https://follow.it/amir-samdani?action=followPub

Thursday 11 July 2024

لڈواسٹار گیم کھیلنا

 لڈو اسٹار اور دوسرے مروجہ آن لائن گیمز کے مختلف مراحل کو پاس کرنے کی صورت میں کچھ فرضی کوئن ملتے ہیں اور ان کوئن کے ذریعہ گیم کے اگلے مراحل کو کھیلا جاسکتا ہے، بہت سے لوگ اس طرح کے گیم کھیل کر کوئن جمع کرتے رہتے ہیں اور پھر دیگر لوگوں کو یہ کوئن پیسوں کے بدلے بیچ دیتے ہیں اور کوئن خریدنے والے لوگ پھر ان کوئن سے یہ گیم کھیلتے ہیں اور ختم ہوجانے کی صورت میں مزید کوئن خرید لیتے ہیں، اور یوں یہ خرید وفروخت کا سلسلہ چلتا رہتا ہے۔

یہاں  دو باتیں غور طلب ہیں: ایک یہ کہ اس خرید و فروخت کا شرعاً   کیا حکم ہے؟ اور دوسرا یہ کہ ان کوئن کی خرید و فروخت سے قطع نظر اس طرح کے گیموں کا کھیلنا کیسا ہے؟ اور یہ جوا ہے یا نہیں ؟

جہاں تک کوئن کی خرید و فروخت کا معاملہ ہے تو جاننا چاہیے کہ خرید و فروخت  کے جائز ہونے کی بنیادی شرطوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ  مبیع (جس  چیز کو بیچا جارہا ہے) اور ثمن( جس کے ذریعے  کسی چیز کو خریدا جارہا ہے)   خارج میں مادی شکل میں  موجود ہوں، اور وہ مالِ متقوم ہوں، محض فرضی چیز نہ ہوں، لہذا جس چیز کا خارج میں وجود نہ ہو اور نہ ہی اس کے پیچھے کوئی جامد اثاثے ہوں  تو شرعاً ایسی  چیزوں کی خرید وفروخت جائز نہیں ہے۔

لہذاآن لائن گیم کے کوئن  چوں کہ صرف ایک فرضی چیز ہے، خارج میں اس کا کوئی وجود نہیں ، اس لیے اس میں مبیع بننے کی صلاحیت نہیں،  نیز آن لائن گیم  کے کوئن  کو معتدبہ تعداد تک پہنچا کر فروخت  کرنے کے لیے کافی عرصہ لگتا ہے، اور یہ لہو ولعب میں لگ کر وقت اور مال دونوں کا ضیاع ہے، اور اگر گیم میں جان دار کی تصاویر ہوں تو یہ ایک اور شرعی قباحت ہے، اس لیے آن لائن گیم  کے کوئن کی  خرید وفروخت  شرعاً جائز  نہیں ہے۔

دوسری بات کہ اس طرح کے گیموں کا کھیلنا کیسا ہے؟ اور یہ جوا ہے یا نہیں ؟

  اس طرح کی گیمز میں اگر خارج میں پیسوں کا لین دین نہ ہو  تب بھی اگر اس میں دو یا زیادہ افراد اپنے پاس موجود کوئن لگاکر کھیلیں تو اس میں جوے  کی مشابہت پائی جاتی ہے، اس لیے اس سے اجتناب کرنا ضروری ہے، باقی   کسی بھی قسم کا کھیل جائز ہونے کے لیے مندرجہ ذیل شرائط کا پایا جانا ضروری ہے، ورنہ وہ کھیل لہو ولعب میں داخل ہونے کی وجہ سے شرعاً ناجائز ہوگا:

۔۔  وہ کھیل بذاتِ خود جائز ہو، اس میں کوئی ناجائزبات نہ ہو۔

2۔۔  اس کھیل میں کوئی دینی یا دنیوی منفعت  ہو، مثلاً جسمانی  ورزش وغیرہ ، محض لہو لعب یا وقت گزاری کے لیے نہ کھیلا جائے۔

