https://follow.it/amir-samdani?action=followPub

Friday 30 September 2022

حضرت عبد اللہ بن مبارک رحمہ اللہ

حضرت عبداللہ بن مبارک رحمۃ اللہ علیہ زمرۂ تبع تابعین کے گلِ سرسبد ہیں، ان کی زندگی اسلام کا مکمل نمونہ اور اس کی چلتی پھرتی تصویر تھی، ان کا جذبۂ دینی اور شوقِ جہاد ان کی فیاضی اور نرم خوئی، دنیا سے بے رغبتی اور احساسِ ذمہ داری اور اس کے سوانح حیات کے جلی عنوانات ہیں، ان کے ہاتھ میں کوئی مادی طاقت نہیں تھی؛ مگرانہی اخلاقی صفات کی وجہ سے اسلامی مملکت کے ہرفرد کے دل پران کی حکمرانی تھی، ایک بار وہ رقہ آئے، پورا شہر ان کی زیارت کے لیے ٹوٹ پڑا، اتفاق سے ہارون رشید اپنے خدم وحشم کے ساتھ وہاں موجود تھا، محل سے اس کی بیوی یااس کی لونڈی یہ تماشا دیکھ رہی تھی، اس نے پوچھا کہ یہ ہجوم کیسا ہے، لوگوں نے بتایا کہ خراساں کے عالم عبداللہ بن مبارک آئے ہوئے ہیں، یہ انہی کے مشتاقانِ دید کا ہجوم ہے، اس نے بے ساختہ کہا کہ حقیقت میں خلیفۂ وقت یہ ہیں نہ کہ ہارون رشید کہ اس کے گرد پولیس اور فوج کی مدد کے بغیر کوئی مجمع نہیں ہوتا۔ نسب عبداللہ بن مبارک کے والد مبارک ایک شخص کے غلام تھے، ان کی شادی اسی کی لڑکی سے ہوئی تھی، اس وقت تک اسلامی معاشرہ میں عہد سعادت کے آثار باقی تھے، اس لی نسبت نکاح کا معیار حسب ونسب نہیں لکہ لڑکے کی صلاحیت اور اس کا دین وتقویٰ ہوتا تھا، مبارک چونکہ اس حیثیت سے ممتاز تھے، اس لی آقا نے اپنی لڑکی ان سے بیاہ دی؛ گواس کی نسبتیں دوسری بڑی بڑی جگہوں سے بھی آرہی تھیں، مبارک کی جن خصوصیات کی بناپریہ شادی ہوئی، مختصراً ہم اس کا تذکرہ کرتے ہیں: مبارک نہایت دیانت دار ومحتاط شخص تھے، آقا ان کے سپرد جوکام کرتا تھا اس کووہ نہایت دیانت داری اور اطاعت شعاری کے ساتھ انجام دیتے تھے، آقا نے باغ کی نگرانی ان کے سپرد کردی تھی، ایک بار اس نے اُن سے کہا کہ ایک ترش انار باغ سے توڑلاؤ، وہ گئے اور شیریں انار توڑلائے، اس نے دوبارہ اُن سے شیریں انار لانے کے لیے کہا تووہ پھرترش ہی انار توڑ لائے، آقا نے غصہ میں کہا؛ تمھیں ترش وشیریں انار کی بھی تمیز نہیں؟ انہوں نے کہا کہ نہیں، اس نے وجہ پوچھی توبتایا کہ آپ نے مجھے ترش انار کھانے کی اجازت تودی نہیں ہے، اس لیے میں اس کوکیسے پہچان سکتا ہوں، اس نے تحقیق کی تومعلوم ہوا کہ بات صحیح ہے، مبارک کی اس غیرمعمولی دیانتداری اور حق شناسی کا اس پربہت بڑا اثر پڑا اور وہ ان کی بہت قدرومنزلت کرنے لگا۔ مبارک کے آقا کی ایک نیک خداترس لڑکی تھی جس کی شادی کے پیغامات ہرطرف سے آرہے تھے؛ لیکن غالباً وہ ان نسبتوں میں کوئی فیصلہ نہیں کرپارہا تھا، اس نے اس بارے میں ایک روز مبارک سے بھی مشورہ کیا کہ مبارک! میں اس لڑکی کی شادی کہاں اور کس سے کروں؟ انہوں نے کہا کہ: عہدجاہلیت میں لوگ نسبت میں حسب یعنی عزت وشہرت اور نسب کوتلاش کرتے تھے، یہودیوں کومالدار کی جستجو ہوتی تھی اور عیسائی حسن وجمال کوترجیح دیتے تھے؛ لیکن اُمتِ محمدیہ کے نزدیک تومعیار دین وتقویٰ ہے، آپ جس چیز کوچاہیں ترجیح دیں، ااقا کوان کا یہ ایمان افروز اور دانشمندانہ جواب بہت پسند آیا، وہ اپنی بیوی کے پاس آیا اور اس سے کہا کہ میری لڑکی کا شوہر بننے کے لیے مبارک سے بہتر کوئی دوسرا شخص نہیں ہے، بیوی بھی نیک بخت تھیں انہوں نے بھی اس رائے کوپسند کیا اور آقا کی لڑکی سے اُن کی شادی ہوگئی حضرت عبداللہ بن مبارک اسی باسعادت لڑکی کے بطن سے سنہ۱۱۸ھ میں مرو میں پیدا ہوئے، ان کی کنیت ابوعبدالرحمن ہے، ان کا اصلی وطن مرو تھا، اس لیے وہ مروزی کہلاتے ہیں، یہ مرو جہاں ان کی ولادت ہوئی، مسلمانوں کا قدیم شہر ہے، افسوس ہے کہ یہ اس وقت روس کے قبضہ میں ہے، اس سرزمین سے جہاں اخلاق وروحانیت کے سینکڑوں چشمے اُبلے اور اسلامی علم وتمدن کے صدہاسوتے پھوٹے، اب وہاں مادیت ہی کا نہیں بلکہ دھریت کا سیلاب رواں ہے، ان کی ابتدائی تعلیم وتربیت کے متعلق بہت کم معلومات ملتے ہیں؛ لیکن امام ذہبی رحمہ اللہ کے بیان سے اتنا پتہ چلتا ہے کہ وہ ابتائے عمر ہی سے طلب علم کے لیے سفر کی صعوبتیں برداشت کرنے لگتے تھے۔ اس وقت اسلامی مملکت کے کسی قصبہ اور کسی قربیہ میں بھی علماء وفضلاء کی کمی نہیں تھی، مرو جو خراسان کا ایک مشہور شہر تھا، اس کواچھی خاصی مرکزیت حاصل تھی، اس لیے وہاں اہلِ علم کی کیا کمی ہوسکتی تھی، غالباً ابتدائی تعلیم وتربیت وہیں ہوئی، اس کے بعد اس زمانے کے عام مذاق کے مطابق علم حدیث کی طرف توجہ کی، اس کے لیے انہوں نے شام وحجاز، یمن ومصر اور کوفہ وبصرہ کے مختلف شہروں اور قصبوں کا سفر کیا اور جہاں سے جوجواہر علم ملے انہیں اپنے دامن میں سمیٹ لیئے، امام احمد فرماتے ہیں: طلب علم کے لیے عبداللہ بن مبارک سے زیادہ سفر کرنے والا ان کے زمانے میں کوئی دوسرا موجود نہیں تھا؛ انہوں نے دور دراز شہروں کا سفر کیا تھا، مثلاً: یمن، مصر، شام، کوفہ، بصرہ وغیرہ، ابواُسامہ فرماتے ہیں کہ: مارأيت رجلا أطلب للعلم في الآفاق من ابن المبارك۔ترجمہ: میں نے عبداللہ بن مبارک سے زیادہ کسی کوملک درملک گھوم کرطلب علم کرنے والا نہیں دیکھا۔ یہ سفر آج کل کا نہیں تھا کہ چند لمحوں میں انسان نہ جانے کہاں سے کہاں پہنچ جاتا ہے؛ بلکہ اس زمانے کے سفر کا ذکر ہے، جب لوگ پیدل یااونٹ یاگدہوں کے ذریعہ مہینوں میں ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچتے تھے؛ پھرراستو کی دشواریاں توالامان، الحفیظ اور یہ کچھ عبداللہ بن مبارک ہی کی خصوصیت نہ تھی؛ بلکہ سب ہی اکابر ائمہ نے حصولِ علم میں دُور دُور کی خاک چھانی تھی۔ شیوخ کی تعداد موجودہ زمانہ کی طرح اس وقت علم وفن نہ اس طرح مدون تھا اور نہ ایک جگہ محفوظ، خصوصیت سے علومِ دینیہ میں علمِ حدیث کا ذخیرہ تقریباً تمام ممالکِ اسلامیہ میں بکھرا ہوا تھا، اس کی وجہ یہ تھی کہ حدیث کے سب سے پہلے حامل صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کی زندگی گوشہ گیری کی نہیں؛ بلکہ مجاہدانہ تھی، اس لیے وہ شوقِ جہاد اور دوسری دینی ضرورتوں کی بناء پرتمام امصاروقصبات میں پھیل گئے تھے، وہ جہاں پہنچتے تھے، وہاں کے باشندے ان سے اکتساب فیض کرتے تھے اور وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے قول وعمل اور آپ کی سیرت کو ان سے معلوم کرکے اپنے سینوں اور سفینوں میں محفوظ کرتے جاتے تھے، اب جن لوگوں کوصرف عملی زندگی کے لیے حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے ذخیرہ کے معلوم کرنے کی خواہش ہوتی تھی ان کوبہت زیادہ کدوکاوش کی ضرورت نہیں تھی، ان کے لیے ان کے دربار کے صحابہ کرام اور ان کے بعدوہاں کے علماء وفضلاء کی زندگی کا دیکھ لینا بھی کافی تھا؛ مگرجولوگ اس تمام بکھرے ہوئے جواہرریزوں اور شہ پاروں کویکجا مدون اور مرتب کردینا چاہتے تھے کہ ان زندہ ہستیوں کے اُٹھ جانے کے بعد کہیں یہ ذخیرہ ضائع نہ ہوجائے، ان کے لیے دور دور کی خاک چھاننی اور شہروں اور قصبوں کے لیئے زحمتِ سفر اُٹھانی ناگزیر تھی، عبداللہ بن مبارک ان ہی بزرگوں میں تھے، خود فرماتے ہیں: حملت من اربع الاف شیخ فردیت عن الف منہم۔ ترجمہ: میں نے چار ہزار شیوخ واساتذہ سے فائدہ اُٹھایا اور ان میں سے ایک ہزار سے روایت کی ہے۔ دوسری روایت میں ہے کہہ: کتبت عن الف۔ ترجمہ: میں نے ایک ہزار شیوخ کی روایتوں کولکھ لیا ہے۔ یعنی جن لوگوں سے تحصیل علم کیا ان کی تعداد توچار ہزار ہے؛ مگرہرشیخ اس قابل نہیں ہوتا کہ اس کے علم وروایت کومعیاری قرار دیا جائے اس لیے غایت احتیاط میں صرف ایک ہزار شیوخ کی روایت کولکھنا پسند کیا اور اسی کوانہوں نے دوسروں تک منتقل کیا۔ عباس کہتے ہیں کہ ان کے آٹھ سوشیوخ سے تومجھے ملاقات کا موقع ملاہے. ان کے بعض ممتاز اساتذہ کے نام لکھے جاتے ہیں. امام ابوحنیفہ، یہ امام صاحب کے خاص شاگردوں میں ہیں، ان کوامام صاحب سے بڑی محبت اور انسیت تھی، فرماتے کہ مجھ کوجوکچھ حاصل ہوا وہ امام ابوحنیفہ اور سفیان ثوری رحمہ اللہ کی وجہ سے حاصل ہوا، ان کے الفاظ یہ ہیں: لَوْلاَأَنَّ اللهَ أَعَانَنِي بِأَبِي حَنِيْفَةَ وَسُفْيَانَ، كُنْتُ كَسَائِرِ النَّاسِ۔ ترجمہ:اگراللہ تعالیٰ امام ابوحنیفہ اور سفیان ثوری کے ذریعہ میری دستگیری نہ کرتا توعام آدمیوں کی طرح ہوتا۔ مناقب کردری میں ابن مطیع کی روایت ہے کہ میں نے ان کوامام صاحب کے پاس کتاب الرائے کی قرأت کرتے ہوئے دیکھا، ان سے اچھی قرأت کرنے والا میں نے کسی کونہیں دیکھا۔ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کی شان میں ان کے بہت سے اشعار منقول ہیں، خطیب نے ان میں سے چند اشعار نقل کئے ہیں۔ (۲)ان کے دوسرے ممتاز شیخ امام مالک رحمہ اللہ ہیں، امام مالک سے انہوں نے مؤطاکا سماع کیا تھا، موطا کے متعدد نسخے ہیں، جن میں ایک کے راوی ابن مبارک بھی ہیں، امام مالک کے مشہور شاگرد یحییٰ بن یحییٰ اندلسی امام مالک کی مجلسِ درس میں ابن مبارک کی ایک آمد کا ذکر ان الفاظ میں کرتے ہیں۔ ابن مبارک ایک بار امام مالک کی خدمت میں گئے توامام مالک مجلسِ سے اُٹھ گئے اور ان کواپنے قریب بٹھایا، اس سے پہلے امام مالک کسی کے لیے مجلس درس سے نہیں اُ,ھے تھے، جب اُن کوبٹھالیا، تب درس کا سلسلہ جاری کیا، قاری پڑھتا جاتا تھا، جب امام مالک کسی اہم مقام پرپہنچتے توابن مبارک سے دریافت فرماتے کہ اس بارے میں ااپ لوگوں یعنی اہلِ خراسان کے پاس کوئی حدیث یااثر ہوتو پیش کیجئے، عباللہ بن مبارک غایتِ احترام میں بہت آہستہ آہستہ جواب دیتے، اس کے بعد وہ وہاں سے اُٹھے اور مجلس سے باہر چلے گئے (غالباً یہ بات بھی اُستاد کے احترام کے خلاف معلوم ہوئی کہ وہ ان کی موجودگی میں کوئی جواب دیں) امام مالک رحمہ اللہ ان کے اس پاسِ ادب ولحاظ سے بہت متاثر ہوئے اور تلامذہ سے مخاطب ہوکر فرمایا کہ یہ ابنِ مبارک خراسان کے فقیہ ہیں۔ یہ واقعہ غابلاً ان کے طالب علمی کے زمانہ کا نہیں ہے؛ بلکہ اس وقت کا ہے جب ان کی شخصیت مشہور ومعروف ہوچکی تھی اور وہ ایک فقیہ اور محدث کی حیثیت سے جانے جاچکے تھے، اس لیے امام مالک ان کا اعزاز اسی حیثیت سے کررہے تھے اور وہ ایک شاگردِ رشید کی طرح ان سے پیش آرہے تھے، ان ائمہ کے علاوہ ان کے چند معروف وممتاز شیوخ کے نام یہ ہیں، جن میں متعدد کبائر تابعین ہیں۔ وفات ان کی وفات جس طرح ہوئی اس میں ہرمؤمن کے لیئے سامانِ بصیرت ہے، ان کی زندگی زہد واتقا کا مرقع تھی؛ مگران کی سب سے نمایاں خصوصصیت جہاد فی سبیل اللہ تھی، اللہ تعالیٰ کی شان دیکھئے کہ ان کی وفات بھی اسی مبارک سفر میں ہوئی، شام کے علاقہ میں جہاد کے لیے گئے ہوئے تھے کہ اثنائے سفر میں طبیعت خراب ہوئی، ستو پینے کی خواہش کی، ایک شخص نے ستو پیش کیا مگریہ شخص ہارون رشید کا درباری تھا، اس لیے اس کا ستوپینے سے انکار کردیا، وفات سے کچھ دیر پہلے آواز پھنس گئی، اس گلوبندی کی وجہ سے ان کوگمان ہوا کہ زبان سے کلمۂ شہادت نکلنا نہ رہ جائے اس لیے انہوں نے اپنے ایک شاگرد حسن بن ربیع سے کہا کہ دیکھو جب میری زبان سے کلمہ شہادت نکلے توتم اتنی بلند آواز سے دہرانا کہ میں سن لوں، جب تم ایسا کروگے تویہ کلمہ خود بخود میری زبان پرجاری ہوجائے گا، چنانچہ اسی حالت میں وہ اپنے خالق سے جاملے۔ سنہ، عمر اور مقام وفات یہ حادثۂ عظمیٰ سنہ۱۸۱ء میں مقام ہیت (یہ مقام گوحدودِ کوفہ ہی میں داخل تھا؛ مگرصحرائے شام میں واقع ہے، اس وقت اس کی حیثیت ایک قصبہ کی تھی) میں پیش آیا، وفات کے وقت عمر ۶۳/سال تھی۔ مقبولیت وفات گووطن سے سینکڑوں میل دور ہوئی تھی، عام مقبولیت کا حال یہ تھا کہ جب لوگوں کووفات کی اطلاع ملی توجنازہ پراس قدر اژدہام ہوا کہ وہاں کے حاکم کو اس واقعہ کی اطلاع دارالخلافہ بغداد بھیجنی پڑی، زندگی میں وہ ہارون سے ملنا پسند نہیں کرتے تھے؛ مگرجب اس کواس حادثہ کی اطلاع ہوئی تواس نے اپنے وزیرفضل سے کہا کہ آج لوگوں کوعام اجازت دے دو کہ ان کی تعزیت لوگ ہمارے پاس آکر کریں (مقصد یہ تھا کہ ان کی وفات پوری مملکتِ اسلامی کے لیے ایک حادثہ ہے اور میں اس وقت اس کا ذمہ دار ہوں توان کی تعزیت کا میں بھی حقدار ہوں) مگرفضل نے اس کی طرف کوئی خاص توجہ نہیں کی توہارون نے ان کے کچھ اشعار پڑھے اور اس حادثہ کی اہمیت بتلائی، راوی کا بیان ہے کہ ان کی وفات کے بعد مجھے اس آیت کا مفہوم واضح ہوا: إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ سَيَجْعَلُ لَهُمُ الرَّحْمَنُ وُدًّا۔ ] ترجمہ:جولوگ ایمان لائے اور عملِ صالح کیا ان کی محبت اللہ تعالیٰ لوگوں کے دلوں میں پیدا کردے گا۔ اکابرکے ہاں مقام سفیان ابن عیینہ مشہور محدث ہیں، انہوں نے ابن مبارک کی کچھ یوں تعریف کی :میں نے ابن مبارک کے حالا ت پر غور کیا ،اور صحابہٴ کرام کے حالات پر غور کیا تو کیا دیکھتا ہوں کہ ابن مبارک میں آپ کی صحبت ومعیت کے علاوہ تمام فضائل موجو د ہیں، صحابہٴ کرام آپ کی صحبت کی برکت سے اعلیٰ وبلند ہیں۔ ابنِ مبارک کی طرز ِزندگی دیکھ کر سفیان ابنِ عیینہ کہتے تھے کہ میری زندگی کا کم از کم ایک سال ابنِ مبارک کی طرح گذر جائے؛ حالانکہ تین دن بھی ایسے نہیں گزرسکتے ۔ امام ابو حنیفہ کے شاگرد ابن مبارک، امام ابو حنیفہ کے مشہور شاگردوں میں سے تھے اور ابو حنیفہ کے ساتھ ان کا خاص خلوص تھا۔ ان کو اعتراف تھا کہ جو کچھ مجھ کو حاصل ہوا وہ امام ابو حنیفہ اور سفیان ثوری کے فیض سے حاصل ہوا ہے۔ ان کا مشہور قول ہے کہ "اگر اللہ نے ابو حنیفہ و سفیان ثوری کے ذریعہ سے میری دستگیری نہ کی ہوتی تو میں ایک عام آدمی سے بڑھ کر نہ ہوتا۔" لیکن اس کے باوجود بعض مسائل میں ابن مبارک اپنے استاد امام ابو حنیفہ سے بڑھے ہوئے تھے. احادیث سے مضبوط دلائل ہونے کی بنا پر لا جواب کر دیتے تھے جیسے ایک دفعہ رفع یدین کے مسئلہ پر یہ کہہ کر لاجواب کر دیا إن كنت انت تطير في الأولى فأني أطير فيما سواها إن کنت انت تطیر فی الاولیٰ فانی اطیر فیما سواھا امام وکیع نے امام ابن المبارک رحمہ اللہ کے اس جواب کی بڑی تحسین و تعریف کی. حوااہ جات: کتاب السنۃ لعبداللہ بن احمد بن حنبل ، ص : 59 ، تاویل مختلف الحدیث لابن قتیبی ، ص : 66 ، سنن بیہقی ، ج : 2 ، ص :82 ، ثقات ابن حبان ، ج : 4 ، ص : 17، تاریخ خطیب ، ج : 13 ، ص :406 تصنیفات: الزهدوالرقائق الجهاد البر والصلۃ

زکات کی اہمیت

دین اسلام میں زکوٰۃ ہر مالدار صاحبِ نصاب پر فرض ہے۔زکوٰۃ کی معاشرتی حیثیت ایک مکمل اور جامع نظام کی ہے۔ اگر ہر صاحبِ نصاب زکوٰۃدینا شروع کر دے تو مسلمان معاشی طور پر خوشحال ہو سکتے ہیں اور اس قابل ہو سکتے ہیں کہ کسی غیر سے قرض کی بھیک نہ مانگیں اورزکوٰۃ ادا کرنے کی وجہ سے بحیثیت مجموعی مسلمان سود کی لعنت سے بچ سکتے ہیں۔ زکوٰۃکی فضیلت: قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے تقریباً 32 مقامات پر نماز کے ساتھ زکوٰۃکو ذکر فرمایا ہے۔ جس سے اس کی اہمیت معلوم ہو سکتی ہے۔ اور نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی کئی بے شمار احادیث میں زکوٰۃکی فضیلت ، ترغیب اور افادیت کو اجاگر کیا گیا ہے۔ معلوم یہ ہوا کہ زکوٰۃکو دین میں بہت اہمیت دی گئی ہے۔اور زکوٰۃ ادا نہ کرنے والے کو سخت عذاب کی وعید بتلائی گئی ہے۔ ایک حدیث ملاحظہ ہو ! حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ آپ علیہ السلام کا ارشاد نقل فرماتے ہیں کہ جو شخص اپنے مال کی زکوٰۃ ادا نہیں کرتا قیامت کے دن اس کا مال گنجے سانپ کی شکل میں اس کی گردن میں ڈال دیا جائے گا۔ (راوی کہتے ہیں کہ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن پاک کی آیت کا مصداق ہمیں سمجھایا اور یہ آیت تلاوت کی جس کا ترجمہ یہ ہے)اور ہرگز خیال نہ کریں ایسے لوگ جو ایسی چیز میں بخل کرتے ہیں جو اللہ نے ان کو اپنے فضل سے دی ہے کہ یہ بات کچھ ان کے لیے اچھی ہوگی بلکہ یہ بات ان کی بہت بری ہے وہ لوگ قیامت کے روز طوق پہنادیے جائیں گے اس کا جس میں انہوں نے بخل کیا تھا۔

