمہ داری ادا کریں گے۔ مہم جاری رہے گی۔" آسام کے ایک اور صحافی انیربین رائے چکرورتی نے ڈی ڈبلیو سے با ت کرتے ہوئے کہا کہ بسوا سرما کے بیان سے مسلم مخالف اور بنگالی مخالف ہونے کا واضح اندازہ ہوتا ہے۔ ان کا کہنا ہے، ”گزشتہ ماہ انہوں نے ایک بستی خالی کرانے کے لیے وہاں ہاتھیوں کے جھنڈ دوڑا دیے تھے۔ جس نے لوگوں کی جھونپڑیوں کو زمین بوس کردیا۔" آسام میں گائے کے گوشت پر پابندی کی تیاری انیربین چکرورتی کا کہنا ہے کہ وزیر اعلیٰ لوگوں کو بے گھر کررہے ہیں۔ ”ان لوگوں کی مناسب آبادکاری کا کوئی انتظام نہیں کیا گیا ہے آخر یہ کہاں جائیں گے؟" ان کا مزید کہنا تھا کہ جمعرات کے واقعے سے واضح ہوگیا ہے کہ پولیس جان بوجھ کر لوگوں کو گولیاں مار رہی ہے۔ براہ راست سینے پر گولی داغ دینا اس کا ثبوت ہے۔ انہوں نے کہا، ”لاشوں کے ساتھ جس طرح کی بے حرمتی کی گئی وہ یہ بتانے کے لیے کافی ہے کہ لوگوں میں نفرت کس حد تک انتہا کو پہنچ چکی ہے۔" پولیس کا بیان درانگ ضلع، جہاں یہ واقعہ پیش آیا، کے پولیس سپرنٹنڈنٹ سوشانت بسوا سرما، ریاستی وزیر اعلی کے چھوٹے بھائی ہیں۔ سوشانت سرما نے پولیس فائرنگ کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ پولیس نے ضلعی انتظامیہ کے افسران کے ساتھ جب 'غیر قانونی تجاوزات‘ کو ہٹانے شروع کیا تو احتجاج کرنے والوں نے ان پر پتھراؤ شروع کردیا۔ جس سے نو پولیس اہلکار اور دو عام شہری زخمی ہوگئے۔ ان میں اسے ایک پولیس اہلکار کی حالت نازک بتائی جاتی ہے۔ بھارت: مسلمانوں کی آبادی کنٹرول کرنے کا نیا شوشہ پولیس نے بتایا کہ جس کیمرامین نے لاش کی بے حرمتی کی تھی اسے حراست میں لے لیا گیا ہے۔ اور ریاستی حکومت نے معاملے کی تحقیقات کا حکم دیا ہے۔ گوہاٹی ہائی کورٹ کے ایک سبکدوش جج کی سربراہی والی ایک کمیٹی ان واقعات کی تحقیقات کرے گی۔ دریں اثناء متعدد سماجی، سیاسی، انسانی حقوق اور مسلم تنظیموں نے اس واقعے کے خلاف احتجاجاً مظاہرہ کرنے کا اعلان کیا ہے۔ سیاسی ردعمل متعدد سیاسی جماعتوں نے بھی درانگ میں فائرنگ کے واقعے کی مذمت کی ہے۔ کانگریس کے رہنما راہول گاندھی نے ایک ٹوئٹ کرکے پولیس کارروائی کی نکتہ چینی کی۔ انہوں نے لکھا، ”آسام میں حکومت کی نگرانی میں آگ لگی ہے۔ میں ریاست میں اپنے بھائیوں اور بہنوں کے ساتھ کھڑا ہوں۔ بھارت کے کسی بھی بچے کے ساتھ ایسا نہیں ہونا چاہیے۔" بھارت: دو ریاستوں کے سرحدی تنازعے میں چھ پولیس اہلکار ہلاک آسام کانگریس کے صدر نے پولیس فائرنگ کو”وحشیانہ فعل" قرار دیا۔ کانگریس کے ایک مقامی رہنما کا کہنا تھا کہ متاثرین کی اکثریت ناخواندہ ہے۔ گوکہ ان کے پاس زمینوں کے دستاویزات نہیں ہیں لیکن ان کے پاس شہریت کے تمام قانونی دستاویزات موجود ہیں اور سابقہ حکومتوں نے انہیں سرکاری زمینوں پر رہنے کی اجازت دی تھی۔ لیکن وزیر اعلیٰ سرما ان لوگوں کو'درانداز‘ کہتے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ وہ یہ زمینیں خالی کرانے کے بعد اسے ریاست کے 'اصل باشندوں‘ میں تقسیم کردیں گے۔


آسام بے دخلی پر پاپولر فرنٹ کابیان

 نئی دہلی /بی این ایس

پاپولر فرنٹ آف انڈیا کے چیئرمین او ایم اے سلام نے اپنے ایک حالیہ بیان میں آسام میں جاری جبرا بےدخلی کے خلاف مظاہرہ کر رہے نہتے مظاہرین کے قتل اور ان پر پولس کے مظالم کی مذمت کی ہے۔

او ایم اے سلام نے کہا کہ 'آج آسام سے آنے والی ویڈیوز دیکھ کر ہم لرز اٹھے ہیں۔ پولس کو دیکھا گیا کہ وہ خواتین اور بچوں سمیت ہزاروں لوگوں پر بغیر کسی انتباہ کے اندھا دھند گولی باری کر رہی ہے۔ ایک شخص جو پولس کے درمیان پھنس گیا اسے بے رحمی سے مار مار کر قتل کردیا گیا، حتی کہ اس بربریت میں میڈیا کے لوگوں کو بھی شامل دیکھا گیا۔ خبروں سے پتا چلتا ہے کہ ہلاکتوں کی حقیقی تعداد کہیں زیادہ ہوسکتی ہیں۔ مارے گئے تین میں سے ایک نابالغ ہے۔'

انہوں نے کہا کہ چند روز قبل آسام اہلکاروں نے غیرقانونی قبضے کا الزام لگا کر بنا کسی باز آبادکاری منصوبے کے تقریبا 4500 غریب بےسہارا لوگوں کو ان کے گھروں سے بےدخل کردیاتھا۔ حکومت کی اس کارروائی کے خلاف عدالت میں ابھی مقدمہ چل ہی رہا تھا کہ لگ بھگ 800 خاندانوں کو بھاری بارش میں سڑکوں پر پھنک دیا گیا اور ان کے گھروں کو مسمار کردیا گیا۔

او ایم اے سلام نے مزید کہا کہ یہ اس نسلی نفرت کا ایک نیا باب ہے جسے ریاست کے بنگالی بولنے والے مسلمانوں کے خلاف کھولاگیاہے۔ آسام کی بی جے پی حکومت کی فرقہ وارانہ تفریقی پالیسیاں حالات کے اس حد تک بڑھ جانے کا واحد سبب ہیں۔ وزیر اعلی ہیمنت بسو سرما نسلی و فرقہ وارانہ مہم کے ذریعے اپنی سیاسی بساط کو مضبوط کرنے کی فراق میں ہیں۔

'یہ بےدخلی غیرانسانی ہے۔ پاپولر فرنٹ عدلیہ سے مطالبہ کرتی ہے کہ وہ مداخلت کرتے ہوئے اس بےدخلی پر فوری روک لگائے اور جن لوگوں کو ان کے گھروں سے نکالاگیاہےان کی بازآباکاری کو یقینی بنایاجائے۔ پولس فائرنگ سے متاثرہ لوگوں کو مناسب معاوضہ دینے کے لیے اقدامات کیے جائیں۔ ساتھ ہی پاپولر فرنٹ پولیس کے مظالم کی عدالتی تفتیش اور قتل کے ذمہ دار افسران پر کارروائی کا بھی مطالبہ کرتی ہے۔'

