https://follow.it/amir-samdani?action=followPub

Wednesday, 27 November 2024

بغیر ولی کے نکاح

 عاقلہ بالغہ  لڑکی اپنے والدین کی رضامندی کے بغیر اپنا نکاح خود کرے تو شرعاً ایسا نکاح منعقد ہوجاتا ہے،  اگرچہ والدین کی رضامندی کے بغیر نکاح کرنا شرعاً و اخلاقاً پسندیدہ نہیں ہے،  اگر لڑکی نے  ولی کی اجازت کے بغیر   غیر کفو میں نکاح کیا   تو   اولاد ہونے سے پہلے پہلے لڑکی کے اولیاء کو  عدالت سے  رجوع کرکے اس نکاح کو فسخ کرنے کا اختیار ہوتا ہے، اور اگر کفو میں نکاح کیا ہے توپھر لڑکی کے اولیاء   کو وہ نکاح  فسخ کرنے کا اختیار نہیں ہوتا ،  اور کفو کا مطلب یہ ہے کہ  لڑکا دین، دیانت، مال ونسب، پیشہ اور تعلیم میں لڑ کی کے ہم پلہ ہو ، اس سے کم نہ ہو، نیز کفاءت میں مرد کی جانب کا اعتبار ہے یعنی لڑکے کا لڑکی کے ہم پلہ اور برابر ہونا ضروری ہے، لڑکی کا لڑکے کے برابر ہونا ضروری نہیں ہے۔

قرآن کریم کی آیت کریمہ بھی اسی جانب اشارہ کرتی ہے کہ عاقلہ بالغہ لڑکی کا نکاح اس کی رضاسے ہونا چاہیے، اور عاقلہ بالغہ عورت اگر مناسب جگہ اپنی رضا سے نکاح کرتی ہے تو اولیاء بلاکسی شرعی سبب کے اسے روکنے کا اختیار نہیں رکھتے ،چنانچہ سورہ بقرہ میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:

{وَاِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَاۗءَ فَبَلَغْنَ اَجَلَهُنَّ فَلَا تَعْضُلُوْھُنَّ اَنْ يَّنْكِحْنَ اَزْوَاجَهُنَّ اِذَا تَرَاضَوْا بَيْنَهُمْ بِالْمَعْرُوْفِ ۭ ذٰلِكَ يُوْعَظُ بِهٖ مَنْ كَانَ مِنْكُمْ يُؤْمِنُ بِاللّٰهِ وَالْيَوْمِ الْاٰخِرِ ۭ ذٰلِكُمْ اَزْكٰى لَكُمْ وَاَطْهَرُ ۭ وَاللّٰهُ يَعْلَمُ وَاَنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ} [البقرة: 232]

ترجمہ :" اور جب طلاق دی تم نے عورتوں کو پھر پورا کر چکیں اپنی عدت کو تو اب نہ روکو ان کو اس سے کہ نکاح کرلیں اپنے ان ہی خاوندوں سے جب کہ راضی ہو جاویں آپس میں موافق دستور کے، یہ نصیحت اس کو کی جاتی ہے جو کہ تم میں سے ایمان رکھتا ہے اللہ پر اور قیامت کے دن پر، اس میں تمہارے واسطے بڑی ستھرائی ہے اور بہت پاکیزگی، اور اللہ جانتا ہے اور تم نہیں جانتے۔"۔

اس آیت کریمہ کی تفسیر میں مولانا مفتی محمد شفیع صاحب رحمہ اللہ لکھتے ہیں :

"مطلقہ عورتوں کو اپنی مرضی کی شادی کرنے سے بلاوجہ شرعی روکنا حرام ہے:

دوسری آیت میں اس ناروا ظالمانہ سلوک کا انسداد کیا گیا ہے جو عام طور پر مطلقہ عورتوں کے ساتھ کیا جاتا ہے  کہ ان کو دوسری شادی کرنے سے روکا جاتا ہے، پہلا شوہر بھی عموماً اپنی مطلقہ بیوی کو دوسرے شخص کے نکاح میں جانے سے روکتا اور اس کو اپنی عزت کے خلاف سمجھتا ہے اور بعض خاندانوں میں لڑکی کے اولیاء بھی اس کو دوسری شادی کرنے سے روکتے ہیں اور ان میں بعض اس طمع میں روکتے ہیں کہ اس کی شادی پر ہم کوئی رقم اپنے لیے حاصل کرلیں، بعض اوقات مطلقہ عورت پھر اپنے سابق شوہر سے نکاح پر راضی ہوجاتی ہے مگر عورت کے اولیاء واقرباء کو طلاق دینے کی وجہ سے ایک قسم کی عداوت اس سے ہوجاتی ہے، وہ اب دونوں کے راضی ہونے کے بعد بھی ان کے باہمی نکاح سے مانع ہوتے ہیں، آزاد عورتوں کو اپنی مرضی کی شادی سے بلاعذر شرعی روکنا خواہ پہلے شوہر کی طرف سے ہو یا لڑکی کے اولیاء کی طرف سے بڑا ظلم ہے، اس ظلم کا انسداد اس آیت میں فرمایا گیا ہے ... اس آیت کے خطاب میں وہ شوہر بھی داخل ہیں جنہوں نے طلاق دی ہے اور لڑکی کے اولیاء بھی، دونوں کو یہ حکم دیا گیا کہ {فَلَا تَعْضُلُوْهُنَّ اَنْ يَّنْكِحْنَ اَزْوَاجَهُنَّ اِذَا تَرَاضَوْا بَيْنَهُمْ بِالْمَعْرُوْفِ} یعنی مت روکو مطلقہ عورتوں کو اس بات سے کہ وہ اپنے تجویز کیے ہوئے شوہروں سے نکاح کریں خواہ پہلے ہی شوہر ہوں جنہوں نے طلاق دی تھی یا دوسرے لوگ، مگر اس کے ساتھ یہ شرط لگا دی گئی {اِذَا تَرَاضَوْا بَيْنَهُمْ بِالْمَعْرُوْفِ} یعنی جب دونوں مرد وعورت شرعی قاعدہ کے مطابق رضامند ہوجائیں تو نکاح سے نہ روکو جس میں اشارہ فرمایا گیا کہ اگر ان دونوں کی رضامندی نہ ہو کوئی کسی پر زور زبردستی کرنا چاہے تو سب کو روکنے کا حق ہے، یا رضامندی بھی ہو مگر شرعی قاعدہ کے موافق نہ مثلاً بلا نکاح آپس میں میاں بیوی کی طرح رہنے پر رضامند ہوجائیں یا تین طلاقوں کے بعد ناجائز طور پر آپس میں نکاح کرلیں یا ایام عدت میں دوسرے شوہر سے نکاح کا ارادہ ہو تو ہر مسلمان کو بالخصوص ان لوگوں کو جن کا ان مرد وعورت کے ساتھ تعلق ہے روکنے کا حق حاصل ہے، بلکہ بقدرِ استطاعت روکنا واجب ہے۔

اسی طرح کوئی لڑکی بلا اجازت اپنے اولیاء کے اپنے کفو کے خلاف دوسرے کفو میں نکاح کرنا چاہے یا اپنے مہر مثل سے کم پر نکاح کرنا چاہے جس کا اثر خاندان پر پڑتا ہے جس کا اس کو حق نہیں تو یہ رضا مندی بھی قاعدہ شرعی کے مطابق نہیں، اس صورت میں لڑکی کے اولیاء کو اس نکاح سے روکنے کا حق حاصل ہے {اِذَا تَرَاضَوْا} کے الفاظ سے اس طرف بھی اشارہ ہوگیا کہ عاقلہ بالغہ لڑکی بغیر اس کی رضا اجازت کے نہیں ہوسکتا"۔(معارف القرآن 1/575.576مکتبہ معارف القرآن )

