https://follow.it/amir-samdani?action=followPub

Sunday 16 June 2024

بڑے جانور میں قربانی اور عقیقہ کے حصے لینا

  بڑے جانور جیسےگائے اور بھینس وغیرہ میں  سات آدمی شریک ہوسکتے ہیں اس سے زیادہ نہیں البتہ یہ جائز ہے کہ بڑے جانور  کے سات  حصوں میں سے بعض حصوں میں قربانی کی نیت کرے اور بعض میں عقیقہ کی نیت کرے ۔

           لہذا اگر ایک آدمی نے بڑے جانور میں تین حصے لیے ہوں  تو اگر  ان میں سے ایک حصے میں بچے کے عقیقے  کی نیت کرے اورباقی میں قربانی کی نیت کرے تو یہ جائز ہے  اور اس سے قربانی پر کچھ اثر نہیں پڑتا۔

وشمل ما لو كانت القربة واجبة على الكل أو البعض اتفقت جهاتها أو لا: كأضحية وإحصار وجزاء صيد وحلق ومتعة وقران خلافا لزفر، لأن المقصود من الكل القربة، وكذا لو أراد بعضهم العقيقة عن ولد قد ولد له من قبل لأن ذلك جهة التقرب بالشكر على نعمة الولد ذكره محمد.(رد المحتار على الدر المختار،كتاب الاضحية،ج:6،ص:326)

نماز فجریاعصر کے بعد مصافحہ کرنا

  مصافحہ ملاقات کے وقت مسنون ہے، جیسا کہ سنن الترمذي (5 / 74)میں ہے:

"عن البراء بن عازب قال: قال رسول الله صلى الله عليه و سلم: ما من مسلمين يلتقيان فيتصافحان إلا غفر لهما قبل أن يفترقا. قال أبو عيسى: هذا حديث حسن غريب من حديث أبي إسحاق عن البراء".

(ترجمہ) جب دو مسلمان مل کر باہم مصافحہ کریں تو ان کے جدا ہونے سے قبل ہی ان کی مغفرت ہوجاتی ہے۔

لہذا اس کے علاوہ اوقات میں مصافحہ کرنا مثلاً نمازوں کے بعد، سنت کے خلاف عمل ہے اور اگر اس کا التزام کیا جائے اور مصافحہ نہ کرنے والے کو ملامت کا نشانہ بنایا جائے یا اس کے بغیر نماز نامکمل سمجھی جائے تو  یہ مصافحہ بدعت ہے، جیساکہ حاشية رد المحتار على الدر المختار  (6 / 381):
"ونقل في تبيين المحارم عن الملتقط: أنه تكره المصافحة بعد أداء الصلاة بكل حال؛ لأن الصحابة رضي الله تعالى عنهم ما صافحوا بعد أداء الصلاة؛ ولأنها من سنن الروافض اهـ ثم نقل عن ابن حجر عن الشافعية أنها بدعة مكروهة لا أصل لها في الشرع، وأنه ينبه فاعلها أولًا ويعزر ثانيًا، ثم قال: وقال ابن الحاج من المالكية في المدخل: إنها من البدع، وموضع المصافحة في الشرع إنما هو عند لقاء المسلم لأخيه لا في أدبار الصلوات، فحيث وضعها الشرع يضعها، فينهي عن ذلك ويزجر فاعله لما أتى به من خلاف السنة اهـ ثم أطال في ذلك فراجعه".

نیز فتاوی رحٰیمیہ(۲ /۲۲۸،کتاب السنۃ والبدعۃ) میں ’’مصافحہ بعد نماز‘‘  کا جواب لکھتے ہوئے آخر میں لکھا ہے:

بہرحال نمازفجریاعصر کے بعد مصافحہ التزام کرنا اور مصافحہ نہ کرنے والے کو براسمجھنا بدعت ہے بغیر کسی التزام کے مصافحہ کرنادرست ہےاسے لازمی نہ سمجھا جایے 

مفتی عبدالرحیم لاجپوری لکھتے ہیں:

