https://follow.it/amir-samdani?action=followPub

Wednesday 31 July 2024

تلاوت قرآن پر داد دینا

 قران کریم کی تلاوت کے دوران داد دینے کے لیے زور سے چلانا یا زور سے کچھ کلمات ادا کرنا کسی بھی حال میں پسندیدہ نہیں ، دورانِ تلاوت  ایسا کرنا قرآنِ کریم کے ادب کے خلاف ہے، جس سے بچنا لازم ہے،البتہ  تلاوت کے دوران  جب  قاری صاحب کچھ دیر کے لیے خاموش ہوتے ہیں اس وقت  وقار کے ساتھ آہستہ آواز میں کلام اللہ کی عظمت کا اظہار کرتے ہوئے، اللّٰه أكبریا  سبحان اللّٰه وغیرہ کہا جائے تو اس میں حرج بھی نہیں۔

قرآن مجیدمیں ہے:

(وَإِذَا قُرِيَ الْقُرْاٰنُ فَاسْتَمِعُوْا لَهٗ وَانْصِتُوْا لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُوْنَ)(الاعراف، 204)

یعنی جب قرآن پڑھا جایا کرے تو اس کی طرف کان لگایا کرو اور خاموش رہا کرو، امید ہے کہ تم پر رحمت ہو۔(بیان القرآن)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"سئل الفقيه أبو جعفر - رحمه الله تعالى - عن قوم قرءوا قراءة ورد وكبروا بعد ذلك جهرا؟ . قال: إن أرادوا بذلك الشكر لا بأس به...رفع الصوت عند سماع القرآن والوعظ مكروه، وما يفعله الذين يدعون الوجد والمحبة لا أصل له، ويمنع الصوفية من رفع الصوت وتخريق الثياب، كذا في السراجية."

(كتاب الكراهية، الباب الخامس في آداب المسجد والقبلة والمصحف وما كتب فيه شيء من القرآن، 319/5، ط: دار الفكر بيروت)

فتاوی شامی میں ہے:

"(قوله ورفع صوت بذكر إلخ) أقول: اضطرب كلام صاحب البزازية في ذلك؛ فتارة قال: إنه حرام، وتارة قال إنه جائز. وفي الفتاوى الخيرية من الكراهية والاستحسان: جاء في الحديث به اقتضى طلب الجهر به نحو " «وإن ذكرني في ملإ ذكرته في ملإ خير منهم» رواه الشيخان. وهناك أحاديث اقتضت طلب الإسرار، والجمع بينهما بأن ذلك يختلف باختلاف الأشخاص والأحوال كما جمع بذلك بين أحاديث الجهر والإخفاء بالقراءة ولا يعارض ذلك حديث «خير الذكر الخفي» لأنه حيث خيف الرياء أو تأذي المصلين أو النيام، فإن خلا مما ذكر؛ فقال بعض أهل العلم: إن الجهر أفضل لأنه أكثر عملا ولتعدي فائدته إلى السامعين، ويوقظ قلب الذاكر فيجمع همه إلى الفكر، ويصرف سمعه إليه، ويطرد النوم، ويزيد النشاط. اهـ. ملخصا، وتمام الكلام هناك فراجعه. وفي حاشية الحموي عن الإمام الشعراني: أجمع العلماء سلفا وخلفا على استحباب ذكر الجماعة في المساجد وغيرها إلا أن يشوش جهرهم على نائم أو مصل أو قارئ."

(‌‌كتاب الصلاة، ‌‌باب ما يفسد الصلاة وما يكره فيها، 660/1، ط: سعید)

افیون اور بھنگ کی کاشت اور اس کے عشر کا حکم

 .افیون اور بھنگ کا چونکہ جائز استعمال بھی ہوتا ہے، جیسے: ادویات و دیگر جائز امور  میں استعمال، لہذا  افیون    کی کاشت جائز ہے۔ اور دوا ساز  ادارے  یا کسی ایسے شخص کو فروخت کرنا جس کے بارے میں معلوم نہ ہو کہ وہ اس سے کیا بنائے گا  جائز ہے، البتہ کسی  ایسے شخص کو فروخت کرنا  جس کے بارے میں فروخت کنندہ کو معلوم  ہو کہ  خریدار  افیون یا بھنگ ناجائز مقصد میں استعمال کرے گا، مکروہ تحریمی ہے۔

