https://follow.it/amir-samdani?action=followPub

Wednesday 12 June 2024

سونے چاندی کے دانت یاخول چڑھوانا

 دانتوں پر چاندی یا سونے کا خول بلا ضرورت چڑھانا مکروہ ہے، لیکن اگر ضرورت کی وجہ سے چڑھائے جائیں تو مکروہ نہیں، اور بہر صورت چڑھانے کے بعد یہ خول وضو اور غسل کے جواز پر اثر انداز نہیں ہوتے۔‘‘

(کتاب الطہارت، دوسرا باب انسان اور اس کے عوارض، فصلِ چہارم وضو غسل اور تیمم، ج:2، ص:319، ط:دار الاِشاعت)

 فتاوی محمودیہ میں ہے:

’’الجواب حامداً ومصلیاً:

اگر بغیر خول چڑھائے دانت کا قائم رہنا دشوار ہو تو چاندی کا چڑھالینا درست ہے، غسل کے وقت اس کو اتارنے سے معذوری ہو تو بغیر اتارے بھی غسل درست ہو جائے گا، نماز بھی درست ہو جائے گی۔‘‘

(کتاب الطہارت، باب الغسل، فصل اول فرائضِ غسل کے بیان میں، ج:5، ص:82، ط:ادارۃ الفاروق)

فتاوی شامی میں ہے:

"(و) لا يمنع (ما على ظفر صباغ و) لا (طعام بين أسنانه) أو في سنه المجوف به يفتى. وقيل إن صلبا منع، وهو الأصح۔"

(کتاب الطہارۃ،فرض الغسل،  ج:1، ص:154، ط:سعید)

وفيه ايضاً:

"‌الأصل ‌وجوب ‌الغسل إلا أنه سقط للحرج."

(كتاب الطہارۃ،فرض الغسل، ج:1، ص:153، ط:سعید)

وفيه ايضاً:

"(لا) يجب (غسل ما فيه حرج كعين) وإن اكتحل بكحل نجس (وثقب انضم و) لا (داخل قلفة)."

 (كتاب الطہارۃ،فرض الغسل،ج:1، ص:152، ط:سعید)



عبد المصطفیٰ نام رکھنا

 اللہ تعالی کے پسندیدہ نام ”عبد اللہ اور عبد الرحمن“ ہیں،ان ناموں کے پسندیدہ ہونے کی وجہ ان ناموں میں اللہ کے ذاتی نام ”اللہ“ اور اللہ کے صفاتی نام ”الرحمن“ کی طرف ”عبد “کی اضافت کا ہونا ہے،دراصل اللہ تعالیٰ کو اپنے بندوں کی طرف سے عبدیت کا اظہار پسند ہے اور ان ناموں کے ذریعے اظہارِ عبدیت علیٰ وجہ الکمال ہوتاہے۔ اسی وجہ سے اللہ کے علاوہ کسی اور کے نام کی طرف عبد کی اضافت کرکے نام رکھنا جائز نہیں ہے ،مثلاً: عبد الرسول، عبد النبی، عبد الحسین، عبد المصطفیٰ، عبد الحجر وغیرہ۔ 

اگر اس میں"عبد" سے مراد بندہ ہو تو یہ نام شرکیہ ہوں گے، اور اگر تاویل کی جائے  کہ عبد سے خادم وغیرہ مراد ہوں تب بھی شبہ تو موجود ہی ہے؛ لہذ ا  عبد النبی نام رکھنا درست نہیں ہے، اس کو تبدیل کرکے انبیاء کرام علیہم السلام یا صحابہ یا نیک مسلمان مردوں کے ناموں پر نام  پر رکھے جائیں یا ایسا نام رکھیں جس کے معنی اچھے ہوں

