https://follow.it/amir-samdani?action=followPub

Wednesday 17 July 2024

کلینک میں استعمال ہونے والے اوزاریامشینری پر زکوۃ

 وہ اوزار اور مشینری  جس کے ذریعے دانتوں کا علاج کیا جاتا ہے،وہ مال تجارت نہیں بلکہ اپنے پیشے کے آلات ہیں، ان اوزار و مشینری پر زکوۃ واجب نہیں ہے، بلکہ ان کے ذریعے جو منافع آئے گا ،  ا س پر سالانہ ڈھائی فیصد زکوۃ واجب ہوگی، بشرط یہ کہ  اخراجات کے بعد جمع ہونے والی بچت نصاب کے بقدر ہونے کے ساتھ ساتھ اس پر سال بھی گزرا ہو، لہذا صورتِ مسئولہ میں سائل کےکلینک میں جو اوزار و مشینری ہے اس پر زکوۃ واجب نہیں ہوگی۔ باقی دانتوں کی بھرائی کا جو سامان مریض کے علاج میں صرف ہوتا ہے اور اس کی قیمت مریض سے وصول کی جاتی ہے، وہ مالِ تجارت کے حکم میں ہے،  زکوٰۃ کا سال پورا ہونے کے وقت اس کی موجودہ  قیمت پر  زکوٰۃ ہوگی۔

بدائع الصنائع میں ہے :

"وأما فيما سوى الأثمان من العروض فإنما يكون الإعداد فيها للتجارة بالنية ؛ لأنها كما تصلح للتجارة تصلح للانتفاع بأعيانها بل المقصود الأصلي منها ذلك فلا بد من التعيين للتجارة وذلك بالنية."

(كتاب الزكاة، ‌‌فصل الشرائط التي ترجع إلى المال، ج: 2، ص: 11، ط: دار الکتب الإسلامى)

فتاوی ہندیہ میں ہے :

"ولو اشترى قدورا من صفر يمسكها ويؤاجرها لاتجب فيها الزكاة كما لاتجب في بيوت الغلة، ولو دخل من أرضه حنطة تبلغ قيمتها قيمة نصاب ونوى أن يمسكها أو يبيعها فأمسكها حولاً لاتجب فيه الزكاة، كذا في فتاوى قاضي خان. ولو أن نخاسًا يشتري دواب أو يبيعها فاشترى جلاجل أو مقاود أو براقع فإن كان بيع هذه الأشياء مع الدواب ففيها الزكاة، وإن كانت هذه لحفظ الدواب بها فلا زكاة فيها كذا في الذخيرة. وكذلك العطار لو اشترى القوارير، ولو اشترى جوالق ليؤاجرها من الناس فلا زكاة فيها؛ لأنه اشتراها للغلة لا للمبايعة، كذا في محيط السرخسي. والخباز إذا اشترى حطبًا أو ملحًا لأجل الخبز فلا زكاة فيه".

(كتاب الزكاة، ‌‌مسائل شتى في الزكاة، ج: 1، ص: 180، ط: دار الفكر بيروت)

چچا کوزکات دینا

 اگر سائل کے چچا کی ملکیت میں  ساڑھے سات تولہ سونا، یا ساڑھے باون تولہ چاندی یا ساڑھے  باون تولہ چاندی کے بقدر مالِ تجارت ،سونا، چاندی،نقدی یا ضرورت سے زائد اتنا سامان نہیں  ہے  یا  اس قدر مالیت کا سامان تو ہے لیکن ذمے  میں واجب قرضوں  کی مقدار منہا کرنے کے بعد  ساڑھے باون تولہ چاندی  کی قیمت سے کم بچتا ہو اور  نہ  ہی  وہ سید ، ہاشمی ہو تو سائل اپنے چچا کو زکات اور فدیہ دے سکتا ہے ، اسی طرح مالدار بھائی غریب بھائی کو بھی زکوۃ اور فطرہ دے سکتا ہے، البتہ  زکات  یا فدیے کی رقم  مشترکہ چیزوں میں استعمال کرنا جائز نہیں ہے۔

فتاوی ہندیہ میں ہے :

"‌‌(منها الفقير) وهو من له أدنى شيء وهو ما دون النصاب أو قدر نصاب غير نام وهو مستغرق في الحاجة فلا يخرجه عن الفقير ملك نصب كثيرة غير نامية إذا كانت مستغرقة بالحاجة كذا في فتح القدير."

