https://follow.it/amir-samdani?action=followPub

Saturday 7 May 2022

معلقۂ امروالقیس بن حجر بن عمرو الکندی

قِفَا نَبْكِ مِنْ ذِكْرَى حَبِيبٍ ومَنْزِلِ بِسِقْطِ اللِّوَى بَيْنَ الدَّخُولِ فَحَوْمَلِ اے میرے دونوں دوستو)، ذرا ٹھہرو تاکہ ہم محبوبہ اور (اس کے اس) گھر کی یاد تازہ کر کے رو لیں جو ریت کے ٹیلے کے آخر پر مقامات دخول اور حومل اور۔۔۔ فَتُوْضِحَ فَالمِقْراةِ لَمْ يَعْفُ رَسْمُها لِمَا نَسَجَتْهَا مِنْ جَنُوبٍ وشَمْألِ ۔۔۔ توضح و مقراۃ کے درمیان واقع ہے جس کے نشانات اس وجہ سے نہیں مٹے کہ اس پر جنوبی و شمالی ہوائیں برابر چلتی ہیں۔ تَرَى بَعَرَ الأرْآمِ فِي عَرَصَاتِهَـا وَقِيعانِهَا كَأنَّهُ حَبُّ فُلْفُــلِ سفید ہرنوں کی مینگنیاں اس مکان کے میدانوں اور ہموار زمینوں میں تُو ایسی پڑی دیکھے گا جیسے سیاہ مرچ کے دانے كَأنِّي غَدَاةَ البَيْنِ يَوْمَ تَحَمَّلُـوا لَدَى سَمُرَاتِ الحَيِّ نَاقِفُ حَنْظَلِ یومِ فراق کی صبح کو جب کہ وہ (معشوقہ کے ہمراہی) روانہ ہوئے تو گویا میں قبیلہ کے ببول کے درختوں کے اندر حنظل (اندرائن) توڑنے والا تھا۔ وُقُوْفاً بِهَا صَحْبِي عَلَّي مَطِيَّهُـمُ يَقُوْلُوْنَ لاَ تَهْلِكْ أَسَىً وَتَجَمَّـلِ میں رو رہا تھا اور احباب میرے پاس ان میدانوں میں اپنی سواریوں کو روکے ہوئے کہہ رہے تھے کہ (غمِ فراق سے) ہلاک نہ ہو اور صبرِ جمیل اختیار کر۔ وإِنَّ شِفـَائِي عَبْـرَةٌ مُهْرَاقَـةٌ فَهَلْ عِنْدَ رَسْمٍ دَارِسٍ مِنْ مُعَوَّلِ )جوابا کہتا ہے کہ میں رونے سے کیسے باز آ سکتا ہوں جبکہ) میری شفا (یہی) بہے ہوئے آنسو ہیں (پھر زرا ہوش میں آ کر کہتا ہے کہ) کیا (ان) مٹے ہوئے نشانوں کے پاس کوئی قابلِ اعتماد )فریاد رس) ہے؟ (نہیں ہے تو رونا بھی بے سود ہے)۔ كَدَأْبِكَ مِنْ أُمِّ الحُوَيْرِثِ قَبْلَهَـا وَجَـارَتِهَا أُمِّ الرَّبَابِ بِمَأْسَـلِ )تیری عادت عنیزہ کے عشق میں ٹھیک) اس عادت کے مانند ہے جو اس سے پہلے ام الحویرث اور اس کی پڑوسن ام رباب کے ساتھ (کوہِ) ماسل میں تھی۔ إِذَا قَامَتَا تَضَوَّعَ المِسْكُ مِنْهُمَـا نَسِيْمَ الصَّبَا جَاءَتْ بِرَيَّا القَرَنْفُلِ جب وہ دونوں (ام حویرث اور ام رباب مستانہ انداز سے) کھڑی ہوتی تھیں تو (ان دونوں سے مشک کی خوشبو) ایسی مہکتی تھی گویا بادِ صبا لونگ کی خوشبو لیے آتی ہے۔ فَفَاضَتْ دُمُوْعُ العَيْنِ مِنِّي صَبَابَةً عَلَى النَّحْرِ حَتَّى بَلَّ دَمْعِي مِحْمَلِي پس عشق کی وجہ سے میری آنکھ کے آنسو یہاں تک سینہ پر بہے کہ میرے آنسووں نے میری (تلوار کے) پرتلہ کو تر کر دیا۔ ألاَ رُبَّ يَوْمٍ لَكَ مِنْهُنَّ صَالِـحٍ وَلاَ سِيَّمَا يَوْمٍ بِدَارَةِ جُلْجُـلِ سنو! بہت سے دن ان (حسین عورتوں) کی جانب سے بہت اچھے تھے، خصوصا وہ دن جو دارۃ جلجل میں گزرا۔ ويَوْمَ عَقَرْتُ لِلْعَذَارَي مَطِيَّتِـي فَيَا عَجَباً مِنْ كُوْرِهَا المُتَحَمَّـلِ اور (یہ وہ) دن تھا جب میں نے دوشیزہ لڑکیوں کے لیے اپنی ناقہ ذبح کر دی تھی، تو اے لوگو! میری حیرت کو دیکھو جو اس (ناقہ) کے (اس) کجاوہ سے (پیدا ہوئی) جو (دوسرے ناقہ پر) لدا ہوا تھا۔ فَظَلَّ العَذَارَى يَرْتَمِيْنَ بِلَحْمِهَـا وشَحْمٍ كَهُدَّابِ الدِّمَقْسِ المُفَتَّـلِ یعنی وہ دوشیزہ عورتیں اس کے گوشت اور اس کی چربی کو جو بٹے ہوئے ریشم کی جھالر کی طرح تھی، (بغایتِ سرُور) ایک دوسرے پر پھینکنے لگیں۔ ويَوْمَ دَخَلْتُ الخِدْرَ خِدْرَ عُنَيْـزَةٍ فَقَالَتْ لَكَ الوَيْلاَتُ إنَّكَ مُرْجِلِي اور جس دن کہ میں ہودج میں یعنی عنیزہ کے ہودج میں داخل ہوا (وہ کیسا بھلا دن تھا) تو اس نے مجھ سے کہا تیرا برا ہو تو مجھے پیادہ پا کرنے والا ہے۔ تَقُولُ وقَدْ مَالَ الغَبِيْطُ بِنَا مَعـاً عَقَرْتَ بَعِيْرِي يَا امْرأَ القَيْسِ فَانْزِلِ درانحالیکہ ہودج ہم دونوں کو جھکائے دے رہا تھا۔ وہ کہنے لگی اے امروالقیس! تو نے میرے اونٹ کی کمر لگا دی پس تو اتر پڑ۔ فَقُلْتُ لَهَا سِيْرِي وأَرْخِي زِمَامَـهُ ولاَ تُبْعـِدِيْنِي مِنْ جَنَاكِ المُعَلَّـلِ میں نے اس (عنیزہ) سے کہا کہ چلی چل اور اونٹ کی مہار کو ڈھیلی چھوڑ اور مجھ کو مکرر چنے ہوئے (یا مجھ کو بہلانے والے) میوہ سے دور نہ کر۔ فَمِثْلِكِ حُبْلَى قَدْ طَرَقْتُ ومُرْضِـعٍ فَأَلْهَيْتُهَـا عَنْ ذِي تَمَائِمَ مُحْـوِلِ (معشوقہ کو غرورِ حسن سے باز رکھنے کے لیے کہتا ہے کہ حسن و جمال میں) تجھ جیسی بہت سی حاملہ اور دودھ پلانے والی عورتیں ہیں جن کے پاس میں رات کے وقت گیا اور ان کو تعویذ والے یک سالہ بچے سے غافل کر دیا۔ إِذَا مَا بَكَى مِنْ خَلْفِهَا انْصَرَفَتْ لَهُ بِشَـقٍّ وتَحْتِي شِقُّهَا لَمْ يُحَـوَّلِ جب وہ (بچہ) اس کے پیچھے رونے لگتا تھا تو وہ ایک حصہ کو اس کی طرف پھیر دیتی تھی اور ایک حصہ میرے نیچے رہتا تھا جو نہیں پھیرا جاتا تھا۔ ويَوْماً عَلَى ظَهْرِ الكَثِيْبِ تَعَـذَّرَتْ عَلَـيَّ وَآلَـتْ حَلْفَةً لم تَحَلَّـلِ اور ایک روز اس (معشوقہ) نے ایک ریت کے ٹیلے پر مجھ سے سختی کی اور (جدائی کی) ایسی قسم کھائی جس میں کوئی استثناء نہ تھا۔ أفاطِـمَ مَهْلاً بَعْضَ هَذَا التَّدَلُّـلِ وإِنْ كُنْتِ قَدْ أزْمَعْتِ صَرْمِي فَأَجْمِلِي اے فاطمہ! اس ناز و انداز کو ذرا چھوڑ اور اگر تو نے مجھ سے قطع تعلق کا پختہ ارادہ کر لیا ہے تو بھل مَنسی کے ساتھ کر۔ أغَـرَّكِ مِنِّـي أنَّ حُبَّـكِ قَاتِلِـي وأنَّـكِ مَهْمَا تَأْمُرِي القَلْبَ يَفْعَـلِ یقینا میری جانب سے تجھ کو یہ گھمنڈ ہو گیا ہے کہ تیری محبت مجھے قتل کیے دیتی ہے اور یہ کہ جو کچھ تو میرے دل کو حکم دے گی وہ (ضرور) کرے گا۔ وإِنْ تَكُ قَدْ سَـاءَتْكِ مِنِّي خَلِيقَـةٌ فَسُلِّـي ثِيَـابِي مِنْ ثِيَابِكِ تَنْسُـلِ اور اگر میری کوئی عادت تجھ کو بری معلوم ہوتی ہے تو اپنے کپڑوں (یا اپنے دل) کو میرے کپڑوں (یا میرے دل) سے کھینچ لے تاکہ جدا ہو جائے۔ وَمَا ذَرَفَـتْ عَيْنَاكِ إلاَّ لِتَضْرِبِـي بِسَهْمَيْكِ فِي أعْشَارِ قَلْبٍ مُقَتَّـلِ تیری دونوں آنکھیں اشکبار نہیں ہوتیں مگر صرف اس لیے کہ تو اپنی دونوں (نگاہوں کے) کے تیروں کو (میرے) شکستہ دل کے ٹکڑوں میں مارے۔ >ترجمہء ثانی< تیری دونوں آنکھوں نے صرف اس لیے آنسو بہائے تاکہ تو اپنے دونوں تیروں )معلیٰ اور رقیب) کو میرے دل نزار کے دسوں حصوں پر مار کر (مجموعہء) دل کی مالک بن جائے۔ وبَيْضَـةِ خِدْرٍ لاَ يُرَامُ خِبَاؤُهَـا تَمَتَّعْتُ مِنْ لَهْوٍ بِهَا غَيْرَ مُعْجَـلِ اور بہت سی (ایسی) پردہ نشین عورتیں ہیں جن کے خیمہ کا (بھی) قصد نہیں کیا جا سکتا۔ میں نے بہت دیر ان کی دل لگی سے فائدہ اٹھایا۔ (بیضہء خدر سے حسین عورتیں مراد ہیں)۔ تَجَاوَزْتُ أحْرَاساً إِلَيْهَا وَمَعْشَـراً عَلَّي حِرَاصاً لَوْ يُسِرُّوْنَ مَقْتَلِـي ایسے نگہبانوں اور قبیلہ سے بچ کر اس تک جا پہنچا جو میرے متعلق اس کے خواہشمند تھے کہ کاش وہ پوشیدہ طور سے مجھ کو قتل کر ڈالیں۔ إِذَا مَا الثُّرَيَّا فِي السَّمَاءِ تَعَرَّضَتْ تَعَـرُّضَ أَثْنَاءَ الوِشَاحِ المُفَصَّـلِ )میں اس کے پاس ایسے وقت جا پہنچا) جب کہ ثریا کے کنارے آسمان پر اس طرح ظاہر ہو گئے تھے جیسے کہ (تھوڑے تھوڑے) فصل سے پروئے ہوئے موتیوں کے ہار کے کنارے۔ فَجِئْتُ وَقَدْ نَضَّتْ لِنَوْمٍ ثِيَابَهَـا لَـدَى السِّتْرِ إلاَّ لِبْسَةَ المُتَفَضِّـلِ میں اس کے پاس ایسے وقت میں پہنچا، جبکہ وہ چلمن کے پاس جامہء خواب کے علاوہ سونے کے لیے (سب) کپڑے نکال چکی تھی۔ فَقَالـَتْ : يَمِيْنَ اللهِ مَا لَكَ حِيْلَةٌ وَمَا إِنْ أَرَى عَنْكَ الغَوَايَةَ تَنْجَلِـي (جب میں اس کے پاس پہنچا) تو وہ بولی، خدا کی قسم تیرے لیے اب کوئی عذر نہیں اور میں نہیں خیال کرتی کہ تجھ سے یہ (عشق کی) گمراہی زائل ہو جائے گی۔ خَرَجْتُ بِهَا أَمْشِي تَجُرُّ وَرَاءَنَـا عَلَـى أَثَرَيْنا ذَيْلَ مِرْطٍ مُرَحَّـلِ میں اس کو ایسے حال میں لے کر نکلا کہ وہ چل رہی تھی اور ہم دونوں کے نشاناتِ (قدم) پر ہمارے پیچھے منقش چادر کے دامن کو کھینچ رہی تھی۔ فَلَمَّا أجَزْنَا سَاحَةَ الحَيِّ وانْتَحَـى بِنَا بَطْنُ خَبْتٍ ذِي حِقَافٍ عَقَنْقَلِ پس جب ہم قوم کی آبادی سے نکل گئے اور ایک وسیع ریگستان کے درمیان جو ٹیلوں والا تھا، پہنچے (لَمَّا کا جواب اگلے شعر میں ہے)۔ هَصَرْتُ بِفَوْدَي رَأْسِهَا فَتَمَايَلَـتْ عَليَّ هَضِيْمَ الكَشْحِ رَيَّا المُخَلْخَـلِ تو میں نے اس کی دو زلفوں کے ذریعہ (اس کو اپنی طرف) جھکایا۔ چنانچہ وہ باریک کمر، گداز پنڈلی والی (معشوقہ) میری طرف جھک آئی۔ مُهَفْهَفَـةٌ بَيْضَـاءُ غَيْرُ مُفَاضَــةٍ تَرَائِبُهَـا مَصْقُولَةٌ كَالسَّجَنْجَــلِ وہ معشوقہ نازک کمر، خوبرو، سُتے ہوئے بدن کی ہے۔ اس کا سینہ آئینے کی طرح درخشاں ہے۔ كَبِكْرِ المُقَـانَاةِ البَيَاضَ بِصُفْــرَةٍ غَـذَاهَا نَمِيْرُ المَاءِ غَيْرُ المُحَلَّــلِ (وہ محبوبہ) اس موتی کی طرح ہے جس میں زردی اور سفیدی ملی ہوئی ہو، جس کو (ایسے) صاف پانی سے سیراب کیا ہو جس پر لوگ نہ اترے ہوں۔ تَـصُدُّ وتُبْدِي عَنْ أسِيْلٍ وَتَتَّقــِي بِـنَاظِرَةٍ مِنْ وَحْشِ وَجْرَةَ مُطْفِـلِ وہ اعراض کرتی ہے اور ایک دراز رخسار ظاہر کرتی ہے اور مقام وجرہ کے بچہ والے وحشی (ہرن) کی آنکھ کے ذریعہ بچتی ہے۔ وجِـيْدٍ كَجِيْدِ الرِّئْمِ لَيْسَ بِفَاحِـشٍ إِذَا هِـيَ نَصَّتْـهُ وَلاَ بِمُعَطَّــلِ اور ایک ایسی گردن (کو ظاہر کرتی ہے) جو گردنِ آہو کی مثل ہے جبکہ وہ اس کو بلند کرے تو لمبی (بے ڈول) اور بے زیور نہیں ہے۔ وفَـرْعٍ يَزِيْنُ المَتْنَ أسْوَدَ فَاحِــمٍ أثِيْـثٍ كَقِـنْوِ النَّخْلَةِ المُتَعَثْكِــلِ اور ایسے بال (دکھاتی ہے) جو کمر کو زینت دیتے ہیں، سخت سیاہ ہیں۔ اتنے گھنے ہیں جیسے پھلدار کھجور کا خوشہ۔ غَـدَائِرُهُ مُسْتَشْزِرَاتٌ إلَى العُــلاَ تَضِلُّ العِقَاصُ فِي مُثَنَّى وَمُرْسَــلِ اس (محبوبہ) کی مینڈھیاں اوپر کو چڑھی ہوئی ہیں، جُوڑا گندھے ہوئے اور چھوٹے بالوں میں غائب ہو جاتا ہے۔ وكَشْحٍ لَطِيفٍ كَالجَدِيْلِ مُخَصَّــرٍ وسَـاقٍ كَأُنْبُوبِ السَّقِيِّ المُذَلَّــلِ اور ایسی نازک کمر جو مہارِ (شتر) کی طرح ہے اور پنڈلی جو نرم اور تربانسی کی پوری کی طرح ہے (دکھاتی ہے)۔ وتُضْحِي فَتِيْتُ المِسْكِ فَوْقَ فِراشِهَـا نَئُوْمُ الضَّحَى لَمْ تَنْتَطِقْ عَنْ تَفَضُّـلِ وہ (سوتے سوتے) دن چڑھا دیتی ہے، درانحالیکہ مشک کے ٹکڑے اس کے بستر پر پڑے ہوتے ہیں۔ چاشت کے وقت تک خوب سونے والی ہے اور اس نے (کام دھندے کے لیے) معمولی کپڑے پہننے کے بعد پٹکا نہیں باندھا۔ وتَعْطُـو بِرَخْصٍ غَيْرَ شَثْنٍ كَأَنَّــهُ أَسَارِيْعُ ظَبْيٍ أَوْ مَسَاويْكُ إِسْحِـلِ وہ ایسی نرم و نازک (انگلیوں) سے (چیزیں) پکڑتی ہے گویا کہ وہ (انگلیاں) )مقامِ) ظبی کے کینچوے یا اسحل (درخت) کی مسواکیں ہیں۔ تُضِـيءُ الظَّلامَ بِالعِشَاءِ كَأَنَّهَــا مَنَـارَةُ مُمْسَى رَاهِـبٍ مُتَبَتِّــلِ (حسین چہرہ کے ذریعہ) شام کے وقت تاریکی کو روشن کر دیتی ہے گویا کہ وہ تارک الدنیا راہب کا شام کا چراغ ہے۔ إِلَى مِثْلِهَـا يَرْنُو الحَلِيْمُ صَبَابَــةً إِذَا مَا اسْبَكَرَّتْ بَيْنَ دِرْعٍ ومِجْـوَلِ اس جیسی محبوبہ کی طرف بردبار (انسان بھی) عشق کی وجہ سے نظر جما کر دیکھتا ہے جب کہ وہ قمیص پہننے والی (عورتوں) اور کُرتی پہننے والی (بچیوں) کے درمیان کھڑی ہو۔ تَسَلَّتْ عَمَايَاتُ الرِّجَالِ عَنْ الصِّبَـا ولَيْـسَ فُؤَادِي عَنْ هَوَاكِ بِمُنْسَـلِ لوگوں کی نوخیز عمر کی (عاشقانہ) گمراہیاں زائل ہو گئیں (مگر اے محبوبہ) میرا دل تیری محبت سے جدا ہونے والا نہیں۔ ألاَّ رُبَّ خَصْمٍ فِيْكِ أَلْوَى رَدَدْتُـهُ نَصِيْـحٍ عَلَى تَعْذَالِهِ غَيْرِ مُؤْتَــلِ سن! تیرے (عشق کے) معاملہ میں بہت سے مخالف سخت جھگڑالو اپنی ملامت گری میں خیرخواہ (بننے والے) اور کوتاہی نہ کرنے والے (ایسے ہیں کہ) میں نے ان کو (ناکام) واپس لوٹا دیا (اور ان کی ایک نہ سنی)۔ ولَيْلٍ كَمَوْجِ البَحْرِ أَرْخَى سُدُوْلَــهُ عَلَيَّ بِأَنْـوَاعِ الهُـمُوْمِ لِيَبْتَلِــي اور بہت سی موجِ دریا کی طرح (خوفناک) راتیں ہیں جنہوں نے اپنے پردے طرح طرح کے غموں سمیت میرے اوپر چھوڑ دیے تاکہ (وہ مجھے) آزمائیں۔ فَقُلْـتُ لَهُ لَمَّا تَمَطَّـى بِصُلْبِــهِ وأَرْدَفَ أَعْجَـازاً وَنَاءَ بِكَلْكَــلِ تو میں نے اس (رات) سے اس وقت کہا جب کہ اس نے اپنی کمر دراز کی اور سُرین پیچھے کو نکالے اور سینہ کو اُبھارا )قُلتُ کا مقولہ اگلے شعر میں ہے)، ألاَ أَيُّهَا اللَّيْلُ الطَّوِيْلُ ألاَ انْجَلِــي بِصُبْحٍ وَمَا الإصْبَاحُ منِكَ بِأَمْثَــلِ (میں نے اس شب سے کہا، اے ہجر کی) شبِ دراز صبح بن کر روشن ہو جا (پھر ہوش میں آ کر کہتا ہے) اور صبح بھی تجھ سے کچھ بہتر نہیں ہے۔ فَيَــا لَكَ مَنْ لَيْلٍ كَأنَّ نُجُومَـهُ بِـأَمْرَاسِ كَتَّانٍ إِلَى صُمِّ جَنْــدَلِ اے رات تجھ پر تعجب ہے، گویا کہ اس کے ستارے نسر کے رسوں کے ذریعہ ٹھوس پتھروں سے باندھ دیے گئے ہیں۔ وقِـرْبَةِ أَقْـوَامٍ جَعَلْتُ عِصَامَهَــا عَلَى كَاهِـلٍ مِنِّي ذَلُوْلٍ مُرَحَّــلِ قوموں کے بہت سے ایسے مشکیزے ہیں جن کی جوتی کو میں نے اپنے مطیع اور بارکش کاندھے پر اٹھایا ہے۔ وَوَادٍ كَجَـوْفِ العَيْرِ قَفْرٍ قَطَعْتُــهُ بِـهِ الذِّئْبُ يَعْوِي كَالخَلِيْعِ المُعَيَّــلِ میں نے بہت سے ایسے جنگلوں کو (سفر میں) قطع کیا جو گدھے کے پیٹ کی طرح یا حمار بن مویلع کے جنگل کی طرح خالی تھے۔ ان میں بھیڑیا ہارے ہوئے کثیرالعیال جواری کی طرح رو رہا تھا (اپنی جفاکشی کی تعریف کرتا ہے)۔ فَقُلْـتُ لَهُ لَمَّا عَوَى : إِنَّ شَأْنَنَــا قَلِيْلُ الغِنَى إِنْ كُنْتَ لَمَّا تَمَــوَّلِ جب وہ بھیڑیا چلایا تو میں نے اس سے کہا ہم دونوں کی شان بے مائگی ہے، بشرطیکہ تو (اب تک کبھی) توانگر نہ ہوا ہو (بھیڑیے کے چلانے کو کم مائگی پر محمول کر کے اپنی بے مائگی دکھلا کر اس کو دلاسا دیتا ہے)۔ كِــلاَنَا إِذَا مَا نَالَ شَيْئَـاً أَفَاتَـهُ ومَنْ يَحْتَرِثْ حَرْثِي وحَرْثَكَ يَهْـزَلِ ہم دونوں میں سے جب کسی کے کوئی چیز ہاتھ لگتی ہے تو وہ کھو بیٹھتا ہے جو شخص میری سی اور تیری سی کمائی کرے گا (ضرور) لاغر ہو جائے گا۔ وَقَـدْ أغْتَدِي والطَّيْرُ فِي وُكُنَاتِهَـا بِمُنْجَـرِدٍ قَيْـدِ الأَوَابِدِ هَيْكَــلِ میں اتنے سویرے اٹھ کر کہ پرندے اس وقت اپنے گھونسلوں میں ہوتے ہیں ایک ایسے کم بال والے گھوڑے کو لے کر سفر کرتا ہوں جو وحشی جانور کی قید اور نہایت قوی ہے۔ مِكَـرٍّ مِفَـرٍّ مُقْبِلٍ مُدْبِـرٍ مَعــاً كَجُلْمُوْدِ صَخْرٍ حَطَّهُ السَّيْلُ مِنْ عَلِ بیک وقت بڑا حملہ آور، تیزی سے پیچھے ہٹنے والا، آگے بڑھنے والا، پشت پھیرنے والا ہے اس پتھر کی طرح جس کو سیلاب (کے بہاو) نے اوپر سے گرایا ہو۔ كَمَيْتٍ يَزِلُّ اللَّبْـدُ عَنْ حَالِ مَتْنِـهِ كَمَا زَلَّـتِ الصَّفْـوَاءُ بِالمُتَنَـزَّلِ کمیت (رنگ کا اور ایسی چکنی کمر والا) ہے کہ نمدہ کو کمر سے اس طرح پھسلا دیتا ہے جیسے چکنا سخت پتھر بارش کو۔ عَلَى الذَّبْلِ جَيَّاشٍ كأنَّ اهْتِـزَامَهُ إِذَا جَاشَ فِيْهِ حَمْيُهُ غَلْيُ مِرْجَـلِ باوجود چھریرے پن کے نہایت گرم رو ہے جب اس میں اس کی گرمی (رفتار) جوش مارتی ہے تو اس کی آواز ہانڈی کے اُبال کی طرح (سنائی دیتی) ہے۔ مَسْحٍ إِذَا مَا السَّابِحَاتُ عَلَى الوَنَى أَثَرْنَ الغُبَـارَ بِالكَـدِيْدِ المُرَكَّـلِ جب تیز رو گھوڑیاں تھکن کی وجہ سے سخت روندی ہوئی زمین میں غبار اڑانے لگیں )تب بھی وہ) باراں رفتار ہے۔ (یعنی پے در پے مختلف چالیں دکھاتا ہے)۔ يُزِلُّ الغُـلاَمُ الخِفَّ عَنْ صَهَـوَاتِهِ وَيُلْوِي بِأَثْوَابِ العَنِيْـفِ المُثَقَّـلِ سُبک تن لڑکے کو اپنی کمر سے پھسلا دیتا ہے اور بھاری کڑیل سوار کے کپڑے پھینک دیتا ہے۔ دَرِيْرٍ كَخُـذْرُوفِ الوَلِيْـدِ أمَرَّهُ تَتَابُعُ كَفَّيْـهِ بِخَيْـطٍ مُوَصَّـلِ اس قدر تیز (کاویے کاٹتا) ہے جیسے بچے کی پھرکی، جس کو اس بچہ کی پے در پے ہاتھوں کی حرکت نے بھنوا دھاگے کے ذریعے گھمایا ہو۔ لَهُ أيْطَـلا ظَبْـيٍ وَسَاقَا نَعَـامَةٍ وإِرْخَاءُ سَرْحَانٍ وَتَقْرِيْبُ تَتْفُـلِ اس کی کوکھیں ہرن کی سی ہیں اور پنڈلیاں شترمرغ کی سی۔ بھیڑیے کا سا دوڑنا ہے اور لومڑی کے بچہ کا سا پویا۔ ضَلِيْعٍ إِذَا اسْتَـدْبَرْتَهُ سَدَّ فَرْجَـهُ بِضَافٍ فُوَيْقَ الأَرْضِ لَيْسَ بِأَعْزَلِ (وہ گھوڑا) چوڑے سینے والا ہے۔ جب تم اسے پیچھے سے دیکھو تو وہ اپنی ٹانگوں کے درمیان کی کشادگی کو ایسی دُم سے پُر کر دیتا ہے جو گھنی اور زمین سے تھوڑی اونچی ہے (اور وہ) کج دُم نہیں ہے۔ كَأَنَّ عَلَى المَتْنَيْنِ مِنْهُ إِذَا انْتَحَـى مَدَاكَ عَرُوسٍ أَوْ صَلايَةَ حَنْظَـلِ جب وہ گھر کے پاس کھڑا ہوا ہوتا ہے تو اس کی کمر دلہن کی خوشبو پیسنے کے پتھر یا حنظل توڑنے کی سِل (کی طرح معلوم ہوتی) ہے۔ كَأَنَّ دِمَاءَ الهَـادِيَاتِ بِنَحْـرِهِ عُصَارَةُ حِنَّاءٍ بِشَيْـبٍ مُرَجَّـلِ (گلے کے) اگلے وحشی جانوروں کا خون جو اس کے سینے پر لگ گیا ہے، کنگھی کیے ہوئے سفید بالوں میں مہندی کے عرق کی طرح معلوم ہوتا ہے۔ فَعَـنَّ لَنَا سِـرْبٌ كَأَنَّ نِعَاجَـهُ عَـذَارَى دَوَارٍ فِي مُلاءٍ مُذَبَّـلِ ہمارے سامنے ایک ایسا ریوڑ آیا جس کی گاوانِ وحشی گویا دراز دامن چادروں میں )ملبوس) دُوار (بُت) کی دوشیزہ عورتیں ہیں (جو اس کے گرد گھومتی ہیں)۔ فَأَدْبَرْنَ كَالجِزْعِ المُفَصَّـلِ بَيْنَـهُ بِجِيْدٍ مُعَمٍّ فِي العَشِيْرَةِ مُخْـوَلِ سو وہ گاوانِ دشتی ایسے حال میں پلٹ کر بھاگیں گویا وہ خرمُہروں کا ایسا ہار ہیں جس کے درمیان اور موتیوں سے فصل کیا گیا ہے اور جو کنبہ میں سے ایسے بچہ کے گلے میں پڑا ہے جو نانہال اور دادھیال کے اعتبار سے شریف ہے۔ فَأَلْحَقَنَـا بِالهَـادِيَاتِ ودُوْنَـهُ جَوَاحِـرُهَا فِي صَرَّةٍ لَمْ تُزَيَّـلِ تو اس (گھوڑے) نے ہمیں گلہ کے گاوانِ پیش رَو سے اتنی جلد ملا دیا کہ پچھلی گائیں ایسی جماعت میں تھیں جو متفرق نہ ہونے پائی تھی۔ فَعَـادَى عِدَاءً بَيْنَ ثَوْرٍ ونَعْجَـةٍ دِرَاكاً وَلَمْ يَنْضَحْ بِمَاءٍ فَيُغْسَـلِ اس نے پے در پے ایک ہی جھپٹ میں ایک نرگاو اور ایک مادہ گاو کو دبا لیا اور اتنا پسینہ نہ لایا کہ نہا جاتا۔ فَظَلَّ طُهَاةُ اللَّحْمِ مِن بَيْنِ مُنْضِجٍ صَفِيـفَ شِوَاءٍ أَوْ قَدِيْرٍ مُعَجَّـلِ قوم کے گوشت پکانے والے یا گرم پتھروں پر پھیلائے گوشت کو کباب کرنے والوں یا ہانڈی کے جلد پکائے ہوئے گوشت کے پکانے والوں میں منقسم ہو گئے۔ ورُحْنَا يَكَادُ الطَّرْفُ يَقْصُرُ دُوْنَـهُ مَتَى تَـرَقَّ العَيْـنُ فِيْهِ تَسَفَّـلِ اور (کھا پی کر) ہم شام کو لَوٹے، درانحالیکہ ہماری نگاہ اس پر نہیں جمتی تھی۔ جب نظر اوپر کو جاتی تھی تو فورا نیچے اتر آتی تھی۔ فَبَـاتَ عَلَيْـهِ سَرْجُهُ ولِجَامُـهُ وَبَاتَ بِعَيْنِـي قَائِماً غَيْرَ مُرْسَـلِ سو وہ گھوڑا رات بھر اس حالت میں رہا کہ اس کا لگام اور زین اسی پر (کسا ہوا) تھا اور وہ تمام شب میرے سامنے ایسے حال میں کھڑا رہا کہ (اس کو چراگاہ میں) نہیں چھوڑا گیا تھا۔ أصَاحِ تَرَى بَرْقاً أُرِيْكَ وَمِيْضَـهُ كَلَمْـعِ اليَدَيْنِ فِي حَبِيٍّ مُكَلَّـلِ اے یار (کیا) تو بجلی کو دیکھ رہا ہے (آ) تجھے میں اس بجلی کی تہہ بہ تہہ ابر میں دونوں ہاتھوں کی حرکت کی طرح چمک دکھاوں۔ يُضِيءُ سَنَاهُ أَوْ مَصَابِيْحُ رَاهِـبٍ أَمَالَ السَّلِيْـطَ بِالذُّبَالِ المُفَتَّـلِ (کیا یہ) بجلی کی روشنی چمک رہی ہے یا اس راہب کا چراغ جس نے بٹی ہوئی بتیوں پر تیل جُھکا دیا ہے۔ قَعَدْتُ لَهُ وصُحْبَتِي بَيْنَ ضَـارِجٍ وبَيْنَ العـُذَيْبِ بُعْدَمَا مُتَأَمَّـلِ میں اپنے ساتھیوں کے ساتھ ضارج اور عُذیب کے درمیان غور کرنے کے بعد (بجلی کا نظارہ کرنے کے لیے) بیٹھ گیا۔ عَلَى قَطَنٍ بِالشَّيْمِ أَيْمَنُ صَوْبِـهِ وَأَيْسَـرُهُ عَلَى السِّتَارِ فَيَذْبُـلِ دیکھنے سے اس ابر کی بارش کی دائیں جانب کوہِ قطن اور بائیں جانب کوہِ سِتار اور یذبُل پر معلوم ہوتی تھی۔ فَأَضْحَى يَسُحُّ المَاءَ حَوْلَ كُتَيْفَةٍ يَكُبُّ عَلَى الأذْقَانِ دَوْحَ الكَنَهْبَلِ تو وہ ابر اور پانی کو مقامِ کُتیفہ پر اس زور شور سے برسانے لگا کہ کنہیل کے درختوں کو اوندھا گرا دیا۔ ومَـرَّ عَلَى القَنَـانِ مِنْ نَفَيَانِـهِ فَأَنْزَلَ مِنْهُ العُصْمَ مِنْ كُلِّ مَنْـزِلِ اس ابر کے کچھ چھینٹے کوہِ قنان پر بھی پڑے تو اس نے کوہِ قنان کی ہر جگہ سے بکروں کو نیچے اتار دیا (اس خوف سے کہ کہیں مینہہ زور کا نہ برسنے لگے) وتَيْمَاءَ لَمْ يَتْرُكْ بِهَا جِذْعَ نَخْلَـةٍ وَلاَ أُطُمـاً إِلاَّ مَشِيْداً بِجِنْـدَلِ قریہء تیماء میں اس ابر نے کسی کھجور کے تنے اور عمارت کو (سالم) نہ چھوڑا مگر (صرف وہ عمارت) جس کو پتھر اور چونے سے مضبوط چنا گیا ہو۔ (یعنی صرف چونے اور پتھر کی بنی ہوئی عمارتیں سالم رہ گئیں۔ خام عمارتیں سب منہدم ہو گئیں)۔ كَأَنَّ ثَبِيْـراً فِي عَرَانِيْـنِ وَبْلِـهِ كَبِيْـرُ أُنَاسٍ فِي بِجَـادٍ مُزَمَّـلِ کوہِ ثبیر اس ابر کی ابتدائی موٹی موٹی بوندوں والی بارش میں گویاں انسانوں کا بڑا سردار ہے جو دھاری دار کملی میں لپٹا ہوا ہے۔ كَأَنَّ ذُرَى رَأْسِ المُجَيْمِرِ غُـدْوَةً مِنَ السَّيْلِ وَالأَغثَاءِ فَلْكَةُ مِغْـزَلِ ٹیلہ مجیمر کے سر کی چوٹیاں، بہاو اور جھاگ (وغیرہ) کی وجہ سے صبح کے وقت گویا تکلے کا دمڑکا تھیں۔ وأَلْقَى بِصَحْـرَاءِ الغَبيْطِ بَعَاعَـهُ نُزُوْلَ اليَمَانِي ذِي العِيَابِ المُحَمَّلِ دشتِ غبیط میں اس ابر نے اپنا تمام بوجھ لا ڈالا جس طرح کہ یمنی تاجر بھاریوں گٹھریوں والا آ اترتا ہے۔ كَأَنَّ مَكَـاكِيَّ الجِـوَاءِ غُدَّبَـةً صُبِحْنَ سُلافاً مِنْ رَحيقٍ مُفَلْفَـلِ گویا کہ مقامِ جواء کی چہچہانے والی سفید چڑیاں صبح کے وقت صاف شرابِ فلفل آمیز پلا دی گئی تھیں۔ كَأَنَّ السِّبَـاعَ فِيْهِ غَرْقَى عَشِيَّـةً بِأَرْجَائِهِ القُصْوَى أَنَابِيْشُ عُنْصُـلِ پانی میں ڈوبے ہوئے درندے شام کے وقت جواء کے اطرافِ بعیدہ میں ایسے

