https://follow.it/amir-samdani?action=followPub

Sunday 8 November 2020

مولاناعبداللہ کاشفی رحمہ اللہ

میرے چچاجان حضرت مولاناعبداللہ بن الحاج چندرخان علیہ الرحمہ نے طویل علالت کے بعد بتاریخ 5نومبر2020 مطابق 15ربیع الاول 1442ھ بوقت 3بجے دن وفات پائی اناللہ واناالیہ راجعون.

آنے جانے پہ سانس کے ہےمدار

سخت ناپائیدار ہے دنیا

 وہ دوسال سے تقریبا صاحب فراش تھے .ذیابیطس,بلڈ پریشر,اور ضیق النفس جیسے موذی امراض کی بناپرچلنے پھرنے سے مکمل طور پر عاجز ہوگئے تھے لیکن بیماری کے دوران  اخیرتک ہوش وحواس مکمل طور پرصحیح سلامت رہے.5نومبر بعد نماز عشاء راقم الحروف نے مرحوم کی نماز جنازہ پڑھائی.نماز سے پہلے احباب کے اصرار پرمختصربیان بھی کیا

انہوں نے بحالت یتیمی پرورش پائی .ماں باپ کاسایہ بچپن ہی میں سرسے اٹھ گیاتھا.مختلف مدارس میوات میں تعلیم حاصل کی.زمانۂ طالبعلمی میں مدارس  کی سرزنش وزدوکوب کے ماحول سے بچپن میں ان کادل اچاٹ ہوگیاتھااسی لئےباربار مدارس سے فرار ہوجاتے تھے.والد صاحب انہیں باربار تلاش کرکے لاتے پھرکسی مدرسہ میں داخلہ دلادیتے اور وہ پھروہاں سے راہ فرار اختیار کرلیتے.یہ سلسلہ سالہا سال چلتا رہا.  آج میں سوچتا ہوں تو میں یقین کیساتھ کہہ سکتا ہوں کہ اس کی وجہ مدارس میں طلباء کی بے تحاشہ پٹائی اورمدرسین کی سختی  ہوتی تھی.اس غیرشرعی طریقۂ کار نے نہ معلوم کتنے بچوں کودینی تعلیم حاصل کرنے سے روک دیا اور نہ جانے کتنی بڑی تعداد دینی تعلیم سے متنفر ہوکر ہمیشہ کے لئے تشنۂ علم رہ گئ.حضرت تھانوی اور دیگر محققین علماء نے مدارس میں طلباء کی اس بیجا پٹائی سے سختی کے ساتھ روکا ہے.اور اسے حرام قرار دیا ہے .لیکن افسوس مدارس میں اساتذہ طلباء کوجس  بے دردی  سے ہمارے زمانے میں مارتے تھے اس کی بناپر خود مجھے بھی اپنے زمانۂ طالبعلمی میں مدارس سے نفرت سی ہوگئ تھی .حتی کہ مجھے ان لوگوں اور گاؤں کے باشندوں سے بھی نفرت تھی جو مدارس کے قریب رہتے تھے.میں مدرسہ میل کے آس پاس آباد چھوٹے چھوٹے گاؤں جیسے کھیڑا,وغیرہ کے مکینوں کو اپنے بچکانہ دل میں پاگل سمجھتاتھا, دل میں کہتاتھایہ لوگ ان گاؤں میں کس طرح رہتے ہیں جبکہ یہاں سب سے بڑی آفت و مصیبت مدرسہ موجود ہے! جہاں اساتذہ طلباء کوجانورکی طرح مارتے ہیں اور کھانے کے لئے اتناسادہ کھانادیتے ہیں جسے انسان صرف جان بچانے کے لئے ہی شدید بھوک کی حالت میں کھاسکتاہے.اور مزدوروں سے زیادہ کام لیتے ہیں .نہ لباس کی فکر نہ بیماری کاپتہ نہ آرام کی خبر.میرا خیال تھا کہ جیل میں لوگ ان مدارس سے زیادہ آزاد اور آرام میں رہتے ہوں گے

تبارک اللہ ازیں فتنہا کہ درسرماست

 . بہرکیف چچاجان نے اسی بھاگم بھاگ میں بالآخرمدرسہ کاشف العلوم مسجد بنگلہ والی مرکز حضرت نظام الدین دہلی سے فضیلت کی سند حاصل کی. ان کے اساتذہ میں مولانا محمد ایوب بن میانجی موسی گھاسیڑہ (والد محترم مولانا محمد قاسم بانئ دارالعلوم محمدیہ میل کھیڑلا), مولانا غلام قادرکشمیری,مولانا محمد اسحاق اٹاؤڑی شیخ الحدیث مدرسہ معین الاسلام نوح,مولانانیاز محمد خلیفہ شیخ الاسلام حضرت مولانا حسین احمد مدنی,مولانا محمد صدیق شیخ الحدیث مدرسہ نوح,مولانا شبیراحمد بن منشی بشیراحمد رحمہ اللہ,مولانا اظہارالحسن  کاندھلوی وغیرہ قابل ذکر ہیں,والد صاحب نے بھی انہیں مدرسہ افضل العلوم تاج گنج آگرہ میں ابتدائی عربی فارسی کی کتابیں گلستاں بوستاں,نحومیرصرف میر وغیرہ پڑھائی تھیں. مرکزنظام الدین سے فارغ التحصیل ہونے کے بعدسے ہی گوڑیانی ضلع ریواڑی اورعلاقۂ جھجر میں  امامت کے فرائض انجام دیتے رہے.اور یہ سلسلہ چالیس سال سے زیادہ عرصہ پر محیط ہے.

راقم الحروف کوبارہا  چچاجان نے گوڑیانی اور علاقۂ جھجر آنے کی دعوت دی لیکن اپنی کاہلی کی بناپرکبھی حاضر نہ ہوسکا.وہاں کے مسلمانوں کی حالت زار, دین سے دوری اور دینی دعوت کے واقعات اکثر سناتے تھے.

میں نے ایک روزاپنے والدگرامی حضرت مولانارحیم بخش علیہ الرحمہ سے دریافت کیا:چچاجان جب باربار مدارس سے بھاگ جاتے تھے تو آپ کیوں ان کوپڑھانے کے درپے تھے؟رہنے دیتے!توآپ نے اس کا جو جواب  دیاتھاوہ یقیناََ آب زر سے لکھنے کے قابل ہے.انہوں نے فرمایا"میں اس لئے ان کوتلاش کرکے باربار مدارس میں داخل کرتاتھا کیونکہ مجھے یہ خوف دامن گیرتھا , کہیں میرے ماں باپ روز محشر مجھ سے  پوچھ  بیٹھے ہم نے ایک یتیم بچہ چھوڑا تھا تم اسے بھی نہ پڑھاسکے!  تومیں انہیں کیاجواب دوں گا"اس لئے جب تک وہ فارغ التحصیل نہ ہوگئے میں چین سے نہ بیٹھا". میں نے عرض کیا لیکن آپ تو تین بھائی بہن ہیں  .آپ کی بہن بھی توہیں ؟انہوں نے فرمایا :لڑکی ہونے کی وجہ سے ان کی تعلیم کا کوئی انتظام اس دور میں ہم جیسے مفلوک الحال لوگوں کے لئے ممکن نہ تھا البتہ لڑکوں کے لئے مدارس موجودتھے .اس لئے جوممکن تھا اس پرعمل کرنا میں اپنا فرض سمجھتاتھا.

چچاجان خودبھی اکثر اپنے واقعات بیان فرمایاکرتے تھے ایک مرتبہ فرمایا جب ہماری شادی ہوئی توسنگار سے سرائے گاؤں برات گئ .اس میں تمہارے بڑے بھائی قاسم بھی تھے. جوبچپن میں ہی تقریبا تین سال کی عمر میں فوت ہوگئے تھے.وہ اتنے چھوٹے تھے کہ برات کا مفہوم نہیں جانتے تھے البتہ جماعت کے لفظ سےواقف تھے کیونکہ تبلیغی جماعتوں کی آمدورفت میوات میں عام تھی.غرض سرائے گاؤں کے کسی شخص نے ان سے پوچھا: کہاں سے آئے ہو؟تو انہوں نے کہا جماعت میں آیاہوں. اس وقت ان کی عمرتین سال تھی. تین سال کی عمر میں ڈھائی پارہ قرآن مجید انہیں حفظ یادتھا.مولاناعبدالکریم بن میانجی موسی رحمہ اللہ جو اس دور میں مدرسہ مصباح العلوم سنگار کے ناظم تھے اور والد صاحب سے گہرے تعلقات کی بناپراکثر گھرتشریف لاتے تھے پہلی بار اتنے چھوٹے بچے  سے قرآن مجید سن کر دنگ رہ گئے.

جب راقم الحروف قصبہ کاماں کے مدرسہ کاشف العلوم میں تحفیظ قرآن کا طالب علم تھا تو چچاجان وہاں مجھ سے ملنے آئے.اور کپڑے دھونے کے پانچ بھائی صابن  دلاکر چلے گئے میں ان کے پیچھے پیچھے ہولیا اس امید پرکہ شاید اس جنجال سے مجھے ہمیشہ ہمیش کے لئے آزاد کراکے لیجائیں گے!لیکن  ایسا نہ ہوسکا انہوں مجھے اپنے پیچھے آتے دیکھا تو سبب دریافت کیا. میرے پاس  بتلا نے کے لئے رونے کے علاوہ الفاظ نہ تھے.لہذا میں نے رونا شروع کردیا وہ مجھے  بازار سے مدرسہ میں چھوڑکر ڈانٹتے ہوئے چلے گئے کہ اب میرے پیچھے مت آنا مدرسہ میں محنت سے پڑھو.