Friday 24 September 2021

سابق امریکی صدرپرپھوٹ پڑاایک امریکی فوجی کاغصہ

 واشنگٹن : عراق میں تعینات سینئر امریکی فوجی مائیک پرسنر کی سر عام سابق امریکی صدر بش پر چیخنے اور انہیں مورد الزام ٹھہرانے کی ویڈیو وائرل ہوگئی۔ ٹوئٹر پر ایک ویڈیو وائرل ہورہی ہے، ویڈیو میں مائیک پرسنر کو سابق امریکی صدر کی تقریر کے دوران آڈیٹوریم میں چیختے چلاتے اور الزام عائد کرتے سنا جاسکتا ہے۔

ویڈیو میں مائیک پرسنر کو طیش میں زور زور سے بش سے سوال کرتے سنا جاسکتا ہے۔ وہ کہہ رہے ہیں کہ 'مسٹر بش آپ ان مرنے والے لاکھوں عراقی باشندوں سے معافی کب مانگیں گے جو آپ کے جھوٹ کی وجہ سے مرگئے؟' مائیک پرسنر نے بش سے سر عام مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ 'آپ نے بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کے حوالے سے جھوٹ بولا۔'

انہوں نے نیویارک کے ورلڈ ٹریڈ سینٹر کو تباہ کرنے والے دہشت گرد حملوں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ 'آپ نے 9/11 کے رابطوں کے بارے میں جھوٹ بولا، آپ نے عراق کے لیے خطرہ ہونے کے حوالے سے جھوٹ بولا۔' اس موقع پر ویڈیو میں بش کی آواز سنی جاسکتی ہے جس میں ان کا کہنا ہے 'بیٹھ جائیں بیٹھ کر بات کریں۔'

اس کے باوجود مائیک پرسنر کے غصے میں کوئی کمی نہ آسکی انھوں نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ 'آپ نے مجھے 2003 میں عراق بھیجا، میرے دوست مرچکے ہیں آپ نے لوگوں کو مارا ، آپ نے جھوٹ بولا آپ کو معافی مانگنے کی ضرورت ہے۔' بعد ازاں مائیک پرسنر کو وہاں موجود عملے کے افراد زبردستی گھسیٹ کر باہر لے گئے۔

خیال رہے کہ مارچ 2003 میں امریکی فوج نے عراق پر حملہ کیا تھا تاکہ بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے عراق کے مبینہ ہتھیاروں کو تباہ کیا جائے اور صدام حسین کی حکومت کا خاتمہ کیا جائے۔

عراق امریکی جنگ میں تقریباً 2 لاکھ عراقی شہری ہلاک ہوئے تھے، واشنگٹن پوسٹ کے مطابق 2003 سے 2011 کے دوران اتحادی افواج کے ہاتھوں ہر 10 میں سے 6 عام عراقی شہری کی ہلاکتیں ہوئیں۔ امریکی محکمہ دفاع کی ویب سائٹ کے مطابق اس دوران امریکی افواج میں ساڑھے 4 ہزار کے قریب ہلاکتیں ہوئی تھیں۔ (ایجنسی ان پٹ)

جمعہ کا خطبہ اردو میں دینا جائز ہے کہ نہیں

 جمعہ کا خطبہ صرف وعظ وتقریر نہیں ہے بلکہ یہ ایک عبادت ہے، اور نماز ظہر کی دو رکعت کا قائم مقام ہے۔ اسے باوضو دینا حمد وثنا اللہ کی بیان کرنا، کھڑے ہوکر خطبہ دینا، خلفائے راشدین کا ذکر خیر کرنا یہ سب اس کے سنن وآداب میں سے ہیں۔ نیز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے او رحضرات صحابہٴ کرام سے کبھی عربی کے علاوہ کسی دوسری زبان میں خطبہ دینا ثابت نہیں، جب کہ صحابہٴ کرام نے بہت سے ممالک فتح کیے وہاں رہے وہاں کی زبان سیکھی مگر پھر بھی وہاں کے باشندوں کی زبان میں جمعہ کا خطبہ نہیں بلکہ اپنی اسلامی سرکاری زبان میں ہی خطبہ دیا ہے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ سے لے کر اب تک یہی سنت متوارثہ چلی آرہی ہے۔ حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمہ اللہ نے مسوی ومصفی میں اس کی تصریح فرمائی ہے۔ حضرت مولانا عبدالحی لکھنوی رحمہ اللہ نے بھی شرح وقایہ کے حاشیہ عمدة الرعایة میں بھی تحریر فرمایا ہے۔