’’ لوگوں کے حالات بہت نازک ہوچکے ہیں، مزاج بگڑچکے ہیں، بات بات پر لڑائیاں ہوتی ہیں، بدگمانیاں پھیلتی ہیں، لہذا رفعِ فتنہ کے طور علماء نے یہ بھی فرمایا ہے کہ اگر کوئی مصافحہ کے  لیے ہاتھ بڑھائے تو اپنا ہاتھ کھینچ کر ایسی صورت پیدا نہ کرنا چاہیے کہ اسے بدگمانی ، شکایت اور رنج ہو‘‘۔

اللہ کو گالی دینے والے شخص کاحکم

 جو شخص (العیاذ باللہ) اللہ تعالی کو گالی دے  تووہ دائرہ اسلام سے خارج ہوجاتا ہے ،اس  پر لازم ہے کہ وہ تجدیدِ ایمان کرے اور صدق دل سے توبہ واستغفار کرے، اور اگر شادی شدہ ہے تو تجدیدِ نکاح بھی لازم  ہے۔

الفتاوى الهندية (2/ 258):
"(ومنها: ما يتعلق بذات الله تعالى وصفاته وغير ذلك) يكفر إذا وصف الله تعالى بما لايليق به، أو سخر باسم من أسمائه، أو بأمر من أوامره، أو نكر وعده ووعيده، أو جعل له شريكاً، أو ولداً، أو زوجةً، أو نسبه إلى الجهل، أو العجز، أو النقص ويكفر بقوله: يجوز أن يفعل الله تعالى فعلاً لا حكمة فيه، ويكفر إن اعتقد أن الله تعالى يرضى بالكفر، كذا في البحر الرائق".

تقدیر بدل سکتی ہے کہ نہیں

 واضح رہے کہ  تقدیر کی  دو قسمیں ہیں : تقدیر مبرم،  تقدیر معلق۔

پہلی قسم "تقدیر مبرم"  ہے۔ یہ آخری فیصلہ ہوتا ہے جس کو اللہ تعالیٰ کے حکم سے لوحِ محفوظ پر لکھ دیا جاتا ہے، اور اس میں تبدیلی نا ممکن ہے۔

دوسری  قسم "قضائے معلق"  کی ہے ، اللہ تعالیٰ کی طرف سے  یہ وعدہ ہے کہ اگر کوئی بندہ چاہے تو ہم اس کےنیک عمل  اور دعا کے ساتھ ہی اس کی تقدیر بھی بدل دیں گے۔ سورۃ الرعد میں ارشاد فرمایا :

"{يَمْحُو اللّهُ مَا يَشَاءُ وَيُثْبِتُ وَعِندَهُ أُمُّ الْكِتَابِ}" [الرعد: 13، 39]

ترجمہ: ’’اللہ جس (لکھے ہوئے) کو چاہتا ہے مٹا دیتا ہے اور (جسے چاہتا ہے) ثبت فرما دیتا ہے اور اسی کے پاس اصل کتاب (لوح محفوظ) ہے۔‘‘

حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانے میں شام میں طاعون کی وبا پھیلی اور اس زمانے میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ بھی شام کے سفر پر تھے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ وبا زدہ علاقوں کی طرف نہیں بڑھے، بلکہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم سے مشورہ کرنے اور اس بارے میں احادیثِ مبارکہ کا مذاکرہ کرنے کے بعد جلدی واپسی کا فیصلہ فرمایا، تو حضرت ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا : "أتَفِرُّ مِنْ قَدْرِ ﷲِ" ، یعنی: ’’کیا آپ تقدیر سے بھاگتے ہیں؟‘‘ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس  کے جواب میں ارشاد فرمایا:"أفِرُّ مِنْ قَضَاء ﷲ اِلٰی قَدْرِ ﷲِ". (ابن سعد، الطبقات الکبريٰ، 3 : 283)  یعنی ’’میں  اللہ کی قضا سے اس کی قدر کی طرف بھاگتا ہوں‘‘،  بعض روایات میں یہ الفاظ ہیں : "نفر من قدر الله إلی قدر الله". 