Thursday 5 May 2022

مسجد قباء میں نماز پڑھنے کی فضیلت

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشادِ مبارک ہے: ’’مسجدِ قبا میں دو رکعت پڑھنے کا ثواب ایک عمرہ کے ثواب کے برابر ہے‘‘۔ ایک اور حدیث مبارک میں ہے : جو شخص گھر میں وضو کرکے مسجدِ قبا آئے اور دو رکعت نماز ادا کرے تو اس کو عمرہ جتنا ثواب ملے گا۔ اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم خصوصاً ہفتہ کے دن مسجدِ قبا تشریف لاکر نفل نماز پڑھتے تھے، یہ تشریف آوری کبھی پیدل ہوتی اور کبھی سواری پر ہوتی تھی؛ اس لیے زائرین کو مسجدِ قبا میں حاضر ہوکر نماز پڑھنے کا اہتمام کرنا چاہیے، اور بہتر یہی ہے کہ مدینہ میں جہاں قیام ہو وہیں سے باوضو ہوکر مسجدِ قبا جائیں اور وہاں جاکر نماز پڑھنے کا اہتمام کریں ۔ صحيح البخاري (2/ 61) '' عن ابن عمر رضي الله عنهما، قال: «كان النبي صلى الله عليه وسلم يأتي مسجد قباء كل سبت، ماشياً وراكباً»۔ وكان عبد الله بن عمر رضي الله عنهما «يفعله»''۔ سنن الترمذي(2/ 145) '' قال: حدثنا أبو الأبرد، مولى بني خطمة، أنه سمع أسيد بن ظهير الأنصاري، وكان من أصحاب النبي صلى الله عليه وسلم يحدث، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: «الصلاة في مسجد قباء كعمرة»''۔ سنن ابن ماجه (1/ 453) ''حدثنا محمد بن سليمان الكرماني، قال: سمعت أبا أمامة بن سهل بن حنيف، يقول: قال سهل بن حنيف: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «من تطهر في بيته ثم أتى مسجد قباء، فصلى فيه صلاة، كان له كأجر عمرة»''

Tuesday 3 May 2022

عورت کوچھونے سے وضوٹوٹ جاتا ہے کہ نہیں

شہوت کے ساتھ بیوی کو چھونے یا بوس و کنار کرنے سے اگر شرم گاہ سے مذی وغیرہ نکل جائے تو وضو ٹوٹ جائے گا، لیکن اگر مذی وغیرہ کوئی چیز نہ نکلے تو صرف چھونے یا بوس و کنار کرنے سے وضو نہیں ٹوٹے گا، چاہے شہوت سے ہی کیوں نہ ہو۔ الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (1/ 134): "(وينقضه) خروج منه كل خارج (نجس) بالفتح ويكسر (منه) أي من المتوضئ الحي معتاداً أو لا، من السبيلين أو لا". الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (1/ 165): "(لا) عند (مذي أو ودي) بل الوضوء منه ومن البول جميعا على الظاهر. (قوله: لا عند مذي) أي لايفرض الغسل عند خروج مذي كظبي بمعجمة ساكنة وياء مخففة على الأفصح، وفيه الكسر مع التخفيف والتشديد، وقيل: هما لحن ماء رقيق أبيض يخرج عند الشهوة لا بها، وهو في النساء أغلب، قيل هو منهن يسمى القذى بمفتوحتين نهر

شوال کے چھ روزوں کی فضیلت

شوال کے چھ روزے رکھنا مستحب ہے، احادیثِ مبارکہ میں اس کی فضیلت وارد ہوئی ہے، چناں چہ رسول ﷲصلی ﷲعلیہ وسلم کاارشادِ گرامی صحیح سندکے ساتھ حدیث کی مستندکتابوں میں موجودہے: ’’عن أبي أیوب عن رسول اﷲﷺ قال: من صام رمضان ثم أتبعه ستًّا من شوال فذاک صیام الدهر‘‘. رواه الجماعة إلا البخاري والنسائي‘‘. ( اعلاء السنن لظفر احمد العثمانی -کتاب الصوم - باب استحباب صیام ستۃ من شوال وصوم عرفۃ -رقم الحدیث ۲۵۴۱- ط: ادارۃ القرآن کراچی ) ترجمہ:’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جس نے رمضان کے روزے رکھے اورپھرشوال کے چھ روزے رکھے تویہ ہمیشہ (یعنی پورے سال)کے روزے شمارہوں گے‘‘۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ قرآنِ کریم کے وعدہ کے مطابق ہر نیکی کا بدلہ کم از کم دس گنا ملتا ہے، گویا رمضان المبارک کے ایک ماہ کے روزے دس ماہ کے روزوں کے برابر ہوئے، اور شوال کےچھ روزے ساٹھ روزوں کے برابر ہوئے، جو دو ماہ کے مساوی ہیں، اس طرح رمضان کے ساتھ شوال کے روزے رکھنے والاگویا پورے سال روزہ رکھنے والا ہوجاتا ہے۔ شوال کے چھ روزے یکم شوال یعنی عید کے دن کو چھوڑ کر شوال کی دوسری تاریخ سے لے کر مہینہ کے آخر تک الگ الگ کرکے اور اکٹھے دونوں طرح رکھے جاسکتے ہیں۔ لہذا ان روزوں کا اہتمام کرنا چاہیے۔ البتہ اگر کوئی روزہ نہ رکھے تو اسے طعن و تشنیع کا نشانہ نہیں بنانا چاہیے؛ کیوں کہ یہ مستحب روزہ ہے، جسے رکھنے پر ثواب ہے اور نہ رکھنے پر کوئی مواخذہ نہیں ہے۔ الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2/ 435): "(وندب تفريق صوم الست من شوال) ولا يكره التتابع على المختار خلافاً للثاني حاوي. والإتباع المكروه أن يصوم الفطر وخمسة بعده فلو أفطر الفطر لم يكره بل يستحب ويسن ابن كمال" . (قوله: على المختار) قال صاحب الهداية في كتابه التجنيس: إن صوم الستة بعد الفطر متتابعةً منهم من كرهه، والمختار أنه لا بأس به؛ لأن الكراهة إنما كانت؛ لأنه لايؤمن من أن يعد ذلك من رمضان فيكون تشبهاً بالنصارى والآن زال ذلك المعنى اهـ ومثله في كتاب النوازل لأبي الليث، والواقعات للحسام الشهيد، والمحيط البرهاني، والذخيرة. وفي الغاية عن الحسن بن زياد: أنه كان لايرى بصومها بأس،اً ويقول: كفى بيوم الفطر مفرقاً بينهن وبين رمضان اهـ وفيها أيضاً عامة المتأخرين لم يروا به بأساً. واختلفوا هل الأفضل التفريق أو التتابع اهـ. وفي الحقائق: صومها متصلاً بيوم الفطر يكره عند مالك، وعندنا لايكره وإن اختلف مشايخنا في الأفضل. وعن أبي يوسف أنه كرهه متتابعاً والمختار لا بأس به اهـ وفي الوافي والكافي والمصفى يكره عند مالك، وعندنا لايكره، وتمام ذلك في رسالة تحرير الأقوال في صوم الست من شوال للعلامة قاسم، وقد رد فيها على ما في منظومة التباني وشرحها من عزوه الكراهة مطلقاً إلى أبي حنيفة وأنه الأصح بأنه على غير رواية الأصول وأنه صحح ما لم يسبقه أحد إلى تصحيحه وأنه صحح الضعيف وعمد إلى تعطيل ما فيه الثواب الجزيل بدعوى كاذبة بلا دليل، ثم ساق كثيراً من نصوص كتب المذهب، فراجعها، فافهم. (قوله: والإتباع المكروه إلخ) العبارة لصاحب البدائع، وهذا تأويل لما روي عن أبي يوسف على خلاف ما فهمه صاحب الحقائق كما في رسالة العلامة قاسم، لكن ما مر عن الحسن بن زياد يشير إلى أن المكروه عند أبي يوسف تتابعها وإن فصل بيوم الفطر فهو مؤيد لما فهمه في الحقائق، تأمل.

Sunday 1 May 2022

اگرمیری مرضی کے بغیرگھرسے باہرگئ توطلاق ہے. اس سے طلاق ہوئی کہ نہیں

جب سائل نے اپنی بیوی کو یہ کہا تھا کہ:"اگر میری مرضی کے بغیر گھر سے باہر گئی تو طلاق ہے"،تو ان الفاظ سے سائل نے ایک طلاق رجعی کو بیوی کے گھر سے باہر جانے پر معلق کر دیا تھا،تاہم جب سائل نے اسے یہ الفاظ کہہ دیا کہ:" میری اجازت ہے،تم جب بھی گھر سے باہر جانا چاہو تو جاسکتی ہو"،مطلق اجازت دے دی تو اب بیوی کے باہر جانے سے معلق طلاق واقع نہیں ہوگی۔ الدر المختار مع حاشیہ ابن عابدین میں ہے: "(لا تخرجي) بغير إذني أو (إلا بإذني) أو بأمري أو بعلمي أو برضاي(شرط) للبر (لكل خروج إذن) إلا لغرق أو حرق أو فرقة ولو نوى الإذن مرةدين وتنحل يمينه بخروجها مرة بلا إذن ولو قال: كلما خرجت فقد أذنت لك سقط إذنه ولو نهاها بعد ذلك صح عند محمد وعليه الفتوى والولوالجية (قوله ولو نهاها بعد ذلك صح) أي بعد قوله كلما خرجت إلخ قال في الخانية وبه أخذ الشيخ الإمام ابن الفضل، حتى لو خرجت بعد ذلك حنث ولو أذن لها بالخروج ثم قال لها كلما نهيتك فقد أذنت لك فنهاها لا يصح نهيه." (کتاب الایمان،مطلب لا تخرجی الا باذنی،ج:3،ص:759،ط:سعید)