مولاناکلیم صدیقی کی گرفتاری بھارتی آئین کی پامالی ہے :نویدحامد

 مولانا کلیم صدیقی وہ نویں شخص ہیں جنہیں اتر پردیش پولیس نے مبینہ تبدیلی مذہب ایکٹ کے تحت گرفتار کیا ہے۔اسے آئندہ اسمبلی انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے کے لیے حکمران بی جے پی کا ایک اور 'آزمودہ حربہ' قرار دیا جا رہا ہے۔اترپردیش کی یوگی ادیتیہ ناتھ حکومت کے انسداد دہشت گردی اسکواڈ (اے ٹی ایس) کے ذریعہ عالمی شہرت یافتہ بھارتی مبلغ مولانا کلیم صدیقی کو گرفتار کیے جانے پر بھارت میں بیشتر مسلم تنظیموں نے سخت ردعمل کا اظہار کیا ہے۔ تاہم ان کی گرفتاری پر سیکولر سیاسی جماعتوں کی جانب سے مکمل خاموشی پر سوالات بھی اٹھائے جارہے ہیں۔ مولانا کلیم صدیقی کومنگل 21 ستمبر کی رات کواترپردیش کے شہر میرٹھ سے اپنے گاوں پھلت جاتے ہوئے یوپی پولیس نے تبدیلی مذہب مخالف قانون کے تحت گرفتار کرلیا تھا۔بعد میں ایک عدالت نے انہیں 14دنوں کے لیے پولیس تحویل میں دے دیا۔ اسی قانون کے تحت گزشتہ جون میں بھارتی مبلغ عمر گوتم اور ان کے ایک ساتھی مفتی جہانگیر قاسمی کو بھی گرفتار کیاگیا تھا، وہ اب بھی جیل میں ہیں۔ مسلمانوں کی جانب سے سخت ردعمل مولانا کلیم صدیقی کی گرفتاری پر مسلم تنظیموں نے سخت ردعمل کااظہار کرتے ہوئے اسے بھارتی آئین اور قوانین کی صریح خلاف ورزی قرار دیا۔ بھارتی مسلمانوں کی مذہبی اور سماجی تنظیموں کے وفاق آل انڈیا مسلم مجلس مشاورت کے صدر نوید حامد نے ڈی ڈبلیو اردو کے ساتھ با ت چیت کرتے ہوئے کہا کہ اترپردیش کی یوگی حکومت نے مولانا کلیم صدیقی کو گرفتار کرکے ایک ساتھ کئی پیغامات دیے ہیں: ”ایک پیغام تو یہ ہے کہ بھارتی آئین نے شہریوں کو آزادی، مذہب کو ماننے اور اس کی تبلیغ و اشاعت کی خواہ جتنی بھی اجازت دے رکھی ہو، موجودہ حکومت کے فیک ایجنڈے کے تحت کم از کم مسلمانوں کو تو اس کی اجازت نہیں ہے۔" انہوں نے کہا کہ دراصل ”بھارتی آئین کو بری طرح سے پامال کیا جارہا ہے۔" نوید حامد کا کہنا تھا کہ دوسرا پیغام ہے: ”آپ کی خواہ ہندوتوا کی مربی تنظیم آر ایس ایس کے سربراہ کے ساتھ ہی رسم و راہ کیوں نہ ہواس بات کی کوئی ضمانت نہیں کہ آپ کو بھارتی دستور کے تحت حاصل حقوق مل بھی جائیں گے۔ تیسرا اور سب سے اہم پیغام یہ ہے کہ بی جے پی اترپردیش میں ہونے والے آئندہ اسمبلی انتخابات ہر حال میں جیتنا چاہتی ہے۔‘‘ نوید حامد کا مزید کہنا تھا، ”یہ دنیا کی واحد حکومت ہے جو اکثریتی طبقے کے اندر اقلیت کے تعلق سے خوف و ہراس پیدا کرکے اقتدار میں رہنا چاہتی ہے۔وہ اپنی ناکامیوں کو چھپانے کے لیے مسلمانوں کے خلاف ہر طرح کا زہریلا پروپیگنڈا کرسکتی ہے تاکہ برادران وطن میں خوف و ہراس پیدا ہو۔" طلبہ تنظیم اسٹوڈنٹس اسلامک آرگنائزیشن آف انڈیا نے بھی مولانا کلیم صدیقی کی گرفتاری کو یوپی انتخابات سے قبل فرقہ وارانہ منافرت کو ہوا دینے کی کوشش قرا ردیا۔متعدد مسلم سیاسی رہنماؤں نے بھی مولانا کلیم صدیقی کی گرفتاری کی مذمت کی ہے۔ دہلی اقلیتی کمیشن کے سابق چیئرمین ڈاکٹر ظفر الاسلام خان نے مولانا صدیقی کی گرفتاری کو سیاسی داؤ پیچ قراردیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ملک کے آئین کے مطابق تمام لوگوں کو اپنے مذہب پر عمل پیرا ہونے اور اس کی تعلیمات کو عام کرنے کا حق ہے اور مولانا پر تبدیلی مذہب کے جو الزامات لگائے گئے ہیں وہ سراسر غلط ہیں۔ مولانا کلیم صدیقی پر کیا الزامات ہیں؟ اترپردیش کے ایڈیشنل ڈائریکٹر جنرل پولیس (امن و قانون) پرشانت کمار نے دعویٰ کیا کہ مولانا صدیقی کا بھارت کے سب سے بڑے ”غیر قانونی" تبدیلی مذہب کے ریکٹ سے براہ راست تعلق ہے۔ پرشانت کمار نے میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کہا، ”تفتیش کے دوران یہ بات سامنے آئی کہ مولانا کلیم صدیقی تعلیمی اور سماجی تنظیموں کی آڑ میں پورے ملک میں بڑے پیمانے پر غیر قانونی تبدیلی مذہب کی سرگرمیو ں میں ملوث تھے اور انہیں بیرونی ملکوں سے مالی امداد مل رہے تھے۔" مولانا صدیقی جامعہ امام ولی اللہ کے نام سے ایک ٹرسٹ چلاتے ہیں جس کا مقصد سماجی ہم آہنگی پیدا کرنا اور مذہب تبدیل کر کے مسلمان ہونے والوں کو ایک ساتھ جوڑنا ہے۔ اے ٹی ایس نے اپنے ایک بیان میں کہا، ”مولانا صدیقی اتحاد انسانیت کا پیغام دینے کی آڑ میں جنت اور جہنم کا ذکر کر کے لوگو ں کے ذہنوں میں خوف اور لالچ پیدا کرتے تھے اور انہیں اسلام قبول کرنے کے لیے آمادہ کرتے تھے اور جو لوگ مسلمان ہوجاتے تھے انہیں دیگر لوگوں کا مذہب تبدیل کرانے پر زور دیتے تھے۔" اے ٹی ایس کے انسپکٹر جنرل جی کے گوسوامی کا کہنا تھا کہ مولانا کلیم صدیقی اپنی کتابوں کے ذریعہ، جو آن لائن اور آف لائن دستیاب ہیں، لوگوں کو مذہب اسلام کی طرف مائل کرتے تھے اور لوگوں کوبتاتے تھے، ”اگر دنیا میں شریعت کے مطابق نظام قائم ہوجائے تو ہر ایک کو انصاف مل جائے گا۔"انہوں نے بتایا کہ مولانا کلیم صدیقی کی تقریروں کی درجنوں ویڈیو یو ٹیوب چینل پر بھی موجود ہیں اوران کے ایک لاکھ سے زائد سبسکرائبرز ہیں۔ مولانا کلیم صدیقی کون ہیں؟ مولانا کلیم صدیقی عالمی شہرت یافتہ بھارتی مبلغ ہیں۔ 68 سالہ کلیم صدیقی گلوبل پیس سینٹر اور جامعہ امام ولی اللہ ٹرسٹ کے صدر بھی ہیں۔ وہ بنیادی طورپر سائنس کے طالب علم رہے ہیں۔ انہوں نے بھارت میں میڈیکل کالجوں کے لیے داخلہ جاتی امتحان میں 75واں رینک حاصل کیا تھا لیکن طب میں اپنا کیریئر بنانے کے بجائے دعوت و تبلیغ کو اپنا میدان کار بنایا۔ بھارت اور بیرون ملک میں ان کے لاکھوں عقیدت مند ہیں۔ مولانا کلیم صدیقی نے سات ستمبر کوممبئی میں آر ایس ایس کے سربراہ موہن بھاگوت کی صدارت میں منعقد ایک کانفرنس میں شرکت بھی کی تھی۔ اس کانفرنس میں شرکت کی دعوت بھاگوت کے چچا زاد بھائی اننت بھاگوت نے خود مولانا کے گھر جاکر دی تھی۔آر ایس ایس کے سربراہ نے مولانا کلیم صدیقی سے اس موقع پر سماجی اور بین الاقوامی امور پر تبادلہ خیال بھی کیا تھا۔ حالانکہ مسلمانوں کے بعض حلقوں نے مولانا کلیم صدیقی کی موہن بھاگوت کے ساتھ ملاقات پر اعتراضا ت کیے تھے۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ موجودہ حکومت کی مربی تنظیم آر ایس ایس کے سربراہ کے ساتھ قربت بھی اس بات کی ضمانت نہیں کہ آپ کے دستوری حق محفوظ رہیں گے۔ جبراً تبدیلی مذہب کی ایک بھی شکایت نہیں یہ بات قابل ذکر ہے کہ جن مبلغین کو اب تک گرفتار کیا گیا ہے ان کے خلاف کسی بھی شخص نے جبراً تبدیلی مذہب کا الزام نہیں لگایا ہے۔ حالانکہ بعض کیسز میں مذہب تبدیل کرنے والے شخص کے رشتہ داروں نے شکایت ضرور کی ہے تاہم ماہرین قانون کے مطابق ان کی شکایتیں عدالتوں میں قابل قبول نہیں ہیں۔ عدالت تبدیل مذہب کرنے والے شخص کے بیان کو ہی اہمیت دیتی ہے۔ اس سال جون میں تبدیل مذہب کرنے والی ایک خاتون نے دہلی ہائی کورٹ سے کہا تھا کہ اسے ایک صحافی اور بعض لوگوں کی جانب سے دھمکی مل رہی ہے کہ اگر اس نے تبدیلی مذہب کے سلسلے میں چھوٹا بیان نہیں دیا تو اس کے خلاف پولیس کارروائی کی جائے گی۔ دریں اثنا بھارتی وزارت داخلہ نے آر ٹی آئی کے تحت پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں کہا ہے کہ ہندوازم کو کسی طرح کا خطرہ لاحق نہیں ہے۔ مونیش جبل پوری نامی شخص نے وزارت داخلہ سے ثبوتوں کے ساتھ یہ جاننا چاہا تھا کہ آیا ”ملک میں ہندو دھرم کو کوئی خطرہ لاحق ہے"۔ وزارت داخلہ نے اس کے جواب میں بتایا کہ اس کے پاس ایسا کوئی ثبوت نہیں ہے جس کی بنیاد پر یہ کہا جاسکے کہ بھارت میں ہندو دھرم کو کوئی خطرہ لاحق ہے۔ جاوید اختر

سیمی سے تعلق کے الزام میں سات سال بعد ضمانت. جنتر منتر پرکھلے عام مسلمانوں کے خلاف نعرے بازی کرنے والوں کواتنی جلدی ضمانت کیوں؟