میل کھیڑلاء میں دوران تعلیم مجھے منطق و فلسفہ سے دلچسی تھی.علامہ تفتازانی کی شرح تہذیب کی اردو شرح مصباح التہذیب میں نے کہیں دیکھی توعاریتاََ لےلی ,میں اسے چھٹیوں میں گھرلے آیا ایک روز چچاجان تشریف لائے توکتاب دیکھ کرفرمایا یہ کس کی کتاب ہے؟میں نے کہا میری ہے.فرمایامنطق وفلسفہ میں اتنی محنت کرنے سے کوئی فائدہ نہیں .محنت قرآن وحدیث میں کرنی چاہئے.منطق وفلسفہ میں مہارت عام طورپرالحاد لاتی ہے."

پھروہ کتاب اٹھاکرلے گئے جب میں نے بہت اصرار کیا تو عرصۂ دراز کے بعداس تنبیہ کے ساتھ واپس کی کہ جس سے لی ہے اسے واپس کردینا.اس وقت میں نے نادانی کی بناپر یہ سمجھا کہ منطق و فلسفہ پر زیادہ توجہ نہ دینے کامشورہ غلط تھا حالاں کہ تجربات نے یہ ثابت کیا ہے کہ یہ مشورہ بالکل درست تھا.منطق وفلسفہ صرف معاون ہیں اصل نہیں. اصل قرآن حدیث فقہ وتفسیرہی ہیں.

والد صاحب سے کسی بات پر ایک  مرتبہ ان بن ہوگئ تھی پھر عرصہ کے بعد افہام وتفہیم سے احباب نے دونوں کاسمجھوتہ کروایاتو دونوں بھائی دیر تک بچوں کی طرح گلے مل کر سرعام روتے رہے.اور سارے گلے شکوے فی الفور کافور ہوگئے.

بچھڑا کچھ اس ادا سے کہ رت ہی بدل گئی

اک شخص سارے شہر کو ویران کر گیا

***

Saturday 7 November 2020

 مفتی رشیداحمدمالپوری رحمہ اللہ

ڈاکٹرمفتی محمدعامرالصمدانی 

قاضئ شریعت دارالقضاء

 آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ علی گڑھ


حضرت مولانامفتی رشید احمد مالپوری رحمہ اللہ میوات کے ممتازعلماء وفقہاء کے سرخیل ,اپنے وقت کے جید ومستند عالم تھے,ان کے والد گرامی حضرت مولاناعبداللہ مالپوری قدس سرہ  بھی  میوات میں اپنے وقت کے بے نظیر و جید عالم دین باکمال مناظرومصلح اور میوات کے محسنین میں سے تھے وہ موضع دھیرنکی یا دھیرنکا میں پیداہوئے تقریبا بیس باییس سال کی عمر میں میوات کے ایک بزرگ سے 'رسالۂ بے نمازاں' سن کر مشرف بہ اسلام ہوئے اور 'سین' کے بجائے عبداللہ نام رکھا مدرسۃ الاصلاح سرائے میر میں ابتدائ عربی فارسی پڑھی ڈابھیل میں علامہ انور شاہ کشمیری کی خدمت میں شرف تلمذ حاصل کیامشہور مفسر قرآن مولاناعبیداللہ سندھی کے شاگرد رشید مولانا احمد علی کی خدمت میں لاہور گئےدارالعلوم دیوبند سے فارغ التحصیل ہوکرمیوات میں اصلاح المسلمین کابیڑااٹھایا .گوت پال کی رسوم باطلہ کے خلاف آوازاٹھائی ,جبکہ میوات کے مسلم معاشرہ میں گوت بچاکرہندوانہ طرزپرشادی کرناضروری سمجھاجاتاتھا اور اس کے خلاف  اٹھنے والی  ہرآواز کے خلاف پوری میو قوم  متحد ہوجاتی تھی ایسے وقت اس جاہلانہ طریق کے خلاف بات کرناجوئے شیرلانے سے کم نہ تھا 

میرے والد صاحب مرحوم ان کی خداترسی للہیت اور مناظروں کا ذکراکثرفرماتے تھے . ایک مرتبہ فریق مخالف مولاناعبداللہ سے حوالہ دینے کے باوجود باربار مطالبہ کرتے رہے اس پر آپ نے فرمایا:"لایوچھورا اینٹ البحرے"مراد یہ تھاکہ یہ لاتوں کے یار باتوں سے نہیں مانیں گےاور اس کے لئے بحررائق کے محاذی "اینٹ البحر"کی اصطلاح فی الفور وضع کردی والد صاحب فرماتے تھے کہ میں نے انہیں اونٹ پر سواری کرتے بارہادیکھاتھا.بہرکیف مفتی صاحب انہی کے فرزندرشید تھے. میل کھیڑلا کے سالانہ اجلاس میں اکثر ان کی شرکت ہوتی تھی .میں نے دارالعلوم محمدیہ میل کھیڑلا میں ہی پہلی بارانہیں دیکھا تھا.میری طالبعلمی کازمانہ تھا,مدرسہ میں ششماہی یاسالانہ امتحانات چل رہے تھے.مفتی صاحب کی شہرت علمی اورتفوق سے نہ صرف ہم لوگ واقف تھے بلکہ  ممتحن ہونے کی وجہ سے ان کےنام سےسہمے ہوئے بھی تھے.ان کاقیام کتب خانہ میں رکھاگیاتھا,مولاناعلی محمد صاحب (ہرواڑی )مرحوم نے میری ڈیوٹی لگائی کہ کتب خانہ میں کتابوں کوترتیب سے صاف کرکے لگادوں.مفتی رشیداحمد صاحب یہاں قیام کریں گے اور ہدایہ اولین کاامتحان لیں گے.میں نے کتابیں ترتیب سے لگائیں .اس وقت کتب خانہ مولاناعلی محمدصاحب رحمہ اللہ( ہرواڑی) کےحجرے سے متصل قدیم بلڈنگ میں تھا اس کے نیچے اناج کاگودام ہواکرتاتھا.مدرسہ کی وہ سب سے قدیم عمارت تھی اس میں نیچے مطبخ ,گودام پولی,اوراوپردفترنظامت واہتمام تھا.جس میں اکثرحضرت مولانامحمدعثمان روپڑاکا مدظلہ  بیٹھتے تھے.کبھی کبھی مہتمم صاحب رحمہ اللہ  بھی تشریف فرماہوتے تھے.مفتی رشید صاحب نے ہماراہدایہ اولین کا امتحان لیا. ہدایہ اولین مولاناسعیدالرحمان بستوی پڑھایاکرتے تھے وہ اسی سال دارالعلوم دیوبند سے فارغ التحصیل ہوکرآئے تھے.عربی زبان وادب سے انہیں خصوصی دلچسی تھی.مولاناوحیدالزماں کیرانوی علیہ الرحمہ کے خاص شاگرد تھے.مجھ پر ان کی خصوصی شفقت وعنایات تھیں.عطیۃ الابراشی کی ایک افسانوی کتاب بھی انہوں نے مجھے خاص طورپر پڑھائی تھی.وہ ہدایہ کی عربیت کے بہت مداح اوراردوشروحات کے مخالف بلکہ متنفر تھے,متن پرخاص توجہ دیتے لمبی چوڑی تقریرات سے گریز کرتے خدامعلوم حیات ہیں یاحیات جاویدکے زیرسایہ ابدی نیند سوگئے,حل عبارت پر توجہ مرکوز رکھتے تھے.مفتی صاحب نے کتاب الطہارۃ سے عبارت پڑھنے کا حکم دیا کسی سے صرف عبارت پڑھوائی کسی سے ترجمہ کرایا میں نے اپنی باری پرعبارت پڑھی ترجمہ کیا .میں آج بھی اس عبارت کو نہیں بھولتاجواب سے تقریبا تیس سال پہلے میری زبان پرایسی آئی کہ بھلائے نہیں بھلتی چونکہ اس کاتعلق وضوسے ہے اس لئے اب بھی اکثرزبان پر آجاتی ہے .عبارت یہ تھی: والوعیدلعدم رؤیتہ سنۃ.مفتی صاحب نے فرمایا اس کا ترجمہ کرومطلب بتاؤ.میں نے بین السطور حواشی کی مدد سے اس کاترجمہ اور مطلب بتایا,فرمایارؤیتہ میں ضمیر کامرجع کیا ہے؟میں نے عرض کیا الثلاث.,پھرجلدی سے حاشیہ پڑھنے کے بعد مطلب بتایاکہ یہ ایک سوال مقدر کا جواب ہے,سوال یہ ہے کہ  اگر کسی نے تین مرتبہ سے زیادہ یاکم اعضاء وضوکودھویاتویہ بھی جائزہے, البتہ تین مرتبہ دھونے کوسنت نہ سمجھناخلاف سنت ہونے کی بنا پرگناہ ہے  حدیث میں اس پر وعید بھی آئی ہے.اور عبارت کا ترجمہ یہ ہے:وعید تین مرتبہ اعضاء وضودھونے کو سنت  نہ سمجھنے کی بناپر ہے.مجھے اچھی طرح سے یاد ہے کہ مفتی صاحب نے پچاس اعلی ترین نمبرات میں سے مجھے 51نمبرات سے نوازا.تب سے یہ عبارت ذہن میں ایسی رچ بس گئ کہ نوک زبان رہتی ہے. اس کے بعدمفتی صاحب سے تقریب بہرملاقات کا سلسلہ  اللہ کی طرف سے ایسا مقررہواکہ جب بھی علی گڑھ سے میوات جاناہوتا اکثرملاقات کے لئے میں حاضرہوجاتا.ایک مرتبہ میں مدرسہ عبدیہ ہتھین میں حاضرہواتوخیریت معلوم کرنے بعد پوچھاپچانکامیں تمہاری سسرال کس خاندان میں ہے.؟میں نے تفصیل بتائی توفرمایامیری بھی سسرال پچانکامیں ہے.پھرکئ نام ذکرکئے .ان کے برادرخوردمولانانورالدین مرحوم سے بھی اکثرملاقات ہوتی تھی.مدرسہ کے کتب خانہ میں تذکرہ علماء پنجاب مطبوعہ لاہور میں نے مطالعہ کے لئے لی تومولانانے دریافت کیا پنجاب ہی کے علماء کا تذکرہ کیوں آپ پڑھ رہے ہیں ؟میں نے بتایاکہ علی گڑ مسلم یونیورسٹی سے مجھے یہ ریسرچ کا موضوع ملا ہے:'مشرقی پنجاب کا عربی زبان وادب میں حصہ,ایک تنقیدی مطالعہ 1947تک'اس لئے اس کامطالعہ کررہاہوں .مفتی صاحب سے میں نے ان کے والد گرامی سے متعلق دریافت کیاکہ عربی زبان میں بھی ان کی کوئی تصنیف ہے؟فرمایانہیں.