کیاایمان میں کمی زیادتی ہوتی ہے

:ایمان جو کفر کے مقابل ہے اس میں کمی زیادتی نہیں ہوتی؛ کیونکہ کمی کی صورت میں وہ شرعاً ایمان ہی نہیں کہلائے گا۔ اہل علم نے ایمان میں کمی و زیادتی کی جو بحث کی ہے اس کا تعلق اس معنی (ایمان بمقابل کفر) سے نہیں ہے؛ بلکہ ایمان کے تقاضہ کے مطابق

 احکام شرعیہ پر اخلاص کے ساتھ عمل کرنے اور تقویٰ اختیار کرنے کی وجہ سے دل میں جو نور پیدا ہو اور احکام شرعیہ کی اطاعت کرنے سے اعمال صالحہ میں روز بروز جو اضافہ ہوتا ہے اور مخالفت کرنے کی صورت میں جو گناہ کا صدور ہوتا ہے اس کو ایمان میں کمی زیادتی کہا گیا ہے۔ اور یہ صورت حال حضرات صحابہ رضی اللہ عنہم کے ایمان میں بھی پائی جاتی ہے۔ اہل علم نے اس کے علاوہ بھی دوسرے معانی بیان کئے ہیں۔

 وذہب جمہور المحققین إلی أن الإیمان ہو التصدیق بالقلب، وإنما الإقرار شرط لإجراء الأحکام في الدنیا لما أن تصدیق القلب أمر باطني لا بد لہ من علامۃ، فمن صدق بقلبہ ولم یقر بلسانہ فہو مؤمن عند اللّٰہ تعالیٰ وإن لم یکن مؤمنا في أحکام الدنیا۔ (أبو حنیفہ -رحمہ اللّٰہ- شرح الفقہ الأکبر، ”بحث في أن الإیمان ہو التصدیق والإقرار“: ص: ۳۴۱)

(أَلَّذِیْنَ قَالَ لَھُمُ النَّاسُ إِنَّ النَّاسَ قَدْ جَمَعُوْا لَکُمْ فَاخْشَوْھُمْ فَزَادَھُمْ إِیْمَانًاصلے ق وَّقَالُوْا حَسْبُنَا اللّٰہُ وَنِعْمَ الْوَکِیْلُ ہ۳۷۱) (سورۃ آل عمران، آیۃ: ۳۷۱)

قالوا: ولا تظہر المغایرۃ بین قول أصحاب الحدیث وبین سائر أہل السنۃ، لأن امتثال الأوامر واجتناب الزواجر من کمال الإیمان إتفاقاً لا من ماہیتہ فالنزاع لفظي لا علی حقیقۃ، وکذلک اختلافہم في نقصان الإیمان وزیادتہ۔ (ملا علي قاري، مرقاۃ المفاتیح، ”کتاب الإیمان: الفصل الأول“: ج ۱، ص: ۶۰۱)

وقوف عرفات کاوقت

 وقوفِ عرفہ کا وقت ٩ذوالحج کو زوال آفتاب سے  غروبِ آفتاب تک کا ہے،اس دوران حاجی کے لیے  عرفات کی  حدود کے  اندر رہناواجب ہے ،اگر کوئی حاجی غروبِ آفتاب سے پہلےعرفات کے حدود سے نکل جائے تو ترکِ واجب کی وجہ سے اس پردم واجب ہو گا،ہاں اگر دوبارہ واپس  آکر غروبِ آفتاب تک رہے گاتودم ساقط ہوجائے گا۔

بدائع الصنائع میں ہے:

"وأما القدر الواجب من الوقوف: فمن حين تزول الشمس إلى أن تغرب فهذا القدر من الوقوف واجب عندنا...وإن جاوزها قبل الغروب فعليه دم عندنا لتركه الواجب فيجب عليه الدم كما لو ترك غيره من الواجبات."

