https://follow.it/amir-samdani?action=followPub

Thursday 7 September 2023

مسجد کے ملبہ کاحکم

مسجد کا ملبہ اگر استعمال نہیں ہورہا اور فروخت کے قابل ہے، تو اسے فروخت کرکے حاصل شدہ رقم کو مسجد کی ضروریات میں استعمال کیا جاسکتا ہے، اور اگر فروخت نہ ہوسکتا ہو، تو اس ملبے کو کسی پاک جگہ ڈال دینے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ دلائل: الھندیة: (461/2، ط: دار الفکر) مسجد له مستغلات وأوقاف أراد المتولي أن يشتري من غلة الوقف للمسجد دهنا أو حصيرا أو حشيشا أو آجرا أو جصا لفرش المسجد أو حصى قالوا: إن وسع الواقف ذلك للقيم وقال: تفعل ما ترى من مصلحة المسجد كان له أن يشتري للمسجد ما شاء الفتاوی الخانیة: (ص: 168، ط: قدیمی) وكذ الواشتري حشيشا او قنديلا للمسجد فوقع الاستغناء عنه۔۔۔۔يباع ويصرف ثمنه إلى حوائج المسجد

Monday 4 September 2023

طواف میں اضطباع کاحکم

طواف شروع کرنے سے پہلے چادر کو داہنی بغل کے نیچے سے نکال کر دونوں کنارے بائیں کندھے پر اس طرح ڈال دینا کہ دایاں شانہ کھلا رہے، اضطباع کہلاتا ہے۔ طواف کے سات چکروں میں اضطباع سنت ہے۔ حضرت یعلی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اضطباع کی حالت میں طواف کیا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر چادر مبارک تھی۔ ترمذی، الجامع الصحيح، کتاب الحج، باب ماجاء ان النبی صلی الله عليه وآله وسلم طاف مضطبحاً، 3 : 214، رقم : 859 طواف کے بعد اضطباع نہ کرے، لیکن اگر طواف کے بعد کی نماز میں اضطباع کیا تو مکروہ ہے۔ اضطباع صرف اسی طواف میں ہے جس کے بعد سعی ہو اور اگر طواف کے بعد سعی نہ ہو تو اضطباع بھی نہیں، جیسے نفلی طواف۔

Saturday 2 September 2023

انابیہ نام رکھنا کیسا ہے

”انابیہ“ ”اَناب“ (ہمزہ کے فتحہ کے ساتھ )سے اسم منسوب موٴنث ہے جس کے معنی ہیں مشک، یا مشک کی مانند ایک خاص قسم کی خوش بو۔ ففي المعجم الوسیط: "الأناب: المسک أو عطر یشبهه". (ص۲۸،الأنب، ط: دیوبند، وکذا في القاموس الوحید،ص: ۱۳۷، ط: دار اشاعت) ’’أَنَابَ‘‘ فعل ماضی واحد مذکر غائب کا صیغہ ہے، جس کا معنی ہے" اس شخص نے اللہ کی طرف رجوع کیا" ،جیساکہ قرآن کریم میں بعض مقامات پر یہ لفظ آیاہے: {قُلْ اِنَّ اللّٰهَ يُضِلُّ مَنْ يَّشَآءُ وَيَهْدِيْ اِلَيْهِ مَنْ اَنَابَ} [رعد:27] ترجمہ:آپ کہہ دیجیے کہ واقعی اللہ تعالیٰ جس کو چاہیں گم راہی میں چھوڑ دیتے ہیں اور جو شخص ان کی طرف متوجہ ہوتا ہے اس کو اپنی طرف ہدایت کر دیتے ہیں ۔ لیکن اس معنی کے اعتبار سے اسم فاعل (رجوع کرنے والا)"مُنِیْب" استعمال ہوتاہے،جس کی مؤنث "مُنِیْبَة"ہے، نہ کہ "انابیۃ"؛ لہذا اس لفظ کا پہلا معنی (مشک/خوش بو) ہی متعین ہے اور اس معنی کے لحاظ سے یہ نام رکھنا درست ہے

Tuesday 22 August 2023

القصيدة الدمشقية لنزارقباني

هذي دمشقُ وهذي الكأسُ والرّاحُ إنّي أحبُّ وبعـضُ الحـبِّ ذبّاحُ أنا الدمشقيُّ لو شرّحتمُ جسدي لسـالَ منهُ عناقيـدٌ وتفـّاحُ و لو فتحـتُم شراييني بمديتكـم سمعتمُ في دمي أصواتَ من راحوا زراعةُ القلبِ تشفي بعضَ من عشقوا وما لقلـبي –إذا أحببـتُ- جـرّاحُ الا تزال بخير دار فاطمة فالنهد مستنفر و الكحل صبّاح ان النبيذ هنا نار معطرة فهل عيون نساء الشام أقداح مآذنُ الشّـامِ تبكـي إذ تعانقـني و للمـآذنِ كالأشجارِ أرواحُ للياسمـينِ حقـوقٌ في منازلنـا وقطّةُ البيتِ تغفو حيثُ ترتـاحُ طاحونةُ البنِّ جزءٌ من طفولتنـا فكيفَ أنسى؟ وعطرُ الهيلِ فوّاحُ هذا مكانُ "أبي المعتزِّ" منتظرٌ ووجهُ "فائزةٍ" حلوٌ و لمـاحُ هنا جذوري هنا قلبي هنا لغـتي فكيفَ أوضحُ؟ هل في العشقِ إيضاحُ؟ كم من دمشقيةٍ باعـت أسـاورَها حتّى أغازلها والشعـرُ مفتـاحُ أتيتُ يا شجرَ الصفصافِ معتذراً فهل تسامحُ هيفاءٌ ووضّـاحُ؟ خمسونَ عاماً وأجزائي مبعثرةٌ فوقَ المحيطِ وما في الأفقِ مصباحُ تقاذفتني بحـارٌ لا ضفـافَ لها وطاردتني شيـاطينٌ وأشبـاحُ أقاتلُ القبحَ في شعري وفي أدبي حتى يفتّـحَ نوّارٌ وقـدّاحُ ما للعروبـةِ تبدو مثلَ أرملةٍ؟ أليسَ في كتبِ التاريخِ أفراحُ؟ والشعرُ ماذا سيبقى من أصالتهِ؟ إذا تولاهُ نصَّـابٌ ومـدّاحُ؟ وكيفَ نكتبُ والأقفالُ في فمنا؟ وكلُّ ثانيـةٍ يأتيـك سـفّاحُ؟ حملت شعري على ظهري فأتعبني ماذا من الشعرِ يبقى حينَ يرتاحُ