 بھوپال : بھوپال سینٹرل جیل میں بند سیمی سے تعلق رکھنے کے چار ملزمین کو سپریم کورٹ کی ہدایت کے بعد بھوپال ضلع عدالت نے سات سال بعد ضمانت دیدی ہے ۔ اسماعیل ،عمیر ، عرفان اور صدیق کی ضمانت کے لئے بھوپال عدالت نے شعلہ پور کے ساتھ بھوپال کے ضمانت دار پیش کرنے کی ہدایت دی تھی ۔ جمعیت علما کے ذریعہ عدالت میں شعلہ پور کے ساتھ بھوپال کے چار ضمانت دار پیش کئے جانے اور فی کس ایک ایک لاکھ روپے کی ضمانت پیش کئے جانے کے بعد عدالت نے چاروں ملزمین کی رہائی کا حکم جاری کردیا ہے ۔ دیر رات تک چاروں ملزمین بھوپال سینٹرل جیل سے رہا ہوکر اپنے وطن شعلہ پور کے لئے روانہ ہو جائیں گے ۔ 


واضح رہے کہ اکتوبر دوہزار تیرہ میں کھنڈوا جیل کے دو سنتریوں کو چاقو مارکر سیمی سے تعلق رکھنے کے الزام میں گرفتار سات قیدی جیل بریک کر بھاگ گئے تھے ۔ ان قیدیوں کو پناہ دینے اور ان کی معاونت کرنے کے الزام میں اے ٹی ایس کے ذریعہ عمیر، صدیق ، عرفان اوراسمعیل کو شعلہ پور سے گرفتار کیا گیا تھا۔ بھوپال سینٹرل جیل میں قید سیمی سے تعلق کے الزام میں اٹھائیس دیگر قیدیوں کے ساتھ شعلہ پور کے یہ چارملزمین بھی قید تھے ۔ ایم پی اے ٹی ایس کے ذریعہ وقت پر چارج شیٹ عدالت میں پیش نہیں کئے جانے کے سبب ان چاروں قیدیوں کو ضمانت کا فائدہ ملا ۔ 

ان چاروں قیدیوں کی رہائی کے لئے سپریم کورٹ کے ذریعہ ایک ہفتہ قبل ہی ضلع عدالت کو ضمانت دینے کی ہدایت جاری کی گئی تھی ۔ لیکن ضلع عدلت کے ذریعہ ان چاروں ملزمین کی رہائی کے لئے شعلہ پور کے ساتھ بھوپال سے ضمانت دار پیش کئے جانے اور شعلہ پور کے ساتھ بھوپال کے ضمانت دار کے ذریعہ فی کس ایک ایک لاکھ کی ضمانت پیش کئے جانے کی شرط پر ان ملزمین کی رہائی میں تاخیر ہوئی ۔ چاروں ملزمین کی رہائی کیلئے ان کے گھر کی خواتین ایک ہفتے سے بھوپال میں مقیم تھیں ۔ ان کی رہائی میں جمعیت علما کے صدر مولانا محمود مدنی کی ہدایت پر ایم پی جمعیت علما کے صدر حاجی محمد ہارون اور مولانا اسمعیل بیگ نے ایڈوکیٹ سید ساجدعلی نے کلیدی کردار ادا کیا ۔ 

مدھیہ پردیش جمعیت علما کے صدر حاجی محمد ہارون کہتے ہیں کہ برسوں کی کوشش کے بعد ہم سب کی مشترکہ کوشش رنگ لائی ہے ۔ ایک عرصہ قبل شعلہ پور کے چار ملزمان کو اے ٹی ایس نے مختلف دفعات کے ساتھ یو اے پی اے لگا کر بھوپال سینٹرل جیل میں ڈال دیا تھا اور جیل انکاؤنٹر میں جو اکتس اکتوبر دوہزار سولہ کو ہوا تھا ، اس میں کچھ لوگوں کا انکاؤنٹر کردیا گیا تھا ۔ اس میں بھی شعلہ پور کے لوگ شامل تھے ۔ شعلہ پور کے چار لوگ جو بھوپال سینٹرل جیل میں بند تھے ، ان کی رہائی کیلئے جمعیت علما کے قومی صدر مولانا محمود مدنی ، جمعیت علما مہاراشٹر اور جمعیت علما ایم پی کی بڑی کوششیں رہیں اور اس کوشش کے نتیجہ میں سپریم کورٹ کے ذریعہ شعلہ پور کے چار لوگوں کی ضمانت منظور ہوئی

مولاناکلیم صدیقی کی گرفتاری پر احتجاجی میٹنگ. جلد رہائی کا مطالبہ

 ممبئی، ٢٣ستمبر( پریس ریلیز) معروف عالم دین مولانا کلیم صدیقی کی میرٹھ سے پھلت جاتے ہوئے پر اسرار انداز میں گرفتاری قابلِ مذمت ہے۔ یہ سلسلہ نیا نہیں ہے؛ بلکہ عرصےسے بے گناہوں کو بے بنیاد اور فرضی الزامات لگا کر گرفتار کیا جارہا ہے، حالانکہ ملک کے اندر کسی بھی فرد کو حراست میں لینے سے قبل مختلف قوانین و ضوابط کی تکمیل ضروری ہے۔ مولانا کلیم صدیقی کو بغیر کسی اطلاع کے تمام قوانین کو بالائے طاق رکھ کر گرفتار کیاگیاہے ۔ دراصل یوپی میں جلد ہی انتخابات ہونے ہیں، اس موقع پر مہنگائی، کسانوں کے احتجاج اور خاص طور پر کرونا پر قابو پانے میں اپنی ناکامی چھپانے کے لئے بی جےپی غیر ضروری اور فرضی معاملات اُٹھا رہی ہے، مسلمانوں اور دیگر کمزور طبقات کے خلاف گودی میڈیا کا سہارا لے کر بی جے پی اپنا ووٹ بینک بھی محفوظ رکھنا چاہتی ہے ـ ایسا کرنا نہ صرف قانون کی حکمرانی کا مذاق بلکہ انسانی حقوق کی پامالی ہے۔

مولانا کلیم صدیقی پر لگائے جانے والے اوٹ پٹانگ الزامات میں کوئی دم نہیں لگتا۔ اے ٹی ایس کی عدالت میں وکیل نے جب ثبوت مانگا تو انتظامیہ ثبوت پیش کرنے میں ناکام رہا ۔ اسی لئے کورٹ نے انہیں پولس ریمانڈ کے بجائے عدالتی حراست میں رکھا ہے، حالانکہ انتظامیہ کو اس حرکت کے لیے پھٹکار لگا کر انہیں رہا کردیا جانا چاہیے تھا۔ اسی سلسلے میں مورخہ ۲۳ ستمبر ۲۰۲۱ بروز جمعرات شام چار بجے ممبئی امن کمیٹی صابو صدیق مسافر خانہ ممبئی میں شہر کی ملی تنظیموں، علماء اور عمائدین کی ایک احتجاجی میٹنگ ہوئی جس میں مولانا کلیم صدیقی کو حراست میں لیے جانے کی پر زور مذمت کے ساتھ درج ذیل مطالبات کئے گئے : 1. مولانا کلیم صدیقی ، اور ان کے ساتھیوں نیز اس سے قبل فرضی الزامات کے تحت گرفتار کئے گئے بے گناہوں کو فوراً رہا کیا جائے ۔ 2. آئندہ کسی فرد کے ساتھ اس طرح کی زیادتی سے گریز کیا جائے۔ 3. خلافِ آئین و قانون حرکت کرنے والے اہلکاروں کو اس کی قرار واقعی سزا دی جائے۔

