https://follow.it/amir-samdani?action=followPub

Tuesday 22 November 2022

داڑھی کی شرعی حیثیت

داڑھی تمام انبیائے کرام علیہم الصلوات والتسلیمات کی سنت، مسلمانوں کا قومی شعار اور مرد کی فطری اور طبعی چیزوں میں سے ہے، ا سی لیے رسول اللہ ﷺ نے اس شعار کو اپنانے کے لیے اپنی امت کو ہدایات دی ہیں اور اس کے رکھنے کا حکم دیا ہے، اس لیے جمہور علمائے امت کے نزدیک داڑھی رکھنا واجب اور اس کو کترواکریا منڈوا کر ایک مشت سےکم کرنا حرام ہے اور کبیرہ گناہ ہے۔اور اس کا مرتکب فاسق اور گناہ گار ہے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے "امام مسلم" اور اصحابِ سنن نے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : دس چیزیں فطرت میں سے ہیں ( پیدائشی سنت ہیں) : ایک تو مونچھ خوب کتروانا، دوسری داڑھی چھوڑنا، تیسری مسواک کرنا، چوتھی پانی سے ناک صاف کرنا، پانچویں ناخن کا ٹنا، چھٹی انگلیوں کے جوڑوں کو دھونا، ساتویں بغل کے بال اُکھاڑنا، آٹھویں زیرِ ناف کے بال مونڈنا، نویں پانی سے استنجا کرنا۔ زکریاؒ روای کہتے ہیں کہ مصعبؒ نے کہا: میں دسویں چیز بھول گیا، مگر یہ کہ یہ کلی ہوگی۔ "عن عائشة، قالت: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " عشر من الفطرة: قص الشارب، وإعفاء اللحية، والسواك، واستنشاق الماء، وقص الأظفار، وغسل البراجم، ونتف الإبط، وحلق العانة، وانتقاص الماء " قال زكريا: قال مصعب: ونسيت العاشرة إلا أن تكون المضمضة". (صحيح مسلم ۔1/ 223) حضرت انس رضی اللہ عنہ سے "بزار" نے روایت کیا ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: مجوسیوں کی مخالفت کرتے ہوئے اپنی مونچھیں کاٹو اور داڑھیاں بڑھاؤ۔ "عن أنس أن النبي صلى الله عليه وسلم قال: خالفوا على المجوس جزوا الشوارب وأوفوا اللحى". (مسند البزار = البحر الزخار ۔13/ 90) حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: مونچھیں کاٹو اور داڑھیاں بڑھاؤ، مجوسیوں کی مخالفت کرو۔ " عن أبي هریرة رضي اللّٰه عنه قال: قال رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیه وسلم: جُزُّوا الشوارب، وأرخوا اللحی، خالِفوا المجوس". (صحیح مسلم، کتاب الطهارة / باب خصال الفطرة ۱؍۱۲۹رقم:۲۶۰بیت الأفکار الدولیة) مذکورہ بالا احادیث میں صراحت سے داڑھی کے بڑھانے کا حکم ہے، اور رسول اللہ ﷺ کے صریح حکم کی خلاف ورزی ناجائز اور حرام ہے۔ اسی معنی کی مزید احادیث درج ذیل ہیں۔ يه عن ابن عمر رضي اﷲ عنهما قال: قال رسول اﷲ صلی اﷲ علیه وسلم: أحفوا الشوارب وأعفوا اللحی". ( جامع الترمذي، أبواب الأدب، باب ماجاء في إعفاء اللحیة، النسخة الهندیة ۲/ ۱۰۵، دارالسلام رقم:۲۷۶۳) سنن أبی داؤد شریف، کتاب الطهارة، باب السواک من الفطرة، النسخة الهندیة ۱/ ۸، دارالسلام رقم:۵۳. "وعن ابن عمر رضي اللّٰه عنهما قال: قال رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیه وسلم: انهکوا الشوارب وأعفوا اللحی". (صحیح البخاري، کتاب اللباس / باب إعفاء اللحی۲؍۸۷۵رقم:۵۸۹۳دار الفکر بیروت) نیز داڑھی منڈوانا ایسا جرم ہے کہ اس کی حرمت پر ساری امت کا اجماع ہے، امت کا ایک فرد بھی اس قبیح فعل کے جواز کاقائل نہیں ہے۔ سنن ابو داوٴد کے شارح صاحب "المنہل العذب المورود“ علامہ سبکی رحمہ اللہ نے لکھا ہے: داڑھی کا منڈانا سب ائمہ مجتہدین امام ابو حنیفہ ،امام مالک، امام شافعی، امام احمد بن حنبل وغیرہ رحمہم اللہ تعالیٰ کے نزدیک حرام ہے۔ ”کان حلق اللحیة محرّماً عند ائمة المسلمین المجتهدین أبي حنیفة، ومالک، والشافعي، وأحمد وغیرهم -رحمهم الله تعالیٰ-“. (المنہل العذب المورود، کتاب الطہارۃ، أقوال العلماء فی حلق اللحیۃ واتفاقہم علی حرمتہ: 1/186، موٴسسۃالتاریخ العربی، بیروت، لبنان) حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی صاحب رحمہ اللہ ”بوادر النوادر “ میں لکھتے ہیں: ”قال العلائي في کتاب الصوم قبیل فصل العوارض: ”إن الأخذ من اللحیة، وهي دون القبضة، کما یفعله بعضُ المغارِبة ومُخَنَّثة الرجالِ، لَم یُبِحْه أحدٌ، وأَخْذُ کلِّها فعلُ الیهود والهنودِ ومَجوس الأعاجِم․ اهـ“ فحیثُ أَدْمَن علی فعلِ هذا المحرَّمِ یفسُقُ، وإن لم یکن ممن یستخفونه ولا یعُدُّونَه قادحاً للعدالة والمروة، إلخ“․ (تنقیح الفتاویٰ الحامدیۃ، کتاب الشھادۃ: 4/238، مکتبۃ رشیدیۃ، کوئٹۃ) قلت(الأحقر): قوله:”لم یبحه أحد“ نصٌّ في الإجماع، فقط“․ (بوادر النوادر، پچپنواں نادرہ در اجماع بر حرمت اخذ لحیہ دون القبضہ،ص: 443،ادارہ اسلامیات لاہور) علامہ علائی رحمہ اللہ کی مذکورہ عبارت کے آخر میں حضرت مولانا اشرف علی تھانوی صاحب رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ: علامہ حصکفی رحمہ اللہ کا قول: ”لَمْ یُبِحْہ أحدٌ“داڑھی منڈانے کی حرمت پر اجماع کی صریح دلیل ہے۔ علامہ انور شاہ کشمیری رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ”وأما تقصیرُ اللحیة بحیثُ تصیرُ قصیرة من القبضة، فغیرُ جائزٍ فی المذاهب الأربعة“․ (العرف الشذی، کتاب الآداب، باب ما جاء فی تقلیم الأظفار، 4/162، دار الکتب العلمیۃ) نیز اس کے صاف کرنے/ مشت سے کم کاٹنے کی حرمت اشارۃً قرآن مجید میں بھی موجود ہے، قرآن پاک میں اللہ تعالی نے تغییر خلقِ اللہ یعنی انسانی اعضاء میں اللہ تعالی کی بنائی ہوئی تخلیق میں تبدیلیاں کرنے سے منع فرمایا ہے۔ ارشاد ہے: ﴿ وَلَأُضِلَّنَّهُمْ وَلَأُمَنِّيَنَّهُمْ وَلَاٰمُرَنَّهُمْ فَلَيُبَتِّكُنَّ اٰذَانَ الْأَنْعَامِ وَلَاٰمُرَنَّهُمْ فَلَيُغَيِّرُنَّ خَلْقَ اللَّهِ وَمَنْ يَتَّخِذِ الشَّيْطٰنَ وَلِيًّا مِّنْ دُوْنِ اللّٰهِ فَقَدْ خَسِرَ خُسْرَانًا مُبِينًا﴾ [النساء:119] ترجمہ:اور میں ان کو گم راہ کروں گا اور میں ان کو ہوسیں دلاؤں گا اور میں ان کو تعلیم دوں گا جس میں وہ چوپایوں کے کانوں کو تراشا کریں گے اور میں ان کو تعلیم دوں گا جس سے وہ اللہ تعالیٰ کی بنائی ہوئی صورت کو بگاڑا کریں گے اور جو شخص خدا تعالیٰ کو چھوڑ کر شیطان کو اپنا رفیق بناوے گا وہ صریح نقصان میں واقع ہوگا۔ يه بات بھی قرآنِ مجید اور احادیثِ نبویہ میں صراحتاً اور اشارۃً موجود ہے کہ مسلمان اہلِ علم کا اجماع/ اتفاق مستقل حجتِ شرعیہ ہے، یعنی اگر قرآن وحدیث میں کوئی حکم صراحتاً موجود نہ ہو ،لیکن صحابہ کرام یا قرونِ اولیٰ کے اہلِ علم کسی آیت یا حدیث کی مراد پر متفق ہوجائیں تو یہ اجماع خود حجتِ شرعیہ ہے، اس اجماع سے ہی حکم کا درجہ متعین ہوجاتاہے، جب تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ، تابعین وتبع تابعین اورفقہاء مجتہدین رحمہم اللہ قرآن وحدیث سے ایک مسئلے (داڑھی صاف کرنے یا ایک مشت سے کم کرنے ) کا حکم سمجھ کر اس کے درجے پر متفق ہیں تو ان حضرات کا اجماع ہی اس کی حرمت کی دلیل ہے، خواہ قرآن مجید اور احادیثِ نبویہ میں صراحتاً حرمت نہ بھی موجود ہو۔ چہ جائے کہ داڑھی بڑھانے کے وجوب پر صراحتاً دلالت کرنے والی احادیث موجود ہیں جن کی جانبِ مخالف (واجب کو ترک کرنا) حرام ہے۔ نیز ڈاڑھی منڈوانا درج ذیل گناہوں کا مجموعہ ہے: (1) نبی کریم ﷺ کے حکم کی مخالفت۔ (2) انبیاء کرام کی سنت اور فطرت کی مخالفت۔ (3)اس گناہ کا اعلانیہ ہونا کہ ڈاڑھی ایسا گناہ ہے جو لوگوں کی نظروں سے پوشیدہ نہیں رہ سکتا، اور گناہ کی تشہیر خود ایک گناہ ہے۔ (4) اللہ کی فطری بنائی ہوئی خلقت میں تبدیلی اور مثلہ (چہرہ بگاڑنے) کا گناہ ۔ (5) کافروں سے مشابہت ۔(6) خواتین کے ساتھ تشبہ، اور مردوں کے لیے ایسا عمل جس سے خواتین کے ساتھ مشابہت حدیث کی رو سے موجبِ لعنت ہے ۔ (7) مخنثین اور ہیجڑوں سے مشابہت ۔(8) گناہ کا تسلسل اور استمرار۔یعنی جب تک انسان اس عمل کا مرتکب رہتا ہے اس وقت تک اس کا گناہ برابر جاری رہتا ہے۔ (9) اسلامی اور دینی شعائر کی خلاف ورزی۔ ڈاڑھی کے شرعی حکم سے متعلق حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی صاحب رحمہ اللہ کے افادات میں ہے: " داڑھی قبضہ (ایک مشت) سے کم کرانا حرام ہے، بلکہ یہ دوسرے کبیرہ گناہوں سے بھی بدتر ہے؛ اس لیے اس کے اعلانیہ ہونے کی وجہ سے اس میں دینِ اسلام کی کھلی توہین ہے اور اعلانیہ گناہ کرنے والے معافی کے لائق نہیں، اور ڈاڑھی کٹانے کا گناہ ہر وقت ساتھ لگا ہوا ہے حتی کے نماز وغیرہ عبادات میں مشغول ہونے کی حالت میں بھی اس گناہ میں مبتلا ہے"۔( "ڈاڑھی منڈانا کبیرہ گناہ اور اس کا اس کا مذاق اڑانا کفر ہے"ص 10،مکتبہ حکیم الامت) مذکورہ بالا تمام تفصیلات سے یقیناً آپ کے سامنے شرعی حکم واضح ہوگیا ہوگا، اور آپ کی تسلی بھی ہوگئی ہوگی، اور اگر مزید تفصیل چاہتے ہیں تو اس پر مستقل رسالے اور کتابیں لکھی گئی ہیں ، مفتی اعظم پاکستان مفتی شفیع صاحب رحمہ اللہ کا ڈاڑھی کے احکام سے متعلق رسالہ "جواہر الفقہ" 7 جلد میں موجود ہے، اسی طرح حکیم الامت تھانوی صاحب کے افادات "ڈاڑھی منڈانا کبیرہ گناہ اور اس کا اس کا مذاق اڑانا کفر ہے" ، اور حضرت مولانا حسین احمد مدنی رحمہ اللہ اور مولانا قاری طیب صاحب رحمہ اللہ کے رسالوں کا مطالعہ کیجیے۔ باقی داڑھی منڈوانے والے جہنم کے چوتھے درجے میں ہوں گے، یہ بات ہمیں نہیں مل سکی۔