مردوعورت کے غسل میں فرق نہیں

غسل میں اصولی طور پر تو ایک ہی فرض ہے یعنی پورے جسم میں جہاں تک تکلیف ومشقت کے بغیر پانی پہنچ سکے وہاں تک پانی پہنچانا، لیکن فقہاء کرام نے اسے آسان اور منضبط کرنے کے لیے غسل کے تین فرائض بیان کیے ہیں: ۱-منہ بھر کر کلی یا غرارہ کرنا۔ ۲-ناک کی نرم ہڈی تک پانی چڑھانا۔ ۳- پورے بدن پر اس طرح پانی بہانا کہ بال برابر جگہ بھی خشک نہ رہے۔ نیز غسل کرنے سے قبل ہی چھوٹا بڑا استنجا کرلینا چاہیے ، یعنی چھوٹی بڑی دونوں شرم گاہوں کو دھولیاجائے، اگرچہ ان پر کوئی نجاست نہ لگی ہو، اور اگر نجاست لگی ہو تو اس نجاست کو بھی دھولیاجائے ، پھر اگر جسم پر کہیں اور کوئی نجاست جیسے منی وغیرہ لگی ہو تو اس کو پاک کردیاجائے ۔ اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ مرد و عورت دونوں کے غسل میں تین ہی فرائض ہیں، لہٰذا عورت کے لیے غسل میں انگلیوں پر کپڑا لپیٹ کر اس کپڑے سے شرم گاہ کو صاف کرنے کو فرض قرار دینا اور یہ کہنا کہ عورت کے غسل میں چار فرائض ہوتے ہیں، درست نہیں ہے، ہاں عورت کے لیے شرم گاہ کے خارجی حصے کو بھی دھونا چاہیے؛ کیوں کہ یہاں پانی پہنچانے میں حرج نہیں ہے، اسی بات کو فقہاءِ کرام نے صراحتًا ذکر کردیا ہے، جیسے کہ ناف میں پانی ڈالنے اور انگوٹھی پہنی ہو تو اس کے نیچے پانی پہنچانے وغیرہ کی تاکید بھی فقہاءِ کرام نے کی ہے، لیکن یہ سب چیزیں مستقل فرائض نہیں ہیں۔ الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (1/ 151): "(وفرض الغسل) أراد به ما يعم العملي، كما مر، وبالغسل المفروض، كما في الجوهرة، وظاهره عدم شرطية غسل فمه وأنفه في المسنون، كذا البحر، يعني عدم فرضيتها فيه وإلا فهما شرطان في تحصيل السنة (غسل) كل (فمه) ويكفي الشرب عباً؛ لأن المج ليس بشرط في الأصح (وأنفه) حتى ما تحت الدرن (و) باقي (بدنه) لكن في المغرب وغيره: البدن من المنكب إلى الألية، وحينئذ فالرأس والعنق واليد والرجل خارجة لغةً داخلة تبعاً شرعاً (لا دلكه) لأنه متمم، فيكون مستحباً لا شرطاً، خلافاً لمالك (ويجب) أي يفرض (غسل) كل ما يمكن من البدن بلا حرج مرةً كأذن و (سرة وشارب وحاجب و) أثناء (لحية) وشعر رأس ولو متبلداً؛ لما في {فاطهروا} [المائدة: 6] من المبالغة (وفرج خارج)؛ لأنه كالفم لا داخل؛ لأنه باطن، ولاتدخل أصبعها في قبلها، به يفتي. (قوله: وفرض الغسل) الواو للاستئناف أو للعطف على قوله: أركان الوضوء، والفرض بمعنى المفروض. والغسل بالضم اسم من الاغتسال، وهو تمام غسل الجسد، واسم لما يغتسل به أيضاً، ومنه في حديث ميمونة: "فوضعت له غسلاً" مغرب، لكن قال النووي: إنه بالفتح أفصح وأشهر لغةً، والضم هو الذي تستعمله الفقهاء، بحر. (قوله: ما يعم العملي) أي ليشمل المضمضة والاستنشاق فإنهما ليسا قطعيين؛ لقول الشافعي بسنيتهما. اهـ. ح. (قوله: كما مر) أي في الوضوء، وقدمنا هناك بيانه. (قوله: وبالغسل المفروض) أي غسل الجنابة والحيض والنفاس سراج فأل للعهد. (قوله: يعني إلخ) مأخوذ من المنح. قال ط: والمراد بعدم الفرضية أن صحة الغسل المسنون لاتتوقف عليهما، وأنه لايحرم عليه تركهما. وظاهر كلامه أنهما إذا تركا لايكون آتياً بالغسل المسنون، وفيه نظر؛ لأنه من الجائز أن يقال: إنه أتى بسنة وترك سنةً، كما إذا تمضمض وترك الاستنشاق. اهـ. أقول: فيه أن الغسل في الاصطلاح غسل البدن، واسم البدن يقع على الظاهر والباطن إلا ما يتعذر إيصال الماء إليه أو يتعسر كما في البحر، فصار كل من المضمضة والاستنشاق جزءًا من مفهومه فلاتوجد حقيقة الغسل الشرعية بدونهما، ويدل عليه أنه في البدائع ذكر ركن الغسل وهو إسالة الماء على جميع ما يمكن إسالته عليه من البدن من غير حرج، ثم قسم صفة الغسل إلى فرض وسنة ومستحب، فلو كانت حقيقة الغسل الفرض تخالف غيره لما صح تقسيم الغسل الذي ركنه ما ذكر إلى الأقسام الثلاثة، فيتعين كون المراد بعدم الفرضية هنا عدم الإثم كما هو المتبادر من تفسير الشارح لا عدم توقف الصحة عليهما، لكن في تعبيره بالشرطية نظراً لما علمت من ركنيتهما، فتدبر. (قوله: غسل كل فمه إلخ) عبر عن المضمضة والاستنشاق بالغسل لإفادة الاستيعاب أو للاختصار كما قدمه في الوضوء، ومر عليه الكلام، ولكن على الأول لا حاجة إلى زيادة كل. (قوله: ويكفي الشرب عباً) أي لا مصاً، فتح، وهو بالعين المهملة، والمراد به هنا الشرب بجميع الفم، وهذا هو المراد بما في الخلاصة، إن شرب على غير وجه السنة يخرج عن الجنابة وإلا فلا، وبما قيل: إن كان جاهلاً جاز وإن كان عالماً فلا: أي لأن الجاهل يعب، والعالم يشرب مصاً كما هو السنة".(قوله: لأن المج) أي طرح الماء من الفم ليس بشرط للمضمضة، خلافاً لما ذكره في الخلاصة، نعم هو الأحوط من حيث الخروج عن الخلاف، وبلعه إياه مكروه، كما في الحلية".

