https://follow.it/amir-samdani?action=followPub

Monday 20 February 2023

۲۷.رجب کاروزہ

۲۷؍ ستائیس رجب کا شب معراج کا ہونا ہی محدثین اور مؤرخین کے درمیان مختلف فیہ ہے، نیز اس رات میں خصوصیت کے ساتھ عبادت کرنے کی صراحت کتب حدیث میں نہیں ملتی اور جو بھی روایت خاص اس شب میں عبادت کرنے کی ملتی ہے وہ لائق استدلال نہیں، البتہ اگر کوئی عام راتوں کی طرح اس شب میں بھی عبادت کرے تو مضائقہ نہیں، اسی طرح اس رات کے اگلے دن روزہ رکھنے کے سلسلے میں بھی کوئی صحیح روایت نہیں ملتی اور عوام میں جو یہ بات مشہور ہے کہ اس دن کا روزہ ہزار روزوں کے برابر ہے، اس کی کوئی اصل نہیں ہے: ’’وقد وردت فیہ أحادیث لا تخلو عن طعن وسقوط کما بسطہ ابن حجر في تبیین العجب مما ورد في فضل رجب وما اشتہر في بلاد الہند وغیرہ أن الصیام تلک اللیلۃ یعدل ألف صوم فلا أصل لہ (الآثار المرفوعۃ)

Monday 6 February 2023

جنازہ کی نمازمیں چارکے بجائے تین تکبیر کہی تونماز نہیں ہوئی

نمازِ جنازہ میں چار تکبیریں کہنا فرض ہے، اور یہ چار تکبیریں چار رکعات کے قائم مقام ہیں، لہٰذا اگر نمازِ جنازہ میں امام صاحب نے چار کے بجائے تین تکبیریں کہہ کر سلام پھیر دیا تو نمازِ جنازہ نہیں ہوئی، اس نمازِ جنازہ کا اعادہ لازم تھا، اگر دفن کرنے کے بعد یاد آیا کہ تین تکبیرات کہی گئی تھیں تو قبر پر اس وقت تک جنازہ کی نماز پڑھنا لازم ہے جب تک میت کے سڑنے اور پھٹنے کا غالب گمان نہ ہو، اور میت کے گلنے سڑنے کی مدت حتمی طور پر متعین نہیں ہے، موسم کے گرم و سرد ہونے، میت کی جسامت اور زمین کی ساخت کے اعتبار سے مختلف علاقوں میں اس کی مدت مختلف ہوسکتی ہے، بعض فقہاء نے اس کی تحدید تین دن سے کی ہے، یعنی تین دن بعد میت گلنا اور سڑنا شروع ہوتی ہے، لہٰذا دفن کے وقت سے تین دن بعد تک بھی اگر قبر پر جنازہ کی نماز نہیں پڑھی جاسکی تو پھر اس کے بعد نہیں پڑھنی چاہیے۔ نوٹ: یہ ساری تفصیل اس صورت میں ہے جب کہ کسی شخص کے بتانے پر امام صاحب کو یا دیگر مقتدیوں کو بھی یاد آجائے کہ واقعی تین تکبیرات کے بعد سلام پھیر دیا گیا تھا، لیکن اگر امام صاحب اور دیگر مقتدیوں کو یقین ہو کہ چار تکبیرات کہنے کے بعد ہی سلام پھیرا گیا تھا اور صرف ایک ہی مقتدی میت کی تدفین کے بعد اصرار کر رہا ہو کہ صرف تین تکبیرات کہی گئی تھیں تو اس کی بات کی وجہ سے وہم میں پڑنے کی ضرورت نہیں ہے۔ الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2/ 209): "(وركنها) شيئان (التكبيرات) الأربع، فالأولى ركن أيضاً لا شرط، فلذا لم يجز بناء أخرى عليها (والقيام) فلم تجز قاعدا بلا عذر". الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2/ 224): "(وإن دفن) وأهيل عليه التراب (بغير صلاة) أو بها بلا غسل أو ممن لا ولاية له (صلي على قبره) استحساناً (ما لم يغلب على الظن تفسخه) من غير تقدير، هو الأصح. وظاهره أنه لو شك في تفسخه صلي عليه، لكن في النهر عن محمد لا كأنه تقديماً للمانع. (قوله: صلي على قبره) أي افتراضاً في الأوليين وجوازاً في الثالثة؛ لأنها لحق الولي أفاده ح. أقول: وليس هذا من استعمال المشترك في معنييه كما وهم؛ لأن حقيقة الصلاة في المسائل الثلاث واحدة، وإنما الاختلاف في الوصف وهو الحكم، فهو كإطلاق الإنسان على ما يشمل الأبيض والأسود فافهم (قوله: هو الأصح) لأنه يختلف باختلاف الأوقات حراً وبرداً والميت سمناً وهزالاً والأمكنة، بحر، وقيل: يقدر بثلاثة أيام، وقيل: عشرة، وقيل: شهر ط عن الحموي".

Friday 3 February 2023

ناپاک کپڑوں کو واشنگ مشین میں دھونے کا طریقہ

ناپاک کپڑے پاک کرنےکا اصل طریقہ تو یہ ہے کہ انہیں تین مرتبہ دھویا جائے اور ہر مرتبہ اچھی طرح (حتیٰ الوسع) نچوڑ لیا جائے،لیکن اگر واشنگ مشین میں کپڑے دھونے ہوں تو اس کا طریقہ یہ ہے کہ دھوئے جانے والے کپڑے اگر پاک اور ناپاک دونوں طرح کے ہوں تو ان کے دھونے کے تین طریقے ہیں:ایک یہ کہ جن کپڑوں کے بارے میں یقین ہے کہ یہ پاک ہیں انہیں پہلے دھولیا جائے، اور اس کے بعد ناپاک اور مشکوک کپڑوں کو دھولیا جائے ۔دوسرا طریقہ یہ ہے کہ جو کپڑے ناپاک ہیں ان میں ناپاک جگہ کو پہلے الگ سے تین مرتبہ اچھی طرح دھوکر اور نچوڑ کر یا ناپاک حصے کو جاری پانی یا کثیر پانی میں دھو کر پاک کرلیاجائے ، پھر تمام پاک کپڑوں کو واشنگ مشین میں دھولیا جائے، اس صورت میں دوبارہ واشنگ مشین میں تین مرتبہ دھونا یا بہت زیادہ پانی بہانا ضروری نہیں ہوگا۔تیسرا طریقہ یہ ہے کہ پاک اور ناپاک کپڑے سب ایک ساتھ دھولیے جائیں اور کھنگالتے وقت تمام کپڑوں کو تین بار پانی میں ڈال کر نچوڑ لیا جائے یا تمام کپڑوں کو واشنگ مشین میں اچھی طرح دھو لیا جائے، پھر اِسپینر مشین (یعنی مشین کا وہ حصہ جس میں کپڑا ڈال کر گھمانے سے کپڑے اچھی طرح نچوڑ جاتے ہیں، اور کچھ حد تک خشک بھی ہوجاتے ہیں) میں کپڑوں کو ڈال دیا جائے، اور اِسپینر کے اوپر صاف پانی کا پائپ لگاکر اتنی دیر چلایا جائے کہ گندے پانی کی جگہ صاف پانی نیچے پائپ سے آنا شروع ہوجائے، تو یہ کپڑے پاک ہوجائیں گے، ہاتھ سے نچوڑنا ضروری نہیں ہے۔ حاشية الطحطاوي على مراقي الفلاح شرح نور الإيضاح (ص: 161) "و" يطهر محل النجاسة "غير المرئية بغسلها ثلاثاً" وجوباً، وسبعاً مع الترتيب ندباً في نجاسة الكلب خروجاً من الخلاف، "والعصر كل مرة" تقديراً لغلبة. یعني اشتراط الغسل والعصر ثلاثاً إنما هو إذا غمسه في إجانة، أما إذا غمسه في ماء جار حتى جرى عليه الماء أو صب عليه ماءً كثيراً بحيث يخرج ما أصابه من الماء ويخلفه غيره ثلاثاً فقد طهر مطلقاً بلا اشتراط عصر وتجفيف وتكرار غمس، هو المختار، والمعتبر فيه غلبة الظن، هو الصحيح، كما في السراج، ولا فرق في ذلك بين بساط وغيره، وقولهم يوضع البساط في الماء الجاري ليلةً إنما هو لقطع الوسوسة''۔ الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (1/ 331) '' (و) يطهر محل (غيرها) أي: غير مرئية (بغلبة ظن غاسل) لو مكلفاً وإلا فمستعمل (طهارة محلها) بلا عدد، به يفتى. (وقدر) ذلك لموسوس (بغسل وعصر ثلاثاً) أو سبعاً (فيما ينعصر) مبالغاً بحيث لا يقطر۔ ۔ ۔ وهذا كله إذا غسل في إجانة، أما لو غسل في غدير أو صب عليه ماء كثير، أو جرى عليه الماء طهر مطلقاً بلا شرط عصر وتجفيف وتكرار غمس، هو المختار. ۔۔۔ أقول: لكن قد علمت أن المعتبر في تطهير النجاسة المرئية زوال عينها ولو بغسلة واحدة ولو في إجانة كما مر، فلا يشترط فيها تثليث غسل ولا عصر، وأن المعتبر غلبة الظن في تطهير غير المرئية بلا عدد على المفتى به، أو مع شرط التثليث على ما مر، ولا شك أن الغسل بالماء الجاري وما في حكمه من الغدير أو الصب الكثير الذي يذهب بالنجاسة أصلاً ويخلفه غيره مراراً بالجريان أقوى من الغسل في الإجانة التي على خلاف القياس ؛ لأن النجاسة فيها تلاقي الماء وتسري معه في جميع أجزاء الثوب فيبعد كل البعد التسوية بينهما في اشتراط التثليث، وليس اشتراطه حكماً تعبدياً حتى يلتزم وإن لم يعقل معناه، ولهذا قال الإمام الحلواني على قياس قول أبي يوسف في إزار الحمام: إنه لو كانت النجاسة دماً أو بولاً وصب عليه الماء كفاه، وقول الفتح: إن ذلك لضرورة ستر العورة كما مر، رده في البحر بما في السراج، وأقره في النهر وغيره. (قوله: في غدير) أي: ماء كثير له حكم الجاري. (قوله: أو صب عليه ماء كثير) أي: بحيث يخرج الماء ويخلفه غيره ثلاثاً ؛ لأن الجريان بمنزلة التكرار والعصر، هو الصحيح، سراج. (قوله: بلا شرط عصر) أي: فيما ينعصر، وقوله: " وتجفيف " أي: في غيره، وهذا بيان للإطلاق''. فقط