Friday 18 November 2022

بلی کی خرید و فروخت جائز ہے کہ نہیں

بلی کی خرید و فروخت مطلقاً جائز ہے۔ الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (5/ 68): ’’لكن في الخانية: بيع الكلب المعلم عندنا جائز، وكذا السنور، وسباع الوحش والطير جائز معلماً أو غير معلم‘‘. الفتاوى الهندية (3/ 114): ’’بيع الكلب المعلم عندنا جائز، وكذلك بيع السنور وسباع الوحش والطير جائز عندنا معلماً كان أو لم يكن، كذا في فتاوى قاضي خان‘‘. الفتاوى الهندية (3/ 114): ’’وبيع الكلب غير المعلم يجوز إذا كان قابلاً للتعليم وإلا فلا، وهو الصحيح، كذا في جواهر الأخلاطي‘

Monday 14 November 2022

عید الاضحٰی کے دن سب سے پہلے کلیجی کھاناسنت ہے کہ نہیں

حدیث مبارک میں یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺقربانی کے جانور میں سے ابتداءً کلیجی تناول فرماتے تھے، لہذا اتباع کی نیت سے اس پر عمل کرسکتے ہیں، البتہ کلیجی نہ ملے تو قربانی کے گوشت سے کھانے کا آغاز کرنے سے بھی استحباب حاصل ہوجائے گا۔ السنن الکبری للبیهقي: "عَن بُرَيْدَةَ رَضيَ الله عنه قَالَ : كَانَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا كَانَ يَوْمُ الْفِطْرِ لَمْ يَخْرُجْ حَتَّى يَأْكُلَ شَيْئًا، وَإِذَا كَانَ الْأَضْحَى لَمْ يَأْكُلْ شَيْئًا حَتَّى يَرْجِعَ، وَكَانَ إِذَا رَجَعَ أَكَلَ مِنْ كَبِدِ أُضْحِيَتِه". (السنن الكبرى للبيهقي، كتاب صلاة العيدين، باب يترك الأكل يوم النحر حتى يرجع: ٣/ ۴۰١) ترجمہ :حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ عیدالفطر کے دن اپنے گھر سے کچھ کھائے پیے بغیر نہیں نکلتے تھے، اور عیدالاضحی کے دن نماز عید سے فارغ ہو کر آنے تک کچھ کھاتے پیتے نہ تھے،اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم قربانی کے جانور میں سے ابتدا کلیجی تناول فرمانے سے کرتے تھے۔ "فمن كانت له أضحية، فقد اتفق الفقهاء على أنه يسنّ له تأخير الفطر يوم النحر، والإمساك عن الأكل ليفطر على كبد أضحيته؛ لما ورد عن بريدة -رضي الله تعالى عنه- قال: كان النبي صلى الله عليه وسلم لايخرج يوم الفطر حتى يفطر، ولايطعم يوم الأضحى حتى يصلي، وفي رواية: ولايأكل يوم النحر حتى يذبح، ولأن في الأضحى شرعت الأضحية والأكل منها، فاستحب أن يكون الفطر على شيء منها". (الموسوعة الفقهیة الکوتیة، ج:45، صفحة:341)

