https://follow.it/amir-samdani?action=followPub

Friday 29 September 2023

سجدے کی حالت میں مقتدی کا امام سے آگے ہونا

نماز میں امام سے آگے بڑھ جانا مفسدِ صلاة ہے اور آگے بڑھ جانے کا مطلب یہ ہے کہ مقتدی کی ایڑی امام کی ایڑی سے آگے بڑھ جائے ،اگر مقتدی کی ایڑی امام کی ایڑی سے آگے نہیں بڑھتی ہے تو اگر چہ سجدے میں مقتدی کا سر امام کے سینے کے برابر چلا جائے بلکہ اس سے بھی آگے چلا جائے تو نماز فاسد نہ ہوگی۔ویقف الواحد ․․أي ․محاذیامساویاً لیمین امامہ علی المذہب ،ولا عبرة بالرأس بل بالقدم(درمختار) فلو حاذاہ بالقدم ووقع سجودہ مقدماً علیہ لکون المقتدي أطول من امامہ لا یضر،ومعنی المحاذاةبالقدم :المحاذاة بعقبہ․(شامی:۲/۳۰۷،۳۰۸ط:زکریا دیوبند) واضح رہے کہ اگر مقتدی ایک سے زائد ہوں تو بلا ضرورت ان کا امام کے قریب کھڑاہونا مکروہ ہوگا ،ایسی صورت میں ان کو چاہیے کہ امام کے پیچھے کھڑے ہوں۔

مسجد میں لگے شیشے میں عکس سے نماز میں کوئی خلل واقع ہوگا کہ نہیں

مسجد کی کھڑکی میں لگے ہوئے شیشوں کے سامنے اگر نمازی کا عکس نظر آتا ہے، تو نماز ہوجائے گی، کراہت نہیں ہوگی؛ کیوں کہ عکس تصویر کے حکم میں نہیں ہے۔ ہاں! البتہ اگر اس کی وجہ سے نمازی کی توجہ ہٹ جاتی ہے، یک سوئی اور خشوع وخضوع میں خلل واقع ہوتا ہے تو ایسی صورت میں شیشے کے سامنے نماز پڑھنا مکروہِ تنزیہی ہے، اس صورت میں نماز پڑھتے وقت شیشے پر کپڑا وغیرہ ڈال کر نماز پڑھ لیاکریں۔ فتاوی شامی میں ہے: "(ولا بأس بنقشه خلا محرابه) فإنه يكره لأنه يلهي المصلي. (قوله: لأنه يلهي المصلي) أي فيخل بخشوعه من النظر إلى موضع سجوده ونحوه، وقد صرح في البدائع في مستحبات الصلاة أنه ينبغي الخشوع فيها، ويكون منتهى بصره إلى موضع سجوده إلخ وكذا صرح في الأشباه أن الخشوع في الصلاة مستحب. والظاهر من هذا أن الكراهة هنا تنزيهية، فافهم". (مطلب في أحكام المسجد، ج:1، ص:658، ط: ايج ايم سعيد)