2.افیون اور بھنگ کی فصل پر بھی  عشر / نصف عشر لازم ہوگا۔

3. افیون اور بھنگ کی فصل کا عشر / نصف عشر کسی بھی مستحق ِ زکاۃ (عالم ہو یا غیر عالم ہو) کو دیا جاسکتا ہے،نیز قیمت کی صورت میں بھی عشر / نصف عشر   ادا کیا جاسکتا ہے۔

فتاوی شامی میں ہے:

"(وصح بيع غير الخمر) مما مر، ومفاده صحة بيع الحشيشة والأفيون.  قلت: وقد سئل ابن نجيم عن بيع الحشيشة هل يجوز؟ فكتب لايجوز، فيحمل على أن مراده بعدم الجواز عدم الحل."

(كتاب الحظروالإباحة،ج:6،ص:554،ط:سعيد)

وفیه أیضاً:

"(و) جاز (بيع عصير) عنب (ممن) يعلم أنه (يتخذه خمراً)؛ لأن المعصية لاتقوم بعينه بل بعد تغيره، وقيل: يكره؛ لإعانته على المعصية، ونقل المصنف عن السراج والمشكلات أن قوله: ممن أي من كافر، أما بيعه من المسلم فيكره، ومثله في الجوهرة والباقاني وغيرهما، زاد القهستاني معزياً للخانية: أنه يكره بالاتفاق.
(قوله: ممن يعلم) فيه إشارة إلى أنه لو لم يعلم لم يكره بلا خلاف، قهستاني، (قوله: لاتقوم بعينه إلخ) يؤخذ منه أن المراد بما لاتقوم المعصية بعينه ما يحدث له بعد البيع وصف آخر يكون فيه قيام المعصية وأن ما تقوم المعصية بعينه ما توجد فيه على وصفه الموجود حالة البيع كالأمرد والسلاح ويأتي تمام الكلام عليه (قوله: أما بيعه من المسلم فيكره) لأنه إعانة على المعصية، قهستاني عن الجواهر.
أقول: وهو خلاف إطلاق المتون وتعليل الشروح بما مر وقال ط: وفيه أنه لايظهر إلا على قول من قال: إن الكفار غير مخاطبين بفروع الشريعة، والأصح خطابهم، وعليه فيكون إعانة على المعصية، فلا فرق بين المسلم والكافر في بيع العصير منهما، فتدبر اهـ ولايرد هذا على الإطلاق والتعليل المار."

(كتاب الحظر والإباحة،ج:6،ص:391،ط:سعيد)

جانوروں کا ڈاکٹر بننا

  جس طرح انسانوں  کی بیماریوں کے علاج کے لیےڈاکٹر بننا جائز اور ضروری ہے اسی طرح جانوروں کی صحت کی حفاظت کے لیےجانوروں کا ڈاکٹر  بننا  جائز ہے،اور  کتے کاعلاج معالجہ کرنابھی جائز ہے ، کیوں کہ حدیث میں ہے کہ ایک پیاسے کتے کو پانی پلانے سے پانی پلانے والی عورت کو جنت ملی ہے، تو اس سے معلوم ہوا کہ علاج کرنا بھی جائز ہے۔

فتح الباری میں ہے:

" ولا شك أن ‌علم ‌الطب من أكثر العلوم احتياجا إلى التفصيل حتى أن المريض يكون الشيء دواءه في ساعة ثم يصير داء له في الساعة التي تليها لعارض يعرض له من غضب يحمي مزاجه مثلا فيتغير علاجه ومثل ذلك كثير فإذا فرض وجود الشفاء لشخص بشيء في حالة ما لم يلزم منه وجود الشفاء به له أو لغيره في سائر الأحوال والأطباء مجمعون على أن المرض الواحد يختلف علاجه باختلاف السن والزمان والعادة والغذاء المتقدم والتأثير المألوف وقوة الطباع ثم ذكر نحو ما تقدم قالوا وعلى تقدير أن يرد التصريح بالاغتسال في جميع الجسد."