قصة عبدالله بن المبارك رحمه الله

كان عبد الله بن المبارك يحج سنة ويغزو سنة فلما كانت السنة التى يحج فيها خرج بخمسمائة دينار الى موقف الجمال ليشترى جملا فرأى امرأة على بعض الطريق نتنف ريش بطة فتقدم اليها وسألها ماذا تفعلين؟ فقالت: يرحمك الله انا امرأة علوية ولى اربع بنات مات ابوهن من قريب وهذا اليوم الرابع ما اكلن شيئا وقد حلت لنا الميتة فأخذت هذه البطة اصلحها واحملها الى بناتى فقال عبد الله فى نفسه :( ويحك يا ابن المبارك اين انت من هذه؟ ) فأعطاها عبد الله الدنانير التى كانت معه ورجع عبد الله الى بيته ولم يحج هذه السنة وقعد فى بيته حتى انتهى الناس من مناسك الحج وعادوا الى ديارهم فخرج عبد الله يتلقى جيرانه واصحابه فصار يقول الى كل واحد منهم : ( قبل الله حجتك وشكر سعيك ) فقالوا لعبد الله : ( وانت قبل الله حجتك وشكر سعيك انا قد اجتمعنا معك فى مكان كذا وكذا) (اى اثناء تأدية مناسك الحج) واكثر الناس القول فى ذلك فبات عبد الله مفكرا فى ذلك فرأى عبد الله النبى يقول : ( يا عبد الله لا تتعجب فأنك اغثت ملهوفا فسألت الله عز وجل ان يخلق على صورتك ملكا يحج عنك )

أبوبكرالمسكى

قيل لابى بكر المسكى : انا نشم منك رائحة المسك مع الدوام فما سببه؟ فقال: والله لى سنين عديدة لم استعمل المسك ولكن سبب ذلك ان امرأة احتالت على حتى ادخلتنى دارها واغلقت دونى الابواب وراودتنى عن نفسى(اى:ارادت فعل الفاحشة معى) فتحيرت فى امرى فضاقت بى الحيل فقلت لها: ان لى حاجة الى الطهارة فأمرت جارية لها ان تمضى بى الى بيت الراحة(الحمام) ففعلت فلما دخلت الحمام اخذت الغائط والقيته على جميع جسمى ثم رجعت اليها وانا على تلك الحالة فلما رأتنى دهشت ثم امرت بأخراجى فمضيت واغتسلت فلما كان تلك الليلة رأيت فى المنام قائلا يقول لى:فعلت ما لم يفعلهاحد غيرك لاطيبن ريحك فى الدنيا والاخرة فأصبحت والمسك يفوح منى واستمر ذلك الى الان

Saturday 24 September 2022

شیئرز کی خریدوفروخت

شیئرز کی خرید وفروخت یاا سٹاک ایکسچینج کا کاروبار بنیادی طور پر جائز ہے۔ سٹاک مارکیٹ میں تین طرح سے نفع ملتا ہے جس کی وضاحت درج ذیل ہے: پہلی صورت یہ ہے کہ آپ کسی کمپنی کے حصص خرید لیں اور سال کے اختتام پر ان حصص پر کمپنی نفع دے۔ یہ نفع دینا بہرحال کمپنی پر فرض نہیں ہے، بلکہ وہ اپنی پوزیشن اور پرفارمنس دیکھ کر وہ اپنے نفع میں حصہ داروں کو شامل کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ کرتی ہے۔ اس پہلی صورت میں نفع کی شرح بینکوں کے نفع کی طرح فکسڈ یا متعین نہیں ہوتی ہے۔ سو اس میں تو کوئی قباحت نہیں۔ دوسری شکل یہ ہے کہ آپ نے ایک شرح سے حصص خریدے اور کچھ وقت کے بعد انکا ریٹ بڑھ گیا اور آپ نے وہی حصص بیچ کر نفع کمالیا، تو اس میں بھی کوئی قباحت نہیں ہے۔ کیونکہ یہ بعینہ تجارت کی ہی شکل ہے۔ یہی دو صورتیں جائز ہیں۔ تیسری شکل جو آج کل عام اور تمام امراض کی جڑ ہے، وہ سٹے بازی ہے۔ اس میں اصل لین دین کی بجائے، زبانی کلامی سودے ہوتے ہیں، اور دن بھر ہوتے ہی رہتے ہیں۔ دن کے اختتام پر بیٹھ کر حساب کر لیا جاتا ہے کہ کس نے کتنا کھویا اور کتنا پایا ہے۔ یہی صورت چھوٹے سرمایہ داروں کے لیے نقصان دہ ہے۔ اس طرح کی سودے بازی میں سارا نقصان چھوٹے سرمایہ کاروں کا ہوتا ہے۔ لہٰذا سٹاک مارکیٹ میں کاروبار کرتے وقت انتہائی محتاط رہنے کی ضرورت ہے۔ اس کے ساتھ یہ بھی ضروری ہے صرف اسی بینک یا ادارہ کے حصص خریدے جائیں جو اسلامی اصولوں پر کاروبار کرتا ہو۔ اس صورت میں نفع و نقصان دونوں کا امکان رہتا ہے۔ اگر کوئی کمپنی شراب,بینک یاسودی کاروبار کرتا ہی، تو اس میں سرمایہ کاری اور اس پر متعین منافع حاصل کرنا، سود کھانے کے مترادف ہے۔ جو کہ کسی مسلمان کے لیے کسی صورت میں بھی جائز نہیں۔ لہذااسٹاک مارکیٹ, یاشیئربازار میں درج ذیل شرائط کے ساتھ پیسہ لگاسکتے ہیں : 1۔۔ جس کمپنی یا ادارہ کے حصص (شیئرز) کی خرید وفروخت کی جارہی ہو واقعۃً وہ کمپنی یا ادارہ موجود ہو، یعنی اس کے ماتحت کوئی جائیداد، کارخانہ، مل، فیکٹری یا کوئی اور چلتا کاروبار موجود ہو، اور اگر کمپنی یا ادارہ کے تحت مذکورہ اشیاء نہ ہوں یا کمپنی یا ادارہ سرے سے موجود ہی نہ ہو ، صرف اس کا نام ہو اور اس کے شیئرز بازار میں اس لیے چھوڑے گئے ہوں کہ اس پر پہلے سے زیادہ رقم حاصل کی جائے اور منافع حاصل کیے جائیں تو ایسی کمپنی کے شیئرز کی خریدوفروخت جائز نہیں، کیوں کہ ہر شیئر کے مقابل میں جمع شدہ روپے کی رسید ہے، کوئی جائیداد یا ایسا مال نہیں جس پر منافع لے کر فروخت کیا جاسکے۔ 2۔۔ کمپنی کا کل یا کم از کم غالب سرمایہ جائز اور حلال ہو۔ الف : یعنی جس موجود کمپنی اور جاری کاروبار یا کارخانہ کے حصص (شیئرز) خریدوفروخت کیے جارہے ہوں اس کا سرمایہ جائز اور حلال ہو، رشوت، چوری،غصب، خیانت،سود، جوئے اور سٹہ پر حاصل شدہ رقم نہ ہو ، لہذا سودی ادارے جیسے بینک یا انشورنس کمپنی وغیرہ کے شیئرز کی خرید وفرخت جائز نہیں ہے۔ ب : کمپنی کے شرکاء میں سودی کاروبار کرنے والے یا کسی اور ناجائز اور حرام کاروبار کرنے والے اداروں یا افراد کی رقم شامل نہ ہو۔ 3۔۔ کمپنی یا ادارہ کا کاروبار جائز اور حلال ہو ۔ الف : یعنی کمپنی یا ادارہ کے کاروبار کے طریقہ کے درست ہونے کے ساتھ ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ کمپنی یا ادارہ کا کاروبار بھی جائز ہو، مثلاً شرعی شراکت اور شرعی مضاربت کی بنیاد پر کاروبار ہو ، اگر کاروبار ناجائز ہو گا تو اس کمپنی کے شیئرز کی خرید وفروخت جائز نہیں ہوگی۔ ب : اور کمپنی کا کاوربار حلال اور جائز اشیاء کا ہو ، مثلاً شراب، جان دار کی تصاویر ، ٹی وی، وی سی آر اور ویڈیو فلم سینما وغیرہ کے کاروبار والی کمپنیوں کے شیئرز کی خرید وفرخت بھی ناجائز ہے۔ 4۔۔ شیئرز کی خرید وفرخت میں شرائط بیع کی پابندی کرنا۔ یعنی مذکورہ کمپنی یا ادارہ کے شیئرز کی خریدوفروخت بیع وتجارت کے شرعی اصولوں کے مطابق ہو مثلاً آدمی جن شئیرز کو خرید کر بیچنا چاہتا ہے اس پر شرعی طریقہ سے قابض ہو اور دوسروں کو تسلیم اور حوالہ کرنے پر بھی قادر ہو۔ واضح رہے کہ شیئرز میں قبضہ کا حکم ثابت ہونے کے لیے صرف زبانی وعدہ کافی نہیں ہے، نام رجسٹرڈ یا الاٹ ہونا ضروری ہے، اس سے پہلے صرف زبانی وعدہ یا غیر رجسٹرڈ شیئرز کی خرید وفروخت باقاعدہ فزیکلی طور پر ڈیلیوری ملنے سے پہلے ناجائز ہے، البتہ یہ درست ہے کہ شیئرز پہلے بائع کے نام رجسٹرڈ ہوں اور بائع اس کی قیمت بھی ادا کردے اور اس کے پاس ڈیلیوری آجائے ، اس کے بعد اس کی خریدوفروخت جائز ہوگی، یا شیئرز وصول کرلیے ہیں، لیکن ابھی تک قیمت ادا نہیں کی تو اس صورت میں بھی مذکورہ شیئرز کو فروخت کرکے نفع لینا جائز ہے، کیوں کہ مبیع پر قبضہ ثابت ہے۔ 5۔۔ منافع کی کل رقم کو تمام حصہ داروں کے درمیان شیئرز کے مطابق تقسیم کرنا۔ مثلاً کمپنی میں جو منافع ہوا ہے اسے تمام حصہ داروں میں ان کے شیئرز کے مطابق تقسیم کردیا جائے، لیکن اگر کوئی کمپنی مستقبل کے ممکنہ خطرہ سے نمٹنے کے لیے منافع میں سے مثلاً ٪20 فیصد اپنے لیے مخصوص کرتی ہے اور 80 فیصد منافع کو حصہ داروں میں تقسیم کرتی ہے تو اس کمپنی کے شیئرز کی خریدوفروخت ناجائز اور حرام ہے؛ کیوں کہ یہ کمپنی شرعی شراکت کے خلاف ناجا ئز کاروبار کرتی ہے۔ (ماخوذ از جواہر الفتاوی، م؛ مفتی عبد السلام چاٹگامی صاحب، 3/258، ط؛ اسلامی کتب خانہ)

Friday 23 September 2022

احمد مخيمر

أحمد مخيمر هو شاعر مصري ولد عام 1914 وتوفى عام 1978، وقد عاش 64 عاما، من أعماله «شعر القاهرة هو شاعر معاصر ولد بمحافظة الشرقية، وتخرج في دار العلوم وتدرج في المناصب حتى أصبح رئيسًا للجنة القراءة في الهيئة العامة للكتاب. أهم أعماله عدل ديوان «الغابة المنسية» ديوان «في ظلال القمر» ديوان «أسماء الله» كان شاعرا متميزا بين كوكبة الشعراء التي التمعت أسماؤها في ختام ثلاثينيات القرن الماضي، وكان عضوا بارزا في جماعة أبوللو الشعرية، والتي تعد واحدة من أكبر حركات التجديد في الشعر العربي الحديث، وكان من نجوم هذه الجماعة إبراهيم ناجي، علي محمود طه، محمود حسن إسماعيل، محمود أبو الوفا، أحمد فتحي طاهر، وغيرهم. ولكن كان من بين كل هؤلاء الشاعر أحمد مخيمر، أكثرهم ميلا ً من حيث الطبع والنزوع الفلسفي والفكر والتأمل، مما سيجعله يتجه إلى كتابه (لزوميات مخيمر) على نهج لزوميات أبي العلاء المعري. وطني وَصِبَايَ وَأَحْلامي ... وطَـني وهَوَايَ وأيَّـامي ورِضـا أُمِّي وحَنـانُ أبي... وخُطَى وَلَدِي عندَ اللَّعِبِ يخطُو برجاءٍ بَسَّامِ هَتَفَ التـاريخُ به فصَحَـا... ومَضَى وَثـْبـًا ومَشَى مَرَحا حمَلَتْ يَدُهُ شُعَلَ النَّصْرِ... وبَـدَا غَـدُهُ أمَـلَ الدَّهْـرِ يستقبِلُ موكِبَهُ فَرَحا... ويُحَيِّي مَجدَ الأَهـرامِ في فترة الخمسينيات غنى عبد الحليم حافظ من كلمات الشاعر أحمد مخيمر وألحان محمد الموجي أقبل الصباح وفي بداية السبعينيات اتصل عبد الحليم حافظ بالشاعر أحمد مخيمر وطلب منه قصيدة يغنيها فأعطاه من ديوانه الغابة المنسية المطبوع سنة 1965 قصيدة يامالكا قلبي ويوم 5 أبريل عام 1973 غنى عبد الحليم حافظ في حفلته قصيدة رسالة من تحت الماء كلمات نزار قباني وألحان محمد الموجي وغنى أيضا قصيدة يامالكا قلبي كلمات أحمد مخيمر وألحان لحن محمد الموجي كما غنى حاول تفتكرني كلمات محمد حمزة وألحان بليغ حمدي وقبل أن يغني عبد الحليم حافظ قصيدة يامالكا قلبي قدم محمد الموجي الذي سعد وسلم على عبد الحليم وبعده صعدت أنغام ابنة محمد الموجي التي تبلغ من العمر وقتها 16 سنة مع أختها غنوة التي تبلغ من العمر 12 سنة وقدمتا لعبد الحليم بوكيه ورد فقبلهما عبد الحليم فصاح الجمهور فقال عبد الحليم: دول ولاد الموجي والله ثم قدمهما للجمهور. نسبت قصيدة يامالكا قلبي بالخطأ للأمير السعودي عبد الله الفيصل فرفع الشاعر أحمد مخيمر دعوى وحكمت المحكمة لصالحه مع تعويض 41 جنيها وتم الاتفاق على نسب القصيدة لشاعرها أحمد مخيمر وحق الطبع الميكانيكى يعنى الشرائط الصوتية وتم تصحيح الأوضاع في عام 1976 وأكد اتحاد كتاب مصر ومجمع اللغة العربية أن قصيدة يامالكا قلبي للشاعر أحمد مخيمر وليست للأمير عبد الله الفيصل ويذكر أن الفنانة نجاح سلام غنت أيضا هذه القصيدة ولكن بمقاطع أخرى.. من أشعار الشاعر أحمد مخيمر نذكر قصيدته بنت المعز القاهرة: بنت المعز القاهرة... حتى الصباح ساهرة جميلة رقيقة... نبيلة مسامرة ممتلئ ترابها... بالنفحات العاطرة كأنما قد خلطوه... بالورود الناضرة شامخة لا تنحني... كبراً صبور قادرة كم هزمت ممالكً... وكم طوت جبابرة في كل شبر فوقها... ذكرى تطل سافرة تحكي لنا تاريخ مجد.. أو تقص نادرة مدينتي مهما قسا... قلب الزمان صابرة فيها من الأهرام حب... الكبرياء الآمرة فيها ذكاء شعبهاعلى... الليالي الماكرة قلت لها إنكِ يا... مدينتي لا لصايرة أخشى على هذا الجمال... فالليالي غادرة فلملمت رداءها كبراً... وقالت آمرة كم ظالم قد مر بي... وما أزال القاهرة أيضا الشاعر أحمد مخيمر ناجى رمضان بقوله: أنت في الدهر غرة وعلى الأرض سلام وفي السماء دعاء وتسبي ليلة القدر عندهم فرحة العمر تدانت على سناها السماء في انتظار لنورها كل ليل يتمنى الهدى ويدعو الرجاء وتعيش الأرواح في فلق الأشواق حتى يباح فيها اللقاء فإذا الكون فرحة تغمر الخلق إليه تبتل الأتقياء وإذا الأرض في سلام وأمن وإذا الفجر نشوة وصفاء وكأني أرى الملائكة الأبرار فيها وحولها الأنبياء نزلوا فوقها من الملأ الأعلى فأين الشقاء والأشقياء؟ في الثمانينيات كتب الشاعر طاهر أبو فاشا في جريدة الأهرام: أحمد مخيمر شاعر يذكرنا بأبي تمام في شعره ويذكرنا بأحمد شوقي في مسرحه والكلام كثير عن أحمد مخيمر من خلال شهادات وأقلام فاروق شوشة والعوضي الوكيل وبيومي مدكور وثروت أباظة إلا أن المؤسف هو أن كثيرا من تلاميذه الذين استفادوا من موهبته الطاغية وعلمه وفنه جحدوه في حياته الخاصة فلم يتذكره في كبره إلا قليل منهم وفي عام 1978 توفى الشاعر أحمد مخيمر فرحمة الله على روحه.

Friday 16 September 2022

Marginalised communities in India

The latest Oxfam India report came up with findings that may seem detrimental to India's economic goals and the idea of equal treatment. Findings from the report indicate that women, Muslims, Dalits, and tribals have been on the receiving end of several discriminatory practices in workplaces. Defining discrimination in the labour market as the situation when people with "identical capabilities are treated differently because of their identity or social backgrounds", CEO of Oxfam India, Amitabh Behar, says that the study collected data between the years 2004 to 2020. Government data on jobs, wages, health and agricultural credit among various social groups was accessed and used to identify the patterns of discrimination. While women in the country have faced the challenges of breaking the glass ceilings for age-long, similar barricades extend further to historically oppressed communities who have been trying to step up in the mainstream. They continue to face discrimination in accessing jobs or securing their livelihoods, said the India Discrimination Report 2022. Continued Struggle Of Women Reflects On Labour Participation Rates The inequality faced by these communities was not attributed to poor access to education qualifications or work experience, instead noted discrimination as the underlying cause. Discriminatory practices in the country caused 100 per cent of employment inequality faced by women in rural areas and 98 per cent in urban areas labour markets, as per the report. The study emphasises that women in the country with high educational qualifications and work experience were still subjected to discrimination when compared to a man on the same levels. A report by the New Indian Express quoted that most of these cases were traced back to prejudices that are deep-rooted within society and employers. In terms of income, women earned lesser wages due to 67 per cent discrimination and 33 per cent due to lack of education or experience. Behar added on to this and noted that a man and woman who start on equal footing in the economic sphere would be treated differently, and the women were found to lag behind in "regular/salaried, casual and self-employment." These factors directly influenced the low Women's Labour Force Participation Rate (LFPR) in India. Supporting this finding further was the Union Ministry of Statistics and Programme Implementation (MoSPI), which said that women LFPR in India was barely 25 per cent in 2020-21 for urban and rural women. This was a drastic drop from 42.7 per cent in 2004-05. Historically Oppressed Communities In The Modern Economy Supporting the discrimination faced by women and the specific social communities, the report elaborated that a man would earn ₹4,000 more than a woman, a non-Muslim earned ₹7,000 more than Muslims, and those at the bottom of the caste system and tribespeople made ₹5,000 less compared to the others in the industry. Caste played a major barrier when it came to accessing agricultural credit, despite many agricultural labourers coming from the scheduled caste (SC) or tribal (ST) communities. STs and SCs have reportedly received less than a quarter of the credit shares that Forward Castes (FCs) receive. In the case of self-employed SC/ST workers, the non-SC/ST earned three times more. The mean income for these marginalised communities in urban areas accounted for about ₹15,312, compared to ₹20,346 that people from the general category earned. This indicated that individuals from the general category earned about 33 per cent more than SCs or STs. Muslims continue to face several prejudices and multidimensional challenges, whether it is a salaried job or a self-employment opportunity. A news report from the The News Minute showed that discrimination against the community had intensified in the past 16 years. In rural regions, this contributed to a sharp increase in unemployment by 17 per cent among Muslims during the first quarter of the Covid-19 pandemic, making their unemployment rate stagnate at 31.4 per cent. Within the urban crowds, 15.6 per cent of the Muslim population aged 15 and above were engaged in regular salaried jobs in 2019-20, compared to the 23.3 per cent of non-Muslims who were able to secure regular salaried jobs. Multiple Independent Studies Point In The Same Direction Earlier several independent studies were conducted by different organisations to understand the employability of several communities post-pandemic. A study by Led By Foundation gained attention in recent times for their findings that there is huge discrimination and discrepancy between Hindu and Muslim women receiving job callbacks. The foundation was developed at the renowned Harvard University to study the representation of Muslim women in the workforce. Titled "Hiring Bias: Employment for Muslim women at entry-level roles", the study was conducted over a span of 9 months from 2021 to 2022. About 2,000 job applications were sent across to 1,000 job postings on prominent job search sites with two dummy profiles, one of a Hindu woman and the other of a Muslim woman. With the exception of their religion indicated through their names, the resumes were kept the same to understand the employer's bias. It deduced that the net discrimination rate faced by Indian Muslim women in the job market, compared to Hindu women, is 47.1 per cent. For every two callbacks that a Hindu woman received, a Muslim woman received only one. It also shed light on the region-wise discrepancy and found discrimination rates to be 39.5 per cent in North India and about 60 per cent in South India. The report by Oxfam solidifies these independent studies through the analysis of available government data. They also said that there is a need for enforcement of effective measures by the government for the "protection and right to equal wages and work for all". Some of the recommendations they put forth are to incentivise participation of women and other socially excluded communities in the workforce through enhancements in pay, upskilling, job reservations and easy return-to-work options after maternity for women.

