https://follow.it/amir-samdani?action=followPub

Sunday 31 December 2023

کسی مسلمان کو منافق کہنا

  نفاق ایک مخفی چیز ہے، جس کے بارے میں بالیقین فیصلہ کرنے کا کسی  کو حق نہیں، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے منقول ہے کہ نفاق کا فیصلہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور کے ساتھ خاص تھا، اب یا تو مؤمن ہے یا کافر، لہٰذا کسی مسلمان کو  متعینہ طور پر منافق کہنا جائز نہیں ہے،البتہ نفاق کی  دو قسمیں ہیں:

۱۔نفاقِ اعتقادی : وہ شخص جو بظاہر مسلمان ہو، لیکن درپردہ کافر ہو، منافق اعتقادی کے کفر میں کوئی شبہ نہیں ہے اور وہ دوسرے کفار کے ساتھ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے جہنم میں جائے گا۔

نفاقِ اعتقادی کا حکم: نفاقِ اعتقادی کا حکم یہ ہے کہ ایسا منافق کفار کے زمرے میں آتا ہے، اگر بغیر توبہ کے مرا تو ہمیشہ ہمیشہ کیلئے جہنم میں جائے گا اور جہنم کے نچلے طبقے میں رکھا جائے گا۔
۲۔ نفاقِ عملی: وہ شخص جو عقیدے کے اعتبار سے تو پکا اور سچا مسلمان ہو، لیکن اس کے اندر منافقین سے ملتی جلتی عادتیں ہوں، مثلاً جھوٹ بولنا، وعدہ خلافی کرنا اور خیانت وغیرہ کا مرتکب ہونا، جھگڑے کے وقت بد زبانی کرنا، اس جیسے اور برے افعال میں مبتلا شخص مسلمان تو رہے گا، لیکن سخت گناہ گار ہو گا،اور ایسا مسلمان شخص کا عمل منافقوں والا کہلاتاہے،اس لیے کہ حقیقی منافق جو عہدِرسول صلی اللہ علیہ وسلم میں تھے ان کے اندر یہ تمام برائیاں اور خرابیاں موجود تھیں ۔

مذکورہ تفصیل کی رو سے صورتِ مسئولہ میں اگر کوئی شخص واقعۃً جھوٹ بولتاہو اور دو چہروں والا ہوتو ایسا شخص نفاقِ عملی کا مرتکب کہلائے گا،لیکن اس کے باوجود شریعت نے ہمیں اس بات کا مکلف نہیں بنایا کہ ہم اسے منافق کہتےپھریں ،اس کےلیے منافق ،منافق کی صدابلند کرتے رہیں،بلکہ خیرخواہی کا تقاضا یہ ہے کہ اس کی اصلاح کی کوشش کریں،اسے وعظ ونصیحت کریں ،اس کے حق میں دعاکریں ۔

نفاقِ عملی کا حکم: نفاقِ عملی کا مرتکب مسلمان ہی کہلائے گا، لیکن اس کا یہ عمل گناہ کبیرہ کی طرح ہے، اگر بغیر توبہ کے دنیا سے چلا گیا، تو اپنے گناہوں کی سزا پانے کے لیے دوزخ میں ڈالا جائے گا، اس کے بعد ایمان کی وجہ سے جنت میں داخل ہو گا۔

"صحيح البخاري"  میں ہے:

"حدثنا خلاد: حدثنا مسعر، عن حبيب بن أبي ثابت، عن أبي الشعثاء، عن حذيفة قال: إنما كان ‌النفاق ‌على ‌عهد ‌النبي صلى الله عليه وسلم، فأما اليوم: فإنما هو الكفر بعد الإيمان ".

(كتاب الفتن، باب:  إذا قال عند القوم شيئا، ثم خرج فقال بخلافه،ج:9،ص:58،ط:السلطانية)

"عمدة القاري شرح صحيح البخاري"میں ہے:

"السادس: ما قاله حذيفة: ذهب النفاق، وإنما كان النفاق على عهد رسول الله، عليه السلام، ولكنه الكفر بعد الإيمان، فإن الإسلام شاع وتوالد الناس عليه، فمن نافق بأن أظهر الإسلام وأبطن خلافه فهو مرتد".