(كتاب الزكاة،الباب السابع في المصارف،ج1،ص187،ط:المطبعة الكبرى الأميرية)

وفيه أيضا:

"والأفضل في الزكاة والفطر والنذر الصرف أولا إلى الإخوة والأخوات ثم إلى أولادهم ثم إلى ‌الأعمام والعمات."

(كتاب الزكاة،الباب السابع في المصارف،ج1،ص190،ط:المطبعة الكبرى الأميرية

ساس کو زکوٰۃ یاصدقہ فطردینا

 اگر   ساس  مستحقِ زکاۃ ہو تو اسے   صدقہ فطر دے سکتے ہیں۔ مستحق ہونے کا مطلب یہ ہے کہ ان کےپاس ساڑھے سات تولہ سونا یا ساڑھے باون تولہ چاندی یا   اس مالیت کا ضروریاتِ اصلیہ سے زائد کسی قسم کا ما ل  /سامان موجود نہ ہو  اور  وہ سید بھی نہ ہو۔

بدائع الصنائع  میں ہے :

"ويجوز دفع الزكاة إلى من سوى الوالدين والمولودين من الأقارب ومن الإخوة والأخوات وغيرهم؛ لانقطاع منافع الأملاك بينهم".

(كتاب الزكاۃ، ج: 2 ص: 50، ط : رشيديه)

فتاوی شامی میں ہے:

"(وصدقة الفطر كالزكاة في المصارف) وفي كل حال.......(قوله: في المصارف) أي المذكورة في آية الصدقات إلا العامل الغني فيما يظهر و لاتصح إلى من بينهما أولاد أو زوجية ولا إلى غني أو هاشمي ونحوهم ممن مر في باب المصرف، وقدمنا بيان الأفضل في المتصدق عليه."

(‌‌كتاب الزكاة، ‌‌باب صدقة الفطر،  ج: 2، ص: 368، ط: سعيد)

سسرکابہوکو زکوٰۃ دینا

 اگر بہو صاحب نصاب نہیں ہے،یعنی (اس کی ملکیت میں ساڑھے سات تولہ سونا،یا ساڑھے باون تولہ چاندی ،یااس  کے برابرضرورت  و ا ستعمال سے زیادہ رقم یاکسی قسم کا سامان   )موجود نہ ہو،تو سسر اپنی بہو کو صدقہ فطر  دے سکتا ہے،اور اگر بہو صاحب نصاب  ہے تو نہیں دے سکتا، باقی مستحقِ زکوۃ ہونے کی صورت میں اس رقم کو  لے کر گھر کے کسی مشترکہ کام میں استعمال نہ کرے بلکہ بہو اپنے ذاتی کام میں استعمال کرے۔

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"لا يجوز دفع الزكاة إلى من يملك نصابا أي مال كان دنانير أو دراهم أو سوائم أو عروضا للتجارة أو لغير التجارة فاضلا عن حاجته في جميع السنة هكذا في الزاهدي والشرط أن يكون فاضلا عن حاجته الأصلية، وهي مسكنه، وأثاث مسكنه وثيابه وخادمه، ومركبه وسلاحه، ولا يشترط النماء إذ هو شرط وجوب الزكاة لا الحرمان كذا في الكافي. ويجوز دفعها إلى من يملك أقل من النصاب، وإن كان صحيحا مكتسبا كذا في الزاهدي. ولا يدفع إلى مملوك غني غير مكاتبه كذا في معراج الدراية."

(کتاب الزکوۃ ،الباب السابع  فی المصارف ،189/1،ط،دار الفکر)

فتاوی شامی میں ہے:

"(وصدقة الفطر كالزكاة في المصارف) وفي كل حال (إلا في) جواز (الدفع إلى الذمي) وعدم سقوطها بهلاك المال وقد مر.

(قوله في المصارف) أي المذكورة في آية الصدقات إلا العامل الغني فيما يظهر ولا تصح إلى من بينهما أولاد أو زوجية ولا إلى غني أو هاشمي ونحوهم."