Monday 21 August 2023

تجدید نکاح

فقہاء نے لکھا ہے کہ ناواقف لوگوں کو چاہیے کہ وہ مہینہ میں ایک یا دو مرتبہ نکاح کی تجدید کرلیا کریں کہ غلطی میں ان سے کوئی کفریہ کلمہ سرزد نہ ہوگیا ہو۔ صرف احتیاط کی بنا پر نکاح کی تجدید کی گئی ہو تو نیا مہر متعین کرنا ضروری نہیں ہے، اور اس نفسِ نکاح سے( جب کہ مہر میں اضافہ مقصود نہ ہو ) مہر بھی لازم نہیں ہوگا۔ لہٰذا اگر اپنی منکوحہ سے دوبارہ نکاح کا مقصد احتیاطًا تجدیدِ نکاح ہے تو اس میں کوئی حرج نہیں، بلکہ عامی شخص کو یہ کرلینا چاہیے، اور اس سے پہلے نکاح پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔ اسی طرح اگر پہلے خفیہ نکاح کیا گیا (گویہ شرعًا بہت ہی ناپسندیدہ ہے)، اور بعد میں اعلانیہ طور پر نکاح کیا جارہاہو، تو اس کی بھی شرعًا اجازت ہے، اس سے نکاح پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔ الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3/ 113): "[تنبيه] في القنية: جدد للحلال نكاحاً بمهر يلزم إن جدده لأجل الزيادة لا احتياطاً اهـ أي لو جدده لأجل الاحتياط لاتلزمه الزيادة بلا نزاع، كما في البزازية". الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (1/ 42): " والاحتياط أن يجدد الجاهل إيمانه كل يوم ويجدد نكاح امرأته عند شاهدين في كل شهر مرةً أو مرتين؛ إذ الخطأ وإن لم يصدر من الرجل فهو من النساء كثير".