(كتاب الإيمان،باب علامة المنافق،ج:1،ص:222،ط:دار إحياءالتراث العربي)

 وفيه أيضا:

"إن هذہ الخصال قد توجد في المسلم المصدق بقلبه ولسانه مع أن الإجماع حاصل علی أنه لا یحکم بکفرہ وبنفاق یجعله في الدرک الأسفل من النار".

( باب علامة المنافق ،ج:1،ص:221،ط: دار إحیاء التراث العربي بیروت

اسود عنسی

اسود عنسی وہ شخص ہے جس نے آپ صل اللہ علیہ وآلہ وسلّم کی زندگی میں ہی نبوت کا دعویٰ کردیا تھا اس کے علاوہ درج ذیل لوگوں نے بھی نبوت کا دعویٰ کیا:

1۔ مسیلمہ کذاب

2۔ عبہلہ بن كعب بن غوث العنسی المعروف اسود العنسی

3۔ حارث دمشقی

4۔ مغیرہ بن سعید

5۔ بیان بن سمعان

6۔ صالح بن طریف برغواطی

7۔ اسحاق اخرس

8۔ استاد سیس

9۔ علی بن محمد خارجی

10۔ حمدان بن اشعث قرمطی

11۔ علی بن فضل یمنی

12۔ حامیم بن من اللہ

13۔ عبد العزیز باسندی

14۔ ابو القاسم احمد بن قسی

15۔ عبد الحق بن سبعین مرسی

16۔ بایزید روشن جالندھری

17۔ میر محمد حسین مشہدی

18۔ سید علی محمد باب

19۔ بہاء اللہ

20۔ مرزا غلام احمد قادیانی

21۔ محمود پسی خانی گیلانی

22۔ ریاض احمد گوہر شاہی

23۔ یوسف کذاب

24۔ احمد عیسی

اسود عنسی کا اصل نام عبہلہ بن کعب بن عوف عنسی تھا۔ یہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے زمانے میں ہی نبوت کا دعویدار بن بیٹھا۔

حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے خواب میں دیکھا کہ ان کے ہاتھ میں دو کنگن ہیں جسے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے نفرت اور حقارت کے سبب ہاتھ سے جھٹک دیا، آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اس خواب کی تعبیر یہ بتائی کہ اس سے مراد نبوت کے دو جھوٹے دعویدار ہیں۔ ایک، مسیلمہ کذاب، یمامہ والا اور دوسرا، اسود عنسی، یمن والا۔

حدیثترمیم

فَأَخْبَرَنِي أَبُو هُرَيْرَةَ : أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، قَالَ : بَيْنَمَا أَنَا نَائِمٌ رَأَيْتُ فِي يَدَيَّ سِوَارَيْنِ مِنْ ذَهَبٍ فَأَهَمَّنِي شَأْنُهُمَا ، فَأُوحِيَ إِلَيَّ فِي الْمَنَامِ أَنِ انْفُخْهُمَا ، فَنَفَخْتُهُمَا فَطَارَا ، فَأَوَّلْتُهُمَا كَذَّابَيْنِ يَخْرُجَانِ بَعْدِي فَكَانَ أَحَدُهُمَا الْعَنْسِيَّ ، وَالْآخَرُ مُسَيْلِمَةَ الْكَذَّابَ صَاحِبَ الْيَمَامَةِ

رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا تھا ”میں سویا ہوا تھا کہ میں نے (خواب میں) سونے کے دو کنگن اپنے ہاتھوں میں دیکھے۔ مجھے اس خواب سے بہت فکر ہوا، پھر خواب میں ہی وحی کے ذریعہ مجھے بتلایا گیا کہ میں ان پر پھونک ماروں۔ چنانچہ جب میں نے پھونک ماری تو وہ دونوں اڑ گئے۔ میں نے اس سے یہ تعبیر لی کہ میرے بعد جھوٹے نبی ہوں گے۔“ پس ان میں سے ایک تو اسود عنسی ہے اور دوسرا یمامہ کا مسیلمہ کذاب تھا۔ صحیح بخاری حدیث نمبر ٣٦٢١