اسی کی نسبت احادیث میں ارشاد ہوتا ہے :

«لايرد القضاء إلا الدعاء، و لا يزيد في العمر إلا البر».

ترجمہ: ’’صرف دعا ہی قضا کو ٹالتی ہے اور صرف نیکی ہی عمر میں اضافہ کرتی ہے۔‘‘

(جامع الترمذي، الجامع الصحيح، کتاب القدر، باب ماجاء لا يرد القدر إلا الدعاء، رقم : 2139)

اس حدیث کی تشریح میں شارحین نے لکھا ہے کہ اس حدیث میں وہ عمر مراد ہے جس کا تعلق تقدیرِ  معلق سے  ہے، یعنی مثلًا کسی کی تقدیر معلق میں لکھا ہے کہ اگر اس شخص نے حج یا عمرہ نہیں کیا تو اس کی عمر چالیس سال ہوگی اور اگر حج یا عمرہ کیا تو اس کی عمر ساٹھ  سال ہوگی، اب اگر وہ حج یا عمرہ کرلیتا ہے تو اس کی عمر ساٹھ سال ہوجاتی ہے، گویا نیکی کی وجہ سے اس شخص کی عمر میں اضافہ ہوگیا، جب کہ تقدیر مبرم یہی تھی  یہ شخص یہ والی نیکی کرے گا اور اس کی عمر ساٹھ سال ہوگی۔

دوسرا مطلب یہ بھی بیان کیا گیا ہے کہ اس حدیث میں عمر کے بڑھنے سے عمر میں برکت ہونا اور زیادہ نیک اعمال کرنے کی توفیق ملنا ہے، یعنی اس کی عمر کے اوقات ضائع نہیں ہوتے؛ اس  لیے وہ تھوڑے سے عرصہ میں اتنے سارے کام اور اعمال کرلیتا ہے جو دوسرے لوگ بہت زیادہ وقت میں بھی نہیں کرپاتے ہیں۔(جیسا کہ بہت سارے اولیاء اللہ کی زندگی کے مشاہدہ سے یہ بات ثابت بھی ہوچکی ہے۔)

تکفیر مسلم

 کسی بھی مسلمان پربغیرکسی شرعی دلیل کے کافرہونے کاحکم لگانا،سخت گناہ اورحرام ہے،ایمان کے لئے بھی خطرناک ہے،اس سے آدمی کااپنادین وایمان سلامت نہیں رہتا،لہذا دوسرے مسلمانوں پرکفرکاحکم لگانے والے شخص کواپنے دین وایمان کی فکرکرنی چاہیئے،اپنی حرکات سے بازآکرتوبہ تائب ہوناچاہیے،ایسے شخص کوحکمت وتدبیرکے ساتھ سمجھایاجائے ،اگر اپنی ان حرکات سے بازنہ آئے تواس سے قطع تعلق کرنادرست ہے۔

مشکوۃ شریف میں ہے:

" حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس شخص نے اپنے مسلمان بھائی کو کافر کہا تو ان دونوں میں سے ایک پر کفر لوٹ گیا یعنی یا تو کہنے والا خود کافر ہوگیا یا وہ شخص جس کو اس نے کافر کہا ہے۔ (بخاری ومسلم)

دوسری روایت میں ہے:

''حضرت ابوذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ جس شخص نے جانتے بوجھتے کسی دوسرے کو باپ بنایا تو یہ بھی کفر کی بات ہے اور جس شخص نے ایسی بات کو اپنی طرف منسوب کیا جو اس میں نہیں ہے تو ایسا شخص ہم میں سے نہیں ہے اور اس کو اپنا ٹھکانہ جہنم میں بنانا چاہئے اور جس نے کسی کو کافر کہا یا اللہ کا دشمن کہہ کر پکارا حالانکہ وہ ایسا نہیں ہے تو یہ کلمہ اسی پر لوٹ آئے گا''۔

(صحیح مسلم:جلد اول:حدیث نمبر 219 )