Thursday 28 September 2023

والد کی سگی خالہ سے نکاح درست نہیں

قرآنِ مجید میں اللہ تعالیٰ تعالیٰ نے محرماتِ نکاح کی مکمل فہرست بیان کی ہے۔ سورہ النساء میں ارشاد ہے کہ: حُرِّمَتْ عَلَيْكُمْ أُمَّهَاتُكُمْ وَبَنَاتُكُمْ وَأَخَوَاتُكُمْ وَعَمَّاتُكُمْ وَخَالاَتُكُمْ وَبَنَاتُ الْأَخِ وَبَنَاتُ الْأُخْتِ وَأُمَّهَاتُكُمُ اللاَّتِي أَرْضَعْنَكُمْ وَأَخَوَاتُكُم مِّنَ الرَّضَاعَةِ وَأُمَّهَاتُ نِسَآئِكُمْ وَرَبَائِبُكُمُ اللاَّتِي فِي حُجُورِكُم مِّن نِّسَآئِكُمُ اللاَّتِي دَخَلْتُم بِهِنَّ فَإِن لَّمْ تَكُونُواْ دَخَلْتُم بِهِنَّ فَلاَ جُنَاحَ عَلَيْكُمْ وَحَلاَئِلُ أَبْنَائِكُمُ الَّذِينَ مِنْ أَصْلاَبِكُمْ وَأَن تَجْمَعُواْ بَيْنَ الْأُخْتَيْنِ إَلاَّ مَا قَدْ سَلَفَ إِنَّ اللّهَ كَانَ غَفُورًا رَّحِيمًا. وَالْمُحْصَنَاتُ مِنَ النِّسَاءِ إِلاَّ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ كِتَابَ اللّهِ عَلَيْكُمْ وَأُحِلَّ لَكُم مَّا وَرَاءَ ذَلِكُمْ أَن تَبْتَغُواْ بِأَمْوَالِكُم مُّحْصِنِينَ غَيْرَ مُسَافِحِينَ فَمَا اسْتَمْتَعْتُم بِهِ مِنْهُنَّ فَآتُوهُنَّ أُجُورَهُنَّ فَرِيضَةً وَلاَ جُنَاحَ عَلَيْكُمْ فِيمَا تَرَاضَيْتُم بِهِ مِن بَعْدِ الْفَرِيضَةِ إِنَّ اللّهَ كَانَ عَلِيمًا حَكِيمًا. تم پر تمہاری مائیں اور تمہاری بیٹیاں اور تمہاری بہنیں اور تمہاری پھوپھیاں اور تمہاری خالائیں اور بھتیجیاں اور بھانجیاں اور تمہاری (وہ) مائیں جنہوں نے تمہیں دودھ پلایا ہو اور تمہاری رضاعت میں شریک بہنیں اور تمہاری بیویوں کی مائیں (سب) حرام کر دی گئی ہیں، اور (اسی طرح) تمہاری گود میں پرورش پانے والی وہ لڑکیاں جو تمہاری ان عورتوں (کے بطن) سے ہیں جن سے تم صحبت کر چکے ہو (بھی حرام ہیں)، پھر اگر تم نے ان سے صحبت نہ کی ہو تو تم پر (ان کی لڑکیوں سے نکاح کرنے میں) کوئی حرج نہیں، اور تمہارے ان بیٹوں کی بیویاں (بھی تم پر حرام ہیں) جو تمہاری پشت سے ہیں، اور یہ (بھی حرام ہے) کہ تم دو بہنوں کو ایک ساتھ (نکاح میں) جمع کرو سوائے اس کے کہ جو دورِ جہالت میں گزر چکا۔ بیشک اللہ بڑا بخشنے والا مہربان ہے۔ اور شوہر والی عورتیں (بھی تم پرحرام ہیں) سوائے ان (جنگی قیدی عورتوں) کے جو تمہاری مِلک میں آجائیں، (ان احکامِ حرمت کو) اللہ نے تم پر فرض کر دیا ہے، اور ان کے سوا (سب عورتیں) تمہارے لئے حلال کر دی گئی ہیں تاکہ تم اپنے اموال کے ذریعے طلبِ نکاح کرو پاک دامن رہتے ہوئے نہ کہ شہوت رانی کرتے ہوئے، پھر ان میں سے جن سے تم نے اس (مال) کے عوض فائدہ اٹھایا ہے انہیں ان کا مقرر شدہ مَہر ادا کر دو، اور تم پر اس مال کے بارے میں کوئی گناہ نہیں جس پر تم مَہر مقرر کرنے کے بعد باہم رضا مند ہو جاؤ، بیشک اللہ خوب جاننے والا بڑی حکمت والا ہے۔ النساء، 4: 23-24 مذکورہ دونوں آیات میں بیان کردہ محرماتِ نکاح تین طرح کی عورتیں ہیں: (1) محرماتِ نسب: ماں (حقیقی ماں یا سوتیلی ماں، اسی طرح دادی یا نانی) بیٹی (اسی طرح پوتی یا نواسی) بہن (حقیقی بہن، ماں شریک بہن، باپ شریک بہن) پھوپھی (والد کی بہن خواہ سگی ہوں یا سوتیلی) خالہ (ماں کی بہن خواہ سگی ہوں یا سوتیلی نيز والد كى خاله ياوالده كى خاله اس حرمت ميں شامل ہیں) بھتیجی (بھائی کی بیٹی خواہ سگی ہوں یا سوتیلی) بھانجی (بہن کی بیٹی خواہ سگی ہوں یا سوتیلی) (2) محرماتِ رضاعت: جو رشتے نسب کے سبب حرمت والے قرار پاتے ہیں وہ رضاعت (دودھ پینے) کی وجہ سے بھی محرم بن جاتے ہیں۔ رضاعی ماں، رضاعی بیٹی، رضاعی بہن، رضاعی پھوپھی، رضاعی خالہ، رضاعی بھتیجی اور رضاعی بھانجی سے بھی نکاح نہیں ہوسکتا ہے بشرطیکہ دودھ چھڑانے کی مدت (اڑھائی سال) سے پہلے دودھ پلایا گیا ہو۔ (3) حرمتِ مصاہرت: بیوی کی ماں (ساس) بیوی کی پہلے شوہر سے بیٹی، لیکن ضروری ہے کہ بیوی سے صحبت کرچکا ہو۔ بیٹے کی بیوی (بہو) (یعنی اگر بیٹا اپنی بیوی کو طلاق دیدے یا مر جائے تو باپ بیٹے کی بیوی سے شادی نہیں کرسکتا)۔ دو بہنوں کو ایک ساتھ نکاح میں رکھنا۔ (اسی طرح خالہ اور اسکی بھانجی، پھوپھی اور اسکی بھتیجی کو ایک ساتھ نکاح میں رکھنامنع ہے)۔ اس کے علاوہ کسی دوسرے شخص کے نکاح میں موجود عام عورت سے بھی نکاح حرام ہے۔ درج بالا محرمات میں سے کچھ حرمتیں دائمی ہیں اور کچھ عارضی‘ جیسے بیوی کے انتقال یا طلاق کے بعد بیوی کی بہن (سالی)، اسکی خالہ، اسکی بھانجی، اسکی پھوپھی یا اسکی بھتیجی سے نکاح کیا جاسکتا ہے۔ چاچی اور ممانی اگر درج بالا محرمات میں سے کسی محرم رشتے میں نہیں ہیں تو محرم نہیں ہیں، ماموں یا چچا کے انتقال یا ان کے طلاق دینے کے بعد ممانی اور چاچی کے ساتھ نکاح کیا جاسکتا ہے۔خالة الأب من المحارم لقول الله تعالى: {حُرِّمَتْ عَلَيْكُمْ أُمَّهَاتُكُمْ وَبَنَاتُكُمْ وَأَخَوَاتُكُمْ وَعَمَّاتُكُمْ وَخَالاتُكُمْ} [النساء:23] وهذا يشمل كل خالة للإنسان سواء الخالة المباشرة أو من فوقها من خالات الأب أو خالات الأم. فتاوی عالمگیری میں ہے : "(الباب الثالث في بيان المحرمات) وهي تسعة أقسام: ( القسم الأول: المحرمات بالنسب) وهن الأمهات والبنات والأخوات والعمات والخالات وبنات الأخ وبنات الأخت، فهن محرمات نكاحاً ووطئاً ودواعيه على التأبيد، فالأمهات: أم الرجل وجداته من قبل أبيه وأمه وإن علون، وأما البنات فبنته الصلبية وبنات ابنه وبنته وإن سفلن، وأما الأخوات فالأخت لأب وأم والأخت لأم، وكذا بنات الأخ والأخت وإن سفلن، وأما العمات فثلاث: عمة لأب وأم وعمة لأب وعمة لأم، وكذا عمات أبيه وعمات أجداده وعمات أمه وعمات جداته وإن علون، وأما عمة العمة فإنه ينظر إن كانت العمة القربى عمة لأب وأم أو لأب فعمة العمة حرام، وإن كانت القربى عمة لأم فعمة العمة لاتحرم، وأما الخالات فخالته لأب وأم وخالته لأب وخالته لأم وخالات آبائه وأمهاته، وأما خالة الخالة فإن كانت الخالة القربى خالة لأب وأم أو لأم فخالتها تحرم عليه، ، هكذا في محيط السرخسي". (6/454