مختصر واقعہترمیم

حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی حجۃ الوداع سے واپسی کے علالت کا دور شروع ہوا اسی زمانے میں یمن کے علاقے میں قبیلۂ عنس کے ایک شخص عبہلہ بن کعب نے نبوت کا دعویٰ کیا۔ یہ شخص مزاجاً نرم اور شیریں گفتگو والا تھا لیکن کریـہ صورت اور کالی رنگت کا تھا اسی وجہ اسے اسود کہا گیا یعنی کالا۔ اس کے لقب کے متعلق، ذو الخمار (اوڑھنی والا) یا ذو الحمار (گدھے والا) تحریر ہے، وجہ یہ ہے کہ کریہ صورت ہونے کے سبب وہ اوڑھنی کا نقاب لگاتا تھا اور اس کے پاس سدھایا ہوا ایک گدھا بھی تھا جو اس کے اشارے پر رکوع و سجود کرتا تھا۔ اسود عنسی شعبدے اور کہانت میں بھی ماہر تھا جس کی وجہ سے اسے دعوائے نبوت کو ثابت کرنے میں مدد ملی۔ شعبدے اور کہانت کے زور پر لوگوں کو اپنی جھوٹی نبوت کا معتقد بنا کر اس نے باضابطہ یمن کے مسلمانوں کے خلاف جنگ چھیڑ دی اور بلا شرکت غیرے،(مصلحت خداوندی سے) پورے یمن کا حاکم بن گیا۔ حکومت اور اقتدار ملتے ہی اس کے کلام کی شیرینی ختم ہو گئی اور عجز و انکسار کی جگہ غرور اور تکبر نے لے لیا۔

انجامترمیم

حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو تمام حالات کی خبر ہوئی تو یمن کے چند مسلمانوں کے نام آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اسود عنسی کی سرکوبی کا حکم بھیجا، چنانچہ وہاں کے مسلمانوں نے حکمت اور مصلحت کے ساتھ، عسکری ہنگامہ آرائی کے بغیر اس فتنے کا سر کچلنے کے لیے باہم مشورہ کیا اور ایک دن اس کے محل میں نقب کے سہارے داخل ہوئے اور فیروز نامی ایک شخص نے اس کی گردن مروڑ کر اسے اس کے انجام تک پہنچا دیا۔ ان تمام واقعات کی خبر جناب محمد رسول الله صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو بذریعۂ وحی مل گئی اور آپ نے مدینے میں مسلمانوں کو بتایا۔ لیکن جب قاصد یہ خبر لے کر مدینہ پہنچا تو اس وقت جناب محمد رسول الله صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اس دار فانی سے پردہ فرما چکے تھے۔

عہد صدیق کی پہلی خوشخبریترمیم

حضرت ابو بکر صدیق جب خلیفہ بنے تو انہیں پہلی خوشخبری یہ ملی کہ اسود عنسی کا قتل ہو گیا اور ایک فتنے سے نجات مل گئی۔

Thursday 28 December 2023

حضرت عیسیٰ علیہ السّلام کے بارے میں کلمة اللہ کا مطلب

 مطلب یہ ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام مادّ ی اسباب کے واسطہ کے بغیر کلمة ”کن“ سے پیدا ہوئے ہیں، مزید تفصیل کے لیے حضرت اقدس الحاج مولانا مفتی محمد شفیع صاحب رحمہ اللہ تعالی کی کتاب ”تفسیر معارف القرآن“ ج۲ ص۶۱۶ ملاحظہ کریں۔