اس میٹنگ میں شرکت کرنے والوں میں مولانا محمود احمدخاں دریا بادی، مولانا انیس اشرفی، مولانا جلیس انصاری،مولانا فیاض باقر، حافظ اقبال چونا والا، مولانا عبدالجلیل انصاری، جناب اسلم غازی، جناب فرید شیخ،ڈاکٹر سلیم خان، جناب سرفراز آرزو، ڈاکٹرعظیم الدین، داؤد خان،شاکر شیخ، محمداسلم صیاد ، نعیم شیخ و دیگر افراد شامل تھے ـ مولانا محمود خان دریابادی (جنرل سیکریٹری علماء کونسل) نے میٹنگ کی شروعات کرتے ہوئے کہا کہ آج کی میٹنگ ایک احتجاجی میٹنگ ہے جس کا اہم مقصد اب تک جن لوگوں کی غیر قانونی گرفتاری ہوئی ہے اُنہیں بغیر کسی شرط کے رہا کیا جائے۔ جن لوگوں نے اس قسم کی گھناؤنی سازش رچی ہے اُنہیں بے نقاب کرکے سخت سزا سے گزارا جائے۔ سرفراز آرزو(مدیرِ اعلیٰ ہندوستان ڈیلی) کے مطابق اِس ملک کو غیر اعلانیہ طور پر ہندو اسٹیٹ ڈیکلیر کرنے کی سازش ہے۔ ہندوتوا وادی قوتیں اِس قسم کے رویّے اختیار کر رہی ہیں۔ کلیم صدیقی صاحب کے خلاف بے تکے الزامات لگائے گئے ہیں۔جنہیں فوری طور پر واپس لیکر اُن سے معافی مانگی جائے۔

عبد الحسیب بھا ٹکر (صدر جماعت اسلامی ہند ممبئی) نے ۵ نکات پر روشنی ڈالی۔ ۱) مولانا کلیم صدیقی ایسی شخصیت ہے جن کا کوئی جرائم پر مبنی ریکارڈ نہیں ہے۔ تمام ہی لوگوں سے اُن کے عمدہ تعلقات ہیں۔ ۲) مولانا کی گرفتاری یہ آپس میں بانٹنے،توڑنے کی کوشش ہے۔ ۳) ہماری بھارتی تہذیب کو توڑنے کا کام کیا جا رہا ہے۔ ۴) تمام سیکولر فورسز بھی ایسے معاملات میں شرکت کرکے مسئلے کا حل نکالنے کی طرف پیش رفت کریں ۔ مولانا انیس اشرفی(صدر رضا فاؤنڈیشن ممبئی) مولانا کلیم صدیقی صاحب ایک بہترین عالمِ دین کے طور پر مشہور ہیں۔یوپی اے ٹی ایس کے متعلق صحافت بدنام زمانہ لکھتی ہے۔ نہ صرف باعزت بری کیا جائے بلکہ معافی طلب کی جائے۔

ڈاکٹر عظیم الدین(صدر، موومنٹ فور ہیومن ویلفیئر) یوپی کی سرکار کو مکمل طور پر اپنی سرگرمیوں میں ناکام رہی ہے، اسی لیے الیکشن کے پس منظر میں ایک غیر ضروری سازش اُنہوں نے کی ہے۔تمام ہی سیکولر پارٹیوں پر تعجب ہے۔ ڈاکٹر سلیم خان(معاون امیرِ حلقہ جماعت اسلامی ہند مہاراشٹرا)کلیم صدیقی و عمر گوتم صاحب آج کل سے دعوتی کام نہیں کر رہے ہیں۔ جس طرح کلیم صدیقی صاحب کو گرفتار کیا گیا یہ بالکل نئی اور آئین کے خلاف بات ہے۔اسے گرفتار نہ کہتے ہوئے اغوا کہا جانا چاہیے۔ عین عبادت کے بعد اُنہیں اغوا کیا گیا تو یہ کسی بھی با مہذب قوم کی علامت نہیں ہے۔ جو بھی سازش رچی گئی وہ قانون کو بالائے طاق رکھتے ہوئے رچی گئی۔اِس سازش میں جو لوگ بھی شریک رہے ہیں اُن پر سخت سزا کا معاملہ انتہائی اہم عمل ہے۔ اسلم غازی صاحب (صدر اے پی سی آر) کے مطابق حکومت نے تمام ہی اقلیتوں کو پسِ پشت ڈال دیا ہے۔ ملک کا اندرون کا معاملہ یہ ہے کہ اندرونی افراد ان سے بدظن ہے۔بیرونی اعتبار سے دیکھیں تو تمام پڑوسی ممالک ان سے ناراض ہیں۔ اگر بھارت کو پوری دنیا کا گرو بننا ہے تو یہ ضروری ہے کہ ہم اہم امور پر کام کریں۔عبد الجلیل انصاری(جمعیت اہل حدیث،نائب ناظم ممبئی) مولانا کی گرفتاری سے سخت کوفت ہوئی ہے۔جمعیت اس غلط کام کے خلاف اپنا پُرزور احتجاج درج کرتی ہے۔ شاکر شیخ (سیکریٹری جماعت اسلامی ہند ممبئی شہر) نے اختتام پر کہا کہ عین رات کے وقت اُن کو گرفتار کرنا ایک گھناؤنی سازش ہے۔ بھارت دستور کے آرٹیکل ۲۵ کے تحت مذہبی تعلیمات کی تبلیغ کی تمام کو آزادی ہے لیکن یو پی اے ٹی ایس نے دستور کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ایسا گھناؤنا اور غیر اخلاقی کام کیا ہے۔ اختتام پر فرید شیخ (صدر،امن کمیٹی) نے بھی یو پی اے ٹی ایس پر کاری تنقید کی اور فوری طور پر اس غیر منصفانہ اور غیر اخلاقی کام کی نندا کی، شیعہ عالم دین مولانا فیاض باقر بھی شامل تھے ـ آخر میں تمام شرکا کا شکریہ ادا کیا گیا 

مولاناکلیم صدیقی صاحب کی گرفتاری پرمولاناارشدمدنی کاردعمل

 نئی دہلی(پریس ریلیز):مولانا کلیم صدیقی کی یوپی اے ٹی ایس کی جانب سے گرفتاری کی خبر ملک کے تمام انصاف پسند شہریوں کے لئے باعث تسویش ہے ، مولانامحترم کی گرفتاری پر صدرجمعیۃعلماء ہند مولاناارشدمدنی نے سخت ردعمل کا اظہارکرتے ہوئے کہا کہ تبدیلی مذہب کے الزام میں مولاناکلیم صدیقی کی گرفتاری کو جس طرح سے میڈیا پیش کررہا ہے وہ قابل مذمت اورباعث تسویش ہے ،اقلیتوں اور خاص کر مسلمانوں کے معاملہ میں میڈیا کا جج بن جانا اور انہیں مجرم بناکر پیش کرنا میڈیا کی جرنلزم کے پیشہ کے ساتھ بددیانتی ہے ، میڈیا کے ٹرائل سے پوری دنیامیں بھارت کی شبیہ خراب ہوتی ہے ، نیز انصاف کی جدوجہد کرنے والوں پر عرصہ حیات تنگ ہوجاتاہے ، مولانا محترم پر غیر قانونی طریقہ سے تبدیلی مذہب کرانے غیر ممالک سے فنڈنگ جیسے کئی سنگین الزامات کے تحت گرفتارکیاگیاہے ، مولانا مدنی نے کہا کہ یہ سارے الزامات سراسربے بنیاداورغلط ہیں ، کیونکہ کسی غیر مسلم کو زبردستی مسلمان نہیں بنایا جاسکتاہے ، عقیدہ جاننے کا نہیں بلکہ ماننے کا نام ہے ، اس کا تعلق انسان کے دل سے ہے ، جو کسی کے بس میں نہیں ںوتاہے ، رہی بات فنڈنگ کی تو مولانا کلیم صدیقی ہریانہ ، اور پنچاب کے ان مختلف علاقوں میں جہاں مسلمان بہت کم ہیں اور دین سے بالکل ناواقف ہیں اور اپنے آپ کو صرف مسلمان سمجھتے ہیں ان جیسے لوگوں کو دین اسلام سکھلانے کیلئے مدارس قائم کررکھے ہیں وہاں وہ انہیں مدارس پر پیسہ خرچ کرتے ہیں نہ کہ غیر مسلموں کو مسلمان بنانے کیلئے اور اگر بزورزبردستی لالچ دیکر مسلمان بنایا جاسکتاتھا تو خلیج اور خاص کر سعودی عرب میں پچاسوں لاکھ غیر مسلم کام کررہے ہیں ان کو مسلمان بنادیا جاتالیکن ایسانہیں ہے کیونکہ اسلام جاننے کا نہیں بلکہ دل سے ماننے کا نام ہے ، اخیر میں مولانا مدنی نے کہا کہ موصوف کی گرفتاری نے ایک بارپھر کئی سوال کھڑے کردیئے ہیں ، اور اس گرفتاری کو ہندومسلم منافرت کو فروغ دینے کی مذموم کوشش قراردیا ہے ،مولامدنی نے کہا کہ تمام انصاف پسند لوگوں کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ فرقہ پرستوں کی اس مذموم کوششوں کی بھرپورمخالفت کریں کیونکہ فرقہ پرستی ملک کے لئے انتہائی نقصاندہ ہے۔