الصحابى عبدالله بن حذافه السهمى رضى الله عنه

عبدُ الله بنُ حُذَافَةَ السَّهْميُّ، المكنى بِـ «أبي حُذافة». هو أحد صحابة النبي محمد صل الله عليه وسلم الذين بعثوا إلى ملوك الأعاجم برسائل تدعوهم إلى الإسلام. وكانت رسالة عبد الله إلى كسرى ملك الفرس وذلك في السنة السادسة للهجرة. وفي السنة التاسعة للهجرة خرج مع جيش المسلمين لمحاربة الروم في بلاد الشام وقد أسر عندهم. كان عبد الله قد هاجر إلى الحبشة بعد أن اشتد إيذاء المشركين في مكة للمسلمين. وشهد مع النبي محمد غزوة أحد وما بعدها من الغزوات، وشهد كذلك فتح مصر، وقد توفي فيها عام 33هـ. اشتهر عبد الله بين الصحابة بدعابته اللطيفة. عبد الله بن حذافة السهمي :معلومات شخصية هو عبد الله بن حذافة بن قيس بن عدي بن سعد السهمي القرشي الكناني وأمه تميمة بنت حرثان من بني الحارث بن عبد مناة. :سيرته رسالته إلى كسرى : رسائل رسول الله صل الله عليه وسلم في السنة السادسة للهجرة بعد عقد صلح الحديبية مع قريش عزم رسول الله محمد ﷺ أن يدعو ملوك وأمراء ذاك الزمان إلى دين الإسلام؛ فوقف وخطب بصحابته واختار منهم من يحمل رسائله، وكان اختيار النبي لسفرائه قائمًا على مواصفات معينة، اذ كانوا يتحلون بالعلم والفصاحة، والصبر والشجاعة، والحكمة وحسن التصرف، وحسن المظهر. وكان عبد الله بن حذافة ممن اختارهم النبي ليحمل رسالته إلى بلاد فارس حيث كان له دراية بهم ولغتهم، وكان أبي حذافة مضرب الأمثال في الشجاعة وثباته عند الشدائد. وجاء بالرسالة ما يلي: عبد الله بن حذافة السهمي "بسم الله الرحمن الرحيم، من محمد رسول الله إلى كسرى عظيم فارس، سلام على من اتبع الهدى، وآمن بالله ورسوله، وشهد أن لا إله إلا الله وحده لا شريك له، وأن محمدا عبده ورسوله، وأدعوك بدعاية الله، فإني أنا رسول الله إلى الناس كافة، لينذر من كان حيا ويحق القول على الكافرين فأسلم تسلم، فإن أبيت فإن إثم المجوس عليك." عبد الله بن حذافة السهمي فانطلق أبو حذافة راكبًا حصانه متجهًا إلى فارس وعند وصوله بعد حوالي شهر أخذ يسأل ويبحث عن القصر حتى وجده، وكان قصر كبير محاط بالجنود والأسوار، فاقترب من الحراس وأخبرهم أنه يحمل رسالة إلى الملك، فوصل الخبر إلى كسرى وأمر بتزيين الإيوان (مجلس لكبار القوم) ودعا عظماء الفرس ليكونوا في المجلس، وعند انتهائهم من تجهيزات الإستقبال سمحوا لأبي حذافة بالدخول. دخل أبو حذافة قاعة المجلس مرفوع الرأس واثقًا في خطاه فنظر إليه كسرى نظرة احتقار فرآه مرتديًا عباءة قديمة ويظهر عليه بساطة أعراب البادية، فأشار إلى أحد جنوده أن يحمل الرسالة، إلا أن أبي حذافة أبى ذلك وأصر أن يسلمها للملك بيده، وعند تسليمها أمر كسرى أحد الكتبة الذين يجيدون العربية أن يقرأها له، وما إن سمع كسرى أن محمد قد بدأ بنفسه قبل إسمه غضب وأخذ يمزق الرسالة دون أن يعلم ما مضمونها، وأمر أبو حذافة بالخروج؛ فخرج وعاد إلى يثرب، وعندما عاد كسرى إلى رشده أمر جنوده بجلب أبي حذافة عنده فلم يجدوه، وعند وصول أبو حذافة عند النبي أخبره ما حدث معه من تمزيق كسرى للرسالة فقال النبي: «مزّق الله مُلكه». كتب كسرى إلى نائبه في اليمن باذان رسالةً أن يبعث رجلين قويين إلى محمد وأن يحضراه إليه. فبعث باذان إلى النبي محمد رسالةً مع رجلين قويين يأمره بها أن يذهب معهما فورًا للقاء الملك كسرى، فعند وصول الرجلين عند النبي قال لهما «ارجعا إلى رحالكما اليوم وائتياني في الغد». وفي اليوم التالي جاء الرجلان عند النبي فقال لهما النبي أن كسرى قد مات على يد إبنه شيرويه فعادا الرجلين إلى باذان وأخبراه بما حصل. وبعد بضعة أيام وصلت رسالة إلى باذان أن شيرويه قد تولى الحكم فأعلن باذان إسلامه. أسره عند الروم في السنة التاسعة عشر للهجرة بعث الخليفة عمر بن الخطاب جيشًا لمحاربة الروم لفتح بلاد الشام، وأثناء الحرب وقع أسرى من المسلمين في يد الروم وكان من بينهم عبد الله بن حذافة. كان لدى قيصر ملك الروم علمٌ بما يتحلى به المسلمون من استرخاص النفس في سبيل الله، فأمر جنوده بجلب الأسرى عنده؛ إذ أراد أن يختبرهم، وكان من ضمنهم أبو حذافة، فنظر إليه طويلاً ثم عرض عليه أمرين إما الموت وإما أن يتنصر ويُخلى عن سبيله، فاختار أبو حذافة الموت على أن يغير دينه فغضب الملك وأمر جنوده بصلب عبد الله ورميه بالرماح لإخافته وليرجع عن دينه، إلا أن أبي حذافة بثباته وإصراره أمر جنوده يتركوه، وأمرهم بجلب قدر عظيم صُبَّ فيه الزيت ورُفع على النار حتى غلي، ثم دعا بأسيرين من أسرى المسلمين وأمر بأحدهما أن يُلقى فيها فأُلقي، فإذا لحمه يتفتت وعظامه تطفو على السطح، ثم التفت قيصر إلى أبي حذافة وعرض عليه النصرانية مرة أخرة إلا أنه رفض فأمر قيصر جنوده أن يُلقوه في القدر. وقف عبد الله ينظر إلى القدر وعيناه تدمعان، وعندما رآه قيصر على هذه الحال صرخ بجنوده أن يأتوه به لعله يكون قد جزع وخاف من الموت. إلا أن أبو حذافة قال: «واللهِ ما أبكاني إلا أني كنت أشتهي أن يكون لي بعدد ما في جسدي من شعرٍ أنفُسٌ فتُلقى كلُّها في هذه القدر في سبيل الله». فعجب قيصر من شجاعته وقال: «أتقبِّل رأسي وأُخلِّي سبيلك؟» فرد عليه: «عنّي وعن جميع الأسرى؟» فوافق ثم دنا أبو حذافة منه وقبَّل رأسه، فأمر قيصر بإخلاء سبيل جميع أسرى المسلمين. وعندما عاد أبو حذافة مع الأسرى إلى المدينة المنورة سُرَّ الخليفة عمر بن الخطاب بلقائهم وعند علمه بالقصة قال: «حقٌ على كل مُسلم أن يُقبِّل رأس عبد الله بن حذافة، وأنا أبدأ». وفاته توفي أبي حذافة في مصر عام 33هـ أثناء خلافة عثمان بن عفان.

المرأۃکالقاضی

المرأۃ کالقاضی‘‘ کی اصطلاح ’’المرأۃ کالقاضی‘‘ والی عبارت کتبِ فقہ میں کثرت سے ملتی ہے۔ اور یہ باب طلاق سے متعلق ہی استعمال ہوا کرتی ہے اور اس عبارت میں عورت کو جو قاضی کے حکم میں قرار دیا گیا ہے، اس کا مطلب جب تک واضح نہ ہوگا مسئلہ کی نوعیت سامنے نہیں آسکتی ہے۔ اور یہ عبارت دو حیثیت سے استعمال ہوتی ہے اور دونوں حیثیتوں میں واضح فرق یوں ہوا کرے گا کہ پہلی میں قاضی کا فیصلہ شوہر کے خلاف عورت کے موافق ہوگا۔ اور دوسری میں شوہر کے موافق عورت کے خلاف فیصلہ ہوگا، اب دونوں حیثیتوں کو ملاحظہ فرمائیے: حیثیت ۱؎: عورت کو قاضی کی طرح ظاہر کا اعتبار کرکے اپنے نفس کے متعلق حلت وحرمت کا از خود فیصلہ کرنے کا اختیار دیا گیا ہے، مثلاً جب شوہر نے یہ کہہ دیا: تجھے طلاق، طلاق، طلاق اور از خود طلاق کا اقرار بھی کرتا ہے، مگر کہتا ہے کہ میں نے تکرار وتاکید کا ارادہ کیا تھا، تین طلاق کا ارادہ نہیں کیا ہے ۔ اور عورت نے خود بھی تین طلاق شوہر کی زبان سے سن رکھی ہیں، یا عادل شخص کی شہادت سے اس کو یقین حاصل ہوچکا ہے، اب اگر یہ معاملہ قاضی کی عدالت میں پہنچ جاتا ہے، تو مسئلہ آسان ہے، قاضی شوہر کی نیت کا اعتبار نہیںکرے گا؛ بلکہ ظاہری الفاظ کا اعتبار کرکے تین طلاق کا فیصلہ دے کر رجعت سے منع کردے گا۔ اور بیوی بالکلیہ آزاد ہوجائے گی؛ لیکن وہاں قاضی نہ ہونے کی وجہ سے یا کسی اور عذر شدید کی وجہ سے معاملہ قاضی کی عدالت تک نہیں پہنچ سکتا؟ اور مفتی نے دیانت کا اعتبار کرکے ایک طلاق کا فتویٰ دے کر رجعت کو جائز قرار دیا ہے اور شوہر مفتی کے فتوی کی بنا پر رجعت کرکے بیوی کو اپنے پاس رکھنا چاہتا ہے، تو ایسی صورت میں جس طرح ظاہر پر فیصلہ کرنا قاضی پر لازم ہوتا ہے، اسی طرح عورت کو بھی قاضی کی طرح ظاہر کا اعتبار کرکے اپنے نفس کے متعلق فیصلہ کا حکم دیا گیا ہے؛ اس لئے اب عورت کے لئے اپنے اوپر شوہر کو قدرت دینا جائز نہیں؛ بلکہ خلع کرکے آزادی حاصل کرنا یا مال دے کر طلاق حاصل کرنا ضروری ہے۔ اور اگر شوہر ان میں سے کسی پر بھی راضی نہیں ہے، تو علاقہ چھوڑ کر کسی دوسری جگہ جاکر عدت گذار کر دوسرے مرد سے نکاح کرکے با عصمت زندگی گذار سکتی ہے، اس طرح عورت کو ظاہر کا اعتبار کرکے اپنا فیصلہ خود کرنے کو حضرات فقہاء ’’المرأۃ کالقاضی‘‘ کے لفظ سے تعبیر کرتے ہیں اور مسئلہ کے اس پہلو کو حضرات فقہاء ان الفاظ سے ذکر کرتے ہیں: وإذا قال: أنت طالق، طالق، طالق، وقال: إنما أردت بہ التکرار صدق دیانۃ لا قضاء، فإن القاضي مامور لاتباع الظاہر، واللہ یتولی السرائر، والمرأۃ کالقاضي لا یحل لہا أن تمکنہ إذا سمعت منہ ذلک أو علمت بہ؛ لأنہا لا تعلم إلا الظاہر۔ (تبیین الحقائق، کتاب الطلاق، باب الکنایات، کوئٹہ ۲/ ۲۱۸، جدید زکریا ۳/ ۸۲، ہندیۃ قدیم ۱/ ۳۵۴، جدید زکریا ۱/ ۴۲۲) جب شوہر بیوی کے متعلق کہے کہ تجھے طلاق، طلاق، طلاق اور کہتا ہے کہ میں نے اس سے تکرار وتاکید کا ارادہ کیا تھا، تو دیانۃً مان لیا جائے گا اور قضاء ً تسلیم نہیں کیا جائے گا؛ اس لئے کہ قاضی ظاہر کے اعتبار کرنے کا پابند ہے اور دلوں کی باتوں کا ذمہ دار اللہ تعالیٰ ہے اور عورت کو قاضی کی طرح قرار دیا گیا ہے؛ اس لئے یہ جائز نہیں ہے کہ شوہر کو اپنے اوپر قدرت دے دے، جب کہ اس نے خود شوہر کے یہ الفاظ سن لئے ہیں، یا اس کو یقین سے معلوم ہوگیا ہے؛ اس لئے کہ وہ صرف ظاہر کی بات جان سکتی ہے۔ اور مذکورہ عبارت میں یہ لحاظ رہنا چاہئے کہ شوہر تین بار لفظ طلاق استعمال کرنے کا والمرأۃ کالقاضي إذا سمعتہ أو أخبرہا عدل لا یحل لہا تمکینہ، والفتوی علی أنہ لیس لہا قتلہ ولا تقتل نفسہا بل تفدی نفسہا بمال أو تہرب، (وقولہ) إنہا ترفع الأمر للقاضي فإن حلف ولا بینۃ لہا فلا إثم علیہ۔ شامي، کتاب الطلاق، باب الصریح، مطلب: في قول البحر، کراچی ۳/ ۲۵۱، زکریا ۴/ ۴۶۳، کراچی ۳/ ۳۰۵، زکریا ۴/ ۵۳۸، البحرالرائق، کوئٹہ ۳/ ۲۵۷، جدید زکریا ۳/ ۴۴۸) اور عورت قاضی کے حکم میں ہے، جب کہ اس نے سن رکھا ہے یا اس کو کسی عادل شخص نے بتایا ہے، اس کے لئے شوہر کو اپنے اوپر قدرت دینا جائز نہیں ہے۔ اور فتویٰ اس پر ہے کہ عورت کا شوہر کو قتل کر دینا یا خودکشی کر لینا جائز نہیں ہے؛ بلکہ مال کے بدلے اپنے نفس کو شوہر سے آزاد کرلے یا بھاگ جائے اور بے شک عورت اپنا معاملہ قاضی کی عدالت میں پیش کردے، تو اگر شوہر جھوٹی قسم کھا لیتا ہے اور عورت کے پاس گواہ نہیں ہے، تو گناہ شوہر پر ہوگا۔ وفي البحر: یحل لہا أن تتزوج بزوج آخر فیما بینہ وبین اللہ تعالیٰ۔ (البحرالرائق، کتاب الطلاق، باب الرجعۃ، کوئٹہ ۴/ ۵۷، زکریا ۴/ ۹۶) اور ’’البحرالرائق‘‘ میں ہے کہ: عورت کے لئے دوسرے مرد سے نکاح کرلینا دیانۃً جائز ہے۔ نیز اسی طرح اگر بیوی حنفی المسلک ہے اور شوہر شافعی المسلک ہے اور شوہر نے طلاق کنائی دے دی ہے، تو اگر شافعی المسلک قاضی نے رجوع کا فیصلہ دے دیا ہے، تو ظاہراً اور باطناً دونوں اعتبار سے لازم ہوجائے گا۔ (ف المرأۃ کالقاضی‘‘ کی اصطلاح ’’المرأۃ کالقاضی‘‘ والی عبارت کتبِ فقہ میں کثرت سے ملتی ہے۔ اور یہ باب طلاق سے متعلق ہی استعمال ہوا کرتی ہے اور اس عبارت میں عورت کو جو قاضی کے حکم میں قرار دیا گیا ہے، اس کا مطلب جب تک واضح نہ ہوگا مسئلہ کی نوعیت سامنے نہیں آسکتی ہے۔ اور یہ عبارت دو حیثیت سے استعمال ہوتی ہے اور دونوں حیثیتوں میں واضح فرق یوں ہوا کرے گا کہ پہلی میں قاضی کا فیصلہ شوہر کے خلاف عورت کے موافق ہوگا۔ اور دوسری میں شوہر کے موافق عورت کے خلاف فیصلہ ہوگا، اب دونوں حیثیتوں کو ملاحظہ فرمائیے: حیثیت ۱؎: عورت کو قاضی کی طرح ظاہر کا اعتبار کرکے اپنے نفس کے متعلق حلت وحرمت کا از خود فیصلہ کرنے کا اختیار دیا گیا ہے، مثلاً جب شوہر نے یہ کہہ دیا: تجھے طلاق، طلاق، طلاق اور از خود طلاق کا اقرار بھی کرتا ہے، مگر کہتا ہے کہ میں نے تکرار وتاکید کا ارادہ کیا تھا، تین طلاق کا ارادہ نہیں کیا ہے ۔ اور عورت نے خود بھی تین طلاق شوہر کی زبان سے سن رکھی ہیں، یا عادل شخص کی شہادت سے اس کو یقین حاصل ہوچکا ہے، اب اگر یہ معاملہ قاضی کی عدالت میں پہنچ جاتا ہے، تو مسئلہ آسان ہے، قاضی شوہر کی نیت کا اعتبار نہیںکرے گا؛ بلکہ ظاہری الفاظ کا اعتبار کرکے تین طلاق کا فیصلہ دے کر رجعت سے منع کردے گا۔ اور بیوی بالکلیہ آزاد ہوجائے گی؛ لیکن وہاں قاضی نہ ہونے کی وجہ سے یا کسی اور عذر شدید کی وجہ سے معاملہ قاضی کی عدالت تک نہیں پہنچ سکتا؟ اور مفتی نے دیانت کا اعتبار کرکے ایک طلاق کاحکم دیدیاتوعورت اب قاضی کی طرح اپنی زندگی کافیصلہ کرنے میں قاضی کی طرح. ہے.