قفیز طحان کیاہے

 قفیز طحّان“ کا مطلب یہ ہے کہ اجیر کے کام سے جو چیز وجود میں آرہی ہے اجرت اسی میں سے طے ہو یا اس کا عرف ہو شرعاً یہ جائز نہیں، حدیث کے اندر اس سے ممانعت آئی ہے۔ ولو دفع غزلًا لآخر لینسجہ لہ بنصفہ أی بنصف الغزل أو استأجر بغلًا لیحمل طعامہ ببعضہ أو ثورًا لیطحن برّہ ببعض دقیقہ فسدت فی الکلّ؛ لأنّہ استأجرہ بجزءٍ من عملہ، والأصل فی ذلک نہیہ - صلّی اللّہ علیہ وسلّم - عن قفیز الطّحّان إلخ (درمختار مع الشامي: ۹/۷۹، باب الإجارة الفاسدة، ط: زکریا، دیوبند)

امداد الفتاوی میں ہے:

سوال:"زید نے اپنا بچھڑا بکر  کودیاتو اس کو پرویش کر بعد جوان ہونے کے اس کی قیمت کرکے ہم دونوں میں سے جوچاہے گانصف قیمت دوسرے کو دے کراسے رکھ لے گا،یا زید نے خالدکو ریوڑ سونپااور معاہدہ کرلیا کہ اس کوبعد ختم سال پھر پڑتال لیں گے،جو اس میں اضافہ ہوگا وہ باہم تقسیم کرلیں گے، یہ دونوں عقد شرعاًجائز ہیں یاقفیز الطحان کے تحت میں ہیں،جیساکہ عالمگیری جلد پنجم،ص:271،مطبوعہ احمدی میں ہے:دفع بقرة إلى رجل على أن يعلفها وما يكون من اللبن والسمن بينهما أنصافًا فالإجارة فاسدة.

الجواب:كتب إلی بعض الأصحاب،من فتاوى ابن تيميه،كتاب الإختيارات مانصه: ولو دفع دابته أو نخله،إلي من يقوم له وله جزء من نمائه صح وهو رواية عن أحمد،ج:4ص:85،س:14،پس حنفیہ کے قواعدپر تویہ عقد ناجائز ہے،کمانقل في السؤال عن عالمگیرۃ،لیکن بنا بر نقل  بعض اصحاب امام احمد رح کے نزدیک اس میں جواز کی گنجائش ہے،پس تحرز احوط ہے،اورجہاں ابتلاء شدید ہوتوسع کیاجاسکتاہے۔"

(کتاب الاجارۃ،ج:3،ص:342،343،ط:مکتبہ دار العلوم  کراچی)

ہدایہ میں ہے:

"ولا تصح حتى تكون المنافع معلومة والأجرة معلومة لما روينا ولأن الجهالة في المعقود عليه وفي بدله تفضي إلى المنازعة كجهالة الثمن والمثمن في البيع."

(كتاب الإجارة،ج:3،ص:231،ط:دار احياء التراث العربي،بيروت،لبنان)

قفیز الطحان اس کو کہتے ہیں کہ اجیر کے عمل کے کچھ حصے کو اس کے لیے اجرت کےطور پر مقرر کیا جائے۔مثلا کسی شخص کو گندم دی جائے کہ اس کو پیس کر آٹا بناؤاور اس آٹے میں سے ایک قفیز تمھاری اجرت ہوگی۔

   صورت مسئولہ کے مطابق اگر اجرت اس گندم سے مقرر کی جائے جس کو ابھی تک پیسا گیا نہ ہو تو یہ بلا شبہ جائز ہے۔لیکن اگر اس آٹے سےاجرت طے کی جائے جو اس گندم سے حاصل ہوگاتو یہ قفیز الطحان ہونے کی وجہ سے ناجائز ہوگا۔

صورۃ قفیز الطحان ان یستاجر رجل من آخر ثورا یطحن بہ الحنطۃ علی ان یکون لصاحبھا قفیز من دقیقھا او یستاجر انسانا لیطحن لھا الحنطۃ  بنصف من الدقیق او ثلثھا او ما اشبھہ ذالک۔(الفتاوی الھندیۃ،کتاب الاجارہ،الباب الخامس  ،ج4 ص444)