مولانامحمداسحاق شیخ الحدیث رحمہ اللہ

حضرت مولانا محمد اسحاق محدث میواتی علیہ الرحمہ سے مجھے باقاعدہ شرف تلمذ حاصل نہیں البتہ دارالعلوم محمدیہ میل کھیڑ لا میں آپ بحیثت ممتحن تشریف لاتے تھے آپ نے ایک مرتبہ میل کھیڑ لا میں ہماری جماعت کاششماہی امتحان لیا,کافیہ آپ کی مشہورتھی, کافیہ سب سے پہلے اسباب منع صرف پوچھے اس کے بعد کہاقطامی کیاہے منصرف یاغیرمنصرف ؟مجھے یاد نہیں میں نے کیاجواب دیاتھا دیاالبتہ مجھے یہ ضرور یاد ہے اس وقت میرے ذہن میں یہ خیال آیا تھا کہ مدرسہ والے کیسے عجیب لوگ ہیں جو ہم جیسے ہیچمدان کے لئے امام النحو کوکیوں ممتحن کی حیثیت سے دعوت دی اس سے توخود مدرسہ بدنامی ہوگی. حضرت کاانداز امتحان میں یہ تھاکہ سوال کے بعدجواب نہ دینے پرخود جواب دیتے اور پھراس کی طویل تقریر بیان فرماتے یہی اندازاستاذی حضرت مولامحمدایوب قدس سرہ (والد ماجد حضرت مولانا محمد قاسم رحمہ بانی دارالعلوم محمدیہ میل کھیڑ لا کاتھا )یہ امتحان کئ گھنٹے چلا یہ غالباً 1987 کاواقعہ ہے. میں اسی سال دارالعلوم بساؤ ضلع جھنجھنوں راجستھان سے نحومیر میر صرف میر ابتدائی کتب عربی پڑھ کر نیانیا مدرسہ میل آیاتھا. اس کے بعددوسری ملاقات کے لئے میں خود نوح آپ کی خدمت اپنے پی ایچ ڈی کے مقالہ" مشرقی پنجاب کا عربی زبان وادب میں حصہ " پرمواد جمع کرہاتھا. مجھے معلوم ہوا کہ آپ عربی میں شاعری کرتے ہیں. حضرت مولانا عبدالمنان ناٹولوی دھلوی کے کے قصائد عربی مجموعہ میں نے اپنے حضرت مولانا دین محمد رحمہ اللہ سابق ا مام جامع مدن گیردہلی سے حضرت مولانا حبیب الرحمن گھاسیڑوی رحمہ اللہ

Thursday 2 February 2023

موبائل میں قرآن مجید پڑھنا

موبائل میں دیکھ کر قرآنِ مجید پڑھنا جائز ہے۔ چوں کہ قرآنِ کریم کو دیکھ کر ہاتھ لگائے بغیر زبانی تلاوت کرنا جائز ہے، اس لیے موبائل فون میں دیکھ کر بے وضو قرآنِ کریم کی تلاوت کرنا جائز ہے، اگر اسکرین پر قرآن کریم کھلا ہوا ہو تو بے وضو موبائل کو مختلف اطراف سے چھونا اور پکڑنا بھی جائز ہے، البتہ اسکرین کو بغیر وضو چھونا جائز نہیں ہے، کیوں کہ جس وقت قرآنِ کریم اسکرین پر کھلا ہوا ہوتا ہے اس وقت اسکرین کو چھونا قرآن کو چھونے کے حکم میں ہوتا ہے۔ "ولایکره للمحدث قراءة القرآن عن ظهر القلب". (خلاصة الفتاویٰ، ج:۱ ؍ ۱۰۴ ) الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (1/ 173): "(و) يحرم (به) أي بالأكبر (وبالأصغر) مس مصحف: أي ما فيه آية كدرهم وجدار، وهل مس نحو التوراة كذلك؟ ظاهر كلامهم لا (إلا بغلاف متجاف) غير مشرز أو بصرة به يفتى، وحل قلبه بعود. (قوله: أي ما فيه آية إلخ) أي المراد مطلق ما كتب فيه قرآن مجازاً، من إطلاق اسم الكل على الجزء، أو من باب الإطلاق والتقييد. قال ح: لكن لايحرم في غير المصحف إلا بالمكتوب: أي موضع الكتابة كذا في باب الحيض من البحر، وقيد بالآية؛ لأنه لو كتب ما دونها لايكره مسه كما في حيض، القهستاني. وينبغي أن يجري هنا ما جرى في قراءة ما دون آية من الخلاف، والتفصيل المارين هناك بالأولى؛ لأن المس يحرم بالحدث ولو أصغر، بخلاف القراءة فكانت دونه تأمل.... (قوله: غير مشرز) أي غير مخيط به، وهو تفسير للمتجافي قال في المغرب: مصحف مشرز أجزاؤه مشدود بعضها إلى بعض من الشيرازة وليست بعربية اهـ فالمراد بالغلاف ما كان منفصلاً كالخريطة وهي الكيس ونحوها؛ لأن المتصل بالمصحف منه حتى يدخل في بيعه بلا ذكر. وقيل: المراد به الجلد المشرز، وصححه في المحيط والكافي، وصحح الأول في الهداية وكثير من الكتب، وزاد في السراج: أن عليه الفتوى. وفي البحر: أنه أقرب إلى التعظيم. قال: والخلاف فيه جار في الكم أيضاً. ففي المحيط: لايكره عند الجمهور، واختاره في الكافي معللاً بأن المس اسم للمباشرة باليد بلا حائل. وفي الهداية: أنه يكره هو الصحيح؛ لأنه تابع له، وعزاه في الخلاصة إلى عامة المشايخ، فهو معارض لما في المحيط فكان هو أولى. اهـ. أقول: بل هو ظاهر الرواية كما في الخانية، والتقييد بالكم اتفاقي فإنه لايجوز مسه ببعض ثياب البدن غير الكم كما في الفتح عن الفتاوى. وفيه قال لي بعض الإخوان: أيجوز بالمنديل الموضوع على العنق؟ قلت: لاأعلم فيه نقلاً. والذي يظهر أنه إذا تحرك طرفه بحركته لايجوز وإلا جاز، لاعتبارهم إياه تبعاً له كبدنه في الأول دون الثاني فيما لو صلى وعليه عمامة بطرفها الملقى نجاسة مانعة، وأقره في النهر والبحر. (قوله: أو بصرة) راجع للدرهم، والمراد بالصرة ما كانت من غير ثيابه التابعة له. (قوله: وحل قلبه بعود) أي تقليب أوراق المصحف بعود ونحوه لعدم صدق المس عليه".