(باب الحمی من فیح الجہنم ، 176/10، ط، بیروت)

شرم گاہ کو سہلانا

 مجامعت کی غرض سے بیوی کی شرم گاہ کو شہوت ابھارنے کے لیے سہلانے میں شرعاً کوئی مضائقہ نہیں ہے، جائز ہے۔

فتاوی شامی میں ہے:

"وعن أبي يوسف سألت أبا حنيفة عن الرجل ‌يمس ‌فرج امرأته، وهي تمس فرجه ليتحرك عليها هل ترى بذلك بأسا قال: لا وأرجو أن يعظم الأجر ذخيرة."

(كتاب الحظر والإباحة، ‌‌فصل في النظر والمس، 6/ 367، ط: سعید)

موذی کیڑے مکوڑوں کو مارنا

 جو کیڑے مکوڑے موذی ہو ں  ایسے کیڑوں کو مارنے میں شرعًا کوئی  حرج نہیں  ہے ، لیکن اگر موذی نہ ہو تو ایسے کیڑے سے گھبرانا نہیں  چاہیے،  وہ اللہ  کی مخلوق ہے، اس کو جھاڑو یا کسی چیز سے ہٹا دیا  جائے، اور اگر پھر بھی  گھبراہٹ نہ جاتی ہو تو   "أَعُوْذُ بِكَلِمَاتِ اللّٰهِ التَّامَّاتِ مِنْ شَرِّ مَا خَلَقَ"   پڑھا  كریں، حديث شريف ميں مذكور ہے كہ جو شخص یہ دعا پڑھے گا   اس کو اللہ کے حکم سے کوئی چیز نقصان نہیں پہنچاسکتی۔

موطا امام  مالک میں ہے : 

 أخبرنا أبو مصعب، قال: حدثنا مالك، عن سهيل بن أبي صالح، عن أبيه، عن أبي هريرة: أن رجلا من أسلم، قال: ما نمت هذه الليلة، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: من أي شيء؟ قال: لدغتني عقرب، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: أما إنك لو قلت حين أمسيت: ‌أعوذ ‌بكلمات ‌الله ‌التامات ‌من شر ما خلق، لم يضرك إن شاء الله

(كتاب الشعر، باب ما يؤمر به من التعوذ، ج: 2 ص: 951 ط: دار احياء التراث العربي )

فتاوی ھندیہ میں ہے:

"قتل االزنبور والحشرات، هل يباح في الشرع ابتداء من غير ايذاء؟ و هل يثاب علي قتلهم؟ قال: لايثاب على ذلك و إن لم يوجد منه الإيذاء، فالأولى أن لايتعرض بقتل شيء منه، كذا في جواهر الفتاوى."

(کتاب الكراهية، باب فيما يسع من جراحات بني آدم و الحيوانات و قتل الحيوانات و ما لايسع من ذلك، ج: 5 ص: 441 ط: دار الكتب العلمية)

شادی کے موقعہ پر دلھن کے سر پر قرآن رکھنا

 شادی کے موقع پر دلہن کے سر پر قرآن رکھنے کی شرعاً کوئی حیثیت نہیں ہے، محض ایک رسم ہے، نیز اگر ثواب سمجھ کر رکھا جائے تو  بدعت ہے اس  سے بچنا ضروری ہے۔

كشاف اصطلاحات الفنون والعلوم میں ہے :

"وفي شرح النخبة وشرحه: ‌البدعة ‌شرعا هي اعتقاد ما أحدث على خلاف المعروف عن النبي صلى الله عليه وسلم لا بمعاندة، بل بنوع شبهة. وفي إشارة إلى أنه لا يكون له أصل في الشرع أيضا، بل مجرد إحداث بلا مناسبة شرعية أخذا من قوله صلى الله عليه وسلم "من أحدث في أمرنا هذا ما ليس منه فهو رد" حيث قيده بقوله ما ليس منه. وإنما قيل لا بمعاندة لأن ما يكون بمعاندة فهو كفر."