(كتاب الحج،فصل طواف الزيارة،ج،2، ص 127، ط:دارالکتب العلمیة)

یزید بن معاویہ کے بارے میں علماء دیوبند کاموقف

 مولانا رشید احمد گنگوہی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: '' یزید مومن تھا، بسبب قتل کے فاسق ہوا ، کفر کا حال  معلوم نہیں، کافر کہنا جائز نہیں کہ وہ عقیدہ قلب پر موقوف ہے''۔ (رشیدیہ، ص: 38)

ایک اور جگہ لکھتے ہیں: '' ہم مقلدین کو احتیاط سکوت میں ہے، کیوں کہ اگر لعنت جائز ہے تو نہ کرنے میں حرج نہیں ؛ اس لیے کہ لعنت نہ فرض ہے نہ واجب نہ سنت نہ مستحب ،محض مباح ہے''۔ (ص: 39)
یزید کے متعلق اہل سنت کا موقف یہ ہے کہ حضرت حسین رضی اللہ عنہ حق پر تھے، یزید حق پر نہ تھا،ان امور میں تعمق  (گہرائی میں جانے ) سے بچنا بہتر ہے؛  اس لیے کہ  قرآن کریم کا ارشاد ہے :﴿ تِلْکَ اُمَّةٌ قَدْ خَلَتْ لَهَا مَا کَسَبَتْ وَ لَکُمْ مَّا کَسَبْتُمْ وَلاَ تُسْئَلُوْنَ عَمَّا کَانُوا یَعْمَلُوْنَ﴾ [البقرة: 141]

ترجمہ: یہ جماعت گزرچکی، ان کے لیے وہ جو انہوں نے کیا، اور تمہارے لیے وہ جو تم نے کیا، اور تم سے نہیں پوچھا جائے اس کے بارے میں جو وہ عمل کرتے تھے۔

اور آں حضرت ﷺ کا ارشاد ہے :  « من حسن إسلام المرء ترکه ما لا یعنیه».

ترجمہ: آدمی کے اسلام کی خوبی میں سے ہے کہ وہ لایعنی (فضول) کو چھوڑ دے۔ مزید تفصیل کے لیے حکیم الاسلام قاری محمد طیب رحمہ اللہ کی کتاب''شہیدکربلااور یزید'' نیز مفتی محمد شفیع صاحب رحمہ اللہ کی کتاب ''شہیدِ کربلا'' کا مطالعہ فرمائیں

داڑھی کی توھین کرنا

 داڑھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور تمام انبیاء کرام علیہم السلام کی سنت اور شعائرِ اسلام میں سے ہے، اس کی گستاخی کرنا اور مذاق اڑانا  دراصل سنت اور شعائرِ اسلام کامذاق اڑانا ہے جو کفر تک پہنچادینے والا عمل ہے، اور پھر اگر رسول اللہ صلی اللی علیہ وسلم کی ریش مبارک کا مذاق اڑائے تو یہ مزید بد بختی اور شقاوت کی علامت ہے ؛ اس لیے ایساکرنے والے کو سچی توبہ اور نکاح کی تجدید کا حکم دیا جائے گا۔ (مستفاد: فتاویٰ محمودیہ  )

نوٹ :  داڑھی کی توہین کے حوالے سے یہ عمومی مسئلہ بیان کیا گیاہے، اس کی بنیاد پر کسی خاص فرد کو نشانہ نہ بنایا جائے جب تک کسی مستند دارالافتاء سے اس کے بارے میں معلومات حاصل نہ کرلیں