3۔۔  کھیل میں غیر شرعی امور کا ارتکاب نہ کیا جاتا  ہو، مثلاً جوا وغیرہ۔

4۔۔ کھیل میں اتنا غلو نہ کیا جائے  کہ شرعی فرائض میں کوتاہی یا غفلت پیدا ہو۔

         حاصل یہ ہے کہ اگر آن لائن گیم میں   مذکورہ خرابیاں پائی جائیں  یعنی اس میں غیر شرعی امور کا ارتکاب کیا جاتا ہو، مثلاً جان دار کی تصاویر، موسیقی اور جوا وغیرہ  ہوں، یا مشغول ہوکر  شرعی فرائض اور واجبات میں کوتاہی  اور غفلت برتی جاتی ہو، یا اسے محض  لہو لعب کے لیے کھیلا جاتا ہو (جیساکہ عموماً ہوتاہے) تو اس طرح  کا گیم کا کھیلنا جائز نہیں ہوگا۔اور اگر یہ خرابیاں نہ ہوں (جو عموماً نہیں ہوتا) تو بھی موبائل پر گیم کھیلنے میں نہ جسمانی ورزش ہے، نہ دینی یا بامقصد دنیوی فائدہ ہے، اس لیے بہرصورت اس سے اجتناب کرنا چاہیے۔

تکملة فتح الملهم میں ہے:

’’فالضابط في هذا . . . أن اللهو المجرد الذي لا طائل تحته، وليس له غرض صحيح  مفيد في المعاش ولا المعاد حرام أو مكروه تحريماً، . . . وما كان فيه غرض  ومصلحة دينية أو دنيوية، فإن ورد النهي  عنه من الكتاب أو السنة . . . كان حراماً أو مكروهاً تحريماً، ... وأما مالم يرد فيه النهي عن الشارع وفيه فائدة ومصلحة للناس، فهو بالنظر الفقهي علي نوعين ، الأول ما شهدت التجربة بأن ضرره أعظم من نفعه ومفاسده أغلب علي منافعه، وأنه من اشتغل به الهاه عن ذكر الله  وحده وعن الصلاة والمساجد التحق ذلك بالمنهي عنه لاشتراك العلة فكان حراماً أو مكروهاً، والثاني ماليس كذالك  فهو أيضاً إن اشتغل به بنية التلهي والتلاعب فهو مكروه، وإن اشتغل به لتحصيل تلك المنفعة وبنية استجلاب المصلحة فهو مباح،  بل قد ير تقي إلى درجة الاستحباب أو أعظم منه . . . وعلي هذا الأصل فالألعاب التي يقصد بها رياضة الأبدان أو الأذهان جائزة في نفسها مالم يشتمل علي معصية أخري، وما لم يؤد الانهماك فيها إلى الاخلال بواجب الإنسان في دينه و دنياه‘‘.

 (تکملة فتح الملهم، قبیل کتاب الرؤیا، (4/435) ط:  دارالعلوم کراچی) 

مستورات کا تبلیغی جماعت میں نکلنا

 مستورات کی تبلیغی جماعتیں نکالنا شرعی و فقہی اعتبار سے درست نہیں، رسول اللہ ﷺ یا صحابہ کے دور میں مستورات کا تبلیغ کے لیے نکلنا ثابت نہیں؛ لہذا   مستورات کا تبلیغی جماعت میں جانا جائز نہیں، البتہ عورتوں کی دینی فکر کےلیے عورتیں اگر محلے کے کسی گھر میں جمع ہو جائیں اور کوئی عالم یابزرگ وہاں آکر ان سے ہفتہ واریا ماہ وار اصلاحی وتبلیغی بیان کرلیاکریں تویہ طریقہ سنت کے عین مطابق ہوگا۔

تفسير ابن كثيرمیں ہے:

"وقوله تعالى: وقرن في بيوتكن أي الزمن فلا تخرجن لغير حاجة، ومن الحوائج الشرعية الصلاة في المسجد بشرطه كما قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «لا تمنعوا إماء الله مساجد الله وليخرجن وهن تفلات» وفي رواية «وبيوتهن خير لهن» 

وقال الحافظ أبو بكر البزار: حدثنا حميد بن مسعدة، حدثنا أبو رجاء الكلبي روح بن المسيب ثقة، حدثنا ثابت البناني عن أنس رضي الله عنه قال: جئن النساء إلى رسول الله فقلن:

يا رسول الله ذهب الرجال بالفضل والجهاد في سبيل الله تعالى، فما لنا عمل ندرك به عمل المجاهدين في سبيل الله تعالى، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «من قعدت- أو كلمة نحوها- منكن في بيتها، فإنها تدرك عمل المجاهدين في سبيل الله تعالى» ثم قال: لا نعلم رواه عن ثابت إلا روح بن المسيب، وهو رجل من أهل البصرة مشهور.