(باب صدقۃ الفطرۃ ،368/2،ط،دار الفکر)

Tuesday 16 July 2024

بلی کے پیشاب کاحکم

  بلی سمیت ہر جانور کا پیشاب ناپاک ہے۔ جس پانی میں پیشاب مل جائے  اگر  دہ در دہ  یعنی 225 مربع فٹ یا اس  سے زیادہ ہو تو پانی ناپاک نہیں ہوگا اور اگر اس سے کم ہو (اور غالب یہی ہے ) تو تمام پانی ناپاک ہوجائے گا۔

اللباب فی شرح الکتاب میں ہے:

"(وإن أصابته نجاسة مخففة كبول ما يؤكل لحمه) ومنه الفرس، ... (جازت الصلاة معه ما لم يبلغ ربع) جميع (الثوب) ... وقيل: ربع الموضع الذي أصابه كالذيل والكم والدخريص، إن كان المصاب ثوبا. وربع العضو المصاب كاليد والرجل، إن كان بدناً وصححه في التحفة والمحيط والمجتبى والسراج، وفي الحقائق: وعليه الفتوى".

 (ص؛68، فصل فی النجاسة، ط: قدیمی) 

البحر الرائق میں ہے:

"قوله: (أو بماء دائم فيه نجس إن لم يكن عشرا في عشر) أي: لا يتوضأ بماء ساكن وقعت فيه نجاسة مطلقا سواء تغير أحد أوصافه أو لا ولم يبلغ الماء عشرة أذرع في عشرة .........(قوله: وإلا فهو كالجاري) أي: وإن يكن ‌عشرا ‌في ‌عشر فهو كالجاري، فلا يتنجس إلا إذا تغير أحد أوصافه."

(البحر الرائق: كتاب الطهارة، أحكام المياه (1/ 78و87)، ط. دار المعرفة، بيروت)

خشک پیشاب کا حکم

 اگر پیشاب کسی زمین پر گرا ہو اور وہ زمین خشک ہو جائے تو وہ  زمین خشک ہونے اور نجاست کا اثر باقی نہ رہنے کی صورت میں بغیر دھوئے پاک ہوجائے گی،  اس پر نماز پڑھنا تو جائز ہوگا لیکن پانی سے دھوئے بغیر اس پر  تیمم نہیں کیا جاسکتا۔ 

احتیاط یہ ہے کہ اس زمین یا فرش کو پاک کر لیا جائے، اسے پاک کرنے کے دو طریقے ہیں:

1۔ ا س پر پانی ڈال کر صاف کیا جائے، پھر  کپڑے سے خشک کرلیا جائے، اس طرح تین مرتبہ کرنے سے وہ پاک ہوجائے گا۔

2۔ مذکورہ فرش پر اتنی وافر مقدار میں پانی ڈال کر بہا دیا جائے کہ اس پر نجاست کا کوئی اثر باقی نہ رہے اور پھر وہ خشک ہوجائے تو اس طرح بھی وہ پاک ہوجائے گا۔

وفي الهندیة(۴۳/۱) :

" الأرض إذا تنجست ببول واحتاج الناس إلی غسلها، فإن کانت رخوةً یصب الماء علیها ثلاثاً فتطهر، وإن کانت صلبةً قالوا: یصب الماء علیها وتدلك ثم تنشف بصوف أوخرقة، یفعل کذلك ثلاث مرات فتطهر، وإن صب علیها ماء کثیر حتی تفرقت النجاسة ولم یبق ریحها ولا لونها وترکت حتی جفت تطهر، کذا في فتاویٰ قاضی خان".