Sunday 20 August 2023

آستین چڑھاکر پائجامہ یاپینٹ کی مہری موڑ کرنماز پڑھنا

شلوار کے پائنچے ٹخنوں سے نیچے رکھنا بقصدِ تکبر حرام، اور بلاقصدِ تکبر مکروہِ تحریمی (ناجائز)ہے، اگر غیر ارادی طور پر کبھی شلوار کا پائنچہ ٹخنوں سے نیچے لٹک جائے تو معاف ہے، لیکن جان بوجھ کر ایسا کرنا یا شلوار ہی ایسی بنانا کہ پائنچہ ٹخنوں سے نیچے لٹکتا رہے یہ ہر گز جائز نہیں ہے، اور یہ متکبرین کی علامت ہے، اور جب یہ فعل ہی متکبرین کی علامت ہے تو پھر یہ کہہ کر ٹخنوں کو چھپانا کہ نیت میں تکبر نہیں تھا ، شرعاً درست نہیں ہے، اور ٹخنوں کو ڈھانکنا نماز اور غیر نماز ہر حال میں ممنوع ہے، اور نماز میں اس کی حرمت مزید شدید ہوجاتی ہے، لہذا ایسا لباس ہی نہ بنایا جائے جس میں ٹخنے ڈھکتے ہوں، فقہاءِ کرام نے ایسا لباس سلوانے کو مکروہ لکھا ہے جس میں مرد کے ٹخنے چھپ جاتے ہوں۔اور ایسا لباس ہونے کی صورت میں نماز شروع کرنے سے پہلےشلوار یا پینٹ وغیرہ کو اوپر سے موڑ لینا چاہیے، ورنہ کم ازکم نیچے سے موڑلے۔ اس طرح کرنے سے اس گناہ سے نجات مل جائے گی جو شلوار وغیرہ کو نماز کے اندر ایسے ہی چھوڑ دینے سے ہوتا۔ شلوار یا پینٹ پاؤں کی جانب سے موڑنے میں لباس کی ہیئت تبدیل ہونے سے جو کراہت آتی ہے وہ کراہتِ تنزیہی ہے، جب کہ ٹخنے ڈھانپنا مکروہ تحریمی (ناجائز) ہے۔لہٰذا اگر کسی کی شلوار وغیرہ لمبی ہو تو اسے اوپر یا نیچے کی جانب سے موڑ دینا چاہیے، کیوں کہ ٹخنے ڈھکنے کی کراہت تحریمی اور شدید ہے، جو حکم کے اعتبار سے ناجائز ہے، اس کےمقابلے میں شلوار یا پینٹ کو نیچے کی جانب سے فولڈ کرنے کی کراہت کم ہے، اس لیےشلوار یا پینٹ لمبی ہو تو نماز سے پہلے اسے فولڈ کرلینا چاہیے۔ "إن الله تعالی لایقبل صلاة رجل مسبل". (سنن أبي داؤد، کتاب اللباس، باب ماجاء في إسبال الإزار، النسخة الهندیة۲/۵۶۵، بیت الأفکار رقم:۴۰۸۶) "عن أبي هریرة قال: قال رسول اﷲ صلی الله علیه وسلم: ما أسفل من الکعبین من الإزار في النار". (صحیح البخاري، کتاب الصلاة، باب ما أسفل من الکعبین ففي النار،۲/۸۶۱، رقم:۵۵۵۹) "عن أبي ذر عن النبي صلی الله علیه وسلم قال: ثلاثة لایکلمهم الله یوم القیامة: المنان الذي لایعطي شیئاً إلامنّه، والمنفق سلعته بالحلف والفاجر، والمسبل إزاره". (الصحیح لمسلم، کتاب الإیمان، باب بیان غلظ تحریم إسبال الإزار، النسخة الهندیة۱/۷۱، بیت الأفکار رقم:۱۰۶) "وینبغي أن یکون الإزار فوق الکعبین ..." الخ (الفتاوى الهندیة، کتاب الکراهية، الباب التاسع في اللبس، زکریا۵/۳۳۳) ’’مرقاة المفا تیح‘‘: "ولایجوز الإسبال تحت الکعبین إن کان للخیلاء، وقد نص الشافعی علی أن التحریم مخصوص بالخیلاء ؛ لدلالة ظواهر الأحادیث علیها ، فإن کان للخیلاء فهو ممنوع منع تحریم". (۸/۱۹۸، کتاب اللباس) 2- آستین چڑھا کر نماز پڑھنا مکروہ ہے، اگر رکعت نکل جانے کے خوف سے آستین نیچے کیے بغیر جماعت میں شامل ہوگیا اور کہنیاں کھلی رہ گئیں تو نماز کے دوران عملِ کثیر کے بغیر آستین نیچے کرلینی چاہیے، اور اس کی بہتر صورت یہ ہے کہ ایک ہی رکن میں دونوں آستینیں نیچے نہ کرے، بلکہ مختلف ارکان کی ادائیگی میں حتی الامکان کم سے کم عمل کے ذریعے نیچے کردے، تو عملِ قلیل کی وجہ سے نماز پر اثر نہیں پڑے گا۔ حاشية رد المحتار على الدر المختار - (1 / 640): "(قوله :كمشمر كم أو ذيل ) أي كما لو دخل في الصلاة وهو مشمر كمه أو ذيله وأشار بذلك إلى أن الكراهة لاتختص بالكف وهو في الصلاة، كما أفاده في شرح المنية، لكن قال في القنية: واختلف فيمن صلى وقد شمر كميه لعمل كان يعمله قبل الصلاة أو هيئته ذلك ا هـ ومثله ما لو شمر للوضوء ثم عجل لإدراك الركعة مع الإمام، وإذا دخل في الصلاة كذلك، وقلنا بالكراهة، فهل الأفضل إرخاء كميه فيها بعمل قليل أو تركهما؟ لم أره، والأظهر الأول؛ بدليل قوله الآتي: ولو سقطت قلنسوته فإعادتها أفضل، تأمل