(حرف الباء، ج : 1، ص : 313، ط : مكتبة لبنان ناشرون - بيروت)

بیوی کا عض تناسل کو منھ میں لینا

 یہ حرکت مکروہِ تحریمی  اور بہیمانہ عمل ہے۔ لہٰذا اس سے احتراز کیا جائے۔

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"في النوازل إذا أدخل الرجل ذكره في فم امرأته قد قيل يكره وقد قيل بخلافه كذا في الذخيرة."

(کتاب الكراهية، باب المتفرقات، 5/ 453، ط:دار الكتب العلمية بيروت)

Tuesday 30 July 2024

کھڑے ہوکر پانی پینا

 کھڑے ہو کر پانی پینے کے متعلق کتبِ حدیث میں  دونوں طرح کی احادیث مروی ہیں، اُن میں سے بعض میں کھڑے ہوکر پانی پینے کی ممانعت  وارد ہوئی ہے، اور بعض میں کھڑے ہوکر پانی پینے کی اجازت موجود ہے، لہٰذا دونوں جانب  کی احادیث کو  مدِ نظر رکھتے ہوئے فقہائے کرام نے یہ حکم بیان فرمایا ہے  کہ  اگر کوئی مجبوری ہو (مثلاً رش ہو  یا جگہ کیچڑوالی ہو، یابیٹھنے کے لیے جگہ میسر نہ ہو) تو ایسی صورت میں  کھڑے ہوکر پانی پینا بلا کراہت جائز ہے، لیکن   بغیر کسی مجبوری کے کھڑے ہوکر پانی پینا  اور اس کی عادت بنا لینا مکروہِ تنریہی (یعنی خلافِ ادب) ہے؛ کیوں  کہ اس سے انسان کے جسم میں بیماریاں پیدا ہونے اور اس كو  ضرر پہنچنے کا اندیشہ ہے؛لہٰذا    بیٹھ کر پانی پینا ہی باعثِ خیر و ثواب ہے، لیکن  اگر کسی نے  بغیر مجبوری کے کھڑے ہوکر پانی پی لیا  تب بھی وہ گناہ گار نہیں کہلائے گا اور نہ ہی  اُس کی پکڑ ہوگی، بلکہ صرف بیٹھ کر پانی پینے  سے جو ثواب ملتا ہے،  اس سے محروم ہوجاۓگا۔

 حضرت علی رضی اللہ عنہ کی جانب منسوب کھڑے ہوکر پانی پینے کا واقعہ کتبِ حدیث میں سنداًومتناً صراحت کےساتھ موجودہے، لیکن اس عمل کو  عمومی اَحوال پر محمول نہیں کیا جاسکتا، دراصل  اہلِ کوفہ  کھڑے ہوکر پانی پینے کو  ناجائز  امر سمجھتے تھے،  صرف ان کی غلط فہمی دور کرنے کے لیے حضرت علی رضی اللہ عنہ نے کھڑے ہوکر پانی پی کر دکھایا؛ تاکہ  ان کے دل و دماغ سے یہ خلجان دور ہوسکے۔ اور  آپ رضی اللہ عنہ کا یہ عمل اس لیے تھا کہ لوگوں کو معلوم ہوجائے کہ یہ جائز ہے، عادت کے طور پر نہیں تھا۔

صحیح بخاری میں ہے:

"حدثنا أبو نعيم: حدثنا مسعر، عن عبد الملك بن ميسرة عن النزال قال: أتى علي رضي الله عنه على باب الرحبة بماء فشرب قائما، فقال: إن ناسا يكره أحدهم أن يشرب و هو قائم، وإني رأيت النبي صلى الله عليه وسلم فعل كما رأيتموني فعلت."

(كتاب الأشربة، باب: الشرب قائما، ج:5، ص:2130، ط: دار ابن كثير)

 فتاوی عالمگیری میں ہے:

"ولا بأس بالشرب قائما، ولا يشرب ماشيا ورخص للمسافرين، ولا يشرب بنفس واحد، ولا من فم السقاء والقربة؛ لأنه لا يخلو عن أن يدخل حلقه ما يضره، كذا في الغياثية."

