https://follow.it/amir-samdani?action=followPub

Monday 1 January 2024

اباضیہ کے عقائد

 مشرقی افریقہ) کے دار السلطنت، دارالسلام میں مختلف شیعی گروہوں کے علاوہ خارجی فرقہٴ اباضیہ بھی اپنی ایک خاص شناخت اور طاقت رکھتا ہے، اس فرقے کی پرشِکُوہ مسجدیں کسی بھی زائر کو دعوت نظارہ دیتی ہیں۔ بدقسمتی سے ہمارے ایشیائی مسلمان، اباضیہ کو بھی اہل السنت والجماعت میں شمار کرتے ہوئے بلاجھجک ان کی مسجدوں میں نماز پڑھتے ہیں۔

سُنی اسلام کی بنیادوں کو متزلزل کرنے اور مسلمانوں کو ابتداہی سے غیر معمولی نقصانات پہنچانے میں روافض کے ساتھ خوارج کا اہم کردار رہا ہے، یہ صحیح ہے کہ مرورِزمانہ کے ساتھ خوارج کی ساکھ کمزور ہوتی گئی اور وہ رفتہ رفتہ ناپید ہوتے گئے؛ تاہم بعض علاقے اب تک خارجی اثرات ومعتقدات کے زیراثر ہیں اورانھی خوارج کی باقیات میں سے فرقہٴ اباضیہ بھی ہے۔ مذہب اباضیہ کو عام طور سے عبد اللہ بن اباض تمیمی کی طرف منسوب کیاجاتاہے، جن کی وفات 80ھ میں ہوئی ہے؛ جبکہ علمی اور فکری اعتبار سے اس کا سرچشمہ ابوالشعثاء کو قرار دیا جاتا ہے۔ ابوالشعثاء جابر بن زید متوفی 93ھ محدث، فقیہہ اور ابن عباس کے شاگرد ہیں، دیگر مذاہب کی طرح اباضیہ کے پاس بھی مسائل کے استنباط کے خاص مناہج اور فقہی اصول وضوابط ہیں۔ فرقہٴ اباضیہ کو ”اہلِ دعوت، اہل استقامت اور جماعت المسلمین“ کے ناموں سے بھی جانا جاتا رہا ہے۔ [1]

مشہور اباضی علما میں جنھیں مرجعیت حاصل رہی ہے۔ ابراہیم اَطّفش الجزائری اور ابراہیم بن عمر بیوض الجزائری ہیں۔ یہ دونوں اباضیت میں متشدد نہیں تھے، حتیٰ کہ آخرالذکر کے بارے میں بعض لوگوں نے دعویٰ کیا ہے کہ مرنے سے پہلے انھوں نے اباضیت سے توبہ کرکے مالکی مسلک کو اختیار کرلیاتھا؛ اگرچہ اباضیین اس کی سختی سے تردید کرتے ہیں۔ اباضیین کے یہاں معتمد اور مستند کتابوں میں، عقیدہ میں نور الدین سالمی کی مشارق الانوار، اصول فقہ میں طلعة الشمس، فقہ میں محمداظفیش کی شرح النبیل وشفاء العلیل۔ سعدی کی قاموس الشریعة اوراحمد کندی کی المصنف جیسی کتابیں ہیں؛ جبکہ حدیث میں مسند الربیع بن حبیب کو اتنی زیادہ اہمیت دے رکھی ہے کہ وہ اسے اصح الکتب بعد کتاب اللہ کا مصداق اور صحیح بخاری وصحیح مسلم سے فائق قرار دیتے ہیں۔

عمان، اعتدال پسند خارجی فرقے، اباضیہ کا سب سے بڑا مرکزترمیم

اس وقت اباضیین کی بڑی تعداد الجزائر، تونس، لیبیا، مشرقی افریقہ اور سلطنت عمان وغیرہ میں آباد ہے۔ عمان کو ان کی مذہبی اور فکری سرگرمیوں کا مرکز قرار دیا جاسکتا ہے؛ کیوں کہ ایک اندازے کے مطابق وہاں کے پچھتّر فیصد باشندے اباضی ہیں۔ شیخ ابوزہرہ مصری فرماتے ہیں: یہ فرقہ خارجیوں میں معتدل اور فکر ورائے میں عام مسلمانوں سے زیادہ قریب، غلو اور انتہا پسندی سے الگ تھا، نیز وہ لکھتے ہیں: یہی وجہ ہے کہ عالمِ اسلام کے بعض اطراف میں یہ اب تک موجود ہیں۔“ [2] یاقوت حموی نے بھی اپنے دور کے باشندگان عمان کی اکثریت کو اباضی قرار دیا ہے، وہ کہتے ہیں:

”أکثر أہلہا في أیامنا خوارج اباضیة، لیس بہا من غیر ہذا المذہب الا طاری غریب، وہم لا یخفون ذٰلک“ [3]

ترجمہ: ہمارے زمانے میں عمان کے اکثر باشندے اباضی خوارج ہیں اور سوائے کسی اجنبی نووارد شخص کے اباضیہ کے علاوہ کو ماننے والا کوئی شخص نہیں ہے اور اباضیین اپنے عقائد کو چھپاتے بھی نہیں ہیں۔

عقائد میں اباضیہ کا اہل السنت والجماعت سے اختلافترمیم

چند اہم عقائد جن میں اباضیہ کا نقطئہ نظر اہل السنت والجماعت سے مختلف ہے، درج ذیل ہیں:

1- اباضیین صفاتِ الٰہی کا انکار کرتے ہیں،اور صفات کو عین ذات باری تعالیٰ قرار دیتے ہیں؛ جبکہ اہل السنت والجماعت، ذات باری تعالیٰ کے لیے صفات کو ثابت جانتے ہیں۔