Thursday 15 September 2022

صلوۃ الحاجۃ

صلاۃ الحاجۃ بھی عام نفل نمازوں کی طرح ایک نما ز ہے ، جو اس نیت سے پڑھی جاتی ہے کہ اپنی کسی غرض کے لیے اللہ تعالی سے اس کے بعد دعا کی جائے۔ حدیث میں ہے کہ جس شخص کو اللہ تعالیٰ سے کوئی خاص حاجت یا اس کے کسی بندے سے کوئی خاص کام پیش آجائے تو اس کو چاہیے کہ وضو کرے خوب اچھی طرح، پھر دو رکعت (اپنی حاجت کی نیت سے) نمازِ حاجت پڑھے، اس کے بعد اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا کرے اور رسول اللہﷺ پرصلاۃ وسلام بھیجے (یعنی درود شریف پڑھے) اس کے بعد یہ دعا کرے: '' لَا اِلٰـهَ اِلَّا اللّٰهُ الْحَلِیْمُ الْکَرِیْمُ، سُبْحَانَ اللّٰهِ رَبِّ الْعَرْشِ الْعَظِیْمِ، اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ، اَسْئَلُکَ مُوْجِبَاتِ رَحْمَتِکَ، وَعَزَائِمَ مَغْفِرَتِکَ، وَالْعِصْمَةَ مِنْ کُلِّ ذَنْبٍ، وَالْغَنِیْمَةَ مِنْ کُلِّ بِرٍّ، وَّالسَّلَامَةَ مِنْ کُلِّ إِثْمٍ، لَا تَدَعْ لِیْ ذَنْبًا إِلَّا غَفَرْتَه وَلَا هَمًّا إِلَّا فَرَّجْتَه وَلَا حَاجَةً هِيَ لَکَ رِضًا إِلَّا قَضَیْتَهَا یَا أَرْحَمَ الرّٰحِمِیْنَ صلاۃ حاجت سے متعلق کوئی متعین روایت ثابت نہیں ہے بلکہ موضوع اور ضعیف روایات میں اس کی فضیلت بیان ہوئی لہذا اس کا کوئی خاص طریقہ مشروع نہیں ہے۔ البتہ اگر کسی کو کوئی حاجت پیش آئے تو دو رکعت نفل نماز پڑھ کر دعا مانگنا جائز ہے اور اس نفل نماز کا کوئی خاص طریقہ مشروع نہیں ہے۔ ارشاد باری تعالی ہے: يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اسْتَعِينُوا بِالصَّبْرِ‌ وَالصَّلَاةِ ۚ إِنَّ اللَّـهَ مَعَ الصَّابِرِ‌ينَ ﴿١٥٣﴾ اے ایمان والو صبر اور نماز سے مدد لیا کرو بےشک خدا صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔ صلاۃ حاجت کے مروجہ طریقوں کا رد کرتے ہوئے شیخ صالح المنجد لکھتے ہیں: سوال : كيا نماز حاجت مشروع ہے اور اس كا تجربہ فائدہ مند ہو گا ؟ - 70295 نماز حاجت بارہ ركعت پڑھى جاتى ہے اور ہر دو ركعت كے درميان تشھد اور آخرى تشھد ميں ہم اللہ كى حمد و ثنا بيان كرتے اور نبى صلى اللہ عليہ وسلم پر درود پڑھ كر پھر سجدہ كرے ہيں سات بار سورۃ الفاتحہ اور سات بار آيۃ الكرسى اور دس بار " لا إله إلا الله وحده لا شريك له له الملك وله الحمد وهو على كل شيء قدير " پڑھتے پھر يہ كہتے ہيں: " اللهم إني أسألك بمعاقد العز من عرشك ومنتهى الرحمة من كتابك واسمك الأعظم وجدك الأعلى وكلماتك التامة " پھر ہم اپنى ضرورت طلب كرتے اور سر سے اپنا سر اٹھا كر دائيں بائيں سلام پھير ديتے ہيں. ميرا سوال يہ ہے كہ: مجھے يہ بتايا گيا ہے كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے سجدہ ميں قرآن مجيد پڑھنے سے منع كيا ہے، ميں نے دوران تعليم اس نماز حاجت كا تجربہ بھى كيا تھا تو اللہ تعالى نے ميرى دعا قبول فرمائى اب مجھے پھر ايك ضرورت پيش آئى ہے جو ميں اللہ سے طلب كرنى چاہتى ہوں اس كے ليے نماز حاجت ادا كروں يا نہ كروں آپ مجھے كيا نصيحت فرماتے ہيں ؟ الحمد للہ: نماز حاجت كا ذكر چار احاديث ميں ملتا ہے، جن ميں سے دو احاديث تو موضوع اور من گھڑت ہيں، اور ان دو حديثوں ميں سے ايك ميں بارہ اور دوسرى حديث ميں دو ركعت كا ذكر ملتا ہے، اور تيسرى حديث بھى بہت زيادہ ضعيف ہے، اور چوتھى حديث بھى ضعيف ہے اور ان دونوں حديثوں ميں دو ركعت كا ذكر ہوا ہے. پہلى حديث: وہ ہے جس كا سوال ميں ذكر كيا گيا ہے اور يہ حديث عبد اللہ بن مسعود رضى اللہ تعالى عنہما سے روايت كى جاتى ہے كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے: " تم بارہ ركعتيں دن ميں يا رات ميں كسى وقت ادا كروا ور ہر دو ركعت ميں تشھد پڑھو جب تم اپنى نماز كى آخرى تشھد پڑھو تو اس ميں اللہ كى حمد و ثنا بيان كرو اور نبى صلى اللہ عليہ وسلم پر درود پڑھو، اور سجدہ ميں سات بار سورۃ الفاتحہ پڑھو اور دس بار " لا إله إلا الله وحده لا شريك له ، له الملك وله الحمد وهو على كل شيء قدير " پھر يہ كلمات كہو: " اللهم إني أسألك بمعاقد العز من عرشك ومنتهى الرحمة من كتابك واسمك الأعظم وجدك الأعلى وكلماتك التامة " اور اس كے بعد اپنى حاجت طلب كروا ور سجدہ سے سر اٹھا كر دائيں بائيں سلام پھير دو، اور يہ بےوقوفوں كو مت سكھاؤ كيوكہ وہ اس سے مانگيں گے تو ان كى دعا قبول كر لى جائيگى " اسے ابن جوزى نے الموضوعات ( 2 / 63 ) ميں عامر بن خداش عن عمرو بن ھارون البلخى كے طريق سے روايت كيا ہے. اور ابن جوزى رحمہ اللہ نے عمرو البلخى كى ابن معين سے تكذيب نقل كى ہے، اور كہا ہے: سجدہ ميں قرآن كى ممانعت صحيح ثابت ہے . ديكھيں: الموضوعات ( 2 / 63 ) اور ترتيب الموضوعات للذھبى ( 167 ). اور اس دعاء " معاقد العز من عرش اللہ " سے مقصود ميں علماء كرام كے ہاں اختلاف پايا جاتا ہے جو شرع ميں وارد نہيں بلكہ بعض اہل علم جن ميں امام ابو حنيفہ رحمہ اللہ شامل ہيں نے يہ دعا كرنے سے منع كيا ہے؛ كيونكہ يہ بدعتى وسيلہ ميں سے ہے، اور كچھ دوسرے علماء نے اسے جائز قرار ديا ہے ان كا اعتقاد ہے كہ اللہ كى صفات ميں سے كسى بھى صفت كا وسيلہ جائز ہے اس ليے نہيں كہ ان كے ہاں مخلوق كا وسيلہ جائز ہے. شيخ البانى رحمہ اللہ كہتے ہيں: " ميں كہتا ہوں: ليكن جس اثر اور روايت كى طرف اشارہ كيا گيا ہے وہ باطل ہے صحيح نہيں، اسے ابن جوزى نے " الموضوعات " ميں روايت كيا ہے اور كہا ہے: يہ حديث بلاشك و شبہ موضوع ہے، اور حافظ زيلعى رحمہ اللہ نے نصب الرايۃ ( 273 ) ميں ان كے اس فيصلے كو برقرار ركھا ہے. اس ليے اس سے حجت پكڑنا صحيح نہيں، اگرچہ قائل كا قول ہى ہو " أسألك بمعاقد العز من عرشك " جو اللہ كى صفات ميں سے ايك صفت كے ساتھ وسيلہ ہے، اور دوسرے دلائل كے ساتھ يہ توسل مشروع ہے جو اس موضوع احاديث سے غنى كر ديتى ہيں. ابن اثير رحمہ اللہ كہتے ہيں: " أسألك بمعاقد العز من عرشك " يعنى ان خصلتوں كے ساتھ جن كا عرش عزت مستحق ہے، يا ان كے منعقد ہونے كى جگہوں كے ساتھ، اور اس كے معنى كى حقيقت يہ ہے كہ: تيرے عرش كى عزت كے ساتھ، ليكن ابو حنيفہ رحمہ اللہ كے اصحاب اس لفظ كے ساتھ دعا كرنا مكروہ سمجھتے ہيں. اس شرح كى پہلى وجہ پر وہ خصلتيں ہوئيں جن كا عرش عزت مستحق ہے، تو يہ اللہ كى صفات ميں سے ايك صفت سے توسل ہوا لہذا جائز ہو گا. ليكن دوسرى وجہ كى بنا پر جو كہ عرش سے عزت كے حصول كى جگہيں معنى ہے تو يہ مخلوق سے توسل ہے اس ليے جائز نہيں، بہر حال يہ حديث كسى بحث و تمحيث كى مستحق نہيں اور نہ ہى تاويل كى؛ كيونكہ يہ حديث جب ثابت ہى نہيں اس ليے اوپر جو بيان ہوا ہے اس پر اكتفاء كرتے ہيں. علامہ البانى رحمہ اللہ كى كلام ختم ہوئى. ديكھيں: التوسل انوعہ و حكامہ ( 48 - 49 ). اور شيخ صالح فوزان حفظہ اللہ كہتے ہيں: " اس حديث ميں غرابت پائى جاتى ہے جيسا كہ كہ سائل نے بيان كيا ہے كہ قيام كے علاوہ ركوع يا سجدہ ميں سورۃ الفاتحہ مشروع ہے، اور يہ تكرار كے ساتھ ہے، اور پھر سوال ميں يہ بھى ہے كہ " أسألك بمعاقد العز من عرشك " جيسے اور كلمات بھى ہيں اور يہ سب امور غريب اور اچھنبے ہيں، اس ليے سائل كو چاہيے كہ وہ اس حديث پر عمل مت كرے. اور پھر نبى كريمص لى اللہ عليہ وسلم سے جو صحيح احاديث ثابت ہيں جن ميں كوئى اشكال بھى نہيں جن ميں نوافل اور عبادات نماز و اطاعت كا بيان ملتا ہے ان احاديث ميں ہى ان شاء اللہ كفائت ہے " انتہى ديكھيں: المنتقى من فتاوى الشيخ الفوزان ( 1 / 46 ). نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے صحيح حديث ميں ثابت ہے كہ آپ صلى اللہ عليہ وسلم نے ركوع اور سجدہ ميں قرآن مجيد كى تلاوت سے منع فرمايا ہے. على بن ابى طالب رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ: " مجھے رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے ركوع اور سجدہ ميں قرآت كرنے سے منع فرمايا " صحيح مسلم حديث نمبر ( 480 ). سوال نمبر ( 34692 ) كے جواب ميں مستقل فتوى كميٹى كے علماء كرام كى جانب سے حديث كے متن اور سند كے ضعف كا بيان ہو چكا ہے آپ اس كا مطالعہ ضرور كريں. نماز حاجت كے متعلق دوسرى حديث درج ذيل ہے: ابن عباس رضى اللہ تعالى عنہما بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا: " ميرے پاس جبريل عليہ السلام كچھ دعائيں لے كر آئے اور كہا: اگر آپ كو كوئى دنياوى پريشانى ہو تو آپ يہ دعائيں پڑھ كر اپنى ضرورت مانگيں: " يا بديع السموات والأرض ، يا ذا الجلال والإكرام ، يا صريخ المستصرخين ، يا غياث المستغيثين ، يا كاشف السوء ، يا أرحم الراحمين ، يا مجيب دعوة المضطرين ، يا إله العالمين ، بك أنزل حاجتي وأنت أعلم بها فاقضها " اے آسمان و زمين كے پيدا كرنے والے، يا ذالجلال و اكرام، اے لوگوں كى پكار سننے والے، اے مدد طلب كرنے والوں كى مدد كرنے والے، اے برائى اور شر كو دور كرنے والے، اے ارحم الراحمين، اے مجبور و لاچار كى دعا قبول كرنے والے، يا الہ العالمين، مجھے ضرورت اور حاجت ہے اور تو اسے زيادہ جانتا ہے ميرى اس حاجت كو پورا فرما " اسے اصبھانى نے روايت كيا ہے ديكھيں الترغيب و الترھيب ( 1 / 275 ) اور علامہ البانى رحمہ اللہ نے اسے ضعيف الترغيب حديث نمبر ( 419 ) اور السلسلۃ الاحاديث الضعيفۃ حديث نمبر ( 5298 ) ميں اسے موضوع قرار ديا ہے. اور تيسرى حديث درج ذيل ہے: عبد اللہ بن ابى اوفى بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا: " جس كسى كو بھى اللہ سبحانہ و تعالى كى جانب يا پھر كسى بنى آدم كى طرف كوئى حاجت ہو تو وہ اچھى طرح وضوء كرے اور دو ركعت ادا كر كے اللہ كى حمد و ثنا بيان كر كے نبى صلى اللہ عليہ وسلم پر درود پڑھے اور پھر يہ كلمات كہے: " لا إله إلا الله الحليم الكريم ، سبحان الله رب العرش العظيم ، الحمد لله رب العالمين ، أسألك موجبات رحمتك ، وعزائم مغفرتك ، والغنيمة من كل بر ، والسلامة من كل إثم ، لا تدع لي ذنبا إلا غفرته ، ولا هما إلا فرجته ، ولا حاجة هي لك رضا إلا قضيتها يا أرحم الراحمين " اللہ حليم و كريم كے علاوہ كوئى معبود برحق نہيں، رب عرش عظيم كا مالك اللہ سبحانہ و تعالى پاك ہے، سب تعريفات و حمد اللہ رب العالمين كے ليے ہيں، اے اللہ ميں تجھ سے تيرى رحمت واجب ہونے والے امور طلب كرتا ہوں، اور تيرے بخشش كا طلبگار ہوں، اور ہر نيكى كى غنيمت چاہتا ہوں، اور ہر گناہ سے سلامتى طلب كرتا ہوں، ميرے سب گناہ معاف كر دے، اور ميرے سارے غم و پريشانياں دور فرما، اور تيرى رضا و خوشنودى كى جو بھى حاجت و ضرورت ہے وہ پورى فرما اے ارحم الراحمين " سنن ترمذى حديث نمبر ( 479 ) سنن ابن ماجہ حديث نمبر ( 1384 ). امام ترمذى اس حديث كے متعلق كہتے ہيں: يہ حديث غريب ہے، اور اس كى سند ميں كلام كى گئى ہے. اور علامہ البانى رحمہ اللہ نے اسے ضعيف الترغيب حديث نمبر ( 416 ) ميں ذكر كيا اور اسے ضعيف جدا يعنى بہت زيادہ ضعيف قرار ديا ہے. اس حديث كا ضعف سوال نمبر ( 10387 ) كے جواب ميں بيان ہو چكا ہے آپ اس كا مطالعہ كريں. چوتھى حديث درج ذيل ہے: انس رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيںكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا: " اے على كيا ميں تجھے ايك دعا نہ سكھاؤں جب تجھے كوئى غم و پريشانى ہو تو اپنے رب سے دعا كرو تو اللہ كے حكم سے يہ دعاء قبول ہو اور تيرى پريشانى و غم دور ہو جائے ؟ وضوء كر كے دو ركعت ادا كرو اور اللہ كى حمد و ثنا بيان كرنے كے بعد اپنے نبى صلى اللہ عليہ وسلم پر درود پڑھو اور اپنے ليے اور مومن مردوں اور مومن عورتوں كے ليے بخشش كى دعا كر كے يہ كلمات ادا كرو: " اللهم أنت تحكم بين عبادك فيما كانوا فيه يختلفون ، لا إله إلا الله العلي العظيم ، لا إله إلا الله الحليم الكريم ، سبحان الله رب السموات السبع ورب العرش العظيم ، الحمد لله رب العالمين ، اللهم كاشف الغم ، مفرج الهم ، مجيب دعوة المضطرين إذا دعوك ، رحمن الدنيا والآخرة ورحيمهما ، فارحمني في حاجتي هذه بقضائها ونجاحها رحمة تغنيني بها عن رحمة من سواك " اے اللہ تو اپنے بندوں كے مابين فيصلہ كرنے والا ہے جس ميں وہ اختلاف كرتے ہيں، اللہ على العظيم كے علاوہ كوئى معبود برحق نہيں، اللہ حليم و كريم كے علاوہ كوئى معبود برحق نہيں، آسمان و زمين اور عرش عظيم كا مالك اللہ سبحانہ و تعالى پاك ہے، سب تعريفات اللہ رب العالمين كے ليے ہيں، اے غموں كو دور كرنے والے اللہ، اور پريشانيوں كو دور كرنے والے، مجبور و لاچار كى دعا كو قبول كرنے والے، دنيا و آخرت كے رحمن اور دونوں كے رحيم، ميرى اس حاجت و ضرورت ميں مجھ پر رحم فرما كر اس ضرورت كو پورا كر اور مجھ پر ايسى رحمت فرما جو مجھے تيرى رحمت كے علاوہ باقى سب سے مستغنى كر دے " اسے اصبھانى نے روايت كيا ہے ديكھيں: الترغيب و الترھيب ( 1 / 275 ). علامہ البانى رحمہ اللہ نے اسے ضعيف الترغيب ( 417 ) ميں ضعيف قرار ديا اور كہا ہے: اس كى سند مظلم يعنى اندھيرى ہے اس ميں ايسے روات ہيں جو معروف نہيں. اور السلسلۃ الاحاديث الضعيفۃ ( 5287 ) بھى ديكھيں. خلاصہ يہ ہوا كہ: اس نماز كے متعلق كوئى حديث صحيح نہيں، اس ليے مسلمان شخص كے ليے يہ نماز ادا كرنا مشروع نہيں، بلكہ اس كے مقابلہ ميں جو صحيح احاديث ميں نمازيں اور دعائيں اور اذكار ثابت ہيں وہى كافى ہيں. دوم: سوال كرنے والى كا يہ كہنا كہ: ميں نے اس كا تجربہ كيا ہے اور اسے فائدہ مند پايا ہے" اس كے علاوہ بھى كئى لوگ ايسى بات كر چكے ہيں، اور پھر اس طرح كے اقوال سے شريعت ثابت نہيں ہوتى اور كوئى امر مشروع نہيں ہو جاتا. شوكانى رحمہ اللہ كہتے ہيں: " صرف تجربہ كى بنا پر ہى سنت ثابت نہيں ہو جاتى اور نہ ہى دعاء كى قبوليت اس پر دلالت كرتى ہے كہ قبول كا سبب رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے ثابت ہے، بعض اوقات اللہ تعالى تو سنت كے علاوہ كسى اور چيز كے توسل سے بھى دعا قبول فر ليتا ہے، كيونكہ اللہ ارحم الراحمين ہے، اور بعض اوقات دعا كى قبوليت بتدريج ہوتى ہے " انتہى مختصرا فتوى علماء عرب هل صح عن النبي صلى الله عليه وسلم صلاة تسمى بصلاة الحاجة؟ وإن صحت فكيف يتم أداؤها؟ أجيبونا جزاكم الله خيرا. الإجابــة الحمد لله والصلاة والسلام على رسول الله وعلى آله وصحبه أما بعد: فقد ورد في سنن الترمذي وابن ماجه وغيرهما من حديث عبد الله بن أبي أوفى أن النبي صلى الله عليه وسلم قال: "من كانت له إلى الله حاجة أو إلى أحد من بني آدم فليتوضأ فليحسن الوضوء ثم ليصل ركعتين ثم ليثن على الله وليصل على النبي صلى الله عليه وسلم ثم ليقل لا إله إلا الله الحليم الكريم سبحان الله رب العرش العظيم الحمد لله رب العالمين أسألك موجبات رحمتك وعزائم مغفرتك والغنيمة من كل بر والسلامة من كل إثم لا تدع لي ذنبا إلا غفرته ولا هما إلا فرجته ولا حاجة هي لك رضا إلا قضيتها يا أرحم الراحمين " زاد ابن ماجه في روايته " ثم يسأل الله من أمر الدنيا والآخرة ما شاء فإنه يقدر". فهذه الصلاة بهذه الصورة سماها أهل العلم صلاة الحاجة. وقد اختلف أهل العلم في العمل بهذا الحديث بسبب اختلافهم في ثبوته فمنهم من يرى عدم جواز العمل به لعدم ثبوته عنده لأن في سنده فائد بن عبد الرحمن الكوفي الراوي عن عبد الله بن أبي أوفى وهو متروك عندهم. ومنهم من يرى جواز العمل به لأمرين. 1. أن له طرقا وشواهد يتقوى بها. وفائد عندهم يكتب حديثه. 2. أنه في فضائل الأعمال وفضائل الأعمال يعمل فيها بالحديث الضعيف إذا اندرج تحت أصل ثابت ولم يعارض بما هو أصح. وهذا الحاصل هنا . وهذا الرأي أصوب إن شاء الله تعالى وعليه جماعة من العلماء . وأما كيفية أدائها فهي هذه الكيفية المذكورة في الحديث. والله أعلم.