Tuesday 25 July 2023

زانی ومزنیہ کی اولاد کا آپسمیں نکاح

زنا یا دواعی زنا( مثلًا: عورت کو شہوت کے ساتھ کسی حائل کے بغیر چھونے یا بوسہ لینے سے) حرمتِ مصاہرت ثابت ہوجاتی ہے، یعنی اس عورت کے اصول (ماں ،دادی وغیرہ) اورفروع (بیٹی پوتی غیرہ)، مرد پر حرام ہوجائیں گے اور اس مرد کے اصول ( باپ ، دادا وغیرہ )اورفروع (بیٹا ، پوتا وغیرہ) ، عورت پر حرام ہوجائیں گے۔لیکن ان دونوں کے اصول وفروع آپس میں ایک دوسرے پر حرام نہیں ہوں گے؛ اس لیے وہ مرد اورعورت جنہوں نے باہم زنا کیاہو، ان کی اولاد کاآپس میں نکاح ہوسکتا ہے، تاہم زنا کرنے والے مرد اور عورت کو اپنے گناہ پر سچے دل سے توبہ و استغفار کرنا لازم ہوگا، اور آئندہ تنہائی میں ملاقات یا بے محابا تعلق و رابطے سے اجتناب ضروری ہوگا۔ شامی(32/2): "(قوله: و حرم أيضًا بالصهرية أصل مزنيته) قال في البحر: أراد بحرمة المصاهرة الحرمات الأربع حرمة المرأة على أصول الزاني وفروعه نسبًا و رضاعًا و حرمة أصولها و فروعها على الزاني نسبًا و رضاعًا كما في الوطء الحلال و يحلّ لأصول الزاني و فروعه أصول المزني بها و فروعها."

Tuesday 11 July 2023

قیمت پہلے دینے کی صورت میں بائع کی طرف سے قیمت کم کرنا

عقد کرتے وقت جو ریٹ طے ہوجائے (خواہ نقد ہو یا ادھار) مشتری کے ذمے وہی ادا کرنا لازم ہوتا ہے، البتہ اگر فروخت کنندہ عقد (معاملہ) کرنے کے بعد طے شدہ ریٹ میں اپنی طرف سے کمی کرنا چاہے تو کر سکتا ہے، بشرطیکہ یہ کمی قسط کی صورت میں جلدی ادا کرنے کی شرط پر نہ ہو، نیز مدتِ ادائیگی میں مزید مہلت طلب کرنے کے عوض طے شدہ ریٹ پر اضافہ کرنا بھی جائز نہیں ، اسی طرح فروخت کنندہ کے لیے نقد کی صورت میں کمی اور ادائیگی کی مدت میں اضافہ کرنے کی وجہ سے زیادہ رقم کا مطالبہ کرنا جائز نہیں ہے۔ جلدی ادا کرنے کی صورت میں بائع خود اپنی مرضی سے رقم کم کردے تو اس میں کوئی قباحت نہیں۔ درر الحکام میں ہے: "(المادة 369) : حكم البيع المنعقد الملكية يعني صيرورة المشتري مالكا للمبيع والبائع مالكا للثمن...أي أن ملكية المبيع تنتقل للمشتري، وملكية الثمن تنتقل للبائع...أما الحكم التابع للبيع المنعقد: أولا: وجوب تسليم البائع للمبيع إلى المشتري، ثانيا: دفع المشتري الثمن للبائع."

Friday 7 July 2023

سجدہ چھوٹ جائے پھردوسری رکعت میں کرلے

نماز کی ہر رکعت میں دونوں سجدے فرض ہیں، اگر ایک سجدہ کسی رکعت میں چھوٹ گیا اور نماز مکمل کرلی تو نماز کا اعادہ کرنا لازم ہے، اگر نماز کے دوران چھوٹا ہوا سجدہ یاد آئے تو اسے کرلے اور آخر میں سجدہ سہو کرلے ۔ چوں کہ تیسری رکعت میں جو سجدہ رہ گیا تھا،چوتھی رکعت میں وہ سجدہ ادا کر لیا تھا تو اب اس پر لازم تھا کہ آخر میں سجدہ سہو کرتا، لیکن اس نے نہیں کیا تو وقت کے اندر تو اس نماز کا اعادہ لازم تھا، لیکن وقت کے بعد اعادہ واجب نہیں ہے۔ مراقي الفلاح بإمداد الفتاح شرح نور الإيضاح ونجاة الأرواح (ص: 126): "(و) يفترض (العود إلى السجود) الثاني؛ لأن السجود الثاني كالأول فرض بإجماع الأمة". حاشية الطحطاوي على مراقي الفلاح شرح نور الإيضاح (ص: 440): "كل صلاة أديت مع كراهة التحريم تعاد أي وجوباً في الوقت، وأما بعده فندب ".