فجر میں قضاء نماز کے ٹائم کااعلان کرنا

فجر میں قضاء نماز کے ٹائم کااعلان کرنا کیونکہ آجکل عوام معمول سسٹم گیاہے صحیح نہیں ہے، بلکہ یہ اعلان لائق ترک ہے اس میں ایک مفسدہ یہ ہے کہ اس اعلان کو سن کر بعض لوگ نماز سے رک جاتے ہیں اور دوسرے کسی کام میں مشغول ہوکر بالکل ہی نماز کو ترک کردیتے ہیں حالانکہ بالکلیہ ترک سے ایسے لوگوں کے حق میں یہی بہتر ہے کہ وہ طلوع ہوتے ہوئے پڑھ لیتے کیونکہ ہمارے نزدیک اگرچہ نماز نہیں ہوتی مگر ایک قول بعض حضرات کا یہ بھی ہے کہ نماز درست ہوجاتی ہے،پس عوام کو نماز سے نہ روکا جائے فتاوی شامی اور بحر الرائق وغیرہ سے اسی طرح ثابت ہے، ایک مفسدہ یہ ہے کہ بعض مرتبہ گھڑی گھنٹوں جنتریوں اور نقشوں میں فرق ہوتا ہے اعلان سے لوگ سمجھ لیتے ہیں کہ نماز کا وقت ختم ہوگیا مگر حقیقةً وقتِ ادا باقی ہوتا ہے یعنی اتنا وقت ہوتا ہے کہ جلدی سے فرض پڑھ لیے جاتے تو وہ ادا ہی ہوتے ایسی صورت میں اعلان سن کر جتنے لوگ نماز سے رکیں گے ان کی نمازوں کے قضا ہونے کا سبب یہ اعلان ہوجائے گا اس لیے بھی یہ اعلان قابل ترک ہے، نیز سلف صالحین سے اس کا ثبوت نہیں ملتا حالانکہ جس زمانہ میں گھڑی گھنٹے وغیرہ عام نہ تھے یا بالکل نہ تھے اس وقت تو اِس اعلان کی زیادہ ضرورت تھی مگر پھر بھی اس کو اختیار نہ کیا گیا اور آج تو گھڑی گھنٹوں کی بہتات ہے، پس ہرنمازی کو خود ہی وقت ادا کا لحاظ رکھنا چاہیے۔ ایک خرابی یہ ہے کہ اعلان سے یہ احساس ہوتا ہے کہ ہمارے معاشرہ میں فجر کی نماز کے قضا کرنے کی فضا بنتی جارہی ہے الغرض ان جیسی خرابیوں کی وجہ سے ا علان کرنا صحیح نہیں ہے۔


Thursday 23 September 2021

وضوکے بعد کی دعاء

 

أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ، وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ، اللَّهُمَّ اجْعَلْنِي مِنَ التَّوَّابِينَ، وَاجْعَلْنِي مِنَ المُتَطَهِّرِينَ

ترجمہ:

میں گواہی دیتاہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ہے ،وہ تنہا ہے اس کا کوئی شریک نہیں  ،اور میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد ﷺ اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں ، اے اللہ آپ مجھے بہت توبہ کرنے والوں میں اور بہت پاک رہنے والوں میں شامل فرما

ترمذی

آسام میں 5000مسلمان بے گھر جمہوریت کے نام پربدنماداغ

 غیرقانونی قابضین ہونے کا الزام، دو مساجد اور ایک مدرسہ منہدم

درانگ (آسام) : آسام کے ضلع درانگ میں لگ بھگ 5000 افراد بشمول بچے اور معمرین یکایک آسمان تلے کردیئے گئے ہیں۔ مقامی نظم و نسق سے دو روز قبل سرکاری اراضی سے تقریباً 800 تارک وطن مسلم خاندانوں کو غیرقانونی قابضین قرار دیتے ہوئے ان کے گھروں سے بیدخل کردیا۔ یہ کارروائی سیپاجھر ریونیو سرکل کے تحت دھول پور (نمبر ایک، دو اور تین) کے علاقہ میں کی گئی۔ حکومت کا کہنا ہیکہ یہ لوگ غیرقانونی طور پر سرکاری اراضی پر قابض ہوگئے تھے اور انہیں کئی مرتبہ نوٹس دینے کے بعد وہاں سے ہٹایا گیا ہے۔ سینکڑوں پولیس ملازمین کے ساتھ مقامی نظم و نسق کے عہدیدار انہدامی اسکواڈ کے ساتھ وہاں پہنچے اور انہدامی کارروائی انجام دی جس میں دو مساجد اور ایک مدرسہ بھی منہدم کردیئے گئے۔ بی جے پی کے ایم پی اور دو دیگر ایم ایل اے نے اس مہم کی نگرانی کی۔ آل آسام مائناریٹی اسٹوڈنٹس یونین کے اڈوائزر عین الدین احمد نے گزشتہ روز بتایا کہ علاقہ کی صورتحال تشویشناک ہے۔ جمہوری طور پر منتخب حکومت کا اس قدر غیرانسانی اور بے حس طرزعمل ہرگز حق بجانب نہیں ہوسکتا۔ چیف منسٹر ہیمانتا بسواشرما نے آسام پولیس اور درانگ ضلع نظم و نسق کی ستائش کرتے ہوئے ٹوئیٹ کیا کہ 800 گھرانوں کو ہٹا کر اور دو غیرقانونی مذہبی اداروں کو منہدم کرتے ہوئے تقریباً 4500 بھیگا زمین کو بچایا گیا ہے۔ 