والحیلۃ في ذالک لمن اراد الجواز ان یشترط صاحب الحنطۃ قفیزا من الدقیق الجید،ولم یقل من ھذہ الحنطۃ او یشترط ربع ھذہ الحنطۃ من الدقیق الجید لان الدقیق اذا لم یکن مضافا الی حنطۃ بعینھا یجب فی الذمۃ ـ ـ ـ ـ ـ ـ وفی الخانیۃ: وکذا لو استاجر رجلا یجنی ھذا القطن بعشرۃ امناء من ھذالقطن لا یجوز ولو قال بعشرۃ امناء من القطن ولم یقل من ھذا القطن جاز۔(الفتاوی التا تارخانيه،كتاب الاجاره،ج15 ص114،115)

فتاوی شامی میں ہے:

"(قوله: والحيلة أن يفرز الأجر أولاً) أي ويسلمه إلى الأجير، فلو خلطه بعد وطحن الكل، ثم أفرز الأجرة ورد الباقي جاز، ولايكون في معنى قفيز الطحان إذ لم يستأجره أن يطحن بجزء منه أو بقفيز منه، كما في المنح عن جواهر الفتاوى. قال الرملي: وبه علم بالأولى جواز ما يفعل في ديارنا من أخذ الأجرة من الحنطة والدراهم معاً ولا شك في جوازه اهـ. (قوله: بلا تعيين) أي من غير أن يشترط أنه من المحمول أو من المطحون فيجب في ذمة المستأجر، زيلعي".

 (كتاب الإجارة،ج:6،ص:57،ط:سعيد)

پالتی مارکر یاکرسی پر بیٹھ کر سونے میں وضو باقی رہے گا یاٹوٹ جایے گا

 آلتی پالتی مار کر یعنی چہار زانوں بیٹھنے کی حالت میں سونے والے نے اگر کسی چیز پر اس طرح ٹیک لگائی ہوئی ہو کہ اس ٹیک کو ہٹادیا جائے تو وہ گر جائے یا اس کا مقعد زمین سے اٹھا ہوا ہو تو اس حالت میں سونے سے وضو ٹوٹ جائے گا، لیکن اگر وہ ٹیک لگائے بغیر سویا ہو  تو اس سے وضو نہیں ٹوٹے گا۔ یہی حکم اس صورت میں بھی ہوگا جب کہ آلتی پالتی مار کر یعنی چہار زانوں بیٹھنے  کی حالت میں سونے والے نے اپنا ہاتھ ٹھوڑی کے نیچے رکھ کر ٹھوڑی کو ہاتھ سے ٹیک دی ہوئی ہو، یعنی کسی دوسری چیز سے ٹیک لگائی ہوئی ہو  تب تو وضو ٹوٹ جائے گا  ورنہ نہیں ٹوٹے  گا، ٹھوڑی کو ہاتھ پر ٹیک دینے کا وضو کے ٹوٹنے سے کوئی تعلق نہیں  ہے۔

(۳)  اگر کرسی پر بیٹھ کر سونے والے نے  ہاتھ  یا کمر سے  ٹیک لگائی ہوئی ہے  اس طرح کہ اس ٹیک کو  ہٹادیا جائے تو  وہ گر جائےتو اس حالت میں سونے سے وضو ٹوٹ جائے گا اور اگر وہ کرسی پر ٹیک لگائے بغیر  سیدھا بیٹھا ہے اور اس کی آنکھ لگ گئی تو اس سے وضو نہیں ٹوٹے گا۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (1/ 141):

’’(و) ينقضه حكماً (نوم يزيل مسكته) أي قوته الماسكة بحيث تزول مقعدته من الأرض، وهو النوم على أحد جنبيه أو وركيه أو قفاه أو وجهه (وإلا) يزل مسكته (لا) يزل مسكته (لا) ينقض وإن تعمده في الصلاة أو غيرها على المختار كالنوم قاعداً ولو مستنداً إلى ما لو أزيل لسقط على المذهب‘‘۔