Wednesday 5 July 2023

کریڈٹ کارڈ کے ذریعہ خریدوفروخت

: کاروباری ضرورت یا مالی تحفظ کی غرض سے بینک سے "کریڈٹ کارڈ" لینے اور اس کے استعمال کرنے کی اجازت ہے۔ البتہ اس میں انتہائی احتیاط برتی جائے کہ جاری کردہ بلوں کی قیمت مقررہ مدت کے اندر ادا کردینا چاہیے تاکہ ان پر جرمانہ (سود) لاگو نہ ہوسکے کیونکہ سود کا ادا کرنا حرام ہے۔ نیز کریڈٹ کارڈ کے لیے جو سالانہ فیس بینک کی طے کردہ اُجرت ہوتی ہے، جو کارڈ جاری کرانے اور اس کے لیے کی جانے والی کاررَوائی کاعوض ہے، یا ان مشینوں کے اخراجات کے مقابلے میں لی جاتی ہے، جس سے آدمی کو کہیں سے بھی کسی بھی چیز کا خریدنا آسان ہوجاتا ہے، جس کے نصب کرنے میں کثیر رقم خرچ ہوتی ہے، اس لئے اس فیس کا دینا بھی جائز ہے۔ کریڈٹ کارڈ سے متعلق ایک اور مسئلہ کی وضاحت دارالعلوم دیوبند کے ایک فتوی میں ملتی ہے، ملاحظہ فرمائیں : کریڈٹ کارڈ بنواتے وقت انٹریسٹ دینے کا جو آپشن تسلیم کیا جاتا ہے، اس کے فارم پر دستخط کرتے وقت اگر غالب گمان یہ ہو کہ جاری کردہ بلوں کی قیمت مقررہ مدت کے اندر ادا کردی جائے گی اور عقد میں شرط پر دستخط کرنا ایک فرضی صورت ہو تو پھر کریڈٹ کارڈ کا استعمال جائز ہوگا اور اس شرط پر دستخط کرنے کی گنجائش بھی ہوگی، شرط تو شریعت کی رو سے باطل ہوجائے گی اور عقد صحیح ہوجائے گا۔ من اشترط شرطًا لیس في کتاب اللہ فہو باطل وإن کان مائة شرط۔ (مسلم شریف : ۱/۴۹۴، رقم الفتوی : 27209) درج بالا تفصیلات سے معلوم ہوا کہ بوقت ضرورت کریڈٹ کارڈ کا استعمال کرنا جائز ہے، البتہ رقم کی ادائیگی میں تاخیر نہیں ہونی چاہیے، تاخیر کی صورت میں زائد رقم دینے کی وجہ سود دینے کا گناہ ہوگا، جس پر احادیث میں لعنت وارد ہوئی ہے۔ چونکہ کریڈیٹ کارڈ کے ذریعے نقد رقم نکالنے کی صورت میں بغیر کوئی مدت کے عموماً سود لاگو ہوجاتا ہے، لہٰذا بلاضرورتِ شدیدہ نقد رقم نکالنے سے اجتناب کرنا چاہیے۔ عن جابر قال : ’’ لعن رسول صلی اللہ علیہ وسلم للّٰہ ﷺ اٰکل الربا وموکلہ وکاتبہ وشاہدیہ ، وقال : ہم سواء ‘‘۔(۲/۲۷ ، مسلم، کتاب المساقات والمزارعۃ ، باب لعن آکل الربا وموکلہ) قولہ : (وموکلہ) یعني : الذي یؤدي الربا إلی غیرہ، فإثم عقد الربا والتعامل بہ سواء في کل من الآخذ والمعطي ، ثم أخذ الربا أشدّ من الإعطاء لما فیہ من التمتع بالحرام۔ (موسوعۃ تکملۃ فتح الملہم، ۷/۵۷۴ ، تحت رقم :۴۰۶۸) اعلم أن الإجارۃ عقد علی المنفعۃ بعوض ہو مال ۔ اہـ ۔ (۱۵/۸۶ ،المبسوط للسرخسي کتاب الإجارات ، بیروت) (فتاویٰ دار العلوم دیوبند، رقم الفتویٰ : ۲۹۸۸۴)فقط