سورة الفاتحة

سُورَةُ الْفَاتِحَة أو السبع المثاني أو أمّ الكتاب هي أعظم سُورة في القرآن الكريم، لقول النَّبي مُحمَّد: «﴿الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِيْن﴾ هي السبع المثاني، والقرآن العظيم الَّذي أوتيته»، وذلك لأنها افتتح بها المصحف في الكتابة، ولأنها تفتتح بها الصلاة في القراءة. لِسُورة الفاتحة أسماء كثيرة عدَّها السيوطي في كتاب الإتقان في علوم القرآن خمسةً وعشرين اسمًا بين ألقاب وصفات جرت على ألسنة القراء من عهد السلف، ومِنها: القُرآن العظيم، وسُورة الْحَمْد، والوافية، والكافية. وقد أجمع جُمهور العُلماء على أنَّ آيات سُورة الفاتحة سبع آياتٍ وذلك باتفاق القُرّاء والمُفسّرين، ولم يشذ عن ذلك إلَّا ثلاثة: الحسن البصري وقال إنَّهُنَّ ثمان آياتٍ، وقال عمرو بن عبيد والحسين الجعفي إنَّهُنَّ ست آياتٍ، واستدل الجُمهور بقول الرسول: «السبع المثاني». وتعد السُّورة سُورة مَكِّية أُنزلت قبل هجرة الرَّسول من مكة، وهو قول أكثر العُلماء، وكان ترتيبها في النزول خامسًا على قول بدر الدين الزركشي بعد سُورة العلق وسُورة القلم وسُورة المُزمل وسورة المُدثر. اشتملت السُّورة على أغراض عدة، وهي: حمد الله وتمجيده، والثناء عليه بذكر أسمائه، وتنزيهه عن جميع النقائص، وإثبات البعث والجزاء، وإفراده بالعبادة والاستعانة، والتوجه إليه بطلب الهداية إلى الصراط المستقيم، والتضرع إليه بتثبيتهم على الصراط المستقيم، والإخبار عن قصص الأمم السابقين، كما اشتملت السورة على الترغيب في الأعمال الصالحة. وذكَّرت بأساسيات الدين: شكر نعم الله في قوله: ﴿الْحَمْدُ لِلَّهِ﴾، والإخلاص لله في قوله: ﴿إياك نعبد وإياك نستعين﴾، والصحبة الصالحة في قوله: ﴿صراط الذين أنعمت عليهم﴾، وتذكر أسماء الله الحسنى وصفاته في قوله: ﴿الرحمن الرحيم﴾، والاستقامة في قوله: ﴿اهدنا الصراط المستقيم﴾، والآخرة في قوله: ﴿مَٰلِكِ يَوۡمِ ٱلدِّينِ﴾، بالإضافة لأهمية الدعاء في قوله: ﴿إياك نعبد وإياك نستعين﴾.[] وإن لسورة الفاتحة أهمية كبيرة في الإسلام وكذلك في حياة المسلم، فهي ركن عظيم من أركان الصلاة، فالصلاة لا تصح إذا لم تُقرأ الفاتحة فيها على الرأي الراجح عند جمهور العلماء،[7] فقد روي عن أبي هريرة عن النبي قال: «من صلى صلاةً لم يقرأ فيها بأم القرآن فهي خِدَاجَ - ثلاثاً- غير تمام».[8] وفي رواية أخرى: «لا صلاة لمن لم يقرأ بفاتحة الكتاب».[9] لسورة الفاتحة أسماء كثيرة ذكرها العلماء في كتبهم منهم الإمام الرازي والقرطبي والسيوطي وغيرهم، حيث تدل كثرة الأسماء على شرف المُسمَّى ومكانته. التسمية الرئيسية للسورة هي الفاتحة، والفاتحة في اللغة: مشتقة من الفتح وهو نقيض الإغلاق، فَتحه يفتحه فَتحًا وافَتَتحه وَفتَّحه فانَفَتح وتَفَتَّح. وفاتحة الشيء أوله، وفواتح القرآن هي أوائل السور، والواحدة فاتحة. وأم الكتاب يقال لها: فاتحة القرآن. والفاتحة اسم على وزن (فاعلة)، تطلق على أول كل شيء فيه تدريج. بالإضافة لاسم الفاتحة، سميت السورة بأسماء عديدة بعضها أسماء توقيفية والبعض الآخر أسماء اجتهادية، فقد ذكر ابن عاشور أنه لم يثبت في السنة الصحيحة والمأثور من أسمائها إلا فاتحة الكتاب أو السبع المثاني وأم القرآن أو أم الكتاب] الأسماء التوقيفية:] فاتحة الكتاب: رُوي عن أبي هريرة أن رسول الله أمره أن يخرج فينادي: «أن لا صلاة إلا بقراءة فاتحة الكتاب فما زاد». وسميت بذلك: لأنه يفتتح بها في المصحف والتعليم، والقراءة في الصلاة، وقيل: لأنها أول سورة نزلت من السماء، وقيل: لأنها أول سورة كتبت في اللوح المحفوظ، وقيل: لأن الحمد فاتحة كل كلام. السبع المثاني: قال تعالى: وَلَقَدْ آتَيْنَاكَ سَبْعًا مِنَ الْمَثَانِي وَالْقُرْآنَ الْعَظِيمَ، وعن أبي بن كعب أنه قرأ على النبي أم القرآن فقال رسول الله: «والذي نفسي بيده ما أنزل في التوراة ولا في الإنجيل ولا في الزبور ولا في الفرقان مثلها، هي السبع المثاني والقرآن العظيم الذي أوتيته». وسبب تسميتها بالسبع: فلأنها سبع آيات. أما سبب تسميتها بالمثاني فهناك عدة وجوه: فقيل لأنها مستثناة من سائر الكتب السماوية، وقيل لأنها تُقرأ في الصلاة ثم إنها تثنى بسورة أخرى، وقيل لأنها تثنى في كل ركعة، وقيل لأن الله أنزلها مرتين مرة بمكة ومرة بالمدينة، وقيل لأنها كلما قرأ العبد منها آية ثناه الله بالإخبار عن فعله، وقيل لأنها اجتمع فيها فصاحة المثاني وبلاغة المعاني، وقيل لأنها استُثنيت لهذه الأمة فلم تنزل على أحد قبلها ذُخرًا لها. أمّ القرآن أو أمّ الكتاب: روى أبو هريرة عن النبي قال: «من صلى صلاةً لم يقرأ فيها بأم القرآن فهي خِدَاج – ثلاثاً – غير تمام». ويعود سبب تسميتها إلى: أن أم الشيء أصله والمقصود من كل القرآن تقرير أمور أربعة: الإلهيات، المعاد، النبوات، إثبات القضاء والقدر لله، وهذه السورة اشتملت على هذه الأمور الأربعة، ولهذا لقبت بأم القرآن لاشتمالها على الأمور الأربعة، فهي أصل القرآن. رُوي عن أبي بكر بن دريد أنه قال: «الأم في كلام العرب الراية التي ينصبها العسكر، فسميت السورة بأم القرآن لأن مفزع أهل الإيمان إلى هذه السورة كما أن مفزع العسكر إلى الراية». قال الماوردي: «سميت بذلك لتقدمها وتأخر ما سواها تبعًا لها، صارت أمًا لأنها أَمَّتْهُ أي تقدمته، وكذلك قيل لراية الحرب أُم لتقدمها واتباع الجيش له. ويقال لما مضى على الإنسان من سِنِي عمره أُم لتقدمها، ولمكة أم القرى لتقدمها على سائر القرى، ولأن الأرض منها دحيت وعنها حدثت، فصارت أُمًا لها لحدوثها عنها كحدوث الولد عن أمه».[] وقيل: لأنها محكمة والمحكمات أم الكتاب. أما اسم أم الكتاب، ففي هذا الاسم خلاف، فجوزه الجمهور، وكرهه أنس بن مالك والحسن البصري ومحمد بن سيرين، واستدل أنس وابن سيرين على أن أم الكتاب هو اللوح المحفوظ، فيما قال الحسن البصري: أم الكتاب الحلال والحرام.[][15] القرآن العظيم: جاء عن الرسول أنه قال: «هي السبع المثاني والقرآن العظيم الذي أوتيته». سميت بذلك: لتضمنها جميع علوم القرآن، وذلك أنها تشتمل على الثناء على الله تعالى بأوصاف كماله وجلاله، وعلى الأمر بالعبادات والإخلاص فيها، والاعتراف بالعجز عن القيام بشيء منها إلا بإعانته، وعلى الابتهال إليه في الهداية إلى الصراط المستقيم. أما الأسماء الاجتهادية للسورة فمنها: سورة الحمد: سميت بذلك لأن أولها لفظ الحمد. والوافية: فقد كان سفيان بن عيينة يسميها بهذا الاسم، قال الثعلبي: «وتفسيرها أنها لا تقبل التنصيف، ألا ترى أن كل سورة من القرآن لو قرئ نصفها في ركعة والنصف الثاني في ركعة أخرى لجاز، وهذا التنصيف غير جائز في هذه السورة».[] الكافية: سميت بذلك لأنها تكفي عن غيرها، وأما غيرها فلا يكفي عنها، روى عبادة بن الصامت عن الرسول قال: «أم القرآن عوض من غيرها، وليس غيرها عوضًا منها». الصَّلاة: روى أبو هريرة عن الرسول قوله: «يقول الله تعالى: قسمت الصلاة بيني وبين عبدي نصفين». والمراد هذه السورة. وقيل: لأنها من لوازمها، فهو من باب تسمية الشيء باسم لازمه. وقيل: لأن الصلاة لا تصح إلا بها. سورة الدعاء: لاشتمالها على قوله تعالى: اهدَِنا الصراط المسَتقِيم. والسؤال: روى أبو سعيد الخدري أن الرسول قال: «يقول الرب عز وجل: من شغله القرآن عن مسألتي أعطيته أفضل ما أعطي السائلين». والأساس: وفي سبب تسميتها بذلك وجوه: أنها أول سورة من القرآن الكريم فهي كالأساس. وأنها مشتملة على أشرف المطالب وذلك هو الأساس. وأن أشرف العبادات بعد الإيمان هي الصلاة، وهذه السورة مشتملة على كل ما لا بد منه في الإيمان، والصلاة لا تتم إلا بها. الشُّكر: وذلك لأنها ثناء على الله بالفضل والكرم والإحسان. الشّفاء: لأنها إذا قرئت على المريض فإنها تشفيه بأمر الله. والرقية: روى أبو سعيد الخدري أن رسول الله قال للرجل الذي رقى سيد الحي: «وما كان يدريه أنها رقية، اقسموا واضربوا لي بسهم». المناجاة: لأن العبد يناجى فيها ربه بقوله: ﴿إِياك نَعبد وإِياك نسَتعِين﴾. وسورة تعليم المسألة: قيل: لأن فيها آداب السؤال لأنها بدئت بالثناء قبله. وسورة التفويض: لاشتمالها على التفويض في قوله: ﴿إِياك نعبد وإِياك نسَتعِين﴾. سورة الكنز: سميت بذلك لأنها تشتمل على كنوز عظيمة من العلوم والمعاني، ذكر هذا الاسم الزمخشري في تفسيره. سورة النُّور: لظهورها بكثرة استعمالها أو لتنويرها القلوب لجلالة قدرها، أو لأنها لما اشتملت عليه من المعاني عبارة عن النور بمعنى القرآن. أما الأسماء الخمسة والعشرين التي أوردها جلال الدين السيوطي في كتابه الإتقان في علوم القرآن، فهي: الفاتحة، فاتحة الكتاب، أم الكتاب، أم القرآن، القرآن العظيم، السبع المثاني، الوافية، الكنز، الكافية، الأساس، النور، سورة الحمد، سورة الشكر، سورة الحمد الأولى، سورة الحمد القصرى، الرُّقية، الشفاء، الشافية، سورة الصلاة، اللازمة، سورة الدعاء، سورة السؤال، سورة تعليم المسألة، سورة المناجاة، سورة التفويض.[] عدد الآيات أجمع الجُمهور على أنَّ آيات سُورة الفاتحة سبع آياتٍ وذلك باتفاق القُرّاء والمُفسّرين، ولم يشذ عن ذلك إلَّا الحسن البصري حين قال إنَّهُنَّ ثمان آياتٍ، ونُسِب أيضًا لعمرو بن عبيد وإلى الحُسين الجعفي قولهما إنَّهُنَّ ست آياتٍ. واستدل الجُمهور على أنَّ السُّورة سبع آياتٍ بحديث أبي سعيد بن المعلَّى أنَّ رسول الله قال له: «لأعلمنك سُورة هي أعظم سُورة في القرآن، قال: ﴿الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِين…﴾ هي السَّبع المثاني والقرآن العظيم الَّذي أوتيته». أمَّا تحديد الآيات السَّبع فهو ما وُرد في حديث الصحيحين عن أبي هريرة أنَّ رسول الله قال: «قال الله عزَّ وجل قسمت الصلاة نصفين بيني وبين عبدي فنصفها لي ونصفها لعبدي، ولعبدي ما سأل، يقول العبد: ﴿الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِين﴾ فأقول حمدني عبدي، فإذا قال العبد ﴿الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْم﴾ يقول الله: أثنى عليَّ عبدي، وإذا قال العبد ﴿مَٰلِكِ يَوۡمِ ٱلدِّينِ﴾، قال الله مجدني عبدي، وإذا قال ﴿إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِيْن﴾، قال الله: هذا بيني وبين عبدي، وإذا قال ﴿اِهْدِنَا الصِّرَاطَ المُسْتَقِيْم صِرَاطَ الَّذِيْنَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِم غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِم وَلَا الضَّالِّيْن﴾ قال الله هؤلاء لعبدي ولعبدي ما سأل»1] سبب اختلاف عد الآيات هو أن أهل مكة والكوفة يعدون البسملة آية من الفاتحة وقالوا إن قوله ﴿صِراط الَّذِين أنعمتَ عليهم غير المغضوب عليهم ولا الضالين﴾ هي آية تامة، وذهب إلى ذلك الشافعية. أمَّا أهل المدينة والبصرة والشام فلم يعدوا البسملة آية من الفاتحة، وقالوا: إن قوله ﴿صراط الَّذِين أَنعمتَ عليهم …﴾ آية، وقوله ﴿غير المغضوبِ عليهِم ولا الضالِّين …﴾ آية أخرى، وذهب إلى ذلك الأحناف. ذكر ابن قدامة في المغني، والنووي في المجموع، وابن حزم في المحلى أن الشافعي وابن المبارك وأحمد في رواية عنه جعلوها البسملة آية مستقلة في الفاتحة، ولا تصح الصلاة دونها، ورجح هذا المذهب النووي وابن حزم. ومن أوضح حجج هذا المذهب حديث الدارقطني والبيهقي: إذا قرأتم ﴿الحمد لله …﴾، فاقرؤوا ﴿بسم الله الرحمن الرحيم﴾، إنها أم الكتاب والسبع المثاني، ﴿بسم الله الرحمن الرحيم﴾ إحدى آياتها. ذهب أبو حنيفة ومالك وأحمد في رواية ذكرها ابن قدامة في المغني إلى أن البسملة ليست آية مستقلة في الفاتحة، ومن أوضح ما احتجوا به ما أخرجه مالك في الموطأ مسلم في الصحيح عن أبي هريرة قال: سمعت رسول الله ﷺ يقول قال الله تبارك وتعالى: قسمت الصلاة بيني وبين عبدي نصفين، فنصفها لي ونصفها لعبدي ولعبدي ما سأل، قال رسول الله ﷺ: اقرأوا يقول العبد ﴿الحمد للّهِ رب العَالمين﴾، يقول اللّهُ عز وجل: حمدني عبدي. محل الاستشهاد أنه بدأ الفاتحة بـ ﴿الحمد لله رب العالمين﴾، ولم يذكر البسملة، ويضاف إلى ذلك ما استفاض من عدم جهر الرسول وخلفائه بها في الصلاة، فقد روى أنس بن مالك قال: صليت خلف النبي ﷺ، وأبي بكر وعمر وعثمَان، فكانوا يستفتحون بـ ﴿الحَمد لله رب العالمين﴾، لاَ يذكرون ﴿بسم الله الرحمن الرحيم﴾ في أول قراءة ولا في آخرها. وعليه أصبحت مسألة البسملة في الفاتحة وما يترتب على تركها من المسائل الخلافية.[21 كما يرجع اختلاف العلماء في العد إلى ما حفظوه وتلقوه عن الصحابة عن النبي، يقول فضل عباس: «كان الرسول ﷺ يقف في قراءته غالبًا عند رؤوس الآي، وكان الصحابة رضي الله عنهم يتعلمون منه، وبهذا عرفوا رؤوس الآي، ولكنه ﷺ كان يقف أحيانًا على غير رأس الآي لبيان الجواز، فيحسب بعض الصحابة ممن لم يسمعوا النبي ﷺ وقف على رأس الآية سابقًا أن هذه الكلمة التي وقف عليها النبي ﷺ هي رأس الآي، هذا هو السبب الرئيس، وهناك سبب آخر أشار إليه الزركشي في البرهان، وهو اختلاف العلماء في عد ﴿بسم الله الرحمن الرحيم﴾ حيث اختلفوا فيها أهي آية أم ليست آية. وهذا السبب لا يعم كل ما وقع فيه خلاف». أما الحسن البصري فقد عد البسملة آية وعد أنعمت عليهم آية فصارت بذلك ثمان آيات.2] زمن النزول: اختلف العلماء في ذكر زمن نزول سورة الفاتحة، فقال أكثر العلماء إنها سورة مكية، وقال بعض العلماء منهم ومجاهد والزهري وغيرهم إنها سورة مدنية، وقيل إن نصفها نزل بمكة ونصفها الآخر بالمدينة، وقيل: إنها نزلت مرتين: مرة بمكة حين فرضت الصلاة، ومرة بالمدينة حين حولت القبلة فصارت مكية مدنية. الأقول5] مكية: وهو قول أكثر العلماء. روى الثعلبي بإسناده عن علي بن أبي طالب أنه قال: «نزلت فاتحة الكتاب بمكة من كنز تحت العرش». قال الثعلبي: «وعليه أكثر العلماء»، وروي أيضًا عن عمرو بن شرحبيل أنه قال: «أول ما نزل من القرآن: ﴿الحمد للَّهِ رب العالمين …﴾، وذلك أن رسول الله ﷺ أسر إلى خديجة فقال: لقد خشيت أن يكون خالطني شيء، فقالت: وما ذاك، قال: إني إذا خلوت سمعت النداء باقرأ، ثم ذهب إلى ورقة بن نوفل وسأله عن تلك الواقعة فقال له ورقة: إذا أتاك النداء فاثبت له، فأتاه جبريل عليه السلام وقال له: قل: ﴿بسم الله الرحمن الرحيم الحمد لله رب العالمين﴾». وفي رواية ابن عباس قال: «قام رسول الله ﷺ فقال: ﴿بسم الله الرحمن الرحيم﴾ فقالت قريش: دق الله فاك». وأخرج أبو نعيم الأصبهاني في دلائل النبوة عن رجل من بني سلمة قال: «لما أسلمت فتيان بني سلمة وأسلم ولد عمرو بن الجموح قالت امرأة عمرو له: هل لك أن تسمع من أبيك ما روي عنه، فسأله فقرأ عليه ﴿الحمد لله رب العالمين﴾، وكان ذلك قبل الهجرة». وأخرج أبو بكر بن الأنباري في المصاحف عن عبادة قال: «فاتحة الكتاب نزلت بمكة». مدنية: روى الثعلبي بإسناده عن مجاهد بن جبر أنه قال: «فاتحة الكتاب أنزلت بالمدينة». قال الحسين بن الفضل: «لكل عالم هفوة وهذه هفوة مجاهد، لأن العلماء على خلافه، ويدل عليه وجهان: الأول: أن سورة الحجر مكية بالاتفاق،[26] ومنها قوله تعالى: ولقد آتيناك سبعا من المثاني، وهي فاتحة الكتاب، وهذا يدل على أنه تعالى آتاه هذه السورة فيما تقدم، الثاني: أنه يبعد أن يقال إنه أقام بمكة بضع عشرة سنة بلا فاتحة الكتاب». روى أبو هريرة أن الرسول قال: «والذي نفسي بيده ما أنزل الله في التوراة ولا في الإنجيل ولا في الزبور ولا في الفرقان مثلها، إنها لهي السبع المثاني والقرآن العظيم الذي أوتيته». وسورة الحجر مكية بلا خلاف بين العلماء، كما أن الرسول قام بمكة بضع عشرة سنة فكان يصلي صلاته بفاتحة الكتاب. مكية مدنية: قال بعض العلماء هذه السورة نزلت بمكة مرة، وبالمدينة مرة أخرى، فهي مكية مدنية، ولهذا السبب سماها الله بالمثاني، لأنه ثنَّى إنزالها، وإنما كان كذلك مبالغة في تشريفها. فيما يخص تناول العلماء لسبب نزول السورة، فقد أورد بعضهم ومنهم الواحدي وابن أبي شيبة والبيهقي أن للسورة سبب نزول حيث أوردوا في كتبهم أن سبب نزول سورة الفاتحة ما روي عن أبي ميسرة: «أن رسول الله ﷺ كان إذا برز سمع مناديًا يناديه يا محمد فإذا سمع الصوت انطلق هاربًا فقال له ورقة بن نوفل: إذا سمعت النداء فاثبت حتى تسمع ما يقول لك قال: فلما برز سمع النداء يا محمد فقال: لبيك قال: قل أشهد أن لا إله إلا الله وأشهد أن محمدًا رسول الله، ثم قال: قل ﴿الحمد لله رب العالمين الرحمن الرحيم مالك يوم الدين …﴾ حتى فرغ من فاتحة الكتاب». يرى العلماء أن ما أورده الواحدي وغيره إنما هو خبر السورة وليس سبب نزولها، فالصحيح أن الحديث خبر وليس سبب نزول.] نزلت سورة الفاتحة قبل الهجرة من مكة على رأي أكثر العلماء، وقال كثير منهم إنها أول سورة نزلت، قال ابن عاشور: «والصحيح أنه نزل قبلها ﴿اقرأ باسم ربك …﴾ وسورة المدثر ثم الفاتحة، وقيل نزل قبلها أيضا سورة ﴿ن والقلم …﴾ وسورة المزمل، وقال بعضهم هي أول سورة نزلت كاملة أي غير منجمة، بخلاف سورة القلم، وقد حقق بعض العلماء أنها نزلت عند فرض الصلاة فقرأ المسلمون بها في الصلاة عند فرضها، وقد عدت في رواية عن جابر بن زيد السورة الخامسة في ترتيب نزول السور. وأيا ما كان فإنها قد سماها النبي ﷺ فاتحة الكتاب وأمر بأن تكون أول القرآن. قال ابن عاشور: ولا يناكد ذلك نزولها بعد سور أخرى لمصلحة اقتضت سبقها قبل أن يتجمع من القرآن مقدار يصير به كتابًا، فحين تجمع ذلك أنزلت الفاتحة لتكون ديباجة الكتاب وأغراضها قد علمت من بيان وجه تسميتها أم القرآن».