نعت کو گانے کے اندازپرپڑھنااورسننا

 گانے کے طرز پر نعت پڑھنا اور سننا منع ہے، اس سے یہ مراد  نہیں کہ عربی اوزان اور عربی بحور پر اشعار یا نعت پڑھنا منع ہے، بلکہ مطلب یہ ہے  کہ جان بوجھ کر اپنے ارادہ و اختیار سے کسی معروف گانے کے ہم وزن قافیہ، حمدیہ و نعتیہ اشعار بناکر گانے کی طرز پر پڑھنا جس سے عام لوگوں کا ذہن اس گانے کی طرف جائے، یا لہجے میں فنِّ موسیقی کے قواعد کی رعایت رکھتے ہوئے اتار چڑھاؤ کے ساتھ اشعار پڑھنا حمد و نعت کی بے ادبی اورا س کی شان کے خلاف ہے، اور چوں کہ ایساکرنے میں فاسق لوگوں کے ساتھ مشابہت بھی ہے، اس لیے ایسا کرنا اوربھی زیادہ قبیح ہے، البتہ اگر غیر اختیاری طور پر آواز کو خوبصورت بناتے ہوئے کسی گانے کی طرز بن جائے یا اس کے مشابہ ہوجائے تو یہ فی نفسہ جائز ہے، لیکن مشابہت سے بچنا بھی بہتر ہے، معجم اوسط طبرانی کی ایک حدیث (نمبر ۷۲۲۳) میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن کریم کو گانے کی دھن پر پڑھنے سے منع فرمایا اور ایسا کرنے والوں کی مذمت فرمائی ہے، اس حدیث سے یہ راہ نمائی ملتی ہے کہ نعت کو (جوکہ ایک عبادت ہے) گانے کے انداز پر نہیں پڑھنا چاہیے۔

البتہ حمد و نعت کے اشعار پڑھنے میں  خوش آوازی اور اچھی آواز پیدا کرنے کے لیے آواز میں مناسب اتار چڑھاؤ، ترنم، آواز کو باریک کرنا اور لہرانا وغیرہ امور شرعاً مباح ہیں، ان میں کچھ حرج نہیں، صحابہ کرام نے جو عربی اشعار پڑھے ہیں وہ گانے کے طرز پر نہیں پڑھے، ان حضرات سے اس چیز کا  گمان بھی نہیں ہوسکتا، وہ حضرات اپنے طبعی اور فطری انداز اور طرز پر اشعار پڑھاکرتے تھے، گو ترنم سے پڑھنا بھی ان حضرات سے ثابت ہے، لیکن ان کے اشعار میں نہ کوئی موسیقی ہوتی تھی اور نہ کوئی ساز وغیرہ، اب وہ اشعار عربی بحور پر ہوں اس میں کوئی  حرج  نہیں ہے۔

تفسیر قرطبی میں ہے:

"فأما ما ابتدعه الصوفية اليوم في الإدمان على سماع الأغاني بالآلات المطربة من الشبابات و الطار و المعازف و الأوتار فحرام".

(تفسیر القرطبی، ج:14، ص:40، س:لقمان، ط:دار احیاء التراث العربی بیروت)

البحرالرائق میں ہے:

"في المعراج: الملاهي نوعان: محرم وهو الآلات المطربة من غير الغناء كالمزمار سواء كان من عود أو قصب كالشبابة أو غيره كالعود والطنبور لما روى أبو أمامة أنه عليه الصلاة والسلام قال «إن الله بعثني رحمة للعالمين وأمرني بمحق المعازف والمزامير» ولأنه مطرب مصد عن ذكر الله تعالى".

(البحر الرائق شرح كنز الدقائق  (7/ 88)

Tuesday 11 June 2024

بہوپرساس کی خدمت لازم ہے کہ نہیں

  میاں بیوی کا باہمی اور اسی طرح سسرالی رشتہ حسنِ اخلاق، حسنِ معاشرت  اور ہم دردی و  ایثار  کے جذبہ سے ہی چل سکتا ہے، شریعتِ مطہرہ نے میاں بیوی کے حقوق میں توازن رکھا ہے  اور حسنِ معاشرت کا حکم دے کر  یہ واضح کیا ہے کہ میاں بیوی کا رشتہ باہم اخلاقیات اور ایثار اور ہم دردی سے چلتا ہے،  کچھ چیزیں  بیوی کے ذمہ لازم نہیں کیں، اور کچھ شوہرکے ذمہ لازم نہیں کیں، لیکن حسنِ معاشرت کے باب میں دیانۃً اور اخلاقاً یہ چیزیں  دونوں کی ایک  دوسرے پر لازم ہیں۔