نبئ کریم صلی اللہ علیہ والہ و سلم نے کلیجی کھائی تھی کہ نہیں

آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا اونٹ کی کلیجی تناول فرمانا لما جاء فی صحیح المسلم: " روی عن سلمۃ ابن الاکوع رضی اللہ عنہ... وَإِذَا بِلَالٌ نَحَرَ نَاقَةً مِنَ الْإِبِلِ الَّذِي اسْتَنْقَذْتُ مِنَ الْقَوْمِ ، وَإِذَا هُوَ يَشْوِي لِرَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ كَبِدِهَا وَسَنَامِهَا ...". ( صحيح المسلم ، كتاب الجهاد والسير ، باب غزوة ذي قَرَد: ٣/ ١۴٣٨ رقم الحدیث: ١٨۰٧) ترجمہ : حضرت سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ سے روایت ہے: حضرت بلالؓ نے ان اونٹوں میں سےجو میں نے لٹیروں سے چھینے تھے(چھڑائے تھے) ایک اونٹ کو ذبح کیا، اور اس کی کلیجی اور کوہان کو رسول اللہ کے لئے بھونا۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا عید الاضحی کے دن قربانی کے جانور کی کلیجی سے ابتدا فرمانا: وفی السنن الکبری للبیہقی: "عَن بُرَيْدَةَ رَضيَ الله عنه قَالَ : كَانَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا كَانَ يَوْمُ الْفِطْرِ لَمْ يَخْرُجْ حَتَّى يَأْكُلَ شَيْئًا , وَإِذَا كَانَ الْأَضْحَى لَمْ يَأْكُلْ شَيْئًا حَتَّى يَرْجِعَ , وَكَانَ إِذَا رَجَعَ أَكَلَ مِنْ كَبِدِ أُضْحِيَتِه " . (السنن الكبرى للبيهقي ، كتاب صلاة العيدين ، باب يترك الأكل يوم النحر حتى يرجع: ٣/ ۴۰١) ترجمہ : حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ عیدالفطر کے دن اپنے گھر سے کچھ کھائے پئے بغیر نہیں نکلتے تھے، اور عیدالاضحی کے دن نماز عید سے فارغ ہو کر آنے تک کچھ کھاتے پیتے نہ تھے،اور آپ قربانی کے جانور میں سے ابتداء کلیجی تناول فرمانے سے کرتے تھے۔ نے اس کے ذکر پر اقتصار بھی کیا ہے، تو اگرکلیجی کا احتمال قوی کہا جائے تو غلط نہیں ہوگا۔ (بطن الشاة)کےسلسلہ میں دو روایات ہیں : ۱ ۔ حضرت ابو رافع رضی اللہ عنہ کی روایت : عَنْ أَبِي رَافِعٍ قَالَ : « أَشْهَدُ لَكُنْتُ أَشْوِي لِرَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَطْنَ الشَّاةِ ، ثُمَّ صَلَّى وَلَمْ يَتَوَضَّأْ » . صحيح مسلم حديث 357 (1/ 274) عَنْ أَبِي رَافِعٍ قَالَ: « كُنْتُ أَشْوِي لِرَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَطْنَ الشَّاةِ، وَقَدْ تَوَضَّأَ لِلصَّلَاةِ ، فَيَأْكُلُ مِنْهُ ، ثُمَّ يَخْرُجُ إِلَى الصَّلَاةِ، وَلَا يَتَوَضَّأُ » . السنن الكبرى للنسائي ، حديث 6627 (6/ 230) . عَنْ أَبِي رَافِعٍ، مَوْلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ : ذَبَحْتُ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ شَاةً « فَأَمَرَنِي فَقَلَيْتُ لَهُ مِنْ بَطْنِهَا ، فَأَكَلَ مِنْهُ ، ثُمَّ قَامَ فَصَلَّى ، وَلَمْ يَتَوَضَّأْ » . مسند أحمد 23868 . ترجمہ : حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے آزاد کردہ غلام حضرت ابو رافع رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ : اس بات کی قسم کھاتا ہوں کہ میں سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے بکری کا پیٹ ( یعنی پیٹ کے اندر کی چیزیں مثلا دل ،کلیجی وغیرہ) بھونتا تھا ، آپ اس سے کھا تے تھے ، پھر نماز کے لئے کھڑے ہوجاتے اور وضو نہ کرتے ۔ شراح حدیث کے اقوال : عن أبي رافع قوله : ((بطن الشاة)) يعني الكبد وما معها من القلب وغيرهما. شرح المشكاة للطيبي الكاشف عن حقائق السنن (3/ 765) (لقد كنت أشوي لرَسُول الله صلى الله عَلَيْهِ وَسلم بطن الشَّاة، ثمَّ صلى وَلم يتَوَضَّأ ) المُرَاد بِبَطْنِهَا مَا فِي الْبَطن من الكبد وَغَيره. كشف المشكل من حديث الصحيحين (4/ 33) (عَنْ أَبِي رَافِعٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ : أَشْهَدُ لَكُنْتُ أَشْوِي لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَطْنَ الشَّاةِ ثُمَّ صَلَّى وَلَمْ يَتَوَضَّأْ ) وَقَوْلُهُ ( بَطْنَ الشَّاةِ ) يَعْنِي الْكَبِدَ وَمَا مَعَهُ مِنْ حَشْوِهَا ، وَفِي الْكَلَامِ حَذْفٌ تَقْدِيرُهُ : أَشْوِي بَطْنَ الشاة فيأكل منه ثم يصلي ولايتوضأ ، وَاللَّهُ أَعْلَمُ . شرح النووي على مسلم (4/ 46) ( بَطْنَ الشَّاةِ ) : يَعْنِي الْكَبِدَ وَالطِّحَالَ وَمَا مَعَهُمَا مِنَ الْقَلْبِ وَغَيْرِهِمَا . مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح (1/ 369) ۲ ۔ حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا کی روایت : 384 - عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْمُنْكَدِرِ، قَالَ: دَخَلْتُ عَلَى فُلَانَةَ بَعْضِ أَزْوَاجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، قَالَتْ: " دَخَلَ عَلَيَّ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَعِنْدِي بَطْنٌ مُعَلَّقٌ فَقَالَ: لَوْ طَبَخْتِ لَنَا مِنْ هَذَا الْبَطْنِ كَذَا وَكَذَا. قَالَتْ: فَصَنَعْنَاهُ فَأَكَلَ , وَلَمْ يَتَوَضَّأْ " شرح معاني الآثار (1/ 65) ترجمہ : حضرت محمد بن منکدر تابعی فرماتے ہیں کہ : میں ازواج مطہرات میں سے کسی کے پاس گیا تو انہوں نے مجھے بتایا کہ : ہمارے پاس حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور ہمارے یہاں بکری کے پیٹ کا حصہ لٹکا ہوا تھا ، آپ نے فرمایا : اگر اس میں سے ہمارے لئے پکا دو تو کتنا اچھا ہو ( ہم کھالیں ) چنانچہ ہم نے اسے پکا دیا ، آپ نے اسے کھایا ۔ قال العيني في : "نخب الأفكار" (2/ 26) : وأراد "بالبطن" ما يحتوي عليه البطن من الأحشاء. الخلاصہ : ۱ ۔مضمون بالا میں پیش کردہ روایات کی روشنی میں پورے وثوق کے ساتھ یہ کہا جاسکتا ہے کہ : آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا کلیجی تناول فرمانامتعدد روایات سے ثابت ہے ، چاہے وہ کلیجی اونٹ کی ہو یا بکری کی ، اس لئے مفتی موصوف کا اس کی نفی کرنا درست نہیں ہے ، جبکہ ان کے پاس نفی کی کوئی دلیل بھی نہیں ہے ۔ ۲ ۔کلیجی کھانے کی نفی کرنے کی جو تعلیل مفتی موصوف نے پیش کی یعنی : حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا نفیس الطبع ہونا ، خوشبو پسند کرنا ، اور ہر قسم کی بدبو سے احتراز کرنا ، یہ بات اجمالاتومسلّم ہے ، لیکن تفصیل میں جاتے ہوئے اس کی بناء پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف بلا دلیل کسی چیز کی پسندیدگی یا نا پسندیدگی کی نسبت کرنا ، روایات کے باب میں بے احتیاطی کی مانند ہے ۔ ۳ ۔ یہ بات بھی درست نہیں ہے کہ ہم حسن وقبح یا صواب وخطا کا کوئی معیار اپنے طور پر مقرر کر کے ، اس خود ساختہ معیار پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو قیاس کرنے کی کوشش کریں ، بلکہ اس باب میں استناد واعتمادصحیح روایات اور اقوال سلف پرہی ہوگا ۔