[11] أنزل الله سورة الفاتحة في مرحلة كان عدد المسلمين يقارب أربعين رجلًا وامرأة، معظمهم من الفقراء والأرقاء والمستضعفين، وقد كانت مكة مليئة بالعقائد الباطلة، والتصورات المنحرفة، والعادات السيئة من شرك بالله وعبادة الأصنام والتماثيل، وإنكار البعث، وانتشار الزنا وشرب الخمر والقتل وغير ذلك، فنزلت سورة الفاتحة وأمثالها لتعالج أصحاب العقائد الباطلة، وتصحح تصوراتهم ومعتقداتهم، ولتغرس في نفوس المسلمين العقيدة السليمة، والأخلاق الحسنة، والتربية السليمة، وكانت الآيات وقطع السور التي تنزل في ذاك الزمان آيات قصيرة، ذات فواصل رائعة، وإيقاعات هادئة.] اشتملت السورة على أغراض عدة، تحدث عنها بعض المفسرين وهي: حمد الله تعالى وتمجيده، والثناء عليه بذكر أسمائه الحسنى المستلزمة لصفاته العليّة، وتنزيهه عن جميع النقائص، وإثبات البعث والجزاء، وإفراده بالعبادة والاستعانة، والتوجه إليه بطلب الهداية إلى الصراط المستقيم، والتضرع إليه بتثبيتهم على الصراط المستقيم، والإخبار عن قصص الأمم السابقين، وقد اشتملت على الترغيب في الأعمال الصالحة كما تُذكِّر السورة بأساسيات الدين: شكر نعم الله في قوله ﴿الحمد لله﴾، والإخلاص لله في قوله ﴿إياك نعبد وإياك نستعين﴾، والصحبة الصالحة في قوله ﴿صراط الذين أنعمت عليهم﴾، وتذكر أسماء الله الحسنى وصفاته في قوله ﴿الرحمن الرحيم﴾، والاستقامة في قوله ﴿اهدنا الصراط المستقيم﴾، الآخرة في قوله ﴿مَٰلِكِ يَوۡمِ ٱلدِّينِ﴾، بالإضافة لأهمية الدعاء في قوله (نعبد، نستعين.6] قال البقاعي: «إن سورة الفاتحة جامعة لجميع ما في القرآن، فالآيات الثلاث الأُول شاملة لكل معنى تضمنته الأسماء الحسنى والصفات العلى، فكل ما في القرآن من ذلك فهو مفصل من جوامعها، والآيات الثلاث الأُخر من قوله: ﴿اهدنا﴾ شاملة لكل ما يحيط بأمر الخلق في الوصول إلى الله، والتحيز إلى رحمته، والانقطاع دون ذلك، فكل ما في القرآن فمن تفصيل جوامع هذه، وكل ما يكون وصلة بين ما ظاهره من الخلق ومبدؤه وقيامه من الحق فمفصل من آية إياك نعبد وإياك نستعين». ذكر ابن القيم أن السورة اشتملت على الرد على جميع طوائف أهل البدع والضلال، كما بينت منازل السائرين، ومقامات العارفين، وبيان أنه لا يقوم غير هذه السورة مقامها، ولا يسد مسدها، ولذلك لم ينزل في التوراة، ولا في الإنجيل مثلها. كما قال عبد الرحمن بن ناصر السعدي: «وهذه السورة على إيجازها احتوت على ما لم تحتوِ عليه سورة من سور القرآن، فقد تضمنت أنواع التوحيد الثلاثة: توحيد الربوبية، يؤخذ من قوله: ﴿رب العالمين﴾. وتوحيد الإلهية، وهو إفراد الله بالعبادة، يؤخذ من لفظ: اللَّه، ومن قوله: ﴿إياك نعبد﴾. وتوحيد الأسماء والصفات، وهو إثبات صفات الكمال لله تعالى، التي أثبتها لنفسه، وأثبتها له رسوله ﷺ من غير تعطيل، ولا تمثيل، ولا تشبيه، وقد دل على ذلك لفظ ﴿الحمد﴾. وإثبات الجزاء على الأعمال في قوله: ﴿مَٰلِكِ يَوۡمِ ٱلدِّينِ﴾، وأن الجزاء يكون بالعدل، وتضمنت إخلاص الدين لله تعالى، عبادة واستعانة في قوله: ﴿إياك نعبد وإياك نستعين﴾. وتضمنت إثبات النبوة في قوله: ﴿اهدنا الصراط المستقيم﴾؛ لأن ذلك ممتنع بدون الرسالة. وتضمنت إثبات القدر، وأن العبد فاعل حقيقة. وتضمنت الرد على جميع أهل البدع والضلال في قوله: ﴿اهدنا الصراط المستقيم﴾». يقول سيد قطب: «إن في هذه السورة من كليات العقيدة الإسلامية، وكليات التصور الإسلامي، وكليات المشاعر والتوجيهات، ما يشير إلى طرف من حكمة اختيارها للتكرار في كل ركعة، وحكمة بطلان كل صلاة لا تُذكر فيها.3] تفسير السورة تفسير الفاتحة الكبير المسمى بالبحر المديد للإمام أحمد بن عجيبة. في الآية أن الله أدب نبيه بتعليمه تقديم أسمائه الحسنى أما جميع أفعاله، وجعل ذلك لجميع خلقه سنة يستنون بها، في افتتاح أوائل منطقهم وصدور رسائلهم وكتبهم وحاجاتهم. قوله: ﴿بسم الله﴾، أي اقرأ بذكر الله ربك وقم واقعد بذكر الله، ومعناه أن ابدأ بتسمية الله وذكره قبل كل شيء. وتفسيرها في الآية أن اقرأ بتسمية الله وذكره، وافتتح القراءة بتسمية الله بأسمائه الحسنى وصفاته العلى. أما قوله ﴿الرحمن الرحيم﴾، فالرحمن هو فعلان من رحم، وأما الرحيم ففعيل منه، فإن قيل الرحمن والرحيم فهما اسمين مُشتقين من الرحمة. قال العرزمي: «الرحمن بجميع الخلق، والرحيم بالمؤمنين». وقال عبد الله بن عباس: «﴿الرحمن الرحيم﴾ الرقيق الرفيق بمن أحب أن يرحمه، والبعيد الشديد على من أحب أن يعنف عليه، وكذلك أسماؤه كلها». في السورة بدأ الله بتقديم اسمه الذي هو الله، لأن الألوهية ليست لغيره، ثم ثنى باسمه الذي هو الرحمن، حيث يصح لمن هو دون الله من خلقه التسمي ببعض صفات الرحمة، أما اسمه الذي هو الرحيم فهو جائز وصفه لغيره.[31] الحمد لله رب العالمين عدل المقالة الرئيسة: الحمد لله رب العالمين الحمد لله هو الشكر الخالص لله دون سائر ما يُعبد من دونه، بما أنعم على عباده من النعم التي لا يحصيها العدد ولا يحيط بعددها غيره. وقيل إن قول القائل ﴿الحمد لله﴾، هو ثناء عليه بأسمائه وصفاته الحسنى، وقوله الشكر لله ثناء عليه بنعمه وأياديه. ومعنى ﴿الحمد لله﴾ هو أن الله حمد نفسه وأثنى عليها بما هو له أهل، ثم علم ذلك عباده وفرض عليهم تلاوته. أما قوله ﴿رب﴾، فالرب في كلام العرب منصرف على معاني، فالسيد المطاع فيهم يدعى ربًا، فالله السيد الذي لا شبيه له ولا مثل في مثل سؤدده، والمصلح أمر خلقه بما أسبغ عليهم من نعمه. وقوله: ﴿رب العالمين﴾، قال ابن عباس في تفسير ﴿الحمد لله رب العالمين﴾: «الحمد لله الذي له الخلق كله، السموات كلهن ومن فيهن، والأرضون كلهن ومن فيهن، وما بينهما مما يعلم ومما لا يعلم». أما العالمين، فهو جمع عالم، والعالم جمع لا واحد له من لفظه، والعالم اسم لأصناف الأمم، كل صنف منها عالم. والقصد أن الحمد لله الذي له الخلق مما يعلم ومما لا يعلم. وقيل أن المقصود برب العالمين هو رب الجن والإنس.[32] الرحمن الرحيم عدل تفسير ﴿الرحمن الرحيم﴾ هو ما كان في تفسير قول الله: ﴿بسم الله الرحمن الرحيم﴾. مالك يوم الدين عدل اختلف القراء في تلاوة ﴿مَٰلِكِ يَوۡمِ ٱلدِّينِ﴾، فبعضهم يتلوها: مَلِكِ يوم الدين، وبعضهم يتلوها: مالك يوم الدين، وبعضهم يتلوها: مالكَ يوم الدين بنصب الكاف. فتأويل من قرأ: مَٰلِكِ يَوۡمِ ٱلدِّينِ، أن لله الملك خالصًا يوم الدين دون جميع خلقه الذين كانوا قبل ذلك في الدنيا ملوكًا جبابرة ينازعونه الملك، وأن له من دونهم ودون غيرهم الملك والكبرياء والعزة والبهاء. أما تأويل من قرأ: مالك يوم الدين، فقد قال ابن عباس: «لا يملك أحد في ذلك اليوم معه حكمًا كملكهم في الدنيا». وعموم المعنى أنه مالك جميع العالمين، وسيدهم ومصلحهم والناظر لهم والرحيم بهم في الدنيا والآخرة. قال الطبري وأولى القراءتين بالصواب قراءة من قرأه: مَٰلِكِ يَوۡمِ ٱلدِّينِ، بمعنى إخلاص الملك له يوم الدين، دون قراءة من قرأ: مالك يوم الدين، بمعنى أنه يملك الحكم بينهم وفصل القضاء متفردًا به دون سائر خلقه. أما قوله: ﴿يوم الدين﴾، فالدين هو بتأويل الحساب والمجازاة بالأعمال، قال ابن عباس: «يوم حساب الخلائق، هو يوم القيامة، يدينهم بأعمالهم إن خيرًا فخير، وإن شرًا فشر، وإلا من عفا عنه فالأمر أمره». ويقول عبد الملك بن عبد العزيز بن جريج: «يوم يدان الناس بالحساب».[33] إياك نعبد وإياك نستعين عدل أي لك نخشع ونذل ونستكين، إقرارًا لك يا ربنا بالربوبية لا لغيرك. عن ابن عباس قال: «قال جبريل لمحمد قل يا محمد: ﴿إياك نعبد﴾: إياك نوحد ونخاف ونرجو يا ربنا لا غيرك». يقول الطبري: «وإنما اخترنا نخشع ونذل ونستكين دون بيان أنه بمعنى نرجو ونخاف، وإن كان الرجاء والخوف لا يكونان إلا مع الذلة، لأن العبودية عند جميع العرب أصلها الذلة وأنها تسمى الطريق المذلل الذي قد وطئته الأقدام وذللته السابلة معبدًا». أما معنى قوله ﴿إياك نستعين﴾: أي إياك يا ربنا نستعين على عبادتنا إياك وطاعتنا في أمورنا كلها، لا أحد سواك، إذ كان من يكفر بك يستعين في أموره معبوده الذي بعبده من الأوثان دونك، فنحن بك نستعين في جميع أمورنا مخلصين لك العبادة. قال ابن عباس: «﴿إياك نستعين﴾ على طاعتك وعلى أمورنا كلها».[34] اهدنا الصراط المستقيم عدل قال ابن عباس: «قال جبريل لمحمد: ﴿اهدنا الصراط المستقيم﴾: ألهمنا الطريق الهادي». وإلهامه إياه هو توفيقه له». قال الطبري: «زعم البعض أن تأويل اهدنا أي زدنا هداية، وهذا لا وجه له لأن الله لا يكلف عبدًا فرضًا من فرائضه إلا بعد تبيينه له، ولو كان معنى ذلك مسألته البيان لكان قد أمر أن يدعو ربه أن يبين له ما فرض عليه». أما قوله: اهدنا، فهي هي مسألته الثبات على الهدى فيما بقي من عمره. أما قوله ﴿الصراط المستقيم﴾: فقد أجمعت أهل الحجة من أهل التأويل جميعًا على أن الصراط المستقيم هو الطريق الواضح الذي لا اعوجاج فيه، وقد اختلف تراجمة القرآن في معنى الصراط المستقيم، فعلي بن أبي طالب يقول: «القرآن هو الصراط المستقيم». أما جابر بن عبد الله فقال: «﴿اهدنا الصراط المستقيم﴾، الإسلام هو أوسع مما بين السماء والأرض». وكذلك قال ابن عباس، أما محمد بن الحنفية فقال: «هو دين الله الذي لا يقبل من العباد غيره».[35] صراط الذين أنعمت عليهم غير المغضوب عليهم ولا الضالين عدل إبانه عن الصراط المستقيم، أي قل يا محمد ﴿اهدنا الصراط المستقيم صراط الذين أنعمت عليهم﴾ بطاعتك وعبادتك من ملائكتك وأنبيائك والصديقين والشهداء والصالحين. فالذي أُمر محمد وأمته أن يسألوا ربهم من الهداية للطريق المستقيم، هي الهداية للطريق الذي وصف الله صفته. قال ابن عباس: «﴿صراط الذين أنعمت عليهم﴾ هو طريق من أنعم الله عليهم من الملائكة والنبيين والصديقين والشهداء والصالحين الذين أطاعوك وعبدوك». أما قوله ﴿أنعمت عليهم﴾ فقد وردت عدة أقوال فيمن هو المقصود بذلك، فمنهم من قال النبيون ومن قال المؤمنون وقيل المسلمون، وقيل النبي ومن معه. أما قوله ﴿غير المغضوب عليهم﴾، ففيه أن من أنعم الله عليه فهداه لدينه الحق فقد سلم من غضب ربه ونجا من الضلال في دينه. أما المغضوب عليهم فقد روى عدي بن حاتم عن الرسول أن المغضوب عليهم اليهود، وكذلك قال ابن عباس: «يعني اليهود الذين غضب الله عليهم». أما تأويل الغضب، فقال بعضهم: غضب الله على من غضب عليه من عباده ذم منه لهم ولأفعالهم وشتم منه لهم بالقول. أما قوله: ﴿ولا الضالين﴾: أي النصارى، وسمَّى الله ذكره النصارى ضلالًا لخطئهم في الحق منهج السبيل، وأخذهم من الدين في غير الطريق المستقيم. وتأويل الآية ﴿اهدنا الصراط المستقيم صراط الذين أنعمت عليهم لا المغضوب عليهم ولا الضالين﴾.[36] نحوية عامة. 5 7 غيرِ غيرِ. غيرِ. غيرَ. الإعراب: على البدال من الذين، ويمكن جعله صفة لـ الذين، أي أنهم جمعوا بين النعمة المطلقة وبين السلامة من غضب الله والضلال. الإعراب: على البدال من العاء والميم في عليهم، أي: أن المُنعم عليهم هم الذين سلموا من الغضب والضلال. الإعراب: تأتي على الحال من الذين، وعلى الهاء والميم من عليهم، أي: أنعمت عليهم لا مغضوبًا عليهم. أو تأتي على الاستثناء، أي: إلا المغضوب عليهم دلالة نحوية عامة. دلالة نحوية خاصة. دلالة نحوية خاصة. 6 7 ﴿ولا الضالين﴾ ولا الضالين. غير الضالين. الإعراب: لتأكيد معنى النفي، أي: لا المغضوب عليهم ولا الضالين. الإعراب: للتأكيد، أي: أن المغضوب عليهم هم غير الضالين. دلالة نحوية عامة. علم المناسبات عدل المناسبة في اللغة: هي المقاربة والمشاكلة. وتعرف اصطلاحًا بأنها: علم تعرف به وجوه ارتباط أجزاء القرآن بعضها ببعض، وقول أجزاء القرآن شامل للآية مع الآية، والحكم مع الحكم، والسورة مع السورة، والقصة مع القصة، وكل جزء من القرآن مع ما قارنه.[46] علم المناسبات نبه إلى أهميته عدد من العلماء من أبرزهم الفخر الرازي حيث قال: «أكثر لطائف القرآن مودعة في الترتيبات والروابط». وقال السيوطي: «علم المناسبة علم شريف قل اعتناء المفسرين به لدقته». وقال البقاعي: «وهو سر البلاغة، لأدائه إلى تحقيق مطابقة المعاني لما اقتضاه من الحال، وتتوقف الإجازة فيه على معرفة مقصود السورة المطلوب ذلك فيها، ويفيد ذلك في معرفة المقصود من جميع جملها، فلذلك كان هذا العلم في غاية النفاسة، وكانت نسبته من علم التفسير كنسبة علم البيان من النحو». من أبرز من اعتنى بعلم المناسبة من العلماء: ابن المنذر النيسابوري، وفخر الدين الرازي، وأبو الحسن الحرالي المغربي، وأبو جعفر أحمد بن إبراهيم بن الزبير الغرناطي، وقد ألف في ذلك كتاب البرهان في ترتيب سور القرآن، والبقاعي حيث ألف كتابه نظم الدرر في تناسب الآيات والسور. وابن النقيب الحنفي، والسيوطي في كتابه تناسق الدرر في تناسب السور، وكتاب أسرار التنزيل. وقد عارض عدد من العلماء البحث عن المناسبات، وقالوا بأنه علم متكلف، ولا يطلب للآية الكريمة مناسبة لكونها نزلت متفرقة على حسب الوقائع والأحداث. ومنهم: ولي الدين الملوي، والعز بن عبد السلام، والشوكاني الذي قال: «اعلم أن كثيراً من المفسرين جاءوا بعلم متكلف، وخاضوا في بحر لم يكلفوا سباحته، واستغرقوا أوقاتهم في فن لا يعود عليهم بفائدة، بل أوقعوا أنفسهم في التكلم بمحض الرأي المنهي عنه في الأمور المتعلقة بكتاب الله سبحانه، وذلك أنهم أرادوا أن يذكروا المناسبة بين الآيات القرآنية المسرودة على هذا الترتيب الموجود في المصاحف فجاءوا بتكلفات وتعسفات يتبرأ منها الإنصاف، ويتنزه عنها كلام البلغاء فضلاً عن كلام الرب سبحانه، حتى أفردوا ذلك بالتصنيف، وجعلوه المقصد الأهم من التأليف، كما فعله البقاعي في تفسيره».[47] مناسبات السورة مناسبة آيات سورة الفاتحة لبعضها: مطلعها الحمد والثناء والتعظيم لله، وهو دعاء التعظيم والتمجيد، ومقطعها دعاء المسألة والطلب قوله: ﴿اهدنا الصراط المستقيم صراط الذين أنعمت عليهم غير المغضوب عليهم ولا الضالين﴾. فأولها وسيلة لمقطعها، وقد روى أبو هريرة أن رسول الله قال: «مَن صَلَّى صَلاةً لَمْ يَقْرَأْ فيها بأُمِّ القُرْآنِ فَهي خِداجٌ ثَلاثًا غَيْرُ تَمامٍ. فقِيلَ لأَبِي هُرَيْرَةَ: إنَّا نَكُونُ وراءَ الإمامِ؟ فقالَ: اقْرَأْ بها في نَفْسِكَ؛ فإنِّي سَمِعْتُ رَسولَ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عليه وسلَّمَ يقولُ: قالَ اللَّهُ تَعالَى: قَسَمْتُ الصَّلاةَ بَيْنِي وبيْنَ عَبْدِي نِصْفَيْنِ، ولِعَبْدِي ما سَأَلَ، فإذا قالَ العَبْدُ: ﴿الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ العالَمِينَ﴾، قالَ اللَّهُ تَعالَى: حَمِدَنِي عَبْدِي، وإذا قالَ:﴿الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ﴾، قالَ اللَّهُ تَعالَى: أثْنَى عَلَيَّ عَبْدِي، وإذا قالَ: ﴿مَٰلِكِ يَوۡمِ ٱلدِّينِ﴾، قالَ: مَجَّدَنِي عَبْدِي، وقالَ مَرَّةً فَوَّضَ إلَيَّ عَبْدِي، فإذا قالَ: ﴿إيَّاكَ نَعْبُدُ وإيَّاكَ نَسْتَعِينُ﴾، قالَ: هذا بَيْنِي وبيْنَ عَبْدِي، ولِعَبْدِي ما سَأَلَ، فإذا قالَ: ﴿اهْدِنا الصِّراطَ المُسْتَقِيمَ صِراطَ الَّذينَ أنْعَمْتَ عليهم غيرِ المَغْضُوبِ عليهم ولا الضَّالِّينَ﴾، قالَ: هذا لِعَبْدِي ولِعَبْدِي ما سَأَلَ.[8][48]» قال ابن القيم: «وَلَمَّا كَانَ سُؤَالُ اللَّهِ الْهِدَايَةَ إِلَى الصِّرَاطِ الْمُسْتَقِيمِ أَجَلَّ الْمَطَالِبِ، وَنَيْلُهُ أَشْرَفَ الْمَوَاهِبِ: عَلَّمَ اللَّهُ عِبَادَهُ كَيْفِيَّةَ سُؤَالِهِ، وَأَمَرَهُمْ أَنْ يُقَدِّمُوا بَيْنَ يَدَيْهِ حَمْدَهُ وَالثَّنَاءَ عَلَيْهِ، وَتَمْجِيدَهُ، ثُمَّ ذَكَرَ عُبُودِيَّتَهُمْ وَتَوْحِيدَهُمْ، فَهَاتَانِ وَسِيلَتَانِ إِلَى مَطْلُوبِهِمْ، تَوَسُّلٌ إِلَيْهِ بِأَسْمَائِهِ وَصِفَاتِهِ، وَتَوَسُّلٌ إِلَيْهِ بِعُبُودِيَّتِهِ، وَهَاتَانِ الْوَسِيلَتَانِ لَا يَكَادُ يُرَدُّ مَعَهُمَا الدُّعَاءُ».[49] وقد افتتح الله القرآن بهذه السورة لأنها جمعت مقاصد القرآن. قال فخر الدين الرازي: «المقصود من القرآن كله تقرير أمور أربعة: الإلهيات والمعاد والنبوات وإثبات القضاء والقدر، فقوله: ﴿الحمد لله رب العالمين﴾ يدل على الإلهيات، وقوله: ﴿مَٰلِكِ يَوۡمِ ٱلدِّينِ﴾ يدل على نفي الجبر وعلى إثبات أن الكل بقضاء الله وقدره، وقوله: ﴿اهدنا الصراط المستقيم﴾ يدل على إثبات قضاء الله وعلى النبوات، فقد اشتملت هذه السورة على المطالب الأربعة، التي هي المقصد الأعظم من القران». ويقول أبو حامد الغزالي: «مقاصد القرآن ستة، ثلاثة مهمة وثلاثة تتمة. الأولى: تعريف المدعو عليه، كما أشير إليه بصدرها، وتعريف الصراط المستقيم، وقد صرح به فيها، وتعريف الحال عند الرجوع إليه تعالى، وهو الآخرة، كما أشير إليه بقوله: ﴿مَٰلِكِ يَوۡمِ ٱلدِّينِ﴾. والأخرى: تعريف أحوال المطيعين كما أشار بقوله: ﴿الذين أنعمت عليهم﴾، وتعريف منازل الطريق كما أشير إليه بقوله: ﴿إياك نعبد وإياك نستعين﴾».[50] أما مناسبة بداية سورة البقرة لخاتمتها سورة الفاتحة، ففيها قول الله في أواخر الفاتحة ﴿اهدنا الصراط المستقيم﴾، وقوله في بداية البقرة ﴿ذلك الكتاب لا ريب فيه هدى للمتقين﴾ دلالة على أن الهداية التي طلبوها هي في كلام الله القرآن الكريم. ولما ذكر أصناف الناس الثلاثة في سورة الفاتحة: المؤمنون واليهود والنصارى، فصل الحديث عنهم في أول سورة البقرة.[51] وقد تضمنت سورة الفاتحة على الإقرار بالربوبية والالتجاء إليها في دين الإسلام والصيانة عن دين اليهود والنصارى، وسورة البقرة تضمنت قواعد الدين، وآل عمران مكملة لمقصدها.