لہذا عورت کے ذمہ ساس کی خدمت  اگرچہ شرعاً واجب نہیں ہے، لیکن اَخلاقی طورپر عورت کو اِس بات کا خیال رکھنا چاہیے کہ وہ اُس کے شوہر کی ماں ہے، جس طرح اَپنی ماں کی راحت کا خیال رکھتی ہے اِسی طرح شوہر کی ماں کی خدمت اور اُن کو راحت پہنچانا اُس کی اخلاقی ذمہ داری میں شامل ہے۔

لیکن اس میں یہ پہلو بھی پیشِ نظر ہونا چاہیے کہ شوہر اپنی بیوی کو اپنے والدین کی خدمت پر یا ساس کا اپنی بہو کو خدمت پر مجبور کرنا اور اس پر اس ظلم جبر کرنا درست نہیں ہے،(بلکہ خود شوہر پر اپنے والدین کی خدمت کرنا ضروری ہے)  یعنی دونوں طرف اعتدال کی ضرورت ہے، ساس کو چاہیے کہ وہ اپنی بہو کو بیٹی کی طرح سمجھے، اور اس کے دکھ درد میں شریک ہو، اور بہو کو چاہیے کہ وہ ساس کو اپنی ماں کی طرح سمجھے اور اس کی خدمت کو اپنے لیے سعادت سمجھے، اس سے گھریلو زندگی میں خوش گوار ماحول پیدا ہوگا، اور میاں بیوی کا ازدواجی رشتہ پائے دار اور مستحکم ہوگا۔

حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ  ’’بہشتی زیور‘‘ میں خواتین کو خطاب کرکے تحریر فرماتے ہیں:

’’جب تک ساس خسر زندہ رہیں ان کی خدمت کو، ان کی تابع داری کو فرض جانو، اور اسی میں اپنی عزت سمجھو، اور ساس نندوں سے الگ ہوکر رہنے کی ہرگز فکر نہ کرو، ساس نندوں سے بگاڑ ہوجانے کی یہی جڑ ہے، خود سوچو کہ ماں باپ نے اسے پالا پوسا اور بڑھاپے میں اس آسرے پر اس کی شادی بیاہ کیا کہ ہم کو آرام ملے اور جب بہو آئی، ڈولے سے اترتے ہی یہ فکر کرنے لگی کہ میاں آج ہی ماں باپ کو چھوڑدیں ۔۔۔ جو کام ساس نندیں کرتی ہیں تو اس کے کرنے سے عار نہ کرو، تم خود بے کہے ان سے لے لو اور کردو، اس سے ان کے دلوں میں تمہاری محبت پیدا ہوجائے گی‘‘۔ (بہشتی زیور، حصہ چہارم، نکاح کا بیان، [باب: 31] (ص:47، 48) ط: تاج کمپنی کراچی)

فقط 

تحلیل کے لیے نکاح

 اگر کوئی شخص اپنی بیوی کو تین طلاقیں دے دے اور پھر اس سے دوبارہ نکاح کرنے کے لیے اس کا نکاح  کسی دوسرے شخص سے اس شرط پر کرائے کہ وہ نکاح کے بعد اسے طلاق دے گا، ایسا کرنا مکروہ تحریمی (ناجائز) ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے ایسا کرنے والے اور جو شخص ایسا کروا رہا ہے دونوں پر لعنت فرمائی ہے۔

البتہ اگر کوئی شخص اپنی بیوی کو تین طلاقیں دے اور وہ کسی دوسری جگہ طلاق دینے کی شرط کے بغیر نکاح کرے ، نکاح کے بعد دوسرا شوہر حقوقِ زوجیت ادا کرے اور اس کے بعد اس کے شوہر کا انتقال ہوجائے یا وہ اسے اتفاقی طور پر طلاق دےدے تو وہ بیوی پہلے شوہر کے لیے حلال ہوگی۔