" البول إذا أصاب الأرض واحتیج إلی الغسل یصب الماء علیه ثم یدلك وینشف ذلك بصوف أو خرقة فإذا فعل ذلك ثلاثاً طهر، وإن لم یفعل ذلك ولكن صب علیه ماء کثیر حتی عرف أنه زالت النجاسة ولایوجد في ذلك لون ولا ریح، ثم ترک حتی نشفته الأرض کان طاهراً". (المحیط البرهاني۱؍۳۸۲)

البحرالرائق میں ہے:

’’وإن كان اللبن مفروشاً فجف قبل أن يقلع طهر بمنزلة الحيطان، وفي النهاية: إن كانت الآجرة مفروشةً في الأرض فحكمها حكم الأرض، وإن كانت موضوعةً تنقل وتحول، فإن كانت النجاسة على الجانب الذي يلي الأرض جازت الصلاة عليها، وإن كانت النجاسة على الجانب الذي قام عليه المصلي لاتجوز صلاته‘‘. (1/235)

حاشیة الطحطاوي علی مراقي الفلاح  میں ہے:

’’ والمراد بالأرض مايشمله اسم الأرض، كالحجر والحصى والآجر واللبن ونحوها، إذا كانت متداخلةً في الأرض غير منفصلة عنها‘‘. (حاشية الطحطاوي على مراقي الفلاح، كتاب الطهارة، باب الأنجاس والطهارة عنها، (1/231) ط: غوثيه) 

Monday 15 July 2024

روپے کے بدلے ڈالرکی ادھار خریدوفروخت

 کرنسی کے بدلے کرنسی کی جو بیع  ہوتی ہے اس کی حیثیت بیع صرف کی ہے، اس لیے اس طرح کی بیع میں ادھار جائز نہیں ہے، بلکہ ضروری ہے کہ سودا نقد کیا جائے اور مجلس عقد میں ہی ہاتھ کے ہاتھ  جانبین سے عوضین پر قبضہ بھی ہوجائے ،ورنہ بیع باطل  ہوجائے گی،اسی طرح  ڈالر کی اد ھار خرید و فروخت کرنا جائز نہیں،یعنی جب ڈالر خریدا جائے تو اسی مجلس میں ڈالر پر قبضہ کرلیا جائے اور ساتھ ہی اس کی رقم بھی بیچنے والے کے حوالے کردی جائےاور جب اس کو بیچا جائے تو اسی وقت اس کی قیمت پر قبضہ کرنے کے ساتھ ساتھ ڈالر بھی خریدار کو حوالہ کردیا جائے،بصورتِ دیگر یہ معاملہ سودی ہوجانے کی وجہ سے جائز نہ ہوگا


"الفتاوى الهندية"میں ہے:

"(وأما شرائطه) فمنها قبض البدلين قبل الافتراق كذا في البدائع سواء كانا يتعينان كالمصوغ أو لا يتعينان كالمضروب أو يتعين أحدهما ولا يتعين الآخر كذا في الهداية."

(کتاب الصرف،الباب الأول، ،ج:٣، ص:٢١٧، ط:دار الفكر،بيروت)

فتاوی شامی میں ہے:

"(هو) لغةً: الزيادة. وشرعاً: (بيع الثمن بالثمن) أي ما خلق للثمنية ومنه المصوغ (جنساً بجنس أو بغير جنس) كذهب بفضة، (ويشترط) عدم التأجيل والخيار و (التماثل) أي التساوي وزناً، (والتقابض) بالبراجم لا بالتخلية (قبل الافتراق)، وهو شرط بقائه صحيحاً على الصحيح، (إن اتحد جنساً وإن) وصلية (اختلفا جودةً وصياغةً) ؛ لما مر في الربا (وإلا) بأن لم يتجانسا (شرط التقابض) لحرمة النساء، (فلو باع) النقدين (أحدهما بالآخر جزافاً أو بفضل وتقابضا فيه) أي المجلس (صح)".

(باب الصرف، ج: 5، ص: 257 - 259،  ط: سعيد)

چار رکعت والی نماز میں پانچویں کے لیے کھڑا ہونے کی صورت میں نماز کا حکم

 صورتِ مسئولہ میں  مذکورہ شخص  اگر  فرض نماز پڑھ رہا تھا اور چوتھی رکعت کے قعدہ میں بیٹھا تھا اور اس کے بعد  پانچویں رکعت کے لیے غلطی سے کھڑا ہوگیا تو  جب تک  وہ پانچویں رکعت کا سجدہ  نہ کرلے  قعدہ  کی طرف  واپس لوٹ آئے  اور سجدہ سہو کرکے نماز مکمل کرلے، اور اگر  پانچویں رکعت کا سجدہ کرلیا ہو تو اب اس کے ساتھ چھٹی رکعت بھی ملادے اور آخر میں سجدہ سہو کرلینے سے نماز ہوجائے گی، چار رکعت فرض اور دو نفل ہوجائے گی۔