Friday 11 November 2022

ایک حدیث کے لئے طویل سفر

صحابی رسول حضرت ابوایوب انصاری رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے متعلق ایک نہایت رقت انگیز واقعہ بیان کیا ہے ۔ فرماتے ہیں کہ حضور ِاکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے ایک حدیث انہوں نے سنی تھی اور اتفاق کی بات یہ ہے کہ اس حدیث کے سننے والوں میں مشہور صحابی حضرت عقبہ بن عامر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ بھی تھے ۔ حضور پاک کے وصال شریف کے بعد جب فتوحات کا دائرہ وسیع ہوا اور مصر و شام اور روم و ایران پر اسلامی اقتدار کا پرچم لہرانے لگا تو بہت سے صحابہ حجازِ مقدّس سے مفتوحہ ممالک میں منتقل ہوگئے ۔ انہی لوگوں میں حضرت عقبہ بن عامر بھی تھے جو مصر گئے اور وہیں سکونت پذیر ہوگئے ۔ حضرت ابو ایوب انصاری کو شدہ شدہ کسی طرح یہ معلوم ہوگیا کہ یہ جو حدیث میں نے حضور پاک سے سنی ہے اس کے سننے والوں میں حضرت عقبہ بن عامر بھی ہیں۔ تو صرف اس بات کا جذبۂ اشتیاق کشاں کشاں انہیں مدینے سے مصر لے گیا کہ حضرت عقبہ بن عامر سے اس بات کی توثیق کرکے وہ یہ کہہ سکیں کہ اس حدیث کے دوراوی ہیں ایک میں ہوں دوسرے عقبہ بن عامر ہیں۔ ان کے اس والہانہ سفر کا حال بھی بڑا ہی رقت انگیز اور روح پرور ہے ۔ فرماتے ہیں کہ جذبۂ شوق کی ترنگ میں کہساروں ، وادیوں اور دریائوں کو عبور کرتے ہوئے وہ مصر پہنچے ۔ کبر سنی کا عالم ، دشوار گزار سفر لیکن وارفتگی شوق کی بے خودی میں نہ بڑھاپے کا اضمحلال محسوس ہوا، نہ راستے کی دشواریاں حائل ہوئیں ۔ شب وروز چلتے رہے مہینوں کی مسافت طے کرکے جب مصر پہنچے تو سیدھے مصر کے گورنر حضرت مسلمہ بن مخلد انصاری کی رہائش گاہ پر نزولِ اجلال فرمایا۔ امیرِ مصر نے مراسمِ ملاقات کے بعد دریافت کیا: ’’ ‘مَاجَاء بِکَ یَا أَبَا أَیُّوْبَ؟ کس غرض سے تشریف لانا ہوا ابو ایوب ؟ جواب میں ارشاد فرمایا: ’’ حَدِیْثٌ سَمِعْتُہُ مِنْ رَسُوْلِ اللَّہِ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ لَمْ یَبْقَ أَحَدٌ سَمِعَہُ مِنْ رَسُوْلِ اللَّہِ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ رسولِ پاک صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے میں نے ایک حدیث سنی ہے اور اتفاق کی بات یہ ہے کہ اس حدیثکے سننے والوں میں میرے اور عقبہ بن عامر غَیْرِیْ وَغَیْرُعُقْبَۃَ بْنِ عَامِرٍ فَابْعَثْ مَنْ یَّدُلُّنِیْ عَلَی مَنْزِلِہِ‘‘۔ (1) (معرفۃ علوم الحدیث) کے سوا اب کوئی اس دنیا میں موجود نہیں ہے ۔ پس میرے ساتھ ایک ایسا آدمی لگادو جو مجھے ان کے گھر تک پہنچادے ۔ یعنی مطلب یہ ہے کہ تمہارے پاس میں اس لیے نہیں آیا ہوں کہ تم سے ملنا مقصود تھا بلکہ صرف اس لیے آیا ہوں کہ تم حضرت عقبہ بن عامر کے گھر تک میرے پہنچادینے کا انتظام کردو۔ ایک گدائے عشق کی ذراشانِ استغنا ملاحظہ فرمائیے کہ گورنر کے دروازے پر گئے ہیں لیکن ایک لفظ بھی اس کے حق میں نہیں فرماتے ۔ راوی کا بیان ہے کہ والئی مصر نے ایک جانکار آدمی ساتھ کردیا جو انہیں حضرت عقبہ بن عامر کے دولت کدے تک لے گیا۔ معانقہ کے بعد انہوں نے بھی پہلا سوال یہی کیا: ’’ مَا جَائَ بِکَ یَا أَبَا أَیُّوْبَ؟‘‘ کس غرض سے تشریف لانا ہوا ابو ایوب ؟ جواب میں فرمایا: حَدِیْثٌ سَمِعْتُہُ مِنْ رَسُوْلِ اللَّہِ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ لَمْ یَبْقَ أَحَدٌ سَمِعَہُ مِنْ رَسُوْلِ اللَّہِ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ غَیْرِیْ وَغَیْرُکَ فِیْ سَتْرِالْمُؤْمِنِ قَالَ عُقْبَۃُ نَعَمْ سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللَّہِ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ یَقُوْلُ مَنْ سَتَرَ مُؤْمِناً عَلَی خِزْیِۃٖ سَتَرَہٗ اللَّہُ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ فَقَالَ أَبُوْ أَیُّوبَ صَدَقْتَ۔ ایک حدیث میں نے رسول پاک صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے سنی ہے اور اس کا سننے والا میرے اور آپ کے سوا اب کوئی دنیا میں موجود نہیں ہے اور وہ حدیث مومن کی پردہ پوشی کے بارے میں ہے ۔ حضرت عقبہ نے جواب دیا کہ ہاں حضور اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم سے میں نے یہ حدیث سنی ہے کہ جو کسی رسوائی کی بات پر مومن کی پردہ پوشی کرتا ہے کل قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اس کی پر دہ پوشی فرمائے گا۔ حضر ت ابو ایوب نے فرمایا آپ نے سچ کہا یہی میں نے بھی سنا ہے ۔ اس کے بعد بیان کرتے ہیں: ’’ ثُمَّ انْصَرَفَ أَبُوأَیُّوبَ إِلَی رَاحِلَتِہِ فَرَکِبَھَا اتنا سن کر حضرت ابوایوب اپنی سواری کے پاس آئے رَا جِعاً إِلَی الْمَدِیْنَۃِ ‘‘ سوار ہوئے اور مدینہ کی طرف واپس لوٹ گئے ۔ گویا مصر کے دور دراز سفر کا مقصد اس کے سوا اور کچھ نہیں تھا کہ اپنے کان سے سنی ہو ئی بات دوسرے کی زبان سے سن لیں۔ حدیث دوست کی لذت شناسی کا یہی وہ جذبۂ شوق تھا جس نے مذہب اسلام کو مذہبِ عشق بنادیا ۔ حضرت امام حافظ نیشاپوری نے واقعہ کے خاتمہ پر رقت و گداز میں ڈوبا ہوا اپنا یہ تاثر سپردِ قلم کیا ہے ۔ لکھتے ہیں: ’’ فَھَذَا أَبُوأَیُّوبَ الْاَنْصَارِی عَلَی تَقَدُّمِ صُحْبَتِہِ وَکَثْرَۃِ سَمَاعِہِ مِنْ رَسُوْلِ اللَّہِ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ رَحِلَ إِلَی صَحَابِیٍّ مِنْ أَقْرَانِہِ فِیْ حَدِیْثٍ وَاحِدٍ‘‘۔ (1) یہ ابو ایوب انصاری ہیں جو صحابیت میں اَقدم اور حضور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم سے کثیر الروایۃ ہونے کے باوجود صرف ایک حدیث کے لیے اپنے معاصر سے ملنے گئے اور دور دراز کا سفر کیا ۔ (معرفۃ علوم الحدیث)