(کتاب الکراهیة، الباب الحادي عشر فی الکراهة فی الأکل و مایتصل به، ج:5 ص:341 ط: دارالفکر)

فتاوی شامی میں ہے:

"وأما المكروه كراهة تنزيه فإلى الحل أقرب اتفاقا

(قوله: فإلى الحل أقرب) بمعنى أنه لا يعاقب فاعله أصلا، لكن يثاب تاركه أدنى ثواب تلويح، وظاهره أنه ليس من الحلال، ولا يلزم من عدم الحل الحرمة ولا كراهة التحريم، لأن المكروه تنزيها كما في المنح مرجعه إلى ترك الأولى."

(کتاب الحظر و الإباحة، ج:6، ص:337 ط: دارالفکر)

مردہ مرغی سے نکلے انڈے کا حکم

 مردہ مرغی سے صحیح سالم انڈہ نکلےتواس کا کھانا درست ہے۔

مبسوط سرخسی ميں  ہے:

"لو ‌ماتت ‌دجاجة، فوجد في بطنها بيضة، فلا بأس بأكل البيضة عندنا."

(كتاب الأشربة، ج :24، ص: 28، ط: دار المعرفة)

المحیط البرھانی میں ہے:

"إذا ‌ماتت ‌دجاجة وخرج منها بيضة؛ جاز أكلها عند أبي حنيفة رضي الله عنه اشتد قشرها أو لم يشتد."

(كتاب الاستحسان والكراهية، الفصل الثاني عشر في الكراهية في الأكل، 353/5، ط: دار الكتب العلمية)

سسر کا بہو کو خون کا عطیہ دینا

 بہو کو اگر خون کی ضرورت ہو تو سسر کا اسے خون عطیہ کرنا درست ہے، شرعاً اس میں کوئی مضائقہ نہیں ہے،چونکہ خون انسانی بدن کا جزو ہے، اور انسان کے لیے  اپنے جسم کا کوئی بھی جزو عطیہ دینا جائز  نہیں ہے، البتہ اگر کوئی مریض اضطراری حالت میں ہو اور ماہر ڈاکٹر کی نظر میں خون دیے بغیر اس کی جان جانے یا مرض طویل ہوجانے کا اندیشہ ہو اور اس کے علاوہ کوئی اور راستہ بھی نہ ہو تو ایسی صورت  میں خون بطور عطیہ دینا جائز ہوجاتا ہے، اور اس طرح ایک مسلمان کی جان بچانے پر ثواب کی بھی امید ہے۔

"مجمع الأنهر فى شرح ملتقى الأبحر" میں ہے:

"وفي شرح المنظومة ‌الإرضاع ‌بعد ‌مدته ‌حرام؛ لأنه جزء الآدمي والانتفاع به غير ضرورة حرام على الصحيح وأجاز البعض التداوي به؛ لأنه عند الضرورة لم يبق حراما."

(كتاب الرضاع، باب مايحرم بالرضاع، ج:1، ص:376، ط:دار إحياء التراث العربي)

"حاشيه ردالمحتار على الدرالمختار" میں ہے:

"(و لم يبح الإرضاع بعد موته) لأنه جزء آدمي والإنتفاع به لغير ضرورة حرام على الصحيح شرح الوهبانية. وفي البحر: لا يجوز ‌التداوي ‌بالمحرم في ظاهر المذهب، أصله بول المأكول كما مر (قوله: و في البحر) عبارته: وعلى هذا أي الفرع المذكور لا يجوز الإنتفاع به للتداوي. قال في الفتح: وأهل الطب يثبتون للبن البنت أي الذي نزل بسبب بنت مرضعة نفعا لوجع العين. واختلف المشايخ فيه، قيل لا يجوز، وقيل يجوز إذا علم أنه يزول به الرمد.