2- آیات ربانیہ اور صحیح احادیث سے ثابت ہے کہ آخرت میں اہل ایمان کو اللہ پاک کا دیدار نصیب ہوگا؛ چنانچہ سورئہ یونس کی آیت کریمہ ”للذین أحسنوا الحسنٰی وزیادة“ (یونس:6) ”جن لوگوں نے نیکی کی ہے ان کے واسطے خوبی ہے اور مزید برآں بھی“ میں زیادہ کی تفسیر خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دیدار الٰہی سے کی ہے؛ چنانچہ حضرت صہیب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ”رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آیت پاک ”للذین أحسنوا کی تلاوت کرنے کے بعد فرمایا: جب جنتی جنت میں اور دوزخی دوزخ میں چلے جائیں گے تو ایک پکارنے والا پکارے گا، اے جنتیو! اللہ پاک نے تم سے ایک وعدہ کررکھا ہے، اللہ اپنے اس وعدے کو پورا کرنا چاہتا ہے، تو جنتی جواب دیں گے، وہ کیا ہے؟ کیا اللہ پاک ہمارے ترازو کو بھاری، ہمارے چہروں کو روشن اور ہمیں دوزخ سے دور کرکے جنت میں داخل نہیں کردیاہے؟ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں: اس کے بعد پردہ ہٹادیا جائے گا اور جنتی اللہ پاک کا دیدار کریں گے، تو خدا کی قسم اللہ کی عطا کردہ ساری نعمتوں میں اللہ کا دیدار سب سے پسندیدہ اور آنکھوں کو ٹھنڈک بخشنے والا ہوگا“۔ یہ حدیث مسلم شریف، ترمذی شریف سمیت کئی کتب حدیث میں موجود ہے اور اس مضمون کی اور بھی متعدد روایات ہیں، لہٰذا قرآنی آیات اور احادیث وآثار کے پیش نظر اہل السنت کا اجماعی عقیدہ ہے کہ آخرت میں اللہ پاک کا دیدار ہوگا؛ لیکن اباضیین اس کا انکار کرتے ہیں اورکہتے ہیں یہ ممکن ہی نہیں ہے۔

3- اباضیین، قرآن کریم کے مخلوق اور حادث ہونے کے قائل ہیں، جو معتزلہ کا مشہور عقیدہ ہے۔ اسی کے انکار کی وجہ سے معتزلہ کی ایماء پر عباسی خلفاء نے امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ پر کوڑے برسائے اور سخت اذیتیں دیں؛ لیکن حضرت امام کے پائے استقامت میں ذرا جنبش نہیں ہوئی اور وہ اہل السنت والجماعت کے اس عقیدے پر جمے رہے کہ قرآنِ مقدس مخلوق نہیں، جو حادث ہو، یہ اللہ پاک کا کلام ہے جو اس کی صفات میں سے ہے۔

4-اباضیین کا عقیدہ ہے کہ جو شخص گناہ کبیرہ کا ارتکاب کرکے دنیا سے جائے گا؛ اگرچہ وہ کلمہ گو اور پابند نماز وغیرہ ہو، پھر بھی اسے ہمیشہ کے لیے جہنم میں جانا پڑے گا۔ اسے کبھی جنت نصیب نہیں ہوگی؛ جبکہ اہل السنت والجماعت کا متفقہ عقیدہ ہے کہ مرتکب کبیرہ ہمیشہ جہنم میں نہیں رہے گا۔ اگر ایمان پر اس کا خاتمہ ہوا ہے تو اسے بھی اللہ پاک جنت کا داخلہ نصیب کریں گے یا تو اللہ پاک اس کا گناہ معاف کر دیں یا گناہوں کی سزا بھگتنے کے بعد اللہ پاک اس کے حق میں جنت کا فیصلہ فرمادیں؛ چنانچہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے:

”اہل توحید میں سے کچھ لوگوں کو جہنم میں عذاب دیا جائے گا، یہاں تک کہ وہ اس میں کوئلہ بن جائیں گے، پھر اللہ کی رحمت متوجہ ہوگی، تو انھیں آگ سے نکال کر جنت کے دروازوں پر ڈال دیا جائے گا، تو جنتی ان پر پانی چھڑکیں گے جس کے نتیجے میں وہ اس طرح اگیں گے جس طرح سیلاب کے بہاؤ میں گھاس اگ جاتی ہے“۔

5- جنھوں نے گناہ کبیرہ کا ارتکاب کیا ہے، اباضیین کے نزدیک وہ مستحق شفاعت نہیں ہیں، جبکہ اہل السنت والجماعت کا عقیدہ ہے کہ ان کے حق میں بھی شفاعت ہوگی۔ حضرت عمران بن حصین رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”لیخرجن قوم من امتی من النار بشفاعتي یُسمّون الجہنمیین“

ترجمہ: میری سفارش کی وجہ سے میری امت کے ایک گروہ کو جن کا لقب جہنمی پڑجائے گا، جہنم سے نکالا جائے گا۔

6- قرآن وحدیث میں آخرت کے متعلق کئی چیزوں کا تذکرہ ہے، مثلاً میزانِ عدل قائم کیا جائے گا، پل صراط سے گذرنا ہوگا؛ لیکن اباضیین اس طرح کی چیزوں میں تاویل کرتے ہیں اور احادیث میں ان چیزوں کی جو تفصیلات ہیں انھیں نہیں مانتے ہیں؛ جبکہ اہل السنت والجماعت اسی طرح ان کو مانتے ہیں جس طرح رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے خبر دی ہے۔

7- اہل السنت والجماعت کا اتفاق ہے کہ قرآنِ مقدس کے بعد روئے زمین پر سب سے صحیح کتاب بخاری شریف ہے،اس کے بعد مسلم شریف وغیرہ دیگر کتب احادیث کا مقام ہے؛ لیکن اباضیین اس تصور کو خارج کردیتے ہیں، ان کے نزدیک بخاری ومسلم سے بڑھ کر مسند ربیع بن صہیب ہے۔ قرآن مجید کے بعد سب سے اہم کتاب وہ اسی مسند کو قرار دیتے ہیں۔ اسی طرح اباضیین نے بہت سے اجماعی مسائل کا بھی انکار کیا ہے۔[4]

-شیعوں کی طرح اباضیین بھی اس بات کے قائل ہیں کہ خفین پر مسح کرنا جائز نہیں؛ حالاں کہ چمڑے کے موزے پر مسح کا جواز اہل السنت کا متفقہ مسئلہ ہے اورامام ابوحنیفہ نے خفین پر مسح کے جواز کو اہل السنت والجماعت کی علامتوں میں شمار کیا ہے۔

2- نماز کے آغاز میں تکبیر تحریمہ کے وقت ہاتھ اٹھانے کے قائل نہیں اور پوری نماز ہاتھ چھوڑ کر ہی ادا کرتے ہیں۔