وقال البزار أيضا: حدثنا محمد المثنى، حدثني عمرو بن عاصم، حدثنا همام عن قتادة عن مورق عن أبي الأحوص عن عبد الله رضي الله عنه، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: «إن المرأة عورة، فإذا خرجت استشرفها الشيطان وأقرب ما تكون بروحة ربها وهي في قعر بيتها» رواه الترمذي «1» عن بندار عن عمرو بن عاصم به نحوه. وروى البزار بإسناده المتقدم وأبو داود أيضا عن النبي صلى الله عليه وسلم قال «صلاة المرأة في مخدعها أفضل من صلاتها في بيتها، وصلاتها في بيتها أفضل من صلاتها في حجرتها» «2» وهذا إسناد جيد."

(سورۃ الأحزاب،الآیة/33، ج:6، ص:364۔ ط:دار الكتب العلمية)

Wednesday 10 July 2024

ڈریم الیون کا حکم

  کسی بھی قسم کا کھیل جائز ہونے کے لیے مندرجہ ذیل شرائط کا پایا جانا ضروری ہے، ورنہ وہ کھیل لہو ولعب میں داخل ہو نے کی وجہ سے شرعاً ناجائز اور حرام ہوگا:

1۔۔  وہ کھیل بذاتِ خود جائز ہو، اس میں کوئی ناجائزبات نہ ہو۔

2۔۔  اس کھیل میں کوئی دینی یا دنیوی منفعت  ہو مثلاً جسمانی  ورزش وغیرہ ، محض لہو لعب یا وقت گزاری کے لیے نہ کھیلا جائے۔

3۔۔  کھیل میں غیر شرعی امور کا ارتکاب نہ کیا جاتا  ہو، مثلاً جوا وغیرہ۔

4۔۔ کھیل میں اتنا غلو نہ کیا جائے  کہ شرعی فرائض میں کوتاہی یا غفلت پیدا ہو۔

5۔۔وہ کھیل تصاویر اور ویڈیوز سے پاک ہو۔

حاصل یہ ہے کہ اگر کسی  گیم میں مذکورہ خرابیاں پائی جائیں، یعنی اس میں غیر شرعی امور کا ارتکاب کیا جاتا ہو، مثلاً: جان دار کی تصاویر، موسیقی اور جوا وغیرہ  ہوں، یا مشغول ہوکر  شرعی فرائض اور واجبات میں کوتاہی  اور غفلت برتی جاتی ہو، یا اسے محض  لہو لعب کے لیے کھیلا جاتا ہو تو  خود اس طرح  کا  گیم کا کھیلنا  بھی جائز نہیں ہوگا۔ اور اگر یہ خرابیاں نہ ہوں تو بھی موبائل پر گیم کھیلنے میں نہ جسمانی ورزش ہے، نہ دینی یا بامقصد دنیوی فائدہ ہے،  بلکہ وقت اور بعض اوقات پیسے کا ضیاع ہے؛ اس لیے بہرصورت اس سے اجتناب کرنا چاہیے۔

صورتِ مسئولہ میں مذکورہ گیم  کے بارے میں حاصل کردہ معلومات کے مطابق، یہ موبائل وغیرہ میں کھیلا جاتا ہے،  اس میں تصاویر، کارٹون پائے جاتے ہیں، نیز اس کے کھیلنے سے کوئی دینی یا دنیوی منفعت بھی مقصود نہیں، لہذا اس کا کھیلنا جائز نہیں ہے،  بلکہ وقت کا ضیاع ہے، لہٰذا اس سے اجتناب کیا جائے۔

سگریٹ کی خریدوفروخت

 مکروہِ تحریمی ہونے کی وجہ سے اس سے احتراز کرنا لازمی ہے کیونکہ سگریٹ متفقہ طورپر جسم انسانی کے لیے مضرہے، اس کی کمائی بھی جائزنہیں۔

فتاویٰ شامی میں ہے:

"(وصح ‌بيع ‌غير ‌الخمر) مما مر، ومفاده صحة بيع الحشيشة والأفيون ....(قوله وصح ‌بيع ‌غير ‌الخمر) أي عنده خلافا لهما في البيع والضمان، لكن الفتوى على قوله في البيع، وعلى قولهما في الضمان إن قصد المتلف الحسبة وذلك يعرف بالقرائن، وإلا فعلى قوله كما في التتارخانية وغيرها.ثم إن البيع وإن صح لكنه يكره كما في الغاية وكان ينبغي للمصنف ذكر ذلك قبيل الأشربة المباحة، فيقول بعد قوله ولا يكفر مستحلها: وصح بيعها إلخ كما فعله في الهداية وغيرها، لأن الخلاف فيها لا في المباحة أيضا إلا عند محمد فيما يظهر مما يأتي من قوله بحرمة كل الأشربة ونجاستها تأمل. (قوله مما مر) أي من الأشربة السبعة (قوله ومفادة إلخ) أي مفاد التقييد بغير الخمر، ولا شك في ذلك لأنهما دون الخمر وليسا فوق الأشربة المحرمة، فصحة بيعها يفيد صحة بيعهما فافهم."

(كتاب الأشربة، ج:6، ص:454، ط:سعيد)

وفيه أيضاً:

"وفي الأشباه في قاعدة: الأصل الإباحة أو التوقف، ويظهر أثره فيما أشكل حاله كالحيوان المشكل أمره والنبات المجهول سمته اهـ قلت: فيفهم منه حكم النبات الذي شاع في زماننا المسمى بالتتن فتنبه. (قوله: ربما أضر بالبدن) الواقع أنه يختلف باختلاف المستعملين ط (قوله: الأصل الإباحة أو التوقف) المختار الأول عند الجمهور من الحنفية والشافعية كما صرح به المحقق ابن الهمام في تحرير الأصول (قوله: فيفهم منه حكم النبات) وهو الإباحة على المختار أو التوقف. وفيه إشارة إلى عدم تسليم إسكاره وتفتيره وإضراره، وإلا لم يصح إدخاله تحت القاعدة المذكورة ولذا أمر بالتنبه."

(كتاب الأشربة، ج:6، ص:460، ط:سعيد)

سگریٹ جسم انسانی کے لیے سخت مضرہے اس لیے اس کا استعمال مکروہ تحریمی اور اس کی خریدوفروخت بھی ناجائز ہے ۔۔اسکی کمایی بھی درست نہیں ۔

فإن بيع الدخان حرام لما فيه من الضرر البين على الجسم، والله تعالى قد أحل لنا كل طيب، وحرم علينا كل خبيث. قال سبحانه: يسألونك ماذا أحل لهم قل أحل لكم الطيبات [ المائدة:4]، وقال سبحانه: ويحل لهم الطيبات ويحرم عليهم الخبائث [الأعراف:].
ومما لا شك فيه أن الدخان من الخبائث التي اتفق على خبثها المسلمون والكفار، والله تعالى إذا حرم شيئا حرم ثمنه، وانظر الفتويين۔

علماء عرب کا متفقہ طور پر یہی فتویٰ ہے ۔ میرے نزدیک یہی احوط ہے۔

Monday 8 July 2024

مالک کی بلااجازت کرایہ دار کا دوکان کسی اور کو کرایہ پر دینا

 عقدِ اجارہ تام ہونے کے بعد کرایہ دار منافع کا مالک بن جاتا ہے اور اس کو منافع حاصل کرنے کا اختیار حاصل ہو جاتا ہے اب چاہے وہ خود منافع حاصل کرے یا کسی اور کو منافع کا مالک بنائے۔ بشرطیکہ کسی ایسے شخص کو نہ دے جو اس میں ایسا کام شروع کرے جس کی وجہ سے مکان یا دکان کو نقصان پہنچتا ہو، لہذا اگر مالک مکان نے کرایہ دار پر یہ شرط لگائی کہ آپ یہ مکان کسی اور کو کرایہ پر نہیں دیں گے تو یہ شرط باطل ہوگی اور کرایہ دار اگر کسی اور کو مکان یا دکان کرائے پر دینا چاہے تو دے سکتا ہے لیکن کرایہ میں زیادتی نہیں کر سکتا البتہ اگر اس نے کرایہ کی دکان میں اضافہ کیا یعنی الماری وغیرہ نصب کیے تو پھر اس کے بدلے کرایہ میں زیادت کر سکتا ہے۔ اور اگر دوسرے کرایہ دار کی تعدی کی وجہ سے مکان یا دکان میں کوئی نقصان آجاتا ہے تو اس کا تاوان اس پر ہوگا۔