مسند أحمد  (8/ 266)
' عن أبي هريرة قال: لعن رسول الله صلى الله عليه وسلم المحل والمحلل له'.
' ( وكره ) التزوج للثاني ( تحريماً )؛ لحديث: لعن المحلل والمحلل له، ( بشرط التحليل )، كتزوجتك على أن أحللك، ( وإن حلت للأول )؛ لصحة النكاح وبطلان الشرط، فلا يجبر على الطلاق'۔ (شامی، كتاب الطلاق، باب الرجعة ۳/ ۴۱۵ ط:سعيد)

خداکو ظالم کہنا

 واضح   رہے  کہ قرآن ِ مجید میں اللہ  تعالی نے اپنی  ذات سے صراحتًا  ظلم کی نفی کی ہے، جیسے کہ  سورۂ  نساء میں  ہے: 

"بلاشبہ اللہ تعالیٰ ایک ذرہ برابر بھی ظلم نہ کریں گے۔"

(سورۃ النساء، رقم الآیۃ:40، ترجمہ:بیان القرآن)

اور جس صفت کی اللہ تعالیٰ نے اپنے ذات سے نفی کی ہے، اس کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف کرنا کفر ہے۔

بصورتِ  مسئولہ جو شخص اپنے ہوش وحواس میں اللہ تعالیٰ کی طرف صفتِ ظلم کی نسبت کرتے ہوئے "ظلم خدا کا" کہے تو وہ شخص  دائرۂ  اسلام سے خارج ہوجاتا ہے، اس  پر  لازم ہے کہ وہ تجدیدِ ایمان کرے اور صدقِ دل سے توبہ واستغفار کرے، اور اگر شادی شدہ ہے تو تجدیدِ نکاح بھی لازم  ہے۔

الموسوعۃ الفقہیہ میں ہے:

"نِسْبَةُ الظُّلْمِ إِلَى اللَّهِ سُبْحَانَهُ وَأَثَرُهَا فِي الرِّدَّةِ : اتَّفَقَ الْفُقَهَاءُ عَلَى أَنَّ نِسْبَةَ الظُّلْمِ إِلَى اللَّهِ سُبْحَانَهُ وَتَعَالَى مِنْ مُوجِبَاتِ الْحُكْمِ بِالرِّدَّةِ فَلَوْ قَال شَخْصٌ لِغَيْرِهِ : لاَ تَتْرُكِ الصَّلاَةَ فَإِنّ اللَّهَ تَعَالَى يُؤَاخِذُكَ فَقَال : لَوْ آخَذَنِي اللَّهُ بِهَا مَعَ مَا بِي مِنَ الْمَرَضِ وَالشِّدَّةِ ظَلَمَنِي ، فَإِنَّهُ يَكُونُ مُرْتَدًّا ."

(المادة:ظلم، ج:29، ص:175، ط:اميرحمزه كتب خانه)

الفتاوى الهندية میں ہے:

"قال أبو حفص (رحمه الله تعالى): من نسب الله تعالى إلى الجور فقد كفر، كذا في الفصول العمادية".

(مطلب في موجبات الكفر أنواع منها ما يتعلق بالإيمان والإسلام، ج:2، ص:259، ط:مكتبه رشيديه)

تکفیر مسلم

 کسی بھی مسلمان پربغیرکسی شرعی دلیل کے کافرہونے کاحکم لگانا،اس کوکھیل بنالیناسخت گناہ اورحرام ہے،ایمان کے لئے بھی خطرناک ہے،اس سے آدمی کااپنادین وایمان سلامت نہیں رہتا،لہذا دوسرے مسلمانوں پرکفرکاحکم لگانے والے شخص کواپنے دین وایمان کی فکرکرنی چاہیئے،اپنی حرکات سے بازآکرتوبہ تائب ہوناچاہیے،ایسے شخص کوحکمت وتدبیرکے ساتھ سمجھایاجائے ،اگر اپنی ان حرکات سے بازنہ آئے تواس سے قطع تعلق کرنادرست ہے۔

