https://follow.it/amir-samdani?action=followPub

Thursday 28 October 2021

اسلامی حدود, قصاص اورتعزیر



دنیا کے عام قوانین میں جرائم کی تمام سزاؤں کو تعزیرات کا نام دیا جاتاہے‘ خواہ وہ کسی بھی جرم سے متعلق ہوں جب کہ شریعت اسلامیہ میں جرائم کی سزاؤں کی تین قسمیں ہیں:
۱:․․․حدود ۲:․․․قصاص ۳:․․․تعزیرات۔
جرائم کی وہ سزا جو قرآن وسنت اور اجماع نے متعین کردی ہو‘ اس کی دو قسمیں ہیں: ۱:․․․حدود،۲:․․․․قصاص

حدود
شرعی اصطلاح میں ایسے جرم کی سزا کو کہا جاتاہے جس میں حق اللہ غالب ہو۔

قصاص
ایسی سزا جس میں حق العبد غالب ہو۔

تعزیرات
کسی بھی جرم کی وہ سزا جو قرآن وسنت نے متعین نہیں فرمائی‘ بلکہ اسے حاکم ِ وقت یا قاضی کی صوابدید پر چھوڑدیا۔
شریعت اسلامیہ میں حدود کی تعداد چھ ہے: ۱:․․․ ڈاکہ‘ ۲:․․․چوری‘ ۳:․․․زنا‘ ۴:․․․تہمتِ زنا‘ ۵:․․․ شراب خوری‘ ۶:․․․مرتد کی سزا۔

حدود وقصاص میں فرق
جرائم کی وہ سزا جو قرآن وسنت نے متعین فرمادی ہے‘ اس کی دو قسمیں ہیں:۱:․․ ایک حد ۲:․․․ قصاص۔ بنیادی طور پر یہ دونوں اگرچہ اس امر میں مشترک ہیں کہ ان میں سزاکی تعیین قرآن کریم اور سنت رسول کریم ا سے کی جاتی ہے‘ لیکن ان دونوں کے حکم میں یہ فرق ہے کہ: حدود ․․․پانچ جرائم کی سزائیں․․․ جس طرح کوئی حاکم وامیر کم یا معاف نہیں کرسکتا اسی طرح توبہ کر لینے سے بھی معاف نہیں ہوتیں‘ البتہ اگر اخلاص کے ساتھ توبہ کرلے تو آخرت میں معافی ہوجاتی ہے۔ ان پانچ میں سے صرف ڈاکہ کی سزا ایسی ہے کہ اگر ڈاکو گرفتاری سے قبل توبہ کرلے اور معاملات سے اس کی توبہ کا اطمینان ہوجائے تو یہ حد ساقط ہوجائے گی‘ البتہ گرفتاری کے بعد کی توبہ کا اعتبار نہیں ہے۔ دوسری حدود توبہ سے بھی دنیا کے حق میں معاف نہیں ہوتیں ‘ خواہ توبہ گرفتاری سے قبل کرے یا بعد میں۔ قصاص کی سزا بھی اگرچہ حدود کی طرح قرآن کریم میں متعین ہے کہ جان کے بدلے میں جان اور زخموں کے بدلہ میں مساوی زخموں کی سزا دی جائے ‘ لیکن حدود کو چونکہ بحیثیت حق اللہ کے نافذ کیا جاتا ہے‘ اس لئے اگر صاحب حق معاف بھی کرنا چاہے تو معاف نہیں ہوگا اور حد ساقط نہیں ہوگی‘ مثلاً جس کا مال چوری کیا ہے وہ معاف بھی کردے تو چوری کی شرعی سزا معاف نہ ہوگی۔رہا قصاص کا معاملہ تو چونکہ اس میں حق العبد غالب ہے‘ اس لئے ولی مقتول کو اختیار ہے کہ وہ قصاص لے لے یا معاف کردے‘ اسی طرح زخموں کے قصاص میں بھی یہی حکم ہے۔

حدود اور تعزیر کا فرق
حدود اللہ ان سزاؤں کو کہا جاتا ہے جو متعین سزائیں ہیں اور تعزیر غیر متعینہ سزاؤں کوکہا جاتاہے۔ تمام تعزیری جرائم میں صحیح اور جائز سفارش سنی جاسکتی ہے‘ لیکن حدود میں سفارش کرنا جائز نہیں ہے اور نہ ہی اس کا سننا جائز ہے۔ حدود کی سزائیں چونکہ سخت ہیں اور ان کی شرائط بھی کڑی ہیں‘ اس لئے شبہات سے ساقط ہوجاتی ہیں‘ چنانچہ مسلمہ قانون ہے : ”الحدود تندرئ بالشبہات“ جبکہ تعزیر شبہ سے ساقط نہیں ہوتی۔ تعزیری سزائیں حالات کے تحت ہلکی سے ہلکی بھی کی جاسکتی ہیں اور سخت سے سخت بھی اور یہ اختیار بھی ہے کہ انہیں معاف کردیا جائے اور حدود میں کسی حکومت‘ امیر اورحاکم کو نہ معاف کرنے کا اختیار ہے اور نہ ہی کسی قسم کے رد وبدل اور تغیر کا۔