تین یاچارکان والے جانور کی قربانی

 اگر کسی جانور کے پیدائشی تین یا چار کان ہوں تو ایسے جانور کی قربانی درست نہیں ہے، کیونکہ یہ عیب ہے جو کہ قربانی کے جواز سے مانع ہے۔                                            

عیدین کی نماز کا طریقہ

 عید الفطر اور عید الاضحیٰ کی نماز کا طریقہ ایک ہی ہے۔عید کی نماز کے لیے اذان اور اقامت نہیں، جب نماز کھڑی کی جائے تو عید کی نماز  چھ زائد تکبیرات کے ساتھ پڑھنے کی نیت کرے، اس کے بعد تکبیر کہہ کر ہاتھ ناف کے نیچے باندھ لے اور ثناء پڑھے، اس کے بعد تین زائد تکبیریں کہے، دو تکبیروں میں ہاتھ کانوں تک اٹھا کر چھوڑ دے اور تیسری تکبیر پر ہاتھ اٹھا کر ناف کے نیچے باندھ لے، اس کے بعد امام اونچی آواز میں قراءت کرے، قراءت مکمل ہونے کے بعد بقیہ رکعت (رکوع اور سجدہ  وغیرہ) دیگر  نمازوں کی طرح ادا کرے۔

پھر دوسری رکعت کے شروع میں امام اونچی آواز میں قراءت کرے، اس کے بعد تین زائد تکبیریں کہے، تینوں تکبیروں میں ہاتھ کانوں تک اٹھا کر چھوڑ دے، پھر ہاتھ اٹھائے بغیر چوتھی تکبیر کہہ کر رکوع میں جائے اور پھر دیگر نمازوں کی طرح دو سجدوں کے بعد التحیات، درود اور دعا پڑھ کر سلام پھیر دے، پھرنماز مکمل کرنے کے بعد امام  دو  خطبے دے، دونوں خطبوں کے درمیان تھوڑی دیر بیٹھے۔ 

دھرکوبراکہنے سے متعلق حدیث

 حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

"ابن آدم (انسان)   مجھے تکلیف دیتا ہے، (یعنی اس طرح کہ) وہ زمانہ کو برا کہتا ہے حال آں کہ زمانہ (کچھ نہیں وہ) میں ہی ہوں، سب تصریفات میں میرے قبضہ میں ہے، اور شب وروز کی گردش میرے ہی حکم سے ہوتی ہے۔"

مذکورہ حدیث میں "دھر" سے مراد زمانہ اور وقت دونوں ہی ہیں، کیوں کہ زمانہ اور وقت قریباً ایک ہی ہیں، وقت لمحے بھر کو بھی کہا جاتا ہے، جب کہ زمانہ کچھ مدت وقت کے لیے استعمال ہوتاہے، گویا وقت زمانے کا ہی حصہ ہے، جاہلوں کی عادت ہے کہ وہ انسانوں کو اپنی پیدا کی ہوئی پریشانیوں اور مصیبتوں کو برائی کی صورت میں زمانے اور وقت کے سرپر ڈال دیتے ہیں، اور اپنی زبان سے اس طرح کے الفاظ نکالتے ہے کہ زمانہ خراب ہے، بہت برا وقت ہے، حدیث شریف میں زمانہ اور وقت کو برا کہنے کی مذمت کی گئی ہے، کیوں کہ زمانہ کا خالق اللہ تعالیٰ ہے، اور زمانے کو برا کہنے کا مطلب اللہ تعالیٰ کو برا کہنے کے مترادف ہے۔

مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح میں ہے:

"وعن أبي هريرة قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ( «قال الله تعالى: يؤذيني ابن آدم، يسب الدهر وأنا الدهر بيدي الأمر، أقلب الليل والنهار» ) متفق عليه.