Tuesday 26 September 2023

والدین کے کہنے پر بیوی کو طلاق دینا

اگر والدہ کسی شرعی وجہ کے بغیر طلاق کا مطالبہ کریں تو ان کا بلاوجہ طلاق کا مطالبہ کرنا درست نہیں ہے اور بلا وجہ مطالبہ کرنے کی صورت میں بیوی کو طلاق دینا بھی درست نہیں ہے، البتہ اگر بیوی ان کے ساتھ اچھا برتاؤ نہ کرتی ہو، ان کی گستاخی کرتی ہواور بدگوئی اور بے رخی سے پیش آتی ہو اور سمجھانے کے باوجود باز نہ آتی ہو تو پھر ان کے مطالبہ پر طلاق دینے کی گنجائش ہوگی،ور اگر بیوی میں ایسی کوئی بات نہیں تو اس صورت میں والدین کی بات ماننا لازم نہیں ہے؛ اس لیے کہ حلال کاموں میں اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے زیادہ ناپسندیدہ بات طلاق دینا ہے؛ لہٰذا حتی الامکان انتہائی سخت مجبوری کے بغیر طلاق دینے سے گریز کرنا چاہیے، نیز جس طرح اگر والدین حق پر ہوں تو والدین کی اطاعت واجب ہے، اسی طرح اگر بیوی حق پر ہو تو والدین کی اطاعت ظلم ہے۔ اور اسلام جس طرح والدین کی نافرمانی کو برداشت نہیں کرسکتا، اسی طرح ان کے حکم سے کسی پر ظلم کرنے کی اجازت بھی نہیں دیتا۔ حضرت مولانا محمد یوسف لدھیانوی شہید رحمہ اللہ ایک سوال کے جواب میں تحریر فرماتے ہیں : "س… والدین اگر بیٹے سے کہیں کہ اپنی بیوی کو طلاق دے دو اور بیٹے کی نظر میں اس کی بیوی صحیح ہے، حق پر ہے، طلاق دینا اس پر ظلم کرنے کے مترادف ہے، تو اس صورت میں بیٹے کو کیا کرنا چاہیے؟ کیوں کہ ایک حدیثِ پاک ہے جس کا قریب یہ مفہوم ہے کہ ”والدین کی نافرمانی نہ کرو، گو وہ تمہیں بیوی کو طلاق دینے کو بھی کہیں“ تو اس صورتِ حال میں بیٹے کے لیے شریعت میں کیا حکم ہے؟ ج… حدیثِ پاک کا منشا یہ ہے کہ بیٹے کو والدین کی اطاعت و فرماں برداری میں سخت سے سخت آزمائش کے لیے بھی تیار رہنا چاہیے، حتیٰ کہ بیوی بچوں سے جدا ہونے اور گھر بار چھوڑنے کے لیے بھی۔ اس کے ساتھ ماں باپ پر بھی یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ بے انصافی اور بے جا ضد سے کام نہ لیں۔ اگر والدین اپنی اس ذمہ داری کو محسوس نہ کریں اور صریح ظلم پر اُتر آئیں تو ان کی اطاعت واجب نہ ہوگی، بلکہ جائز بھی نہ ہوگی۔ آپ کے سوال کی یہی صورت ہے اور حدیثِ پاک اس صورت سے متعلق نہیں۔ خلاصہ یہ ہے کہ اگر والدین حق پر ہوں تو والدین کی اطاعت واجب ہے، اور اگر بیوی حق پر ہو تو والدین کی اطاعت ظلم ہے۔ اور اسلام جس طرح والدین کی نافرمانی کو برداشت نہیں کرسکتا، اسی طرح ان کے حکم سے کسی پر ظلم کرنے کی اجازت بھی نہیں دیتا۔" (آپ کے مسائل اور ان کا حل) نیز حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ کا اپنے بیٹے کو طلاق دینے کا حکم دینا یقینًا کسی معقول وجہ کی بنا پر ہوگا، ورنہ ایک جلیل القدر صحابی کبھی ظلم کا حکم نہ دیتے اور خود آپ ﷺ ان کی موافقت میں تائیدی حکم نہ فرماتے۔ مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح (1/ 132): "عن معاذ قال: «أوصاني رسول الله صلى الله عليه وسلم بعشر كلمات، قال: " لاتشرك بالله شيئًا، وإن قتلت وحرقت، ولاتعقن والديك وإن أمراك أن تخرج من أهلك ومالك (ولاتعقن والديك) أي تخالفنهما، أو أحدهما فيما لم يكن معصية إذ لا طاعة لمخلوق في معصية الخالق ( «وإن أمراك أن تخرج من أهلك» ) أي: امرأتك أو جاريتك، أو عبدك بالطلاق أو البيع أو العتق أو غيرها (ومالك) : بالتصرف في مرضاتهما. قال ابن حجر: شرط للمبالغة باعتبار الأكمل أيضًا أي: لاتخالف واحدًا منهما، وإن غلا في شيء أمرك به، وإن كان فراق زوجة أو هبة مال، أما باعتبار أصل الجواز فلايلزمه طلاق زوجة أمراه بفراقها، وإن تأذيا ببقائها إيذاءً شديدًا؛ لأنه قد يحصل له ضرر بها، فلايكلفه لأجلهما؛ إذ من شأن شفقتهما أنهما لو تحققا ذلك لم يأمراه به فإلزامهما له مع ذلك حمق منهما، ولايلتفت إليه، وكذلك إخراج ماله".

Saturday 23 September 2023

گاڑی کا بیمہ کرانا

انشورنس جان کا ہو یا گاڑی کا ،اس میں سود اور قمار(جوا ) دونوں پائے جاتے ہیں، اور یہ دونوں چیزیں مذہب اسلام میں قطعی طور پر حرام وناجائز ہیں ؛ اس لیے اگر کسی ملک میں گاڑی سڑک پر لانے کے لیے گاڑی کا انشورنس کرانا قانونی طور پر لازم وضروری نہ ہو تو لائف انشورنس کی طرح گاڑی کا انشورنس بھی حرام وناجائز ہوگا ، قال اللہ تعالی:وأحل اللہ البیع وحرم الربا الآیة(سورہ بقرہ،آیت:۲۷۵)،یٰأیھا الذین آمنوا إنما الخمر والمیسر والأنصاب والأزلام رجس من عمل الشیطن فاجتنبوہ لعلکم تفلحون(سورہ مائدہ،آیت:۹۰)،وقال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم:إن اللہ حرم علی أمتي الخمر والمیسر(مسند احمد ۲: ۳۵۱، حدیث نمبر: ۶۵۱۱)،﴿وَلَا تَأْکُلُوْا أَمْوَالَکُمْ بَیْنَکُمْ بِالْبَاطِلِ﴾ أي بالحرام، یعني بالربا، والقمار، والغصب والسرقة(معالم التنزیل ۲: ۵۰)،لأن القمار من القمر الذي یزداد تارةً وینقص أخریٰ۔ وسمی القمار قمارًا؛ لأن کل واحد من المقامرین ممن یجوز أن یذہب مالہ إلی صاحبہ، ویجوز أن یستفید مال صاحبہ، وہو حرام بالنص(شامی،کتاب الحظر والإباحة،باب الاستبراء،فصل في البیع ۹:۵۷۷ ، مطبوعہ: مکتبہ زکریا دیوبند)۔

Thursday 21 September 2023

فاسق کو سلام میں پہل کریں یا نہیں

اگر کوئی شخص اعلانیہ یعنی کھلم کھلا فسق (کبیرہ گناہوں )کا ارتکاب کرتا ہے تو ایسے شخص کو سلام کرنے میں پہل کرنا مکروہ ہے، لیکن اگر وہ سلام میں پہل کرے تو جواب دینے میں کوئی حرج نہیں ہے، البتہ اگر کوئی اعلانیہ فسق کا اظہار نہ کرتا ہو تو اسے سلام کرنے میں پہل کرنا مکروہ نہیں ہے، اسی طرح اگر سلام میں پہل کرنے سے فاسق کو فسق سے ہٹاکر صلہ رحمی اور دین کی طرف لانا مقصود ہو تو بھی فاسق کو سلام کرنا مکروہ نہیں ہوگا، اس ساری تفصیل میں رشتہ دار اور اجنبی کا ایک ہی حکم ہے۔ الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (6/ 412) فلا يسلم ابتداء على كافر لحديث «لا تبدءوا اليهود ولا النصارى بالسلام فإذا لقيتم أحدهم في طريق فاضطروه إلى أضيقه» رواه البخاري وكذا يخص منه الفاسق بدليل آخر، وأما من شك فيه فالأصل فيه البقاء على العموم حتى يثبت الخصوص، ويمكن أن يقال إن الحديث المذكور كان في ابتداء السلام لمصلحةالتأليف ثم ورد النهي اهـ فليحفظ.ولو سلم يهودي أو نصراني أو مجوسي على مسلم فلا بأس بالرد (و) لكن (لا يزيد على قوله وعليك) كما في الخانية (قوله وكذا يخص منه الفاسق) أي لو معلنا وإلا فلا يكره كما سيذكره (قوله وأما من شك فيه) أي هل هو مسلم أو غيره وأما الشك بين كونه فاسقا أو صالحا فلا اعتبار له بل يظن بالمسلمين خيرا ط (قوله على العموم) أي المأخوذ من قوله صلى الله تعالى عليه وسلم «سلم على من عرفت ومن لم تعرف» ط (قوله إن الحديث) أي الأول المفيد عمومه شمول الذمي (قوله لمصلحة التأليف ) أي تأليف قلوب الناس واستمالتهم باللسان والإحسان إلى الدخول في الإسلام (قوله ثم ورد النهي) أي في الحديث الثاني لما أعز الله الإسلام (قوله فلا بأس بالرد) المتبادر منه أن الأولى عدمه ط لكن في التتارخانية، وإذا سلم أهل الذمة ينبغي أن يرد عليهم الجواب وبه نأخذ.(قوله ولكن لا يزيد على قوله وعليك) لأنه قد يقول: السام عليكم أي الموت كما قال بعض اليهود للنبي - صلى الله عليه وسلم - فقال له " وعليك " فرد دعاءه عليه وفي التتارخانية قال محمد: يقول المسلم وعليك ينوي بذلك السلام لحديث مرفوع إلى رسول الله - صلى الله عليه وسلم - أنه قال: «إذا سلموا عليكم فردوا عليهم» " الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (6/ 415) ويكره السلام على الفاسق لو معلنا وإلا لا (قوله لو معلنا) تخصيص لما قدمه عن العيني؛ وفي فصول العلامي: ولا يسلم على الشيخ المازح الكذاب واللاغي؛ ولا على من يسب الناس أو ينظر وجوه الأجنبيات، ولا على الفاسق المعلن، ولا على من يغني أو يطير الحمام ما لم تعرف توبتهم ويسلم على قوم في معصية وعلى من يلعب بالشطرنج ناويا أن يشغلهم عما هم فيه عند أبي حنيفة وكره عندهما تحقيرا لهم