و لايخفى أن حقيقة العلم متعذرة، فالمراد إذا غلب على الظن و إلا فهو معنى المنع اهـ. ولا يخفى أن ‌التداوي ‌بالمحرم لا يجوز في ظاهر المذهب، أصله بول ما يؤكل لحمه فإنه لايشرب أصلًا. اهـ. (قوله: بالمحرم) أي المحرم استعماله طاهرا كان أو نجسا ح (قوله: كما مر) أي قبيل فصل البئر حيث قال: فرع اختلف في ‌التداوي ‌بالمحرم. وظاهر المذهب المنع كما في إرضاع البحر، لكن نقل المصنف ثمة وهنا عن الحاوي: وقيل يرخص إذا علم فيه الشفاء ولم يعلم دواء آخر كما خص الخمر للعطشان وعليه الفتوى. اهـ. ح."

(کتاب النکاح، باب الرضاع، ج:3،ص:211،ط:سعید)

فقط والله تعالى اعلم

بھیک کے پیسوں سے قربانی کرنا

 بھیک مانگنے کو مستقل اپنا پیشہ بنانا ناجائز اور حرام ہے، شریعتِ مطہرہ میں ا س عمل کی قطعاً اجازت نہیں ہے، البتہ اب تک جو پیسہ آپ اس طرح لوگوں سے حاصل کرچکے ہیں، وہ آپ کی ملکیت ہے، آپ اسے  اپنی مرضی سے خرچ کر سکتے ہیں اور ان پیسوں سے قربانی بھی کر سکتے ہیں۔ 

البتہ آئندہ آپ کو چاہیے کہ  اس عمل سے صدقِ دل سے اللہ کے حضور توبہ و استغفار کریں اور آئندہ یہ عمل نہ کرنے کا پختہ عزم کریں اور کوئی حلال روزگار تلاش کر کے اسے اپنا ذریعہ آمدن بنائیں۔

مسندأحمد میں ہے:

"عن المقدام بن معدي كرب، أنه سمع رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: " ‌ما ‌أكل ‌أحد ‌منكم ‌طعاما أحب إلى الله عز وجل من عمل يديه."

(مسند الشاميين،‌‌ حديث المقدام بن معديكرب الكندي أبي كريمة  عن النبي صلى الله عليه وسلم، ج:28، ص:418، رقم الحديث:17181، ط: مؤسسة الرسالة)

بخاری شریف میں ہے:

"عن المقدام رضي الله عنه، عن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: (‌ما ‌أكل ‌أحد ‌طعاما ‌قط، خيرا من أن يأكل من عمل يده، وإن نبي الله داود عليه السلام كان يأكل من عمل يده)."

(كتاب البيوع، باب: كسب الرجل وعمله بيده، ج:1، ص:278، ط:قديمي)

وفیہ أیضاً:

"عن عبيد الله بن أبي جعفر قال: سمعت حمزة بن عبد الله بن عمر قال: سمعت عبد الله بن عمر رضي الله عنه قال:قال النبي صلى الله عليه وسلم: (ما يزال الرجل يسأل الناس، حتى يأتي يوم القيامة ‌ليس ‌في ‌وجهه ‌مزعة ‌لحم) إلخ."

(كتاب الزكاة،باب: من سأل الناس تكثرا،ج:1، ص:199، ط:قديمي)

عدت میں نامحرم سے بات کرنا

 نامحرم سے بلاضرورت بات چیت کرنے کی ممانعت صرف عدت کے ساتھ ہی خاص نہیں  ہرحال میں عورت کا نامحرم سے بلاضرورت بات چیت کرنا جائز نہیں ہے اورضرورت کے وقت نامحرم سے بات چیت کرنا جائز ہے اگرچہ عورت عدت میں ہی کیوں نہ ہو۔

فتاوى شامی میں ہے :

"فإنا نجيز الكلام مع النساء للأجانب ومحاورتهن عند الحاجة إلى ذلك"ولا نجيز لهن رفع أصواتهن ولا تمطيطها ولا تليينها وتقطيعها لما في ذلك من استمالة الرجال إليهن وتحريك الشهوات منهم، ومن هذا لم يجز أن تؤذن المرأة.اھ"

(کتاب الصلاۃ  ،مطلب : في ستر العورۃ  ،ج :2 ، ص:97،ط: رشیدیه)

الموسوعة الفقهية الكويتية میں ہے:

"إذا كان مبعث الأصوات هو الإنسان، فإن هذا الصوت إما أن يكون غير موزون ولا مطرب، أو يكون مطربا.