نیزاحناف کا مستدل اس باب میں وہ احادیثِ مبارکہ  بھی ہیں جن میں نبی کریم ﷺنے عورت کے عاقلہ بالغہ ہونے کی صورت میں ا س کے  اولیاء کو عورت سے اس کی رائے اور رضامندی معلوم کرنے کا حکم دیاہے، نیز ان ہی روایات سے یہ بھی معلوم ہوتاہے کہ ولی اور سرپرست عاقلہ بالغہ کی مرضی کے خلاف جبر واکراہ کرکے کسی سے اس کا نکاح منعقد نہیں کرسکتے ۔ احناف کے حدیثی مستدلات میں سے دوروایات ذیل میں ذکر کی جاتی ہیں :

(1)"الثيب أحق بنفسها من وليّها، والبكر يستأذنها أبوها في نفسها وإذنها صماتها". (رواه مسلم عن ابن عباس رضي الله عنهما)

ترجمہ:شادی شدہ عورت اپنے نفس کی اپنے ولی سے زیادہ حق دار ہے اور باکرہ نوجوان عورت سے اس کے نفس کے بارے میں اس کا باپ اجازت طلب کرے گا اور اس کا خاموش رہنا اس کی طرف سے اجازت ہے ۔

(2) عن أبي سلمة أن أبا هريرة حدّثهم أنّ النبيّ صلى الله عليه وسلم قال : لاتنكح الأيم حتى تستأمر، ولاتنكح البكر حتى تستأذن، قالوا: يا رسول الله وكيف إذنها؟ قال: أن تسكت". (صحیح البخاري)

ترجمہ: شوہر دیدہ  عورت (خواہ شوہر کا انتقال ہوگیا ہو یا اس نے طلاق دے دی ہو)کا نکاح اس کی اجازت کے بغیر نہ کیا جائے، اور نہ باکرہ کا بغیر اس کی اجازت کے، صحابہ رضی اللہ عنہم نے پوچھا یا رسول اللہ! باکرہ کی اجازت کس طرح معلوم ہوسکتی ہے؟ فرمایا کہ اس کا خاموش رہنا ہی اس کی اجازت ہے۔

علامہ نواب قطب الدین خان دہلویؒ ان احادیث کی شرح میں لکھتے ہیں :
" عورت سے اس کے نکاح کی اجازت حاصل کرنے کے سلسلے میں حدیث نے باکرہ کنواری اور ثیب بیوہ کا ذکر اس فرق کے ساتھ کیا ہے کہ ثیب کے بارے میں تو یہ فرمایا گیا کہ جب تک اس کا حکم حاصل نہ کر لیا جائے اور باکرہ کے بارے میں یہ الفاظ ہیں کہ جب تک کہ اس کی اجازت حاصل نہ کر لی جائے؛ لہذا حکم اور اجازت کا یہ فرق اس لیے ظاہر کیا گیا ہے کہ ثیب یعنی بیوہ عورت اپنے نکاح کے سلسلہ میں زیادہ شرم و حیاء نہیں کرتی، بلکہ وہ خود کھلے الفاظ میں اپنے نکاح کا حکم کرتی ہے یا کم سے کم صریح اشارات کے ذریعہ اپنی خواہش کا ازخود اظہار کر دیتی ہے اور اس بارے میں کوئی خاص جھجک نہیں ہوتی، اس کے برخلاف باکرہ یعنی کنواری عورت چوں کہ بہت زیادہ شرم و حیاء کرتی ہے؛ اس لیے وہ نہ تو کھلے الفاظ میں اپنے نکاح کا حکم کرتی ہے اور نہ صریح اشارات کے ذریعہ ہی اپنی خواہش کا اظہار کرتی ہے، ہاں جب اس کے نکاح کی اجازت اس سے لی جائے تو وہ اپنی رضا مندی و اجازت دیتی ہے، بلکہ زیادہ تر تو یہ ہوتا ہے کہ طلبِ اجازت کے وقت وہ زبان سے اجازت دینا بھی شرم کے خلاف سمجھتی ہے اور اپنی خاموشی و سکوت کے ذریعہ ہی اپنی رضا مندی کا اظہار کر دیتی ہے۔