Tuesday 19 September 2023

الألفاظ العربيةفى اللغة الفرنسية

وهناك أمثلة كثيرة للكلمات العربية التي يستخدمها الفرنسيون دون أن يعلم الكثيرون منهم أصلها العربي، ومن بين تلك الكلمات: كلمة Coton، وأصلها قطن، كان يسمى في العهد الوسيط في فرنسا بحرير الشجر ثم انتقلت الكلمة من الأندلس إلى اللغة الفرنسية وغيرها من اللغات. كلمة chimie وأصلها كيمياء، ولم يعرف الأوروبيون علم الكيمياء إلا بعد أن وصلهم عن طريق علماء الإسلام. كلمة Algorithme وأصلها خوارزم، نسبة إلى العالم الخوارزمي، وترتبط الكلمة ببعض القواعد المتصلة بالعمليات الحسابية. كلمة Caïd، بمعنى القائد، أو حاكم الإقليم، وكانت تستخدم في القرن السابع عشر الميلادي، لوصف المسؤول المسلم الذي يرأس القضاة ومدير الشرطة. كلمة canapé، وهي الكنبة أو الأريكة التي توضع في المنازل. كلمة Guitar، المحرفة من كلمة القيثارة ، والتانبور tambour، وهي في العربية لطمبورة، بمعنى آلة موسيقية ذات أحبال، لكن تم تحريفها إلى tabir» في القرن التاسع عشر، ومعظم الآلات الموسيقية تعود إلى النطق العربي لها، ما يشير إلى أن الموسيقى والموهبة الشعرية وصلتا لأوروبا من العرب عبر الأندلس. كلمة alcohol أصلها العربي كحول، وهي كلمة قديمة في اللغة العربية قبل أن تنتقل لاحقًا إلى المعجم الفرنسي. كلمة sucre تعنى السكر في اللغة العربية، كما تأتي الكلمة اللاتينية Siropus المحرفة للفرنسية من الكلمة العربية شراب. كلمة chiffre ومعناها رقم، وأصلها صفر، من المعروف أن العرب هم أول من استخدم الصفر في الحساب وقد تطورت الكلمة في الفرنسية لتصبح دالة على جميع الأرقام. كلمة chemise وتعني قميصًا، انتقلت من العربية إلى الفرنسية منذ قرون طويلة. والآن تعتبر كلمة شوميز كلمة سائدة الانتشار في الأوساط التجارية دون أن ينسبها أحد لأصلها العربي. كلمة pateca المتداولة في اللغتين الفرنسية والبرتغالية أصلها العربي بطيخة، لكنها تحولت في اللغة الفرنسية إلى pasteque، وقد أضيفت هذه الكلمة للغة الفرنسية في بداية القرن السابع عشر، وتحديدًا في عام 1762. كلمة Bougi، وهي الشمعة، وسميت بوجي لأن أجود أنواع الشموع كانت تجلب من مدينة بيجاية الجزائرية، حيث كانت مركزًا لصناعة الشموع وتصديرها إلى أوروبا، واستخدم هذه اللفظة الأديب الفرنسي موليير في كتاباته. كلمة Risque وأصلها رزق، وريسك بالفرنسية معناها المجازفة أو الخطر، وقد تحولت الكلمة عن معناها الأصلي العربي. كلمة Safari وأصلها سفرية، وتعني الرحلات الاستكشافية وخاصة التي تكون للصيد أو في الصحراء. كلمة Girafe، إنها الزرافة ذلك الحيوان طويل الرقبة الذي لم يكن مألوفًا للفرنسيين في العصور القديمة، ويرجع استخدام لفظ جيراف في الفرنسية إلى الزرافة في العربية. كلمة Mage المأخوذة من اللفظة العربية: مجوسي، والتي حُرفت وصارت تدل على كل من هو ساحر. كلمة Magasin وأصلها مخزن، وصارت الكلمة تستعمل للحديث عن أي محل تجاري. كلمة Mascarade وأصلها مسخرة، وهي تعني الآن نفس المعنى وتدل على كل شيء يدل على السخرية وتستعمل الكلمة أيضًا لوصف الحفلات التنكرية. كلمة Assassin وأصلها حشاشون، تعني منفذ الاغتيال، وأصلها من الحشاشين وهي طائفة إسماعيلية كانت تقوم بعمليات اغتيال ضد السلاجقة والأيوبيين تحت تأثير تعاطيهم الحشيش. كلمة lcool في الفرنسية تعنى الكحل، وهي المادة التي تستخدم في تلوين العيون، وقد استخدم هذه الكلمة كثير من الكتاب والروائيين الفرنسيين، وانتهى المطاف بالكلمة بأن استخدمها الصيادلة. كلمة jupe، وهي مشتقة من كلمة جيب باللغة العربية. كلمة baroudeur تعني في اللغة الفرنسية بأنها مادة البارود، وهي المادة المتفجرة الشهيرة. هناك أيضًا هذه الكلمات: Abricot: البرقوق Alezan: الحصان Algèbre: علم الجبر Aman: أمان Ambre: العنبر Amiral: أميرال، أمير البحر Arsenal: دار الصناعة Bédouin: بدوي Café: قهوة Califa, khalife: الخليفة Camelot: شملة Caroube: ثمرة الخروب Casbah: القصبة Chott: الشط chemise : القميص Dahabieh: ذهبية، وهو قارب لنقل المسافرين في النيل Dahir: ظهير أو مرسوم سلطاني Darbouka: دربوكة Djebel: جبل Douane: الجمارك، وأصلها من العربية الديوان Douar: دوار أو قرية في شمال إفريقيا Drogman: ترجمان gazelle : غزالة mesquin : مسكين mosquée : مسجد Falaque: فلقة، وهي ألة للضرب على القدمين Fanfaron: متشدق، متبجح و أصلها من العربي ثرثار. Fatwa: فتوى Fedayin: فدائيون Fellaga: فلاق، وهو لقب يطلق على كل تونسي وجزائري حارب ضد فرنسا Fellah: فلاح Goudron: القطران Goule: غول taboulé: تبولة tarif: تعريفة toubib : طبيب truchement : ترجمان