3- اگر رمضان میں حالت جنابت میں صبح ہوئی تواس کا روزہ ٹوٹ جائے گا۔

4- جو جزیہ نہیں دیتے، مثلاً موجودہ اہل کتاب، ان کا ذبیحہ حرام ہے۔

5- ورثہ کے علاوہ دیگر رشتہ داروں کے لیے وصیت واجب ہے۔

6- مکاتب، عقد کتابت کے وقت سے ہی آزاد ہے۔


اباضیین کے پیچھے نماز پڑھنے کا بھی وہی حکم ہوگا،جو حکم خوارج کے پیچھے نماز پڑھنے کا ہے۔ یعنی اگرچہ اہل السنت والجماعت انھیں کافر نہیں قرار دیتے؛ لیکن ان کے عقائدِ فاسدہ اور اعمالِ شنیعہ کی وجہ سے ان کے پیچھے نماز پڑھنے سے ضرور منع کرتے ہیں، عرب علما، چوں کہ اباضیین کے احوال سے زیادہ واقف ہیں؛اس لیے ہم اس سلسلے میں زیادہ تر انھیں کے فتاویٰ نقل کرتے ہیں۔

مشہور عرب عالم ابن جبرین فرماتے ہیں: ”ثم ہم مع ذٰلک یکفرون أہل السنت ویمنعون خلفنا، فلذٰلک یقول: لا یصلی خلف ہٰذہ الطائفة“ ترجمہ:اباضیین اپنے غلط افکار کے ساتھ اہل السنت کو کافر قرار دیتے ہیں اور ہمارے پیچھے نماز پڑھنے سے روکتے ہیں؛ اس لیے ہم کہتے ہیں کہ اس فرقے کے پیچھے نماز نہیں پڑھی جائے گی۔

شیخ محمد بن ابراہیم نے تو اباضیہ کے پیچھے نہ صرف نماز پڑھنے کو ناجائز قرار دیا ہے؛ بلکہ واضح طور پر کہا ہے کہ فرقہٴ اباضیہ سے تعلق رکھنے والے کسی شخص کی گواہی بھی شرعاً معتبر نہیں ہوگی۔ [5]

سعودی عرب کے مفتیان کرام کی جماعت نے بھی یہی فتویٰ دیا ہے کہ اباضیین کے پیچھے نماز درست نہیں ہوتی؛ کیوں کہ اباضیہ فرقہ ضالہ میں سے ہے۔ [6]

ان کے علاوہ شیخ سلمان العودة اور شیخ سلمان الغصن بھی اباضیہ کے پیچھے نماز درست نہیں قرار دیتے۔

حضرت مولانا مفتی رشیداحمد صاحب لدھیانوی نے بھی ایک سوال کے جواب میں تحریر کیا ہے: ”عبد اللہ بن اباض کی جانب منسوب جو فرقہٴ اباضیہ ہے اورجو خوارج ہی کی شاخ ہے، ان کے عقائد کتابوں میں ملتے ہیں، اگر یہ فرقہ بعینہ وہی ہے یا ان کے عقائد ان کے مطابق ہیں تو ان کے پیچھے نماز نہیں ہوتی؛ اس لیے ان کے پیچھے نماز نہ پڑھی جائے“۔ [7]

مفتی شعیب اللہ خاں مفتاحی مدظلہ فرماتے ہیں:

”عمان کے اباضیہ دراصل خوارج ہیں؛ لہٰذا ان کے پیچھے نماز درست نہ ہوگی، اگرچہ یہ بہ نسبت دیگر فرق خوارج کے معتدل ہیں، تاہم جو بنیادی عقائد خوارج کے ہیں، ان میں یہ بھی شامل ہیں۔“ [8]

اہل السنت والجماعت کے تئیں اباضیہ کا سخت موقفترمیم

یہاں اس امر کا بھی اظہار مناسب ہے کہ خوارج کی طرح، اباضیین بھی اپنے علاوہ اہل السنت والجماعت اور عامة المسلمین کے حوالے سے انتہا پسندانہ نظریات رکھتے ہیں۔ ان کی رائے میں ان کے علاوہ تمام مسلمان کافر ہیں۔ اورجنت میں وہی داخل ہوگا جو اباضی عقیدے پر مرا ہو۔ اباضیین کے علاوہ جتنے مسلمان ہیں سب کو ہمیشہ کے لیے جہنم میں جانا پڑے گا۔ چنانچہ مشہور اباضی عالم ابوبکر بن عبد اللہ الکندی نے لکھا ہے:

”ونحن نَشْہَدُ لمن مات من ہٰوٴلاء مصرا علی خلاف ما دانت بہا الاباضیة بالخزی والصغار والخلود فی النار“ [9] ترجمہ: اور ان مسلمانوں میں سے جو اباضیہ کے عقیدے سے ہٹ کر کسی اور عقیدے پر مرے ہم اس کے لیے رسوائی، ذلت اور ہمیشہ کے لیے جہنم کی شہادت دیتے ہیں۔

ایک اور اباضی عالم مہنا بن خلفان نے اباضیہ کے معتقدات وافکار ذکر کرنے کے بعد لکھا ہے:

”وان مات علی خلافہ فلیس لہ فی الآخرة الا النار وبئس المصیر“ [10]

ترجمہ:اوراگر کوئی اس کے علاوہ کسی اور عقیدے پر مرے تو آخرت میں اس کے لیے صرف جہنم ہے اور جہنم بہت برا ٹھکانہ ہے۔

درج بالا تصریحات سے واضح ہے کہ فرقہٴ اباضیہ اپنے معتقدات دی وجہ سے اہل السنت والجماعت اور شیعہ کی مانند اسلام کا الگ اور مستقل فرقہ ہیں.