Saturday 30 April 2022

رقیہ شرعیہ

رقیہ شرعیہ 1- الآيات القرآنية سورۃ الفاتحة سات مرتبہ بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ (1) الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ (2) الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ (3) مَالِكِ يَوْمِ الدِّينِ (4) إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ (5) اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ (6) صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ (7) سورۂ بقرہ کی ابتدائی پانچ آیات ایک مرتبہ بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ الم (1) ذَلِكَ الْكِتَابُ لَا رَيْبَ فِيهِ هُدًى لِلْمُتَّقِينَ (2) الَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِالْغَيْبِ وَيُقِيمُونَ الصَّلَاةَ وَمِمَّا رَزَقْنَاهُمْ يُنْفِقُونَ (3) وَالَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِمَا أُنْزِلَ إِلَيْكَ وَمَا أُنْزِلَ مِنْ قَبْلِكَ وَبِالْآَخِرَةِ هُمْ يُوقِنُونَ (4) أُولَئِكَ عَلَى هُدًى مِنْ رَبِّهِمْ وَأُولَئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ (5) آية الكرسي تین مرتبہ بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ اللَّهُ لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ الْحَيُّ الْقَيُّومُ لَا تَأْخُذُهُ سِنَةٌ وَلَا نَوْمٌ لَهُ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ مَنْ ذَا الَّذِي يَشْفَعُ عِنْدَهُ إِلَّا بِإِذْنِهِ يَعْلَمُ مَا بَيْنَ أَيْدِيهِمْ وَمَا خَلْفَهُمْ وَلَا يُحِيطُونَ بِشَيْءٍ مِنْ عِلْمِهِ إِلَّا بِمَا شَاءَ وَسِعَ كُرْسِيُّهُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ وَلَا يَئُودُهُ حِفْظُهُمَا وَهُوَ الْعَلِيُّ الْعَظِيمُ آخر آیات سورة البقرة.ایک بار آَمَنَ الرَّسُولُ بِمَا أُنْزِلَ إِلَيْهِ مِنْ رَبِّهِ وَالْمُؤْمِنُونَ كُلٌّ آَمَنَ بِاللَّهِ وَمَلَائِكَتِهِ وَكُتُبِهِ وَرُسُلِهِ لَا نُفَرِّقُ بَيْنَ أَحَدٍ مِنْ رُسُلِهِ وَقَالُوا سَمِعْنَا وَأَطَعْنَا غُفْرَانَكَ رَبَّنَا وَإِلَيْكَ الْمَصِيرُ (285) لَا يُكَلِّفُ اللَّهُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا لَهَا مَا كَسَبَتْ وَعَلَيْهَا مَا اكْتَسَبَتْ رَبَّنَا لَا تُؤَاخِذْنَا إِنْ نَسِينَا أَوْ أَخْطَأْنَا رَبَّنَا وَلَا تَحْمِلْ عَلَيْنَا إِصْرًا كَمَا حَمَلْتَهُ عَلَى الَّذِينَ مِنْ قَبْلِنَا رَبَّنَا وَلَا تُحَمِّلْنَا مَا لَا طَاقَةَ لَنَا بِهِ وَاعْفُ عَنَّا وَاغْفِرْ لَنَا وَارْحَمْنَا أَنْتَ مَوْلَانَا فَانْصُرْنَا عَلَى الْقَوْمِ الْكَافِرِينَ آيات سورة آل عمران.ایک بار رَبَّنَا لَا تُزِغْ قُلُوبَنَا بَعْدَ إِذْ هَدَيْتَنَا وَهَبْ لَنَا مِنْ لَدُنْكَ رَحْمَةً إِنَّكَ أَنْتَ الْوَهَّابُ رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ هَذَا بَاطِلًا سُبْحَانَكَ فَقِنَا عَذَابَ النَّارِ * رَبَّنَا إِنَّكَ مَنْ تُدْخِلِ النَّارَ فَقَدْ أَخْزَيْتَهُ وَمَا لِلظَّالِمِينَ مِنْ أَنْصَارٍ آيات سورة يونس .سات مرتبہ قَالَ مُوسَى مَا جِئْتُمْ بِهِ السِّحْرُ إِنَّ اللَّهَ سَيُبْطِلُهُ ان اللہ 7 مرات ] إِنَّ اللَّهَ لَا يُصْلِحُ عَمَلَ الْمُفْسِدِينَ (81) وَيُحِقُّ اللَّهُ الْحَقَّ بِكَلِمَاتِهِ وَلَوْ كَرِهَ الْمُجْرِمُونَ آيت سورة الرعد.... سات مرتبہ الَّذِينَ آَمَنُوا وَتَطْمَئِنُّ قُلُوبُهُمْ بِذِكْرِ اللَّهِ أَلَا بِذِكْرِ اللَّهِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوبُ (28) آيات سورة المؤمنون أَفَحَسِبْتُمْ أَنَّمَا خَلَقْنَاكُمْ عَبَثًا وَأَنَّكُمْ إِلَيْنَا لَا تُرْجَعُونَ (115) فَتَعَالَى اللَّهُ الْمَلِكُ الْحَقُّ لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ رَبُّ الْعَرْشِ الْكَرِيمِ (116) وَمَنْ يَدْعُ مَعَ اللَّهِ إِلَهًا آَخَرَ لَا بُرْهَانَ لَهُ بِهِ فَإِنَّمَا حِسَابُهُ عِنْدَ رَبِّهِ إِنَّهُ لَا يُفْلِحُ الْكَافِرُونَ (117) وَقُلْ رَبِّ اغْفِرْ وَارْحَمْ وَأَنْتَ خَيْرُ الرَّاحِمِينَ آيت سورة النور.ایک بار اللَّهُ نُورُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ مَثَلُ نُورِهِ كَمِشْكَاةٍ فِيهَا مِصْبَاحٌ الْمِصْبَاحُ فِي زُجَاجَةٍ الزُّجَاجَةُ كَأَنَّهَا كَوْكَبٌ دُرِّيٌّ يُوقَدُ مِنْ شَجَرَةٍ مُبَارَكَةٍ زَيْتُونَةٍ لَا شَرْقِيَّةٍ وَلَا غَرْبِيَّةٍ يَكَادُ زَيْتُهَا يُضِيءُ وَلَوْ لَمْ تَمْسَسْهُ نَارٌ نُورٌ عَلَى نُورٍ يَهْدِي اللَّهُ لِنُورِهِ مَنْ يَشَاءُ وَيَضْرِبُ اللَّهُ الْأَمْثَالَ لِلنَّاسِ وَاللَّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ (35) آيات سورة الصافات...ایک بار إِنَّا زَيَّنَّا السَّمَاءَ الدُّنْيَا بِزِينَةٍ الْكَوَاكِبِ (6) وَحِفْظًا مِنْ كُلِّ شَيْطَانٍ مَارِدٍ (7) لَا يَسَّمَّعُونَ إِلَى الْمَلَإِ الْأَعْلَى وَيُقْذَفُونَ مِنْ كُلِّ جَانِبٍ (8) [ دُحُورًا وَلَهُمْ عَذَابٌ وَاصِبٌ... 7 مرات ] (9) إِلَّا مَنْ خَطِفَ الْخَطْفَةَ فَأَتْبَعَهُ شِهَابٌ ثَاقِبٌ آيت سورة الزمر..تین بار قُلْ أَفَرَأَيْتُمْ مَا تَدْعُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ إِنْ أَرَادَنِيَ اللَّهُ بِضُرٍّ هَلْ هُنَّ كَاشِفَاتُ ضُرِّهِ أَوْ أَرَادَنِي بِرَحْمَةٍ هَلْ هُنَّ مُمْسِكَاتُ رَحْمَتِهِ قُلْ حَسْبِيَ اللَّهُ عَلَيْهِ يَتَوَكَّلُ الْمُتَوَكِّلُونَ (38) آخری چار آيات سورة الحشر .تین بار لَوْ أَنْزَلْنَا هَذَا الْقُرْآَنَ عَلَى جَبَلٍ لَرَأَيْتَهُ خَاشِعًا مُتَصَدِّعًا مِنْ خَشْيَةِ اللَّهِ وَتِلْكَ الْأَمْثَالُ نَضْرِبُهَا لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ يَتَفَكَّرُونَ (21) هُوَ اللَّهُ الَّذِي لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ عَالِمُ الْغَيْبِ وَالشَّهَادَةِ هُوَ الرَّحْمَنُ الرَّحِيمُ (22) هُوَ اللَّهُ الَّذِي لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ الْمَلِكُ الْقُدُّوسُ السَّلَامُ الْمُؤْمِنُ الْمُهَيْمِنُ الْعَزِيزُ الْجَبَّارُ الْمُتَكَبِّرُ سُبْحَانَ اللَّهِ عَمَّا يُشْرِكُونَ (23) هُوَ اللَّهُ الْخَالِقُ الْبَارِئُ الْمُصَوِّرُ لَهُ الْأَسْمَاءُ الْحُسْنَى يُسَبِّحُ لَهُ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَهُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ آخر ی دوآیات سورة القلم تین بار وَإِنْ يَكَادُ الَّذِينَ كَفَرُوا لَيُزْلِقُونَكَ بِأَبْصَارِهِمْ لَمَّا سَمِعُوا الذِّكْرَ وَيَقُولُونَ إِنَّهُ لَمَجْنُونٌ (51) وَمَا هُوَ إِلَّا ذِكْرٌ لِلْعَالَمِينَ آية سورة البروج...سات بار إِنَّ الَّذِينَ فَتَنُوا الْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَاتِ ثُمَّ لَمْ يَتُوبُوا فَلَهُمْ عَذَابُ جَهَنَّمَ وَلَهُمْ عَذَابُ الْحَرِيقِ سورة الإخلاص ... 11 بار بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ (1) اللَّهُ الصَّمَدُ (2) لَمْ يَلِدْ وَلَمْ يُولَدْ (3) وَلَمْ يَكُنْ لَهُ كُفُوًا أَحَدٌ (4) سورة الفلق ... تین بار بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ الْفَلَقِ (1) مِنْ شَرِّ مَا خَلَقَ (2) وَمِنْ شَرِّ غَاسِقٍ إِذَا وَقَبَ (3) وَمِنْ شَرِّ النَّفَّاثَاتِ فِي الْعُقَدِ (4) وَمِنْ شَرِّ حَاسِدٍ إِذَا حَسَدَ (5) سورة الناس ... تین بار بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ (1) مَلِكِ النَّاسِ (2) إِلَهِ النَّاسِ (3) مِنْ شَرِّ الْوَسْوَاسِ الْخَنَّاسِ (4) الَّذِي يُوَسْوِسُ فِي صُدُورِ النَّاسِ (5) مِنَ الْجِنَّةِ وَالنَّاسِ (6) 2- الأدعية النبوية تین باردرج ذیل دعاء پڑھیں: بسم الله الذي لا يضرُّ مع اسمه شيء في الأرض ولا في السماء وهو السميع العليم دعاء الشفاء:تین بار بسم الله الرحمن الرحیم تین بار أعوذ بالله وقدرته من شرّ ما أجِد وأحاذِر... 7بار درج ذیل دعاء .سات بار أسألُ الله العظيم ربَّ العرش العظيم أن يشفيَني دعاء العافية ..زیادہ سے زیادہ اللهم إني أسألك العفو والعافية في الدنيا والآخرة

Thursday 28 April 2022

امام شامل.مینارۂ حریت

امام شامل (پیدائش 1797ء۔ انتقال مارچ 1871ء) شمالی قفقاز کے مسلمانوں کے ایک عظیم رہنما تھے جن کی قیادت میں انہوں نے روسی استعمار کے خلاف جنگ قفقاز میں بے مثل شجاعت کا مظاہرہ کیا۔ وہ داغستان تحریک حریت اور امامت قفقاز کے تیسرے سربراہ اور نقشبندی سلسلے کے تیسرے امام تھے (از 1834ء تا 1859ء)۔ ابتدائی زمانہ امام شامل 1797ء میں موجودہ داغستان کے ایک چھوٹے سے قصبے گھمری میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد ایک زمیندار تھے۔ امام شامل نے بچپن میں عربی سمیت کئی مضامین میں تعلیم حاصل کی۔ انہوں نے نقشبندی مجددی خالدیہ سلسلہ تصوف میں شمولیت اختیار کرلی اور قفقاز کے علاقے کے مسلمانوں کی ایک تعلیم یافتہ اور ہر دلعزیز شخصیت بن گئے جب امام شامل پیدا ہوئے تو روسی سلطنت سلطنت عثمانیہ اور فارس کے علاقے پر قبضے کرکے اپنے توسیع پسندانہ عزائم کی تکمیل کر رہی تھی۔ فارس کے سلطان کی حمایت سے جنگ قفقاز میں علاقے کے کئی مسلمان قبائل نے روسی استعمار کے بغاوت کردی۔ قفقازیوں کی مزاحمت کے اولین رہنماؤں میں شیخ منصور اور غازی ملا معروف ہیں۔ امام شامل غازی ملا کے بچپن کے دوست تھے۔ 1834ء میں غازی ملا جنگ گھمری میں شہید ہو گئے طریقہ کے امام بن گئے. امام شامل قفقاز کی جہاد کے رہنما اور نقشبندی مجددی طریقہ کے شیخ تھے. روسیوں کے قبضے سے پہلے قفقاز کے علاقے کبھی ایران کی حکومت کے تحت آجاتے تھے اور کبھی ان پر عثمانی ترک قابض ہوجاتے تھے۔ شروان کا علاقہ جہاں سے اسماعیل صفوی نے اپنی حکومت کا آغاز کیا آذربائیجان کا ایک حصہ ہے۔ جب افغانوں نے اصفہان پر قبضہ کرکے صفوی سلطنت کا خاتمہ کر دیا تھا تو ایران کے ابتر حالات سے فائدہ اٹھاکر روس نے داغستان اور شمالی آذربائیجان پر اور عثمانی ترکوں نے گرجستان اور آرمینیا پر قبضہ کر لیا تھا لیکن نادر شاہ نے ان علاقوں کو جلد ہی واپس لے لیا۔ اس کے بعد روسی 1797ء میں پھر داغستان پر قابض ہو گئے اور چند سال میں دریائے اردس تک پورے آذربائیجان پر قبضہ کر لیا۔ فتح علی شاہ قاچار 1828ء میں معاہدہ ترکمانچی کے تحت ان تمام علاقوں پر سے ایران کے حق سے دستبردار ہو گیا۔ روسیوں کی اس جارحانہ پیش قدمی کے دوران جس علاقے کے باشندوں نے حملہ آوروں کا سب سے زیادہ مقابلہ کیا وہ داغستان ہے یہاں کے جری باشندوں نے بار بار بغاوت کی اور روسیوں کو اپنے وطن سے نکال باہر کیا۔ آزادی کی اس جنگ میں سب سے زیادہ شہرت اور نیک نامی امام شامل نے حاصل کی۔ داغستان کے حکمران کی حیثیت سے انہوں نے 25 سال تک بے مثل شجاعت سے روسیوں کی لاتعداد فوج کا مقابلہ کیا اور 1845ء تک داغستان کے ہرحصے سے روسیوں کو نکال دیا لیکن روسی بار بار حملہ آور ہوتے تھے اور امام شامل کے ليے ان کی کثیر تعداد اور جدید اسلحے سے لیس افواج کا تنہا مقابلہ کرنا ممکن نہیں رہا۔ انہوں نے سلطنت عثمانیہ اور برطانیہ سے مدد حاصل کرنا چاہی لیکن ناکام رہے۔ آخر کار 1859ء میں غنیب کے سخت ترین معرکے میں روسیوں کی تمام شہریوں کو قتل کردینے کی دھمکی پر انہوں نے تمام شہریوں کی جان کے بدلے خود کو روسی فوج کے حوالے کر دیا اور ہتھیار ڈال دیے۔ روسی کمانڈر نے جو زار روس کا بھائی تھا زار کو مبارکباد کا تار دیا کہ آج 100 سال سے جاری قفقاز کی جنگ ختم ہو گئی۔ اس دن کلیساؤں میں اس کامیابی پر شکرانے کی عبادت کی گئی۔ نظر بندی روسی حکومت امام شامل کے ساتھ عزت و احترام سے پیش آئی۔ ان کی پنشن مقرر کردی گئی اور رہنے کے ليے مکان دیا گیا۔ 1870ء تک امام شامل روس میں نظر بند رہے۔ حجاز مقدس آمد اور انتقال 1870ء میں وہ روسی حکومت کی اجازت سے حج کے ليے مکہ معظمہ گئے۔ حجاز مقدس کی جانب سفر کے دوران وہ ترکی اور مشرق وسطی کے دیگر ممالک سے گذرے جہاں کے عوام نے ان کا فقید المثال خیر مقدم کیا۔ اگلے سال 1871ء میں ان کے صاحبزادے غازی محمد روسی قید سے رہا ہوکر مکہ مکرمہ پہنچے لیکن امام شامل مدینہ منورہ انتقال کر گئے۔ انہیں جنت البقیع میں دفن کیا گیا۔ شخصیت اور کارنامے امام شامل کی عظمت محض ان کی دلیرانہ جنگ کی وجہ سے نہیں ہے بلکہ ان کی سیاسی بصیرت، سوجھ بوجھ، انتظامی صلاحیت اور کردار کی بلندی نے عبدالقادر الجزائری اور ٹیپو سلطان کی طرح ان کی عظمت کو چار چاند لگادیے۔ ان کا زمانہ داغستان کی تاریخ میں "شریعت کا دور" کہلاتا ہے۔ امام شامل تصوف کے نقشبندی سلسلے کے سربراہ تھے۔ ان کے مرتب کردہ انتظامی اور قانونی ضابطے "نظام شامل" کہلاتے تھے۔ اس کے تحت داغستان 32 انتظامی اضلاع میں تقسیم کیا گیا تھا۔ انتظامیہ اور عدلیہ الگ الگ تھے۔ ہر ضلع کا مفتی عدالت کے محکمے کا ذمہ دار تھا اور ضلع کا حاکم اس کے معاملات میں مداخلت نہیں کر سکتا تھا۔ ہر مفتی کے تحت 4 قاضی ہوتے تھے۔ اگر کسی معاملے کو قاضی طے نہ کرسکتے تھے تو وہ مفتی کے سامنے پیش کیا جاتا تھا اور مفتی اس معاملے کو امام شامل یا مجلس شوری کے سامنے پیش کرتا تھا جس کو دیوان کا نام دیا گیا تھا۔ امام شامل نے احتساب کا محکمہ بھی قائم کیا تھا جس کے ذریعے عہدے داروں پر نگرانی رکھی جاتی تھی۔ فوجوں کی تنظیم بھی جدید طرز پر کی گئی تھی اور دار الحکومت ودینو Vedeno میں بندوقوں اور توپوں کو ڈھالنے کا کارخانہ بھی قائم کیا گیا تھا۔ ایک زمانے میں داغستان کی افواج کی تعداد 60 ہزار سوار اور پیادہ فوج تک پہنچ گئی تھی۔ فوجی تربیت کے ليے جو مراکز قائم کیے گئے تھے ان میں قید کیے جانے والے روسی افسر تربیت دیتے تھے۔ امام شامل کے ہتھیار ڈال دینے کے بعد داغستان میں 5 سال تک روسیوں کی مزاحمت جاری رہی یہآں تک کہ 21 مئی 1864ء کو داغستان کا آخری پہاڑی قلعہ بھی روسیوں کے قبضے میں آ گیا اور داغستان کی آزادی کی جنگ ختم ہو گئی۔ شیشان میں جاری آزادی کی تحریک شاید انہی کی خاک کی چنگاری ہے۔ چیچن جانبازوں کے سربراہ شامل بسایوف کا نام ان کے والدین نے امام شامل کے نام پر ہی رکھا تھا جو رواں سال 10 جولائی 2006ء کو جاں بحق ہوئے۔ علماء الاسلام کانوابدورا وسماء الصدور ترکستان ان اردت الدین الحنیف تجدہ وہوللبروالہدی عنوان وطن المسلمین دنیاودینا تتغنی بفضلہا الازمان