بکریوں کی زکوٰۃ

بکریوں میں زکاة کے واجب ہونے کے لیے ضروری ہے کہ وہ سائمہ ہوں، یعنی سال کے اکثر حصے میں وہ جنگل میں چرتی ہوں اور وہ نسل کی افزائش اور بڑھوتری کے لیے ہوں، اگر یہ شرطیں پائی جائیں تو بکریوں میں زکاة کا نصاب یہ ہے: 40 بکریوں میں ایک بکری واجب ہوتی ہے۔ 40 سے 119 تک ایک ہی بکری رہتی ہے، جب بکریاں ایک سو بیس (120) ہوجائیں تو ان میں 200 تک 2 بکری واجب ہوتی ہیں، 201 میں تین (3) بکری واجب ہوتی ہیں، اس طرح 399 تک 3 بکری رہتی ہیں، پھر 400 میں 4 اور 500 میں 5 ہوجاتی ہیں، اس طرح آگے ہر سو میں ایک ایک بکری بڑھتی چلی جاتی ہے۔ قال في الدر المختار: نصاب الغنم ضأنا أو معزاً ․․․․․ أربعون، وفیہا شاة، وفي مائة وإحدی وعشرین شاتان، وفي مائتین وواحدة ثلاث شیاہ، وفي أربع مائة أربع شیاہ ․․․․․ ثم في کل مائة شاة (493-495/5، شامی فرفور)۔

ھیرے کی زکوٰۃ

خالص ہیرا اور صرف ہیرے سے بنے ہوئے زیورات پر زکوٰۃ واجب نہیں ہے، البتہ ہیرا یا اس کے زیورات تجارت کے لیے ہوں تو ان پر مال تجارت کی زکوٰۃ واجب ہوگی۔ الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2/ 273): "(لا زكاة في اللآلئ والجواهر) وإن ساوت ألفًا اتفاقًا(إلا أن تكون للتجارة) والأصل أن ما عدا الحجرين والسوائم إنما يزكى بنية التجارة بشرط عدم المانع المؤدي إلى الثنى وشرط مقارنتها لعقد التجارة. (قوله: والجواهر) كاللؤلؤ والياقوت والزمرد وأمثالها درر عن الكافي (قوله: وإن ساوت ألفًا) في نسخة ألوفًا (قوله: ما عدا الحجرين) هذا علم بالغلبة على الذهب والفضة ط وقوله: والسوائم بالنصب عطفا على الحجرين وما عدا ما ذكر كالجواهر والعقارات والمواشي العلوفة والعبيد والثياب والأمتعة ونحو ذلك من العروض (قوله: المؤدي إلى الثنى) هذا وصف في معنى العلة: أي لا زكاة فيما نواه للتجارة من نحو أرض عشرية أو خراجية لئلا يؤدي إلى تكرار الزكاة لأن العشر أو الخراج زكاة أيضا والثنى بكسر الثاء المثلثة وفتح النون في آخره ألف مقصورة: وهو أخذ الصدقة مرتين في عام كما في القاموس ومنه كما في المغرب قوله صلى الله عليه وسلم: «لا ثنى في الصدقة»"

Monday 18 September 2023

انسانی اعضاء کا عطیہ

انسانی جسم کا انسان کومالک نہیں بنایا گیا بلکہ یہ جسم اللہ رب العزت کی طرف سے انسان کے پاس ایک امانت ہے ،جس کی حفاظت اور تکریم انسان کے ذمہ فرض ہے۔یہی وجہ ہے کہ خود کشی حرام ہے،جبکہ انسانی اعضاء کی ڈونیشن میں ملک ِربانی میں ناجائز تصرف ،خلق ِ خداوندی کی تخریب کاری اور حرمت ِانسان کی پامالی سمیت بہت سے مفاسد پائے جاتےہیں جس سے خود انسانی معاشرے کو خطرات کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے ،نیز کسی بھی چیز کے عطیہ کرنے کے لئےشرعاً ضروری ہے کہ ڈونیٹ کی جانی والی چیز ڈونر کی ملک میں ہواور مالِ متقوم ہواور یہ دونوں باتیں انسانی اعضاء کی ڈونیشن میں پائی نہیں جاتیں لہذا انسانی اعضاء کی ڈونیشن جائز نہیں ۔ حوالہ جات وَلَقَدْکَرَّمْنَا بَنِیْ آدَمَ(بنی اسرائیل: ۷۰) الجامع الصحيح سنن الترمذي (4/ 128) عن بن عمر أن النبي صلى الله عليه وسلم قال لعن الله الواصلة والمستوصلة . الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (6/ 649) (وشرائطها كون الموصي أهلا للتمليك) ...(الموصى به قابلا للتملك بعد موت الموصي) بعقد من العقود مالا أو نفعا موجودا للحال أم معدوما. الفتاوى الهندية (34/ 281) ومنها أن يكون مالا متقوما فلا تجوز هبة ما ليس بمال أصلا. البناية شرح الهداية (1/ 418) وحرمة الانتفاع بأجزاء الآدمي لكرامته ...نقل ابن حزم إجماع المسلمين على تحريم جلد الآدمي تبيين الحقائق شرح كنز الدقائق وحاشية الشلبي (4/ 51) قال (وشعر الإنسان) يعني لا يجوز بيع شعر الإنسان والانتفاع به؛ لأن الآدمي مكرم فلا يجوز أن يكون جزؤه مهانا.

تلاوتِ قرآن مجید کے کے دوران نام نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پردرود پڑھنا

صورتِ مسئولہ میں قرآن کی تلاوت کے دوران درود پڑھنا واجب نہیں ہے۔ تاہم نماز سے باہر تلاوت کر رہاہو تو بہتر ہے کہ تلاوت سے فارغ ہوکر درود پڑھ لے اور اگر تلاوت روک کر درود پڑھ لیا تو اس کی بھی گنجائش ہے۔ الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (1 / 519): وفي كراهية الفتاوى الهندية: ولو سمع اسم النبي صلى الله عليه وسلم وهو يقرأ لايجب أن يصلي، وإن فعل ذلك بعد فراغه من القرآن فهو حسن، كذا في الينابيع، ولو قرأ القرآن فمر على اسم نبي فقراءة القرآن على تأليفه ونظمه أفضل من الصلاة على النبي صلى الله عليه وسلم في ذلك الوقت، فإن فرغ ففعل فهو أفضل وإلا فلا شيء عليه كذا في الملتقط. اهـ"

