https://follow.it/amir-samdani?action=followPub

Tuesday 8 June 2021

اصطلاحات حدیث

 اصطلاحات حدیث (عربی: مُصْطَلَحُ الحَدِيْث‎) حدیث اقسام حدیث، راویان حدیث وغیرہ کے علم کو اسلام میں بنیادی ماخذ کی حیثیت حاصل ہے۔ جس کے لیے کئی اصطلاحات حدیث وضع کی گئی ہیں۔

بنیادی اصطلاحات

علم مُصطلح الحدیث کی 14 بنیادی اصطلاحات ہیں :

علم المُصطلح: 

وہ علم جس کے ذریعہ سے حدیث کے سند و متن کے احوال کی معرفت حاصل کی جاتی ہے تاکہ حدیث کے قبول و عدم کا فیصلہ کیا جاسکے۔

موضوع: 

اِس میں حدیث کے سند اور متن کے صحیح یا موضوع ہونے کا فیصلہ کیا جاتا ہے

غایت: ترميم

اِس اصطلاح میں علم کی بابت صحیح و سقیم احادیث کے درمیان امتیازی خط کھینچنا ہوتا ہے۔

الحدیث: 

حدیث کے لغوی معنی جدید یا نئی چیز کے ہیں اور اِس کی جمع خلافِ قیاس الاحادیث آتی ہے۔ اِصطلاح حدیث میں ہر اُس قول، فعل یا تقریر کو حدیث کہا جاتا ہے جس کی نسبت پیغمبر اسلام حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے منسوب کی جاتی ہو۔ تقریر سے مراد وہ فعل ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے سامنے کیا گیا مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے نہ تو اِس کے کرنے کا حکم دیا اور نہ ہی منع فرمایا بلکہ اِس پر سکوت فرمایا۔

الخبر: 

اِس کے لفظی معنی تو عام خبر کے ہیں اور اِس کی جمع الاخبار ہے۔ اصطلاحی تعریف میں تین اقوال مشہور ترین یہ ہیں کہ:

(ا) پہلا قول یہ ہے کہ خبر بالکل حدیث کے ہم معنی لفظ ہے یعنی باہم خبر اور حدیث مترادف ہیں۔

(ب) دوسرا قول یہ ہے کہ خبر کا مفہوم حدیث کے بالکل برعکس ہے، اِس مفہوم میں حدیث کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے منقول کلام کو سمجھا جاتا ہے اور خبر اُس کلام کو کہتے ہیں جس کی نسبت خاص رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے نہ ہو بلکہ کسی اور شخصیت سے منسوب وہ کلام ہو۔ یہ قول اول کے برعکس ہے۔

(ج) تیسرا قول یہ ہے کہ حدیث سے زیادہ عام لفظ خبر ہے، یعنی حدیث اُس کلام کو کہتے ہیں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے منقول ہو اور خبر اُس کلام کو کہتے ہیں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم یا کسی اور شخص سے منقول ہو۔

عموماً علما و محدثین دوسرے قول کی نسبت زیادہ اعتماد کرتے ہیں کیونکہ اُس میں خبر کی وضاحت آسان ہے۔ اگر پہلے اور تیسرے قول کو اپنایا جائے تو تمام اخبار احادیث میں شامل ہوجائیں گی اور حدیث کا اطلاق خبر پر بھی ہونے لگے گا۔ ابتدائی محدثین خبر کو بھی حدیث ہی جانتے تھے مگر تدوین فقہ کے زمانہ میں خبر کو حدیث سے الگ کر لیا گیا۔

الاثر: 

اِس کے لفظی معنی ہیں : کسی چیز کا باقی ماندہ نشان یا علامت۔ اِصطلاح میں اِس کے دو اقوال ہیں :

(ا) پہلا قول یہ ہے کہ لفظ اثر، حدیث کے ہم معنی ہے اور باہم دونوں مترادف ہیں۔

(ب) دوسرا قول یہ ہے کہ اِس لفظ کا مفہوم حدیث کے بالکل برعکس ہے، اِس میں اثر وہ قول یا فعل ہے جس کی نسبت صحابہ کرام یا تابعین یا تبع تابعین کی طرف سے کی گئی ہو۔  دوسرا قول یہ ہے کہ اِس لفظ کا مفہوم حدیث کے بالکل برعکس ہے، اِس میں اثر وہ قول یا فعل ہے جس کی نسبت صحابہ کرام یا تابعین یا تبع تابعین کی طرف سے کی گئی ہو۔