اس حدیث سے تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ عورت کے حکم یا اجازت کے بغیر نکاح جائز نہیں ہوتا، لیکن فقہاء کے یہاں اس بارے میں تفصیل ہے اور وہ یہ کہ تمام عورتوں کی چار قسمیں ہیں:

اول ثیب بالغہ، یعنی وہ بیوہ عورت جو بالغ ہو، ایسی عورت کے بارے متفقہ طور پر تمام علماء کا قول یہ ہے کہ اس کا نکاح اس کی اجازت کے بغیر کرنا جائز نہیں ہے، بشرطیکہ وہ عاقلہ ہو یعنی دیوانی نہ ہو، اگر عاقلہ نہ ہو گی تو ولی کی اجازت سے اس کا نکاح ہو جائے گا

دوم باکرہ صغیرہ، یعنی وہ کنواری لڑکی جو نابالغ ہو ، اس کے بارے میں بھی تمام علماء کا متفقہ طور پر یہ قول ہے کہ اس کے نکاح کے لیے اس کی اجازت کی ضرورت نہیں، بلکہ اس کا ولی اس کی اجازت کے بغیر اس کا نکاح کر سکتا ہے۔

سوم ثیب صغیرہ، یعنی وہ بیوہ جو بالغ نہ ہو اس کے بارے میں حنفی علماء کا تو یہ قول ہے کہ اس کا نکاح اس کی اجازت کے بغیر ہو سکتا ہے، لیکن شافعی علماء کہتے ہیں کہ اس کا نکاح اس کی اجازت کے بغیر جائز نہیں ہے۔

۔چہارم باکرہ بالغہ، یعنی وہ کنواری جو بالغہ ہو ، اس کے بارے میں حنفی علماء تو یہ کہتے ہیں کہ اس کا نکاح اس کی اجازت کے بغیر جائز نہیں، لیکن شافعی علماء کے نزدیک جائز ہے۔

گویا تفصیل سے یہ بات واضح ہوئی کہ حنفی علماء کے نزدیک ولایت کا مدار صغر پر ہے، یعنی ان کے نزدیک ولی کو عورت کی اجازت کے بغیر نکاح کر دینے کا حق اسی صورت میں حاصل ہو گا جب کہ وہ کم سن یعنی نابالغ ہو، خواہ وہ باکرہ کنواری ہو یا ثیب بیوہ ہو، جب کہ شافعی علماء کے نزدیک ولایت کا مدار بکارت پر ہے، یعنی ان کے نزدیک ولی کو عورت کی اجازت کے بغیر نکاح کر دینے کا حق اس صورت میں حاصل ہوگا جب کہ وہ باکرہ ہو خواہ بالغ ہو یا نابالغ ہو ۔ لہذا یہ حدیث حنفیہ کے نزدیک بالغہ پر محمول ہے، خواہ وہ ثیب ہو یا باکرہ ہو، اور آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشادِ گرامی حدیث: "ولاتنکح البکر حتی تستأذن"  (کنواری عورت کا نکاح نہ کیا جائے جب تک کہ اس کی اجازت حاصل نہ کر لی جائے) شوافع کے قول کے خلاف ایک واضح دلیل ہے"۔

باقی وہ روایات جو حضرات شوافع کا مستدل ہیں، جن میں نبی کریم ﷺنے نکاح کو ولی کی اجازت پر موقوف قرار دیا ہے، یا ولی کی اجازت کے بغیر نکاح کو باطل قرار دیا ہے، احناف کے نزدیک ان روایا ت کا تعلق یا تو نابالغہ اور غیر عاقلہ سے ہے، یعنی کم سن لڑکی اور جنون میں مبتلا دیوانی عورت کا نکاح اس کے ولی کی اجازت کے بغیر نہیں ہوتا۔اور اگر ان روایات کو ان کے ظاہری الفاظ کے ساتھ عموم پر محمول کریں تو اس صورت میں  امام ابوحنیفہ ؒکے ہاں ان روایات میں کمال کی نفی کی گئی ہے، یعنی یہ روایات  نفیِ کمال پر محمول ہیں کہ اصل نکاح منعقد ہوجائے گا، لیکن افضل اور بہتر یہ ہے کہ عورت ولی کی اجازت سے اپنا نکاح کرے۔