طواف زیارت نہیں کیاتوکیاکرے

طوافِ زیارت حج کا دوسرا رکن ہے، اسے ادا کیے بغیر حج مکمل نہیں ہوگا، اور شریعت میں اس کا کوئی بدل نہیں ، لہذا جوشخص طوافِ زیارت نہیں کر سکا اس طرح کہ ایامِ نحر کے شروع ہو نے کے بعد کوئی طواف نہیں کیا تو جب تک خود جاکر طوافِ زیارت نہ کرلے اس کا طواف ادا نہیں ہوگا اور آخری عمر تک اس کی ادائیگی ذمہ میں فرض رہے گی۔ اور جب تک طواف زیارت نہ کرلے اس وقت تک بیوی سے ازدواجی تعلق (صحبت، بوس کنار) اس کے لیے حرام رہتا ہے ، ہاں البتہ اگر اس نے ایامِ نحر شروع ہونے کے بعد طوافِ صدر (وداع) کرلیا ہو، یا طوافِ نذر یا نفلی طواف کیا ہو تو یہ طوافِ زیارت کے قائم مقام ہوجائے گا اور بیوی اس کے لیے حلال ہوجائے گی۔ نیز بارہ ذی الحجہ کے بعد جب بھی وہ طوافِ زیارت کرلے اس کا طواف ادا ہوجائے گا البتہ اس کے ذمہ تاخیر کی وجہ سے ایک دم (چھوٹا جانور یا بڑے جانور میں ایک حصہ) حدودِ حرم میں دینا لازم ہوگا، اور اگر حاجی موت تک طوافِ زیارت نہ کرسکا تو اس پر آخری وقت میں ایک بدنہ (اونٹ یا گائے) حدودِ حرم میں ذبح کرنے کے لیے وصیت کرنا لازم ہوگا۔ اگرچہ اتنی مالی استطاعت نہیں ہے کہ حج پر جاسکےتو بیوی اس کے لیے حرام رہے گی جب تک بذاتِ خود طوافِ زیارت ادا نہ کرے، دیگر خلاصی کی کوئی صورت نہیں ہے۔ بدائع الصنائع(۱۸۹/۳): "ولایکون الحاج محصراً بعد ما وقف بعرفة ویبقی محرماً عن النساء إلی أن یطوف طواف الزیارة". وفیہ ایضاً(ص۸۰): "فصل في حکم الطواف إذا فات: وأما حکمه إذا فات عن أیام النحر فهو أنه لایسقط بل یجب أن یأتي به لأن سائر الأوقات وقته بخلاف الوقوف بعرفة. وقال بعد سطر: ثم إن کان بمکة یأتي به بإحرامه الأول لأنه قائم إذ التحلل بالطواف ولم یوجد وعلیه لتأ خیره عن أیام النحر دم عند أبي حنیفة وإن کان رجع إلی أهله فعلیه أن یرجع إلی مکة بإحرامه الأول ولایحتاج إلی إحرام جدید ومحرم عن النساء إلی أن یعود فیطوف". فتاوی ہندیہ (۲۳۲/۱): "ولو لم یطف أصلاً لم تحل له النساء وإن طال ومضت سنون، وهذا بإجماع، کذا في غایة السروجي شرح الهدایة". فتاوی شامی (۵۱۸/۲): "(قوله: وحل له النساء) أي بعد الرکن منه، وهو أربعة أشواط، بحر، ولو لم یطف أصلاً لایحل له النساء وإن طال ومضت سنون بإجماع، کذا في الهندیة".

حج کے ارکان

حج کے ارکان تین ہیں: 1- احرام یعنی حج اور عمرے کی نیت، 2- میدانِ عرفات میں وقوف، رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے: ’’الْحَجُّ عَرَفَة، مَنْ جَاءَ لَیْلَة جَمْعِِ قَبْلَ طُلُوْعِ الْفَجْرِ فَقَدْ اَدْرَکَ الحَجَّ". (الترمذي:۸۸۹، النسائي: ۳۰۱۶، ابن ماجه: ۳۰۱۵) ترجمہ: ’’حج وقوفِ عرفہ سے عبارت ہے۔ جو شخص مزدلفہ کی رات طلوعِ فجر سے قبل میدانِ عرفات میں آجائے اس کا حج ہوگیا‘‘۔ 3- طوافِ زیارت، [اسی کو طوافِ افاضہ بھی کہتے ہیں]؛ فرمانِ باری تعالی ہے: " وَلْيَطَّوَّفُوا بِالْبَيْتِ الْعَتِيقِ". ترجمہ: اور وہ بیت العتیق کا طواف کریں۔[الحج : 29] بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (2/ 125): "الوقوف بعرفة، وهو الركن الأصلي للحج، والثاني طواف الزيارة". بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (2/ 128): "وأما شرطه وواجباته فشرطه النية، وهو أصل النية دون التعيين حتى لو لم ينو أصلاً بأن طاف هارباً من سبع أو طالباً لغريم لم يجز". الموسوعة الفقهية الكويتية (17/ 49): "الوقوف بعرفة ركن أساسي من أركان الحج، يختص بأنه من فاته فقد فاته الحج. وقد ثبتت ركنية الوقوف بعرفة بالأدلة القاطعة من الكتاب والسنة والإجماع: أما القرآن؛ فقوله تعالى: {ثم أفيضوا من حيث أفاض الناس}. فقد ثبت أنها نزلت تأمر بالوقوف بعرفة. وأما السنة: فعدة أحاديث، أشهرها حديث: الحج عرفة. وأما الإجماع: فقد صرح به عدد من العلماء، وقال ابن رشد: أجمعوا على أنه ركن من أركان الحج، وأنه من فاته فعليه حج قابل". الموسوعة الفقهية الكويتية (17/ 51): "وعدد أشواط الطواف سبعة، وكلها ركن عند الجمهور. وقال الحنفية: الركن هو أكثر السبعة، والباقي واجب ينجبر بالدم". الموسوعة الفقهية الكويتية (2/ 129): "أجمع العلماء على أن الإحرام من فرائض النسك، حجاً كان أو عمرةً، وذلك؛ لقوله صلى الله عليه وسلم: إنما الأعمال بالنيات. متفق عليه. لكن اختلفوا فيه أمن الأركان هو أم من الشروط؟ ... ال

Thursday 10 November 2022

زکات کابہترین مصرف

شریعت کی رو سے جو لوگ بھی مستحق زکاة ہوں آپ انھیں زکاة دے سکتے ہیں، رفاہی اداروں کو دینے میں چونکہ تملیک نہیں پائی جاتی جو ادائیگی زکاة کی اہم اور بنیادی شرط ہے، اس لیے انھیں زکاة دینا جائز نہیں، البتہ مستحقین زکاة میں رشتہ داروں، علمائے کرام، طلبہٴ عظام مقروض اور سخت ضرورت مند لوگوں کو دیگر مستحقین زکاة پر مقدم رکھنا افضل وبہتر ہے، کذا في الدر والرد (۳:۳۰۴)