فإن كان الصوت غير مطرب، فإما أن يكون صوت رجل أو صوت امرأة، ‌فإن ‌كان ‌صوت ‌رجل: فلا قائل بتحريم استماعه أما إن كان صوت امرأة، فإن كان السامع يتلذذ به، أو خاف على نفسه فتنة حرم عليه استماعه، وإلا فلا يحرم،  ويحمل استماع الصحابة رضوان الله عليهم أصوات النساء حين محادثتهن على هذا، وليس للمرأة ترخيم الصوت وتنغيمه وتليينه، لما فيه من إثارة الفتنة، وذلك لقوله تعالى: {فلا تخضعن بالقول فيطمع الذي في قلبه مرض}."

(أنواع الاستماع، ‌‌ استماع صوت المرأة، ج:4، ص:90، ط:دارالسلاسل - الكويت)

گدھی کا دودھ دوا کے طور پر استعمال کرنا

 گدھی کا دودھ پینا مکروہِ تحریمی ہے ، الا یہ کہ بیماری مہلک یا ناقابلِ برداشت ہو  اور  مسلمان،   ماہر دین دار  طبیب یہ کہہ دے کہ اس بیماری کا علاج کسی بھی حلال چیز سے ممکن نہیں ہے اور یہ یقین ہو جائے کہ  شفا حرام چیز میں ہی منحصر ہے، اور کوئی متبادل موجود نہیں ہےتو مجبوراً بطورِ دوا و علاج بقدرِ ضرورت حرام اشیاء کے استعمال کی گنجائش ہوتی ہے،  ورنہ نہیں،لہذا اگر ماہر ،دین دار ڈاکٹر کسی شخص کے متعلق یہ تجویز کردے کہ اس کی بیماری کا علاج   گدھی کے دودھ کےعلاوہ میں نہیں ہے تو بقدرِ ضرورت دین دار،  ڈاکٹر کی تجویز کے مطابق  گدھی کے دودھ  کوبطورِ دوا استعمال کرنے کی گنجائش ہوگی۔

فتاوی شامی میں ہے:

"اختلف في التداوي بالمحرم، وظاهر المذهب المنع كما في رضاع البحر، لكن نقل المصنف ثمة وهنا عن الحاوي: وقيل: يرخص إذا علم فيه الشفاء ولم يعلم دواء آخر كما رخص الخمر للعطشان، وعليه الفتوى.

مطلب في التداوي بالمحرم (قوله: ورده في البدائع إلخ) قدمنا في البيع الفاسد عند قوله ولبن امرأة أن صاحب الخانية والنهاية اختارا جوازه إن علم أن فيه شفاء ولم يجد دواء غيره قال في النهاية: وفي التهذيب يجوز للعليل شرب البول والدم والميتة للتداوي إذا أخبره طبيب مسلم أن فيه شفاءه ولم يجد من المباح ما يقوم مقامه، وإن قال الطبيب: يتعجل شفاؤك به فيه وجهان، وهل يجوز شرب العليل من الخمر للتداوي؟ فيه وجهان، وكذا ذكره الإمام التمرتاشي وكذا في الذخيرة، وما قيل: إن الاستشفاء بالحرام حرام غير مجرى على إطلاقه وأن الاستشفاء بالحرام إنما لايجوز إذا لم يعلم أن فيه شفاء، أما إن علم وليس له دواء غيره يجوز، ومعنى قول ابن مسعود - رضي الله عنه - لم يجعل شفاؤكم فيما حرم عليكم يحتمل أن يكون قال ذلك في داء عرف له دواء غير المحرم؛ لأنه حينئذٍ يستغني بالحلال عن الحرام، ويجوز أن يقال: تنكشف الحرمة عند الحاجة فلايكون الشفاء بالحرام، وإنما يكون بالحلال اهـ نور العين من آخر الفصل التاسع والأربعين".

(‌مطلب ‌في ‌التداوي ‌بالمحرم، ج:5، ص:228، ط: دار الفکر)