علماء دین کی توہین

علم اللہ تعالیٰ کی صفت ہے اور اللہ اپنی اس صفت سے اپنے پسندیدہ بندوں کو ہی نوازتے ہیں، تاکہ وہ نائبِ رسول بن کر لوگوں کو راہِ شریعت بتلائیں، کسی عالمِ دین یا حافظِ قرآن کی اہا نت درحقیقت علمِ دین کی اہانت ہے ، اور علمِ دین کی اہانت کو شریعت میں کفر قراردیا گیا ہے، اور اگر کوئی شخص کسی دنیاوی دشمنی یا بغض کی وجہ سے عالمِ دین کو برا بھلا کہتا ہےتو یہ گناہ گار ہے۔ حاصل یہ ہے کہ عالمِ دین کی اہانت سے سلبِ ایمان کا اندیشہ ہے؛ لہذا اس سے مکمل اجتناب ضروری ہے۔ لسان الحكام (ص: 415): "وفي النصاب: من أبغض عالماً بغير سبب ظاهر خيف عليه الكفر. وفي نسخة الخسرواني: رجل يجلس على مكان مرتفع ويسألون منه مسائل بطريق الاستهزاء، وهم يضربونه بالوسائد ويضحكون يكفرون جميعاً". البحر الرائق شرح كنز الدقائق (5/ 134): " ومن أبغض عالماً من غير سبب ظاهر خيف عليه الكفر، ولو صغر الفقيه أو العلوي قاصداً الاستخفاف بالدين كفر، لا إن لم يقصده". مجمع الأنهر في شرح ملتقى الأبحر (1/ 695): "وفي البزازية: فالاستخفاف بالعلماء؛ لكونهم علماء استخفاف بالعلم، والعلم صفة الله تعالى منحه فضلاً على خيار عباده ليدلوا خلقه على شريعته نيابةً عن رسله، فاستخفافه بهذا يعلم أنه إلى من يعود، فإن افتخر سلطان عادل بأنه ظل الله تعالى على خلقه يقول العلماء بلطف الله اتصفنا بصفته بنفس العلم، فكيف إذا اقترن به العمل الملك عليك لولا عدلك، فأين المتصف بصفته من الذين إذا عدلوا لم يعدلوا عن ظله! والاستخفاف بالأشراف والعلماء كفر. ومن قال للعالم: عويلم أو لعلوي عليوي قاصداً به الاستخفاف كفر. ومن أهان الشريعة أو المسائل التي لا بد منها كفر، ومن بغض عالماً من غير سبب ظاهر خيف عليه الكفر، ولو شتم فم عالم فقيه أو علوي يكفر وتطلق امرأته ثلاثاً إجماعاً