Tuesday 8 November 2022

خلع میں مہرکی واپسی

اگر میاں بیوی کے درمیان نباہ کی کوئی صورت نہ بن رہی ہو، اور زیادتی بیوی کی جانب سے ہو ، شوہر بے قصور ہو اور وہ خلع لینے پر راضی ہو تو شوہر بدلہ خلع کے طور پر جو سونا مہر میں ادا کیا تھا، وہ واپس لینے کا شرعا حقدار ہوگا، تاہم ادا شدہ مہر سے زائد کا مطالبہ کرنا مکروہ ہوگااور اگر قصور شوہر کا ہو یا دونوں کا ہو (جیسا کہ عام طور پر ہوتا ہے) تو اس صورت میں علیحدگی میں شوہر کے لیے مہر واپس لینا جائز نہیں، بلکہ بیوی کو طلاق دیکر آزاد کرنا چاہئے جس میں مہر بیوی کا ہوگا اور عدت کا نفقہ بھی ان کو ملےگا۔ فتاوی ہندیہ میں ہے: " إذا تشاق الزوجان وخافا أن لا يقيما حدود الله فلا بأس بأن تفتدي نفسها منه بمال يخلعها به فإذا فعلا ذلك وقعت تطليقة بائنة ولزمها المال كذا في الهداية. إن كان النشوز من قبل الزوج فلا يحل له أخذ شيء من العوض على الخلع وهذا حكم الديانة فإن أخذ جاز ذلك في الحكم ولزم حتى لا تملك استرداده كذا في البدائع. وإن كان النشوز من قبلها كرهنا له أن يأخذ أكثر مما أعطاها من المهر ولكن مع هذا يجوز أخذ الزيادة في القضاء كذا في غاية البيان. " ( كتاب الطلاق، الباب الثامن في الخلع وما في حكمه، الفصل الأول في شرائط الخلع وحكمه وما يتعلق به، ١ /٤٨٨، ط: دار الفكر) فتاوی ہندیہ میں ہے: " إزالة ملك النكاح ببدل بلفظ الخلع كذا في فتح القدير." ( كتاب الطلاق، الباب الثامن في الخلع وما في حكمه، الفصل الأول في شرائط الخلع وحكمه وما يتعلق به الخلع، ١ / ٤٨٨، ط: دار الفكر) فتاویٰ شامی میں ہے: " وأما ركنه فهو كما في البدائع: إذا كان بعوض الإيجاب والقبول؛ لأنه عقد على الطلاق بعوض فلاتقع الفرقة ولايستحق العوض بدون القبول". (كتاب الطلاق، باب الخلع، ٣ / ٤٤١، ط: دار الفكر)

زناقرض ہے کیایہ حدیث صحیح ہے

نبی کریم ﷺ سے جب ایک شخص نے زنا کی اجازت مانگی تو آپ ﷺ نے اسے حکمت کے ساتھ منع فرمایا اور اسے اس کی قباحت کا احساس دلاتے ہوئے اس بات کی طرف متوجہ کیا کہ اگر اس کی گھر کی عورتوں کے ساتھ زنا کیا جائے تو اسے کیسا محسوس ہوگا؟ لہذا جس سے بھی زنا کیا جائے گا، وہ عورت بھی کسی کی بیٹی ہے، لہذا اس سے اجتناب کیا جائے۔ غالباً اسی مضمون کا احساس دلاتے ہوئے بعض اشعار میں زنا سے روکنے کی نصیحت اس انداز پر کی گئی ہے کہ شاعر نے زنا کو قرض قرار دیا ہے؛ تاکہ زنا کی طرف متوجہ ہونے والا اپنی عورتوں کی پاک دامنی کا خیال کرتے ہوئے زنا کا ارادہ ترک کردے۔ اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ زنا کا قرض ہونا حدیث میں مذکور نہیں ہے اور نہ ہی یہ لازم ہے کہ ایک شخص کے گناہ میں مبتلا ہونے کی نحوست سے اس کے گھر کی عورتیں بھی اس میں مبتلا ہوں۔ مسند أحمد ط الرسالة (36 / 545): عن أبي أمامة قال: إن فتى شابا أتى النبي صلى الله عليه وسلم فقال: يا رسول الله، ائذن لي بالزنا، فأقبل القوم عليه فزجروه وقالوا: مه. مه. فقال: " ادنه، فدنا منه قريبا ". قال: فجلس قال: " أتحبه لأمك؟ " قال: لا. والله جعلني الله فداءك. قال: " ولا الناس يحبونه لأمهاتهم ". قال: " أفتحبه لابنتك؟ " قال: لا. والله يا رسول الله جعلني الله فداءك قال: " ولا الناس يحبونه لبناتهم ". قال: " أفتحبه لأختك؟ " قال: لا. والله جعلني الله فداءك. قال: " ولا الناس يحبونه لأخواتهم ". قال: " أفتحبه لعمتك؟ " قال: لا. والله جعلني الله فداءك. قال: " ولا الناس يحبونه لعماتهم ". قال: " أفتحبه لخالتك؟ " قال: لا. والله جعلني الله فداءك. قال: " ولا الناس يحبونه لخالاتهم ". قال: فوضع يده عليه وقال: " اللهم اغفر ذنبه وطهر قلبه، وحصن فرجه " قال فلم يكن بعد ذلك الفتى يلتفت إلى شيء. حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک نوجوان نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہنے لگا یا رسول اللہ ! صلی اللہ علیہ وسلم مجھے زنا کرنے کی اجازت دے دیجیے لوگ اس کی طرف متوجہ ہو کر اسے ڈانٹنے لگے اور اسے پیچھے ہٹانے لگے، لیکن نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے فرمایا: میرے قریب آجاؤ، وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب جا کر بیٹھ گیا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے پوچھا کیا تم اپنی والدہ کے حق میں بدکاری کو پسند کرو گے؟ اس نے کہا اللہ کی قسم! کبھی نہیں، میں آپ پر قربان جاؤں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: لوگ بھی اسے اپنی ماں کے لیے پسند نہیں کرتے، پھر پوچھا کیا تم اپنی بیٹی کے حق میں بدکاری کو پسند کرو گے؟ اس نے کہا اللہ کی قسم! کبھی نہیں، میں آپ پر قربان جاؤں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: لوگ بھی اسے اپنی بیٹی کے لیے پسند نہیں کرتے، پھر پوچھا کیا تم اپنی بہن کے حق میں بدکاری کو پسند کرو گے؟ اس نے کہا اللہ کی قسم! کبھی نہیں، میں آپ پر قربان جاؤں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: لوگ بھی اسے اپنی بہن کے لے پسند نہیں کرتے، پھر پوچھا کیا تم اپنی پھوپھی کے حق میں بدکاری کو پسند کرو گے؟ اس نے کہا اللہ کی قسم! کبھی نہیں، میں آپ پر قربان جاؤں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا لوگ بھی اسے اپنی پھوپھی کے لیے پسند نہیں کرتے، پھر پوچھا کیا تم اپنی خالہ کے حق میں بدکاری کو پسند کرو گے؟اس نے کہا کہ اللہ کی قسم کبھی نہیں، میں آپ پر قربان جاؤں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: لوگ بھی اسے اپنی خالہ کے لیے پسند نہیں کرتے، پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا دست مبارک اس کے جسم پر رکھا اور دعا کی کہ اے اللہ! اس کے گناہ معاف فرما، اس کے دل کو پاک فرما اور اس کی شرم گاہ کی حفاظت فرما، راوی کہتے ہیں کہ اس کے بعد اس نوجوان نے کبھی کسی کی طرف توجہ بھی نہیں کی۔ كشف الخفاء ت هنداوي (2 / 71): عفوا تعف نساؤكم، وبروا آباءكم تبركم أبناؤكم. رواه الطبراني عن جابر والديلمي عن علي مرفوعًا: "لا تزنوا فتذهب لذة نسائكم، وعفوا تعف نساؤكم، إن بني فلان زنوا فزنت نساؤهم". وفي الباب عن غيرهما. وفي البدر المنير للشعراني بلفظ: "عفوا عن نساء الناس تعف نساؤكم وبروا آباءكم تبركم أبناؤكم"، رواه الطبراني وغيره مرفوعًا. وللعلامة المقري: عفوا تعف نساؤكم في المحرم ... وتجنبوا ما لا يليق بمسلم يا هاتكًا حرم الرجال وتابعًا ... طرق الفساد تعيش غير مكرم من يزن في قوم بألفي درهم ... في أهله يزنى بربع الدرهم إن الزنا دين إذا أقرضته ... كان الوفا من أهل بيتك فاعلم الموضوعات لابن الجوزي (3 / 85): عن جابر قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " بروا آباؤكم تبركم أبناؤكم، وعفوا تعف نساؤكم، ومن تنصل إليه فلم يقبل فلن يرد على الحوض ". هذا حديث لا يصح."