مفتی صاحب کے چھوٹے بھائی مولانابشیراحمد راشد الامینی  علیہ الرحمہ میرے والد محترم  مولانا رحیم بخش رحمہ اللہ (متوفی 28مئ 2005)کے ہم جماعت تھے.ان سے بھی دارالعلوم محمدیہ میل کھیڑلا میں اکثر شرف نیاز ہوتارہتاتھا.ایک مرتبہ مہتمم صاحب حضرت مولانا محمدقاسم نوراللہ مرقدہ نے وفاق میوات کے نام سے ایک تنظیم بنائی اس کا پہلا اجلاس میل کھیڑلا میں ہوا مدعووین میں سبھی مشاہیر وسرکردہ علما ء میوات تھے :ان میں مفتی رشید احمد مالپوری ,مولانابشیراحمد راشدالامینی ,مولامحمدقاسم شیرپنجاب,مفتی جمال الدین الوری رحمہم اللہ ,وغیرہ قابل ذکرہیں.

اب انہیں ڈھونڈوچراغ رخ زیبا لے کر.

میرے ذمہ استقبالیہ میں مہمانان گرامی کے نام پتے درج کرنے اور مہمان خانہ تک پہنچانے کی خدمت سپرد تھی,اس لئے سبھی سے تعارف ہوگیاتھا.

مفتی صاحب ان دنوں بھی دارالعلوم محمدیہ میل کھیڑلا کے کتب خانہ ہی میں منہمک نظر آئے. مفتی رشید احمد کوجوبات عام علماء میوات سے ممتاز کرتی تھی وہ ان کا تبحرعلمی زہد وتدین اور انہماک کتب تھا.مدرسہ عبدیہ ہتھین میں ان کا کتب خانہ نایاب ونادرذخیرۂ کتب پر مشتمل ہے.فقہ وفتاوی کی زیادہ ترمعروف ومتداول کتابیں وہاں موجود ہیں.انہوں نے مدرسے کی تعمیرات پرکبھی زورنہیں دیالیکن کتابوں کے بارے میں ان کا رویہ بالکل مختلف تھا.مالپوری میں ان کاذاتی ذخیرۂ کتب اور بھی عظیم الشان ہے.اس جلالت علمی کے باوجود ان کی سادگی بے نفسی وبے نیازی قابل دید تھی.مالپوری میں انہیں اس نہایت سادگی میں دیکھ کردل کوجلاء ملتی تھی,مدرسہ عبدیہ ہتھین ہمارے زمانے میل کھیڑلاہی کی طرح تعلیمی اعتبارسے مشہورومعروف ادارہ تھا.لیکن اساتذہ وطلباء کے مابین ایک حادثہ پیش آگیابڑی جماعت کے طلباء نے ایک استاذ کی شان میں گستاخی کردی اس کے بعد سے ہی مفتی صاحب مرحوم نے تعلیم کے ساتھ ساتھ تربیت پرمزیدزوردینے کا عہد کیااور عربی کے طلباء کے بجائے تجوید و قرأت اور مکتب کی تعلیم کوترجیح دی.

1989میں جب میراداخلہ دارالعلوم دیوبند میں ہواتووہاں طلباء میوات کی انجمن اصلاح البیان کی الماری میں انجمن کے اصول و ضوابط پرمشتمل ایک کتابچہ چلا آتاتھاجومفتی رشید احمد مالپوری علیہ الرحمہ نے اپنے ہاتھ سے کتابت کیاتھا.ہم اراکین انجمن اسے احتیاط سے محفوظات قدیمہ میں رکھتے تھے.خدامعلوم وہ تحریراب محفوظ ہے یانہیں!

میں نے انہیں حضرت مولانامسیح اللہ خان صاحب جلال آبادی رحمہ اللہ کی خدمت میں ان دنوں دیکھا تھا جب میں دارالعلوم دیوبند میں درجۂ ششم کا طالب علم تھا.یہ 1989کا واقعہ ہے.اس کے بعد میں نے بھی حضرت مسیح الامت کی خدمت میں دیوبند سے گاہے گاہے جانا شروع کردیا,حضرت کوچندخطوط بھی لکھے آپ کے جوابی گرامی نامے آج بھی میرے پاس محفوظ ہیں.

مجھے یہ جان کرسخت افسوس ہواکہ حضرت مفتی صاحب قدس سرہ کو حضرت مسیح الامت سے خلافت نہیں ملی.جبکہ مفتی صاحب سالہاسال آپ کی خدمت میں باریاب رہے.اوربالآخر جامعہ  اشرفیہ لاہور کے استاذ حدیث حضرت مولاناوکیل خان شیروانی رحمہ اللہ (متوفی 2016)نے خلافت دی جواپنے والد مولانا عبدالجلیل خان شروانی رحمہ اللہ کے واسطے سےحضرت تھانوی کے سلسلۂ بیعت وارشادکے رکن رکین تھے.

 مفتی رشید احمد علیہ الرحمہ عرصۂ دراز سے صاحب فراش تھے,عالمی وباکوروناوائرس کے سال 2020میں جن مقتدرعلمی دینی اور ملی شخصیات نے وفات پائی ان میں ایک نام مفتی رشید احمد نوراللہ مرقدہ کا بھی ہے.

افسوس آج جبکہ میں یہ تحریر سپرد قرطاس کررہاہوں بروز جمعرات بتاریخ 5نومبر2020مطابق 15ربیع الاول1442ھ بوقت 3بجے سہ پہرہمارے چچاجان مولاناعبداللہ کاشفی بن الحاج چندرخاں کا طویل علالت کے بعد سنگار میوات میں انتقال ہوگیا.مرحوم 40سال سے زیادہ عرصہ تک گوڑیانی ضلع ریواڑی وعلاقۂ جھججر ہریانہ میں امامت کے فرائض انجام دیتے رہے.

مولاناعبداللہ مالپوری رحمہ اللہ کے زہدوتقوی اورشہرت دوام کی بناپرہی ان کا نام عبداللہ رکھاگیاتھا رحمہ اللہ رحمۃ.

حوادث اور تھے پران کاجانا

عجب اک سانحہ ساہوگیاہے

اب میوات کی سنگلاخ سرزمین سے ایسے صاحب تقوی وطہارت بے لوث و بے نفس بزرگ عالم دین کی نشونماکے آثارناممکن تو نہیں البتہ مفقودضرورنظر آتے ہیں.حضرت مولانا محمدقاسم نوراللہ مرقدہ مہتمم دارالعلوم محمدیہ میل کھیڑلا کی وفات کے بعد مفتی صاحب کی وفات علاقۂ میوات کے لئے سب سے بڑا سانحہ ہے.

مقدور ہوتو خاک سے پوچھوں کہ او لئیم

تونے وہ گنجہائے گرامایہ کیا کیئے

***

Monday 2 November 2020

سیرت نبوی میں مزاح وظرافت کے واقعات


 

        حضرت انس فرماتے ہیں کہ ایک شخص نے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے سواری طلب کی , آپ نے فرمایا: میں تمہیں سواری کے لئے اونٹنی کا بچہ دوں گا , سائل نے عرض کیا : میں اونٹنی کے بچے کا کیاکروں گا ؟ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :کیا اونٹنی اونٹ کے علاوہ بھی کسی کو جنتی ہے؟

 (عن أنس رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ ان رجلاً استحمل رسول اللّٰہ صلّی اللّٰہ علیہ وسلم فقال انی حاملک علی ولد ناقةٍ فقال ما اصنع بولد الناقةِ فقال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم وہل تلد الابل الا النوق (مشکوٰة ص۴۱۶)

                 یہاں نبئ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سائل سے مزاح بھی فرمایا اور اس میں حق اور سچائی کی رعایت بھی فرمائی سواری طلب کرنے پر آپ نے جب اونٹنی کا بچہ مرحمت فرمانے کا وعدہ فرمایاتو سائل کو تعجب ہوا کہ مجھے سواری کی ضرورت ہے اوراونٹنی کا بچہ اس قابل نہیں ہوتا کہ اس پر سواری کی جائے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے تعجب کو دور کرتے ہوئے اور اپنے مزاح کا انکشاف کرتے ہوئے فرمایا کہ بھائی میں تجھے سواری کے قابل اونٹ ہی دے رہا ہوں مگر وہ بھی تو اونٹنی ہی کا بچہ ہے۔

               

                (حضرت انس سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا اے دوکان والے)(مشکوٰة ص۴۱۶)

                رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا حضرت انس سے ”اے دو کان والے“ کہنا بھی ظرافت اور خوش طبعی کے طورپر تھا۔  ظرافت کا یہ انداز  ہمارے عرف میں بھی رائج ہے ,مثلاً کبھی اپنے بے تکلف دوست سے یا ذہین طالب علم سے ناراضگی کا اظہار اس انداز میں کیاجاتا ہے کہ ایک چپت رسید کروں گا تو تمہارا سر دوکانوں کے درمیان ہوجائے گا۔ حالانکہ وہ پہلے سے وہیں پر ہوتا ہے۔

                عن انسٍ عن النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال لامرأةٍ عجوزٍ انہ لاتدخل الجنة عجوزٌ فقالت مالہن وکانت تقرء القرآن فقال لہا ما تقرئین القرآن اِنَّا انشئناہن انشاءً فجعلنٰہنّ ابکارًا(مشکوٰة ص۴۱۶)