Wednesday 27 December 2023

من الشعر العربي


يا قُضاةَ العِبادِ إِنَّ عَلَيكُم

في تُقى رَبِّكُم وَعَدلِ القَضاءِ

أَن تُجيزوا وَتَشهَدوا لِنِساءٍ

وَتَرُدّوا شَهادَةً لِنِساءٍ

فَاِنظُروا كُلَّ ذاتِ بوصٍ رَداحٍ

فَأَجيزوا شَهادَةَ العَجزاءِ

وَاِرفُضوا الرُسحَ في الشَهادَةِ رَفضاً

لا تُجيزوا شَهادَةَ الرَسحاءِ

لَيتَ لِلرُسحِ قَريَةً هُنَّ فيها

ما دَعا اللَهَ مُسلِمٌ بِدُعاءِ

لَيسَ فيها خِلاطَهُنَّ سِواهُن

نَ بِأَرضٍ بَعيدَةٍ وَخَلاءِ

عَجَّلَ اللَهُ قَطَّهُنَّ وَأَبقى

كُلَّ خَودٍ خَريدَةٍ قَبّاءِ

تَعقِدُ المِرطَ فَوقَ دِعصٍ مِنَ الرَم

لِ عَريضٍ قَد حُفَّ بِالأَنقاءِ

وَلَحى اللَهُ كُلَّ عَفلاءَ زَلّا

ءَ عَبوساً قَد آذَنَت بِالبَذاءِ

صَرصَرٍ سَلفَعٍ رَضيعَةِ غولٍ

لَم تَزَل في شَصيبَةٍ وَشَقاءِ

وَبِنَفسي ذَواتُ خَلقٍ عَميمٍ

هُنَّ أَهلُ البَها وَأَهلُ الحَياءِ

قاطِناتٌ دورَ البَلاطِ كِرامٌ

لَسنَ مِمَّن يَزورُ في الظلماء 



Monday 25 December 2023

میت کو غسل دینے کا طریقہ

 (1) میت کو غسل دینے کے لیے ،سب سے پہلے کسی تخت یا بڑے تختے کا انتظام کرلیں ، اس کو اگر بتی یا عود ، لوبان ، وغیرہ سے تین دفعہ یا پانچ دفعہ یا سات دفعہ چاروں طرف دھونی دے کر میت کو اس پر لٹادیں اور کوئی موٹا کپڑا ناف سے لے کر زانو تک اڑھاکر میت کے بدن سے کپڑے اتار لیں، (بایں طور کہ میت کا ستر بھی نہ کھلے اور کپڑا اتنا باریک نہ ہو کہ گیلا ہونے کے بعد ستر نظر آئے) پھر میت کو استنجا کرائیں ، لیکن اس کی رانوں اور شرم گاہ کو ہاتھ نہ لگائیں اور نہ اس پر نگاہ ڈالیں؛ بلکہ اپنے ہاتھ میں کوئی موٹا کپڑا لپیٹ لیں اور میت پر جو کپڑا پڑا ہے اس کے اندر ہاتھ ڈال کر استنجا کرائیں۔

حدیث میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے فرمایا کہ:’’ لا تبرز فخذک، ولا تنظر إلی فخذ حي ولا میت‘‘( اپنی ران کسی کے سامنے نہ کھولو اور نہ کسی زندہ یا مردہ کی ران کی طرف نظرکر و )۔نیز حدیث میں ہے کہ حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے بعد جب حضرت علی رضی اللہ عنہ نے آپ کو غسل دیا تو اپنے ہاتھوں پر کپڑا لپیٹ لیا تھا۔