اٹیچ باتھ روم میں وضوکرنااور دعائیں نہ پڑھنا

مشترکہ غسل خانہ اوربیت الخلا جس میں داخل ہونےکے لیے ایک ہی دروازہ ہوتاہے اور قضائے حاجت کی جگہ اور غسل کی جگہ کے درمیان کوئی دیوار یا آڑ نہیں ہوتی، اس قسم کے غسل خانوں میں وضو کے شروع اور درمیان کی دعائیں زبان سے پڑھنا منع ہے؛ کیوں کہ درمیان میں آڑ نہ ہونے کی وجہ سے یہ بیت الخلا میں پڑھنا شمارہوگا، اوربیت الخلا میں اَذکار پڑھنے سے شریعت نے منع کیا ہے، ایسی جگہ دل ہی دل میں زبان کو حرکت دیے بغیر پڑھنے کی اجازت ہے۔ البتہ اگر غسل خانہ اور بیت الخلا دونوں ایک دوسرے سے ممتاز ہیں، دونوں کے درمیان کوئی دیوار یا پردہ حائل ہے اور غسل خانے میں گندگی بھی نہیں ہے تو اس صورت میں وضو کی دعائیں زبان سے پڑھ سکتے ہیں۔ واضح رہے کہ اٹیچڈ باتھ روم (جس میں بیت الخلا کی جگہ بھی ساتھ ہی ہو) میں بلاضرورت گفتگو کرنا بھی مکروہ ہے، لہٰذا اس سے بھی اجتناب کرنا چاہیے۔ سنن ابی داؤد میں ہے: "عن هلال بن عیاض، قال: حدثني أبوسعید قال: سمعت رسول الله ﷺ یقول: لایخرج الرجلان یضربان الغائط، كاشفین عن عورتهما یتحدثان؛ فإنّ اللہ عزّ و جلّ یمقت علی ذلك." (كتاب الطهارة، باب كراهية الكلام عند الخلاء، 1/14، ط: رحمانیه لاهور) یعنی حضرت ابوسعید روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: نہیں نکلتے دو شخص قضاءِ حاجت کے لیے اس حال میں کہ وہ ستر کھولے ہوئے آپس میں باتیں کر رہے ہوں تو اللہ تعالیٰ ان پر غصہ ہوتے ہیں۔ وفیه أیضًا: "عن ابن عمر قال: مر رجل على النبي ﷺ و هو یبول فسلّم علیه، فلم یردّ علیه. قال أبوداؤد: و روي عن ابن عمر و غیره: أنّ النبي ﷺ تیمّم، ثمّ ردّ علی الرجل السلام." (كتاب الطهارة، باب في الرجل یرد السلام و هو یبول، 1/14، ط: رحمانیه لاهور) حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ قضاءِ حاجت فرما رہے تھے کہ ایک شخص نے سلام کیا، آپ ﷺ نے اس کے سلام کا جواب نہیں دیا۔ امام ابوداؤد فرماتے ہیں کہ عبداللہ بن عمر اور دیگر صحابہ رضی اللہ عنہم سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے تیمم کرکے اس کے سلام کا جواب دیا۔ الفتاوی الشامية، (1/ 156): "ويستحب أن لا يتكلم بكلام مطلقاً، أما كلام الناس؛ فلكراهته حال الكشف، وأما الدعاء؛ فلأنه في مصب المستعمل ومحل الأقذار والأوحال"اهـ.

Sunday 29 January 2023

ایک بالشت سے چھوٹی مسواک کااستعمال

مسواک کا ایک بالشت کی مقدار لمبی ہونا محض مندوب ومستحب ہے، واجب وضروری نہیں، نیز یہ لمبائی ابتدائے استعمال میں مطلوب ہے، استعمال کے نتیجے میں اگر مسواک چھوٹی ہوجائے تو یہ خلاف مستحب بھی نہیں۔ الغرض اگر کسی کی مسواک ایک بالشت سے کم ہے تو اس کا استعمال بھی شرعاً درست ہے، ناجائز نہیں ہے۔ ونُدِبَ إمساکہ بِیُمناہ کونہ․․․ فی غلظ الخنصر وطول شبر․․․ الظاہر أنہ في ابتداء استعمالہ فلا یضر نقصہ بعد ذلک بالقطع منہ لتسویتہ الخ (درمختار مع الشامی: ۱/۲۳۴، ط: زکریا)

مسواک کامسنون طریقہ, مقدار

مسواک کرنا سنت ہے، اور اس کے بہت سے فضائل احادیث میں وارد ہیں، مسواک میں مستحب یہ ہے کہ اس کی لمبائی ایک بالشت اور چوڑائی چھوٹی انگلی کی موٹائی کے برابر ہو ، استعمال کے بعد چھوٹی ہوجائے تو ایک مشت ہونے کے بعد چھوڑ دے، اور مسواک کو دائیں ہاتھ میں پکڑنا مستحب ہے اور پکڑنے کا طریقہ یہ ہے کہ مسواک کو ہاتھ کی انگلیوں اور انگوٹھے کے پوروں سے اس طرح پکڑا جائے کہ چھوٹی انگلی(چھنگلی) اور انگوٹھا نیچے کی جانب رہے اور بقیہ انگلیاں اُوپر کی طرف ہوں، اور انگوٹھے کو مسواک کے برش والے حصے کی جانب رکھے اور چھنگلی کی پشت کو دوسری جانب کے آخر میں اوردوسری انگلیاں ان کے درمیان میں اُوپر کی جانب رہیں۔(ہندیہ1/7) مسواک کرنے کی کیفیت یہ ہے کہ دانتوں اور تالو پر مسواک کی جائے اور داہنی طرف کے دانتوں سے ابتدا ہو، اس کی صورت یہ ہے کہ پہلے مسواک اوپر کے جبڑے میں داہنی طرف کی جائے، پھر اوپر کی بائیں جانب، اس کے بعد نیچے کے جبڑے میں داہنی طرف اور پھر بائیں طرف کرنا چاہیے۔(کبیری)، اور بعض علماءنے یہ طریقہ لکھا ہے کہ :پہلے دائیں جانب اوپر نیچے مسواک کرے، پھر بائیں جانب اوپر نیچے، پھر ان دانتوں پر مسواک کرے جو داہنی اور بائیں جانب کے درمیان ہیں(شرح السنۃ)، اور کم از کم تین مرتبہ اوپر اور تین مرتبہ نیچے، تین بار پانی لے کر مسواک کی جائے۔ مسواک چوڑائی میں یعنی دائیں سے بائیں طرف کرنی چاہیے، طول (لمبائی) میں مسواک کرنا بہتر نہیں، اس لیے کہ اس سے مسوڑھوں کے زخمی ہوجانے کا اندیشہ ہوتا ہے، بعض حضرات فرماتے ہیں دونوں طرح کرسکتے ہیں، ان دونوں میں تطبیق یوں دی گئی ہے کہ دانتوں میں چوڑائی میں کی جائے اور زبان پر لمبائی میں کی جائے۔(شامی۔1/114) ’حجۃ اللّٰہ البالغہ‘‘ میں حضرت شاہ ولی اللہ ؒنے لکھا ہے کہ آدمی کے لیے مناسب ہے کہ مسواک کو منہ کی انتہائی اور آخری حصوں تک پہنچائے؛ تاکہ سینہ اور حلق کا بلغم ختم ہوجائے۔ اور خوب اچھی طرح مسواک کرنے سے قلاح جو منہ کی ایک بیماری ہے دو رہوجاتی ہے، آواز صاف اور منہ کی بو عمدہ ہوجاتی ہے۔(1/310)۔