جہمیہ عقائد

 جہمیہ یہ جہم بن صفوان کے ساتھی ہیں۔

اس فرقے کا بانی جہم بن صفوان تھا ان کا عقیدہ تھا کہ انسان اپنے افعال میں مجبور محض ہے نہ اس میں قدرت پائی جاتی ہے نہ ارادہ اور نہ اختیار ۔(جمادات کی طرح کوئی قدرت نہیں رکھتے)ہر چیز اللہ کی طرف سے ہے اور اللہ نے انسان کو جبرا گناہو ں پر لگا رکھا ہے۔ ایمان کے بارے میں اس کا عقیدہ تھا کہ ایمان صرف معرفت کا نام ہے جو یہودی نبی ﷺ کے اوصاف سے با خبر ہیں وہ مومن ہیں یہ فرقہ اللہ تعالیٰ کی صفات کا منکر تھا۔ یہ کہتا تھا کہ اللہ تعالیٰ کو ان اوصاف سے متصف نہیں کیا جا سکتا جن کا اطلاق مخلوق پر ہوتا ہے۔ ان کے نزدیک اللہ تعالیٰ کی تمام صفات کا انکار کرنا توحید ہے۔ جنت و دوزخ میں لوگوں کو داخل کر کے فنا کر دیا جائےگااس کے بعد فقط اللہ کی ذات باقی رہے گی۔[1]

فرقہ جہمیہ کے عقائدترمیم

فرقہ جہمیہ کے چند اصولی اور بنیادی عقائد کا ذکر کیا جاتا ہے جو اہل سنت کے عقائد سے الگ ہیں ۔

  • (1) ایمان صرف معرفت قلب کا نام ہے اگر وہ حاصل ہے تو انکار لسان کے باوجود بندہ کامل الایمان ہے ۔
  • (2) ایمان کے بعد اعمال صالحہ کی کوئی ضرورت نہیں اور افعال سیۂ سے بھی ایمان متا ثر نہیں ہوتا ۔
  • (3) تمام افعال کا اللہ تعالیٰ ہی خالق ہے ۔
  • (4) بندہ مجبور محض ہے اسے کوئی اختیار نہیں ۔
  • (5) کلام اللہ حادث اور مخلوق ہے ۔
  • (6) اللہ تعالیٰ کے علاوہ کوئی چیز قدیم نہیں ۔
  • (7) رؤیت باری تعالیٰ محال اور قطعا نا ممکن ہے ۔
  • (8) انبیا اور ان کے امتیوں کا ایمان یکساں اور ایک درجہ کا ہے اس میں کوئی تفاوت نہیں ۔
  • (9) اللہ تعالیٰ کا علم حادث ہے کسی چیز کے وجود اور اس کی خلقت سے پہلے اللہ کو اس کا علم نہیں ہوتا ۔
  • (10) جنت اور جہنم کو ان کے مستحقین کے داخل ہو نے کے بعد فنا کر دیا جائیگا قرآن کریم وحدیث میں خالدین وغیرہ جیسے الفاظ کثرت کے معنیٰ میں وارد ہوئی ہیں ۔
  • (11) اللہ کو کسی ایسی صفت کے ساتھ متصف کرنا جائز نہیں جو بندوں میں پائی جاتی ہو یہی وجہ ہے کہ جہمیہ نے اللہ تعالیٰ کے حی اور عالم ہو نے کا انکار کر دیا کیونکہ یہ بندوں کے بھی اوصاف ہیں اور اللہ تعالیٰ کو صرف فاعل وقادر قراردیا کیونکہ یہ بندوں کے اوصاف نہیں ہیں ۔
  • (12) جہمیہ اللہ تعالیٰ کی تمام صفات کا صراحتا انکار کرتے ہیں ۔
  • (13) معتزلہ کی طرح یہ بھی ہر اس غیبی خارق عادت ثابت شدہ امر کا ناکار کرتے ہیں جو ان کی عقل سے با ہر ہو ۔
  • (14) باری تعالیٰ کے لیے تحیز با لمکان کے قائل ہیں۔[2]

علمائے کرام کی آراترمیم

امام ابن تیمیہ بیان کرتے ہیں :”جو کوئی یہ کہے کہ اللہ تعالیٰ علم و قدرت رکھتا ہے ،یا اُسے آخرت میں دیکھا جائے گا ،یا یہ کہے کہ قرآن اللہ کی طرف نازل ہونے والا کلام ہے جو مخلوق نہیں، جہمیہ کے نزدیک وہ شخص موحد نہیں بلکہ اللہ کو مخلوق سے تشبیہ دینے والا یعنی مُشَبَّہ ہے ۔“[3]

جہمیہ کا کہنا ہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ کی تمام صفات مخلوق ہیں،وہ ایک ایسے خیالی خدا پر ایمان رکھتے ہیں جس کا تصور کرنا ذہن ہی میں ممکن ہے کیونکہ حقیقت میں جو بھی چیز وجود رکھتی ہے اُس کی صفات ہوتی ہے۔ صفات سے علاحدہ کسی ذات کا حقیقت میں وجود نہیں ہے۔ صفات کے انکار میں غلو کا یہ حال تھا کہ وہ اللہ کے بارے میں یہ بھی کہنا جائز نہیں سمجھتے تھے کہ اللہ ایک شے ہے۔

ابو الحسن اشعری فرماتے ہیں :

جہم کا کہنا تھا :اللہ تعالیٰ کو شے کہنا جائز نہیں، کیونکہ شے اُس مخلوق کو کہتے ہیں جس جیسا کوئی اور پایا جاتا ہو۔ جبکہ تمام مسلمانوں کا یہ کہنا ہے کہ اللہ تعالیٰ شيء ہے مگر وہ دیگر اشیاء کی مانند نہیں ہے“۔[4]

اس کی دلیل اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان ہے:

اس کی دلیل اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان ہے:

  • ﴿قُلْ اَيُّ شَيْءٍ اَكْبَرُ شَہَادَۃً۝0ۭ قُلِ اللہُ۝0ۣۙ شَہِيْدٌۢ بَيْنِيْ وَبَيْنَكُمْ۝0ۣ ﴾ (الانعام :19)

پوچھیے سب سے بڑھ کر سچی گواہی کس شَيْءٍ کی ہو سکتی ہے؟ کہہ دیجیے اللہ کی جو میرے اور تمہارے درمیان میں گواہ ہے ۔

حقیقت میں جہمیہ کا اللہ کے اسماء و صفات کا عقیدہ اللہ تعالیٰ کی ذات کا انکار ہے۔ امام ابن تیمیہ فرماتے ہیں :

تعطیل کرنے والے جہمیہ کاعقیدہ حقیقت میں وہی عقیدہ ہے جو فرعون کے ہاں پایا جاتا تھا۔ وہ خالق، اُس کے کلام اور دین کا انکار کرتا تھا۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے بیان فرمایا ہے :

  • ﴿ مَا عَلِمْتُ لَكُمْ مِّنْ اِلٰہٍ غَيْرِيْ۝0ۚ﴾(القصص: 38)
  • ﴿فَقَالَ اَنَا رَبُّكُمُ الْاَعْلٰى۝24ۡۖ ﴾(النٰزعٰت: 24)