پھر  میت کو وضو کرائیں جیسے نماز کے لیے وضو کیا جاتا ہے ۔ رسول اللہ ﷺ کی صاحب زادی حضرت زینب رضی اللہ عنہا کا انتقال ہوا تو حضرت ام عطیہ رضی اللہ عنہا اور ان کے ساتھ کچھ خواتین نے غسل دیا، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو حکم دیا کہ پہلے وضو کے اعضاء  سے غسل شروع کریں۔ مگر کلی کرانے اور ناک میں پانی ڈالنے کی ضرورت نہیں، ہاں اگر میت حیض ، نفاس یا جنابت کی حالت میں ہے تو کلی کرانا اور ناک میں پانی ڈالنا چاہیے، (اس کا طریقہ یہ ہے کہ نرم کپڑا یا روئی گیلی کرکے جس قدر سہولت سے ہوسکے منہ اور ناک کا اندرونی حصہ تر کردیا جائے)، پہلےچہرہ پھر کہنیوں سمیت ہاتھ دھلائیں پھر سر کا مسح کرائیں، پھر پیر دھلائیں اور کپڑے کو تر کرکے دانتوں کو صاف کریں اور ناک کے سوراخوں میں کپڑا پھیر دیں،ناک ، منہ اور کان میں روئی رکھ دیں؛ تاکہ پانی اندر نہ جانے پائے ، پھر سر کو صابن وغیرہ سے اچھی طرح دھودیں، پھر میت کو بائیں کروٹ پر لٹاکر بیری کے پتے ڈال کر، پکایا ہوا پانی نیم گرم، تین دفعہ سر سے پیر تک ڈالیں، یہاں تک کہ وہ پانی تخت کو لگے ہوئے میت کے جسم تک پہنچ جائے، پھر دا ہنی کروٹ پر لٹاکر ، اسی طرح تین مرتبہ پانی ڈالیں ، پھر میت کو کوئی شخص اپنے بدن سے ٹیک لگا کر بٹھائے اور پیٹ کو آہستہ آہستہ ملے اور دبائے، اگر نجاست نکلے تو اس کو صاف کردے ، پھر میت کو بائیں کروٹ پر لٹاکر، کافور پڑا ہوا پانی سر سے پیر تک تین دفعہ ڈالیں اور کسی صاف کپڑے سےبدن کو صاف کر دیں ۔

حدیث میں ہے کہ حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی صاحب زادی رضی اللہ عنہا کے انتقال پر حضرت ام عطیہ رضی اللہ عنہا   اور ان کے ساتھ غسل دینے والے عورتوں کو حکم دیا کہ تین دفعہ یا پانچ دفعہ یا اس سے زیادہ اس کو غسل دو اور ہو سکے تو بیری کے پتوں اور پانی سے غسل دو اور آخری دفعہ کافور بھی اس میں ڈا ل دو۔

(2) میت کو غسل دینے والے کے لیے میت کو غسل دینے کے بعد  خود بھی غسل کرنا ضروری نہیں، البتہ غسل کرنا مستحب ہے۔ اور اسی طرح بہتر ہے کہ کپڑے بھی تبدیل کرلے، تاہم اگر کپڑوں میں کوئی نجاست نہ ہو تو کپڑے تبدیل کرنے کی ضرورت نہیں۔ فقط

میت کو کفنانے کا طریقہ

 