ان اللہ علی کل شی قدیر کا ترجمہ

 لغۃً لفظ ِ " شیئ" کا اطلاق ممکن ، واجب اور محال تینوں پر ہوتا ہے، لیکن"شیئ" کے متعلقات بدل جانے سے اس کا مفہوم بدل جاتا ہے،لفظ ِ "شیئ"جب قدرت کا متعلق بنے تو اس سے ممکنات ہی مراد ہوتی ہیں، جیسا کہ روح المعانی میں ہے:

"والشيء لغة ما يصح أن يعلم ويخبر عنه كما نص عليه سيبويه، وهو شامل للمعدوم والموجود الواجب والممكن وتختلف إطلاقاته، ويعلم المراد منه بالقرائن فيطلق تارة، ويراد به جميع أفراده كقوله تعالى: والله بكل شيء عليم [البقرة: 282، النساء: 176، النور: 18، 64، التغابن: 11] بقرينة إحاطة العلم الإلهي بالواجب والممكن المعدوم والموجود والمحال الملحوظ بعنوان ما، ويطلق ويراد به الممكن مطلقا كما في الآية الكريمة بقرينة القدرة التي لا تتعلق إلا بالممكن، وقد يطلق ويراد به الممكن الخارجي الموجود في الذهن كما في قوله تعالى: ولا تقولن لشيء إني فاعل ذلك غدا إلا أن يشاء الله [الكهف: 23، 24] بقرينة كونه متصورا مشيئا فعله غدا، وقد يطلق ويراد به الممكن المعدوم الثابت في نفس الأمر كما في قوله تعالى: إنما قولنا لشيء إذا أردناه أن نقول له كن فيكون [النحل: 40] بقرينة إرادة التكوين التي تختص بالمعدوم، وقد يطلق ويراد به الموجود الخارجي كما في قوله تعالى: وقد خلقتك من قبل ولم تك شيئا [مريم: 9] أي موجودا خارجيا لامتناع أن يراد نفي كونه شيئا بالمعنى اللغوي الأعم الشامل للمعدوم الثابت في نفس الأمر لأن كل مخلوق فهو في الأزل شيء- أي معدوم- ثابت في نفس الأمر".

(سورة البقرة، الآية: 20 ج:1،ص: 180، ط: العلمية)

اس  سے معلوم ہوا کہ  قدرت کا تعلق ممکنات کے ساتھ ہے،واجبات یا محالات کے ساتھ نہیں ، نیزمحالات   کے ساتھ قدرت الہی کے متعلق نہ ہونے سےعجز  لازم نہیں آتا، کیونکہ یہاں پر قصور  شیئ ( محال یا واجب ) میں ہے کہ اس میں مقدور بننے کی صلاحیت ہی نہیں، مقدور بننے کی صلاحیت صرف ممکنات میں ہے،محالات یا واجبات میں نہیں۔

رہی یہ بات کہ  "اِنَّ اللّٰهَ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ قَدِيْرٌ" کا ترجمہ  اس طرح کرنا کہ  "بے شک اللہ ہر ممکن چیز پر قادر ہے" درست نہیں ہے،   ترجمہ کرتے وقت  لفظِ "ممکن " کا اضافہ نہ کیا جائے کہ اس سے  عوام  میں خوامخواہ تشویش ہوگی، اور اشکالات ابھریں گے،اور  اُن کے لیے اس بحث کو سمجھنا مشکل ہو جائے گا؛ کیوں کہ یہ علم الکلام کی بحث ہے،جو اہل علم  تک محدود رہنی چاہیے،عوام کا   اس میں  پڑنا  مضر ہے۔

کیااللہ تعالیٰ اپنا جیسا خدا بنانے پر قادر ہے

 اللہ تعالیٰ تو جو چاہیں،جیسا چاہیں پیدا کرنے پر قادر ہیں،لیکن کسی اور ذات میں معبود اور خدا بننے کی صلاحیت ہی نہیں ہے،کیوں کہ خدا وہ ہوتا ہےجو کسی کا محتاج نہیں ہو،اور جب وہ دوسری ذات اپنی تخلیق میں اللہ تعالیٰ کی محتاج ہوئی تو اس کا خدا بننا کیسے ممکن ہوسکتاہے؟،لیکن چوں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کےحوالے سےاس خاص واقعہ کا پیش آنا معلوم نہ ہوسکاکہ کسی یہودی نے صحابہ سے سوال کیاتھا کہ کیا اللہ تعالی اپنا جیسا خدا بنانے پر قادر ہے توحضرت علی رضی اللہ عنہ نے اس کاجواب دیا کہ اللہ تعالی اس پر قادر ہے