فرعون'' جہمیہ کی طرح موسی ؈ کے اللہ سے ہم کلام ہونے کا انکاری تھا، اسی طرح وہ اس بات کا منکر بھی تھا کہ آسمانوں کے اوپر موسیٰ ؈ کا کوئی معبود ہے ۔[5]

اسی لیے جہمیہ کے عقیدہ نے حلول کی بنیاد رکھی جو اللہ رب العالمین کے ساتھ صریح کفر ہے :

ابن تیمیہ فرماتے ہیں :

”جہمیہ کے جمہور عبادت گزارصوفیاء حلول کے عقیدہ کا اظہار کرتے تھے … اس لیے اللہ کی صفات کی نفی کرنے والے جہمیہ شرک کی ایک قسم میں داخل ہیں۔ ہر معطل (صفات کا انکار کرنے والا )مشرک ہوتا ہے جبکہ ہر مشرک کا معطل ہونا ضروری نہیں ہے، جہمیہ کا عقیدہ تعطیل کو لازم کرتا ہے ۔“[6]

سلام بن ابی مطیع کہتے ہیں جہمیہ کفار ہیں۔ یزید بن ہارون کہتے ہیں جہمیہ کفار ہیں۔[7]

البتہ وہ لوگ جو جہمی عقائد سے متاثر تو ہیں مگر غالی نہیں ملت اسلام سے خارج نہیں ہیں بلکہ اُن کا شمار 72 گروہوں میں ہوتا ہے۔

چنانچہ شیخ الاسلام ابن تیمیہ کہتے ہیں:

امام احمد نے جہمیہ کے (تمام) اعیان کو کافر نہیں کہا، نہ ہر اس شخص کو کافر کہا جس نے یہ کہا کہ وہ جہمی ہے۔ نہ اسے جس نے جہمیہ کی بعض بدعات میں ان کی موافقت کی۔ بلکہ آپ نے (قرآن کو مخلوق کہنے والے) اُن جہمیہ کے پیچھے نماز پڑھی جو اپنی بدعت کی طرف بلانے والے ،اس پر لوگوں کا امتحان لینے والے اور جو ان کی موافقت نہ کرے اس کو سخت سزائیں پہنچانے والے تھے۔ آپ ان کو مومن مانتے اور ان کی امارت تسلیم کرتے اور ان کے لیے دعا کرتے تھے۔[8]

اشاعرہ اور ماتریدیہ میں اختلاف

  اشاعرہ اور ماتریدیہ علم کلام کے دومکتب فکر کے نام ہیں اور یہ دونوں جماعتیں اہل حق میں سے ہیں، اور اس کی قدرے تفصیل یہ ہے کہ اشعریہ وہ حضرات ہیں کہ جو شیخ ابوالحسن اشعری رحمہ اللہ (۲۶۰--۳۲۴ھ) کی پیروی کرتے ہیں، امام ابوالحسن اشعری رحمہ اللہ چوکہ شافعی تھے اس لیے یہ مکتب فکر شوافع میں مقبول ہوا، یعنی حضرات شوافع عام طور پر کلامی مسائل میں اشعری ہوتے ہیں۔ (۲) ماتریدیہ وہ حضرات ہیں کہ جو شیخ ابومنصور ماتریدی رحمہ اللہ (متوفی ۳۳۳ھ) کی پیروی کرتے ہیں، امام ماتریدی چونکہ حنفی تھے اس لیے یہ مکتب فکر احناف میں مقبول ہوا، احناف عام طور پر کلامی مسائل میں ماتریدی ہوتے ہیں، اشعریہ اور ماتریدیہ کے درمیان بارہ مسائل میں ا ختلاف ہے جو سب فروعی (غیراہم) مسائل ہیں، بنیادی کسی مسئلہ میں اختلاف نہیں ہے، ان بارہ مسائل کو علامہ احمد بن سلیمان المعروف ب ”ابن کمال پاشا“ رحمہ اللہ نے ایک رسالہ میں جمع کردیا ہے، یہ رسالہ مطبوعہ ہے۔ مثلا اشاعرہ یہ کہتے ہیں کہ اللہ عزوجل کی ذاتی اور ازلی صفات سات ہیں یعنی حیات، علم، قدرت، ارادہ، کلام، سمع، بصر جبکہ ماتریدیہ کے نزدیک یہ آٹھ ہیں۔ اور ماتریدیہ نے تکوین کو بھی ذاتی اور ازلی صفات میں شمار کیا ہے جبکہ اشاعرہ کے نزدیک تکوین صفات فعلیہ میں سے ہے اور ان کے نزدیک صفات فعلیہ کل کی کل حوادث میں سے ہیں۔ ان صفات کو صفات معانی بھی کہا جاتا ہے۔

دوسرا بڑا فرق یہ بیان کیا جاتا ہے کہ اشاعرہ کے نزدیک کسی فعل کا حسن وقبح شرعی ہے جبکہ ماتریدیہ کے نزدیک عقلی ہے۔ اشاعرہ یہ کہتے ہیں کہ کوئی کام اچھا اس لیے ہے کہ شرع نے اسے اچھا کہا ہے اور برا اس لیے ہے کہ شرع نے اسے برا کہا ہے یعنی خیر وشر میں خیر کا خیر ہونا اور شر کا شر ہونا شرع سے معلوم ہوا ہے۔ اس کے برعکس ماتریدیہ کا کہنا یہ ہے کہ خیر کا خیر ہونا اور شر کا شر ہونا عقلی بھی ہے البتہ ہم اس خیر کے اختیار کرنے اور شر سے بچنے کے مکلف شرع کے حکم سے بنتے ہیں۔
صفت کلام میں ان کا معروف اختلاف یہ ہے کہ اشاعرہ کے نزدیک جب قاری صاحب قرآن مجید کی تلاوت کرتے ہیں تو جو ہم قاری صاحب سے سنتے ہیں، وہ کلام الہی ہے یعنی صفت باری تعالی ہے جبکہ ماتریدیہ کے نزدیک جو ہم قاری صاحب سے سنتے ہیں، وہ کلام الہی نہیں ہے بلکہ اس پر دلالت کرنے والی عبارت ہے۔ پس ماتریدیہ کے نزدیک مخلوق کے لیے کلام الہی کو سننا ممکن نہیں ہے یا دوسرے الفاظ میں مسموع، کلام الہی نہیں ہوتا بلکہ اس پر دال ہوتا ہے۔
اسی طرح اشاعرہ کے نزدیک تکلیف ما لا یطاق یعنی اللہ عزوجل کا مخلوق کو ایسی چیز کا مکلف بنانا کہ جس کی وہ طاقت نہ رکھتے ہوں، جائز ہے جبکہ ماتریدیہ کے نزدیک تکلیف ما لا یطاق جائز نہیں ہے۔ اور تحمیل ما لا یطاق دونوں کے نزدیک جائز ہے۔ اسی طرح ماتریدیہ کے نزدیک نبی کے لیے مرد ہونا شرط ہے جبکہ اشاعرہ کے نزدیک مرد ہونا شرط نہیں ہے۔
اسی طرح ماتریدیہ کے نزدیک اسم اور مسمی، یعنی جس کا اسم ہے، ایک ہی شیء ہیں جبکہ اشاعرہ دونوں میں فرق کے قائل ہیں۔ ماتریدیہ کے نزدیک اہل ایمان کا ہمیشہ جہنم میں رہنا اور کافروں کا ہمیشہ جنت میں رہنا نقلا اور عقلا ممکن نہیں ہے جبکہ اشاعرہ کے نزدیک یہ ممکن ہے۔ ماتریدیہ کے نزدیک کفر کا گناہ معاف نہیں ہو سکتا جبکہ اشاعرہ کے بزدیک عقلا معاف ہو سکتا ہے۔ ماتریدیہ کے نزدیک اللہ کی رضا اور محبت، اس کے ارادے کی طرح، معاصی کو شامل 
نہیں ہے جبکہ اشاعرہ کے نزدیک شامل ہے۔