محدثین عظام اثر کا مفہوم دوسرے قول کی نسبت سے لیتے ہیں۔

الاسناد: 

اِس کے دو مفہوم ہیں :

(ا) حدیث کی نسبت اُس کے قائل کی طرف کرنا۔

(ب) متن حدیث تک پہنچانے والے سلسلہ سند کے رجال، یہ لفظ سند کے ہم معنی ہی ہے۔ محدثین عظام اِسی قول کو تسلیم کرتے ہیں۔

السَنَد: 

اِس کا لغوی معنی ہے : سہارا۔ مُصطلح الحدیث میں سند کے ذریعہ جو کسی بھی حدیث میں مروی ہوتی ہے، اُس کی ثقاہت کا انحصار اِسی سند پر ہوتا ہے۔ اِس اصطلاح میں سند اُس سلسلہ رجال کو کہا جاتا ہے جو حدیث کے متن تک پہنچا دے۔ کسی بھی حدیث کی ثقاہت جاننے کے لیے سند اہم ستون ہے، گویا ایک سیڑھی ہے جس کے سہارے حدیث کے متن تک پہنچا جاتا ہے۔

المَتَن: 

متن کا لغوی معنی ہے : زمین کا وہ سخت حصہ جو سطح زمین سے کچھ بلند ہو۔ اِصطلاح میں اِس سے مراد کلام کا وہ حصہ ہے جس پر سند کا سلسلہ ختم ہو جائے۔

المُسنَد: 

اَسنَد سے اسم مفعول ہے یعنی جس کی طرف کوئی جزء منسوب ہو۔ اِصطلاح میں اِس کے لیے تین اقوال مشہور ہیں :

(ا) ہر وہ کتاب جس میں ہر صحابی کی الگ الگ مرویات جمع کی گئی ہوں۔ اِس اعتبار سے بیشتر کتب ہائے حدیث تالیف کی گئی ہیں جن میں امام احمد بن حنبلکی مُسنَد احمد بن حنبل مشہور ہے۔

(ب) ہر وہ مرفوع حدیث جو سند کے اعتبار سے متصل ہو۔

(ج) تیسرے قول کے مطابق یہ ہے کہ اِس سے سند مراد لی جائے۔ اِس صورت میں مصدر میمی بمعنیٰ اسناد ہوکر سند ہی کے ہم معنی ہوگا۔

المُسنِد: 

وہ شخص جو سند کو حدیث کے ساتھ روایت کرے، خواہ وہ اُس حدیث کا علم رکھتا ہو یا نہ رکھتا ہو۔

المُحَدِّث: 

اِس سے مراد وہ شخص ہے جس کا شغف روایت و درایت کے اعتبار سے علمحدیث اور اُسے اکثر روایات اور اُن کے رواۃ کے احوال کا علم ہو، ایسا شخص محدث کہلاتا ہے۔

الحَافِظ: 

حافظ کے متعلق محدثین کے دو اقوال ہیں :

(ا) بیشتر محدثین کے نزدیک یہ لفظ محدث کے معنی میں لیا جاتا ہے۔

(ب) دوسرا قول یہ ہے کہ حافظ کا درجہ محدث سے قدرے بلند ہوتا ہے کیونکہ اُسے محدثین کے ہر طبقہ میں سے اکثر کا علم ہوتا ہے۔

الحَاکِم : 

الحاکم کی اصطلاح بعض محدثین عظام کے اقوال میں اُس شخص پر لازم آتی ہے جس کا علم جملہ احادیث پر محیط ہو، چہ جائیکہ جو احادیث اُس کے علم میں نہ ہوں اُن کی تعداد محض مختصر ہی ہو۔

ذرائع خبر 

ہم تک خبر یعنی حدیث کے پہنچنے کے دو اہم ذرائع ہیں : خبر متواتر اور خبر آحاد۔

  • اگر خبر کی روایت کے سلاسل میں تعداد متعین نہ ہو تو اُسے خبر متواتر کہا جاتا ہے۔
  • اگر خبر کی روایت کے سلاسل کی تعداد متعین ہو تو اُسے خبر آحاد کہا جاتا ہے۔

خبر متواتر: 