بے جاگرفتاریوں پرحکومت سے دوٹوک گفتگوہونی چاہیے

 بےگناہ مسلمانوں کو جھوٹے الزامات میں پھسانے والے افسران کو کڑی سزا ہونی چاہیے 

ذوالقرنین احمد 
یو پی پولیس کے دہشت گرد مخالف دستہ ( اےٹی ایس) نے حضرت مولانا کلیم صدیقی صاحب کو گزشتہ رات گرفتار کرنے کی تصدیق کی ہے۔ یہ بات ملت کیلئے باعث تشویش ہے کہ ایک ملی رہنما داعی اسلام انسانیت کے خیر خواہ اور ملت کا عظیم سرمایہ حضرت مولانا کلیم صدیقی صاحب کو غیر قانونی تبدیلی مذہب قانون کے تحت گرفتار کرلیا گیا ہے انکے ساتھ دیگر 4 افراد کو بھی گرفتار کیا گیا ہے جس طرح گزشتہ مہینے جون میں عمر گوتم کو غیر قانونی طور پر تبدیلی مذہب کا جھوٹا الزام لگا کر گرفتار کیا گیا تھا اور غیر ملکی اداروں سے فنڈنگ جیسے الزامات بھی عائد کیے گئے ہیں اسی طرح کے جھوٹے الزامات کے تحت مولانا کلیم صدیقی صاحب کو گرفتار کیا گیا ہے۔ ملی قائدین اور مذہبی رہنماؤں کو چاہیے کہ کھل کر مولانا کا دفاع کریں یہ کوئی اتفاق نہیں ہے بلکہ تبلیغ اسلام پر پابندی لگانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ اور مشہور اسلامی مبلغین کو پابند سلاسل کرنے کی پلاننگ ہوچکی ہے۔ آر ایس ایس کے رہنما موہن بھاگوت ایک طرف سافٹ ہندوتوا کا مظاہرہ کر رہے ہیں مسلم رہنماؤں سے ملاقات کر رہے ہیں اور دوسری طرف فرقہ پرست بی جے پی اور آر ایس ایس مسلم مخالف ایجنڈے پر کام کرنے میں مصروف ہے۔ آج مسلمانوں کو چاہیے کہ اس کے خلاف سخت احتجاج کریں ملی رہنماؤں کو چاہیے کہ عوام کے ساتھ زمین پر اتر کر فوری طور پر پولس اسٹیشن کا گھیراؤ کریں، اور حکومت سے دو ٹوک گفتگو کی جائے۔ اتنا ہی نہیں بی جے پی اور آر ایس ایس سے انکا موقف عوام میں ظاہر کرنے کیلئے آمنے سامنے پریس کانفرنس کے ذریعے پیش کرنے کیلئے آمادہ کیا جائے۔ 
کیونکہ ایک طرف سافٹ ہندوتوا کا کھیل کھیلا جاتا ہے دوسری طرف مسلمانوں پر مظالم کے پہاڑ توڑے جاتے ہیں، پونے کے محسن شیخ سے لے کر آج تک ماب لنچنگ کا سلسلہ جاری ہے ، مسلم طلباء کے ساتھ اسکول ، کالجز، یونیورسٹی میں غیر منصفانہ سلوک کیا جاتا ہے۔ فرقہ پرستوں کے حوصلہ اس قدر بلند ہوچکے ہیں کہ داڑھی ٹوپی والے مزدوری، سبزی پھیل فروشوں کو دیکھ کر انہیں اپنے علاقوں میں تجارت سے روکا جاتا ہے۔ ایک طرف ادبی مشاعروں، کوی سمیلنوں، قومی یک جہتی کے پروگراموں میں ہندو مسلم بھائی چارے کے نعرے لگائے جاتے ہیں اور دوسری طرف مسلمانوں کے خلاف نفرت کا زہر گھولا جاتا ہے۔ یہ دور رخی پالیسی نے مسلمانوں کو ہندوستان میں بےحد نقصان پہچایا ہے اور آج تک مسلم رہنماؤں کو یہ بات سمجھ نہیں آرہی ہے کہ ظلم و ناانصافی، تعصب، نفرت، فرقہ وارانہ فسادات سے قوم کو تحفظ فراہم کیا جائے۔ یا کوئی ایسی مضبوط پالیسی تیار کی جائے جس سے مسلمان اپنے آپ کو ملک محفوظ محسوس کریں۔ 
بی جے پی کے اقتدار میں آنے کے بعد سے اس طرح سے قانون میں تبدیلی کی گئی ہے جس سے صرف اور صرف اقلیتوں اور مسلمانوں کو نقصان پہنچایا جائے اور ملک میں مسلمانوں کا دائرہ کار کو محدود کیا جائے۔ دہشت گرد مخالف قانون میں تبدیلی بھی اسی لیے کی گئی ہے، اور یو پی میں غیر قانونی تبدیلی مذہب قانون کو بھی اسی لیے لایا گیا ہے۔ چاہے آپ قانون کے دائرے کے اندر رہتے ہوئے اپنے مذہب کی تبلیغ کریں ، یا کسی غیر مسلم لڑکی کے مسلمان ہونے پر اس سے شادی کریں اس میں ٹارگیٹ پر مسلمان ہی ہوگے۔ اسی طرح اگر آپ مذہبی لٹریچر پڑھتے ہیں یا کسی بڑے داعی اسلام کی کتابیں آپ کے پاس ملتی ہے تو آپ کو دہشت گرد مخالف قانون کے تحت یو اے پی اے ،قومی تحفظ ایکٹ کے جھوٹی الزامات میں گرفتار کیا جاسکتا ہے۔ آپ کو غیر قانونی سرگرمیوں میں ملوث بتاکر جیلوں میں بند کیا جاسکتا ہے۔ چاہے پولیس کے پاس پختہ ثبوت ہو یا نا ہو، جس میں 6 سے 12 سال تک کے ضمانت تک منظور نہیں کی جاتی ہے۔ پھر مقدمہ کورٹ میں پیش ہوتا ہے اور ایک طویل عرصے کے بعد آپ کو عدالت باعزت بری کرتی ہے۔ لیکن یہ بات سسٹم میں موجود اعلی افسران کے سمجھ میں نہیں آتی ہے یا عدالت اس پر نوٹس نہیں لیتی ہے کہ جن پولس افسران نے ایک عام انسان کو جھوٹے الزامات میں گرفتار کرکے ظالمانہ طور پر برسوں تک جیل کی سلاخوں کے پیچھے دھکیلا تھا وہ کون ہے اور اس طرح سے غیر قانونی طور پر ظلم کیوں کیا گیا ہے۔ 
اگر عدالت اور ملک کا سسٹم اس بات پر غور نہیں کرتا ہے تو یہ شک کے دائرے میں آتے ہیں۔ کہ کہے نا کہی سسٹم کے لوگ اس میں ملوث ہے کہ مسلمانوں کو بے جا جھوٹے الزامات میں گرفتار کیا جائے اور پھر انکی جوانی اور قابلیت کو زنگ آلود کرکے باعزت بری کردیا جائے یہ کیسا انصاف ہے۔ جس سے ملک میں مسلمان کبھی بھی مضبوط اور مستحکم نا ہوسکے۔ جس جگہ مسلمان معاشی اعتبار سے مضبوط اور مستحکم دیکھائی دے ایسے علاقوں میں فرقہ وارانہ ماحول پیدا کرکے ہندو مسلم فسادات کروا کر، انکی تجارتوں کو نقصان پہنچایا جاتا ،ہے۔ مسلمانوں کی دوکانوں کو جلایا جاتا ہے۔ یہ سب کچھ اخبارات کی زینت بنتا ہے مسلمان افسوس کا اظہار کرتے ہیں ملی تنظیمیں تعمیری سرگرمیوں کو انجام دیتی ہے۔ جیلوں میں قید بے گناہوں کی رہائی کیلئے مقدمات لڑتی ہے۔ اور پھر انہیں بری کرواتی ہے۔ یہ سب گزشتہ ستر سالوں سے جاری ہے۔ اور اب اس میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے۔ مسلم لڑکیوں کو پیار محبت کے چال میں پھسا کر مہنگے گفٹ دے کر، بہلا پھسلا کر مذہب تبدیل کروایا جارہا ہے کچھ دن ان کے ساتھ گزار کر فرار ہوجاتے ہیں ۔ اور اگر کوئی مسلمان غیر مسلم لڑکی سے شادی کرتا ہے تو اس پر غیر قانونی مذہب تبدیلی قانون کے خلاف ورزی کا الزام عائد کرکے گرفتار کرلیا جاتا ہے۔ 
ملی رہنماؤں، قائدین کو یہ بات حکومت سسٹم کے افراد، عدالت کے سامنے رکھنی چاہیے کہ آخر مسلمانوں کے ساتھ اس طرح کا کھیل کب تک جاری رہے گا۔ اور آخر کیوں مسلمانوں کو شک کی بنیاد پر گرفتار کیا جاتا ہے۔ ملک ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ صرف مسلم نوجوانوں کو جب باعزت بری کرتی ہے تو پھر ان پولیس افسران اور سیکڑوں صفحات پر مشتمل جھوٹی چارج شیٹ تیار کرنے والے اہلکاروں پر کوئی کاروائی کیوں نہیں کی جاتی ہے۔ فیک انکاؤنٹر میں مارے جانے والے مسلم نوجوانوں کے مجرموں کے خلاف کارروائی کیوں نہیں ہوتی ہے‌۔ عدالت اس بات کا نوٹس کیوں نہیں لیتی ہے۔جبکہ ایسے سینکڑوں ہزاروں مقدمات ملک کی عدالتوں کے دفاتر میں موجود ہوگے جو گزشتہ ستر سالوں میں غیر منصفانہ طور پر بے گناہ مظلوم مسلم نوجوانوں کو جیلوں میں گزارنی پڑی ہے۔ اور جنکی زندگیاں تباہ ہوچکی ہے۔ حکومت کا مؤقف جاننا ضروری ہے۔ اور عدالتوں کے ذریعے اس بات کا خلاصہ ہونا چاہیے کہ جن افراد کا ہاتھ اس طرح کے جرائم میں ہے جو بے قصور افراد کو پابند سلاسل کرتے ہیں ان پر کس طرح کی کاروائی کی جائے گی۔ کس طرح کا ایکشن لیا جائے گا۔ یہ بات سچ ہے کہ ہر جگہ کرپشن چلتا ہے اور نوکری بچانے کیلئے مختلف جگہوں پر ایسے مجرموں کی پشت پناہی کی جاتی ہے اور بڑی رقم آپس میں مل بانٹ کر لی جاتی ہے۔ تاکہ مقدمہ ختم کردیا جائے۔ لیکن اس کی جڑ تک نہیں پہنچا جاتا ہے۔ ملی تنظیموں جماعتوں کو چاہے کہ پریس کانفرنس کے ذریعے اس مدعے کو منظر عام پر لایا جائے۔ اور دو ٹوک گفتگو کی جائے۔ جب ان مجرموں کو عدالت کے کٹہرے میں لا کھڑا کیا جائے گا تب اس اسطرح کے جھوٹے الزامات میں گرفتاریوں پر قدغن لگائیں جاسکتی ہے۔ اس بات پر بھی زور دیا جانا چاہیے کہ ایسے مقدمات کو فاسٹ ٹریک کورٹ میں چلایا جائے تاکہ ملزم اور مظلوم کی پہچان فوری ہوسکے۔ تاکہ پھر کسی بے گناہ مظلوم کی زندگی برباد نہ ہو۔