Sunday 6 November 2022

العربية الفصحى

هكذا في عنائي في شقائي هكذا أمضي الدقائق والثواني ذابلة من أحزان ومن جروح لا ألقي أحداً ما بي يبالي هكذا في عذابي في صراعي هكذا ضاع عمري والأماني في حروب في بكاء في نزوح لم يبقي أملٌ لي في حياتي قولي لي حبيبتي ماهو ذنبي؟ قولي لي صغيرتي ماهو جًرمي؟ لكم ناديت الخير يعلو يخلصني يحررني يبقيني في أمان في وئام لكم ناديت العلم يسمو يرويني يسقيني يمنحني من سناهُ والأحلام ليتها في صباحي في مسائي ليتها تزهو لي امنياتي باسمةً في بهاء لي تلوح تنسيني مامضي ياملاكي كي تعيشي حلوتي لاتخافي دومي لي قمراً في عتم الليالي الا ياليت الدنيا تحنو ترحمني ترأف بي تتركني في هدوء في سلام الا ياليت الحب يصحو ينصفني ينقذني يحميني من شرور من ظلام لكم ناديت الخير يعلو يخلصني يحررني يبقيني في أمان في وئام لكم ناديت العلم يسمو يرويني يسقيني يمنحني من سناهُ والأحلام

نکاح مسیار کی حیثیت

نکاحِ مسیار کا حکم یہ ہے کہ یہ جائز نہیں ہے ،وجوہات درج ذیل ہیں : 1۔۔۔نکاحِ مسیار کو اگرچہ نکاح یا زواج کا نام دیا جائے، لیکن اس عمل کا مقصد نکاح کے مقاصد کا حصول نہیں ہے، بلکہ اصل مقصد ایک متعین وقت تک اپنی جنسی خواہش کو پورا کرنا ہوتا ہے جو نکاح کے شرعی مقاصدکے خلاف ہے، علامہ سرخسی رحمہ اللہ نکاح کے چند مقاصد کو بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ:اس عقد کے ساتھ بے شمار دینی اور دنیوی مصلحتیں متعلق ہوتی ہیں، جن میں سے چند یہ ہیں : عورتوں کی حفاظت ونگرانی، ان کا نان ونفقہ،زنا سے بچنا،اللہ تعالی کے بندوں سے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی امتوں کی کثرت،(بروزِ قیامت) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فخر کا متحقق ہونا،جیساکہ فرمانِِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے کہ "نکاح کرو اور نسل بڑھاؤ،تمہاری کثرت ہوگی ، سو میں قیامت کے دن تمہاے سبب فخر کروں گا، نکاح کا سبب اس بقا کا تعلق ہے جو اپنے وقتِ مقررہ تک کے لیے مقدر ہے، اور یہ بقا تناسل سے ہی ممکن ہوگا۔(9) اور اوپر کی سطور میں قرآن وحدیث کی رو سے واضح ہوچکا ہے کہ جس نکاح میں صرف شہوت رانی مقصود ہو وہ شرعی نکاح کے مقصد کے خلاف ہے۔ 2۔اس عمل کے ذریعہ شریعتِ مطہرہ کی جانب سے میاں بیوی کےلیے وضع کردہ کئی اَحکام کی خلاف ورزی اور بہت سے اَحکام کا استحصال ہوتا ہے، چنانچہ اس نام نہاد نکاح کے نتیجہ میں بیوی نان نفقہ سے محروم رہتی ہے، جب کہ نکاح کے عقد کی وجہ سے یہ ذمہ داری شوہر پر عائد ہوتی ہے، "علامہ ابن نجیم" رحمہ اللہ نے " بدائع الصنائع " کے حوالہ سے نکاح کے اَحکام تفصیلی ذکر کیے ہیں ، چنانچہ وہ لکھتے ہیں کہ: بدائع میں نکاح کے اَحکام علیحدہ فصل میں ذکر کیے ہیں، فرماتے ہیں کہ نکاح کے اَحکام میں سے مہر کا واجب ہونا، نفقہ اور پوشاک کا شوہر کے ذمہ لازم ہونا،حرمتِ مصاہرت کا ثابت ہونا، جانبین سے وراثت کا اجرا اور ان حقوق کی ادائیگی میں عدل کا واجب ہونا (جب کہ ایک سے زائد بیویاں ہوں) وغیرہ شامل ہیں۔(10 شریعت کے اصل اور ضابطہ کے مطابق نفقہ نہ دینے یا طلاق دینے کی شرائط باطل ہوکر عقد صحیح ہو جائے گا، لیکن عرف میں ان شرائط پر عمل کرنے کو لازم سمجھاجاتا ہے،ان شرائط پر عمل کرنا نکاح کی روح اور مقاصد کے خلاف ہے، لہذا شرط باطل ہوجانے کے بعد بھی اس قسم کے عقد کے جواز کا فتویٰ دینا مفاسد سے خالی نہیں ہے۔ 3۔ اس وقتی ازدواجی تعلق کے نتیجہ میں پیدا ہونے والے بچے کی پرورش اور ثبوتِ نسب میں بھی مسائل پیش آسکتے ہیں، اول تو یہ ممکن ہے کہ بچے کے نسب کا انکار کرے، لیکن اگر بچے کو اپنا نام دے بھی تو پرورش کے مسائل پیش آئیں گے، یوں اس تعلق کے نتیجے میں پیدا ہونے والی اولاد کی پرورش اس طرزپر نہیں ہوسکتی جس طرح شرعی نکاح کے بعد پیدا ہونے والے بچے کی پرورش ہوتی ہے، کیوں کہ مقررہ مدت پوری ہوجانے کے بعد شوہر طلاق دےکر چلا جائے گا، چوں کہ اس تعلق کی غرض حقیقت میں اپنی طبعی تقاضا پورا کرنا تھا تو شوہر بچے سے بے فکر ہوکر چلا جاتا ہے، اولاد بغیر باپ کے عمر کے مراحل طے کرتی ہے، انہیں زندگی کے نشیب و فراز سے آگاہ کرنے والا باپ میسر نہیں آتا، پھر جب اولاد کی تربیت صحیح اور محکم طریقہ سے نہیں ہو تی اور وہ مکمل نشو و نما نہیں پاتے، تو اس سے ا س کی شخصیت پر منفی اثر ہوتا ہے۔ 4۔ اس قسم کی شادی میں عورت مرد کو اپنا نگران اور مسئول نہیں سمجھتی ، جس کے نتیجے میں شوہر کے ساتھ سلوک میں خرابیاں پیدا ہوتی ہےاور اس طرح وہ اپنے آپ کو بھی اور معاشرے کو بھی نقصان پہنچاتی ہے۔ 5۔ اس قسم کے عقد میں خوا تین کی تذلیل ہے، کیوں کہ اس تعلق کا مقصد صرف اور صرف وقتِ متعینہ تک اپنی خواہش کی تکمیل ہے، وقتِ مقررہ کے بعد عورت کو مستعمل اوراق کی طرح پھینک دیا جائے، عورت کو اس قسم کی تذلیل سے محفوظ رکھنے کے لیے شریعت نے پہلے شوہر کے لیے بیوی کو حلال کرنے کےلیے طلاق کی شرط کے ساتھ نکاح کرنے کو مکروہِ تحریمی (ناجائز) قرار دیا ہے۔ 6۔اس قسم کی شادی میں خاندانی نظام مکمل طور پر تباہ ہو جاتا ہے، کیوں کہ نہ میاں بیوی کی ایک ساتھ ہمیشہ کےلیے رہائش ہوتی ہے، اور نہ ہی دونوں میں مکمل مودت و محبت ہوتی ہے جوکہ نکاح کا لازمی جز اور مقصد ہے ۔ قرآنِ کریم میں ہے: {ومن آياته أن خلق لكم من أنفسكم أزواجا لتسكنوا إليها وجعل بينكم مودةً ورحمةً إن في ذلك لآيات لقوم يتفكرون}(سورۃ الروم،الایۃ:21) ترجمہ:اور اسی کی نشانیوں میں سے یہ ہے کہ اس نے تمہارے واسطے تمہاری جنس کی بیبیاں بنائیں؛ تاکہ ان کے پاس آرام ملے اور تم میاں بیوی میں محبت اور ہم دردی پیدا کی۔ اس میں ان لوگوں کےلیے نشانیاں ہین جو فکر سے کام لیتے ہیں۔ میں رہنا بیان کی بھی جائے یا بطورِ شرط رکھی جائے، لیکن اس بات کا قوی خدشہ ہے کہ لڑکے اور لڑکیاں اس قسم کے نکاح کو ظاہر کرکے گھروں سے گھر والوں کی اجازت کے بغیر چلے جائیں، یوں اس نکاح کا جواز معاشرے کے شیرازہ بکھیرنے اور اس کی بنیادیں ہلانے کے مترادف ہے۔ ان تمام مفاسد اور خرابیوں کی وجہ سے "نکاح مسیار" (زواج مسیار) کی شرعاً اجازت نہیں۔ حوالہ جات (1)في تفسیر ابن کثیر وقوله: هن لباس لكم وأنتم لباس لهن قال ابن عباس ومجاهد وسعيد بن جبير والحسن وقتادة والسدي ومقاتل بن حيان: يعني هن سكن لكم وأنتم سكن لهن، وقال الربيع بن أنس: هن لحاف لكم وأنتم لحاف لهن، وحاصله: أن الرجل والمرأة كل منهما يخالط الآخر ويماسه ويضاجعه، فناسب أن يرخص لهم في المجامعة في ليل رمضان لئلا يشق ذلك عليهم ويحرجوا(ج:1،ص:375،ط:دار الکتب العلمیة) و في روح البیان : وجعل كل من الرجل والمرأة لباسا للآخر لتجردهما عند النوم واعتناقهما واشتمال كل منهما على الآخر أو لأن كلا منهما يستر حال صاحبه ويمنعه من الفجور وعما لا يحل كما جاء في الحديث (من تزوج فقد احرز ثلثى دينه) او المعنى هن سكن لكم وأنتم سكن لهن كما قال تعالى وَجَعَلَ مِنْها زَوْجَها لِيَسْكُنَ إِلَيْها ولا يسكن شىء الى شىء كسكون أحد الزوجين الى الآخر(ج:1،ص:299،ط:دار الفکر،بیروت ) (2) في التفسیر المظهري: ولما كان الرجل والمرأة يعتنقان ويشتمل كل منهما على صاحبه شبه باللباس- او لان اللباس كما يستر صاحبه كذلك يكون كل واحد منهما لصاحبه ستراعما لا يحل ، قال رسول الله صلى الله عليه وسلم من تزوج فقد احرز ثلثى دينه. (ج:1،ص:203،ط: مكتبه رشيديه– پاكستان) (3)في روح المعاني: والقيد، وهو صيرورتها ممنوعة عن الخروج والبروز، ومنها وجوب المهر عليه، ومنها وجوب النفقة والكسوة، ومنها حرمة المصاهرة، ومنها الإرث من الجانبين، ومنها وجوب العدل بين النساء في حقوقهن، ومنها وجوب طاعته عليها إذا دعاها إلى الفراش، ومنها ولاية تأديبها إذا لم تطعه بأن نشزت، ومنها استحباب معاشرتها بالمعروف، وعليه حمل الأمر في قوله تعالى، {وعاشروهن بالمعروف} [النساء: 19] ، وهو مستحب لها أيضا والمعاشرة بالمعروف الإحسان قولا، وفعلا وخلقا إلى آخر ما في البدائع". (کتاب النکاح،ج:3،ص:139،ط:دار الکتب العلمیة) (11) في تفسیر ابن کثیر: من أحل لغيره طعاما لايملكه فلم يصح مجازاً عن معنى النكاح كما مر. اهـ ملخصاً. (قوله: وإن جهلت المدة) كأن يتزوجها إلى أن ينصرف عنها كما تقدم ح (قوله: أو طالت في الأصح) كأن يتزوجها إلى مائتي سنة وهو ظاهر المذهب وهو الصحيح كما في المعراج؛ لأن التأقيت هو المعين لجهة المتعة، بحر". (کتاب النکاح،ج:3،ص:51،ط:سعید) وفي شرح فتح القدیر: "ومعناه المشهور أن يوجد عقدا على امرأة لا يراد به مقاصد عقد النكاح من القرار للولد وتربيته بل إلى مدة معينة ينتهي العقد بانتهائها أو غير معينة بمعنى بقاء العقد ما دمت معك إلى أن أنصرف عنك فلا عقد والحاصل أن معنى المتعة عقد موقت ينتهي بانتهاء الوقت فيدخل فيه ما بمادة المتعة والنكاح الموقت أيضا فيكون النكاح الموقت من أفراد المتعة وإن عقد بلفظ التزويج وأحضر الشهود وما يفيد ذلك من الألفاظ التي تفيد التواضع مع المرأة على هذا المعنى ولم يعرف في شيء من الآثار لفظ واحد ممن باشرها من الصحابة رضي الله عنهم بلفظ تمتعت بك ونحوه. والله أعلم. (ج:3،ص:237،ط:دار الکتب العلمية)