           لہذا صورت مسئولہ میں کرایہ دار کے لیے جائز ہے کہ دوسرے شخص کو دکان کم کرایہ پر دے بشرطیکہ دکان کو کوئی نقصان نہ پہنچتا ہو۔

(وله السكنى بنفسه وإسكان غيره بإجارة وغيرها) وكذا كل ما لا يختلف بالمستعمل يبطل التقييد لانه غير مفيد۔  (الدر المختار على صدر رد المحتار، كتاب الإجارة، باب ما يجوز من الإجارة وما يكون خلافا فيها، ج:9، ص:38)


پگڑی کی دوکان میں وراثت جاری ہوگی کہ نہیں

 مروجہ پگڑی نہ تو مکمل طور پر خرید فروخت ہے، اور نہ ہی کرایہ داری (اجارہ) کا معاملہ ہے، بلکہ یہ دونوں کے درمیان ملا جلا معاملہ ہے، اس لئے شرعی طور پر مروجہ پگڑی معاملہ درست نہیں ہے، نیز اس کے معاملہ کے نتیجے میں پگڑی پر دی گئی دکان میں ملکیت مکمل طور پر منتقل نہیں ہوتی، بلکہ اصل مالک کی ملکیت اس دکان پر برقرار رہتی ہے، اور پگڑی کی مد میں دی جانے والی رقم پگڑی پر لینے والے شخص کی ملکیت میں ہوتی ہے، اب اگر پگڑی پر دکان لینے والے شخص کا انتقال ہوجائے تو یہ دکان اس کے ورثہ میں تقسیم نہیں ہوگی، البتہ پگڑی کی مد میں جو رقم جمع کرائی گئی تھی، وہ اس کے شرعی ورثاء کے درمیان میراث کے شرعی اصولوں کے مطابق تقسیم ہوگی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:

رد المحتار: (523/4، ط: سعید)
جرت العادۃ أن صاحب الخلو حین یستأجر الدکان بالأجرۃ الیسیرۃ یدفع للناظر دراہم تسمی خدمة، ہي في الحقیقة تکملة أجرۃ المثل أو دونہا، وکذا إذا مات صاحب الخلو أو نزل عن خلوہ لغیرہ یأخذ الناظر من الوارث أو المنزول لہ دراہم تسمی تصدیقًا، فہٰذہ تحسب من الاجرۃ ایضا.

الھدایة: (317/3، ط: سعید)
و اذا مات احد المتعاقدين وقد عقد الاجارة لنفسه انفسخت الاجارة؛ لانه لو بقي العقد تصيرالمنفعة المملوكة له او الاجرة المملوكة له لغير العاقد مستحقة بالعقد، لانه ينتقل بالموت إلى الوارث، وذلك لايجوز۔
وان عقدها لغيرہ الم تنفسخ؛ مثل الوكيل والوصی و المتولى في الوقف، لانعدام ما اشرنا الیه من المعنی۔

ادھارخریدکرنفع سے بیچنا

 ادھار پر گھر خریدنے کے بعد  قیمت کی ادائیگی سے  پہلے خریدار کے لیے آگے نفع کے  ساتھ   بیچنا جائز ہے، اس میں شرعًا کوئی ممانعت نہیں ہے،البتہ اس پر قیمت کی بقیہ رقم ادا کر دینا لازم ہے۔

ہدایہ میں ہے:

"ويجوز بيع العقار قبل القبض عند أبي حنيفة وأبي يوسف رحمه الله."

(كتاب البيوع،‌‌‌‌باب المرابحة والتولية،فصل ومن اشترى شيئا مما ينقل ويحول لم يجز له بيعه حتى يقبضه، ج:3، ص:59، ط:دار احياء التراث العربي بيروت لبنان) 

ڈالرکی خریدوفروخت

 ڈالر کو یا کسی بھی کرنسی کو خرید کر رکھنا اور پھر اس کے ریٹ مہنگے ہوجانے کے بعد اسے بیچ کر نفع کمانا حلال ہے، البتہ کرنسی کے بدلے کرنسی کی جو بیع  ہوتی ہے اس کی حیثیت بیع صرف کی ہے اس لیے اس طرح کی بیع میں ادھار جائز نہیں ہے، بلکہ ضروری ہے کہ سودا نقد کیا جائے اور مجلس عقد میں ہی ہاتھ کے ہاتھ ہی جانبین سے عوضین پر قبضہ بھی ہوجائے ،ورنہ بیع فاسد ہوجائے گی۔