اور اگر مذکورہ شخص نے  چوتھی رکعت پر قعدہ  نہیں کیا تھا اور اس کے بعد پانچویں رکعت کے لیے کھڑا ہوگیا تو پانچویں رکعت کے سجدہ سے پہلے پہلے واپس قعدہ میں آجائے، اور سجدہ سہو کرکے نماز  مکمل کرلے، اور اگر پانچویں رکعت کا سجدہ بھی کرلیا ہو تو اب اس کی فرض نماز باطل ہوگئی،  اب اس نماز کا اعادہ کرنا لازم ہے۔ 

الفتاوى الهندية (1/ 129):
’’رجل صلى الظهر خمساً وقعد في الرابعة قدر التشهد إن تذكر قبل أن يقيد الخامسة بالسجدة أنها الخامسة عاد إلى القعدة وسلم، كذا في المحيط. ويسجد للسهو، كذا في السراج الوهاج. وإن تذكر بعدما قيد الخامسة بالسجدة أنها الخامسة لا يعود إلى القعدة ولا يسلم، بل يضيف إليها ركعةً أخرى حتى يصير شفعاً ويتشهد ويسلم، هكذا في المحيط. ويسجد للسهو استحساناً، كذا في الهداية. وهو المختار، كذا في الكفاية. ثم يتشهد ويسلم، كذا في المحيط. والركعتان نافلة ولا تنوبان عن سنة الظهر على الصحيح، كذا في الجوهرة النيرة ... وإن لم يقعد على رأس الرابعة حتى قام إلى الخامسة إن تذكر قبل أن يقيد الخامسة بالسجدة عاد إلى القعدة، هكذا في المحيط. وفي الخلاصة: ويتشهد ويسلم ويسجد للسهو، كذا في التتارخانية. وإن قيد الخامسة بالسجدة فسد ظهره عندنا، كذا في المحيط‘‘

Sunday 14 July 2024

تقسیم ترکہ تین بیٹی اور پانچ بیٹوں کے مابین

 صورتِ مسئولہ میں اگر مرحوم کے ورثاء میں صرف تین بیٹی او ر پانچ بیٹے ہیں، اور اس کے علاوہ کوئی وارث نہیں ہے ، تو اس صورت میں مرحوم کے ترکہ کی تقسیم کا شرعی طریقہ یہ ہے کہ سب سے پہلے مرحوم کے حقوقِ متقدمہ  علی الارث یعنی تجہیز وتکفین کاخرچہ ادا کرنے کے بعد، مرحوم کےذمہ اگر کوئی قرض ہوتواسے ادا کرنے کے بعد، مرحوم نے اگر کوئی جائز وصیت کی ہو تو اسے ترکہ کے ایک تہائی میں نافذ کرنے کےبعد باقی کل ترکہ منقولہ وغیر منقولہ کو (13)حصوں میں تقسیم کرکے مرحوم کے تینوں بیٹوں میں سے ہر ایک بیٹے کو دو-دو  حصے اور مرحوم کی تین بیٹیوں میں سے ہرایک بیٹی کو ایک- ایک حصہ ملے گا۔

صورت تقسیم یہ ہے:

میت:13

بیٹابیٹابیٹابیٹابیٹیبیٹیبیٹی
22
22111

بیٹا(2)

فإن الأصل في تقسيم الميراث بين الأبناء والبنات أن يعطى الذكر ضعف الأنثى، كما يدل له قوله تعالى: يوصيكم الله في أولادكم للذكر مثل حظ الأنثيين {النساء:11}

جس بیٹے کا انتقال والدکی زندگی میں ہوگیا اسے وراثت میں کویی حصہ نہیں ملے گا ۔

الموسوعۃ الفقھیۃالکویتیۃ میں ہے:

"(وللإرث ‌شروط ‌ثلاثة) :۔۔۔۔۔۔۔ ثانيها: تحقق حياة الوارث بعد موت المورث."