Saturday 1 July 2023

قرآن مجید ترجمہ کے ساتھ پڑھیں یابغیر ترجمہ

قرآنِ کریم ترجمہ کے ساتھ پڑھا جائے یا بغیر ترجمہ کے دونوں صورتوں میں بڑا ثواب ہے، اگر کسی شخص کو ترجمہ نہیں آتا یا ترجمہ آتا ہے لیکن وہ معانی پر غور کیے بغیر صرف قرآنِ کریم کی تلاوت کرتا ہے تو یہ بھی بڑا اجر وثواب رکھتا ہے۔ ترجمہ کے ساتھ ہی قرآن کریم کا پڑھنا لازم نہیں ہے۔ قرآنِ مجید عربی میں نازل ہوا ہے اور اس کے ہر لفظ کی تلاوت پر احادیث میں دس نیکیوں کا وعدہ کیا گیا ہے، اگر کوئی شخص قرآنِ کریم کے عربی الفاظ پڑھے بغیر صرف ترجمہ پڑھے یا اس کے معانی میں غور کرے تو اسے بے شک قرآنِ کریم کا مفہوم سمجھنے کا ثواب تو ملے گا، لیکن قرآنِ کریم کی تلاوت پر جو ثواب احادیثِ مبارکہ میں وارد ہے وہ نہیں ملے گا، جب کہ بغیر ترجمہ کے قرآنِ کریم کی تلاوت کرنے والا ہر ہر حرف پر دس نیکیوں کا مستحق بنتا ہے، جیساکہ حدیثِ مبارک میں ایک حرف پڑھنے پر دس نیکیوں کی فضیلت بتائی گئی ہے، اور اس کی مثال سمجھاتے ہوئے فرمایا گیا ہے کہ "الم" ایک حرف نہیں ہے، بلکہ الف الگ حرف ہے اور لام الگ حرف ہے اور میم الگ حرف ہے، نکتہ اس میں یہ ہے کہ "الم" حروفِ مقطعات میں سے ہے، اور حروفِ مقطعات کا معنٰی و مفہوم جمہور اہلِ علم کے نزدیک اللہ تعالیٰ کے علاوہ کسی کو یقینی طور پر معلوم نہیں ہے، حدیث شریف میں مثال ہی ان حروف کی دی گئی جن کا معنٰی کسی بھی امتی کو معلوم نہیں ہے، اور ان کے پڑھنے پر ہر حرف پر دس نیکیوں کا وعدہ کیا گیا ہے، تو معلوم ہوا کہ قرآنِ کریم کی نفسِ تلاوت بھی مقصود ہے، اور اس پر اجر و ثواب مستقل ہے۔ اس لیے قرآنِ کریم کی تلاوت کا ثواب تو عربی الفاظ کی تلاوت پر ہی ملے گا، اور ان الفاظ کو سمجھ کر پڑھنے یا ان کی تلاوت کے ساتھ ترجمہ پڑھنے یا اس میں غور کرنے سے ثواب مزید بڑھ جائے گا۔ حاصل یہ ہے کہ سمجھے بغیر تلاوتِ قرآنِ کریم کو فضیلت میں کم نہ سمجھا جائے، تلاوت مستقل طور پر مطلوب ہے، اور آپ ﷺ کی بعثت کے مقاصد اور معمولات اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے معمولات میں شامل ہے۔ البتہ قرآنِ کریم کی ایک آیت سیکھنے پر حدیثِ مبارکہ میں یہ فضیلت وارد ہوئی ہے کہ ایک آیت کا سیکھنا سو رکعت نفل نماز سے بہتر ہے؛ لہذا کوئی شخص تلاوت کے ساتھ ساتھ آیات کا معنی و مفہوم سمجھ کر پڑھتاہے تو وہ اس فضیلت کا مستحق بنتا ہے۔ اگر کوئی قرآن مجید کو سمجھنے کی خواہش رکھتا ہو تو اسے چاہیے کسی مستند عالمِ دین کی خدمات حاصل کرکے ان کی نگرانی میں سمجھے، اپنے قوتِ مطالعہ پر اعتماد نہ کرے، تاکہ قرآنِ مجید رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرامین کے مطابق سمجھنا ممکن ہو، کیوں کہ رطب و یابس میں فرق کرنا عام مسلمان کے لیے ممکن نہیں۔ سنن الترمذي - (5 / 175): "...عبد الله بن مسعود يقول: قال رسول الله صلى الله عليه و سلم: من قرأ حرفًا من كتاب الله فله به حسنة والحسنة بعشر أمثالها، لا أقول: آلم حرف، ولكن ألف حرف ولام حرف وميم حرف." ترجمہ:حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص قرآن کا ایک حرف پڑھے گا تو اس کے لیے ہر حرف کے عوض ایک نیکی ہے جو دس نیکیوں کے برابر ہے (یعنی قرآن کے ہر حرف کے عوض دس نیکیاں ملتی ہیں) میں یہ نہیں کہتا کہ سارا "الم" ایک حرف ہے، بلکہ الف ایک حرف ہے، لام ایک حرف ہے، اور میم ایک حرف ہے۔ (یعنی الم کہنے میں کہنے میں تیس نیکیاں لکھی جاتی ہیں ہیں) سنن ابن ماجه (1/ 79): " عن أبي ذر، قال: قال لي رسول الله صلى الله عليه وسلم: «يا أبا ذر، لأن تغدو فتعلم آيةً من كتاب الله، خير لك من أن تصلي مائة ركعة، ولأن تغدو فتعلم باباً من العلم، عمل به أو لم يعمل، خير من أن تصلي ألف ركعة»". ترجمہ: حضرت ابوذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے ارشاد فرمایا: تو صبح کو جا کر کتاب اللہ کی ایک آیت سیکھے یہ تیرے لیے سو رکعت نماز سے بہتر ہے اور تو صبح جا کر علم کا ایک باب سیکھے خواہ اس پر (اسی وقت) عمل کرے یا نہ کرے یہ تیرے لیے ہزار رکعت پڑھنے سے بہتر ہے۔