مرتد اگر دوبارہ توبہ کرکے اسلام میں داخل ہوناچاہے تواس کی توبہ قبول ہو گی کہ نہیں

  کسی کفریہ قول یا عمل کا ارتکاب کرنے والا  اگر صدق دل سے توبہ کرلے تو شرعاً اس  کی توبہ قبول  ہوجاتی ہے، لہذا   اگر کوئی شخص (العیاذ باللہ) مرتد ہونے کے بعد اس کیے ہوئے فعل یا قول سے توبہ کرکے آئندہ تمام کفر و شرک کی باتوں سے پرہیز کرنے کا عہد کرے اور دل کے یقین کے ساتھ زبان سے کلمہ طیبہ اور کلمہ شہادت پڑھےاور جملہ عقائد پر ایمان لے آئے، تو وہ شخص شرعاً دائرہ اسلام میں داخل ہوجاتاہے اور  توبہ کے بعد ایمان کی دولت مل جاتی ہے، اور توبہ کرنے کے بعد اس شخص کا حکم بھی عام مسلمانوں کی طرح ہوجاتا ہے۔

آیندہ اپنی زندگی شریعت کے مطابق گزارے، اپنے فرائض  انجام دے اور  منکرات سے بچے  اور غیر ضروری خیالات میں الجھنے سے گریز کرے بلکہ حدیث شریف سے معلوم ہوتا ہے کہ غیر اختیاری  وسوسہ کا آنا اور  اسے برا سمجھنا ایمان کی علامت ہے، لہذا ان خیالات اور وسوسوں سے پریشان نہ ہوں ، اور ان کا علاج یہ ہے کہ ان کی طرف بالکل دھیان نہ دیا جائے، بل کہ ان کا خیال جھڑک کر ذکر  اللہ کی کثرت کا اہتمام کرنا چاہیے۔

صحیح بخاری میں ہے:

"عن يحيى بن يعمر، حدثه، أن أبا الأسود الدؤلي، حدثه ان أبا ذر رضي الله عنه حدثه، قال: أتيت النبي صلى الله عليه وسلم وعليه ثوب أبيض، وهو نائم، ثم أتيته وقد استيقظ، فقال:" ما من عبد قال لا إله إلا الله، ثم مات على ذلك، إلا دخل الجنة"، قلت: وإن زنى وإن سرق، قال:" وإن زنى وإن سرق"، قلت: وإن زنى وإن سرق، قال:" وإن زنى وإن سرق"، قلت: وإن زنى وإن سرق، قال:" وإن زنى وإن سرق"، على رغم أنف أبي ذر، وكان أبو ذر إذا حدث بهذا، قال: وإن رغم أنف أبي ذر".

"ترجمہ: حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ کے جسم مبارک پر سفید کپڑا تھا اور آپ سو رہے تھے، پھر دوبارہ حاضر ہوا تو آپ بیدار ہو چکے تھے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس بندہ نے بھی کلمہ «لا إله إلا الله» ”اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں“ کو مان لیا اور پھر اسی پر وہ مرا تو جنت میں جائے گا۔ میں نے عرض کیا چاہے اس نے زنا کیا ہو، چاہے اس نے چوری کی ہو، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ چاہے اس نے زنا کیا ہو، چاہے اس نے چوری کی ہو، میں نے پھر عرض کیا: چاہے اس نے زنا کیا ہو، چاہے اس نے چوری کی ہو۔ فرمایا: چاہے اس نے زنا کیا ہو، چاہے اس نے چوری کی ہو۔ میں نے (حیرت کی وجہ سے پھر) عرض کیا: چاہے اس نے زنا کیا ہو یا اس نے چوری کی ہو۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:چاہے اس نے زنا کیا ہو چاہے اس نے چوری کی ہو۔ ابوذر کی ناک خاک آلود ہو۔ ابوذر رضی اللہ عنہ بعد میں جب بھی یہ حدیث بیان کرتے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  کے الفاظ ابوذر کے لیے  «وإن رغم أنف أبي ذر‏.‏») ضرور بیان کرتے۔ "

(کتاب الإیمان باب المعاصي من أمر الجاهلية ولا يكفر صاحبها بارتكابها إلا بالشرك: 1/ 204، ط: دار الفكر

Sunday 31 December 2023

کفریہ کلمات

 جان بوجھ کر انکار دین کی مختلف صورتیں ہیں:

۱۔صراحۃً(واضح طور پر) انکار کرنا اور جھٹلانا۔

حقیقی انکار درجِ ذیل صورتوں میں ہوتا ہے:

الف۔رسول اللہ ﷺ کی رسالت ہی کو نہ مانے۔

ب۔آپ ﷺ کے کسی ایک بھی حکم کو صراحۃً غلط (خلافِ واقع یا خلاف حقیقت) قرار دے۔

ج۔کسی مسلمہ طور پر ثابت شدہ(اجماعی) حکم کا جان بوجھ کر انکار کرے۔

۲۔اپنے قول یا فعل سے دین کے کسی قطعی حکم(جس کا ثبوت کسی بھی درجے میں قطعی اور یقینی ہو یعنی مستحب یا سنت کے طور پر ہو یا فرض وواجب کے طور پر)کا مذاق اُڑانا،توہین و تحقیر کرنا۔