اور اگر ایک ہی ملک کی کرنسی کا اسی ملک کی کرنسی کے عوض معاملہ کیا جائے تو سودا نقد ہونے کے ساتھ ساتھ جانبین سے برابری بھی شرط ہوگی، ورنہ سود ہوجائے گا۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (5/ 257)

'' (هو) لغةً: الزيادة. وشرعاً: (بيع الثمن بالثمن) أي ما خلق للثمنية ومنه المصوغ (جنساً بجنس أو بغير جنس) كذهب بفضة، (ويشترط) عدم التأجيل والخيار و (التماثل) أي التساوي وزناً، (والتقابض) بالبراجم لا بالتخلية (قبل الافتراق)، وهو شرط بقائه صحيحاً على الصحيح، (إن اتحد جنساً وإن) وصلية (اختلفا جودةً وصياغةً) ؛ لما مر في الربا (وإلا) بأن لم يتجانسا (شرط التقابض) لحرمة النساء، (فلو باع) النقدين (أحدهما بالآخر جزافاً أو بفضل وتقابضا فيه) أي المجلس (صح)'

Sunday 7 July 2024

آن لائن ٹکٹ بکنگ پر کمیشن یاحق الخدمت لینا

  ٹکٹ بک کرانے کے حوالہ سے جو  خدمات فراہم کرتا ہے ، اگر اس پر پہلے سے ہی اپنا  حق الخدمت طے کر لیتا ہے اور یہ بات مشتہر بھی کر دیتا ہے تو اس صورت میں سائل کے لیے طے  شدہ حق الخدمت وصول کرنا شرعاً جائز ہے۔

ایمازون ایفلیٹ مارکیٹینگ کاحکم

 ایمازون اپنے ایسے ممبرز جو ایمازون میں سرمایہ کاری  نہ کرنا چاہتے ہیں، یا نہ کرسکتے ہوں، تو ایمازون  ایفیلیٹ مارکیٹنگ کی صورت  میں اپنے  ایسے ممبران کو ایمازون  دیگر سرمایہ کاروں کی فروخت ہونے والی اشیاء کے لنک فراہم کرتا ہے،  جسے ایفلیٹ ممبرز  حاصل شدہ لنکس کے ذریعہ  مختلف بلاکس، سوشل میڈیا و دیگر سائٹس پر ان اشیاء کی تشہیر کرتے ہیں،  پھر جس ممبر کے  لنک کے ذریعہ وہ اشیاء فروخت ہوں، تو ایمازون اس ممبر کو کچھ فیصد کمیشن دیتا ہے۔

مذکورہ حاصل شدہ معلومات کے مطابق ایفلیٹ ممبران  کی حیثیت کمیشن ایجنٹ کی ہے، اورکمیشن ایجنٹ سے مراد وہ آدمی ہے جو بروکری لے کر کام کرتا ہو،  اور بروکر کے لیے بروکری کی اجرت لینا جائز ہے، بشرطیکہ جس کام پر کمیشن لیا جا رہا ہے وہ کام فی نفسہ جائز ہو، کام بھی متعین ہو ،کمیشن ایجنٹ واقعی کوئی معتد بہ عمل انجام دے  اور کمیشن (اجرت) جانبین کی رضامندی سے بلاکسی ابہام کے متعین ہو۔

لہذا صورت مسئولہ میں کمیشن / بروکری کے جائز ہونے کی شرائط اگر ایمازون ایفیلیٹ مارکٹنگ میں پائی جاتی ہوں، تو اس صورت میں کمیشن لینا جائز ہوگا، بصورت دیگر جائز نہ ہوگا۔

فتاوی شامی میں ہے:

’’قَالَ فِي التتارخانية: وَفِي الدَّلَّالِ وَالسِّمْسَارِ يَجِبُ أَجْرُ الْمِثْلِ، وَمَا تَوَاضَعُوا عَلَيْهِ ... وَفِي الْحَاوِي: سُئِلَ مُحَمَّدُ بْنُ سَلَمَةَ عَنْ أُجْرَةِالسِّمْسَارِ؟ فَقَالَ: أَرْجُو أَنَّهُ لَا بَأْسَ بِهِ وَإِنْ كَانَ فِي الْأَصْلِ فَاسِدًا؛ لِكَثْرَةِ التَّعَامُلِ، وَكَثِيرٌ مِنْ هَذَا غَيْرُ جَائِزٍ، فَجَوَّزُوهُ لِحَاجَةِ النَّاسِ إلَيْهِ...‘‘ الخ