Tuesday 26 April 2022

حق حضانت کی تفصیل

بچوں کی حضانت ایک شرعی حق ہے جو متعلقہ افراد کو ملتا ہے اس حق میں اس ناسمجھ بچے کی بہتری پیش نظر ہوتی ہے جو خود سے اپنے آپ کو نہیں سنبھال سکتا اور نہ تربیت کرنے والے کی تربیت و پرورش کے مراحل سے گذرے بغیر عمدہ اوصاف کا حامل ہو سکتا ہے۔ اس کو اس بات کی ضرورت ہے کہ کھانے پینے، پہننے، سونے، جاگنے اور صفائی کرنے میں کوئی اس کی ہر وقت نگرانی کرے اور مناسب اوقات پر مناسب انتظامات کے لیے ہر وقت مستعدر ہے۔ دیگر حقوق کے برعکس حق حضانۃ (پرورش کے حق) میں عورتیں مردوں پر مقدم ہوتی ہیں، ان کو یہ حق مردوں کی نسبت ترجیحاً ملتا ہے، کیونکہ عورتوں میں شفقت و مہربانی کے ساتھ بچوں کی پرورش کے اس حق کو انجام دینے کاعنصر نمایاں ہوتا ہے، چنانچہ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ان امرأۃ قالت: یارسول اللہ، ان ابنی ھذا کان بطنی لہ وعاء وثدیی لہ سقاء وحجری لہ حواء وان اباہ طلقنی واراد ینتزعہ منی فقال لہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ’’انت احق بہ مالم تنکحی‘‘۔ (ابودائود، ج ۱ ، ص ۳۱۷) ایک عورت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آکر عرض کرنے لگی، یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرا یہ بیٹا، میرا شکم اس کا برتن بنا رہا، میرے سینے سے یہ سیراب ہوتا رہا اور میری گود اس کی پرورش گاہ رہی، اس کے باپ نے مجھے طلاق دے دی اور اب مجھ سے بیٹا بھی چھیننا چاہتا ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تو بیٹے کی زیادہ حقدار ہے جب تک تو آگے کہیں نکاح نہیں کرتی۔ حضرت عمرو بن شعیب اپنے والد اور دادا حضرت عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کے طریق سے روایت کرتے ہیں: إِنَّ امْرَأَۃً قَالَتْ: یَا رَسُوْلَ اللهِ، إِنَّ ابْنِي هٰذَا کَانَ بَطْنِي لَهٗ وِعَاءً، وَثَدْیِي لَهٗ سِقَاءً، وَحِجْرِي لَهٗ حِوَاءً، وَإِنَّ أَبَاهُ طَلَّقَنِي وَأَرَادَ أَنْ یَنْتَزِعَهٗ مِنِّي. فَقَالَ لَهَا رَسُوْلُ اللهِ ﷺ: أَنْتِ أَحَقُّ بِہٖ مَا لَمْ تَنْکِحِي. 1۔ احمد بن حنبل، المسند، 2: 246، رقم: 6716 2۔ ابو داؤد، السنن، کتاب الطلاق، باب من أحق بالولد، 2: 263، رقم: 2276 3۔ حاکم، المستدرک، 2: 225، رقم: 2830 4۔ عبد الرزاق، المصنف، 7: 153، رقم: 12596 حضرت سعید بن مسیب رحمہ اللہ فرماتے ہیں: کہ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے ام عاصم کو طلاق دے دی، اُم عاصم کی گود میں بچہ تھا، حضرت عمر رضی اللہ عنہ آئے اور عاصم بچے کو لینا چاہا، حضرت عمر رضی اللہ عنہ ادرام عاصم دونوں نے اس بچہ کو اپنی جانب کھینچا، وہ بچہ رونے لگا، یہ دونوں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پاس (فیصلہ کے لیے) چلے گئے، حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: عمر! اس کی ماں کا ہاتھ پھیرنا، گود اور خوشبو بھی بچے کے لیے تیرے سے بہتر ہے۔ یہاں تک کہ بچہ بڑا ہو جائے اور اپنے لیے کچھ اختیار کر سکے۔ (ابن شیبہ بحوالہ زیلعی ج ۲، ص ۵۲) مندرجہ بالا روایات سے یہ واضح ہے کہ حق حضانت میں عورتیں مردوں پر مقدم ہوتی ہیں، البتہ حق ولایت (ولی اور سرپرست ہونے کا حق) مردوں کو حاصل ہوتا ہے جس کی تفصیل کتب فقہ میں موجود ہے۔ جب بچہ کے والدین رشتہ زوجیت سے منسلک ہوں تو بچہ دونوں کی تربیت میں پرورش پاتا ہے، لیکن اگر خلع, طلاق وفات یافسخ وغیرہ کی وجہ سے دونوں کے درمیان تفریق ہو جائے تو بالاتفاق ماں کو حق حضانت حاصل ہوتا ہے اگر ماں موجود نہ ہو تو مندرجہ ذیل ترتیب کے مطابق یہ حق منتقل ہو جاتا ہے۔ ماں کے بعد نانی، اس کے بعد دادی، پھر حقیقی بہن، اس کے بعد ماں شریک بہن، پھر باپ شریک بہن، اس کے بعد حقیقی بہن کی بیٹی، اس کے بعد ماں شریک بہن کی بیٹی اس کے بعد حقیقی خالہ، اس کے بعد ماں کے اعتبار سے خالہ، اس کے بعد باپ کے اعتبار سے خالہ اس کے بعد باپ شریک بہن کی بیٹی، اس کے بعد حقیقی بھائی کی بیٹی پھر ماں شریک بھائی کی بیٹی، اس کے بعد باپ شریک بھائی کی بیٹی، اس کے بعد حقیقی پھوپھی، پھر ماں کے اعتبار سے پھوپھی، پھر باپ کے اعتبار سے پھوپھی، پھر ماں کی خالہ، اس کے بعد باپ کی خالہ اس کے بعد ماں اور باپ کی پھوپھیاں، اس کے بعد وراثت کی ترتیب کے مطابق عصبات کو حق حضانت حاصل ہوگا، چنانچہ سب سے پہلے باپ کو یہ حق حاصل ہوگا۔ اس کے بعد دادا کو، پھر حقیقی بھائی کو یہ حق ملے گا آخر تک عصبات کی ترتیب کے مطابق، اور عصبات کے نہ ہونے کی صورت میں یہ حق ذوی الارحام کی طرف منتقل ہو جائے گا، جس کی تفصیل فقہ کی کتب میں موجود ہے۔ (ملخص: ردالمحتار مع الدرالمختار ۲/۶۹۲۔ ۲۹۴) امام مالک، امام شافعی اور امام احمد رحمہم اللہ کے نزدیک بھی حق حضانت میں سب سے مقدم ماں ہے، ماں کے بعد حضانت کے استحقاق میں ان کے نزدیک صورتیں قدرے مختلف ہیں جس کی تفصیل ان کی کتب فقہ میں موجود ہے۔ استحقاق حضانت کی درج ذیل شرائط ہیں: (۱) پرورش کرنے والے کا بالغ اور عقلمند ہونا ضروری ہے اگر وہ بالغ یا عقلمند نہیں تو وہ خود پرورش اور دیکھ بھال کا محتاج ہے وہ دوسرے کی پرورش کس طرح کرے گا؟ (۲) اگر پرورش کرنے والی عورت کافرہ ,فاسقہ فاجرہ ہے تو اس کو حق حضانت اس وقت تک حاصل رہے گا جب تک بچہ دین کی سمجھ نہ رکھتا ہو، اور جب یہ اندیشہ ہو کہ بچہ کافرانہ طریقوں سے مانوس ہونے لگا ہے تو پھر اس بچہ کو کافرہ کی پرورش سے نکال کر کسی مسلمان کی پرورش میں دے دیا جائے گا۔ (۳) اگر پرورش کرنے والا ایسا فاسق فاجر ہو کہ اس کے فسق کا ضرر بچہ پر پڑنے اور بچہ کی تربیت خراب ہونے کا اندیشہ ہو تو اس کا حق حضانت ساقط ہو جائے گا۔ (۴) پرورش کرنے والا بچہ کی دیکھ بھال کی استطاعت رکھتا ہو۔ بوڑھا، بیمار، نابینا او رکام کاج کے لیے زیادہ اوقات گھر سے باہر گذارنے والا شخص، بچہ کی دیکھ بھال بہتر طریقہ سے نہیں کر سکتا، جس کی وجہ سے بچہ کے ضائع ہونے کا اندیشہ ہو گا لہٰذا ایسے بے استطاعت لوگوں کا حق حضانت بھی ساقط ہو جائے گا۔ (۵) پرورش کرنے والی عورت کا استحقاق اس وقت ختم ہو جاتا ہے جب وہ اجنبی مرد سے شادی کر لے، ہاں اگر وہ بچہ کے قریبی رشتہ دار سے شادی کرتی ہے تو اس کا حق حضانت ختم نہیں ہوتا۔ (ملخص: ردالمحتار ج ۲ ، ص ۶۸۸، ۶۹۴، و بدائع الصنائع ج ۴، ص ۴۳، ۴۴) بچوں کی حضانت (پرورش) کا آغاز ولادت کے بعد ہو جاتا ہے، جیسے ہی بچہ پیدا ہو اس کی حضانت سابق میں ذکر کردہ ترتیب کے مطابق شروع ہو جائے گی، اگر زوجین کے درمیان رشتۂ زوجیت موجود نہ ہو تو بچے کی پرورش کا حق ماں کو حاصل ہو گا اور یہ حق کب تک حاصل رہے گا اور کب اس کا اختتام ہوگا؟ اس بارے میں حضرات آئمہ کی آراء حسب ذیل ہیں : (۱) فقہ حنفی کے مطابق لڑکا ماں کی پرورش میں رہے گا یہاں تک کہ وہ پرورش سے مستغنی ہو جائے، خود کھا پی سکے، کپڑے وغیرہ پہن سکے اور استنجا وغیرہ کر سکے اور بچہ تقریباً سات سال کی عمر میں یہ باتیں سیکھ جاتا ہے، اس لیے سات سال کی عمر تک بچہ ماں کی پرورش میں رہے گا اور ایک قول کے مطابق بچہ نو سال تک ماں کی پرورش میں رہے گا۔ اگر پرورش کرنے والی ماں، نانی یا دادی ہو تو بچی بالغ ہونے تک ان کی پرورش میں رہے گی اور ان کے علاوہ کوئی اور پرورش کرنے والا ہو تو بچی نو سال تک ان کی پرورش میں رہے گی۔ امام محمد رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ بچی خواہ ماں وغیرہ کی پرورش میں ہو یا کسی اور کی پرورش میں بہرحال جب وہ نو سال کی ہو جائے تو اس کی حضانت ختم ہو جائے گی۔ جب ماں، نانی اور دادی وغیرہ کی حضانت کا حق ختم ہو جائے تو بچہ یا بچی باپ دادا وغیرہ کو دے دئیے جائیں گے تاکہ وہ ان کی تعلیم و تربیت اور شادی وغیرہ کا بندوبست کریں۔ بچہ یا بچی کو اس بات کا اختیار نہیں دیا جائے گا کہ وہ ماں اور باپ میں سے جس کے پاس رہنا پسند کریں اس کے پاس رہیں کیونکہ ان بچوں کو وہ بالغ نظری حاصل نہیں کہ وہ دینی اور دنیاوی بھلائیوں کو پیش نظر رکھتے ہوئے کسی ایک طرف کا بہتر انتخاب کر سکیں بلکہ یہ تو ابھی کھیل کود کو پسند کرتے ہیں اور جس کی طرف ان کو کھیل تماشا زیادہ ملے گا وہ ادھر جائیں گے اور جس طرف تعلیم و تعلم اور سیرت و اخلاق کی تعمیر کی بات ہوگی وہ اس طرف سے بھاگیں گے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشادِ گرامی ہے: جب تمہارے بچے سات سال کے ہو جائیں تو ا نہیں نماز کا حکم دو اور جب دس سال کے ہو جائیں تو نماز نہ پڑھنے پر ان کو (مناسب انداز سے) مارو اور ان کے بستر الگ الگ کر دو۔ (الحدیث) ظاہر ہے کہ بچوں کو مذکورہ بالا آداب سکھانے کا حکم سرپرستوں کو دیا جارہا ہے کہ وہ بچوں کی تربیت اس نہج پر کریں کہ وہ خدا کے فرمانبردار بن جائیں اور اس کے احکام کی تعمیل کریں، ہاں اگر بچہ کا کوئی مرد سرپرست نہ ہو تو پھر یہ حکم ماں، نانی وغیرہ کے لیے ہوگا اور ان کی یہ ذمہ داری ہوگی کہ وہ بچہ کی عمدہ تربیت کریں۔ تجربہ اور مشاہدہ اس بات پر شاہد ہے کہ جو بچے ماں کی گود سے ہمیشہ کے لیے چمٹے رہیں وہ مردوں کی نسبت عورتوں کے مزاج سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں اور مردانہ طریقوں پر ان کو کچھ زیادہ عبور نہیں ہوتا وہ صنف نازک کی لطافت سے متاثر ہو کر مردانہ وقار سے محروم رہتے ہیں ہاں ماں کی گود بیٹی کی پرورش کے لیے زیادہ مفید ہے اس لیے وہ بالغ ہونے تک ماں کی پرورش میں رہے گی۔ حدیث میں ہے کہ جب حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کی بیٹی کی پرورش کے بارے میں حضرت علی، حضرت جعفر اور زید رضی اللہ عنہم نے اختلاف کیا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بچی کو اختیار دئیے بغیر حضرت جعفر رضی اللہ عنہ کی پرورش میں دے دیا کیونکہ وہاں ان کی خالہ حضرت جعفر رضی اللہ عنہ کے گھر میں موجود تھیں اور خالہ کو اس بچی کی پرورش کا حق حاصل تھا۔ ( اعلاء السنن، ج ۱۱، ص ۲۶۹۔ ۶۷۱) جب بچہ بالغ ہو جائے اور عقلمند اور سمجھدار بھی ہو تو اس کو اختیار دیا جائے گا کہ وہ جس کے ساتھ رہنا چاہے رہ سکتا ہے اب وہ اپنے نفع اور نقصان کا خود ذمہ دار ہے، لیکن اگر سرپرست یہ دیکھے کہ اس کو بااختیار کر کے چھوڑ دینے سے اس کا ناقابل تلافی نقصان ہوگا تو اس کو اپنے ساتھ بھی رکھ سکتا ہے۔ اور لڑکی بالغ ہونے کے بعد والد یا دادا کے پاس رہے گی، ہاں جب وہ ایسی عمر میں پہنچ جائے کہ اب اس کے بارے میں کسی قسم کا خوف و اندیشہ نہ ہو تو اس کو بھی اختیار ہوگا کہ وہ جس کے پاس رہنا چاہے رہ سکتی ہے۔ (ردالمحتار ج ۲، ص ۶۹۶) (۲) امام مالک رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ عورتوں کے پاس بچہ کی پرورش کا حق بالغ ہونے تک رہتا ہے اور بالغ ہونے کے بعد ختم ہو جاتا ہے بچی کی پرورش کا حق اس کی شادی اور رخصتی تک عورتوں کے پاس ہی رہتا ہے۔ (دسوقی علی شرح الدردیر، ج ۲، ص ۶۳۲۔ ۵۳۳) امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں بچہ یا بچی دونوں کی پرورش کا حق ماں کو حاصل رہے گا اور جب بچہ یا بچی سن تمیز کو پہنچ جائیں یعنی سات یا آٹھ سال کے ہو جائیں تو ان کو والد یا والدہ کے پاس رہنے میں اختیار دیا جائے گا وہ جس کو اختیار کر لیں گے تو اسی کو تربیت میں دے دئیے جائیں گے، اگر وہ کسی کو بھی اختیار نہ کریں تو وہ والدہ کی پرورش میں دے دئیے جائیں گے، کیونکہ ماں زیادہ شفیق اور مہربان ہے او ربچہ پہلے سے اس کی تربیت میں پرورش پاتا چلا آرہا ہے اور اگر بچہ دونوں کو اختیار کر لے تو پھر قرعہ اندازی کے ذریعے فیصلہ کیا جائے گا اور قرعہ اندازی میں جس کا نام نکل آئے بچہ کو اس کی تربیت میں دے دیا جائے گا اور بلوغت کے بعد وہ بااختیار ہے وہ دونوں میں سے جس کے پاس رہنا چاہے وہ رہ سکتا ہے تاہم بہتر یہ ہے کہ ساتھ ہی رہے تاکہ اسے احسان اور نیکی کرنے کا ثواب ملتا ہے۔ (مغنی المحتاج ج ۳، ص ۵۳۶۔ ۳۵۹) امام احمد رحمہ اللہ فرماتے ہیں لڑکا سات سال کی عمر تک ماں کی پرورش میں رہے گا اس کے بعد اگر والدین اتفاق رائے سے کسی ایک کے پاس بچہ کے رہنے پر رضا مند ہوں تو وہ اس کو اپنی پرورش میں رکھ سکتا ہے اور اگر دونوں میں سے ہر ایک اس کو اپنے پاس رکھنے پر مصر ہو تو بچہ کو اختیار دیا جائے گا وہ جس کو اختیار کر لے اس کے پاس رہے گا، اگر بچہ سوئِ اختیار کی وجہ سے اس کو اختیار کرنے لگے جہاں اس کی تعلیم و تربیت اور سیرت و اخلاق کا واضح نقصان نظر آتا ہو تو بچہ کو اختیار نہیں دیا جائے گا بلکہ اس کی مصلحت کو پیش نظر رکھتے ہوئے اس شخص کے حوالے کیا جائے گا جو اس کو بہتر پرورش کے ساتھ عمدہ تعلیم و تربیت کا انتظام کر سکے۔ (المغنی ج ۷، ص ۶۱۴، ۶۱۶) مندرجہ بالا سطور میںآپ نے ملاحظہ کیا کہ امام ابو حنیفہؒ اور امام مالکؒ بچہ کو اختیار دینے کے قائل نہیں امام شافعیؒ اور امام احمدؒ اس کے قائل ہیں۔ امام شافعی اور امام احمد مندرجہ ذیل احادیث سے استدلال کرتے ہیں۔ (۱) حضرت ابوہریرہؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک بچے کو والد یا والدہ میں سے جس کے پاس چاہے رہنے کا اختیار دیا۔ (زاد المعاد ج ۴، ص ۱۴۹ بحوالہ ترمذی) (۲) حضرت ابوہریرہؓ فرماتے ہیں کہ ایک عورت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آکر کہنے لگی یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرا شوہر مجھ سے میرا بیٹا چھیننا چاہتا ہے حالانکہ وہ (میرا بیٹا) مجھے ابو عتبہ کے کنویں سے پانی پلاتا ہے اور مجھے فائدہ دیتا ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: تم دونوں قرعہ اندازی کر لو، شوہر نے کہا، میرے بیٹے کا میرے سے زیادہ کون حق رکھتا ہے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیٹے سے فرمایا یہ تیرا باپ ہے اور یہ تیری ماں ہے ، تم جس کا چاہو ہاتھ پکڑ لو، بیٹے نے ماں کاہاتھ پکڑ لیا اور وہ اسے اپنے ساتھ لے گئی۔ (زاد المعادج، ج ۴، ص ۱۴۹ بحوالہ ترمذی) (۳) عبدالحمید بن جعفر انصاریؒ فرماتے ہیں کہ ان کے دادا اسلام لے آئے مگر دادی نے اسلام قبول کرنے سے انکار کر دیا۔ ان کے دادا اپنے چھوٹے بیٹے کو لے کر جو ابھی بالغ نہیں ہوا تھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے باپ کو ایک طرف بٹھا دیا اور ماں کو دوسری طرف بٹھا دیا پھر بچے سے مخاطب ہو کر فرمانے لگے، تم اختیار کرو اور ساتھ دُعا فرمائی۔ اللھم اھدہ۔ اے اللہ! اس بچے کی راہنمائی فرما وہ بچہ باپ کے پاس چلا گیا۔ (زادالمعادج، ج ۴، ص ۱۴۹، بحوالہ نسائی) مندرجہ بالا احادیث میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا بچہ کو اختیار دینا منقول ہے۔ لیکن تفصیلی روایات میں یہ مذکور ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بچہ کو اختیار دینے سے قبل والدین کو لڑائی جھگڑا ختم کرنے کی ترغیب دی اور جانبین کی رضا مندی سے بچہ کو اختیار دیا، اگر اختلاف کو اس مصالحت کے طریقہ سے رفع کرنا ممکن ہو تو یہ سب سے بہتر طرزِ عمل ہوگا۔ چنانچہ امام طحاوی رحمہ اللہ مشکل الآثار میں ذکر کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اختیار دینے سے قبل اس کے والدین کو اس بات پر رضا مند کیا کہ وہ بچہ کو خود فیصلہ کرنے کا اختیار دے دیں۔ (مشکل الآثار ج ۴، ص ۱۸۰، بحوالہ اعلاء السنن ج ۱۱، ص ۲۷۱) اور حدیث (۳) میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دعا فرمانے کی وجہ سے اللہ رب العزت نے بچہ میں اپنے لیے بہتر انتخاب کی ہدایت عطا فرما دی اور بچہ نے باپ کا ہاتھ پکڑ لیا۔ بہرحال بچہ یا بچی کو اختیار دینا کوئی ایسی بات نہیں جو شریعت کے ضابطہ کے طور پر منقول ہو اور جس کے خلاف کبھی نہ کیا جا سکتا ہو اگر یہ بات ضابطہ کے طور پر منقول ہوتی تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کی بیٹی کو اختیار دئیے بغیر حضرت جعفر رضی اللہ عنہ کے حوالے نہ کرتے۔ خلاصہ یہ کہ بچی یا بچہ سمجھدار ہونے سے قبل ماں کی پرورش میں رہیں گے، اور سمجھدار ہونے کے بعد کس کے پاس رہیں گے؟ اس میں حضرت آئمہ کرام کے مختلف اقوال ہیں جن کی تفصیل سابقہ سطور میں آپ پڑھ چکے ہیں، جس سے یہ بات بخوبی واضح ہے کہ مندرجہ بالا مسئلہ ایک مجتہد فیہ مسئلہ ہے جس میں فقہائے متبوعین کی مختلف آراء موجود ہیں۔ ایسے اجتہادی مسائل میں کسی ایک جانب کو قطعی اور فیصلہ کن قرار دیتے ہوئے باقی آراء کو غلط قرار دینا مناسب نہیں۔ نزاع کو ختم کرنے کے لیے سب سے پہلے جانبین کو ترغیب دی جائے کہ وہ بچے کے بہتر مستقبل کو پیش نظر رکھتے ہوئے اگر اپنی آراء کو چھوڑ کر ایثار کا اظہار کریں تو یہ باہمی منازعت کو ختم کرنے کے لیے ایک عمل خیر ہوگا اور اگر دونوں اس بات پر رضا مند ہو جاتے ہیں کہ بچہ کو ہی اختیار دے دیا جائے کہ وہ کس کا ہاتھ تھامتا ہے تو یہ بھی کوئی غلط فیصلہ نہیں ( اعلاء السنن ج ۱۱، ص ۲۷۱) لیکن اگر فریقین کسی صورت بھی اپنی آراء سے پیچھے نہ ہٹیں اور نہ ہی بچہ کو اختیار دینے پر رضا مند ہوں تو پھر بچوں کے بہتر مستقبل کی خاطر بیٹا سات سال کی عمر تک والدہ کی پرورش میں رہنے دیا جائے گا اور والدہ اپنے والدین کے گھر میں لے جا کر بھی بچے کی پرورش کر سکتی ہے اور سات سال کے بعد بیٹا سرپرست کی تربیت میں دے دیا جائے گا اور بیٹی بالغ ہونے تک یانوسال کی عمرتک والدہ کی پرورش میں رہے گی اور بلوغت کے بعد شادی وغیرہ کے انتظامات کے لیے سرپرستوں کی ذمہ داری میں دے دی جائے گی۔"

Saturday 23 April 2022

کلمات کفر

کفریہ کلمات متعین اور محدود نہیں ہیں کہ ان سب کو بیان کیا جاسکے، البتہ اصولی جواب یہ ہے کہ ’’وہ کلمات جو اسلامی ضروری عقائد کے خلاف ہیں، اور ان میں درست و واقعی تاویل کا احتمال نہ ہو، انہیں جان بوجھ کر کہنے سے آدمی اسلام سے نکل جاتا ہے اور مسلمان عورت سے اس کا نکاح بھی ختم ہوجاتا ہے‘‘۔ اس موضوع کے حوالے سے درج ذیل کتاب کا مطالعہ مفید رہے گا: ’’کفریہ الفاظ اور ان کے احکامات‘‘ (مولانا عبد الشکور قاسمی) الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (4/ 222): "وفي الفتح: من هزل بلفظ كفر ارتد وإن لم يعتقده للاستخفاف فهو ككفر العناد. (قوله: من هزل بلفظ كفر) أي تكلم به باختياره غير قاصد معناه، وهذا لاينافي ما مر من أن الإيمان هو التصديق فقط أو مع الإقرار لأن التصديق، وإن كان موجوداً حقيقةً لكنه زائل حكماً؛ لأن الشارع جعل بعض المعاصي أمارة على عدم وجوده كالهزل المذكور، وكما لو سجد لصنم أو وضع مصحفاً في قاذورة فإنه يكفر، وإن كان مصدقاً لأن ذلك في حكم التكذيب، كما أفاده في شرح العقائد، وأشار إلى ذلك بقوله: للاستخفاف، فإن فعل ذلك استخفافاً واستهانةً بالدين فهو أمارة عدم التصديق، ولذا قال في المسايرة: وبالجملة فقد ضم إلى التصديق بالقلب، أو بالقلب واللسان في تحقيق الإيمان أمور الإخلال بها إخلال بالإيمان اتفاقا، كترك السجود لصنم، وقتل نبي والاستخفاف به، وبالمصحف والكعبة. وكذا مخالفة أو إنكار ما أجمع عليه بعد العلم به لأن ذلك دليل على أن التصديق مفقود، ثم حقق أن عدم الإخلال بهذه الأمور أحد أجزاء مفهوم الإيمان فهو حينئذ التصديق والإقرار وعدم الإخلال بما ذكر بدليل أن بعض هذه الأمور، تكون مع تحقق التصديق والإقرار، ثم قال ولاعتبار التعظيم المنافي للاستخفاف كفر الحنفية بألفاظ كثيرة، وأفعال تصدر من المنتهكين لدلالتها على الاستخفاف بالدين كالصلاة بلا وضوء عمدا بل بالمواظبة على ترك سنة استخفافا بها بسبب أنه فعلها النبي صلى الله عليه وسلم زيادة أو استقباحها كمن استقبح من آخر جعل بعض العمامة تحت حلقه أو إحفاء شاربه اهـ. قلت: ويظهر من هذا أن ما كان دليل الاستخفاف يكفر به، وإن لم يقصد الاستخفاف لأنه لو توقف على قصده لما احتاج إلى زيادة عدم الإخلال بما مر لأن قصد الاستخفاف مناف للتصديق (قوله: فهو ككفر العناد) أي ككفر من صدق بقلبه وامتنع عن الإقرار بالشهادتين عنادا ومخالفة فإنه أمارة عدم التصديق". الفتاوى الهندية (2/ 283): "رجل كفر بلسانه طائعاً، وقلبه مطمئن بالإيمان يكون كافراً، ولايكون عند الله مؤمناً، كذا في فتاوى قاضي خان"