(شروط المیراث، ج:3،ص:22،ط:دار السلاسل)

Saturday 13 July 2024

گروی رکھنے

 ۔واضح رہے کہ گروی "رہن"  کا  شرعی  حکم یہ  ہے کہ  ضرورت  کی  وجہ  سے کسی قرض کے  مقابلے میں "رہن" لینا اور دینا درست ہے، لیکن رہن میں رکھی جانے والی چیز  کی حیثیت محض ضمانت کی ہوتی ہے، اور رہن (گروی) رکھی ہوئی چیز  اس کے اصل مالک  ہی کی  ملک  میں  رہتی ہے،  اور  مرتہن  (جس کے پاس چیز گروی رکھی ہو) کے لیے شرعاً اس کے استعمال اور اس سے نفع  کمانے  کی اجازت نہیں ہوتی، اگر رہن میں رکھی ہوئی چیز کو مرتہن نے استعمال کرلیا  یا زیادہ قیمت میں فروخت  کیا تو اُس چیز سے نفع حاصل کرنا  سود کے زمرے میں آئے گا؛ کیوں کہ رہن قرض کے بدلے ہوتا ہے اور قرض دے کر مقروض سے نفع حاصل کرنا سود ہے۔

لہذا  گروی پر مکان لینا دینا درست ہے، لیکن گروی میں لیا ہوا مکان سے نفع اٹھانا جائز نہیں۔

2۔قسطوں پر خرید وفروخت جائز ہے، لیکن اس  میں  درج ذیل  شرائط کا لحاظ  اور رعایت کرنا ضروری ہے:

1.قسط کی رقم متعین ہو۔

2.مدت متعین ہو۔

3.معاملہ متعین ہو کہ نقد کا معاملہ کیا جارہا ہے یا ادھار۔

4 .عقد کے وقت مجموعی قیمت مقرر ہو ۔

5. ایک شرط یہ بھی  ہے کہ کسی قسط کی ادائیگی میں تاخیر کی صورت میں اس  میں اضافہ (جرمانہ) وصول نہ کیا جائے۔

6. جلد ادائیگی کی صورت میں قیمت کی کمی عقد میں مشروط نہ ہو ، اگر بوقتِ عقد یہ شرط ہوگی تو پورا معاملہ ہی فاسد ہوجائے گا۔

ان  تمام شرائط کی رعایت کے ساتھ قسطوں پر خریدوفروخت کرنا جائز ہے، لیکن اگر ان شرائط کی رعایت نہ ہو تو جائز نہیں ہوگا۔

1۔فتاوی شامی میں ہے:

"(هو) لغة: حبس الشيء. وشرعا (حبس شيء مالي) أي جعله محبوسا لأن الحابس هو المرتهن بحق يمكن استيفاؤه) أي أخذه (منه) كلا أو بعضا كأن كان قيمة المرهون أقل من الدين (كالدين) كاف الاستقصاء لأن العين لا يمكن استيفاؤها من الرهن إلا إذا صار دينا حكما كما سيجيء (حقيقة) وهو دين واجب ظاهرا وباطنا أو ظاهرا فقط كثمن عبد أو خل وجد حرا أو خمرا (أو حكما) كالأعيان (المضمونة بالمثل أو القيمة)..قوله كالأعيان المضمونة بالمثل أو القيمة) ويقال لها المضمونة بنفسها لقيام المثل أو القيمة مقامها كالمغصوب ونحوه مما سيجيء.واحترز به عن المضمونة بغيرها كمبيع في يد البائع فإنه مضمون بغيره وهو الثمن، وعن غير المضمونة أصلا كالأمانات."

(كتاب الرهن،  ج:6، ص:478، ط:سعيد)

سونا چاندی

 سونا اور چاندی کی بیع پیسوں کے بدلہ بیع صرف کہلاتی ہے، اور بیع صرف کے درست ہونے کے لئے شرط ہے کہ مجلس عقد میں دونوں چیزوں پر جانبین سے قبضہ پایا جائے، لہٰذا صورت مسئولہ میں آپ کا ۱۵ دن پہلے پیسوں کی ادائیگی کر کے چاندی کا سودا کرنا جائز نہیں ہے کیونکہ اس سودے میں چاندی ۱۵ دن بعد دی جارہی ہے جس کی وجہ سے یہ سودا بیع فاسد ہے اور واجب الفسخ ہے۔