لیکن اللہ پھر بھی خالق رہے گا اور دوسرا خدا مخلوق ہو گا،

 اس لیے اس واقعہ کو حضرت کی طرف منسوب کرکے بیان نہ کیا جائے۔

"متن العقیدۃ الطحاوية"میں ہے:

"ذلك بأنه على كل شيء قدير، وكل شيء إليه فقير، وكل أمر عليه يسير، لا يحتاج إلى شيء، ليس كمثله شيء وهو السميع البصير."

(ص:١٠،ط:دار ابن حزم)

"تفسیر الطبری"میں ہے:

"(يَخْلُقُ اللَّهُ مَا يَشَاءُ) يقول: يحدث الله ما يشاء من الخلق (إِنَّ اللَّهَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ) يقول: إن الله على إحداث ذلك وخلقه، وخلق ما يشاء من الأشياء غيره، ذو قدرة لا يتعذّر عليه شيء أراد."

(ص:٢٠٤،ج:١٩،سورۃ النور،الآیة:٤٥،ط:دار التربية والتراث)

Saturday 15 June 2024

علی مشکل کشا کہنا

 مشکل کشا اصل میں فارسی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی ہیں مشکل مسائل کو حل کرنے والا، یہ لفظ عربی زبان کے لفظ 'حل المعضلات'  کا فارسی میں ترجمہ ہے، حل المعضلات یعنی مشکل مسائل کا حل کرنے والا ، یہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کا لقب تھا؛ کیوں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے سامنے جب بھی کوئی مشکل اور پیچیدہ مقدمہ لایا جاتا تو حضرت علی  رضی اللہ عنہ اس کو نہایت آسانی سے حل فرما دیتے، لہٰذا حضرت علی رضی اللہ عنہ کے لیے یہ لفظ  اسی معنی میں استعمال کرنا صحیح ہے،  البتہ بعد میں اسی لفظ 'مشکل کشا'  کو حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ساتھ عقیدت ومحبت میں غلو کرنے والے لوگوں نے یہ سمجھ لیا یا اپنا عقیدہ بنالیا کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ ہرزمانہ میں مشکل کشائی فرماتے ہیں اور یہاں تک غلو میں بڑھے کہ جس طرح مصائب میں اللہ پاک کو پکارا جاتا ہے اسی طرح حضرت علی رضی اللہ عنہ کو پکارنے لگے اور ظاہر ہے کہ یہ عقیدہ تشبہ بالشرک بلکہ شرک ہی ہے؛ کیوں  کہ مشکل کشا، حاجت روا اور متصرف فی الامور ذات صرف اللہ تعالیٰ کی ہے۔ لہذاکسی غیر خدا (حضرت علی رضی اللہ عنہ) کے متعلق   'مشکل کشا' کا عقیدہ رکھنا  یا اس کو 'مشکل کشا' مانناناجائز اور حرام ہے۔  

قرآنِ مجید میں ہے:

"وَإِن يَمْسَسْكَ اللَّهُ بِضُرٍّ فَلَا كَاشِفَ لَهُ إِلَّا هُوَ ۖ وَإِن يُرِدْكَ بِخَيْرٍ فَلَا رَادَّ لِفَضْلِهِ ۚ يُصِيبُ بِهِ مَن يَشَاءُ مِنْ عِبَادِهِ ۚ وَهُوَ الْغَفُورُ الرَّحِيمُ." (يونس، 107)

ترجمہ: "اور اگر تم کو اللہ تعالی کوئی تکلیف پہنچادے تو بجز اس کے اور کوئی اس کا دور کرنے والا نہیں ہے اور اگر وہ تم کو کوئی راحت پہنچانا چاہے تو اس کے فضل کا کوئی ہٹانے والا نہیں وہ اپنا فضل اپنے بندوں میں سے جس پر  چاہیں مبذول فرمادیں اور وہ بڑی مغفرت بڑی رحمت والے ہیں۔"

تفسیر روح المعانی میں ہے:

"أن الناس قد أكثروا من دعاء غير الله تعالى من الأولياء الأحياء منهم والأموات وغيرهم، مثل يا سيدي فلان أغثني وليس ذلك من التوسل المباح في شيء... وقد عدّه أناس من العلماء شركا."