عیدین کی نماز کاطریقہ مسائل و احکام

عیدین (عید الفطر اور عید الاضحیٰ) کی نماز دین کے شعائر میں سے ہے،اورعیدین کی نماز سے مقصود مسلمانوں کی شان و شوکت اور قوت کا اظہار ہے، یہی وجہ ہے کہ عیدین کی نماز عید گاہ میں پڑھنا مسنون ہے، تاکہ زیادہ سے زیادہ مسلمان ایک جماعت میں شریک ہوسکیں۔ شہر، فنائے شہر اور بڑا گاؤں جہاں جمعہ قائم کرنے کی شرائط پائی جاتی ہیں وہاں عید کی نماز پڑھنا واجب ہے، تاہم جمعہ اور عید کی نماز کی شرائط میں فرق یہ ہے کہ جمعہ کے درست ہونے کے لیے خطبہ شرط ہے ، جب کہ عید کی نماز کے لیے خطبہ شرط نہیں، سنت ہے،اسی طرح عید کی نماز کے لیے اذنِ عام کا ہونا بھی شرط نہیں،جمعہ اور عید کی نمازوں کے لیے جماعت کا ہونا شرط ہے، انفرادی طور پر جمعہ یا عید کی نماز ادا کرنا درست نہیں، جماعت کے ساتھ پڑھنا ضروری ہے، لیکن جمعہ اور عید کی جماعت کے لیے کتنے افراد ضروری ہیں؟ اس میں فرق ہے، جمعہ کی نماز درست ہونے کے لیے امام کے علاوہ تین مردوں کا ہونا ضروری ہے اور عید کی نماز کے لیے امام کے علاوہ ایک مرد کا ہونا کافی ہے۔ عید کی نماز کا طریقہ: عید الفطر اور عید الاضحیٰ کی نماز کا طریقہ ایک ہی ہے۔عید کی نماز کے لیے اذان اور اقامت نہیں، جب نماز کھڑی کی جائے تو عید کی نماز چھ زائد تکبیرات کے ساتھ پڑھنے کی نیت کرے، اس کے بعد تکبیر کہہ کر ہاتھ ناف کے نیچے باندھ لے اور ثناء پڑھے، اس کے بعد تین زائد تکبیریں کہے، دو تکبیروں میں ہاتھ کانوں تک اٹھا کر چھوڑ دے اور تیسری تکبیر پر ہاتھ اٹھا کر ناف کے نیچے باندھ لے، اس کے بعد امام اونچی آواز میں قراءت کرے، قراءت مکمل ہونے کے بعد بقیہ رکعت (رکوع اور سجدہ وغیرہ) دیگر نمازوں کی طرح ادا کرے۔ پھر دوسری رکعت کے شروع میں امام اونچی آواز میں قراءت کرے، اس کے بعد تین زائد تکبیریں کہے، تینوں تکبیروں میں ہاتھ کانوں تک اٹھا کر چھوڑ دے، پھر ہاتھ اٹھائے بغیر چوتھی تکبیر کہہ کر رکوع میں جائے اور پھر دیگر نمازوں کی طرح دو سجدوں کے بعد التحیات، درود اور دعا پڑھ کر سلام پھیر دے، پھرنماز مکمل کرنے کے بعد امام دو خطبے دے، دونوں خطبوں کے درمیان تھوڑی دیر بیٹھے۔ اگر خطبے پڑھنا بھی مشکل ہوں تو دونوں خطبوں میں حمد و صلاۃ اور چند آیات پڑھ لینا بھی کافی ہوگا، نیز عیدین کے خطبوں کی ابتدا و انتہا اور درمیان میں تکبیرات پڑھنے کا بھی اہتمام کرنا چاہیے اور عید الفطر کے مقابلے میں عید الاضحیٰ کے خطبوں میں تکبیرات زیادہ کہنا چاہئے. عیدین کی نماز واجب ہے مگر سب پر نہیں بلکہ انھيں پر جن پر جمعہ واجب ہے اور اس کی ادا کی وہی شرطیں ہیں جو جمعہ کے ليے ہیں صرف اتنا فرق ہے کہ جمعہ میں خطبہ شرط ہے اور عیدین میں سنت، اگر جمعہ میں خطبہ نہ پڑھا تو جمعہ نہ ہوا اور اس میں نہ پڑھا تو نماز ہوگئی مگر بُرا کیا۔ دوسرا فرق یہ ہے کہ جمعہ کا خطبہ قبل نماز ہے اور عیدین کا بعد نماز، اگر پہلے پڑھ لیا تو بُرا کیا، مگر نماز ہوگئی لوٹائی نہیں جائے گی اور خطبہ کا بھی اعادہ نہیں اور عیدین میں نہ اذان ہے نہ اقامت، صرف دوبار اتنا کہنے کی اجازت ہے۔ اَلصَّلٰوۃُ جَامِعَۃٌ ؕ۔[1] (عالمگیری، درمختار وغیرہما) بلاوجہ عيد کی نماز چھوڑنا گمراہی و بدعت ہے۔[2] (جوہرہ نيرہ) مسئلہ ۱: گاؤں میں عیدین کی نماز پڑھنا مکروہِ تحریمی ہے۔[3] (درمختار) مسئلہ ۸: امام نے چھ تکبیروں سے زیادہ کہیں تو مقتدی بھی امام کی پیروی کرے مگر تیرہ سے زیادہ میں امام کی پیروی نہیں۔[5] (ردالمحتار) مسئلہ ۹: پہلی رکعت میں امام کے تکبیر کہنے کے بعد مقتدی شامل ہوا تو اسی وقت تین تکبیریں کہہ لے اگرچہ امام نے قراء ت شروع کر دی ہو اور تین ہی کہے، اگرچہ امام نے تین سے زیادہ کہی ہوں اور اگراس نے تکبیریں نہ کہیں کہ امام رکوع میں چلا گیا تو کھڑے کھڑے نہ کہے بلکہ امام کے ساتھ رکوع میں جائے اور رکوع میں تکبیر کہہ لے اور اگر امام کو رکوع میں پایا اور غالب گمان ہے کہ تکبیریں کہہ کر امام کو رکوع میں پا لے گا تو کھڑے کھڑے تکبیریں کہے پھر رکوع میں جائے ورنہ اللہ اکبر کہہ کر رکوع میں جائے اور رکوع میں تکبیریں کہے پھر اگر اس نے رکوع میں تکبیریں پوری نہ کی تھیں کہ امام نے سر اٹھا لیا تو باقی ساقط ہوگئیں اور اگر امام کے رکوع سے اٹھنے کے بعد شامل ہوا تو اب تکبیریں نہ کہے بلکہ جب اپنی پڑھے اس وقت کہے اور رکوع میں جہاں تکبیر کہنا بتایا گیا، اس میں ہاتھ نہ اٹھائے اور اگر دوسری رکعت میں شامل ہوا تو پہلی رکعت کی تکبیریں اب نہ کہے بلکہ جب اپنی فوت شدہ پڑھنے کھڑا ہو اس وقت کہے اور دوسری رکعت کی تکبیریں اگر امام کے ساتھ پا جائے، فبہا ورنہ اس میں بھی وہی تفصیل ہے جو پہلی رکعت کے بارہ میں مذکور ہوئی۔ [6] (عالمگیری، درمختار وغیرہما) مسئلہ ۱۰: جو شخص امام کے ساتھ شامل ہوا پھر سو گیا یا اس کا وضو جاتا رہا، اب جو پڑھے تو تکبیریں اتنی کہے جتنی امام نے کہیں، اگرچہ اس کے مذہب میں اتنی نہ تھیں۔ [7] (عالمگیری) مسئلہ ۱۱: امام تکبیر کہنا بھول گیا اور رکوع میں چلا گیا تو قیام کی طرف نہ لوٹے نہ رکوع میں تکبیر کہے۔ [8] (ردالمحتار) مسئلہ ۱۲: پہلی رکعت میں امام تکبیریں بھول گیا اور قراء ت شروع کر دی تو قراء ت کے بعد کہہ لے يا رکوع ميں اور قراء ت کا اعادہ نہ کرے۔[9] (غنیہ، عالمگیری) مسئلہ ۱۳: امام نے تکبیراتِ زوائد میں ہاتھ نہ اٹھائے تو مقتدی اس کی پیروی نہ کرے بلکہ ہاتھ اٹھائے۔ [10] (عالمگیری وغيرہ) مسئلہ ۱۴: نماز کے بعد امام دو خطبے پڑھے اور خطبۂ جمعہ میں جو چیزیں سنت ہیں اس میں بھی سنت ہیں اور جو وہاں مکروہ یہاں بھی مکروہ صرف دو باتوں میں فرق ہے ایک یہ کہ جمعہ کے پہلے خطبہ سے پیشتر خطیب کا بیٹھنا سنت تھا اور اس میں نہ بیٹھنا سنت ہے دوسرے یہ کہ اس میں پہلے خطبہ سے پیشتر نو بار اور دوسرے کے پہلے سات بار اور منبر سے اترنے کے پہلے چودہ باراللہ اکبر کہنا سنت ہے اور جمعہ میں نہیں۔ [11] (عالمگیری درمختار وغیرہما) مسئلہ ۱۵: عیدالفطر کے خطبہ میں صدقۂ فطر کے احکام کی تعلیم کرے، وہ پانچ باتيں ہیں: (۱) کس پر واجب ہے؟ (۲) اور کس کے ليے؟ (۳) اور کب؟ (۴) اور کتنا؟ (۵) اور کس چیز سے؟۔ بلکہ مناسب یہ ہے کہ عید سے پہلے جو جمعہ پڑھے اس میں بھی یہ احکام بتا ديے جائیں کہ پیشتر سے لوگ واقف ہو جائیں اور عيداضحی کے خطبہ میں قربانی کے احکام اور تکبیرات تشریق کی تعلیم کی جائے۔[12] (درمختار، عالمگیری) مسئلہ ۱۶: امام نے نماز پڑھ لی اور کوئی شخص باقی رہ گیا خواہ وہ شامل ہی نہ ہوا تھا یا شامل تو ہوا مگر اس کی نماز فاسد ہوگئی تو اگر دوسری جگہ مل جائے پڑھ لے ورنہ نہیں پڑھ سکتا، ہاں بہتر یہ ہے کہ یہ شخص چار رکعت چاشت کی نماز پڑھے۔[13] (درمختار) کے سبب عید کے دن نماز نہ ہو سکی (مثلاً سخت بارش ہوئی یا ابر کے سبب چاند نہیں دیکھا گیا اور گواہی ایسے وقت گزری کہ نماز نہ ہو سکی یا ابر تھا اور نماز ایسے وقت ختم ہوئی کہ زوال ہو چکا تھا) تو دوسرے دن پڑھی جائے اور دوسرے دن بھی نہ ہوئی تو عیدالفطر کی نماز تیسرے دن نہیں ہو سکتی اور دوسرے دن بھی نماز کا وہی وقت ہے جو پہلے دن تھا یعنی ایک نیزہ آفتاب بلند ہونے سے نصف النہار شرعی تک اور بلاعذر عیدالفطر کی نماز پہلے دن نہ پڑھی تو دوسرے دن نہیں پڑھ سکتے۔ [14] (عالمگیری، درمختار وغیرہما) مسئلہ ۱۸: عيداضحی تمام احکام میں عیدالفطر کی طرح ہے صرف بعض باتوں میں فرق ہے، اس میں مستحب یہ ہے کہ نماز سے پہلے کچھ نہ کھائے اگرچہ قربانی نہ کرے اور کھا لیا تو کراہت نہیں اور راستہ میں بلند آواز سے تکبیر کہتا جائے اور عيداضحی کی نماز عذر کی وجہ سے بارہویں تک بلا کراہت مؤخر کر سکتے ہیں، بارہویں کے بعد پھر نہیں ہو سکتی اور بلاعذر دسویں کے بعد مکروہ ہے۔[15](عالمگیری وغيرہ) مسئلہ ۱۹: قربانی کرنی ہو تو مستحب یہ ہے کہ پہلی سے دسویں ذی الحجہ تک نہ حجامت بنوائے، نہ ناخن ترشوائے۔[16] (ردالمحتار) مسئلہ ۲۰: عرفہ کے دن یعنی نویں ذی الحجہ کو لوگوں کا کسی جگہ جمع ہو کر حاجیوں کی طرح وقوف کرنا اور ذکر و دُعا میں مشغول رہنا صحیح يہ ہے کہ کچھ مضایقہ نہیں جبکہ لازم و واجب نہ جانے اور اگر کسی دوسری غرض سے جمع ہوئے، مثلاً نماز استسقا پڑھنی ہے، جب تو بلا اختلاف جائز ہے اصلاً حرج نہیں۔[17] (درمختار وغیرہ) مسئلہ ۲۲: نویں ذی الحجہ کی فجر سے تیرہویں کی عصر تک ہر نماز فرض پنجگانہ کے بعد جو جماعت مستحبہ کے ساتھ ادا کی گئی ایک بار تکبیر بلند آواز سے کہنا واجب ہے اور تین بار افضل اسے تکبیر تشریق کہتے ہیں، وہ یہ ہے: اللہُ اکبراللہُ اکبر لَآ اِلٰـہَ اِلَّااللہ ُوَاللہُ اکبراللہُ اکبر وَلِلّٰہِ الْحَمْدُ ؕ[21] (تنویر الابصار وغیرہ) مسئلہ ۲۳: تکبیر تشریق سلام پھیرنے کے بعد فوراً واجب ہے یعنی جب تک کوئی ایسا فعل نہ کیا ہو کہ اس نماز پر بنا نہ کر سکے، اگر مسجد سے باہر ہوگیا یا قصداً وضو توڑ دیا یا کلام کیا اگرچہ سہواً تو تکبیر ساقط ہوگئی اور بلا قصد وضو ٹوٹ گیا تو کہہ لے۔ [22] (درمختار، ردالمحتار) مسئلہ ۲۴: تکبیر تشریق اس پر واجب ہے جو شہر میں مقیم ہو یا جس نے اس کی اقتدا کی اگرچہ عورت یا مسافر یا گاؤں کا رہنے والا اور اگر اس کی اقتدا نہ کریں تو ان پر واجب نہیں۔ [23] (درمختار) مسئلہ ۲۵: نفل پڑھنے والے نے فرض والے کی اقتدا کی تو امام کی پیروی ميں اس مقتدی پر بھی واجب ہے اگرچہ امام کے ساتھ اس نے فرض نہ پڑھے اور مقیم نے مسافر کی اقتدا کی تو مقیم پر واجب ہے اگرچہ امام پر واجب نہیں۔ [24] (درمختار، ردالمحتار) مسئلہ ۲۶: غلام پر تکبیر تشریق واجب ہے اور عورتوں پر واجب نہیں اگرچہ جماعت سے نماز پڑھی، ہاں اگر مرد کے پیچھے عورت نے پڑھی اور امام نے اس کے امام ہونے کی نیت کی تو عورت پر بھی واجب ہے مگر آہستہ کہے۔ يوہيں جن لوگوں نے برہنہ نماز پڑھی ان پر بھی واجب نہیں، اگرچہ جماعت کریں کہ ان کی جماعت جماعتِ مستحبہ نہیں۔ [25] (درمختار، جوہرہ وغیرہما) مسئلہ ۲۷: نفل و سنت و وتر کے بعد تکبیر واجب نہیں اور جمعہ کے بعد واجب ہے اور نماز عید کے بعد بھی کہہ لے۔ [26] (درمختار) مسئلہ ۲۸: مسبوق و لاحق پر تکبیر واجب ہے، مگر جب خود سلام پھیریں اس وقت کہیں اور امام کے ساتھ کہہ لی تو نماز فاسد نہ ہوئی اور نماز ختم کرنے کے بعد تکبیر کا اعادہ بھی نہیں۔ [27] (ردالمحتار) مسئلہ ۲۹: اور دِنوں میں نماز قضا ہوگئی تھی ایّام تشریق میں اس کی قضا پڑھی تو تکبیر واجب نہیں۔ يوہيں ان دنوں کی نمازیں اور دنوں میں پڑھیں جب بھی واجب نہیں۔ يوہيں سال گذشتہ کے ایّام تشریق کی قضا نمازیں اس سال کے ایّام تشریق میں پڑھے جب بھی واجب نہیں، ہاں اگر اسی سال کے ایّام تشریق کی قضا نمازیں اسی سال کے انھيں دنوں میں جماعت سے پڑھے تو واجب ہے۔[28](ردالمحتار) مسئلہ ۳۰: منفرد[29] پر تکبیر واجب نہیں۔[30] (جوہرہ نیرہ) مگر منفرد بھی کہہ لے کہ صاحبین [31] کے نزدیک اس پر بھی واجب ہے۔ مسئلہ ۳۱: امام نے تکبیر نہ کہی جب بھی مقتدی پر کہنا واجب ہے اگرچہ مقتدی مسافر یا دیہاتی یا عورت ہو۔ [32] درمختار،ردالمحتار) مسئلہ ۳۲: ان تاریخوں میں اگر عام لوگ بازاروں میں باعلان تکبیریں کہيں تو انہيں منع نہ کیا جائے۔ [33] (درمختار [1] ۔۔۔۔۔۔ ''الفتاوی الھندیۃ''، کتاب الصلاۃ، الباب السابع عشر في صلاۃ العيدين، ج۱، ص۱۵۰.و ''الدرالمختار''، کتاب الصلاۃ، باب العيدين، ج۳، ص۵۱، وغيرہما . [2] ۔۔۔۔۔۔ ''الجوہرۃ النيرۃ''، کتاب الصلاۃ، باب العيدين، ص۱۱۹. [3] ۔۔۔۔۔۔ ''الدرالمختار''، کتاب الصلاۃ، باب العيدين، ج۳، ص۵۲. [4] ۔۔۔۔۔۔ ''الدرالمختار''، کتاب الصلاۃ، باب العيدين، ج۳، ص۶۱، وغيرہ . [5] ۔۔۔۔۔۔ ''ردالمحتار''، کتاب الصلاۃ، باب العيدين، مطلب: أمر الخليفۃ... إلخ، ج۳، ص۶۳. [6] ۔۔۔۔۔۔ ''الفتاوی الھندیۃ''، کتاب الصلاۃ، الباب السابع عشر في صلاۃ العيدين، ج۱، ص۱۵۱. و ''الدرالمختار''، کتاب الصلاۃ، باب العيدين، ج۳، ص۶۴ ۔ ۶۶، وغيرہما . [7] ۔۔۔۔۔۔ ''الفتاوی الھندیۃ''، کتاب الصلاۃ، الباب السابع عشر في صلاۃ العيدين، ج۱، ص۱۵۱. [8] ۔۔۔۔۔۔ ''ردالمحتار''، کتاب الصلاۃ، باب العيدين، مطلب: أمر الخليفۃ... إلخ، ج۳، ص۶۵. [9] ۔۔۔۔۔۔ ''الفتاوی الھندیۃ''، کتاب الصلاۃ، الباب السابع عشر في صلاۃ العيدين، ج۱، ص۱۵۱. [10] ۔۔۔۔۔۔ المرجع السابق. [11] ۔۔۔۔۔۔ المرجع السابق، ص۱۵۰، و ''الدرالمختار''، کتاب الصلاۃ، باب العيدين، ج۳، ص۶۷، وغيرہما . [12] ۔۔۔۔۔۔ المرجع السابق. [13] ۔۔۔۔۔۔ ''الدرالمختار''، کتاب الصلاۃ، باب العيدين، ج۳، ص۶۷. [14] ۔۔۔۔۔۔ ''الفتاوی الھندیۃ''، کتاب الصلاۃ، الباب السابع عشر في صلاۃ العيدين، ج۱، ص۱۵۱،۱۵۲. و ''الدرالمختار''، کتاب الصلاۃ، باب العيدين، ج۳، ص۶۸، وغيرہما . [15] ۔۔۔۔۔۔ ''الفتاوی الھندیۃ''، کتاب الصلاۃ، الباب السابع عشر في صلاۃ العيدين، ج۱، ص۱۵۲، وغيرہ . [16] ۔۔۔۔۔۔ ''ردالمحتار''، کتاب الصلاۃ، باب العيدين مطلب في إزالۃ الشعر... إلخ، ج۳، ص۷۷. [17] ۔۔۔۔۔۔ ''الدرالمختار''، کتاب الصلاۃ، باب العيدين، ج۳، ص۷۰، وغيرہ . [18] ۔۔۔۔۔۔ یعنی ہاتھ ملانا۔ [19] ۔۔۔۔۔۔ یعنی گلے ملنا۔ [20]'، ج۸، ص۶۰۱. [21] ۔۔۔۔۔۔ ''تنوير الأبصار''، کتاب الصلاۃ، باب العيدين، ج۳، ص۷۱، ۷۴، وغيرہ . [22] ۔۔۔۔۔۔''الدرالمختار'' و ''ردالمحتار''، کتاب الصلاۃ، باب العيدين، مطلب: المختار أن الذبيح إسماعيل، ج۳، ص۷۳. [23] ۔۔۔۔۔۔ ''الدرالمختار''، کتاب الصلاۃ، باب العيدين، ج۳، ص۷۴. [24] ۔۔۔۔۔۔ ''الدرالمختار'' و ''ردالمحتار''، کتاب الصلاۃ، باب العيدين، مطلب: المختار أن الذبيح إسماعيل، ج۳، ص۷۴. [25] ۔۔۔۔۔۔ ''الدرالمختار''، کتاب الصلاۃ، باب العيدين، ج۳، ص۷۴. و ''الجوہرۃ النيرۃ''، کتاب الصلاۃ، باب صلاۃ العيدين، ص۱۲۲، وغيرہما . [26] ۔۔۔۔۔۔''الدرالمختار'' و ''ردالمحتار''، کتاب الصلاۃ، باب العيدين، مطلب: المختار أن الذبيح إسماعيل، ج۳، ص۷۳. [27] ۔۔۔۔۔۔ ''ردالمحتار''، کتاب الصلاۃ، باب العيدين، مطلب: کلمۃ لابأس قدتستعمل في المندوب، ج۳، ص۷۶. [28] ۔۔۔۔۔۔ ''ردالمحتار''، کتاب الصلاۃ، باب العيدين، مطلب: المختار أن الذبيح إسماعيل، ج۳، ص۷۴. [29] ۔۔۔۔۔۔ يعنی تنہا نماز پڑھنے والے۔ [30] ۔۔۔۔۔۔ ''الجوہرۃ النيرۃ''، کتاب الصلاۃ، باب صلاۃ العيدين، ص۱۲۲. [31] ۔۔۔۔۔۔ فقۂ حنفی ميں امام ابو يوسف اور امام محمد رَحْمَۃُاللہ ِتَعَالیٰ عَلَيْہِمَا کو صاحبين کہتے ہيں۔ [32] ۔۔۔۔۔۔ ''الدرالمختار'' و ''ردالمحتار''، کتاب الصلاۃ، باب العيدين، مطلب: کلمۃ لابأس قدتستعمل في المندوب، ج۳، ص۷۶. [33] ۔۔۔۔۔۔ ''الدرالمختار''، کتاب الصلاۃ، باب العيدين، ج۳، ص۷۵.