                (حضرت انس فرماتے ہیں کہ آپ نے ایک ضعیفہ سے فرمایاکہ: 'بڑھیا جنت میں داخل نہیں ہوگی' وہ عورت قرآن پڑھی ہوئی تھی اس نے عرض کیا بوڑھی کے لئے کیا چیز دخولِ جنت سے مانع ہے؟ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا تم نے قرآن میں نہیں پڑھا ہم جنتی عورتوں کو پیدا کریں گے پس ہم ان کو کنواری بنادیں گے۔)

                ایک اور روایت میں یہ واقعہ مزید تفصیل کے ساتھ وارد ہوا ہے کہ اس صحابیہ عورت نے جو بوڑھی تھیں آپ سے دخولِ جنت کی دعا کی درخواست کی اس پر آپ نے مزاحاً فرمایا کہ:' بڑھیا تو جنت میں داخل نہیں ہوگی'، یہ سن کر بڑھیا کو بڑا رنج ہوا اور روتے ہوئے واپس چلی گئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جاکر اس عورت کو کہہ دو کہ عورتیں بڑھاپے کے ساتھ جنت میں داخل نہیں ہوں گی کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایاہے ”اِنَّا انشئناہن انشاءً فجعلنٰہنّ ابکارًا“ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا مزاح اس واقعہ میں بھی مبنی برحق تھا مگرآپ نے ایک سچی بات کو مزاحیہ انداز میں بیان کرکے امت کو یہ تعلیم دی کہ کبھی کبھار مذاق اور دل لگی بھی کرلینی چاہئے۔

                 حضرت انس فرماتے ہیں کہ ایک بدوی صحابی زاہر بن حرام حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے کچھ دیہاتی اشیاء بطور ہدیہ لایا کرتے تھے حضور صلی اللہ علیہ وسلم بھی واپسی پر انہیں  کچھ شہری اشیاء ہدیتہ عنایت فرماتے تھے حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرمایاکرتے تھے زاہر ہمارا باہر کا گماشتہ ہے اور ہم اس کے شہر کے گماشتہ ہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم زاہر سے بڑی محبت فرماتے تھے ویسے زاہر ایک بدصورت آدمی تھے ایک دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم بازار تشریف لے گئے تو زاہر کو اپنا سامان بیچتے ہوئے پایا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو پیچھے سے اپنے ساتھ اس طرح چمٹالیا کہ اپنے دونوں ہاتھ اس کے بغلوں کے نیچے سے لیجاکر اس کی آنکھوں پر رکھ دئیے تاکہ وہ پہچان نہ پائے , زاہر نے کہا کہ کون ہے؟ چھوڑ مجھے۔ (پھر اس نے کوشش کرکے) مڑ کر دیکھا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو پہچان لیا (اور پہچانتے ہی) اپنی پیٹھ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سینہٴ مبارک سے مزید چمٹانے لگا ادھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم یہ صدا بلند کرنے لگے کہ ارے کوئی اس غلام کا خریدار ہے؟ اس پر زاہر نے عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول بخدا آپ مجھے کھوٹا سکّہ پائیں گے، اس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا لیکن تم اللہ تعالیٰ کے نزدیک کھوٹا سکّہ نہیں ہو۔ (مشکوٰة ص۴۱۶) 

                عن عوف بن مالک الاشجعی قال اتیت رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم فی غزوة تبوک وہو فی قبةٍ من ادمٍ فسلمت فردّ علیّ وقال فقلت أکلی یا رسول اللّٰہ قال کلّک فدخلت (مشکوٰة ص۴۱۷)

                (حضرت عوف بن مالک اشجعی سے مروی ہے فرماتے ہیں کہ غزوئہ تبوک کے دوران میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم چمڑے کے خیمہ میں تشریف فرماتھے میں نے آپ کو سلام کیا آپ نے جواب دیا اور فرمایا کہ اندر آجاؤ میں نے (مزاح کے طور پر) عرض کیا اے اللہ کے رسول کیا میں پورا اندر داخل ہوجاؤں؟ تو آپ نے فرمایا ہاں پورے داخل ہوجاؤ، چنانچہ میں داخل ہوگیا)

                اس حدیث سے معلوم ہوا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ سے اسقدر بے تکلف تھے کہ صحابہ بھی آپ سے مزاح کرلیا کرتے تھے۔

                ایک انصاری صحابیہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر تھیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے فرمایا جا جلدی سے اپنے خاوند کے پاس اس کی آنکھوں میں سفیدی ہے وہ ایک دم گھبراکرخاوند کے پاس پہنچی تو خاوند نے پوچھا کیا مصیبت ہے؟ اس طرح گھبراکر دوڑی کیوں چلی آئی؟ اس نے کہا کہ مجھے میرے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خبر دی ہے کہ تمہاری آنکھوں میں سفیدی ہے اس نے کہاٹھیک ہے مگر سیاہی بھی تو ہے تب اسے اندازہ ہوا کہ یہ مزاح تھا اور ہنس کر خوش ہوئی اور فخر محسوس کیا کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم مجھ سے اس قدر بے تکلف ہوئے کہ میرے ساتھ مزاح فرمایا (لطائف علمیہ ص۱۰) اس کے علاوہ بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مزاح کے بہت سے واقعات کتب احادیث میں موجود ہیں جو مزاح کے سنتِ مستحبہ ہونے پر دال ہیں۔ لیکن یہ تمام واقعات اس بات پر شاہد ہیں کہ مزاح سچائی پر مبنی ہونا چاہئے اوراس میں ایذاء رسانی اور دل شکنی کا پہلو نہ ہو بلکہ مخاطب کی دلجوئی اورنشاط آوری مقصود ہونی چاہئے۔

ایک مرتبہ  آپ  صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں کھجوریں کھائی گئیں۔ آپ نے ازراہ مزاح گھٹلیاں سیدنا علیؓ کے سامنے رکھ دیں اور فرمایا کہ ساری کھجوریں تم کھا گئے؟ علیؓ نے فرمایا کہ میں نے تو کھجور گھٹلیوں سمیت نہیں کھائیں (جبکہ آپ تو گھٹلیاں بھی  کھا چکے ہیں)۔ (متفق علیہ) 

                حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد صحابہ سے بھی مزاح کے بے شمار واقعات مروی ہیں۔ ایک مرتبہ حضرت ابوبکر صدیق، فاروق اعظم اور علی مرتضیٰ ایک دوسرے کے گلے میں ہاتھ ڈالے اس طرح چلے جارہے تھے کہ حضرت علی بیچ میں تھے اور دونوں حضرات دونوں طرف۔ حضرت علی ان دونوں کے مقابلہ میں کچھ پستہ قد تھے، حضرت عمر نے مزاحاً فرمایا: ”علیٌّ بیننا کالنون فی لنا“ یعنی علی ہم دونوں کے بیچ میں ایسے ہیں جیسے ”لنا“ کے درمیان نون ہے یعنی لنا کے ایک طرف کا لام اور دوسری طرف کا الف لمبے اور درمیان میں نون پستہ قد ہے اس طرح ہم دونوں طویل القامت اور بیچ میں علی پستہ قامت ہیں۔ اس پر حضرت علینے برجستہ جواب دیا: ”لولا کنت بینکما لکنتما لا“ یعنی ”اگر میں تمہارے درمیان نہ ہوتا تو تم لا ہوجاتے اور کچھ بھی نہ رہتے“ کیونکہ لنا کے بیچ سے نون ہٹادیاجائے تو وہ ”لا“ رہ جاتا ہے

Thursday 29 October 2020

توہین رسالت اور ہندوستانی حکومت

 ہندوستان میں فرقہ پرست حکومت جس کی کلید آرایس ایس کے ہاتھ میں ہے مسلمانوں کی اہانت و تذلیل کاکوئی موقع نہیں چھوڑتی ہر وقت درپئے آزار رہتی ہےیہ جانتے ہوئے بھی کہ یہ نہایت حساس اور خالص مذہبی معاملہ ہے کہ محسن انسانیت کی توقیر مسلمانوں کے نزدیک اپنی جان مال عزت آبرو سے عزیز تر ہے. آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف ایک لفظ بھی ناقابل برداشت اور ناقابل معافی جرم ہے. اس معاملہ میں کسی تیسرے فریق کودخل دینے کا کوئی حق نہیں یہ سب جانتے ہوئے بھی حکومت نے فرانس کے صدر کی حمایت کرکے اپنی پھٹیچرذہنیت کادیوالیہ نکالا ہے.یہ وہی حکومت ہے جسے یواے ای اورسعودی بادشاہت نے  اپنے اعلی ترین سویلین ایوارڈز سے نوازاتھااس کے باوجود حکومت نے مائکرون کی حمایت کرکےکھلم کھلا مسلمانوں کی دل آزاری کی ہے.عرب حکمران اور بعض عوام  اس کے باوجود خواب خرگوش میں مبتلاہیں وہ محمدبن سلمان کی لامذہبی اصلاحات  وقوانین کے نفاذ سےواقفیت کے باوجودرجب طیب اردغان کی لیڈرشپ پر امریکہ ویورپ کے ذہنی غلامان یعنی محمدبن سلمان,شاہ سلمان بن عبدالعزیز,اور یواے ای کے عیاشان اقتدارکوترجیح دیتے ہیں حالاں کہ عالم اسلام کوان ملاحدہ سے جونقصان پہنچاہے اس کاخمیازہ پوری امت صدیوں جھیلے گی.انہیں صرف اپنے اقتدار سے محبت ہے اس کے علاوہ سب کچھ ہیچ اور ثانوی ہے.یہی حیثیت ہندوستان میں موجودہ فرقہ پرست حکومت کی ہے یہ ہندتواکے بہانے اقتدار سے چمٹے رہناچاہتے ہیں حقیقتاََ انہیں نہ ہندوتواکاحقیقی علم ہے ناہی محبت .اگر محبت ہے تو اپنی انا اور اقتدار سے,کیونکہ ہندوازم میں کسی کی توہین  خواہ وہ براہ راست ہو یابالواسطہ قبیح جرم ہے.ہندوازم سبھی مذاہب کا احترام سکھاتاہے.اورجوکوئی  کسی کے مذہب کی توہین کرے اور اپنے آپ کو ہندومذہب کا علمبردار کہے وہ حقیقتاََ بہروپیہ اور مذہب کا دشمن ہے وہ ہندوتہذیب وثقافت سے بھی نابلد ہے.ہندوازم کا ایک عظیم نکتہ مخلوقات میں خالق کاپرتویا اس کاوجود ہے اسی لئے دریاوپہاڑحجرواشجاران کے نزدیک قابل پرستش اور عبادت کے لائق ہیں لہذاکسی مخلوق کی دل آزاری سے ہندومت کاکوئی تعلق نہیں بلکہ یہ فرقہ پرستی صرف سیاسی بازی گری اور ہندوستانی اکثریت کو بے وقوف بنانا ہے.غور کیاجائے توحقیقتاََ یہ اپنے مذہب وضمیر کی پامالی اور اپنی رعایاکی توہین ہے