نیز محدثین نے اِن روایات پر جن میں ولی کی اجازت کے بغیر نکاح کو باطل قرار دیاگیا ہے،  فنی اعتبار سے بھی کلام کیاہے۔اور ان کی حیثیت یہ لکھی ہے کہ یہ روایات  اس درجہ کی نہیں ہیں کہ انہیں امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے موقف کے مقابلے میں بطور دلیل اختیار کیا جا سکے۔ جیساکہ عمدۃ القاری شرح صحیح البخاری میں تفصیل موجود ہے۔

فقہی عبارات درج ذیل ہیں :

فتاوی شامی میں ہے:

"(فنفذ نكاح حرة مكلفة  بلا) رضا (ولي) والأصل أن كل من تصرف في ماله تصرف في نفسه وما لا فلا". (3/ 55، کتاب النکاح ، باب الولی، ط: سعید)

بدائع الصنائع  میں ہے:

"الحرة البالغة العاقلة إذا زوجت نفسها من رجل أو وكلت رجلاً بالتزويج فتزوجها أو زوجها فضولي فأجازت جاز في قول أبي حنيفة وزفر وأبي يوسف الأول سواء زوجت نفسها من كفء أو غير كفء بمهر وافر أو قاصر غير أنها إذا زوجت نفسها من غير كفء فللأولياء حق الاعتراض". (2/ 247،کتاب النکاح، فصل: ولایة الندب والاستحباب في النکاح، ط: سعید )

(فتاوی عالمگیری، ۱/۲۹۲، کتاب النکاح، الباب الخامس في الأکفاء في النکاح، ط: رشیدیة)

Saturday, 23 November 2024

طلاق کنایہ

 طلاق کے الفاظِ کنایہ سے مراد وہ الفاظ ہیں جو اصلاً طلاق کے لیے وضع نہ ہوں، بلکہ ان میں طلاق اور غیر طلاق دونوں کا احتمال ہو، ان الفاظِ کنائی سے طلاق واقع ہونے کے لیے یہ ضروری ہے کہ طلاق کا معنی مراد لیا جائے،  بعض الفاظ میں یہ معنی نیت ہی کے ذریعے مراد لیا جاتا ہے  اور بسا اوقات مذاکرۂ  طلاق، دلالتِ حال، عرف اور الفاظِ کنائی کے صریح بن جانے کی وجہ سے بغیر نیت کے بھی طلاق واقع ہوجاتی ہے،  الفاظِ کنائی بہت سارے ہیں، یہاں سب کا احاطہ و شمار ممکن نہیں ہے،  البتہ کتب فقہ کی روشنی میں چند الفاظ اور حالتوں کے اعتبار سے حکم مندرجہ ذیل ہے:

حضراتِ فقہاء نے لکھا ہے کہ کنایہ کے طور پر جن الفاظ سے طلاق دی جاتی ہے وہ تین قسموں پر مشتمل ہیں:

1- وہ الفاظ جن میں طلاق کے معنی کا بھی احتمال ہے ، اور طلاق کے مطالبہ کو مسترد کرنے کا بھی احتمال ہے ، مثلاً : بیوی سے کہا کہ : ’’ تو گھر سے نکل جا ، تو یہاں سے چلی جا ، تو اُٹھ کھڑی ہو ، تو میرے سامنے سے ہٹ جا ، تو پردہ کرلے ‘‘ وغیرہ ،  تو اِن الفاظ میں اگر شوہر طلاق کی نیت کرے تو وہ بھی مراد ہوسکتی ہے ، اور یہ بھی مطلب ہوسکتا ہے کہ شوہر محض دفع الوقتی کے  لیے اُس کو اپنے سامنے سے ہٹانے کا حکم دے رہا ہے ۔