Friday 22 April 2022

مویشیوں میں زکوۃ کانصاب

تین قسم کے جانوروں پر زکاۃ فرض ہے جب کہ سائمہ ہوں: ۱۔ اونٹ ۲۔ گائے ۳۔ بکری سائمہ وہ جانور ہے جو سال کے اکثر حصہ میں خود چر کر گزرکرتا ہو اور اس سے مقصود صرف دودھ لینا یا نسل بڑھانا یا شوقیہ پرورش و فربہ کرنا ہو اور اگر گھر میں گھاس لا کر کھلاتے ہوں یا مقصود بوجھ لادنا یا ہل وغیر کسی کام میں لانا یا سواری لینا ہے تومویشی خواہ چر کر گزر کرتا ہو وہ سائمہ نہیں اور اس کی زکاۃ واجب نہیں۔ اونٹ کا نصاب: اگر کسی کے پاس اونٹ ہوں تو اونٹ کا نصاب پانچ اونٹ ہیں یعنی پانچ اونٹوں سے کم میں زکاۃ واجب نہیں، پانچ اونٹوں پر ایک سالہ ایک بکری دینا واجب ہے، دس پر دو، پندرہ پر تین، بیس پر چار، پھر جب ان کی تعداد 25 تک پہنچ جائے تو 25 سے 35 تک میں ایک سالہ اونٹنی ہے اور 36 سے 45 تک ایک دو سالہ اونٹنی ہے، 46 سے 60 تک ایک 3 سالہ اونٹنی ہے، 61 سے 75 تک ایک چار سالہ اونٹنی ہے ۔۔۔ الخ گائے بیل کا نصاب: گائے بیل کا نصاب تیس گائے ہے، یعنی اگر کسی کے پاس تیس سے کم گائے بیل ہوں تو اس پر زکاۃ واجب نہیں، پھر جب تیس ہوں تو اس پر ایک، ایک سالہ گائے واجب ہے، یہ حکم 39 تک کے لیے ہے، پھر جب 40 ہوں تو اس میں ایک، دو سالہ گائےیا بیل واجب ہے، یہ حکم 59 تک کے لیے ہے، پھر جب 60 ہوں تو اس میں دو ایک سالہ گائے یا بیل واجب ہے اور یہ حکم 69 تک کے لیے ہے۔ جب 70 ہوں تو ایک ایک سالہ گائے اور ایک دو سالہ گائے واجب ہوگی۔۔۔ الخ بکروں کا نصاب: جب بکرے، بکری، بھیڑ، دنبہ کی تعداد چالیس کو پہنچ جائے تو 40 سے 120 تک میں ایک بکری واجب ہے اور 121سے 200 تک دو بکریاں ہیں اور 201 سے 399 میں 3 بکریاں ہیں۔ 400 پر چار بکریاں ہیں، پھر ہر100 پر ایک بکری ہے۔ اور اگر ان چرنے والی بکریوں کی تعداد 40 سے کم ہو تو ان میں کچھ بھی نہیں ہے۔ واضح رہے کہ مذکورہ تینوں قسم کے جانوروں پر زکاۃ واجب ہونے کے کا نصاب احادیثِ مبارکہ میں موجود ہے، نیز اس نصاب کے تحقق اور اس پر واجب ہونے والے جانوروں اور مقدار کے اعتبار سے بھی تفصیلی احکام ہیں

مسجد میں مفت دینی وعصری تعلیم دینا

مسجد میں مفت عصری ودینی تعلیم دینا درجِ ذیل شرائط کی پابندی کرتے ہوئے جائز ہے : 1۔واقعی سخت ضرورت ہوجیسے دوسری جگہ دستیاب نہ ہویادوسری جگہ پر سخت گرمی یا سردی یادیگردقتیں وغیرہ ہوں ۲:۔ بچے ہوشیار اور عقل مند ہوں ،جو مسجد کا پورا احترام کرتے ہوں ، مسجد کو گندا اور ناپاک نہ کریں ۔ ۳:۔ اساتذہ کی نیت صرف خدمت قوم اور تعلیم دینے کی ہو، محض پیشہ اورحصول تنخواہ نہ ہو۔ 4۔ اعتکاف کی نیت سے بیٹھتے ہوں ۔ ۔ حوالہ جات الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (4/ 445) مراعاة غرض الواقفين واجبة. وفی الدر المختار : ویحرم ادخال صبیان ومجانین حیث غلب تنجیسھم و الا فیکرہ . حاشية ابن عابدين (رد المحتار) (1/ 656) (قوله ويحرم إلخ) لما أخرجه المنذري " مرفوعا «جنبوا مساجدكم صبيانكم ومجانينكم، وبيعكم وشراءكم، ورفع أصواتكم، وسل سيوفكم، وإقامة حدودكم، وجمروها في الجمع، واجعلوا على أبوابها المطاهر» " بحر...... والمراد بالحرمة كراهة التحريم لظنية الدليل. وأما قوله تعالى - {أن طهرا بيتي للطائفين} [البقرة: 125]- الآية فيحتمل الطهارة من أعمال أهل الشرك تأمل؛ وعليه فقوله وإلا فيكره أي تنزيها تأمل. و فی البحر الرائق ،ج :۲، ص:۳۵ أما ھؤلاء المکتبون الذین یجتمع عندھم الصبیان و اللغط فلا و لو لم یکن لغط لأنھم فی صناعۃ لاعبادۃ اذ ھم یقصدون الاجارۃ لیس ھو للّٰہ بل للارتزاق ومعلم الصبیان القرآن کالکتاب ان کان لأجر لا وحسبۃ لا بأس بہ .وکذا فی الأشباہ والنظائر ،ص:۲۴۱۔فتاوی عثمانی 2/746 ’’ أما المعلم الذی یعلم الصبیان بأجر إذا جلس في المسجد یعلم الصبیان لضرورۃ الحر و غیرہ لا یکرہ ‘‘( خلاصۃ الفتاوی: ۱/۲۲۹ ، الفتاوی الھندیۃ : ۱/۱۵۷ ، از جدید فقہی مسائل . و أما المعلم الذی یعلم الصبیان بأجر اذا جلس فی المسجد یعلم الصبیان لضرورۃ الحر أو غیرہ لا یکرہ وفی نسخۃ القاضی الامام و فی اقرار العیون جعل المسئلۃ المعلم کمسئلۃ الکاتب والخیاط فانکان یعلم حسبۃ لا بأس بہ وان کا بأجرہ یکرہ الا اذا وقع ضرورۃ ۔ وکذا فی الھندیۃ ،ج:۱،ص:۱۱۰ و فتح القدیر ،ج:۱،ص:۳۶۹ والفتاویٰ الخانیۃ ،ج:۱،ص:۶۵ و الأشباہ والنظائر ،ج:۲،ص:۲۳۱ . الفتاوى الهندية (5/ 321) ولو جلس المعلم في المسجد والوراق يكتب، فإن كان المعلم يعلم للحسبة والوراق يكتب لنفسه فلا بأس به؛ لأنه قربة، وإن كان بالأجرة يكره إلا أن يقع لهما الضرورة، كذا في محيط السرخسي.