اِس کی لغوی تعریف یہ ہے کہ متواتر لفظ تواتر سے مشتق ہوکر اسم فاعل بنا ہے جس کے معنی ہیں : پے در پے ہونا۔ مثال جیسے کہ مسلسل بارش کی صورت میں کہا جاتا ہے : تواتر المطر، یعنی مسلسل بارش ہوئی۔ اصطلاحی تعریف میں متواتر اُس حدیث کو کہتے ہیں جسے ہر زمانہ میں محدثین اور علما کی کثیر جماعت نے اِس قدر روایت کیا ہو کہ اُس کا کذب بیانی پر متفق ہونا محال ہو۔[1]

اِس کی وضاحت یوں کی جاسکتی ہے کہ خبر متواتر سے مراد وہ حدیث یا خبر ہے جس کے سلسلہ روایت کے ہر طبقہ یا مرحلہ روایت میں راویوں کی اتنی بڑی تعداد ہو کہ عقل کے نزدیک اُن سب کا اِس حدیث یا خبر کو من گھڑت کہنے پر متفق ہونا محال ہو جائے۔

Why don't politicians talk about lynching?

 جمعیۃ ہند کے ایک وفد نے دہلی کے سوروپ وہار نزد بھلسوا ڈیری علاقہ جہانگیرپوری میں ماب لنچنگ کے شکار ہوئے سرفراز ولد بھورا خان مرحوم کی ماں اور دیگر اہل خانہ سے ملاقات کرکے مکمل تعاون کی یقین دہانی کرائی۔

جمعیۃ علماء ہند کی جاری کردہ ریلیز کے مطابق سورپ وہار میں رہنے والی خوشنما بیوہ بھورا خاں، اپنی دو نوعمر بچیوں کے سا تھ رہتی ہے، جس کے گھر میں ان کا ایک 22سالہ بیٹا سرفراز تنہا کمانے والا تھا، جب جمعیۃ علماء ہند کا وفد اس کے گھر پہنچا تو ماں انتہائی غم میں ڈوبی ہوئی تھی۔ وفد میں جمعیۃ علماء ہند کے جنرل سکریٹری مولانا حکیم الدین قاسمی، مولانا قاری عبدالسمیع نائب صدر جمعیۃ علماصوبہ دہلی، مولانا ضیاء اللہ قاسمی، مولانا یسین جہازی، عظیم اللہ صدیقی اور مولانا رحمت اللہ بوانہ شامل تھے۔

اہل خانہ نے وفد کو بتایا کہ 23 مئی کی رات نو بجے سرفراز عمر 22 سال جو کسی دوست کے کہنے پر باہر نکلا، وہ دیر رات تک واپس نہیں آیا، 24 مئی کی صبح آگے کی گلی سے اس کی لاش ملی، جسے محلے کے شرپسندوں نے باندھ کر بڑ ی بے رحمی سے مارا تھا

اور اس سے موت ہوگئی تھی۔ موت کس حالت میں ہوئی اوراسے کس طرح مارا گیا، یہ اب تک پردہ خفا میں ہے، مرحوم کے بہنوئی کہتے ہیں کہ اسے کچھ لوگوں نے باندھ کر پوری رات پیٹا، مارنے والی گلی میں سبھی لوگ اسے جانتے تھے، لیکن انسانیت پر حیوانیت حاوی تھی۔

سوروپ نگر تھانہ پولس نے ایف آئی نمبر 0249کے تحت کچھ غیر معلوم لوگوں کے خلاف ایف آئی آر بھی درج کی ہے اور دو تین لوگوں کوگرفتار بھی لیا ہے کچھ لوگوں کے خلاف نامزد ایف آئی آر بھی درج کی ہے اور تین غیر مسلم گرفتار بھی ہیں، لیکن انصاف کی اس ڈگر سے ماں مایوس ہیں، وہ کہتی ہے کہ ان کے بچے کو شیطان نے ماردیا، شوہر گزرجانے کے بعد وہ میرے لیے سہارا تھا، لیکن خدا کے علاوہ اب میرا کوئی سہارا نہیں ہے۔ بیوہ خاتون کا گھر ایک مختصر سی دکان سے چلتا ہے،جو گھر کے نیچے قائم ہے، لیکن دکان میں کچھ خاص سامان نہیں ہے۔