مشکوۃ شریف میں ہے:

" حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس شخص نے اپنے مسلمان بھائی کو کافر کہا تو ان دونوں میں سے ایک پر کفر لوٹ گیا یعنی یا تو کہنے والا خود کافر ہوگیا یا وہ شخص جس کو اس نے کافر کہا ہے۔ (بخاری ومسلم)

دوسری روایت میں ہے:

''حضرت ابوذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ جس شخص نے جانتے بوجھتے کسی دوسرے کو باپ بنایا تو یہ بھی کفر کی بات ہے اور جس شخص نے ایسی بات کو اپنی طرف منسوب کیا جو اس میں نہیں ہے تو ایسا شخص ہم میں سے نہیں ہے اور اس کو اپنا ٹھکانہ جہنم میں بنانا چاہئے اور جس نے کسی کو کافر کہا یا اللہ کا دشمن کہہ کر پکارا حالانکہ وہ ایسا نہیں ہے تو یہ کلمہ اسی پر لوٹ آئے گا''۔

(صحیح مسلم:جلد اول:حدیث نمبر 219 )

جے شری رام یاوندے ماترم کہنا

 جس شخص نے جان بوجھ کر کوئی ایسا کلمہ زبان سے کہہ دیا جس سے کفر لازم آتا ہےتو اس پر تجدید ایمان بھی لازم ہے ۔  اگرغلطی سے کوئی کفریہ کلمہ زبان سے نکل جائے (مثلاً کہنا کچھ اور چاہ رہاہو اور زبان سے کفریہ جملہ نکل جائے) تو اس کی وجہ سے آدمی کافر نہیں ہوتا،لہذا اس صورت میں ایمان اور نکاح کی تجدید لازم نہیں ہوگی۔ البتہ احتیاطاً استغفار کرلینا چاہیے۔

صورت مسئولہ میں مذکورہ نعرہ  اگر جان بوجھ کر لگایا گیا تھا  تو یہ کلمہ کفر ہے  مذکورہ شخص  پر  تجدیدِ ایمان اور تجدیدِ نکاح ضروری ہے۔

 فتاویٰ شامی میں ہے:

"ومن تکلم بها مخطئًا أو مکرهًا لایکفر عند الکل".

(باب المرتد جلد 4 ص: 224 ط: سعید)

و فیہ ایضاً: 

"(وشرائط صحتها العقل) والصحو (والطوع) فلا تصح ردة مجنون، ومعتوه وموسوس، وصبي لايعقل وسكران ومكره عليها، وأما البلوغ والذكورة فليسا بشرط بدائع".

قال ابن عابدین رحمه الله:

قال في البحر والحاصل: أن من تكلم بكلمة للكفر هازلاً أو لاعبًا كفر عند الكل ولا اعتبار باعتقاده، كما صرح به في الخانية. ومن تكلم بها مخطئًا أو مكرهًا لايكفر عند الكل، ومن تكلم بها  عامدًا عالمًا كفر عند الكل، ومن تكلم بها اختيارًا جاهلاً بأنها كفر ففيه اختلاف. اهـ".

(باب المرتد جلد 4 ص: 224 ط: سعید)

فتاوی محمودیہ میں ہے:

"سوال:کسی ہندوکو"رام رام"کرنےیا لینے سے کفر عائد ہوجاتا ہے؟یا"جے رام"کرنے سے؟

"جواب:اسلامی شعائر"السلام علیکم "ہے،غیر اسلامی شعائر کو اختیار کرنا جائز نہیں ہے،پھر اگر وہ غیر کا شعار ہوتو اس کو اختیار کرنا معصیت ہے،اگر مذہبی شعار ہو تو کفر تک پہنچ جانے کا خطرہ ہے۔"

(ج:19،ص:96،ط:زیر نگرانی دار الافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی)