[52] قال الألوسي في تفسيره: «ووجه مناسبتها لسورة الفاتحة أن الفاتحة مشتملة على بيان الربوبية أولا، والعبودية ثانيا، وطلب الهداية في المقاصد الدينية والمطالب اليقينية ثالثًا، وكذا سورة البقرة مشتملة على بيان معرفة الرب أولا كما في يؤمنون بالغيب وأمثاله، وعلى العبادات وما يتعلق بها ثانيا، وعلى طلب ما يحتاج إليه في العاجل والآجل آخرا، وأيضا في آخر الفاتحة طلب الهداية وفي أول البقرة إيماء إلى ذلك بقوله: هدى للمتقين، ولما افتتح سبحانه الفاتحة بالأمر الظاهر وكان وراء كل ظاهر باطن افتتح هذه السورة بما بطن سره وخفي إلا على من شاء الله تعالى أمره».[53] للسورة مناسبة وثيقة بينها وبين آخر سور القرآن سورة الناس، فالله ذكر في بداية القرآن وفي مطلع سورة الفاتحة آيات الأولوهية والربوبية والملك، وختم القرآن بسورة الناس وضمنها بآيات الأولوهية والربوبية والملك، ففي الفاتحة ذكر الألوهية بقوله: ﴿الحمد لله﴾، والربوبية: ﴿رب العالمين﴾، والملك: ﴿مَٰلِكِ يَوۡمِ ٱلدِّينِ﴾. وفي سورة الناس ذكر الألوهية بقوله: ﴿إله الناس﴾، والربوبية: ﴿رب الناس﴾، والملك: ﴿ملك الناس﴾.[54] الاستعاذة عدل وصيغتها: أعوذ بالله من الشيطان الرجيم. ومشروعيتها دلت عليه آية من آيات القران: Ra bracket.png فَإِذَا قَرَأْتَ الْقُرْآنَ فَاسْتَعِذْ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ Aya-98.png La bracket.png. وقد رُوي أن سليمان بن صرد قال: «كنت جالسا مع النبي ﷺ ورجلان يستبان فأحدهما احمر وجهه وانتفخت أوداجه، فقال النبي ﷺ: إني لأعلم كلمة لو قالها ذهب عنه ما يجد، لو قال: أعوذ بالله من الشيطان الرجيم ذهب عنه ما يجد، فقالوا: له إن النبي ﷺ، قال: تعوذ بالله من الشيطان، فقال: وهل بي جنون». وهذه الصياغة هي المختارة عند أكثر القراء والسلف، ومنهم: عمر بن الخطاب وعبد الله بن عمر والشافعي وأبو حنيفة النعمان وأحمد بن حنبل. أما الصيغة الأخرى الأقل شهرة من الأولى فهي: أعوذ بالله السميع العليم من الشيطان الرجيم. وهي ما جاءت عن أبي سعيد الخدري عن النبي: «أنه كان إذا قام إلى الصلاة استفتح ثم يقول: أعوذ بالله السميع العليم من الشيطان الرجيم من همزه ونفخه ونفثه»، وهذه الصيغة اختيار الحسن البصري ومحمد بن سيرين وطائفة من القراء. وقد عد العلماء ست صيغ للاستعاذة.[55] أجمع العلماء على أن الاستعاذة ليست بقرآن، وإنما تكون قبل التلاوة،[56] قال ابن تيمية: «لكن الاستعاذة ليست بقرآن، ولم تكتب في المصاحف، وإنما فيه الأمر بالاستعاذة، وهذ قرآن». إجمالًا أجمع جمهور العلماء على أنها مستحبة عند تلاوة القرآن وقبل الفاتحة في الصلاة وليست بمتحتمة يأثم تاركها،[57] وهي مستحبة عند التداوي بالقراءة، وفي أول كل ركعة، وقيل: إنما تستحب عند الركعة الأولى، ويستحب التعوذ أيضًا في التكبيرة الأولى من صلاة الجنازة.[58] أما تفصيلًا فقد اختلف العلماء في حكم الاستعاذة عند القراءة، فذهب البعض إلى أنها واجبة في الصلاة وخارجها، وهذا قول عطاء بن أبي رباح وابن حزم، واستدلوا بقول الله: فإذا قرأت القرآن فاستعذ بالله من الشيطان الرجيم. أما الجمهور من الصحابة والتابعين ومن بعدهم قالوا أن الاستعاذة مستحبة قبل كل قراءة للقرآن، سواء كان في الصلاة أو خارجها، وهذا رأي عبد الله بن عمر وأبي هريرة والحسن البصري وابن سيرين وأبي حنيفة وأحمد بن حنبل.[59] لفظُ البسملة. أجمع العلماء على أن البسملة جزء من آية من سورة النمل في قوله تعالى: Ra bracket.png إِنَّهُ مِنْ سُلَيْمَانَ وَإِنَّهُ بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ Aya-30.png La bracket.png،[60] ولكنهم اختلفوا في هل هي آية من الفاتحة، ومن أول كل سورة أم لا، على أكثر من تسعة أقوال،[61] أبرزها: قول مالك بن أنس والأوزاعي وأهل البصرة والشام والمدينة: «إن البسملة ليست بآية من الفاتحة ولا من غيرها من السور إلا في سورة النمل، وإنما كتبت للفصل والتبرك للابتداء بها». واحتجوا على ذلك بأدلة منها: عن عائشة بنت أبي بكر أن النبي: «كان يفتتح الصلاة بالتكبير والقراءة بـ ﴿الحمد لله رب العالمين﴾، وهذا يدل على أن البسملة ليست آية من الفاتحة». لو كان قوله: ﴿بسم الله الرحمن الرحيم﴾ آية من هذه السورة للزم التكرار في قوله: ﴿الرحمن الرحيم﴾، وذلك بخلاف الدليل. وغيرها من الأدلة. وقالت الشافعية ومعهم عبد الله بن المبارك وسفيان الثوري وقراء مكة والكوفة وأكثر فقهاء الحجاز وأحمد بن حنبل في رواية عنه: «إنها آية من الفاتحة ومن كل سورة إلا التوبة»،[62] واستدلوا على ذلك بأدلة منها: عن أنس بن مالك قال: «بينما رسول الله ﷺ ذات يوم بين أظهرنا إذ أغفى إغفاءة ثم رفع رأسه مبتسمًا، فقلنا: ما أضحكك يا رسول الله، قال: نزلت عليَّ آنفاً سورة.. فقرأ: ﴿بسم اللهِ الرحمن الرحيمِ﴾ Ra bracket.png إِنَّا أَعْطَيْنَاكَ الْكَوْثَرَ Aya-1.png فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَانْحَرْ Aya-2.png إِنَّ شَانِئَكَ هُوَ الْأَبْتَرُ Aya-3.png La bracket.png». كما استدلوا بحديث أنس بن مالك أنه سئل عن قراءة رسول الله فقال: «كانت قراءته مدًا، ثم قرأ ﴿بسم الله الرحمن الرحيم﴾، يمد بـ ﴿بسم الله﴾، ويمد بـ ﴿الرحمن﴾، ويمد بـ ﴿الرحيم﴾». وغيرها من الأدلة. وقال الأحناف: «هي آية تامة من القرآن الكريم أنزلت للفصل بين السور، وليست آية من الفاتحة ولا من غيرها». واستدلوا على ذلك بحديث ابن عباس: «إن رسول الله ﷺ كان لا يعرف فصل السورة حتى ينزل عليه ﴿بسم الله الرحمن الرحيم﴾». وغيرها من الأدلة. وقال داود الظاهري ورواية عن أحمد بن حنبل: «هي آية تامة مستقلة في أول كل سورة لا منها ما عدا التوبة». أما كيفية قراءة البسملة في الصلاة فقد اختلف العلماء على عدة أقوال: فأبو حنيفة النعمان وأحمد بن حنبل وسفيان الثوري والأوزاعي قالوا: «على أنه لا يجهر بالبسملة في الصلاة، بل يسر بها في كل ركعة من ركعات الصلاة، وإن قرأها مع كل سورة فحسن». وقال مالك بن أنس: «لا تقرأ البسملة في الصلاة المكتوبة بالكلية لا جهرًا ولا سرًا، لا في استفتاح سورة الفاتحة، ولا في غيرها من السور، أما في النافلة فإنه يجوز أن يقرأها، فإن شاء قرأها، وإن شاء ترك قراءتها». وقال الشافعي وعبد الله بن عمر وأبو هريرة وعبد الله بن عباس: «إن المصلي يقرؤها وجوبًا في الجهر جهرًا، وفي السر سرًا، ويجب قراءتها في كل الركعات».[63][64][65] أما عن سبب تأخر البسملة عن الاستعاذة، فيقول عبد الله بصفر: «والحكمة في تأخرها عن الاستعاذة هي تقدم التخلية على التحلية، فيخلِّي القلب والعقل عن الشيطان الرجيم، ويطهر النفس من وساوس الشيطان، ثم يذكر الله تبارك وتعالى».[66] قراءة الفاتحة في الصلاة عدل في حكم قراءة سورة الفاتحة في الصلاة قال جمهور الفقهاء ومنهم الشافعي ومالك وأحمد: «إن قراءة الفاتحة تتعين في الصلاة، فمن تركها مع القدرة عليها لم تَصح صلاته»، مصداقًا لحديث أبي هريرة أن رسول الله قال: «من صلى صلاة لم يقرأ فيها بأم القرآن فهي خداج، فهي خداج، فهي خداج»، وحديث عبادة بن الصامت أنه قال: قال رسول الله ﷺ: «لا صلاة لمن لم يقرأ بفاتحة الكتاب». وقال الأحناف وسفيان الثوري والأوزاعي: «إن قراءة الفاتحة لا تتعين في الصلاة، بل مهما قرأ به من القرآن أجزأه في الصلاة مع الإساءة، ولا تبطل صلاته»، واحتجوا على ذلك بحديث أبي هريرة بأن الرسول قال للمسيء في صلاته: «إذا قمت إلى الصلاة فكبر، ثم اقرأ ما تيسر معك من القرآن». أما ما يتعلق بحكم قراءة الفاتحة على المأموم خلف الإمام، فاختلف الفقهاء في هذه المسألة على ثلاثة أقوال، قال الشافعي: «تجب قراءة الفاتحة على المأموم خلف الإمام سواء أَسر الإمام بالقراءة أم جهر بها». واستدل بحديث الأعرابي الذي علمه الرسول أعمال الصلاة فقال: «ثم اقرأ بما تيسر معك من القرآن». وقالت المالكية والحنابلة وعبد الله بن المبارك: «تجب قراءة الفاتحة على المأموم إذا أسر الإمام، ولا تجب إذا جهر». واستدلوا على أن القراءة لا تجب في الصلاة الجهرية بحديث أبي موسى الأشعري قال: قال رسول الله ﷺ: «إنما جُعِل الإمام ليؤتم به فإذا كبر فكبروا، وإذا قرأ فأنصتوا». وقالت الحنفية: «لا تجب على المأموم قراءة الفاتحة، ولا غيرها، لا في الصلاة الجهرية ولا في السرية، بل تكره القراءة خلف الإمام بكل حالة»، واستدلوا بحديث جابر بن عبد الله عن النبي أنه قال: «من كان له إمام فقراءة الإمام له قراءة».[67] وفي حكم قراءة الفاتحة في كل ركعة في الصلاة، فأيضًا اختلف الفقهاء في المسألة على عدة آراء: قال الشافعي وأحمد وقول لمالك: «إن قراءة الفاتحة تتعين في كل ركعة، فإن تركها في ركعة بطلت صلاته»، وهذا الرأي قال به أبو بكر الصديق وعمر بن الخطاب وعلي بن أبي طالب وعبد الله بن مسعود، واستدلوا على أن الرسول كان يقرأ في كل الركعات فيجب أن يُقتدى به. وقول آخر لمالك: «إنه تتعين قراءة الفاتحة في معظم الركعات، ولا تتعين في جميعها، فإن كانت الصلاة أربع ركعات كَفت القراءة في ثلاث ركعات، وإن كانت مغربًا كفت في ركعتين، وإن كانت صبحًا وجبت القراءة فيهما معًا». قال الحسن البصري: «إنما تتعين قراءتها في ركعة واحدة من الصلوات، فإذا قرأها مرة واحدة في الصلاة أجزأه، ولم تكن عليه إعادة أجزأه». قال أبو حنيفة وسفيان الثوري والأوزاعي: «لا تتعين قراءة الفاتحة أصلا، بل لو قرأ بغيرها أجزأه». أما حكم صلاة من قرأ الفاتحة بغير العربية، فقال جمهور العلماء من المالكية والشافعية والحنابلة: «أنها لا تجزئ صلاة من قرأ الفاتحة أو غيرها بغير العربية، ولا الإبدال بلفظها لفظًا عربيًا آخر سواء أحسن قراءتها بالعربية أو عجز عن قراءتها». وروي عن أبو حنيفة أنه قال: «تجزئه القراءة بغير العربية وإن أحسن العربية لأن المقصود إصابة المعنى».[68 وهي أن يقول عند انتهائه من تلاوة الفاتحة بعد ولا الضالين: آمين. قال أكثر الفقهاء: «إنه يسن للمصلي إمامًا أو مأمومًا أو منفردًا أن يقول آمين بعد الانتهاء من الفاتحة»،[70] وقال القرطبي في تفسيره: «ويسن لقارئ القرآن أن يقول بعد الفراغ من الفاتحة بعد سكتة على نون ﴿ولا الضالين﴾: آمين، ليتميز ما هو قرآن مما ليس بقرآن».[71] ودليلهم ما رواه أبو هريرة أن رسول الله قال: «إذا أمن الإمام فأمنوا، فإنه من وافق تأمينُه تأمين الملائكة، غفر له ما تقدم من ذنبه». وما رواه أيضًا: «كان رسول الله إذا تلا: ﴿غير المغضوب عليهم ولا الضالين﴾، قال: آمين حتى يسمع من يليه من الصف الأول».[72] وقالت المالكية: «لا يؤمن الإمام، ويؤمن المأموم»، واستدلوا بحديث أبي هريرة أن رسول الله قال: «وإذا قال ﴿ولا الضالين﴾ فقولوا آمين». وقال ابن كثير: «قال أصحابنا يستحب التأمين لمن هو خارج الصلاة، ويتأكد في حق المصلي، سواء كان منفردًا أو إمامًا أو مأمومًا وفي جميع الأحوال». وفي كيفية التأمين بعد الفاتحة، قال الأحناف والمالكية: «يقول المصلي سواء كان إمامًا أم مأمومًا أم منفردًا آمين سِرًا بعد الانتهاء من الفاتحة سواء في الصلاة الجهرية أم السرية». وقالت الشافعية والحنابلة: «يسر بها في الصلاة السرية، ويجهر بها في الصلاة الجهرية». وقال بعض الفقهاء في رواية عن القرطبي: «هو مخير بين الجهر أو السر».[73] وآمين اسم فعل، وفي معناها ثلاثة أقوال، الأول: بمعنى اللهم استجب، والثاني: بمعنى كذلك يكون، والثالث: بمعنى أنه اسم من أسماء الله تعالى، وقيل: ربِّ افعل وهو قول ابن عباس، وقال الترمذي: «لا تخيب رجانا». والقول الأول هو الأشهر والأصح في تفسير الكلمة، وهو بمعنى اللهم استجب. لفظها: آمين، وهي بالمد والتخفيف في جميع الروايات وعن جميع القراء، وفيها ثلاث ألفاظ أخرى شاذة: الأولى بالقصر: أمين، الثانية: بالتشديد مع المد: آمّين، الثالثة: التشديد مع القصر: أمِّين. أم حكم التجويد فيها فآمين الهمزة إذا جاءت في أول الكلمة ففيها مد يسمى مد البدل، ومد البدل يمد بمقدار حركتين اثنتين فقط. كلمة آمين ليست من القرآن الكريم بإجماع علماء الأمة، لأنها لم تكتب في مصحف عثمان ولا في غيره. وفي فضلها ما رواه البخاري عن النبي أنه قال: «إذا قال أحدكم آمين، وقالت الملائكة في السماء آمين، فوافقت إحداهما الأخرى، غُفِر له ما تقدم من ذنبه»، بالإضافة لما رواته عائشة بنت أبي بكر عن النبي قوله: «ما حسدتكم اليهود على شيء ما حسدتكم على السلام والتأمين». وروي عن النبي قوله: «أعطيت آمين في الصلاة، وعند الدعاء، ولم يعط أحد قبلي إلا أن يكون موسى، كان موسى يدعو وهارون يؤمن، فاختموا الدعاء بآمين فإن الله يستجيب لكم».[74][75] فضلها عدل جاءت عدد من الأحاديث الشريفة في تبيين فضل سورة الفاتحة، ومنها:[78][79][80] أنها أعظم سورة في القرآن الكريم. فقد روى البخاري عن أبي سعيد بن المعلَّى أنه قال: «كنت أصلي في المسجد، فدعاني رسول الله ﷺ فلم أجب حتى صليت، ثم أتيته فقال: ما منعك أن تأتي، فقلت يا رسول الله: إني كنت أصلي، فقال: ألم يقل الله: ﴿يا أَيها الَذين آمنوا استجيبوا لله وللرسول إِذا دعاكم لما يحيِيكم﴾، ثم قال: لأعلمنك سورة هي أعظم السور في القرآن قبل أن تخرج من المسجد، ثم أخذ بيدي، فلما أراد أن يخرج، قلت له يا رسول الله: ألم تقل لأعلمنك سورة هي أعظم سورة في القرآن، قال: ﴿الحمد لله رب العالمين …﴾، هي السبع المثاني والقرآن العظيم الذي أوتيته». أنها دواء إن رقي بها، روى البخاري عن أبي سعيد الخدري قال: «كنا في مسير لنا فنزلنا فجاءت جارية فقالت: إن سيد الحي سليم، وإن نفرنا غيب فهل منكم راقٍ، فقام معها رجل ما كنا نأبنه برقية، فرقاه فبرأ فأمر له بثلاثين شاة وسقانا لبنًا فلما رجع قلنا له: أكنت تحسن رقية أو ترقي، قال: لا، ما رقيتُ إلا بأم الكتاب، قلنا: لا تحدثوا شيئًا حتى نأتي ونسأل رسول الله فلما قدمنا المدينة ذكرناه للنبي ﷺ فقال: وما كان يدريه أنها رقية، اقسموا واضربوا لي بسهم». سورة الفاتحة ركن عظيم من أركان الصلاة، فالصلاة لا تصح إذا لم تُقرأ الفاتحة فيها على الرأي الراجح عند جمهور العلماء. عن أبي هريرة عن النبي قال: «من صلى صلاةً لم يقرأ فيها بأم القرآن فهي خداج - ثلاثاً- غير تمام». عن أبي هريرة قال: سمعت رسول الله يقول: «قال الله عز وجل قسمت الصلاة بيني وبين عبدي نصفين، ولعبدي ما سأل، فإذا قال: ﴿الحمد لله رب العالمين﴾، قال الله: حمدني عبدي، وإذا قال: ﴿الرحمن الرحيم﴾ قال الله تعالى: أثنى علي عبدي، فإذا قال: ﴿مَٰلِكِ يَوۡمِ ٱلدِّينِ﴾ قال الله تعالى: مجدني عبدي، فإذا قال: ﴿إياك نعبد وإياك نستعين﴾، قال الله تعالى: هذا بيني وبين عبدي ولعبدي ما سأل، فإذا قال: ﴿اهدنا الصراط المستقيم صراط الذين أنعمت عليهم غير المغضوب عليهم ولا الضالين﴾، قال الله: هذا لعبدي ولعبدي ما سأل». عن عبد الله بن عباس قال: «بينما جبريل عليه السلام قاعد عند النبي ﷺ سمع نقيضاً أي صوتاً كصوت الباب يفتح من فوقه فرفع رأسه فقال: هذا باب من السماء فتح اليوم لم يفتح قط إلا اليوم فنزل منه ملك، فقال: هذا ملك نزل إلى الأرض لم ينزل قط إلا اليوم فسلم: وقال: أبشر بنورين أوتيتهما لم يؤتهما نبي قبلك: فاتحة الكتاب، وخواتيم سورة البقرة لن تقرأ بحرف منهما إلا أعطيته». أنها أعظم ما أنزل الله على نبي، فعن أبي بن كعب أنه قرأ على النبي أم القرآن فقال رسول الله: «والذي نفسي بيده ما أنزل في التوراة ولا في الإنجيل ولا في الزبور ولا في الفرقان مثلها، هي السبع المثاني والقرآن العظيم الذي أوتيته». أنها أخير سور القرآن، عن جابر بن عبد الله أن النبي قال: «ألا أخبرك يا جابر بن عبد الله بأخير سورة في القرآن، قلت: بلى يا رسول الله، قال: اقرأ ﴿الحمد لله رب العالمين﴾ حتى تختمها». أما فضلها الذي ورد في أقوال العلماء: روي عن مجاهد بن جبير المكي أنه قال: «إن إبليس لعنه الله رن أربع رنَّات: حين لُعن، وحين أُهبط من الجنة، وحين بعث محمد ﷺ، وحين أُنزلت فاتحة».[81] شكا رجل إلى الشعبي وجع الخاصرة، فقال: «عليك بأساس القرآن فاتحة الكتاب، سمعت ابن عباس يقول: لكل شيء أساس، وأساس الدنيا مكة، لأنها منها دُحِيَت، وأساس السموات عريبًا وهي السماء السابعة، وأساس الأرض عجيبًا وهي الأرض السابعة السفلى، وأساس الجنان جنة عدن وهي سرة الجنان عليها أُسست الجنة، وأساس النار جهنم، وهي الدركة السابعة السفلى عليها أسست الدركات، وأساس الخلق آدم، وأساس الأنبياء نوح، وأساس بني إسرائيل يعقوب، وأساس الكتب القرآن، وأساس القرآن الفاتحة، وأساس الفاتحة ﴿بسم الله الرحمن الرحيم﴾، فإذا اعتللت أو اشتكيت فعليك بالفاتحة تشفى».[82] قال البقاعي: «وهي أُم كل خير، وأساس كل معروف، ولا يعتد بها إلا إذا ثُنّيتْ فكانت دائمة التكرار، وهي كنز لكل شيء، شافية لكل داء، كافية لكل هم، وافية بكل مرام، واقية من كل سوء، رقية لكل ملم، وهي إثبات للحمد الذي هو الإحاطة بصفات الكمال، وللشكر الذي هو تعظيم المنعِم، وهي عين الدعاء فإنه التوجه إلى المدعو، وأعظم مجامعًا الصلاة».[83] قال ابن القيم: «كثيرًا ما كنت أسمع ابن تيمية يقول ﴿إياك نعبد﴾: فيه علاج للرياء، ﴿وإياك نستعين﴾ فيه علاج للكبرياء».[84] ويقول أيضًا: «مكثت بمكة مدة تعتريني أدواء ولا أجد طبيبًا، فكنت أعالج نفسي بالفاتحة فأرى لها تأثيرًا عجيبًا، فكنت أصف ذلك لمن يشتكي ألمًا وكان كثيرًا منهم يبرأ سريعًا.»[85] كتب تفسير الفاتحة عُنِيَ المفسرون بسورة الفاتحة بسبب منزلتها الكبيرة بين السور، فكان ذلك دافعاً إلى تأليف مئات الكتب التي اختصت فقط بتفسير الفاتحة، وتكاد هذه المؤلفات أن تُصبحَ فرعاً جديداً من فروع عِلم التفسير، وقد كان مُعظم جهود أولئك المفسرين هو في إظهار كيف احتوتْ هذه السورة القصيرة على المعنى الموجَز للقرآن.[86] طباعة السورة عدل في أكثر المصاحف المطبوعة والمُلَوَّنة، يجد القارئ أن آيات سورة الفاتحة السبع في الصفحة الأولى، والآيات الخمس الأولى من سورة البقرة في الصفحة المقابلة، مكتوبة بلون مميّز يختلف عن باقي صفحات المصحف.