Thursday 22 October 2020

اسلام میں توہین رسالت کی سزا

 اسلام میں دیگرمذاہب کی محترم شخصیات کی توہین  نہ کرنے اور ان کی بے ادبی نہ کرنے کی باربار تلقین کی وجہ یہی ہے کہ اس سے باہمی استہزاء واہانت کا دروازہ کھلتا ہے فرمایا:.ولاتبسوالذین یدعون من دون اللہ فیسب اللہ عدوا بغیرعلم

(القرآن)

جن کویہ لوگ اللہ کے علاوہ پکارتے ہیں تم ان کو برا نہ کہوپھروہ جواباََ .دشمنی میں اپنی لاعلمی سے اللہ کو براکہیں گے

ا نَّ الَّذِينَ يُؤْذُونَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ لَعَنَهُمُ اللَّهُ فِي الدُّنْيَا وَالْآَخِرَةِ وَأَعَدَّ لَهُمْ عَذَابًا مُهِينََ

(سورۃ الاحزاب ۔آیت57)

: ترجمہ

 بے شک جو لوگ اللہ تعالیٰ اور اسکے رسول صل اللہ علیہ وسلم کو ایذاء دیتے ہیں ، اللہ ان پر دنیا اور اخرت میں لعنت کرتا ہے۔اور انکے لئے ذلیل کرنے والا عذاب تیار کر رکھا ہے۔


:نیز اللہ فرماتا ہے 


﴿وَالَّذِیْنَ یُؤْذُوْنَ رَسُوْلَ اﷲِ لَهُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ﴾ (التوبہ:61

: ترجمہ: رسول اللہ ﷺ کو جو لوگ ایذا دیتے

ہیں ان کے لئے دردناک عذاب ہے۔


:اللہ مزید فرماتا ہے 


﴿وَاِنْ نَکَثُوْا أَیْمَانَهُمْ مِنْ بَعْدِ عَهْدِهِمْ وَطَعَنُوْا فِیْ دِیْنِکُمْ فَقَاتِلُوْا آئِمَّةَ الْکُفْرِِ اِنَّهُمْ لَا أَیْمَانَ لَهُمْ لَعَلَّهُمْ یَنْتَهُوْنَ﴾ (التوبہ :12

ترجمہ:اگر یہ لوگ اپنے عہد کے بعد اپنی قسمیں توڑ دیں اور تمہارے دین میں طعن کریں تو کفر کے لیڈروں سے قتال کرو اس لئے کہ ان کی قسمیں (قابل اعتبار) نہیں ہیں تاکہ یہ (اپنی شرارتوں اور توہین آمیز خاکے بنانے سے) باز آجائیں۔


ابن کثیر﴿وَطَعَنُوْا فِیْ دِیْنِکُمْ﴾کی تفسیر کرتے ہوئے لکھتے ہیں :


أی عابوه وانتقصوه ومن هاهنا أخذ قتل من سب الرسول صلوات اﷲ وسلامه علیه أو من طعن فی دین الاسلام او ذکره بتنقص (ابن کثیر:3؍359، بتحقیق عبدالرزاق مهدی

ترجمہ:یعنی تمہارے دین میں عیب لگائیں اور تنقیص کریں۔ یہاں سے ہی یہ بات اخذ کی گئی ہے کہ جو شخص رسول اللہﷺ کو گالی دے یا دین اسلام میںطعن کرے یا اس کا ذکر تنقیص کے ساتھ کرے تو اسے قتل کردیاجائے۔

  :بخاری شریف میں ہے

قَالَ عَمْرٌو سَمِعْتُ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَايَقُولُ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَنْ لِكَعْبِ بْنِ الْأَشْرَفِ فَإِنَّهُ قَدْ آذَى اللَّهَ وَرَسُولَهُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ مُحَمَّدُ بْنُ مَسْلَمَةَ أَنَا فَأَتَاهُ فَقَالَ أَرَدْنَا أَنْ تُسْلِفَنَا وَسْقًا أَوْ وَسْقَيْنِ فَقَالَ ارْهَنُونِي نِسَاءَكُمْ قَالُوا كَيْفَ نَرْهَنُكَ نِسَاءَنَا وَأَنْتَ أَجْمَلُ الْعَرَبِ قَالَ فَارْهَنُونِي أَبْنَاءَكُمْ قَالُوا كَيْفَ نَرْهَنُ أَبْنَاءَنَا فَيُسَبُّ أَحَدُهُمْ فَيُقَالُ رُهِنَ بِوَسْقٍ أَوْ وَسْقَيْنِ هَذَا عَارٌ عَلَيْنَا وَلَكِنَّا نَرْهَنُكَ اللَّأْمَةَ قَالَ سُفْيَانُ يَعْنِي السِّلَاحَ فَوَعَدَهُ أَنْ يَأْتِيَهُ فَقَتَلُوهُ ثُمَّ أَتَوْا النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَخْبَرُوهُ

(صحیح بخاری باب الرہن)

 ترجمہ: حضرت عمروبن العاص روایت کرتے ہیں کہ میں نے جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنھما سے سنا کہ حضور صل اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کون کھڑا ہوگا کعب بن اشرف کیلئے کیونکہ اس نے اللہ اور اسکے رسول کو تکلیفیں دی ہیں تو محمد بن مسلمہ اٹھ کھڑے ہوےاورپھر جا کر اس کو قتل کردیا۔اور پھر حضور صل اللہ علیہ وسلم کو اطلاع دی کہ میں نے اس کو قتل کردیا۔


اس حدیث کے ذیل میں فتح الباری نے لکھا ہے کہ یہاں اللہ اور اس کے رسول کو اذیت  سے مراد یہ ہے کہ اس نے اپنے اشعار کے ذریعے نبئ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو تکالیف دی تھیں اور مشرکوں کی مدد کی تھی۔ حضرت عمرو سے روایت ہے کہ یہ کعب بن اشرف نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجو کرتا تھا اور قریش کومسلمانوں کے خلاف ابھارتا تھا۔ یہ یہودی نبی صل اللہ علیہ وسلم کو اور انکے واسطے سے اللہ کو اذیت دیتا تھا تو نبی صل اللہ علیہ وسلم نے اس کے قتل کا اعلان کیا اور محمد بن مسلمہ نے اس کو قتل کرکے حضور صل اللہ علیہ وسلم کو اس کے قتل کی اطلاع دے دی۔



بعث رسول اللہ صل اللہ علیہ وسلم الیٰ ابی رافع الیھودی رجالا من الانصاروامر علیھم عبد اللہ بن عتیق وکان ابو رافع یؤذی رسول اللہ صل اللہ علیہ وسلم و یعین علیہ ۔ ترجمہ: رسول اللہ صل اللہ علیہ وسلم نے ابو رافع یہودی کو قتل کرنے کیلئے چند انصار کا انتخاب فرمایا ، جن کا امیر عبد اللہ بن عتیق مقرر کیا ۔یہ ابو رافع نبی پاک صل اللہ علیہ وسلم کو تکالیف دیتا تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف لوگوں کی مدد کرتا تھا۔

(صحیح بخاری)




عن انس بن مالک ان النبی صل اللہ علیہ وسلم دخل مکہ یوم الفتح و علی راسہ المغفر فلما نزعہ جاء رجل فقال ابن خطل متعلق باستار الکعبہ فقال اقتلہ۔

(صحیح بخاری

قال ابن تیمیہ فی الصارم المسلول وانہ کان یقول الشعر یھجو بہ رسول اللہ ویامرجاریتہ ان تغنیابہفھذا لہ ثلاث جرائم مبیحۃ الدم، قتل النفس ، والردۃ ، الھجاء۔(الصارم۔صفحہ 135) امر رسول اللہ صل اللہ علیہ وسلم بقتل القینتین(اسمھما قریبہ و قرتنا)

 (اصح السیر ۔صفحہ 266) 

ترجمہ: حضرت انس سے روایت ہے کہ نبی صل اللہ علیہ وسلم جب فتح مکہ کے موقع پر مکہ مکرمہ میں داخل ہوئے تو آپ صل اللہ علیہ وسلم نے سر مبارک پر خود پہنا ہوا تھا۔جب آپ نے خود اتارا تو ایک آدمی اس وقت حاضر ہوا اور عرض کیا کہ ابن خطل کعبہ کے پردو ں کے ساتھ لٹکا ہوا ہے،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس کو قتل کردو۔

(صحیح بخاری)

علامہ ابن تیمیہ نے الصارم المسلول میں لکھا ہے کہ ابن خطل اشعار کہہ کر رسول اللہ صل اللہ علیہ وسلم کی ہجو کرتا تھا اور اپنی باندی کو وہ اشعار گانے کیلئے کہا کرتا تھا،تو اسکے تین جرم تھے جس کی وجہ سے وہ مباح الدم قرار پایا ، اول ارتداد دوسرا قتل اور تیسرا حضور صل اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی.