Saturday 28 January 2023

محرم نامحرم

عورت کے حق میں ہروہ مرد جس سے زندگی بھر کبھی نکاح نہ ہوسکے وہ اُس (عورت) کا محرمِ شرعی ہے اور جس سے کبھی بھی نکاح ہوسکتا ہو وہ نامحرم ہے.محرم سے پردہ نہیں ہے ان سے عورت پردہ نہیں ہے وہ یہ ہیں : (1) شوہر (2) باپ (3) چچا (4) ماموں (5) سسر (6) بیٹا (7) پوتا (8) نواسہ (9) شوہر کا بیٹا (10) داماد (11) بھائی (12) بھتیجا (13) بھانجا نامحرم رشتہ دار یعنی وہ رشتہ دار جن سے پردہ فرض ہے، وہ درج ذیل ہیں : (1) خالہ زاد (2) ماموں زاد (3) چچا زاد (4) پھوپھی زاد (5) دیور (6) جیٹھ (7) بہنوئی (8)نندوئی (9) خالو (10) پھوپھا (11) شوہر کا چچا (12) شوہر کا ماموں (13)شوہر کا خالو (14) شوہر کا پھوپھا (15) شوہر کا بھتیجا (16) شوہر کا بھانجا ۔ وَقُلْ لِلْمُؤْمِنَاتِ يَغْضُضْنَ مِنْ أَبْصَارِهِنَّ وَيَحْفَظْنَ فُرُوجَهُنَّ وَلَا يُبْدِينَ زِينَتَهُنَّ إِلَّا مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَلْيَضْرِبْنَ بِخُمُرِهِنَّ عَلَى جُيُوبِهِنَّ وَلَا يُبْدِينَ زِينَتَهُنَّ إِلَّا لِبُعُولَتِهِنَّ أَوْ آبَائِهِنَّ أَوْ آبَاءِ بُعُولَتِهِنَّ أَوْ أَبْنَائِهِنَّ أَوْ أَبْنَاءِ بُعُولَتِهِنَّ أَوْ إِخْوَانِهِنَّ أَوْ بَنِي إِخْوَانِهِنَّ أَوْ بَنِي أَخَوَاتِهِنَّ أَوْ نِسَائِهِنَّ أَوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُهُنَّ أَوِ التَّابِعِينَ غَيْرِ أُولِي الْإِرْبَةِ مِنَ الرِّجَالِ أَوِ الطِّفْلِ الَّذِينَ لَمْ يَظْهَرُوا عَلَى عَوْرَاتِ النِّسَاءِ وَلَا يَضْرِبْنَ بِأَرْجُلِهِنَّ لِيُعْلَمَ مَا يُخْفِينَ مِنْ زِينَتِهِنَّ وَتُوبُوا إِلَى اللَّهِ جَمِيعًا أَيُّهَ الْمُؤْمِنُونَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ﴾ [ سورة النور،31] فقط