  • کفن کو تین دفعہ یا پانچ دفعہ یا سات دفعہ لوبان وغیرہ کی دھونی دے دی جائے۔
  • پہلے چادر  بچھائی جائے، پھر اِزار  اور  اس کے اوپر کرتا۔ کرتے کو درمیان سے چاک کرکے اس میں گلے کی جگہ بنا لی جائے۔ کرتے کا نچلا نصف حصہ ازار پر بچھایا جائے اور اوپر کا باقی حصہ سرہانے کی طرف رکھ دیا جائے۔ اگر میت عورت ہے تو چادر بچھا کر اس پر سینہ بند اور پھر ازار اور پھر کرتا بچھایا جائے۔
  • پھر غسل دیے ہوئے مردے کو تختہ سے آہستگی سے اُٹھا کر کفن پر لٹا دیا جائے، اور کرتے کا جو نصف حصہ سرہانے کی طرف تھا اس کو سر کی طرف اُلٹ دیا جائے کہ کرتے کا سوراخ گلے میں آجائے، اور  پیروں کی طرف بڑھا دیا جائے۔
  • کرتا پہنانے  کے بعد جو تہبند یا چادر ستر کے واسطہ میت کے بدن پر ڈالی گئی تھی اسے نیچے سے نکال دیا جائے۔
  • اگر میت عورت ہے تو اس کے سر کے بالوں کو  دو حصے  کرکے کرتے کے اوپر سینے پر ڈال دیے جائیں؛ ایک حصہ داہنی طرف اور ایک بائیں طرف۔ اس کے بعد سربند سر پر اور بالوں پر ڈالا جائے، اس کو  نہ باندھا جائے نہ لپیٹا جائے۔
  • پھر سر اور  ڈاڑھی پر عطر وغیرہ کوئی  خوشبو لگا دی جائے۔ (یاد رہے مرد کو زعفران نہیں لگانی چاہیے، اور عورتوں کو تیز پھیلنے والی خوشبو نہیں لگانی چاہیے۔)
  • پھر سجدے کے موقعوں؛  پیشانی، ناک، دونوں ہتھیلی، دونوں گھٹنے اور دونوں پنجے، پر کافور مل دیا جائے۔
  • پھر ازار کا بایاں پلہ (کنارہ) میت کے اوپر لپیٹ دیا جائے، پھر دایاں پلہ لپیٹا جائے، یعنی بایاں پلہ نیچے رہے اور دایاں اوپر۔ اگر میت عورت ہے تو ازار لپیٹنے کے بعد سینہ بند کو سینہ کے اوپر بغلوں سے نکال کر گھٹنوں تک دائیں بائیں سے باندھ دیا جائے۔
  • پھر چادر اسی طرح لپیٹ دی جائے؛ پہلے بائیں طرف، پھر داہنی طرف۔ یعنی بایاں پلہ نیچے رہے اور دایاں اوپر۔
  • پھر کسی دھجی سے پیر اور سر کی طرف کفن کو باندھ دیا جائے اور ایک بند کمر کے پاس بھی باندھ دیا جائے، تاکہ  راستے  میں کفن  نہ کھل جائے۔ قبر میں مردہ کو  قبلہ رُخ لٹانے کے بعد کفن کی یہ گرہیں کھول دی جائیں گی۔

چھوٹے  بڑے تمام عمر کے لوگوں کو کفن دینے کا یہی طریقہ ہے جو اوپر مذکور ہوا، البتہ جو بچہ ماں کے پیٹ سے مرا ہوا پیدا ہو، یعنی پیدا ہوتے وقت زندگی کی کوئی علامت نہیں پائی گئی تو ایسے بچے کو  قاعدے کے موافق کفن نہ دیا جائے، بلکہ کسی ایک کپڑے میں لپیٹ کر دفن کردیا جائے۔

اگر کسی مرد کو فقط  دو کپڑوں؛  ازار  اور  چادر، اور  عورت کو فقط تین کپڑوں؛ ازار، چادر اور سربند، میں کفن دیا جائے تو یہ بھی درست ہے اور اتنا کفن بھی کافی ہے۔ کسی مجبوری اور لاچاری کے بغیر اس بھی کم کپڑوں میں کفن دینا مکروہ ہے۔ لیکن اگر کوئی مجبوری اور لاچاری ہو تو مکروہ بھی نہیں۔

کسی انسان کی قبر کھل جائے یا اور کسی وجہ سے اس کی لاش قبر سے باہر نکل آئے اور اس پر کفن نہ ہو تو اس کو بھی مسنون کفن دینا چاہیے، بشرطیکہ وہ لاش پھٹی نہ ہو۔ اور اگر پھٹ گئی ہو تو صرف کسی کپڑے میں لپیٹ دینا کافی ہے، مسنون کفن کی حاجت نہیں۔

HIV positive and his partner rules

 


Sunday 24 December 2023

Dissolution of marriage due to HIV

 The Bombay high court recently upheld a family court order that dissolved a marriage on the grounds that the husband was HIV-positive and cruel. MUMBAI: The Bombay high court recently upheld a family court order that dissolved a marriage on the grounds that the husband was HIV-positive and cruel.21 Dec 2008