Wednesday 22 September 2021

مولاناکلیم صدیقی صاحب کی گرفتاری سے مسلمانوں میں شدید اضطراب بی جے پی کی مسلم دشمنی اور طاقت کے بیجااستعمال کے خلاف احتجاج .

 نئی دہلی:مشہور اسلامی اسکالر اور داعی مولانا کلیم صدیقی اور ان کے تین ساتھی علما اور ڈرائیور کو سیکورٹی ایجنسی نے پوچھ گچھ کے لیے اٹھا لیا ہے۔ اس واقعے کے بعد دیر رات مولانا کی حمایت میں علما سمیت بڑی تعداد میں مسلمان لیساڑی گیٹ پولیس اسٹیشن میں جمع ہوئے اور احتجاج کیا۔ واضح رہے کہ مولانا کلیم صدیقی مظفر نگر کے گاؤں پھلت کے رہنے والے ہیں اور دعوت و تبلیغ کے حوالے سے ہندوستان و بیرون ہند میں شہرت رکھتے ہیں،وہ منگل کی شام 7 بجے لیساڑی گیٹ کے ہمایوں نگر میں مسجد ماشاء اللہ کے امام شارق کی رہائش گاہ پر ایک پروگرام کے لیے آئے تھے۔ رات نو بجے عشا کی نماز کے بعد ، اپنے ساتھیوں کے ساتھ بذریعہ کار واپس پھلت کے لیے روانہ ہوئے۔ اس دوران گھر والوں نے انھیں فون کیا ، لیکن موبائل بند پایا گیا۔ اہل خانہ نے یہ معلومات میرٹھ میں امام شارق کو دیں۔ افراد خانہ اور دوستوں نے تلاش شروع کی ، لیکن پتہ نہیں چل سکا۔ اس کے بعد لوگوں کا ہجوم لیساڑی گیٹ پولیس اسٹیشن میں جمع ہوگیا۔ رات گئے تک ہنگامہ جاری رہا۔ ایسا کہا جارہا تھا کہ اسلامی سکالر مولانا کلیم صدیقی کو سیکورٹی ایجنسی نے تبدیلی مذہب کے سلسلے میں مشکوک سرگرمیوں کی وجہ سے نشانہ بنایاہے اور آج صبح سویرے اتر پردیش کے اے ڈی جی لا اینڈآرڈر نے اس کی تصدیق بھی کردی ہے۔ ایجنسی کو پہلے ہی میرٹھ میں مولانا کی آمد کا علم تھا۔ یہی وجہ ہے کہ ایجنسی نے انھیں واپسی کے دوران پکڑا۔ ان سے پوچھ گچھ کی جا رہی ہے۔ مولانا کلیم صدیقی کا ملک کے بڑے اسلامی اسکالرز میں شمار ہوتا ہے۔ وہ پھلت کے مدرسہ جامعہ امام ولی اللہ الاسلامیہ کے ڈائریکٹر بھی ہیں۔ انھوں نے 7 ستمبر کو ممبئی میں آر ایس ایس کے سربراہ موہن بھاگوت کے زیر اہتمام منعقدہ پروگرام میں بھی شرکت کی تھی۔ ذرائع نے بتایا کہ ایجنسی شک کی بنیاد پر ان کی تلاش میں تھی۔ منگل کی رات ، سیکورٹی ایجنسیاں لیساڑی گیٹ میں ڈیرے ڈالے ہوئی تھیں۔ رات نو بجے ، جبکہ کہ مولانا اپنے ساتھیوں کے ساتھ میرٹھ سے پھلت کے لیے روانہ ہوئے تھے ، اس دوران انھیں گرفتار کرلیا گیا۔ جب ہنگامہ ہوا تو سیکورٹی ایجنسیاں ان کو لے کر لکھنؤ روانہ ہو گئیں۔ مولانا کے لا پتہ ہونے کے بعد قاری عفان قاسمی ، قاری شفیق الرحمن قاسمی کے بیٹے ، مفتی خالد ، مولانا سراج الدین ، ​​قاری انور اور کئی علما تھانے پہنچ گئے۔ پولیس نے سی سی ٹی وی کیمرے کی فوٹیج بھی دیکھی۔ لاپتہ علما کی بازیابی کا مطالبہ کرتے ہوئے لوگوں نے تھانے میں شکایت بھی درج کروائی۔ اس دوران پولیس نے لوگوں کو بتایا کہ وہ محفوظ ہیں۔ گھبرانے کی کوئی بات نہیں ، کچھ معاملات میں سیکورٹی ایجنسی پوچھ تاچھ کر رہی ہے۔ دیر رات تک میرٹھ پولیس امن و امان برقرار رکھنے میں مصروف تھی۔ آج صبح اتر پردیش کے اے ڈی جی لا اینڈ آرڈر نے تصدیق کردی ہے کہ انھیں غیر قانونی طورپر تبدیلی مذہب کروانے کے معاملوں میں گرفتار کیا گیا ہے۔ یہ ایک غیر معمولی واقعہ ہے جس سے پتہ چلتا ہے کہ ہندوستان میں بڑے سے بڑا مسلم مذہبی رہنما بھی محفوظ نہیں ہے،اس سے قبل ڈاکٹر ذاکر نائک اور عمر گوتم کے معاملے لوگوں کو اچھی طرح یاد ہوں گے ،مولانا کلیم صدیقی کی گرفتاری اسی سلسلے کی کڑی معلوم ہوتی ہے۔ مستقبل قریب میں یوپی اور دیگر ریاستوں میں الیکشنز بھی ہونے ہیں ،اس گرفتاری کو اس پس منظر میں بھی دیکھا جارہا ہے۔