Sunday 17 September 2023

بعض ناجایز تجارتی طریقے

۱-موجودہ دور میں زمین کی خرید وفروخت آج کل زمینوں کی خرید وفروخت بڑے پیمانے پر اس طرح کی جارہی ہے کہ خریدار، مالکِ زمین سے زمین کا سودا کرلیتا ہے، اور بیعانہ کے طور پراسے کچھ رقم دیدیتا ہے، جسے مارکیٹنگ کی زبان میں ”ٹوکن “ سے تعبیر کرتے ہیں، پھر پوری قیمت کی ادائیگی اور خریدی رجسٹری کے لیے ایک مدت متعین ہوتی ہے، مدت پوری ہونے پر خریدار پوری رقم دے کر مالکِ زمین سے اپنے نام زمین کی خریدی رجسٹری کرواتا ہے ، مگر اس مدت کے درمیان خریدار ،اس زمین کی خریدی رجسٹری اپنے نام پر ہونے سے پہلے ہی اسے کسی تھرڈ پارٹی (Third Party)کے ہاتھوں منافع کے ساتھ فروخت کر دیتا ہے، اور اس سے حاصل کردہ رقم سے مالکِ زمین کا پورا پیمینٹ ادا کردینے کے بعد جو رقم بچتی ہے اسے منافع کے طور پر رکھ لیتا ہے، یعنی ابھی یہ زمین اس کی ملک میں آئی بھی نہیں کہ اس سے پہلے ہی وہ اسے کسی اور کے ہاتھ فروخت کردیتا ہے، شریعت اس طرح کی بیع کو ناجائز کہتی ہے؛ کیوں کہ اس طرح کی بیع میں دھوکہ و غرر ہے،وہ اس طرح کہ ہوسکتا ہے خریدار پارٹی مدت پوری ہونے سے پہلے مفلس وکنگال ہوجائے، اور زمین دار کووقت پر مقررہ قیمت نہ ادا کرسکے، جس کی وجہ سے یہ بیع پوری نہ ہوپائے، یا یہ بھی ممکن ہے کہ مدت پوری ہونے سے پہلے خود زمین دارکی مدتِ عمر پوری ہوجائے، اور زمین پر اس کے ورثاء کے نام چڑھ جائیں،اور وہ اس زمین کو فروخت نہ کریں، جس کی وجہ سے یہ بیع پوری نہ ہو پائے،معلوم ہوا کہ بیع کی یہ صورت دھوکہ اور غرر پر مشتمل ہے ، جس سے شریعت منع کرتی ہے ۔ (احکام القرآن للجصاص:۲/۲۱۹) بندے نے زمینوں کا کاروبار کرنے والے کئی لوگوں کو اس ناجائز صورت کی طرف متوجہ کیا، تو وہ یہ کہتے ہیں کہ ہم پارٹی نمبر وَن (First Party) یعنی مالکِ زمین سے اسٹامپ بنوالیتے ہیں اور اس اسٹامپ کی بنیاد پرتھرڈ پارٹی کے ہاتھوں فروخت کرتے ہیں، میں نے ان سے پوچھا : ”کیا اس اسٹامپ کی حیثیت انتقالِ ملک کی ہے؟ یعنی کیا اس اسٹامپ کے ذریعہ خریدار زمین کا مالک بن جاتا ہے، اور زمین، زمین دار کی ملک سے نکل کر خریدار کی ملک میں داخل ہوجاتی ہے؟ تو ان کا جواب یہ تھا کہ نہیں ، ایسا نہیں ہے؛بلکہ اسٹامپ کی حیثیت محض اتنی ہے کہ اس میں مذکور مدت پوری ہونے کے بعد خریدار پیمینٹ کی ادائیگی ،اور زمین دار خریدی دینے کا مکلف وپابند ہوتا ہے“۔ ان کے اس جواب کے لحاظ سے اسٹامپ پیپر (Stamp Paper) محض وعدہٴ بیع (Agreement to sale) ہوا، نہ کہ بیع، اور وعدہٴ بیع سے نہ تو بیع پوری ہوتی ہے اور نہ ہی مبیع (زمین) پر خریدار کی ملک ثابت ہوتی ہے،تو اسے تھرڈ پارٹی کے ہاتھوں فروخت کرنا کیسے جائز ہوسکتا ہے،جب کہ شریعت غیر مملوکہ وغیر مقبوضہ (Without Owned and Possessed) کی بیع سے منع کرتی ہے، جب بیع کی یہ شکل جائز نہیں ہے ، تو اس کے منافع بھی جائز نہیں ہوں گے، کیوں کہ فقہ کا قاعدہ ہے :”الخراج بالضمان“۔ ”خراج ضمان کے سبب ہے“۔ یعنی کسی بھی چیز کے منافع کا جواز ، ضمان اور رسک کی بنیاد پر ثابت ہوتا ہے،جب کہ بیع کی اس صورت میں زمین خریدار کے ضمان اور رسک میں داخل ہی نہیں ہوتی ،اور وہ اس سے پہلے ہی اسے تھرڈ پارٹی کے ہاتھوں بیچ کر منافع کماتا ہے، تویہ منافع کیسے جائز ہوں گے!! اسی طرح بعض سرمایہ دار مشارکت (Partnership) میں اپنا سرمایہ اس شرط پر لگاتے ہیں کہ وہ ہر مہینہ ایک متعینہ رقم کے بطور نفع حقدار ہوں گے ، خواہ نفع کچھ بھی ہو، یا یہ شرط لگاتے ہیں کہ وہ کاروبار میں ہونے والے نقصان کے ذمہ دار نہیں ہوں گے،پارٹنر شپ کی یہ صورت بھی درست نہیں ہے ؛کیوں کہ پارٹنر شپ کے درست ہونے کے لیے یہ ضروری ہے کہ کسی ایک فریق کے لیے نفع کی ایک خاص مقدار متعین نہ کی جائے(بلکہ متوقع نفع میں فیصد کو متعین کیا جائے) ، اور شریک و پارٹنر کاروبار میں ہونے والے نقصان میں بھی اپنے سرمایہ کے تناسُب سے شریک ہو۔ (فتاوی عثمانی :۳/۳۵) ۲-ایم ایل ایم (M.L.M) یعنی ملٹی لیول مارکیٹنگ آج کل ایسے ادارے وجود میں آئے ہیں جو مختلف اسکیموں کو ممبر در ممبر آگے بڑھاتے ہیں، اس کی صورت یہ ہوتی ہے کہ ادارہ ایک آدمی کو ممبربناتا ہے، اس سے پانچ سوروپئے فیس لیتاہے ، اور اس ممبرشپ کا فائدہ یہ ہوتاہے کہ اس ادارہ کی مصنوعات (Product) مثلاً: کوئی چیز جس کی قیمت بازار میں پچاس روپئے ہیں، تووہ چیز اسے چالیس روپئے میں ملتی ہے ، اور اس پر یہ لازم ہوتاہے کہ وہ مزید پانچ ممبر تیار کریں ،اگر وہ ایک آدمی کو ممبر بنادے توادارہ اس کو دوسوروپئے دیتا ہے ،اور جب پانچ ممبرہوجائیں تو اسے مزید آٹھ سو روپئے یعنی کل ایک ہزا ر روپئے ملتے ہیں ، اسی طرح ادارہ ہرنئے ممبر سے پانچ سو روپئے ممبر ی فیس وصول کرتاہے ،اور اس پر بھی لازم ہوتاہے کہ وہ پانچ ممبر بنائے ،اور اس ممبر بنانے کا ایک لامتناہی سلسلہ شروع ہوتاہے ،اب جب بھی ادارہ میں نئے ممبر کا اضافہ ہوتاہے، ادارہ کو بلامحنت ومشقت مفت میں تین سوروپئے،اور پہلے ممبر کو بلا عوض دوسوروپئے کا فائدہ ہوتاہے ،اس طرح کی اسکیم کھلم کھلا قماربازی(جوا) ہے ،اور اس میں سود بھی پایا جا تاہے؛ اس لیے یہ بھی شرعاً ناجائز وحرام ہے ۔ ۳-تجارتی انعامی اسکیمیں (۱)کبھی کوئی کمپنی یہ طے کرتی ہے کہ جو ہم سے اتنے اتنے روپئے کا سامان خریدے گا ، ہم اس کو عمرہ کرائیں گے، یاہم اس کو ڈرائیور سمیت گاڑی فراہم کریں گے ، جس پر وہ فلاں فلاں مقامات کی سیر وتفریح کے لیے جاسکتا ہے۔ (۲)اسی طرح کبھی کوئی کمپنی اپنی مصنوعات(Product)فروخت کرنے والے دکانداروں سے ، یا کوئی دکاندار اپنے خریداروں سے یہ کہتا ہے کہ اگر اتنا اتنا سامان خریدوگے ، تو ہم تم کو کوپن دیں گے، پھر ان دکانداروں اور خریداروں کے درمیان قرعہ اندازی ہوتی ہے، جن کے نام قرعہ نکلتا ہے وہ انعام کے مستحق قرار پاتے ہیں۔ (۳) کبھی کوئی کمپنی یا دکاندار اپنے خریداروں سے یہ کہتا ہے کہ جوبھی ہم سے اتنا سامان خریدے گا، ہم سب کو انعام دیں گے، لیکن یہ انعام مالیتوں کے اعتبار سے مختلف ہوں گے، جن کا تعین قرعہ اندازی سے ہوگا۔ اس طرح کی تجارتی انعامی اسکیموں کے ذریعے خریداروں کو انعام کی لالچ دے کر انہیں بے جا فضول خرچی اور غیر ضروری خریداری کی طرف راغب کیا جاتا ہے، اور متعلقہ کمپنی اور دکاندار پوری ہوشیاری کے ساتھ ایسے حربے اپناتے ہیں کہ لاکھوں خریداروں میں سے محض کچھ خریدار ان کے اس انعام کے مستحق قرار پاتے ہیں، اور دوسرے خریداروں کے لیے سوائے مایوسی کے کچھ ہاتھ نہیں آتا، نیز کاروبار کے اس طریقہ کے پیچھے جوئے اور قمار ہی کی روح کارفرما ہوتی ہے، اس لیے شرعاً یہ ناجائز ہے۔(فتاوی عثمانی:۳/۲۵۵،جدید فقہی مسائل: ۴/۲۷۶،المسائل المہمة :۱/۱۳۳) ۴-گولڈ مائن انٹرنیشنل اسکیم اسی طرح کی ایک اسکیم ” گولڈ مائن انٹر نیشنل “(Gold mine international)نامی کمپنی نے پوری دنیا میں پھیلا رکھی ہے،اس کمپنی کا طریقہ ٴ کاروبار نیٹ ورک مارکیٹنگ کی طرح ہے، جو مختلف مصنوعات اور سونے کے سکے بھی تیار کرکے فروخت کرتی ہے، کمپنی اپنی تمام مصنوعات کی تشہیر لوگوں میں لوگوں ہی کی زبانی کراتے ہوئے اپنے نئے گاہک (Customers) بنانے کا کام بھی معقول معاوضے کے عوض لوگوں سے لیتی ہے، اس طرح لوگ کمپنی کو نئے گاہک فراہم کرتے ہیں اورکمپنی لوگوں کو اس کے بدلے کمیشن ادا کرتی ہے۔گرچہ یہ دلالی ہی کی ایک قسم ہے لیکن اس دلالی کے لیے ”GMI“کمپنی کی کوئی چیز مثلاً گھڑی یا کوئی اور پراڈکٹ(Product) خریدنا ضروری ہے، یہ اجارے میں شرطِ فاسد ہے ، اس کے علاوہ اس اسکیم میں اور دوسری خرابیاں بھی موجود ہیں، جن کی وجہ سے شرعاً یہ ناجائز ہے ۔ ۵-”جیونا “کمپنی اسکیم آج کل” جیونا“نام سے ایک کمپنی قائم ہے ،جس کی اسکیم یہ ہے کہ پینتیس سو روپے دیکر اس کے ممبر بن جاؤ اور ان ساڑ ھے تین ہزار کے عوض کمپنی کوئی شیٴ نہیں دیگی؛ لیکن اگر یہ ممبر کم سے کم مزید دو ممبرکمپنی کے لیے بنا دیتا ہے ،یعنی یوں کہیے کہ کمپنی کو سات ہزار روپے دوسرے دو فردوں سے لادیتا ہے، تو کمپنی اسے اس میں سے بطورِ کمیشن چھ سو روپئے ادا کرے گی اورا گر ان دو ممبروں میں سے ہر ممبر دودو ممبر بنا تاہے، توجہاں ان دو ممبروں کو چھ چھ سو روپئے بطورِ کمیشن ملیں گے، وہیں پہلے ممبرکومزیدبارہ سو روپئے ملیں گے، یعنی کل اٹھارہ سو روپئے ملیں گے اور اگر یہ چا ر ممبر وں میں سے ہر ممبر دودو ممبر بناتا ہے، توان میں سے ہر ایک کو چھ چھ سو اور پہلے کو گذشتہ کے اٹھارہ سو میں مز ید چوبیس سو روپئے ملاکر، یعنی کل بیالیس سو روپئے دیئے جائیں گے اور جیسے جیسے یہ سلسلہ آگے بڑھتا رہے گا ویسے ویسے پہلے ممبر کو بھی ہرممبر پر کمیشن ملتا رہے گا ۔اسکیم کی یہ صورت جوا اور باطل طریقہ سے لوگوں کے اموال کھا نے کی حرمتِ صریحہ پر مشتمل ہے، اس لیے اس طر ح کی اسکیموں کا ممبر بنا اور بنانا دونوں عمل شرعاً ناجائز وحرام ہے اوراس پر ملنے والا کمیشن بھی حرام ہے؛ ا س لیے اس طر ح کی اسکیموں میں شرکت سے کلی اجتناب ضروری ہے۔ ۶-غرر وقمار پر مشتمل ایک ممبرساز اسکیم آج کل عموماً تاجریاکمپنی وغیرہ ممبر سازی کے ذریعہ فریج ،کولر ،واشنگ مشین ،سائیکل ، موٹر سائیکل وغیرہ اسکیم کے تحت فروخت کرتے ہیں ،جس کی صورت یہ ہوتی ہے کہ کسی چیز کی اصل قیمت بازار میں مثلاً :پانچ ہزار روپے ہیں ،تو وہ لوگ پوری رقم یکبارگی لینے کے بجائے،سوروپے ماہانہ ادا کرنے والے سوممبر پینتالیس ماہ کے لیے بنالیتے ہیں ،اور ہرماہ پابندی کے ساتھ قرعہ اندازی کی جاتی ہے ، اگر پہلے ہی ماہ میں کسی ممبر کانام قرعہ اندازی سے نکل آتاہے ،تو اس کو صرف سوروپے میں پانچ ہزار کی چیز مل جاتی ہے ،اور اگر کسی کا نام دوسرے ماہ میں نکلا تو پانچ ہزار کی چیز اسے صرف دوسومیں مل جاتی ہے ،اسی طرح ہرماہ قرعہ اندازی میں نام نکلنے والے کو وہ چیز جمع شدہ رقم کے عوض ملتی رہتی ہے ،اب پینتالیسویں ماہ میں جتنے ممبرباقی رہیں گے، سب کو وہ چیز دیدی جائے گی ، اس طرح کی اسکیم شرعاً قمار(جوا) کو شامل ہے ،نیز بوقتِ عقد، ثمن مجہول ہوتاہے ، لہذا یہ اسکیم چلانا ،اس میں حصہ لینا ،اور قرعہ اندازی سے طے شدہ اشیاء کاحاصل کرناشرعاً ناجائز ہے ۔ ۷-کمی بیشی کے ساتھ چیک کی خرید وفروخت بسا اوقات تاجر حضرات آپس میں نقد روپیوں کی بجائے چیک سے لین دین کیا کرتے ہیں،چیک کے بھنانے میں چونکہ وقت لگ جاتا ہے اورتاجر کو فوری نقد روپیوں کی ضرورت ہوتی ہے، جس کی وجہ سے وہ، چیک میں لکھی ہوئی رقم سے کم میں ،کسی اور کے ہاتھ اس چیک کو فروخت کردیتا ہے، خریدار وقتِ مقررہ پر اس چیک کو بھنالیتا ہے ،اور اپنی اصل رقم اضافہ کے ساتھ رکھ لیتا ہے۔شرعاً اس طرح چیک کی خریدوفروخت ربوا اور سود ہونے کی وجہ سے ناجائز وحرام ہے۔ ۸-مروجہ لاٹری حالیہ زمانے میں بازارکے اندرلاٹری کی مختلف صورتیں مروج ہیں ،جن میں سے ایک مشہور صورت یہ ہے کہ بازاروں میں مخصوص جگہ پرلاٹری کی مختلف ٹکٹیں، مختلف قیمتوں میں فروخت ہوتی ہیں ،خریدار کسی ایک قیمت یا الگ الگ قیمتوں کے کچھ ٹکٹ خرید لیتاہے ،پھر جب خریدار کا ریکارڈ اصل مرکز میں پہنچتاہے ، اور اس کے نام لاٹری نکل آتی ہے تو اسے متعینہ رقم ملتی ہے ،جو اکثر اوقات روپیہ ہی کی صورت میں ہوتی ہے ،اور ٹکٹ کی رقم سے زیادہ ہی ہوتی ہے، یہ سود ہے جوشرعاً حرام ہے، نیز اس میں نفع ونقصان مبہم اور خطرے میں رہتاہے ،کہ نام نکل آیا تو نفع ہوگا، اور اگر نہ نکلا تو اصل پونجی بھی ڈوب جائے گی ،علاوہ ازیں یہ ٹکٹ خریدنے والے کی محنت کا نتیجہ نہیں؛ بلکہ محض بَخت (قسمت ) واتفاق پر مبنی ہوتا ہے کہ اس کا نام نکل بھی سکتاہے اور نہیں بھی نکل سکتا ہے ،ایسے ہی مبہم اور پر خطر نفع ونقصان کو قمار کہتے ہیں ،جو شرعاًناجائز وحرام ہے۔ اسی طرح مسلمانوں کا وہ طبقہ جو ملازمت کرتا ہے ، خواہ وہ حکومت کے ملازم ہوں یا کسی نجی وپرائیویٹ کمپنی کے ، وہ اپنی ملازمت کے اوقات کی پابندی نہیں کرتے، اوقاتِ ملازمت میں دیانت داری وایمانداری کے ساتھ اپنے مفوضہ کاموں کو انجام نہیں دیتے، جب کہ انہیں جو تنخواہیں دی جارہی ہیں ،وہ ان کی خدمات کا ہی عوض ہیں، تووہ اپنی تنخواہوں کی محض اتنی ہی مقدار کے حقدار ہیں جس کے مقابل انہوں نے خدمات انجام دی ہیں، وہ مقدار جس کے مقابل خدمات انجام نہیں دی گئیں ، اس کے وہ حقدار نہیں، تو تنخواہوں کا وہ حصہ حلال کہاں ہوا، جب کہ اس کو حلال سمجھ کر استعمال کیا جارہا ہے، یہی کچھ حال ادارہ اور کمپنیوں کے ذمہ داروں کا ہے کہ وہ ملازمین سے بھرپور خدمات وصول کرتے ہیں اور خدمات کے عوض (تنخواہ) کی ادائیگی میں ان کا استحصال کرتے ہیں ، تو روپیوں کی وہ قدر جو انہوں نے اپنے ملازمین کا استحصال کرکے پسِ پشت ڈال دی، وہ ان کے لیے کیسے حلال ہوگی!!