انبیاء اور صحابہ کی توھین کرنا

 حضرات انبیاء کرام علیہم الصلوات والتسلیمات میں سے کسی  کی شان میں گستاخی کرنا،سب وشتم کرنا  موجبِ کفر  ہے؛کیوں کہ انبیاء علیہم السلام کی نبوت نصوص قطعیہ سے ثابت ہے،اسی طرح  حضراتِ صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین  کی پوری جماعت  (مجموع من حیث  المجموع )  کی صحابیت کا انکارکرنا،یاحضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کی صحابیت کا انکاکرنایا حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی براءت کا انکارکرنا بھی کفر ہے ؛کیوں کہ جماعتِ  صحابہ کرام رضوان  اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین اور حضرت ابوبکر  رضی اللہ عنہ   کی صحابیت  ، اسی  طرح  حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی براءت   نصِ قطعی سے ثابت ہے، جب کہ دیگر صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین   کی صحابیت چوں کہ  اخبار آحاد سے ثابت ہے اس وجہ سے   ان میں سے کسی ایک  کے حق میں گستاخی  کفر نہیں، تاہم انتہائی سنگین گناہ   اور فسق فجور کا ارتکاب ہے،لیکن اگر کوئی شخص   صحابہ کرام رضی  اللہ عنہم  کی شان میں گستاخی  کو حلال یا کارثواب سمجھتاہو یا صحا بہ کرام  رضی اللہ عنہم کے کفر کا اعتقاد رکھتاہو تو ایسا  شخص بالاجماع کافرہے، لہٰذا صورتِ مسئولہ میں سائل کا یہ کہنا کہ   " گستاخ رسولﷺ کافر اور واجب القتل ہے،اور گستاخ صحابی صرف فاسق فاجر اور گمراہ ہے " درست نہیں بلکہ اس میں  تفصیل ہے جو اوپر کے سطور میں لکھ دی گئی ہے۔

ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

"فَإِنْ آمَنُوا بِمِثْلِ مَا آمَنْتُمْ بِهِ فَقَدِ اهْتَدَوْا." (البقرة: 137)

ترجمہ:" سواگر وہ  بھی اسی طریق سے ایمان لے آئیں  جس طریق سے تم (اہلِ اسلام) ایمان لائے ہو تب تو وہ بھی راہِ حق پر لگ جائیں گے۔"(از بیان القرآن)

جامع الاحادیث میں ہے:

(ج:20، ص:368، رقم الحدیث :2363، ط:حسن عباس زک"‌من ‌سب ‌نبيا فاقتلوه ومن سب أصحابى فاضربوه."ی)

تنبیہ الولاۃ والحکام میں ہے:

"والحاصل أن الحكم بالكفر علي ساب الشيخين أو غيرهما من الصحابة مطلقا قول ضعيف لا ينبغي الإفتاء به ولا التعويل عليه لما علمته من النقول المعتبرة."

( الحكم بالكفر علي ساب الشيخين أو غيرهما من الصحابة مطلقا قول ضعيف، ص:195، ط:مركز البحوث الإسلامية، )

وفیہ ایضاً:

"هذا وقد رأيت في هذه المسئلة رسالة لخاتمة العلماء الراسخين شيخ القراء والفقهاء والمحدثين سيدي منلا علي القارى رحمه الله تعالي مال فيها إلي ما ذكرته فلا بأس بتلخيص حاصلها،وذلك حيث قال : ....

وأما من سب أحدا من الصحابة فهو فاسق ومبتدع بالإجماع إلا إذا اعتقد أنه مباح أو يترتب عليه ثواب كما عليه بعض الشيعة او اعتقد كفر الصحابة فإنه كافر بالإجماع، فإذا سب أحد منهم فينظر فإن كان معه قرائن حالية علي ما تقدم من الكفريات فكافر وإلا ففاسق..."

(شهادة أهل الأهواء، ص:200،، ط:مركز البحوث الإسلامية، مردان)