طلاق دیدوں گا سے طلاق ہوئی کہ نہیں

 اگر شوہر نے اپنی بیوی سے واقعی صرف اتنا ہی کہا تھا کہ اگر تم باہر جاؤگی تو میں تمہیں طلاق دیدوں گا تو اس جملے سے طلاق واقع نہیں ہوگی ، کیونکہ یہ جملہ صرف اور صرف طلاق کی دھمکی ہے طلاق نہیں ہے۔اور طلاق کی دھمکی دینے سے طلاق واقع نہیں ہوتی۔

فتاوی عالمگیری میں ہے:

"قالت لزوجها: من باتو نمي باشم، فقال الزوج: مباش، فقالت: طلاق بدست تو است مرا طلاق كن، فقال الزوج: طلاق ميكنم، طلاق ميكنم، وكرر ثلاثًا، طلقت ثلاثًا بخلاف قوله: كنم؛ لأنه استقبال فلم يكن تحقيقًا بالتشكيك."

( الفتاوی الهندیة: كتاب الطلاق، الباب الثاني في إيقاع الطلاق، الفصل السابع في الطلاق بالألفاظ الفارسية(1/ 384)، ط. رشيديه)

قسطوں پر کاروبار میں سوفیصد یااس سے زیادہ نفع لینا

 خرید و فروخت کی صورت میں باہمی رضامندی سے جتنا نفع طے کرلیا جائے وہ لینا جائز ہوگا، البتہ بازار کے متعارف منافع سے زائد منافع رکھنا مناسب نہیں ،شریعتِ مطہرہ نے خرید و فروخت کی صحت کا مدار عاقدین کی باہمی رضامندی پر رکھا ہے اور منافع کے حوالہ سے کسی قسم کی پابندی یا حد مقرر نہیں کی، بلکہ اس معاملہ کو عرف پر چھوڑ دیا ہے، تاہم تاجر کو اس بات کا پابند بھی کیا ہے کہ وہ کسی کی مجبوری کا غلط فائدہ نہ اٹھائے اور یہ اسلامی معاشیات کی اہم خوبی ہے۔

سنن ابی داؤد میں ہے:

"عَنْ أَنَسٍ قَالَ النَّاسُ: يَا رَسُولَ اﷲِ غَلَا السِّعْرُ فَسَعِّرْ لَنَا، فَقَالَ رَسُولُ اﷲِ: إِنَّ اﷲَ هُوَ الْمُسَعِّرُ الْقَابِضُ الْبَاسِطُ الرَّازِقُ، وَإِنِّي لَأَرْجُو أَنْ أَلْقَی اﷲَ وَلَيْسَ أَحَدٌ مِنْکُمْ يُطَالِبُنِي بِمَظْلَمَةٍ فِي دَمٍ وَلَا مَالٍ".

(٣ / ٢٧٢، رقم الحديث: ٣٤٥١)

ترجمہ: حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ لوگوں نے شکایت کی کہ اے اللہ کے رسول (صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھاؤ بہت چڑھ گئے ہیں، لہٰذا ہمارے لیے نرخ مقرر فرما دیجیے۔ رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ نرخ مقرر کرنے والا تو اللہ تعالیٰ ہے، وہی رزق کی تنگی اور کشادگی کرتا ہے، اور میں یہ تمنا رکھتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ سے اس حال میں ملوں کہ تم میں سے کسی کا مجھ سے مطالبہ نہ ہو، جانی یا مالی زیادتی کا۔

درر الحکام میں ہے:

البيع ‌مع ‌تأجيل ‌الثمن وتقسيطه صحيح."

(کتاب البیوع، المادہ: 245، ج:1،  ص:227، ط:دار الجیل)

 المبسوط للسرخسی میں ہے: 

"وإذا عقد العقد علی أنہ إلی أجل کذا بکذا وبالنقد بکذا، فہو فاسد،وہذا إذا افترقا علی ہذا، فإن کان یتراضیان بینہما ولم یتفرقا، حتی قاطَعہ علی ثمن معلوم، وأتما العقد علیہ جاز."

(ج:8، ص:13، ط:دار المعرفة)