اسلام میں دیگرمذاہب کے کسی بھی مذہبی نشان, اشیاء,اورشخصیات کی توہین کی اجازت نہیں. اس کے ساتھ ہی کسی بھی پیغمبرکی توہین گستاخی یاتنقیص بھی ناقابل معافی جرم ہے.جس کی سزا توبہ کے باوجود بھی قتل ہے.

آجکل فرانس میں آزادئ اظہار کے نام پر نبئ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے کارٹون بناکر آزادئ اظہار کی جوتشریح کی جارہی ہے اس نے سبھی کوورطۂ حیرت میں  ڈال رکھا ہے کیونکہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین کسی بھی مسلمان کے لئے ناقابل برداشت اور انتہائی اشتعال انگیز عمل ہے. اس گھناؤنی حرکت سے تنگ آکر جب کوئی باغیرت اپنے جوش وجذبہ پرقابونہ رکھتے ہوئے انتہائی قدم اٹھالیتا ہے تویہ نام نہاد مہذب سماج مل کر بیک زبان شورشرابہ کرتااور اسے اسلامی دہشت گردی کانام دیتا ہے حالاں کہ اس کے ساتھ ہی آزادئ اظہار کی حدود وثغوربھی متعین کرناضروری ہیں.سب سے پہلے ان لوگوں کوروکنا بھی ضروری ہے جوبلاوجہ پیغمبر اسلام کی توہین کرکے مسلمانوں کو اشتعال دلاتے اور امن عالم کو خطرہ میں ڈالتے ہیں .

:گستاخ رسول کاحکم

اگرچہ اہانت رسول ایک ناقابل معافی جرم ہے لیکن قانون کواپنے ہاتھ میں لیتے ہوئے انفرادی طورپرامت مسلمہ کے کسی شخص کے  ذریعہ گستاخ رسول کوسزادینے کی اجازت نہیں بلکہ اس کے لئے حکمراں طبقہ گستاخ رسول کو سزادلانے کی کوشش کرے.اور عدلیہ یاحکومت اس پر کارروائی کرے گی.لیکن مسلم ممالک کی بے حسی کہیئے کہ آج تک کسی نے عالمی طورپرفرانس کے چارلی ہیبڈوجریدے کویہ بات سمجھانے کی کوشش نہیں کی.اور وہ اپنی گستاخانہ کارٹون دکھانے میں اپنے ملک وملت اور آزادئ اظہارکی  خدمت عظیمہ سمجھ کرلگا ہوا ہے.صدرفرانس نے اپنی دوغلی پالیسی جاری رکھتے ہوئے اس جریدے کے کام کوسراہا ہے اور اس کے خلاف اٹھنے والی آواز کو اسلامی دہشت گردی قرار دیا ہےمسلم امہ کا یہ فریضۂ منصبی ہے کہ سبھی مسلم ممالک متحد ہوکر یواین او میں توہین رسالت کاقانون  عالمی طورپرمنظور کرائیں.

اہانت رسول کی سزا پرپوری امت مسلمہ متحد ہے کہ گستاخ رسول کو  کیفرکردارتک پہنچاناضروری ہے  خواہ وہ توبہ کرلے.اگرکوئی  غیرمسلم توہین رسالت کامرتکب ہوالیکن گرفتاری کے بعد اس نے توبہ کرلی اور اسلام قبول کرلیاتب بھی اس کو سزاءََ قتل کیاجائے گاالبتہ اس کے حلقہ بگوش اسلام ہونےکی وجہ سے اس کی تجہیز وتکفین اور نماز جنازہ بحیثیت مسلمان کی جائے گی.

:محقق ابن ہمام علیہ الرحمہ

«کل من أبغض رسول الله ﷺ بقلبه کان مرتدًا فالساب بطریق أولى ثم یقتل حدًا عندنا فلا تقبل توبته في إسقاط القتل.... وإن سبّ سکران ولا یعفی عنه»

فتح القدیرجلد 5صفحہ332)
''ہر وہ شخص جو دل میں رسول ﷺ سے بغض رکھے، وہ مرتد ہے اور آپ کو سب و شتم کرنے والا تو بدرجہ اولیٰ مرتد ہے اسےقتل کیا جائے گا۔ قتل کے ساقط کرنے میں اسکی توبہ قبول نہیں۔ اگرچہ حالت ِنشہ میں کلمۂ گستاخی بکا ہو ، جب بھی معافی نہیں دی جائے گی۔''
2. علامہ زین الدین ابن نجیم علیہ الرحمہ
«کل کافر فتوبته مقبولة في الدنیا والآخرة إلا جماعة الکافر بسب النبي وبسبّ الشیخین أو إحداهما.... لا تصح الردة السکران إلا الردة بسب النبي ولا یعفی عنه.... وإذا مات أو قتل لم یدفن في مقابر المسلمین، ولا أهل ملته وإنما یلقی في حفیرة کالکلب»

الأشباہ والنظائر:158,159)
''ہر قسم کے کافر کی توبہ دنیا و آخرت میں مقبول ہے، مگر ایسے کفار جنہوں نے حضورﷺ  یاشیخین میں سے کسی کو گالی دی تو اُس کی توبہ قبول نہیں۔ ایسے ہی نشہ کی حالت میں ارتداد کو صحیح نہ مانا جائے گا مگر حضورﷺ کی اہانت حالتِ نشہ میں بھی کی جائے تو اُسے معافی نہیں دی جائے گی۔ جب وہ شخص مرجائے تو اسے مسلمانوں کے مقابر میں دفن کرنے کی اجازت نہیں، نہ ہی اہل ملت (یہودی نصرانی) کے گورستان میں بلکہ اسے کتے کی طرح کسی گڑھے میں پھینک دیا جائے گا۔''
3. امام ابن بزار علیہ الرحمہ
«إذا سبّ الرسول ﷺ أو واحد من الأنبیاء فإنه یقتل حدًا فلا توبة له أصلًا سواءً بعد القدرة علیه والشهادة أو جاء تائبًا من قبل نفسه کالزندیق لأنه حد واجب فلا یسقط بالتوبة ولا یتصور فیه خلاف لأحد لأنه حق تتعلق به حق العبد فلا یسقط بالتوبة کسائر حقوق الآدمیین وکحد القذف لا یزول بالتوبة»

رسائل ابن عابدین 2/327
''جو شخص رسول اللہ ﷺ کی اہانت کرے یا انبیا میں سے کسی نبی کی گستاخی کرے تو اسےبطورِ حد قتل کیا جائے گا اور اس کی توبہ کا کوئی اعتبار نہیں، خواہ وہ تائب ہوکر آئے یا گرفتار ہونے کے بعد تائب ہو اور اس پر شہادت مل جائے تو وہ زندیق کی طرح ہے۔اس لیے کہ اس پر حد واجب ہے اور وہ توبہ سے ساقط نہیں ہوگی۔ اس میں کوئی اختلاف نہیں، اس لیے کہ یہ ایسا حق ہے جو حق عبد کےساتھ متعلق ہے، جو بقیہ حقوق کی طرح توبہ سے ساقط نہیں ہوتا جیسے حد ِقذف بھی توبہ سے ساقط نہیں ہوتی۔''
4. علامہ علاء الدین حصکفی علیہ الرحمہ
«الکافر بسبّ النبي من الأنبیاء لا تقبل توبته مطلقًا ومن شكّ في عذابه و کفره کفر»

درمختار6/356
''کسی نبی کی اہانت کرنے والا شخص ایسا کافر ہے جسے مطلقاً کوئی معافی نہیں دی جائے گی، جو اس کے کفر و عذاب میں شک کرے، وہ خود کافر ہے۔''
5. علامہ اسماعیل حقی علیہ الرحمہ
«واعلم انه قد اجتمعت الأمة علی أن الاستخفاف بنبینا وبأي نبي کان من الأنبیاء کفر، سواء فعله فاعل ذلك استحلالا أم فعله معتقدًا بحرمته لیس بین العلماء خلاف في ذلك، والقصد للسب وعدم القصد سواء إذ لا یعذر أحد في الکفر بالجهالة ولا بدعوی زلل اللسان إذا کان عقله في فطرته سلیما»

روح البیان3/394
''تمام علماے اُمت کااجماع ہے کہ ہمارے نبی کریمﷺ ہوں یا کوئی اور نبی علیہ السلام ان کی ہر قسم کی تنقیص و اہانت کفر ہے، اس کا قائل اسے جائز سمجھ کر کرے یا حرام سمجھ کر، قصداً گستاخی کرے یا بلا قصد، ہر طرح اس پر کفر کافتویٰ ہے۔ شانِ نبوت کی گستاخی میں لا علمی اور جہالت کا عذر نہیں سنا جائے گا، حتیٰ کہ سبقت ِلسانی کا عذر بھی قابل قبول نہیں، اس لیے کہ عقل سلیم کو ایسی غلطی سے بچنا ضروری ہے۔''
6. علامہ ابوبکر احمد بن علی رازی علیہ الرحمہ
«ولا خلاف بین المسلمین أن من قصد النبي ﷺ بذلك فهو ممن ینتحل الإسلام أنه مرتد فهو یستحق القتل»

احکام القرآن3/112
''تمام مسلمان اس پر متفق ہیں کہ جس شخص نےنبی کریم ﷺ کی اہانت اور ایذا رسانی کا قصد کیا وہ مسلمان کہلاتا ہو تو بھی وہ مرتد مستحق قتل ہے۔''
ذمی شاتم رسول کا حکم
جو شخص کافر ہو اور اسلامی سلطنت میں رہتا ہوں، ٹیکس کی ادائیگی کے بعد اسے حکومت تحفظ فراہم کرتی ہے، مگر جب وہ اہانت ِرسول کا مرتکب ہو تو اس کا عہد ختم ہوجاتا ہے اور اس کی سزا بھی قتل ہے۔
7. امام ابوحنیفہ علیہ الرحمہ
علامہ ابن تیمیہ علیہ الرحمہ امام اعظم ابوحنیفہؒ کا موقف بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
«فإن الذمي إذا سبه لا یستتاب بلا تردد فإنه یقتل لکفره الأصلي کما یقتل الأسیر الحربی»