Monday 23 January 2023

نسبندی کاشرعی حکم

خاندانی منصوبہ بندی کی دو صورتیں ہیں: 1۔۔ قطعِ نسل: یعنی کوئی ایسی صورت اختیار کرنا جس سے دائمی طو رپر قوتِ تولید یا پیدائشِ اولاد کی صلاحیت ہی ختم ہوجائے جیسا کہ عورت اپنی نس بندی کرالے یا مرد خصی بن جائے، ایسا کرنا شرعاً بالکلیہ ناجائز اور حرام ہے، کسی مسلمان کے لیے یہ طریقہ اختیار کرنا جائز نہیں؛کیوں کہ اس میں اللہ تعالیٰ کی تخلیق کو تبدیل کرنا پایا جاتا ہے جو کہ درست نہیں، حدیث شریف میں رسول اللہ ﷺ نے اس سے منع فرمایا ہے: صحيح البخاري (6/ 53): "حدثنا عمرو بن عون، حدثنا خالد، عن إسماعيل، عن قيس، عن عبد الله رضي الله عنه، قال: " كنا نغزو مع النبي صلى الله عليه وسلم وليس معنا نساء، فقلنا: ألا نختصي؟ فنهانا عن ذلك، فرخص لنا بعد ذلك أن نتزوج المرأة بالثوب " ثم قرأ: {يا أيها الذين آمنوا لا تحرموا طيبات ما أحل الله لكم} [المائدة: 87]" یعنی حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ جہاد میں شریک ہوتے تھے اور ہمارے ساتھ ہماری بیویاں نہیں ہوتی تھیں، چناں چہ ہم (یعنی بعض صحابہ) نے عرض کیا: کیا ہم خصی نہ ہوجائیں؟ تو آپ ﷺ نے ہمیں اس سے منع فرمایا، اور اس کے بعد ہمیں رخصت دے دی کہ ایک جوڑے کپڑے (مہر) کے بدلے ہم نکاح کرلیں، پھر آپ ﷺ نے یہ آیت تلاوت فرمائی: اے ایمان والو! حرام نہ کرو وہ پاکیزہ چیزیں جو اللہ تعالیٰ نے تمہارے لیے حلال کی ہیں۔ اس بارے میں علامہ عینی رحمہ اللہ(اس حدیث کی شرح میں جس میں آپ ﷺ نے خصی ہونے [یعنی: اولاد پیدا کرنے کی صلاحیت ختم کرنے ]سے منع فرمایا) ارشاد فرماتے ہیں کہ: ’’ اس حدیث سے خصی ہونے کی حرمت کا پتاچلتا ہے، اور یہ حرمت اس وجہ سے ہے کہ اس فعل میں اللہ تعالیٰ کی تخلیق میں تغییر و تبدیلی کرنا اور نسلِ انسانی کو ختم کرنا اور کسی جاندار کو عذاب دینا پایا جاتا ہے۔‘‘ "قال العلام العینی تحت قول :’’ نھانا عن ذالك‘‘، یعني : عن الاختصاء، وفیه تحریم الاختصاء لما فیه من تغییر خلق اللہ تعالیٰ، ولما فیه من قطع النسل و تعذیب الحیوان" (عمدۃ القاري، کتاب التفسیر، باب قوله تعالیٰ:’’یا أیھا الذین اٰمنوا لا تحرموا طیبات ما احل اللہ لکم‘‘،18؍280، دار الکتب العلمیة) نيز رسول اللہ ﷺ نے ایسے شخص کے بارے میں فرمایا کہ وہ میری امت میں سے نہیں، جيساكه كتاب الزہد لابن المبارک میں ہے: " لیس منا مَن خصی ولا اختصیٰ، إن خصاء أمتي الصیام " (کتاب الزہد لابن المبارک،باب التواضع،رقم الحدیث:845،ص:336،دارالکتب العلمیہ) اسی طرح ایسا ذریعہ اختیار کرنا بھی جائز نہیں ہے جس سے توالد و تناسل کا سلسلہ طویل عرصے کے لیے بند ہوجائے، مثلًا: کوپرٹی وغیرہ لگوانا۔ ملحوظ رہے کہ کوپرٹی لگوانے میں بے پردگی وغیرہ مفاسد بھی پائے جاتے ہیں، اس لیے اس سے اجتناب کیا جائے۔ 2۔۔ منع حمل: یعنی کوئی بھی ایسا طریقہ اختیار کرنا جس سے عارضی طور پر حمل نہ ٹھہرے، کسی عذر کے بغیر ایسا کرنا مکروہ تنزیہی ہے، البتہ اگر میاں بیوی کو کوئی عذر لاحق ہو مثلاً غیر مسلم ملک میں بچہ پیدا ہونے سے بچے کے اخلاق بگڑنے کا خوف ہو یا دونوں دور دراز کے سفر پر ہوں اور حمل مشکلات کا سبب بن سکتا ہو یا حمل کی وجہ سے پہلے بچے کو دودھ پلانا متاثر ہورہا ہو، ( کیوں کہ دوسرے بچے کے حمل سے دودھ متاثر ہوجاتا ہے ) یا عورت کی صحت یا بچوں کی تربیت پیش نظر ہو وغیرہ تو اس طرح کے اعذار کی وجہ سے ایسا کرنا جائز ہے، پھر اس میں کوئی کراہت نہیں۔ البتہ کسی غرضِ فاسد کی وجہ سے مانع حمل طریقہ اختیار کرنا مثلاً رزق کی تنگی کے خوف سے کہ اگر زیادہ اولاد ہوئی تو ان کو کہاں سے کھلائیں گے؟ ان کا خرچہ کون برداشت کرے گا؟ یا اس وہم سے منصوبہ بندی کرنا کہ بچی پیدا ہو ئی تو ناک کٹ جائے گی اور خاندان یا معاشرے میں عار کا باعث ہو گی، یا جیسے بعض لوگ شادی کے بعد اسی فکر میں لگے رہتے ہیں کہ اولاد کم ہو؛ تاکہ ان کی آزاد زندگی میں مخل نہ ہو، یہ سب شریعت سے متصادم خیالات ہیں۔ اگر ایسی کسی وجہ سے مانعِ حمل طریقہ اختیار کیا جارہا ہے تو اس کی گنجائش نہیں۔ آپ ﷺ کا ارشاد ہے: "تزوجوا الودود الولود فانی مکاثر بکم الأمم." ’’ ترجمه: ایسی عورتوں سے شادی کرو جو زیادہ محبت کرنے والی ہو، زیادہ بچے جننے والی ہو؛کیوں کہ (کل بروزقیامت) میں دیگر امتوں کے مقابلے میں اپنی امت کی کثرت کے سبب فخر کروں گا۔‘‘(مشکوۃ ۲/۲۷۶ ) البتہ اگر یہ نظریہ نہ ہو، بلکہ کسی ایسے عذر کی وجہ سے جس کا شریعت نے بھی اعتبار کیا ہو ، منع حمل کے لیے عارضی طور پر مختلف تدابیر اختیار کرنا (مثلًا کنڈ وم یا مانعِ حمل دوائیں استعمال کرنا) جائز ہے، مثلاً: کوئی عورت بہت زیادہ کمزور ہو اور ماہر تجربہ کار مسلمان طبیب کی تشخیص کے مطابق اس عورت کو حمل ٹھہر جانے کی صورت میں ناقابلِ برداشت تکلیف برداشت کرنا پڑے گی، یا پیدا ہونے والے بچے کے نہایت کمزور یا ناقص پیدا ہونے کا قوی اندیشہ ہو ، یا اس سے پہلے والا بچہ ابھی بہت چھوٹا ہو، یا (اس بار کے حمل سے) پہلے بچے کی تربیت و پرورش اور دودھ پلانے پر اثر پڑتا ہو تو کسی فاسد عقیدے کے بغیر ، بیوی کی اجازت اور رضامندی سے عزل یا عارضی مانعِ حمل تدابیر اختیار کی جاسکتی ہیں بصورتِ دیگر ایسا کرنا مکروہ ہے۔ لیکن مستقل اور دائمی مانع حمل تدابیر مثلًا بچہ دانی نکال دینا ، نس بندی کروا لینا یا مرد کا آپریشن کر کے اس کی شرم گاہ کو ہمیشہ کے لیے بے کار بنا دینا جائز نہیں، بلکہ یہ سخت گناہ اور حرام ہے۔ نيز حمل ٹھہر جانے کے بعد چار مہینے پورے ہونے سے پہلے کسی عذر شرعی کی وجہ سے (مثلاً: حمل کی وجہ سے عورت کا دودھ خشک ہو جانا اور کسی اور ذریعہ سے بچے کی پرورش کا بندوبست نہ ہونا یا کسی ماہر اور دیندار معالج کا معائنہ کے بعد یہ کہنا کہ اگر حمل باقی رہا تو عورت کی جان کو خطرہ ہے) حمل گرانے کی گنجائش ہے، لیکن بغیر کسی عذر شرعی کے جائز نہیں ہے۔ اور اگر حمل میں جان پڑ چکی ہو (یعنی حمل ٹھہرے ہوئے چار ماہ کا عرصہ گذر چکا ہو )تو اس وقت اسقاطِ حمل کرنا قتلِ نفس ہونے کی وجہ سے ناجائز اور حرام ہے، چاہے ڈاکٹر یوں کہیں کہ بچہ معذور ہو گا ،یا نہایت کمزور ہو گا ،یا عجیب الخلقت ہو گا وغیرہ وغیرہ یا ان کے کہے بغیر اسقاط کیا جائے، بہرصورت حرام ہے۔ مندرجہ بالا تفصيل سے پوری طرح یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ مانع حمل کوئی بھی طریقہ عذر کی بنا پر عارضی طور پر اختیار کرنا جائز ہے، البتہ خاندانی منصوبہ بندی کے نام پر مستقل بنیاد پر آپریشن کرکے بچہ دانی نکلوانا یا نس بندی کروانا یا کوئی ایسا طریقہ اپنانا جس سے توالد وتناسل (بچہ پیدا کرنے) کی صلاحیت بالکل ختم ہوجائے اور اسے ایک اجتماعی مسئلہ یا تحریک بنا لینا درست نہیں، بلکہ یہ شرعی مزاج کے مخالف ہے۔ اس کے بالمقابل حصول ِاولاد کی اہمیت بھی پوری طرح سامنے آچکی ہے کہ اولاد اللہ کی نعمت ہے اور یہ نعمت جس مقدار میں اللہ تعالیٰ عطا فرمائیں ، اس کا حصول موجبِ سعادت ہے، اجتماعی طور پر اولاد کے خلاف تحریک یا خاندانی منصوبہ بندی اختیار کرنا مغربی سازش اور دجل ہے، جس سے مسلمانوں کو پرہیز کرنا چاہیے۔ قرآن کریم میں ہے: "{وَلَا تَقْتُلُوا أَوْلَادَكُمْ خَشْيَةَ إِمْلَاقٍ نَحْنُ نَرْزُقُهُمْ وَإِيَّاكُمْ إِنَّ قَتْلَهُمْ كَانَ خِطْئًا كَبِيرًا } (31)}" [الإسراء: 31] ترجمہ:” اور اپنی اولاد کو ناداری کے اندیشے سے قتل مت کرو (کیوں کہ) ہم ان کو بھی رزق دیتے ہیں اور تم کو بھی بے شک ان کا قتل کرنا بڑا بھاری گناہ ہے“۔ (بیان القرآن) "{ وَإِذَا الْمَوْءُودَةُ سُئِلَتْ (8) بِأَيِّ ذَنْبٍ قُتِلَتْ (9)}" [التكوير: 8، 9] ترجمہ: ”اور جب زندہ گاڑی ہوئی لڑکی سے پوچھا جائے گا کہ وہ کس گناہ پر قتل کی گئی تھی“۔ (بیان القرآن ) حدیث شریف میں ہے: "عن سعد بن أبي وقاص ؓ يقول: رد رسول الله صلى الله عليه وسلم على عثمان بن مظعون التبتل، ولو أذن له لاختصينا" (صحیح البخاری (۷۵۹/۲) وفيه أيضًا: "باب قول الله تعالى: {ومن يقتل مؤمنا متعمدا فجزاؤه جهنم}[النساء: 93] حدثنا قتيبة بن سعيد، حدثنا جرير، عن الأعمش، عن أبي وائل، عن عمرو بن شرحبيل، قال: قال عبد الله: قال رجل: يا رسول الله، أي الذنب أكبر عند الله؟ قال: «أن تدعو لله ندا وهو خلقك» قال: ثم أي؟ قال: «ثم أن تقتل ولدك خشية أن يطعم معك» قال: ثم أي؟ قال: «ثم أن تزاني بحليلة جارك» فأنزل الله عز وجل تصديقها: {والذين لا يدعون مع الله إلها آخر ولا يقتلون النفس التي حرم الله إلا بالحق ولا يزنون ومن يفعل ذلك يلق أثاما} [الفرقان: 68] الآية" (صحيح البخاري (9/ 2) "ترجمہ: حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے نبی اکرم ﷺسے عرض کیا کہ کون سا گناہ اللہ کے نزدیک زیادہ بڑا ہے؟ تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:یہ کہ تم اللہ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہراؤ، حال آں کہ اللہ تعالیٰ نے تم کو پیدا کیا ہے، اس شخص نے عرض کیا کہ پھر کون سا گناہ زیادہ بڑا ہے؟ تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:یہ کہ تم اپنی اولاد کو اس ڈر سے قتل کر دو کہ وہ تمہارے ساتھ کھائے گی،اس شخص نے عرض کیا کہ پھر کون سا گناہ زیادہ بڑا ہے؟ تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:یہ کہ تم اپنے پڑوسی کی بیوی سے زنا کرو۔پھر اللہ تعالیٰ نے اس کی تصدیق میں یہ آیت نازل فرمائی: (ترجمہ)’’رحمن کے بندے وہ ہیں جو اللہ کے ساتھ کسی کو بھی دوسرے معبود کو شریک نہیں کرتے اور جس جان کو اللہ نے حرام کیا ہے، اسے ناحق قتل نہیں کرتے اور نہ زنا کرتے ہیں اور جو شخص بھی یہ کام کرے گا، اسے اپنے گناہ کے وبال کا سامنا کرنا پڑے گا۔‘‘ صحيح مسلم (2/ 1067): "حدثنا عبيد الله بن سعيد، ومحمد بن أبي عمر، قالا: حدثنا المقرئ، حدثنا سعيد بن أبي أيوب، حدثني أبو الأسود، عن عروة، عن عائشة، عن جدامة بنت وهب، أخت عكاشة، قالت: حضرت رسول الله صلى الله عليه وسلم، في أناس وهو يقول: «لقد هممت أن أنهى عن الغيلة، فنظرت في الروم وفارس، فإذا هم يغيلون أولادهم، فلا يضر أولادهم ذلك شيئا»، ثم سألوه عن العزل؟ فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «ذلك الوأد الخفي»، زاد عبيد الله في حديثه: عن المقرئ، وهي: {وإذا الموءودة سئلت}." الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3/ 175) : "(والإذن في العزل) وهو الإنزال خارج الفرج (لمولى الأمة لا لها) لأن الولد حقه، وهو يفيد التقييد بالبالغة وكذا الحرة نهر. (ويعزل عن الحرة) وكذا المكاتبة نهر بحثا (بإذنها) لكن في الخانية أنه يباح في زماننا لفساده قال الكمال: فليعتبر عذرا مسقطا لإذنها، وقالوا يباح إسقاط الولد قبل أربعة أشهر ولو بلا إذن الزوج (وعن أمته بغير إذنها) بلا كراهة، فإن ظهر بها حبل حل نفيه إن لم يعد قبل بول. [مطلب في حكم العزل] (قوله: و الإذن في العزل) أي عزل زوج الأمة.(قوله: وهو الإنزال خارج الفرج) أي بعد النزع منه لا مطلقا فقد قال في المصباح: فائدة المجامع إن أمنى في الفرج الذي ابتدأ الجماع فيه قيل أمناه وألقى ماءه، وإن لم ينزل فإن كان لإعياء وفتور قيل أكسل وأقحط وفهر؛ وإن نزع وأمنى خارج الفرج قيل عزل وإن أولج في فرج آخر فأمنى فيه قيل فهر فهرا من باب منع ونهي عن ذلك. وإن أمنى قبل أن يجامع فهو الزملق بضم الزاي وفتح الميم المشددة وكسر اللام (قوله: لمولى الأمة) ولو مدبرة أو أم ولد، وهذا هو ظاهر الرواية عن الثلاثة لأن حقها في الوطء قد تأدى بالجماع. وأما سفح الماء ففائدته الولد والحق فيه للمولى فاعتبر إذنه في إسقاطه فإذا أذن فلا كراهة في العزل عند عامة العلماء وهو الصحيح؛ وبذلك تضافرت الأخبار. وفي الفتح: وفي بعض أجوبة المشايخ الكراهة، وفي بعض عدمها نهر، وعنهما أن الإذن لها. وفي القهستاني أن للسيد العزل عن أمته بلا خلاف وكذا لزوج الحرة بإذنها وهل للأب أو الجد الإذن في أمة الصغير؟ في حاشية أبي السعود عن شرح الحموي نعم قال ط: وفيه أنه لا مصلحة للصبي فيه لأنه لو جاء ولد يكون رقيقا له إلا أن يقال أنه متوهم. اهـ. وفيه أنه لو لم يعتبر التوهم هنا لما توقف على إذن المولى تأمل. (قوله: و هو) أي التعليل المذكور يفيد التقييد: أي تقييد احتياجه إلى الإذن بالبالغة وكذا الحرة بتقييد احتياجه بالبالغة، إذ غير البالغة لا ولد لها قال الرحمتي: وكالبالغة المراهقة إذ يمكن بلوغها وحبلها اهـ ومفاد التعليل أيضا أن زوج الأم لو شرط حرية الأولاد لا يتوقف العزل على إذن المولى كما بحثه السيد أبو السعود. (قوله: نهر بحثا) أصله لصاحب البحر حيث قال وأما المكاتبة فينبغي أن يكون الإذن إليها لأن الولد لم يكن للمولى ولم أره صريحا. اهـ. وفيه أن للمولى حقا أيضا باحتمال عجزها وردها إلى الرق فينبغي توقفه على إذن المولى أيضا رعاية للحقين رحمتي (قوله: لكن في الخانية) عبارتها على ما في البحر: ذكر في الكتاب أنه لا يباح بغير إذنها وقالوا في زماننا يباح لسوء الزمان. اهـ. (قوله: قال الكمال) عبارته: وفي الفتاوى إن خاف من الولد السوء في الحرة يسعه العزل بغير رضاها لفساد الزمان، فليعتبر مثله من الأعذار مسقطا لإذنها. اهـ. فقد علم مما في الخانية أن منقول المذهب عدم الإباحة وأن هذا تقييد من مشايخ المذهب لتغير بعض الأحكام بتغير الزمان، وأقره في الفتح وبه جزم القهستاني أيضا حيث قال: وهذا إذا لم يخف على الولد السوء لفساد الزمان وإلا فيجوز بلا إذنها. اهـ. لكن قول الفتح فليعتبر مثله إلخ يحتمل أن يريد بالمثل ذلك العذر، كقولهم: مثلك لا يبخل. ويحتمل أنه أراد إلحاق مثل هذا العذر به كأن يكون في سفر بعيد، أو في دار الحرب فخاف على الولد، أو كانت الزوجة سيئة الخلق ويريد فراقها فخاف أن تحبل، وكذا ما يأتي في إسقاط الحمل عن ابن وهبان فافهم. "مطلب في حكم إسقاط الحمل" (قوله وقالوا إلخ) قال في النهر: بقي هل يباح الإسقاط بعد الحمل؟ نعم يباح ما لم يتخلق منه شيء ولن يكون ذلك إلا بعد مائة وعشرين يوما، وهذا يقتضي أنهم أرادوا بالتخليق نفخ الروح وإلا فهو غلط لأن التخليق يتحقق بالمشاهدة قبل هذه المدة كذا في الفتح، وإطلاقهم يفيد عدم توقف جواز إسقاطها قبل المدة المذكورة على إذن الزوج. وفي كراهة الخانية: ولا أقول بالحل إذ المحرم لو كسر بيض الصيد ضمنه لأنه أصل الصيد فلما كان يؤاخذ بالجزاء فلا أقل من أن يلحقها إثم هنا إذا سقط بغير عذرها اهـ قال ابن وهبان: ومن الأعذار أن ينقطع لبنها بعد ظهور الحمل وليس لأبي الصبي ما يستأجر به الظئر ويخاف هلاكه. ونقل عن الذخيرة لو أرادت الإلقاء قبل مضي زمن ينفخ فيه الروح هل يباح لها ذلك أم لا؟ اختلفوا فيه، وكان الفقيه علي بن موسى يقول: إنه يكره، فإن الماء بعدما وقع في الرحم مآله الحياة فيكون له حكم الحياة كما في بيضة صيد الحرم، ونحوه في الظهيرية قال ابن وهبان: فإباحة الإسقاط محمولة على حالة العذر، أو أنها لاتأثم إثم القتل اهـ. وبما في الذخيرة تبين أنهم ما أرادوا بالتحقيق إلا نفخ الروح، وأن قاضي خان مسبوق بما مر من التفقه، والله تعالى الموفق اهـ كلام النهر ح. [تنبيه] أخذ في النهر من هذا ومما قدمه الشارح عن الخانية والكمال أنه يجوز لها سد فم رحمها كما تفعله النساء مخالفا لما بحثه في البحر من أنه ينبغي أن يكون حراما بغير إذن الزوج قياسا على عزله بغير إذنها. قلت: لكن في البزازية أن له منع امرأته عن العزل. اهـ. نعم النظر إلى فساد الزمان يفيد الجواز من الجانبين. فما في البحر مبني على ما هو أصل المذهب، وما في النهر على ما قاله المشايخ والله الموفق." الفتاوى الهندية (5/ 356): "رجل عزل عن امرأته بغير إذنها لما يخاف من الولد السوء في هذا الزمان فظاهر جواب الكتاب أن لا يسعه وذكر هنا يسعه لسوء هذا الزمان كذا في الكبرى. وله منع امرأته من العزل كذا في الوجيز للكردري. وإن أسقطت بعد ما استبان خلقه وجبت الغرة كذا في فتاوى قاضي خان. العلاج لإسقاط الولد إذا استبان خلقه كالشعر والظفر ونحوهما لا يجوز وإن كان غير مستبين الخلق يجوز وأما في زماننا يجوز على كل حال وعليه الفتوى كذا في جواهر الأخلاطي. وفي اليتيمة سألت علي بن أحمد عن إسقاط الولد قبل أن يصور فقال أما في الحرة فلا يجوز قولا واحدا وأما في الأمة فقد اختلفوا فيه والصحيح هو المنع كذا في التتارخانية. ولا يجوز للمرضعة دفع لبنها للتداوي إن أضر بالصبي كذا في القنية. امرأة مرضعة ظهر بها حبل وانقطع لبنها وتخاف على ولدها الهلاك وليس لأبي هذا الولد سعة حتى يستأجر الظئر يباح لها أن تعالج في استنزال الدم ما دام نطفة أو مضغة أو علقة لم يخلق له عضو وخلقه لا يستبين إلا بعد مائة وعشرين يومًا: أربعون نطفةً و أربعون علقةً و أربعون مضغةً، كذا في خزانة المفتين، و هكذا في فتاوى قاضي خان."