Friday 4 November 2022

قضانمازاداکرنے کاطریقہ

قضا نماز کا حکم یہ ہے کہ جیسے ہی قضا ہو اور یاد آئے فوری ادا کی جائے، البتہ اگر کوئی صاحبِ ترتیب ہو یعنی اس سے پہلے اس کی کوئی اور نماز قضا نہ ہوئی ہو تو اگر اس نے بلا کسی عذر کے کوئی اور نماز اس سے پہلے پڑھی تو اس کی وہ نماز اس وقت نہ ہوگی جب تک کہ وہ پہلی نماز نہ پڑھ لے۔ عذر سے مراد یہ ہے کہ قضا شدہ نماز یاد ہی نہ رہے، یا موجودہ نماز کا وقت نکل رہا ہو، یا قضا نمازوں کی تعداد 6 یا اس سے زیادہ ہو تو پھر اس کی نماز بلا ترتیب بھی ہو جائے گی۔ لہٰذا اگر کسی کے ذمے چھ سے کم نمازیں قضا ہوں تو اسے چھ نمازوں کا وقت گزرنے کا انتظار نہیں کرنا چاہیے، بلکہ قضا نماز کے بعد پہلی وقتی نماز ادا کرنے سے پہلے قضا نماز پڑھ لے، پھر وقتی نماز ادا کرے، البتہ اگر بھول جائے یا وقتی نماز کا وقت نکل رہاہو تو پہلے وقتی نماز ادا کرلے، پھر قضا نمازیں پڑھ لے، البتہ اگر کسی کے ذمے چھ سے کم نمازیں قضا تھیں، اور وقت میں گنجائش اور قضا نماز یاد ہونے کے باوجود وقتی نماز ادا کرلی، اسی طرح وہ وقتی نمازیں پڑھتا رہا اور قضا نہیں پڑھی تو حکم کے اعتبار سے اس کی یہ وقتی نمازیں موقوف رہتی ہیں، تا آں کہ فوت شدہ نماز سمیت ان کی تعداد چھ ہوجائے تو سب نمازوں کے ادا ہوجانے کا حکم لگایا جائے گا، اور پھر اس کے بعد قضا نماز پڑھ لی تو بھی ادا ہوجائے گی۔ غالباً سائل سے یا سائل کو بیان کرنے والے سے اس مسئلے کے سمجھنے میں چوک ہوئی ہے، اور وہ مفہوم سمجھ لیا جو سوال میں ذکر کیا گیا ہے۔ الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2/ 67): "ولو لم يسع الوقت كل الفوائت فالأصح جواز الوقتية، مجتبى، وفيه ظن من عليه العشاء ضيق وقت الفجر فصلاها وفيه سعة يكررها إلى الطلوع وفرضه الأخير". الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2/ 68): "(أو نسيت الفائتة) لأنه عذر (أو فاتت ست اعتقادية) لدخولها في حد التكرار المقتضي للحرج (بخروج وقت السادسة) على الأصح ولو متفرقة". ف