الصارم المسلول260
''اگر کوئی ذمی نبی کریمﷺ کی اہانت کا مرتکب ہو تو اسے توبہ کا مطالبہ کئے بغیر قتل کردیں گے کیونکہ اسے اس کے کفر اصلی کی سبب قتل کیا جائے گا جیسے حربی کافر کو قتل کیا جاتا ہے۔''
8. امام محقق ابن الہمام علیہ الرحمہ
''میرے نزدیک مختار یہ ہے كہ ذمی نے اگر حضورﷺ کی اہانت کی یا اللہ تعالی جل جلالہ کی طرف غیر مناسب چیز منسوب کی، اگر وہ ان کے معتقدات سے خارج ہے جیسے اللہ تعالی کی طرف اولاد کی نسبت یہ یہود و نصاریٰ کا عقیدہ ہے، جب وہ ان چیزوں کا اظہار کرے تو اس کا عہد ٹوٹ جائے گا اور اسے قتل کردیا جائے گا۔''

فتح القدیرجلد5/303
9. علامہ ابن عابدین شامی علیہ الرحمہ
«فلو أعلن بشتمه أو إعتاده قُتل ولو امرأة وبه یفتٰی الیوم»

ردالمحتارجلد6/301
''جب ذمی علانیہ حضورﷺ کی اہانت کا مرتکب ہو تو اسے قتل کیا جائے گا، اگرچہ عورت ہی ہو او راسی پر فتویٰ ہے۔''
حرفِ آخر
قاضی عیاض مالکی اور علامہ ابن تیمیہ رحمہما اللہ ،دونوں نے امام ابوسلیمان خطابیؒ کا موقف نقل کرتے ہوئے لکھا:
«لا أعلم أحدا من المسلمین اختلف في وجوب قتله»
''میں نہیں جانتا کہ مسلمانوں میں سے کسی نے شاتم رسول کے قتل میں اختلاف کیا ہو۔''
علامہ ابن تیمیہؒ مزید لکھتے ہیں:
«إن الساب إن کان مسلما فإنه یکفرویقتل بغیر خلاف وهو مذهب الأئمة الأربعة وغیرهم»

الصارم المسلول ص24
''بے شک حضور نبی کریمﷺ کو سب و شتم کرنے والا اگرچہ مسلمان ہی کہلاتا ہو، وہ کافر ہوجائے گا۔ ائمہ اربعہ اور دیگر کے نزدیک اِسےبلا اختلاف سزاءََ قتل کیا جائے گا۔''

شیخ الاسلام تقی الدین ابو العباس احمد بن عبد العلیم بن عبد السلام الحرانی الدمشقی المعروف بابن تیمیہ نے اپنی مشہور " کتاب الصارم المسلول علی شاتم الرسول" میں نقل فرمایاہے:

 «ان من سب النبی صلی الله علیه وسلم من مسلم او کافر فانه یجب قتله، هذا مذهب علیه عامة اهل العلم۔ قال ابن المنذر: أجمع عوام أهل العلم علی أن حد من سب النبی صلی الله علیه وسلم : القتل ، وممن قاله مالک واللیث واحمد واسحق وهو مذهب الشافعی ، وقد حکیابوبکر الفارسی من اصحاب الشافعی اجماع المسلمین علی ان حد من سب النبی صلی الله علیه وسلم القتل».1

ترجمہ : عام اہلِ علم کا مذہب ہے کہ جو شخص خواہ مسلمان ہو یا غیرمسلم، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو براکہتاہے اس کاقتل  شرعا واجب ہے۔ ابن منذر نے فرمایا کہ عام اہل علم کا اجماع ہے کہ جونبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو شب وستم کرے، اس کی حد قتل ہے اور اسی بات کو امام مالک، امام لیث، امام احمد، امام اسحاق نے بھی اختیار فرمایا ہے اور امام شافعی رحمہ اللہ علیہ کا بھی یہی مذہب ہے.اور ابوبکر فارسی نے اصحابِ شافعی سے اس پرمسلمانوں کا اجماع نقل کیا ہے کہ شاتم رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی حد قتل ہے۔

«وقال محمد بن سحنون: اجمع العلماء علی ان شاتم النبی صلی الله علیه وسلم والمُتَنَقِّص له کافر، والوعید جاء علیه بعذاب الله له وحکمه عند الامة القتل، ومن شک فی کفره وعذابه کفر۔» 2

محمد بن سحنون نے فرمایا: علماء کا اجماع ہے کہ شاتم رسول اور آپ کی توہین وتنقیصِ  کرنے والا کافر ہے اور حدیث میں اس کے لیے سخت سزا کی وعید آئی ہے اور امت مسلمہ کے نزدیک اس کا شرعی حکم ،قتل ہے۔ اور جو آدمی اس شخص کے کفر اور عذاب کے بارے میں شک و شبہ کرے گا وہ بھی کافر ہو گا۔

مذکورہ بالا عبارات سے یہ بات  واضح ہوگئی کہ باجماعِ امت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین و تنقیص  کفر ہے اور اسے سزاءََ قتل کرنا واجب ہے۔ اور آخرت میں اس کے لیے دردناک عذاب ہے۔ اور جو اس کے کفر  اورمستحقِ عذاب ہونے میں شک کرے گا وہ بھی کافر ہوجائے گا؛ کیوں کہ اس نے ایک کافر کے کفر میں شبہ کیا ہے۔

علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ نےابن سحنون سے مزید نقل کیا ہے :« ان الساب ان کان مسلما فانه یکفر ویقتل بغیر خلاف وهو مذهب الائمة الأربعة وغیرهم۔»3

اگر براکہنے  والا مسلمان ہے تو وہ کافر ہوجائے گا اور بلا اختلاف سزاءََ اس کو قتل کردیا جائے گا۔ اور یہ ائمہ اربعہ وغیرہ کا مذہب ہے۔

اور امام احمدبن حنبل رحمہ اللہ نے تصریح کی ہے کہ:«قال احمد بن حنبل: سمعت ابا عبد الله یقول :کل من شتم النبی صلی اللّٰه علیه وسلم او تنقصه مسلما کان أوکافرا فعلیه القتل، وأری أن یقتل و لایستتاب.»4

جوبھی خواہ مسلمان ہو یا کافر اگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو گالی دیتا ہے یا ان کی توہین و تنقیص کرتاہے اس کاقتل واجب ہے ۔اور میری رائے یہ ہے کہ اس کو توبہ کرنے کے لیے  مہلت نہیں دی جائے گی بلکہ فوراً ہی سزاءََقتل کردیا جائے گا۔

"الدرالمختار "میں ہے: وفی الاشباه ولا تصح ردة السکران الا الردة بسب النبی صلی الله علیه وسلم فانه یقتل ولا یعفی عنه۔» 5

"اشباہ " میں ہے کہ نشہ میں مست آدمی کی ردّت کا اعتبار نہیں ہے ،البتہ اگر کوئی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو گالی دینے کی وجہ سے مرتد ہوجاتاہے تو اس کو قتل کردیا جائے گا اور اس گناہ کو معاف نہیں کیا جائے گا۔

امام احمد رحمہ اللہ اور "اشباہ "کی عبارات سے یہ بات معلوم ہوئی کہ توہین رسالت کا جرم  قابل معافی نہیں  اور اس کی شرعی سزا قتل ہے. لیکن یہ کسی بھی فردواحد کا کام نہیں بلکہ حکومت کی ذمہ داری ہے.

اور جو  شخص حالت ارتدادپر بدستور قائم رہتاہے یا بار بارمرتد ہوتا رہتاہے اس کو فوراً قتل کردیا جائے گا اور اس کی توبہ قبول نہیں کی جائے گی۔ جیسا کہ "فتاوی شامی" میں ہے:

«وعن ابن عمر وعلی: لا تقبل توبة من تکر رت ردته کالزندیق، وهو قول مالک واحمد واللیث، وعن ابی یوسف لو فعل ذلک مراراً یقتل غیلة۔» 6

حضرت عبد اللہ بن عمراورحضرت علی رضی اللہ عنہم سے روایت ہے کہ متعددبارمرتدہونے والے کی توبہ قابل قبول نہیں، جیساکہ زندیق کی توبہ قبول نہیں کی جاتی اور یہ امام مالک، احمد اورلیث کا مذہب ہے، امام ابویوسف سے مروی ہے کہ اگر کوئی مرتد ہونے کا جرم بابار کرے تواسے سزاءََ حیلہ سے بے خبری میں قتل کردیا جائے۔

اسی طرح "در مختار " میں ہے:  «وکل مسلم إرتد فتوبته مقبولة إلا جماعة من تکررت ردته علی ما مر۔ والکافر بسب نبی من الانبیاء فانه یقتل حدا ً ولا تقبل توبته مطلقاً۔» 7

ہر وہ مسلم جو نعوذ باللہ مرتد ہوجاتاہے اس کی توبہ قبول ہوتی ہے ، مگر وہ جماعت جس کا ارتداد مکرربار بار ہوتا ہو، ان کی توبہ قبول نہیں ہوتی۔ اور جو آدمی انبیاء میں سے کسی نبی کو براکہنے یاگالی دینے کی وجہ سے کافر ہوجائے اس کو قتل کر دیاجائے گا اور اس کی توبہ کسی حال میں بھی قبول نہیں کی جائے گی۔

ان عبارات سے یہ بات واضح ہوگئی ہے کہ  توہین رسالت اتنا بڑا جرم ہے کہ بہ فرض محال اگر کوئی نشہ میں مست آدمی بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو برا کہے گا یا آپ کی توہین و تحقیر کرے گا تو اسے سزاءََ قتل کردیا جائے گا۔

1۔ الصارم المسلول علی شاتم الرسول،لتقی الدین ابن تیمیه-المتوفی ۷۲۸ھ المسئلة الاولی : ۳،۴ ط: نشر السنة  ملتان ۔  2۔ المرجع السابق۔ ۳،۴  ۔3۔الصارم المسلول - ۳،۴۔   4۔المرجع السابق․ ص:۴