۳۔عمداً ایسا کام کرنا یا ایسی بات کہنا جو استخفاف (دین میں ثابت شدہ کسی مسلمہ امر کی تحقیر) کی واضح علامت ہو۔

۴۔اپنی مرضی واختیار سے ایسا اقدام کرناجو دین کی تکذیب (جھٹلانے) کی دلیل اور علامت ہو، مثلاً کافروں کی طرح بتوں کو سجدہ کرنا یا قرآن کو گندگی میں ڈالنا یا کافروں کے مذہبی شعار اپنانا۔

۵۔بغیر کسی جبر واکراہ کےکسی باطل فرقے کی طرف اپنی نسبت کرنا،مثلاً اپنے کوقادیانی کہنایا لکھنا،لکھوانا ۔

۶۔ضروریاتِ دین (قطعی و بدیہی احکام) میں سے کسی حکم کی ایسی تاویل کرنا جو اجماع امت کے خلاف اور کھلم کھلا بے بنیاد ہو۔

ان چھ صورتوں میں سے پہلی صورت حقیقی انکار و تکذیب کی ہے،جبکہ باقی پانچ صورتیں بھی انکار کے حکم میں ہیں، اگرچہ ان میں صاف انکار نہیں۔

قطعیات وضروریات میں تاویل وانکار کا حکم:

وضاحت: جن احکامِ شرعیہ کا انکار باعث ِ تکفیر ہے ان کی دو نوعیتیں ہیں:

1۔قطعی محض،2۔قطعی بدیہی

قطعی محض:

وہ احکامِ شرعیہ جن کا ثبوت قرآن و حدیث اور اجماعِ اُمت کے ایسے صریح واضح اور یقینی دلائل سے ہو جن میں کسی قسم کا شبہہ نہ ہو،لیکن اس قدر معروف ومشہور نہ ہوں جس سے ہر خاص و عام  واقف ہو۔

قطعی بدیہی:

وہ احکامِ شرعیہ جو مذکورہ بالا مفہوم کے مطابق قطعی ہونے کے علاوہ اس قدر معروف و مشہور ہوں کہ ہر عام و خاص اس سے واقف ہو جیسے: نماز، زکوٰۃ، اذان ، ختم نبوت وغیرہ۔

قطعی محض کا انکار اس وقت موجب ِ کفر بنتا ہے،جبکہ انکار کرنے والے کو اس کا حکم شرعی ہونا یقینی طور پر معلوم ہو(روح المعانی)اور کسی معتبرذریعے(شرعی دلیل )کے سہارےسےحاصل تاویل کے بغیر انکار کرے،(در مختار)لہذاکسی دلیل کی بنیادپرتاویل یاجہالت(ناواقفیت)غلطی اور بھول کی بناء پر انکار باعث ِ کفر نہ ہوگا،جبکہ قطعی بدیہی کا انکار بہر صورت (خواہ علم ہو نہ ہو) بالاتفاق باعث ِ کفر ہے،نیز قطعی بدیہی کی خلاف ِظاہر تاویل بھی بہر حال(خواہ بظاہرکسی دلیل کا سہارا لے یا کہ نہیں۔)باعث ِ کفر ہے جیسا کہ ختم نبوۃ کے مفہوم میں مرزاقادیانی کا تاویل کرنا۔

(مزیدتفصیل کے لیے رسالہ"ایمان اور کفر" تالیف مفتی محمد شفیع رحمہ اللہ  اور رسالہ"ایمان و کفر کا معیار" تالیف مفتی رشید احمد رحمہ اللہ  ،مندرجہ احسن الفتاویٰ 1/70 ملاحظہ ہو۔)

حاصل یہ کہ کفر پورے دین اسلام کے صراحۃً انکار ہی کو نہیں کہا جاتا،بلکہ دین اسلام کے قطعی احکام میں سے کسی ایک حکم کا بھی جان بوجھ کر انکار یا استخفاف کرنا خواہ صراحۃً ہو یا دلالۃً یا کسی قطعی بدیہی حکم کی خلافِ ظاہر وبداہت تاویل کرنا یا کسی کافر فرقے کی طرف اپنا انتساب کرنا بھی کفر ہے اور اس سے انسان کافر ہو جاتا ہے۔

لزومِ کفر:

لزومِ کفر یہ ہے کہ ان جانے میں ایسے قول یا فعل کا ارتکاب کیا جائے جس سے کفر لازم آئے۔

چنانچہ بعض دفعہ کفریہ کلمات کے زبان پر لانے سے بھی انسان نادانستہ طور پر شرعاً کافر قرار پاتا ہے۔

البتہ کسی کلمۂ کفر کو زبان پر لانے کی مختلف صورتیں ہیں،جن کے احکام بھی مختلف ہیں جو مندرجہ ذیل ہیں:

۱۔حکم شرعی قطعی کا یقینی علم ہو اور عمداً (جان بوجھ کر) زبان پر کلمۂ کفر لایا جائے اور کفر کا ارادہ اور نیت بھی ہو، مثلاً جان بوجھ کر اپنے اختیار سے کلمۂ کفر کہنا۔(یہ در حقیت التزام کفر ہے۔)

۲۔حکم شرعی قطعی کا علم ہواورعمداً (جان بوجھ کر)زبان پرکلمۂ کفرلائے،اور کفر کا ارادہ نہ ہو،لیکن ساتھ ہی استخفاف کی واضح دلیل وعلامت پائی جائے،مثلاًمزاح یالہوولعب کے طورپرکلمۂ کفر کہنا،ان دونوں صورتوں میں بالاتفاق قائل کو کافر کہاجائے گا۔

۳۔نہ حکم شرعی قطعی کا علم ہو اور نہ ہی جان بوجھ کر زبان پر لایا اور نہ ہی کفر کا ارادہ ہو، مثلاً: بھول کر زبان سے کلمۂ کفر کہنا۔

۴۔علم تو تھا،لیکن نہ تو جان بوجھ کر زبان پر لایا ہو اور نہ ہی کفر کا قصد و ارادہ ہو، مثلاً: غلطی سے یا جبراً کسی کلمۂ کفر کا زبان پر لانا۔ ان دونوں صورتوں میں بالاتفاق قائل کو کافر نہیں کہا جائے گا۔