( مَطْلَبٌ فِي أُجْرَةِ الدَّلَّالِ ، ٦/ ٦٣، ط: سعيد)

وفیه أیضاً:

’’وَأَمَّا أُجْرَةُ السِّمْسَارِ وَالدَّلَّالِ فَقَالَ الشَّارِحُ الزَّيْلَعِيُّ: إنْ كَانَتْ مَشْرُوطَةً فِي الْعَقْدِ تُضَمُّ‘‘.

(5/ 136)

مال بکنے پر قیمت کی ادائیگی کی شرط کے ساتھ بیچنا

 ادھار خرید و فروخت کے درست ہونے کے لیے ضروری ہے کہ مبیع (جو چیز فروخت کی جارہی ہے) کی قیمت بھی متعین ہو اور قیمت کی ادائیگی کا وقت بھی متعین ہو، اگر قیمت متعین نہ ہو یا قیمت کی ادائیگی کا وقت متعین نہ ہو، تو ایسی بیع درست نہیں ہے، لہٰذا صورتِ مسئولہ میں  سپلائیر سے جو اس شرط پر مال خریدتاہے کہ جب مال بک جائے گا اس وقت پیسے دیں گے، تو اصولاً  تو یہ بیع  قیمت کی ادائیگی کا وقت متعین نہ ہونے کی وجہ سے درست نہیں ہونی چاہیے اور اگر مال ادھار کہہ کر نہیں خریدتا اور قیمت متعین ہوتی ہے اور قیمت بعد میں ادا کرتا ہے، تو جائز ہے، غرض کہ قیمت متعین کر کے نقد میں خریدلے اور خریداری سے فارغ ہونے کے بعد کہہ دے کہ بعد میں ادا کردیں گے، تو جائز ہے اور اگر ادھار خرید رہا ہے، تو ادائیگی کی مدت مقرر کرنا ضروری ہے۔

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"ومنها أن يكون المبيع معلوما والثمن معلوما علما يمنع من المنازعة فبيع المجهول جهالة تفضي إليها غير صحيح كبيع شاة من هذا القطيع."

( كتاب البيوع،الباب الأول في تعريف البيع وركنه وشرطه وحكمه وأنواعه، ج:3،ص:3، ط: دارالفكر)

ہدایہ میں ہے:

"قال: "‌ويجوز ‌البيع ‌بثمن ‌حال ‌ومؤجل ‌إذا ‌كان ‌الأجل ‌معلوما" لإطلاق قوله تعالى: {وأحل الله البيع وحرم الربا} [البقرة:٢٧٥] وعنه عليه الصلاة والسلام "أنه اشترى من يهودي طعاما إلى أجل معلوم ورهنه درعه". ولا بد أن يكون الأجل معلوما؛ لأن الجهالة فيه مانعة من التسليم الواجب بالعقد، فهذا يطالبه به في قريب المدة، وهذا يسلمه في بعيدها."

(کتاب البیوع، ج:3، ص:24، ط:دار احیاء التراث العربی

اسلامی بینک میں اکاؤنٹ

 جو بینک  ،اسلامی یا غیر سودی بینکاری کے نام سے  کسی مستند عالم کی نگرانی میں مکمل طور پر تمام  معاملات شریعت کے مطابق کر رہے ہوں اور دیگر بہت سے وہ  بینک جو جزوی طور پر  مستند علماء کی نگرانی میں  غیر سودی بینکاری کررہے ہیں ، ان کے ساتھ معاملا ت کیے جاسکتے ہیں  ، جب تک یہ بینک  مستند علماء کی نگرانی میں اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے طے کردہ غیر سودی بینکاری کے معیارات کے مطابق کام کرتے رہیں،اس وقت تک ان سے معاملات کرنا جائز ہے۔اس لیےفیصل اسلامک بینک میں بھی سیونگ اکاؤنٹ کھلوانے کی گنجائش 