تعزیر کے سلسلہ میں ایک وضاحت
جن جرائم میں شریعت نے سزا متعین نہیں فرمائی‘ ان میں دو صورتیں ہیں: ایک یہ کہ قاضی کے اختیار میں دیدیا جائے کہ وہ ہر زمانہ‘ ہر مکان اور ماحول کے لحاظ سے جیسی اور جتنی سزا انسداد جرم کے لئے ضروری سمجھے وہ جاری کرے۔ دوسرے یہ کہ اسلامی حکومت شرعی قواعد کا لحاظ کرتے ہوئے قاضیوں کے اختیارات پر کوئی پابندی لگادے اور جرائم کی سزاؤں کا کوئی خاص پیمانہ مقرر کردے‘ دونوں صورتیں جائز ہیں ‘ لیکن دوسری صورت آج کل کے حالات کے پیش نظر زیادہ بہتر ہے۔

ایک شبہ کا ازالہ
بعض حضرات کا شبہ ہے کہ جب قرآن وسنت میں مقررہ حد کا نفاذ نہ ہو سکے‘ یعنی حد کسی شبہ یا کسی شرط کے فقدان کی وجہ سے ساقط ہوجائے تو مجرم کو کھلی چھٹی مل جائے گی‘ جس سے اس کو جرم پر اور جرأت پیدا ہوگی اور جرائم بڑھتے چلے جائیں گے۔ یہ شبہ عام طور پر بیان کیا جاتاہے‘ لیکن اس کا جواب یہ ہے کہ حد کے عدم نفاذ سے یہ سمجھنا کہ مجرم کو کھلی چھٹی مل جائے گی‘ صحیح نہیں۔ کیونکہ اس صورت میں حاکم اسے مناسب تعزیری سزا دے سکتا ہے اور تعزیری سزا عموماً بدنی اور جسمانی سزائیں ہیں جو عبرت انگیز ہونے کی وجہ سے انسداد جرائم کا سبب بن سکتی ہیں۔ مثلاً: زنا کے ثبوت پر صرف تین گواہ ہیں اور گواہ بھی عادل اور ثقہ ہیں جن پر جھوٹ کا شبہ نہیں ہوسکتا‘ مگر از روئے قانون شرعاً چوتھا گواہ نہ ہونے کی وجہ سے اس پرحد شرعی جاری نہیں ہوگی‘ لیکن اس صورت میں بھی مجرم کو یوں نہیں چھوڑدیا جائے گا‘ بلکہ حاکم وقت اس کو مناسب سزا دے گا جو کوڑے لگانے کی صورت میں بھی ہوسکتی ہے جس سے آئندہ یہ شخص جرم پر بے باک نہیں ہوگا۔ اسی طرح چوری کے لئے جو شرائط مقرر ہیں ان میں کمی یا شبہ کی وجہ سے اگر مجرم پر حدِ شرعی یعنی قطع ید کی سزا نافذ نہ ہو سکے تو اسے بھی حسب حال دوسری مناسب سزا دی جاسکتی ہے۔ اسی طرح اگر قصاص ساقط ہوجائے تو اس سے یہ ہرگز لازم نہیں آتا کہ مجرم کو کھلی چھٹی دے دی جائے گی‘ کیونکہ حاکم تعزیری سزا دے سکتا ہے۔ اس پر یہ شبہ کہ اگر خود مجرم کو اولیاء مقتول معاف کردیں تو قاتل کو جرأت بڑھ جائے گی‘ صحیح نہیں‘ کیونکہ قاتل کی جان لینا ولی مقتول کا حق تھا‘ وہ اس نے معاف کردیا‘ لیکن دوسرے لوگوں کی جانوں کی حفاظت کی جو ذمہ داری حکومت پر عائد ہوتی ہے‘ وہ اس کے تحفظ کے لئے قاتل کو عمر قید یا دوسری سزا دے کر اس خطرہ کا انسداد کر سکتی ہے۔​

No comments:

Post a Comment