۵۔جان بوجھ کر زبان پر کلمۂ کفر لایا،لیکن کلمۂ کفر ہونے کا یا حکم ِ قطعی شرعی ہونے کا علم نہ ہو اور نہ ہی قصد اور ارادۂ کفر ہو، مثلاً: جہالت کی وجہ سے کلمۂ کفر بولنا۔

۶۔علم بھی ہواوربغیر کسی صحیح غرض ( نقل وحکایت)کےجان بوجھ کرزبان پربھی لایاہو،اور کفریہ معنی یاکافرہونے کاارادہ نہ ہویاکافرنہ ہونےکا ارادہ ہو،لیکن ساتھ ہی استخفاف کی کوئی واضح علامت بھی نہ پائی جائے۔مثلاً:صحیح اعتقاد کے باوجود،بلاضرورت جان بوجھ کر کلمۂ کفر بولنا۔

ان آخری دونوں صورتوں میں اختلاف ہے،بعض کے نزدیک قائل کو کافر کہا جائے گا اور بعض کے نزدیک کافر نہیں اور فتویٰ بھی اسی پر ہے کہ ان صورتوں میں قائل کو کافرتو نہیں کہا جائےگا، البتہ مرتکب کفر ضرور کہا جائے گا۔

لہٰذا جن صورتوں میں بالاتفاق تکفیر کی گئی ہے ان میں قائل کے لیے تجدید ایمان کے ساتھ تجدید نکاح بھی ضروری ہے،جبکہ جن صورتوں میں تکفیر میں اختلاف ہے ان میں فقط توبہ و استغفار ضروری ہے، البتہ احتیاطاً تجدید ایمان اور نکاح بھی کر لینا چاہیے،کیا خبر کفر واقع ہونا درست ہو۔ اگر تجدید نکاح نہیں کرے گا تو احتیاط پر عمل نہ کرنے کا گناہ ہوگا،لیکن نکاح کو ختم نہیں سمجھا جائے گا۔

تنبیہ:

گزشتہ بالا تفصیل اس کلمۂ کفر کے بارے میں ہے جس کا کلمۂ کفر ہونے میں علماء کا اختلاف نہ ہو،لہٰذا اگر کسی کلمہ کے کفریہ ہونے میں اختلاف ہو یا کفریہ ہونا واضح نہ ہو بلکہ صحیح معنی اور مفہوم بھی اس کا بن سکتا ہو اور اس کا قائل کسی قسم کے کفریہ معنی و مفہوم کا ارادہ بھی نہ رکھتا ہو تو ایسی صورت میں اہل فتویٰ کا اتفاق ہے کہ قائل کی تکفیر نہیں کی جائے گی،البتہ ایسے الفاظ سے اجتناب کے ساتھ احتیاطا تجدید نکاح وایمان کی تلقین کی جائے گی۔

البتہ اگر قائل خود ہی کفریہ معنی کے ارادے کا اقرار کرے تو ایسی صورت میں ایسے قائل کی تکفیر میں کوئی تأمل نہ کیا جائے گا۔

مذکورہ تفصیل صرف نفس مسئلہ اور اس کی حساسیت کو سمجھانے کے لیے لکھی گئی ہے،لہذا کسی کے قول یا فعل پر اس کی تطبیق صرف ماہر ومستنداہل فتوی ہی کا کام ہے،عوام کےلیےاز خود کوئی فیصلہ کرنا درست نہیں،نیزآپ اپنے گھر والوں کی دینی حوالےسے ذہن سازی کی کوشش کریں،جس کا بنیادی وبہترین طریقہ یہ ہے کہ انہیں کسی مستند عالم وبزرگ کی مجلس میں باقاعدگی سے شریک کرانے کی کوشش کریں یا کم از کم تبلیغ کے عمل سے انہیں وابستہ کرانے کی کوشش کریں اور گھر میں فضائل اعمال اوردیگربزرگوں کے اصلاحی مواعظ کے کتابچوں کی تعلیم کا بھی اہتمام کریں اوردینی مسائل میں بحث ومباحثہ سے قطعی اجتناب رکھیں۔


الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (4/ 224)

(قوله والطوع) أي الاختيار احترازا عن الإكراه ودخل فيه الهازل كما مر لأنه يعد مستخفا لتعمده التلفظ به، وإن لم يقصد معناه وفي البحر عن الجامع الأصغر: إذا أطلق الرجل كلمة الكفر عمدا، لكنه لم يعتقد الكفر قال بعض أصحابنا: لا يكفر لأن الكفر يتعلق بالضمير ولم يعقد الضمير على الكفر، وقال بعضهم: يكفر وهو الصحيح عندي لأنه استخف بدينه. اهـ. ثم قال في البحر والحاصل: أن من تكلم بكلمة للكفر هازلا أو لاعبا كفر عند الكل ولا اعتبار باعتقاده كما صرح به في الخانية ومن تكلم بها مخطئا أو مكرها لا يكفر عند الكل، ومن تكلم بها عامدا عالما كفر عند الكل ومن تكلم بها اختيارا جاهلا بأنها كفر ففيه اختلاف. اهـ.

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (6/344)

 (الایمان) ھو تصدیق محمد صلی اﷲ علیہ وسلم فی جمیع ما جاء بہ عن اﷲ تعالیٰ مما علم مجیئہ ضرورۃً۔

والکفر لغۃ الستروشرعاً تکذیبہ صلی اﷲ علیہ وسلم فی شیء مما جاء بہ من الدین ضرورۃ۔

 و فی الشامیۃ: قلت وقد حقق فی المسایرۃ أنہ لا بد فی حقیقۃ الإیمان من عدم ما یدل علی الاستخفاف من قول أو فعل ویأتی بیانہ۔

وفیھا أیضًا: قال فی المسایرۃ واتفق القائلون بعدم اعتبار الإقرار علی أنہ یلزم المصدق أنہ یعتقد أنہ حتی طولب بہ أتی بہ فإن طولب بہ فلم یقر بہ فہو أی کفر عن الإقرار کفر عناد، وھذا ما قالوا: إن ترک العناد شرط وفسروہ بہ … اقول: الظاھر أن المراد بالاشتراط المذکور نفی اعتقاد عدمہ ای أن لا یعتقد أنہ متی طولب بہ لا یقر الخ۔

تفسير الألوسي = روح المعاني (1/ 129)