(‌‌ج: 3، ص: 298،297، ط: ار الكتب العلمية - بيروت)

الإحكام في تمييز الفتاوى" میں ہے:

"قولُه صلى الله عليه وسلم: "أقضاكم عليّ.

وفي حاشيته: هذا ثناء عظيم، وتزكية كريمة من رسول الله صلى الله عليه وسلم، لأفضلية معرفة علي رضي الله عنه بالقضاء وإقامة الحقوق والحدود في دين الله تعالى... وقد اشتهر أبو الحسن علي رضي الله عنه بالقضاء حتى صار يضرب به المثل في حل المعضلات وفك المغلقات، حتى قيل في كل مشكلة يستعصي حلها ويصعب كشف كنهها: "قضية ولا أبا حسن لها". يعنون أن علياً أبا الحسن رضي الله عنه وهو حلال المشكلات - قد يعجز عن حل تلك المشكلة التي عجزوا عنها لتوغلها في الصعوبة والإغلاق. ولهذا كان عمر رضي الله عنه وهو المحدث الملهم - يتعوذ من معضلة ليس لها أبو الحسن، وكان يقول؛ لولا علي لهلك عمر. ويقول: علي أقضانا."

(‌‌السؤال الرابع، ص: 47،46، ط: دار البشائر الإسلامية)




 

اولیاء اللہ سے مدد مانگنا

 اللہ کے علاوہ کسی سے مدد مانگنے کی دو صورتیں ہیں :

[۱]: اس کے بارے میں  یہ عقیدہ رکھنا کہ اس میں ذاتی طور پر قدرت و طاقت ہے کہ وہ جو چاہے کر سکتا ہے، یہ شرک اور کفر ہے، اسی طرح  کسی غیر خدا کے متعلق یہ عقیدہ رکھا جائے کہ اس کو خدا نے تمام اختیار دے دیے  ہیں اور وہ جو چاہے کرسکتا ہے، ہر قسم کی مرادیں ہر جگہ سے اس سے مانگنی چاہییں، یا اللہ تعالیٰ کی صفات میں سے کوئی صفت کسی غیر اللہ میں ماننا یہ بھی شرک ہے جو  ناجائز  اور حرام ہے۔مشکل کشا، حاجت روا اور متصرف فی الامور ذات صرف اللہ تعالیٰ کی ہے۔

[۲]: ظاہری استعانت کرنا، یعنی جو چیز عادتاً انسان کی قدرت میں ہو، اس کے بارے میں مدد مانگنا، مثلاً: روپیہ، پیسہ، کپڑا، وغیرہ دینا۔ یہ چیزیں اگر کسی سے مانگی جائیں تو یہ درست ہے۔ 

إن الناس قد أكثروا من دعاء غیر الله تعالى من الأولیاء: الأحیاء منهم والأموات، وغیرهم مثل: یا سیدي فلان أغثني! ولیس ذلك من التوسل المباح في شيء ․․․ وقد عدّه أناس من العلماء شركًا․

(روح المعاني: ۲/۱۲۸)

غیرمسلم مریض کی عیادت کرنا

 (۲) رواداری سے اظہار کے لیے غیرمسلم مریضوں کی عیادت کرنا، ان کے یہاں کسی کے انتقال پر تعزیت کرنا اسی طرح ان کی غیرمذہبی تقریبات میں شریک ہونے کی گنجائش ہے؛ لیکن خالص مذہبی پروگراموں میں شرکت کرنا بہرحال جائز نہیں ہے، حسن تدبیر سے معذرت کردینی چاہیے۔ دونوں مسئلوں کے لیے دیکھیں: امداد الفتاوی: ۴/ ۲۶۸، سوال: ۳۴۷، ۳۴۸، ۳۴۹)