ریلیز کے مطابق بیوہ خاتون نے جمعیۃ علماء ہند کے صدر حضرت مولانا محمود مدنی صاحب کے نام ایک خط لکھا ہے جس میں تعاون کی اپیل کی ہے۔ جمعیۃعلماء ہندکے جنرل سکریٹری مولانا حکیم الدین قاسمی نے ان کی ہر ممکن مدد کی یقین دہانی کرائی ہے، اس سلسلے میں جمعیۃ علماء صوبہ دہلی کے نائب صدر قاری عبدالسمیع صاحب اور مولانا ضیا اللہ قاسمی صاحب ان کے اہل خانہ سے رابطہ میں رہیں گے اور ان کی ہر ممکن مدد کریں گے، اگر قانونی چارہ جوئی میں بھی کوئی رکاوٹ پیش آتی ہے تو جمعیۃعلماء ہند ان کی مدد کرنے کو تیار ہے -

علی بن مدینی محدث جلیل رحمہ اللہ

 ابو الحسن کنیت اور علی نام تھا۔ ان کا خانوادہ بنو سعد کے ایک شخص عطیۃ السعد کا غلام تھا۔ آبائی وطن مدینہ المنورہ تھا۔ اس نسبت سے مدینی مشہور ہوئے۔ بعد میں ان کاخاندان بصرہ میں آباد ہو گیا تھا۔ یہیں 161ھ میں ان کی ولادت ہوئی اور وہیں ان کی نشو و نما اور ابتدائی تعلیم کا آغاز ہوا۔ ان کے والد اور دادا دونوں صاحب علم و فضل تھے۔ ان کے والد کے بارے میں تو خطیب بغدادینے لکھا ہے کہ وہ مشہور محدث تھے۔ ان کی ابتدائی تعلیم تو انہی کی آغوش تربیت میں ہوئی۔ بعض واقعات سے یہ پتہ چلتا ہے کہ اختتام تعلیم سے پہلے ہی ان کے والد کا انتقال ہو چکا تھا۔ چنانچہ جب انہوں نے سماع حدیث کے لیے یمن کا سفر کیا تو اس وقت ان کے اخراجات کی ساری ذمہ داری ان کی والدہ کے سر تھی۔

طلب علم

انہوں نے طلبِ علم کے شوق میں دور دور کی خاک چھانی تھی۔ مکہ، مدینہ، بغداد، کوفہ، عرض ممالک اسلامیہ کے ہر مشہور مقام تک طلب علم کے لیے گئے۔ خصوصیت سے یمن میں وہ تین سال تک مقیم رہے۔ علم حدیث میں ان کو فطری لگاؤ بھی تھا اور وراثتاً بھی یہ علم ان کے حصہ میں آ گیا۔ اس لیے ان کے علم کا سارا جوہر اس فن میں کھلا۔ سماع حدیث کے لیے جس وقت انہوں نے یمن کا سفر کیا تھا، اس وقت یہ مبتدی تھے، بلکہ اپنے حفظ و سماع سے حدیث کا ایک اچھا خاصا ذخیرہ پاس جمع کر چکے تھے۔ خود بیان کرتے ہیں کہ میں نے سلسلہ سفر کے اعتبار سے ایک سند جمع کی تھی۔ میں جب یمن جانے لگا تو اس کو بحفاظت ایک صندوق میں بند کرتا گیا، لیکن تین برس کے بعد واپس ہوا تو یہ سارا ذخیرہ مٹی کا ڈھیر ہو چکا تھا۔ مجھ پر اس کا ایسا اثر ہوا کہ پھر دوبارہ اس کے جمع کرنے کی ہمت نہ کر سکا۔ والد کے انتقال کے بعد گھر کا کوئی نگران نہیں تھا۔ صرف ان کی والدہ تنہا تھیں۔ ان کے قیام یمن کے زمانہ میں ان کو نہ جانے کتنی تکالیف کا سامنا کرنا پڑا ہوگا، مگر ان کی والدہ نے یہ پسند نہیں کیا کہ ان تکالیف کی اطلاع دے کر اپنے بیٹے کے سمندِ شوق کی راہ میں روڑہ ڈالیں، بلکہ جن لوگوں نے اس کا مشہور دیا ان کو ان کی والدہ نے اپنے لڑکے کا دشمن سمجھا۔ ان کے علمی شغف کا یہ حال تھا کہ رات کو سوتے سوتے کوئی حدیث یاد آ گئی یا کوئی شبہ ہوا تو فوراً لونڈی سے کہتے کہ چراغ جلا۔ چراغ چل جاتا اور جب وہ اپنی تسکین کر لیتے تب جا کر پھر ان کو نیند آتی تھی۔