[87] انظر أيضًا عدل قائمة سور القرآن الكريم آية مكية قراءات علم التفسير هوامش 1: «دلالة نحوية عامة» هي المعاني العامة المستفادة من الجمل والأساليب بشكل عام. 2: «دلالة نحوية خاصة» هي معاني الأبواب النحوية مثل: باب الفاعل وباب المفعول وباب الحال.. ألخ. تفسير سورة الفاتحة د. مصطفى مسلم شبكة الألوكة الشرعية، 27 نوفمبر 2012. وصل لهذا المسار في 27 يوليو 2016 نسخة محفوظة 06 أكتوبر 2017 على موقع واي باك مشين. ما هي أعظم سورة في القرآن؟ إسلام ويب مركز الفتاوى، 11 مايو 2002. وصل لهذا المسار في 27 يوليو 2016 "نسخة مؤرشفة"، مؤرشف من الأصل في 20 أغسطس 2017، اطلع عليه بتاريخ 29 يوليو 2016. بيان وتعريف بسورة الفاتحة شبكة الألوكة الشرعية، 13 ديسمبر 2014. وصل لهذا المسار في 27 يوليو 2016 نسخة محفوظة 21 أغسطس 2017 على موقع واي باك مشين. جلال الدين السيوطي، تحقيق مركز الدراسات القرآنية. (1426 هـ) الإتقان في علوم القرآن الجزء الأول (الطبعة الأولى). المدينة المنورة - السعودية. مجمع الملك فهد لطباعة المصحف الشريف صفحة 355 ترتيب نزول سور القرآن المباركة هدى القرآن، 25 أبريل 2007. وصل لهذا المسار في 26 يوليو 2016 نسخة محفوظة 20 سبتمبر 2017 على موقع واي باك مشين. سورة الفاتحة (هدف السورة: شاملة لأهداف القرآن) الكلم الطيب. وصل لهذا المسار في 25 يوليو 2016 نسخة محفوظة 25 أغسطس 2017 على موقع واي باك مشين. محمد بن صالح العثيمين (1423 هـ). تفسير القرآن الكريم، الفاتحة والبقرة المجلد الأول (الطبعة الأولى). الدمام - السعودية. دار ابن الجوزي صفحة 3 "الاستذكار الجامع لمذاهب فقهاء الأمصار ،حديث أبي هريرة من صلى صلاة لم يقرأ فيها بأم القرآن فهي خداج"، islamweb.net، مؤرشف من الأصل في 12 نوفمبر 2020، اطلع عليه بتاريخ 27 نوفمبر 2021. قراءة الفاتحة واجبة في الصلاة على الإمام والمأموم إسلام ويب مركز الفتاوى. 3 مايو 2001. وصل لهذا المسار في 27 يوليو 2016 "نسخة مؤرشفة"، مؤرشف من الأصل في 22 أغسطس 2016، اطلع عليه بتاريخ 29 يوليو 2016. سورة الفاتحة دراسة موضوعية، رسالة ماجستير، بسام رضوان شحادة عليان (1429 هـ - 2008م) كلية أصول الدين بالجامعة الإسلامية. غزة - فلسطين. صفحة 3 التحرير والتنوير لمحمد الطاهر بن عاشور سورة الفاتحة المكتبة الإسلامية. وصل لهذا المسار في 25 يوليو 2016 نسخة محفوظة 14 سبتمبر 2017 على موقع واي باك مشين. كتاب التفسير الكبير أو مفاتيح الغيب سورة الفاتحة القسم الأول أسمائها وفضلها وتفسير الآيات مفصلة الباب الأول في أسماء سورة الفاتحة المكتبة الإسلامية. وصل لهذا المسار في 25 يوليو 2016 نسخة محفوظة 22 أغسطس 2016 على موقع واي باك مشين. تفسير الماوردي أبي الحسن علي بن محمد بن حبيب الماوردي البصري تفسير سورة الفاتحة المكتبة الإسلامية. وصل لهذا المسار في 25 يوليو 2016 نسخة محفوظة 22 أغسطس 2016 على موقع واي باك مشين. شمس الدين القرطبي، تحقيق عبد الله بن عبد المحسن التركي (1427 هـ - 2006م). الجامع لأحكام القرآن والمبين لما تضمنه السنة وآي القرآن الجزء الأول (الطبعة الأولى). بيروت - لبنان. مؤسسة الرسالة صفحة 172 ابن كثير، تحقيق سامي بن محمد سلامة (1420 هـ - 1999م). تفسير ابن كثير الجزء الأول (الطبعة الثانية). الرياض - السعودية. دار طيبة للنشر والتوزيع صفحة 101 فخر الدين الرازي (1401 هـ - 1981م). تفسير الفخر الرازي الجزء الأول (الطبعة الأولى). بيروت - لبنان. دار الفكر للطباعة والنشر والتوزيع صفحة 182 سورة الفاتحة دراسة موضوعية، رسالة ماجستير، بسام رضوان شحادة عليان (1429 هـ - 2008م) كلية أصول الدين بالجامعة الإسلامية. غزة - فلسطين. صفحة 8 مجلة البحوث والدراسات الإسلامية، أضواء على الإعجاز البلاغي في سورة الفاتحة. صالح محمد أبو بكر الزهراني (العدد الرابع، السنة الثانية). الرياض - السعودية. جامعة الملك سعود صفحة 120 - 122 جلال الدين السيوطي، تحقيق مركز الدراسات القرآنية. الإتقان في علوم القرآن الجزء الأول (الطبعة الأولى). المدينة المنورة - السعودية. مجمع الملك فهد لطباعة المصحف الشريف صفحة 349 - 355 ابن كثير، تحقيق سامي بن محمد سلامة (1420 هـ - 1999م). تفسير ابن كثير الجزء الأول (الطبعة الثانية). الرياض - السعودية. دار طيبة للنشر والتوزيع صفحة 143 أقوال العلماء في مسألة البسملة في الفاتحة إسلام ويب مركز الفتاوى، 18 أغسطس 2003. وصل لهذا المسار في 25 يوليو 2016 "نسخة مؤرشفة"، مؤرشف من الأصل في 26 فبراير 2019، اطلع عليه بتاريخ 29 يوليو 2016. سورة الفاتحة دراسة موضوعية، رسالة ماجستير، بسام رضوان شحادة عليان (1429 هـ - 2008م) كلية أصول الدين بالجامعة الإسلامية. غزة - فلسطين. صفحة 10 كتاب فتح القدير الجامع بين فني الرواية والدراية للشوكاني معنى الفاتحة وهل هي مكية أم مدنية المكتبة الإسلامية. وصل لهذا المسار في 25 يوليو 2016 نسخة محفوظة 29 سبتمبر 2018 على موقع واي باك مشين. كتاب: الحاوي في تفسير القرآن الكريم فصل في كيفية نزول سورة الفاتحة نداء الإيمان. وصل لهذا المسار في 25 يوليو 2016 نسخة محفوظة 23 فبراير 2019 على موقع واي باك مشين. كتاب أسباب النزول للواحدي القول في سورة الفاتحة المكتبة الإسلامية. وصل لهذا المسار في 25 يوليو 2016 نسخة محفوظة 22 أغسطس 2016 على موقع واي باك مشين. ابن عطية الأندلسي، تحقيق عبد السلام عبد الشافي محمد (1422 هـ - 2001م). المحرر الوجيز في تفسير الكتاب العزيز (الطبعة الأولى الجزء الأول). بيروت - لبنان. دار الكتب العلمية صفحة 65 سورة الفاتحة دراسة موضوعية، رسالة ماجستير، بسام رضوان شحادة عليان (1429 هـ - 2008م) كلية أصول الدين بالجامعة الإسلامية. غزة - فلسطين. صفحة 19 صفي الرحمن المباركفوري، تحقيق عبد الله بن عبد المحسن التركي (1428 هـ - 2007م). الرحيق المختوم (الطبعة الأولى). الدوحة - قطر. وزارة الأوقاف والشؤون الإسلامية القطرية صفحة 76 دراسات عربية وإسلامية، التوجه النحوي للقراءات القرانية في سورة الفاتحة (يناير 2015م). عبد الباقي محمد البرير يوسف (العدد 12). الرياض - السعودية. جامعة الملك سعود صفحة 126 مقاصد سورة الفاتحة إسلام ويب موقع المقالات، 20 نوفمبر 2012. وصل لهذا المسار في 25 يوليو 2016 "نسخة مؤرشفة"، مؤرشف من الأصل في 22 أغسطس 2016، اطلع عليه بتاريخ 29 يوليو 2016. شمس الدين القرطبي، تحقيق عبد الله بن عبد المحسن التركي (1422 هـ - 2001م). تفسير الطبري جامع البيان عن تأويل آي القرآن الجزء الأول (الطبعة الأولى). القاهرة - مصر. دار هجر للطباعة والنشر صفحة 111 - 134 شمس الدين القرطبي، تحقيق عبد الله بن عبد المحسن التركي (1422 هـ - 2001م). تفسير الطبري جامع البيان عن تأويل آي القرآن الجزء الأول (الطبعة الأولى). القاهرة - مصر. دار هجر للطباعة والنشر صفحة 135 - 146. شمس الدين القرطبي، تحقيق عبد الله بن عبد المحسن التركي (1422 هـ - 2001م). تفسير الطبري جامع البيان عن تأويل آي القرآن الجزء الأول (الطبعة الأولى). القاهرة - مصر. دار هجر للطباعة والنشر صفحة 146 - 158 شمس الدين القرطبي، تحقيق عبد الله بن عبد المحسن التركي (1422 هـ - 2001م). تفسير الطبري جامع البيان عن تأويل آي القرآن الجزء الأول (الطبعة الأولى). القاهرة - مصر. دار هجر للطباعة والنشر صفحة 159 - 164. شمس الدين القرطبي، تحقيق عبد الله بن عبد المحسن التركي (1422 هـ - 2001م). تفسير الطبري جامع البيان عن تأويل آي القرآن الجزء الأول (الطبعة الأولى). القاهرة - مصر. دار هجر للطباعة والنشر صفحة 165 - 175. شمس الدين القرطبي، تحقيق عبد الله بن عبد المحسن التركي (1422 هـ - 2001م). تفسير الطبري جامع البيان عن تأويل آي القرآن الجزء الأول (الطبعة الأولى). القاهرة - مصر. دار هجر للطباعة والنشر صفحة 176 - 203. أثر اختلاف الإعراب في تفسير القرآن، دراسة تطبيقية في سورة الفاتحة والبقرة وآل عمران والنساء، رسالة ماجستير، هديل محمد عطية - يوسف المنيراوي (1430 هـ - 2009م) كلية أصول الدين بالجامعة الإسلامية. غزة - فلسطين. صفحة 23. شمس الدين القرطبي، تحقيق عبد الله بن عبد المحسن التركي (1422 هـ - 2001م). تفسير الطبري جامع البيان عن تأويل آي القرآن الجزء الأول (الطبعة الأولى). القاهرة - مصر. دار هجر للطباعة والنشر صفحة 181 أثر اختلاف الإعراب في تفسير القرآن، دراسة تطبيقية في سورة الفاتحة والبقرة وآل عمران والنساء، رسالة ماجستير، هديل محمد عطية - يوسف المنيراوي (1430 هـ - 2009م) كلية أصول الدين بالجامعة الإسلامية. غزة - فلسطين. صفحة 38. ظهور القراءات السبع ودخولها إلى الأقطار المغربية وزارة الشؤون الإسلامية المغربية، 21 أكتوبر 2013. وصل لهذا المسار في 26 يوليو 2016 نسخة محفوظة 5 أكتوبر 2018 على موقع واي باك مشين. دراسات عربية وإسلامية، التوجه النحوي للقراءات القرانية في سورة الفاتحة (يناير 2015م). عبد الباقي محمد البرير يوسف (العدد 12). الرياض - السعودية. جامعة الملك سعود صفحة 130 أسباب اختلاف القراء في القراءات القرآنية إسلام ويب موقع المقالات، 19 يناير 2004. وصل لهذا المسار في 26 يوليو 2016 "نسخة مؤرشفة"، مؤرشف من الأصل في 24 نوفمبر 2016، اطلع عليه بتاريخ 29 يوليو 2016. كتاب التحرير والتنوير لابن عاشور المقدمة السادسة في القراءات المكتبة الإسلامية. وصل لهذا المسار في 26 يوليو 2016 نسخة محفوظة 05 سبتمبر 2017 على موقع واي باك مشين. اختلاف القراءات في سورة الفاتحة وأثره في المعنى، رسالة ماجستير، زريدة أعيزة النعمة (1429 هـ - 2008م) كلية أصول العلوم الإنسانية والثقافة بالجامعة الإسلامية بمالانج. جاوة الشرقية - إندونيسيا. صفحة 69 دراسات عربية وإسلامية، التوجه النحوي للقراءات القرانية في سورة الفاتحة (يناير 2015م). عبد الباقي محمد البرير يوسف (العدد 12). الرياض - السعودية. جامعة الملك سعود صفحة 137 - 143 علم المناسبات في القرآن موقع محمد بن عبد العزيز الخضير، 25 أغسطس 2014. وصل لهذا المسار في 25 يوليو 2016 نسخة محفوظة 19 فبراير 2019 على موقع واي باك مشين. علم المناسبات في القرآن الكريم شبكة الألوكة، 30 أكتوبر 2010. وصل لهذا المسار في 25 يوليو 2016 نسخة محفوظة 20 سبتمبر 2017 على موقع واي باك مشين. الموسوعة الحديثية، أخرجه مسلم (395) واللفظ له، وأبو داود (821)، والترمذي (2953)، والنسائي (909)، وابن ماجه (838)، وأحمد (7291) وابن عبد البر في الاستذكار (4/190) بإختلاف يسير جلال الدين السيوطي، تحقيق محمد بن عمر بن سالم بازمول (1423 هـ - 2002م). علم المناسبات في السور والآيات (الطبعة الأولى). مكة - السعودية. المكتبة المكية صفحة 195 - 196 جلال الدين السيوطي، تحقيق عبد القادر أحمد عطا (1406 هـ - 1986م). تناسق الدرر في تناسب السور (الطبعة الأولى). بيروت - لبنان. دار الكتب العلمية صفحة 62 ابتسام عمر العمودي (1436 هـ - 2015م). المختارات من المناسبات بين السور والآيات (الطبعة الأولى). الرياض - السعودية. مركز تدبر للدراسات والاستشارات صفحة 15 جلال الدين السيوطي، تحقيق عبد القادر أحمد عطا (1406 هـ - 1986م). تناسق الدرر في تناسب السور (الطبعة الأولى). بيروت - لبنان. دار الكتب العلمية صفحة 63 تفسير الألوسي تفسير سورة البقرة المكتبة الإسلامية. وصل لهذا المسار في 25 يوليو 2016 نسخة محفوظة 22 أغسطس 2016 على موقع واي باك مشين. محمد بن عبد الوهاب، تحقيق فهد بن عبد الرحمن بن سليمان الرومي (1407 هـ). تفسير الفاتحة (الطبعة الأولى). الرياض - السعودية. مكتبة الحرمين صفحة 42 سليمان بن إبراهيم الاحم (1420 هـ - 1999م). اللباب في تفسير الاستعاذة والبسملة وفاتحة الكتاب (الطبعة الأولى). الرياض - السعودية. دار المسلم للنشر والتوزيع صفحة 14 - 21. ابن كثير، تحقيق سامي بن محمد سلامة (1420 هـ - 1999م). تفسير ابن كثير الجزء الأول (الطبعة الثانية). الرياض - السعودية. دار طيبة للنشر والتوزيع صفحة 111 ابن كثير، تحقيق سامي بن محمد سلامة (1420 هـ - 1999م). تفسير ابن كثير الجزء الأول (الطبعة الثانية). الرياض - السعودية. دار طيبة للنشر والتوزيع صفحة 113. عبد الله بن علي بصفر (1427 هـ - 2006م). تأملات في سورة الفاتحة (الطبعة الثانية). جدة - السعودية. دار نور المكتبات صفحة 8 - 9 سليمان بن إبراهيم اللاحم (1420 هـ - 1999م). اللباب في تفسير الاستعاذة والبسملة وفاتحة الكتاب (الطبعة الأولى). الرياض - السعودية. دار المسلم للنشر والتوزيع صفحة 53 - 56 أجزاء من مجلدات مفتاح الإتقان: الاستعاذة والبسملة مفتاح تجويد القرآن الكريم. وصل لهذا المسار في 27 يوليو 2016 نسخة محفوظة 9 يونيو 2019 على موقع واي باك مشين. أبو الحسنات محمد عبد الحي، تحقيق صلاح محمد سالم أبو الحاج (1406 هـ - 2002م). أحكام القنطرة في أحكام البسملة (الطبعة الأولى). عمان - الأردن. دار البشير صفحة 25 أبو شامة المقدسي، تحقيق عدنان بن عبد الرزاق الحموي الغلبي (1425 هـ - 2004م). كتاب البسملة (الطبعة الأولى). أبوظبي - الإمارات العربية المتحدة. المجمع الثقافي صفحة 109 سورة الفاتحة دراسة موضوعية، رسالة ماجستير، بسام رضوان شحادة عليان (1429 هـ - 2008م) كلية أصول الدين بالجامعة الإسلامية. غزة - فلسطين. صفحة 151 - 157 أبو الحسنات محمد عبد الحي، تحقيق صلاح محمد سالم أبو الحاج (1406 هـ - 2002م). أحكام القنطرة في أحكام البسملة (الطبعة الأولى). عمان - الأردن. دار البشير صفحة 26 - 53 مجلة جامعة أم القرى لعلوم الشریعة واللغة العربية وآدابها، الخلاف الأصولي في قرآنية البسملة وأثره في الأحكام (1425 هـ). د. موسى بن علي فقيهي (الجزء 20). مكة المكرمة - السعودية. جامعة أم القرى صفحة 178 - 179 عبد الله بن علي بصفر (1427 هـ - 2006م). تأملات في سورة الفاتحة (الطبعة الثانية). جدة - السعودية. دار نور المكتبات صفحة 16 مجلة الجامعة الإسلامية، القواعد الأصولية المؤثرة في حكم قراءة الفاتحة في الصلاة. د.ترحيب بن ربيعان الدوسري (العدد 150). المدينة المنورة - السعودية. الجامعة الإسلامية صفحة 344 - 356 مجلة الحجاز العالمية المحكمة للدراسات الإسلامية والعربية، أرجح الكلام في قراءة المأموم سورة الفاتحة خلف الإمام (1434 هـ 2013م). محمد بن عبدالله بن عمر حلواني (العدد 2). جدة - السعودية. جامعة الملك عبد العزيز صفحة 131 - 158 حكم قراءة الفاتحة للمأموم، حذيفة بن قاسم بن أحمد حمراني خواجي. كلية الشريعة والقانون بجامعة جازان. جازان - السعودية. صفحة 15 - 25 ابن عطية الأندلسي، تحقيق عبد السلام عبد الشافي محمد (1422 هـ - 2001م). المحرر الوجيز في تفسير الكتاب العزيز (الطبعة الأولى الجزء الأول). بيروت - لبنان. دار الكتب العلمية صفحة 79 كتاب تفسير القرطبي الجزء الأول صفحة 127 الموسوعة الشاملة. وصل لهذا المسار في 31 يوليو 2016 نسخة محفوظة 16 أغسطس 2016 على موقع واي باك مشين. ابن كثير، تحقيق سامي بن محمد سلامة (1420 هـ - 1999م). تفسير ابن كثير الجزء الأول (الطبعة الثانية). الرياض - السعودية. دار طيبة للنشر والتوزيع صفحة 144 سورة الفاتحة دراسة موضوعية، رسالة ماجستير، بسام رضوان شحادة عليان (1429 هـ - 2008م) كلية أصول الدين بالجامعة الإسلامية. غزة - فلسطين. صفحة 166 - 167 عبد الله بن علي بصفر (1427 هـ - 2006م). تأملات في سورة الفاتحة (الطبعة الثانية). جدة - السعودية. دار نور المكتبات صفحة 142 - 147 كيفية المدّ في " آمين " الإسلام سؤال وجواب. وصل لهذا المسار في 26 يوليو 2016 نسخة محفوظة 16 أغسطس 2016 على موقع واي باك مشين. سليمان بن إبراهيم اللاحم (1420 هـ - 1999م). اللباب في تفسير الاستعاذة والبسملة وفاتحة الكتاب (الطبعة الأولى). الرياض - السعودية. دار المسلم للنشر والتوزيع صفحة 435 - 436 قراءة الفاتحة في صلاة الجنازة مستحبة لا واجبة المكتبة الإسلامية مركز الفتاوى، 30 أبريل 2003. وصل لهذا المسار في 27 يوليو 2016 "نسخة مؤرشفة"، مؤرشف من الأصل في 14 مايو 2017، اطلع عليه بتاريخ 29 يوليو 2016. ما صح وما لم يصح في فضائل سورة الفاتحة شبكة صيد الفوائد. وصل لهذا المسار في 25 يوليو 2016 نسخة محفوظة 09 أكتوبر 2017 على موقع واي باك مشين. من فضائل سورة الفاتحة والدروس المستفادة منها إسلام ويب مركز الفتاوى. وصل لهذا المسار في 25 يوليو 2016 نسخة محفوظة 29 سبتمبر 2018 على موقع واي باك مشين. سورة الفاتحة دراسة موضوعية، رسالة ماجستير، بسام رضوان شحادة عليان (1429 هـ - 2008م) كلية أصول الدين بالجامعة الإسلامية. غزة - فلسطين. صفحة 17 تفسير القرطبي سورة الفاتحة المكتبة الإسلامية. وصل لهذا المسار في 25 يوليو 2016 نسخة محفوظة 22 أغسطس 2016 على موقع واي باك مشين. تفسير القرطبي الباب الأول في فضائلها وأسمائها المكتبة الإسلامية. وصل لهذا المسار في 25 يوليو 2016 نسخة محفوظة 22 أغسطس 2016 على موقع واي باك مشين. نظم الدرر في تناسب الآيات والسور سورة الفاتحة المكتبة الإسلامية. وصل لهذا المسار في 25 يوليو 2016 نسخة محفوظة 22 أغسطس 2016 على موقع واي باك مشين. عبد الرزاق بن عبد المحسن البدر (1434 هـ - 2013م). من هدايات سورة الفاتحة (الطبعة الأولى). الرياض - السعودية. صفحة 7 عبد الرزاق بن عبد المحسن البدر (1434 هـ - 2013م). من هدايات سورة الفاتحة (الطبعة الأولى). الرياض - السعودية. صفحة 8 حسين نصر، قرآن الدراسة، ص4 حسين نصر، قرآن الدراسة، ص12