خصائص قرآن مجید

قرآن مجید اللہ تعالیٰ کا کلام ،اس کی آخری کتاب اور اس کا ایک معجزہ ہے ۔ یہ دنیا میں سب سے زیادہ پڑھی جانے والی کتاب ہے۔اس نے اپنے سے پہلے کی سب الہامی کتابوں کو منسوخ کردیا ہے۔ اوران میں سےکوئی بھی آج اپنی اصل صورت میں محفوظ نہیں ۔ البتہ قرآن تمام پہلی کتابوں کی تعلیمات کواپنے اندر سمیٹے ہوئے ہے ۔اور قرآن مجید واحد ایسی کتاب کے جو پوری انسانیت کےلیے رشد وہدایت کا ذریعہ ہے اللہ تعالی نے اس کتاب ِہدایت میں انسان کو پیش آنے والےتما م مسائل کو تفصیل سے بیان کردیا ہے جیسے کہ ارشادگرامی ہے کہ و نزلنا عليك الكتاب تبيانا لكل شيء قرآن مجید سیکڑوں موضوعا ت پرمشتمل ہے۔مسلمانوں کی دینی زندگی کا انحصار اس مقدس کتاب سے وابستگی پر ہے اور یہ اس وقت تک ممکن نہیں جب تک اسے پڑ ھا اور سمجھا نہ جائے۔ قرآن کریم کا یہ اعجاز ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کی حفاظت کا ذمہ خود لیا۔اور قرآن کریم یہ خصوصیت ہے کہ تمام مخلوقات مل کر بھی اس کی مثال پیش کرنے سے قاصر ہیں۔قرآن کی عظمت کا اندازہ اس امر سے بھی لگایا جاسکتا ہے ہ یہ کتاب جس سرزمین پر نازل ہوئی اس نے وہاں کے لوگوں کو فرشِ خاک سے اوجِ ثریا تک پہنچا دیا۔اس نےان کو دنیا کی عظیم ترین طاقت بنا دیا۔قرآن واحادیث میں قرآن اور حاملین قرآن کے بہت فضائل بیان کے گئے ہیں ۔نبی کریم ﷺ نے اپنی زبانِ رسالت سے ارشاد فرمایا: «خَيْرُكُمْ مَنْ تَعَلَّمَ القُرْآنَ وَعَلَّمَهُ» صحیح بخاری:5027) اور ایک حدیث مبارکہ میں قوموں کی ترقی اور تنزلی کو بھی قرآن مجید پر عمل کرنے کےساتھ مشروط کیا ہے ۔ارشاد نبو ی ہے : «إِنَّ اللهَ يَرْفَعُ بِهَذَا الْكِتَابِ أَقْوَامًا، وَيَضَعُ بِهِ آخَرِينَ»صحیح مسلم :817)تاریخ گواہ کہ جب تک مسلمانوں نے قرآن وحدیث کو مقدم رکھااور اس پر عمل پیرا رہے تو وہ دنیا میں غالب اور سربلند رہے ۔ انہوں نے تین براعظموں پر حکومت کی اور دنیا کو اعلیٰ تہذیب وتمدن اور بہترین نظام ِ زندگی دیا ۔ اور جب قرآن سے دوری کا راستہ اختیار کیا تو مسلمان تنزلی کاشکار ہوگئے قرآن مجید اور ہماری ذمہ داری یہ کتابِ مقدس حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ سے لے کر رہتی دنیا تک مشعلِ راہ بنی رہے گی، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اس کتاب کو اتنا جامع اور مانع بنایا ہے کہ ایمانیات، عبادات، معاملات ، سماجیات ، معاشیات واقتصادیات کے اصول قرآن کریم میں مذکور ہیں۔ ہاں! ان کی تفصیلات احادیثِ نبویہ میں موجود ہیں۔ مگر بڑے افسوس کی بات ہے کہ ہمارا تعلق اس کتاب سے روز بروز منقطع ہوتا جارہا ہے۔ یہ کتاب ہماری مسجدوں اور گھروں میں جزدانوں میں قید ہوکر رہ گئی ہے، نہ تلاوت ہے نہ تدبر ہے اور نہ ہی اس کے احکام پر عمل، آج کا مسلمان دنیا کی دوڑ میں اس طرح گم ہوگیا ہے کہ قرآن کریم کے احکام ومسائل کو سمجھنا تو درکنار اس کی تلاوت کے لیے بھی وقت نہیں ہے۔ علامہ اقبال ؒ نے اپنے دور کے مسلمانوں کے حال پر رونا روتے ہوئے اسلاف سے اس وقت کے مسلمان کا مقارنہ ان الفاظ میں کیا تھا: وہ زمانہ میں معزز تھے مسلماں ہوکر اور ہم خوار ہوئے تارکِ قرآں ہوکر آج ہم اپنے بچوں کی دنیاوی تعلیم کے بارے میں سوچتے ہیں، انہیں عصری علوم کی تعلیم دینے پر اپنی تمام محنت وتوجہ صرف کرتے ہیں اور ہماری نظر صرف اور صرف اس عارضی دنیا اور اس کے آرام وآسائش پر ہوتی ہے اور اُس ابدی ولافانی دنیا کے لیے کوئی خاص جدوجہد نہیں کرتے، الا ما شاء اللہ۔ لہٰذا ہمیں چاہیے کہ ہم اپنا اور اپنے بچوں کا تعلق وشغف قرآن وحدیث سے جوڑیں، اس کی تلاوت کا اہتمام کریں، علماء کی سرپرستی میں قرآن وحدیث کے احکام سمجھ کر ان پر عمل کریں اور اس بات کی کوشش وفکر کریں کہ ہمارے ساتھ، ہمارے بچے، گھر والے، پڑوسی، دوست واحباب ومتعلقین بھی حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے لائے ہوئے طریقہ پر زندگی گزارنے والے بن جائیں۔ آج عصری تعلیم کو اس قدر فوقیت واہمیت دی جارہی ہے کہ لڑکوں اور لڑکیوں کو قرآن کریم ناظرہ کی بھی تعلیم نہیں دی جارہی ہے، کیونکہ ان کو اسکول جانا ہے، ہوم ورک کرنا ہے، پروجیکٹ تیار کرنا ہے، امتحانات کی تیاری کرنی ہے، وغیرہ وغیرہ، یعنی دنیاوی زندگی کی تعلیم کے لیے ہر طرح کی جان ومال اوروقت کی قربانی دینا آسان ہے، لیکن اللہ تعالیٰ کے کلام کو سیکھنے میں ہمیں دشواری محسوس ہوتی ہے۔ غور فرمائیں کہ قرآن کریم اللہ تعالیٰ کا کلام ہے جو اس نے ہماری رہنمائی کے لیے نازل فرمایا ہے اور اس کے پڑھنے پر اللہ تعالیٰ نے بڑا اَجر رکھا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو ہدایت عطا فرمائے اور قرآن کریم کو سمجھ کر پڑھنے والا اور قرآن وحدیث کے احکام پر عمل کرنے والا بنائے، آمین۔