بحوث في قضايا فقهية معاصرة (ص: 363):
أما الأموال المودعة في المصارف الإسلامية، فإن ما أودع في حساباتها الجارية، فإنه ينطبق عليه ما ذكرنا في الحسابات الجارية للبنوك التقليدية سواء بسواء، فهي قروض قدمها أصحابها إلى البنك، وهي مضمونة عليه، وتجري عليها جميع أحكام القرض: ولكن يختلف تكييف الودائع الثابتة وحسابات التوفير في البنوك الإسلامية من تكييفها في البنوك التقليدية، فإن هذه الودائع قروض أيضا في البنوك التقليدية قدمت إليها على أساس الفائدة الربوية، ولكن البنوك الإسلامية لا تعمل على أساس الفائدة الربوية، بل إنما تقبل هذه الودائع على أن يشاركها أصحابها في ربحها إن كان هناك ربح، فليست هذه الودائع في البنوك الإسلامية قروضا، وإنما هي رأس مال في المضاربة، وإنها تستحق حصة مشاعة من ربح البنك، وتحتمل حصة مشاعة من الخسران إن كان هناك خسران، وليست مضمونة على البنك، فلا يضمن البنك أصلها ولا ربحها، إلا إذا حصل هناك تعد من قبل البنك، فإنه يضمن بقدر التعدي.

کاروبار بہتر ہے یا ملازمت

  اسلام نے انسان کو رزق حلال کے حصول میں کسی خاص ذریعہ معاش کو اختیار کرنے کا پابند نہیں بنایا، ہاں اس کا پابند بنایا ہے کہ جو بھی ذریعہ معاش اختیار کیا جائے وہ حلال اور جائز ہو، چاہے وہ ملازمت ہو، یا کوئی بھی جائز کاروبارہو، حلال ذریعہ معاش اور روزگار کو اسلام نے عبادت قرار دیا ہے،لہذا اگر کاروبار مشتمل برمنافع ہو تو اسی کو اختیار کرنا چاہیے، اور نفع بخش کاروبار نہ ہو تو اچھی سی نوکری بھی کی جاسکتی ہے، باقی کاروبار میں جو برکت ہے وہ ملازمت میں نہیں ہے۔

الترغيب والترہيب للمنذری میں ہے:

"عن ابن عمر رضي الله عنهما عن النبيِّ صلى الله عليه وسلم قال: إن الله يحبُّ المؤمن المحترف . رواه الطبراني في الكبير والبيهقي".

(كتاب البيوع وغيرها الترغيب في الاكتساب بالبيع وغيره، رقم الحدیث:2611، ج:2، ص:335، ط:دارالکتب العلمیۃ)

ترجمہ:’’ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بلاشبہ اللہ تعالیٰ پسند فرماتے ہیں ایسے مومن کو جو اپنے اہل وعیال کے لئے کمائے۔‘‘

وفیہ ایضاً:

"وعن كعب بن عجرة رضي الله عنه قال مر على النبي صلى الله عليه وسلم رجل فرأى أصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم من جلده ونشاطه فقالوا يا رسول الله لو كان هذا في سبيل الله فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم إن كان خرج يسعى على ولده صغارا فهو في سبيل الله وإن كان خرج يسعى على أبوين شيخين كبيرين فهو في سبيل الله وإن كان خرج يسعى على نفسه يعفها فهو في سبيل الله وإن كان خرج يسعى رياء ومفاخرة فهو في سبيل الشيطان رواه الطبراني".

(كتاب البيوع وغيرها الترغيب في الاكتساب بالبيع وغيره، رقم الحدیث:2610، ج:2، ص:335، ط:دارالکتب العلمیۃ)

ترجمہ:’’ حضرتِ کعب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک شخص کا گزر آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر ہوا تو اس نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کو دیکھا، تو فرمایا کہ اے اللہ کے رسول کیا یہ لوگ اللہ کے راستے میں ہیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص اپنے چھوٹے بچوں کا پیٹ پالنے کے لیے محنت مشقت کرتا ہے وہ اللہ کے راستے میں ہے اور جو شخص اپنے بوڑھے والدین کا پیٹ پالنے کے لیے محنت کرتا ہے وہ اللہ کے راستے میں ہے اور جو شخص اپنا پیٹ پالنے کے لیے محنت کرتاهے  وہ حلال کماتا ہے؛ تاکہ کسی کے سامنے دستِ سوال دراز کرنے سے اپنے آپ کو بچائے تو وہ بھی اللہ کے راستے میں ہے، اور جو شخص لوگوں کے دکھلاوے اور فخر کے لئے محنت کرتا ہے، وہ شیطان کے راستے پر ہے۔‘