5۔الدر المختار -کتاب الجهاد-باب المرتد-۴۲۲۴․ ط:سعید کراچی۔     6 ۔رد المحتارعلی الدرالمختار -کتاب الجهاد-باب المرتد-مطلب مایشک فی انه ردة لایحکم بها - ۴۲۲۵۔ ط:سعید کراچی۔  7۔ الدر المختار -کتاب الجهاد-باب المرتد-۴۲۳۱،۲۳۲، ط:سعید۔کراچی۔8۔ رد المحتارعلی الدر المختار -کتاب الجهاد-باب المرتد-۴۲۳۷․ط:سعید ،کراچی۔   9۔ الد رالمختار -کتاب الحدود-باب التعزیر-۴۶۴․ط: ایچ ،ایم ،سعید کراچی۔

Thursday 15 October 2020

رولے اب دل کھول کے اے دیدۂ خوننابہ بار:سرہند کاذکر

 سرہند مشرقی پنجاب میں فتح گڑھ صاحب کے قریب ایک تاریخی قصبہ ہے.عہداسلامی میں اسے مرکزی حثییت حاصل تھی.یہاں مشاہیرعلما,شعراء,مؤرخین,صوفیاء ,امراء,وزراء, پیداہوئے.اگرچہ یہ فیروزشاہ تغلق کے عہد میں آباد ہوالیکن شہرت کے بام عروج پرعہداکبری میں پہنچا. عہد بابری میں مغل سلطنت کے بنیاد گزار شہنشاہ بابر, بقول مصنف گلزار ابرار'اس دور کے نامور عالم اور شیخ طریقت مولانا مجدالدین سرہندی سے سرہند ملنے آیا.

عہداکبری کے مشاہیرعلماء میں  طبقات اکبری کے مصنف شیخ نظام الدین  احمدان کے استاد شیخ علی شیر سرہندی,مولاناعبدالقادر,مولاناالہدادبن صالح سرہندی,بہت مشہور ہیں.

عہد جہانگیری کا ایک اہم نام جوتزکیہ وسلوک کے عظیم سلسلۃ الذہب کے بانی مبانی ہیں شیخ احمد سرہندی مجددالف ثانی کا ہے .ان کی سوانح ,شخصیت,علوم ومعارف مکاتیب اور تصانیف وشروحات ,خلفاء اورتلامذہ اور مستفیدین ,اور اس خانوادۂ علمی کی تاریخ پرہزارہاکتب ,معتبرمصنفین ومحققین نے لکھی ہیں.اس پرفیض خانوادۂ مشاہیر کے آثارآج بھی سرہند کی زینت ہیں.آپ کی مساعئ جمیلہ سےاسلامی دنیا میں انقلاب برپاہوا.بدعات وخرافات کی آپ نے بیخ کنی کی اور اتباع سنت کی تلقین کی.

:آپ کی اولاد میں 

شیخ  محمد صادق سرہندی ,خواجہ محمدسعید سرہندی,خواجہ محمد معصوم,خواجہ محمدیحی عرف شاہ جیو بہت مشہور ہیں.

:خلفاء میں

 خواجہ میرمحمد نعمان بدخشی,شیخ احمد برکی,شیخ آدم بنوری, خواجہ محمد ہاشم کشمی,شیخ حسن برکی,ملاعبدالحکیم سیالکوٹی,شیخ محمد طاہرلاہوری,شیخ بدیع الدین,شیخ بدالدین ابراہیم سرہندی شیخ احمد دیوبندی  وغیرہ سے اہل علم بخوبی واقف ہیں

بہرکیف سرہند اپنی عظمت رفتہ کی بناپر مؤرخین کی نظر میں خاص مقام کاحامل ہے.سرہند کی چندقابل ذکرشخصیات کی صرف فہرست درج ذیل کی جاتی ہے تاکہ واضح ہوجائے کہ یہاں عہد اسلامی میں کیسے کیسے آفتاب وماہتاب پیداہوئے عہداسلامی میں یہاں 360سے زاید مساجدمدارس اور خانقاہیں آباد تھیں .آج  فقط چند آثارہیں.ابوالفضل نے آئین اکبری میں لکھاکہ سرہند دہلی کی ایک سرکار ہے جس کے تحت 31محل اور پرگنہ جاہیں.اس کاقدیم نام سہرند(شیروں کاجنگل)تھا جب غزنوی بادشاہوں نے غزنی سے سرہند تک کاعلاقہ اپنے زیراقتدار کرلیاتوسرِہند یعنی ہندوستان کاسرمشہورہوگیا. شاہجہاں نے کابل سے قرا باغ غزنی تک کا وسیع و عریض علاقہ فتح کرلیاتوحکم جاری کیا کہ سہرند ہی لکھا جائے لیکن اس کے باوجود سرہند ہی زبان زد خاص وعام رہا.(سرو آزاد مؤلفہ مولانا غلام علی آزاد بلگرامی ,ص128 سرہندکو جغرافیائی لحاظ سے گیٹ وے آف انڈیا کہا جاتاتھا.اسی لئے ہربادشاہ نے اس کو بہت زیادہ اہمیت دی.1415ء/818ہجری میں دہلی کے اولین سید حکمراں خضر خان نے اپنے بیٹے  ملک مبارک کو سرہند کاگورنراورملک سادہوناکو اس معاون مقررکیا.لیکن وہ 1416ء میں ترکوں کے ہاتھوں قتل ہوا

١۴٥١ء میں سرہند ہی میں ملک بہلول لودھی نے سلطان کالقب اختیار کیا.

١٥٥٥ء میں سرہند ہی میں ہمایوں نےسکندرسوری کوشکست دی. جب بیرم خان نے بغاوت کی تو اکبر نے١٥٦۰ء میں سرہندہی میں اس کی سرکوبی کی.اورنگ زیب اور داراشکوہ کے درمیان جانشینی کی جنگ میں دارا شکوہ نے دس ہزار افواج کے ساتھ سرہند کی طرف مارچ کیاتھا

تاکہ اورنگ زیب کی پیش قدمی کو روکاجاسکے

چند مشاہیر کے صرف نام درج کئے جاتے ہیں تاکہ قارئین کوسرہند کی عظمت رفتہ  کا بخوبی احساس ہوسکے

:علما وصلحاء

شیخ مجدالدین محمد,شیخ الہداد بن صالح,شیخ بہاء الدین,مولانابدرالدین صاحب حضرات القدس,مولاناعلی شیرسرہندی مقدمہ نویس غیرمنقوط عربی تفسیر سواطع الالہام,شیخ عبدالاحد ,سیدیاسین,مولاناعثمان ,شیخ نورالدین ترخان,شیخ عبدالرحمان صوفی,شیخ سلطان رخنہ ہروی,شیخ عبدالصمد حسینی,مولاناقطب الدین سرہندی مولاعبدالمالک, مولانا مظفر,ملاابوالخیر,شیخ علی رضا سرہندی,شیخ نعمۃ اللہ وغیرہ.

:مشاہیر خاندان مجددیہ

شیخ احمد سرہندی

خواجہ محمد سعید بن شیخ مجدد الف ثانی, متعدد عربی فارسی کتابوں کے مصنف

خواجہ محمد معصوم ولد شیخ مجدد الف ثانی صاحب مکتوبات معصومی.

شیخ سیف الدین 

شیخ بدرالدین ابراہیم

شیخ صبغۃ اللہ

شیخ محمد نقشبند

خواجہ محمد عبید اللہ

خواجہ محمد اشرف

شیخ محمد صدیق

شیخ محمد ہادی

شیخ یوسف

شیخ ابوالفیض کمال الدین محمد احسان

شیخ زین العابدین

مولانافرخ شاہ سرہندی

شیخ محمد راشد

شیخ محمد عیسی سرہندی

:فہرست مؤرخین

یحی بن احمد بن عبداللہ سرہندی, صاحب تاریخ مبارک شاہی

شیخ الہ داد فیضی سرہندی

شیخ ابراہیم سرہندی ,صاحب رزم نامہ

عبداللہ نیازی سرہندی

مولاناامان اللہ سرہندی

مولاناعبدالقادر سرہندی

عبدالحق سجاول سرہندی

سیف خا فقیراسرہندی

شیخ فضل اللہ سرہندی

غلام محی الدین سرہندی

شیخ قطب الدین سرہندی 

شیخ محمد عابد سرہندی 

ولی سرہندی

شیخ عبدالاحدوحدت سرہندی نبیرۂ شیخ مجدد,استادشاہ افضل (جو شاہ ولی اللہ (محدث دہلوی کے استاذ ہیں

:فہرست شعرا سرہند

ناصرعلی سرہندی

راسخ سرہندی

محمدافضل سرخوش

میرمحمدحسن ایجاد

 سعادت یارخان رنگین

مولاناصفائی سرہندی

شیری سرہندی

عیشی حصاری

فائض سرہندی

فضل اللہ خوشتر

میرعلی رضاحقیقت

مرزاغازی شہید

میرمفاخرحسین ثاقب

میاں علی عظیم

میرمعصوم وجدان

سرآمدسرہندی

میراحمدحسین مخلص

اجابت سرہندی

وسعت سرہندی

شاہجہاں بادشاہ نے سرہند میں ایک باغ تعمیر کرایا ان کی ایک ملکہ سرہندی بیگم کاتعلق سرہند سے تھا.

عہد سلطنت میں سرہند ہمیشہ شاہان دہلی کا مرکز رہا. فیروزشاہ نے اسے فیروزپور کانام دیا.

:شیخ مجددالف ثانی کے مشہور شاگردخواجہ ہاشم کشمی کہتے ہیں

کزان قندیکہ شیریں ترزجان است

کنوں درخطۂ ہندوستان است

الاسودائیاں شہریست درہند

کہ اندر پائے او بنہاد سرہند

سوادش زلف رخسارفتوح است

غبارش توتیائے چشم روح است

ازاں شہرے کہ نامش مضمرآمد

بعہدے ماعجب کانے برآمد

(روضۃ القیومیہ اردو صفحہ 27جلد اول)