Sunday 22 January 2023

ماربل اورٹائلس پرتیمم

ماربل چوں کہ زمین کی جنس میں سے ہے؛ لہذا اس پر تیمم کرنا درست ہے ، بشرطیکہ ماربل پر پلاسٹک یاکانچ وغیرہ کی تہہ یا کوئی ایسی چیز نہ لگائی گئی ہوجوزمین کی جنس میں سے نہ ہو،آج کل ماربل پر جو پالش کی جاتی ہے اگر اس پر ہلکا سابھی غبار ہو تو اس پر تیمم کرنا درست ہے۔اور اگر پالش کی تہہ ایسی ہے کہ اس میں کوئی کیمیکل ہو جس میں غیر زمینی اجزاء شامل ہوں تو اس ماربل پر تیمم کرناجائز نہیں ہے۔ فتاوی شامی کی مذکورہ عبارت کا مطلب یہ ہے کہ کوئی علیحدہ چیز کی تہہ پتھر پر لگائی جائے اور اگر وہ تہہ بھی زمین کی جنس میں سے ہو خواہ کسی بھی رنگ کی ہو تو اس صورت میں بھی تیمم جائز ہوگا۔ عمدة القاري شرح صحيح البخاري (4/ 10) : "وَ يجوز عندنَا بِالتُّرَابِ و الرمل وَ الْحجر الأملس المغسول و الجص و النورة و الزرنيخ و الكحل و الكبريت و التوتيا و الطين الْأَحْمَر وَ الْأسود و الأبيض و الحائط المطين و المجصص و الياقوت و الزبرجد و الزمرد و البلخش و الفيروزج و المرجان وَ الْأَرْض الندية و الطين الرطب." الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (1/ 240) : "(قوله: غير مدهونة) أو مدهونة بصبغ هو من جنس الأرض كما يستفاد من البحر كالمدهونة بالطفل والمغرة ط."

Saturday 21 January 2023

من شعرعبدالرزاق عبدالواحد

لا تطرُق ِالبابَ.. تَدري أنَّهُم رَحَلوا خُذ ِالمَفاتيحَ وافتحْ، أيُّها الرَّجلُ ! أدري سَتذهَبُ..تَستَقصي نَوافِذَهُم كما دأبتَ، وتسعى حَيثُما دَخلوا تُراقِبُ الزَّاد..هَل نامُوا وَما أكلوا؟ وَتطُفيءُ النُّورَ..لو..لو مَرَّة ًفعَلوا وفيكَ ألفُ ابتهال ٍلو نَسوهُ لكي بهم عيونُكَ قبلَ النَّوم ِتَكتَحِلُ! لا تطرُق ِالبابَ..كانوا حينَ تَطرُقها لا يَنزلونَ إليها .. كنتَ تَنفعلُ وَيَضحَكون.. وقد تَقسو فتَشتمُهُم وأنتَ في السِّرِّ مَشبوبُ الهَوى، جَذِلُ! حتى إذا فتَحوها، والتقَـيتَ بِهم كادَتْ عيونكَ، فرْط َالحُبِّ، تَنهَمِلُ!