اساتذہ

جن اساتذہ سے انہوں نے کسب فیض کیا تھا، ان کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ چند مشاہیر کے نام یہ ہیں۔ ان کے والد عبد اللہ بن جعفر مدینی، حماد بن زید،سفیان بن عیینہ، یحییٰ بن سعید القطان، عبد الرحمن بن مہدی، ابو داؤد طیالسی،ابن علیہ، سعید بن عامر الضبعی وغیرہ۔

علم و فضل

ان کے علم و فضل کا ہر کہ دمہ کو اعتراف تھا۔ یحییٰ بن سعید القطان ان کے اساتذہ میں تھے، مگر وہ کہا کرتے تھے کہ علی بن المدینی جتنا مجھ سے استفادہ کیا وہ اس سے کہیں زیادہ میں نے ان سے استفادہ کیا۔ اسی طرح مشہور محدث اور ان کے شیخ ابن مہدی کہا کرتے تھے کہ میں نے احادیث نبوی کا اتنا جاننے والا نہیں دیکھا۔ سفیان بن عیینہ کے یہ خاص اور محبوب تلامذہ میں تھے۔ بعض لوگوں کو ابن المدینی کے ساتھ ان کی نسبت و محبت ناگوار گزرتی تھی۔ ایک مرتبہ انہوں نے فرمایا کہ مجھے لوگ علی کی محبت پر ملامت کرتے ہیں۔ خدا کی قسم! انہوں نے مجھ سے جتنا کسب فیض کیا ہے، اس سے کچھ زیادہ میں نے ان سے استفادہ کیا ہے۔ سفیان بن عیینہ ان کو حدیث کا مرجع و ماویٰ کہتے تھے۔ کہتے تھے کہ اگر ابن المدینی نہ ہوتے تو میں درس بند کر دیتا۔ احمد بن حنبل ان کا اتنا احترام کرتے تھے کہ ادب سے ان کا نام نہیں لیتے تھے، بلکہ ہمیشہ ان کی کنیت ہی سے ان کو مخاطب کرتے تھے۔محمد بن اسماعیل بخاری ان کے تلامذہ میں ہیں۔ ان کا قول ہے کہ علی بن المدینی کے علاوہ کسی کے سامنے اپنے کو حقیر نہیں سمجھا۔ ان کے انتقال کے بعد کسی نے امام بخاری سے پوچھا کہ آپ کے دل میں کوئی خواہش باقی ہے؟ ایک خواہش ہے، وہ یہ ہے کہ ابن المدینی زندہ ہوتے اور عراق جا کر ان کی صحبت میں بیٹھتا۔ ابن ماجہ اور نسائی نے ان سے بالواسطہ روایتیں کی ہیں۔ امام نسائی کہتے تھے کہ اللہ نے ان کو علم حدیث ہی کے لیے پیدا کیا ہے۔

تصانیف

وہ ان ائمہ تبع تابعین میں ہیں، جنہوں نے اپنی تحریری یادگاریں بھی چھوڑی ہیں۔ یحییٰ بن شرف نووی نے لکھا ہے کہ حدیث میں دو سو ایسی تصنیفیں چھوڑی ہیں، جس کی مثال ان سے پہلے نہیں ملتی۔ مگر ان میں بیشتر ضائع ہو گئیں۔ ابن حجر عسقلانی نے صرف اتنا لکھا کہ وہ صاحب تصانیف ہیں۔ ابن ندیم نے ان کی چند تصانیف کے نام گنائے ہیں: کتاب المسند بعللہ، کتاب المدلسلین، کتاب الضعفاء، کتاب العلل، کتاب الاسماء و الکنی، کتاب الاشربہ، کتاب النزیل۔

وفات

ابن المدینی سنہ وفات اور مقام اور وفات دونوں میں اختلاف ہے۔ سنہ وفات کسی نے 232ھ لکھا، کسی نے 235ھ اور کسی نے 238ھ لکھا ہے۔ مگرخطیب بغدادی نے 234ھ کو صحیح قرار دیا ہے۔ بعض اہل تذکرہ نے لکھا ہے کہ ان کا انتقال بصرہ ہی میں ہوا مگر خطیب بغدادی اور ابن ندیم کے بیان سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کا انتقال سامراء میں ہوا