بچی کی حضانت

شریعت نے پرورش کا حق ماں کودیا ہے لیکن اگر ماں کسی عارض کی وجہ سےاولاد کی تربیت نہ کرسکے تو یہ حق اس بچے کے دیگر قریبی رشتہ داروں کو منتقل ہوجاتا ہے ۔ صورت مسؤلہ میں بچی کا حق حضانت اس کی ماں کو ہےتاہم اگر وہ دوسرانکاح بچی کے کسی غیر ذی رحم کےساتھ کرے توبچی کی نانی اس کی پرورش کی حقدارہوگی ۔اور اگر نانی نہ ہو تو بالترتیب دادی ،پھرحقیقی بہن ،پھرخالہ اورپھر پھوپھی اس کی تربیت کی زیادہ مستحق ہوگی۔ یاد رہے کہ یہ اس صورت میں ہے کہ بیوہ کسی غیر ذی رحم میں نکاح کرے ،چنانچہ اگر بچی کے ذی رحم کے ساتھ نکاح کیا مثلاًبچی کے چچا کے ساتھ تو یہ حق پھر ساقط نہ ہوگا۔نیزیہ حق نو سال کی عمر تک بالترتیب ان خواتین کو ہوگا نو سال کی عمر کے بعد یہ بچی دادا کے پاس رہے گی یا اس کی عدم موجودگی میں چچا کے پاس رہے گی۔ تثبت الحضانۃ للأم ،ثم أم الأم ،ثم أم الأب ،ثم الأخت ،ثم الخالات ،ثم العمات ،والحضانة تسقط حقھا بنکاح غیر محرمہ والأم والجدۃ أحق بھا حتی تحیض وغیرھما أحق بھا حتی تشتھی ۔وقدر بتسع وبہ یفتی وعن محمد ؒان الحکم فی الام والجدۃ کذالك وبہ یفتی(ردالمحتار کتاب الطلاق، باب الحضانۃ ج3ص555)