رثاء صدام حسين لعبد الرزاق عبد الواحد

لَستُ أرثيكَ.. لا يَجوزُ الرِّثاءُ كيفَ يُرثى الجَلالُ والكِبرياءُ؟ لَستُ أرثيكَ يا كبيرَ المَعالي ھكذا وَقْفَة المَعالي تَشاءُ ھكذا تَصعَدُ البُطولَة لِلَّه وَفيھا مِن مَجْدهِ لألاءُ ھكذا في مَدارِهِ يَستَقِرُّ النَجْمُ تَرتَجُّ حَولَه الأرجاءُ وھوَ يَعلو..تَبقى المَحاجِرُ غَرقى في سَناهُ وَكُلُّھا أنْداءُ لَستُ أرثيك..كيفَ يُرثى جنوحُ الروح لِلخُلْدِ وَھيَ ضَوءٌ وَماءُ لا اختِلاجٌ بِھا، وَلا كَدَرٌ فيھا رَؤومٌ.. نَقيَّة.. عَصماءُ ضَخْمَة..فَرْط كِبْرِھا وَتُقاھا يستَوي المَوتُ عندَھا والبَقاءُ كنتُ أرنُو إليكَ يومَ التَّجَلِّي كنتَ شَمسا تُحيطُھا ظَلماءُ أسَدا كنتَ طَوَقَت قُرودا وأميرا حَفَّتْ بِه دَھماءُ وَھوَ كالفَجرِ مُسْفِرُ الوَجه، صَلْتٌ بَينَما الكُلُّ أوجُه سَوداءُ ھكذا وَقفَة المَعالي تَشاءُ كيفَ أبكيكَ؟.. لآ يَليقُ البُكاءُ أفَتُبْكى وأنتَ نَجم تَلالا؟ كيفَ يُبكى إذا استَقامَ الضِّياءُ؟ أفَتُبْكى وأنت تَشھَقُ رَمزا حَدَّ أنْ أشفَقَتْ عَلَيكَ السَّماءُ فَرْط ما كُنتَ تَدفَعُ الموتَ لِلأرض وَتَرقى..يَفيضُ منكَ البَھاءُ؟ لَستُ أبكي عَليكَ يا ألَقَ الدُّنيا أتُبكى في مَجدِھا العَلياءُ؟ أنا أبكي العراق.. أبكي بِلادي كيفَ في لَحظَة طَواھا الوَباءُ؟ كيفَ في لَحظَة يُطأطِىءُ ذاكَ المَجدُ ھاماتِه، وَيَھوي الإباءُ؟ بَينَ يَوم وَلَيلَة يا بِلادي يَتَداعى لِلأرض ذاكَ البِناءُ؟ بَينَ يَوم وَلَيلَةٍ تَتَلاشَى فيكِ تِلكَ الوجوهُ والأسماءُ؟ كلُّ ذاكَ التَّاريخ..بابلُ..آشورُ أريدو.. وأور.. والوَركاءُ كُلُّھا بَينَ لَيلَةٍ وَضُحاھا وَطِئَتْ فَوقَ ھامِھا الأعداءُ؟ .. وَإذنْ أيُّ حُرمَة لِلَّذي يأتي؟ وَماذا أبقى لَدَينا الفَناءُ؟ ذِمَّة؟؟.. أيُّ ذِمَّة يا بِلادي بَقيَتْ فيكِ لم تَطأھا الدِّماءُ؟ أيُّ نَفس ما أزھِقَتْ؟..أيُّ عِرض لَم يَلِغ في عَفافِھ الأدنياءُ؟ أيُّ نَكراءَ لَم تُمارَسْ إلى أنْ نَسيَ النَّاسُ أنَّھا نَكراءُ؟ ھكذا؟.. بَعدَ كُلِّ ذاكَ التَّعالي؟ بَعدَ عَينَيكَ..ھكذا النَّاسُ ساءُوا؟ أم ھيَ الحِكمَة العَظيمَة شاءَتْ بِلادي أنْ يَحتَويھا البَلاءُ لِيَرى أھلُھا إلى أيِّ ذلٍّ بَعدَ ذاكَ الزَّھْو العَظيم أفاءُوا؟ لِيَرَوا كَيفَ لَحمُھُم يَتَعاوَى حَولَ الأقرِباءُ والغُرَباءُ فَإذا الأبعَدون مَحْضَ أكُفٍّ والسَّكاكينُ كُلُّھا أقرِباءُ أيُّھا الھائِلُ الذي كانَ سَدَّا في وجوه الغُزاة مِن حَيثُ جاءُوا كانَ مَحْضُ اسمِه إذا ذكَرُوهُ تَتَعَرَّى مِن زَيْفِھا الأشياءُ وَيَكادُ المُريبُ، لَولا التَّوَقِّي وَيَكادُ المُنيبُ، لَولا الرَّجاءُ كُنتَ رَمزا لِفارِس عَرَبيٍّ حَلَمَتْ عُمرَھا بِھ الأبناءُ كُلُّ بَيتٍ مِن العُروبَةِ فيه مِنكَ سِتْرٌ، وَشَمعَة، وَغِطاءُ فَتَلاقَتْ عَلَيهِ أبوابُ أھلي لا وِقاءا.. فَأينَ منھا الوِقاءُ؟ أغلَقُوھا عَلَيكَ دَھرا وَلَمَّا فَتَحُوھا اقشَعَرَّ حتى الھَواءُ سالَ غابٌ مِن الدَّبى والثَّعابين لِبغداد ضاقَ عنھ الفَضاءُ لم تَدَعْ شاخِصا على الأرض إلاَ لدَغَتْه، حتى الصُّوى الصَّمَّاءُ ثمَّ ھِيضَتْ بِنا مَلاسِعُھا السُّودُ بِما ھاجَ حِقدَھا الأجَراءُ كُلُّ دار في عُقْرِھا الآنَ أفعى كُلُّ طِفل في مَھدِهِ عَقرَباءُ وانزَوى أھلُنا كأنْ لم يَرَوھا أھلُنا طولَ عُمرھِم أبرياءُ ھكذاھكذا المُروءاتُ تَقضي ھكذا ھكذا يَكونُ الوَفاءُ أنْ تَعَضَّ اليَدَ التي دَفَعَتْ عَنكَ فَفي قَطْعِھا يَزولُ الحَياءُ وَغَدا حين تَلتَقي أعيُنُ النَاس فَكَفٌّ كأختِھا بَتراءُ لا..وحاشا العراق..لَستَ عِراقا لَو تَمادى عَلَيكَ ھذا الوَباءُ لَستَ أرضَ الثوّار لو ظلَّ فينا فَضْلُ عِرق لم تَجْر منھُ الدِماءُ أنَّه مَرَّ بالتُرابِ ولَم يَسمَعْ وَقَد ضَجَّ في التُّرابِ النِّداءُ فَسَلامٌ عليكِ أرضَ الشَّھادات تَتالى في أرضِكِ الشُّھَداءُ وَسَلامٌ عَلَيكَ يا آخِرَ الرّاياتِ ما نالَ مِن سَناكَ العَفاءُ؟ لا، وحاشاكَ..أنتَ سَيفٌ سَيَبقى وَلَه، وَھوَ في الخلودِ، مَضاءُ ھَيْبة وَھوَ مُغمَدٌ، فإذا ما سُلَّ يَجري مِن شَفرَتَيه الضِياءُ ھكذا أنتَ غائِبا.. فإذا ما قِيلَ مَيْتا، فَلْتَخْجَل الأحياءُ رُبَّ مَوتٍ عِدْلَ الحياةِ جَميعا ھكذا جَدُّكَ الحُسَينُ يُراءُ لا تُرَعْ سَيِّدي، وَحاشاكَ، أنتَ الجَبَلُ ال لا تَھُزُّه الأنواءُ نَحنُ نَبقى بَنيكَ.. مازالَ فينا مِنكَ ذاكَ الشُّموخُ والكِبرياءُ لَم يَزَلْ في عِراقِنا منكَ زَھْوٌ تَتَّقيه الزَّعازِعُ النَّكباءُ فيه قَومٌ لَو أطبَقَ الكَونُ لَيْلا أوقَدُوا كَوكَبَ الدِّماءِ وَضاءُوا أنتَ أدرى بِھِم فَھُم مِنكَ عَزمٌ وإباءٌ، وَنَخْوَة شَمَّاءُ وَدِماھُم..لَو أطفِئَتْ غُرَّة الشَّمس قَناديلُ ما لَھُنَّ انطِفاءُ جَرَيانَ النَّھرَين تَجري لِتَسقي فَلْتَسَلْ زَھْوَ أرضِھا كَربَلاءُ لا تُرَعْ سَيِّدي، وَنَمْ ھاديءَ البال قَريرَ العيون.. فالأنباءُ سَوفَ تَأتيكَ ذاتَ يَوم بِأنَّ الأرضَ دارَتْ، وَضَجَّ فيھا الضِّياءُ