2-وہ الفاظ جن میں طلاق کے ساتھ ساتھ طعن وتشنیع کے معنی مراد  لیے جاسکتے ہیں ، مثلاً بیوی سے کہا کہ : ’’ تو  خالی ہے ، تو الگ تھلگ ہے، تو کسی کام کی نہیں ‘‘ وغیرہ ۔ تو اِن الفاظ میں طلاق بھی  مراد ہوسکتی ہے،  اور بیوی کی توہین وتحقیر بھی مراد لی جاسکتی ہے ۔

3-   ایسے الفاظ جن میں نہ تو تردید مراد ہو ، اور نہ ہی طعن وتشنیع مراد ہو ؛ بلکہ زیادہ تر وہ الفاظ طلاق کے مطالبہ کے جواب میں استعمال کیے جاتے ہوں ، اگرچہ وہ طلاق کے  لیے موضوع نہ ہوں ، مثلاً کہا کہ : ’’ میں نے تجھ کو جدا کردیا ‘‘ وغیرہ ۔ ( اِس قسم کی مثال میں فقہاء نے ’’ تو آزاد ہے ‘‘  وغیرہ جیسے الفاظ بھی لکھے ہیں ، مگر اَب وہ عرف میں صرف طلاق کے  لیے استعمال ہونے لگے ہیں ، اس  لیے ان الفاظ سے بہرحال بلانیتِ  طلاق کے وقوع کا حکم ہوگا ۔

آپ نے جو اپنی بیوی کو  ”چلی جاؤ“ کہا میری طرف سے تم آزاد ہو کہاتو یہ طلاق کے کنایہ الفاظ میں سے ہے، اور اس سے طلاق واقع ہونے کے لیے طلاق کی نیت کرنا ضروری ہے، چوں کہ  بیوی کو  مذکورہ الفاظ کہتے ہوئے آپ کی نیت اگر طلاق دینے کی تھی توایک طلاق بائن واقع ہوگیی دوبارہ نکاح ہوسکتا ہے ۔اور اگر طلاق دینے کی نیت نہیں تھی تو طلاق واقع نہیں ہوئی ، نکاح بدستور قائم ہے۔

اللباب في شرح الكتاب میں ہے:

 والكنايات ثلاثة أقسام: قسم منها يصلح جوابا ولا يصلح رداً ولا شتما، وهي ثلاثة ألفاظ: أمرك بيدك، اختاري، اعتدي، ومرادفها، وقسم يصلح جوابا وشتما ولا يصلح رداً، وهي خمسة ألفاظ: خلية، برية، بتة، بائن، حرام، ومرادفها، وقسم يصلح جوابا ورداً ولا يصلح سباً وشتما؛ وهي خمسة أيضا: اخرجي، اذهبي، اغربي، قومي، تقنعي، ومرادفها، ففي حالة الرضا لا يقع الطلاق بشيء منها إلا بالنية، والقول قوله في عدم النية، وفي حالة مذاكرة الطلاق يقع بكل لفظ لا يصلح للرد وهو القسم الأول والثاني، وفي حالة الغضب لا يقع بكل لفظ يصلح للسب والرد وهو القسم الثاني والثالث، ويقع بكل لفظ لا يصلح لهما بل للجواب فقط وهو القسم الأول. كما في الإيضاح.

(3 / 44، کتاب الطلاق، ط؛ المکتبۃ العلمیہ)

Monday, 18 November 2024

کیا حضرت مریم سے آخرت میں حضور کا نکاح ہوگا

 حدیث ضعیف و بعض آثار سے معلوم ہوتا ہے کہ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواجِ مطہرات کے علاوہ مریم بنت عمران، کلثوم اختِ موسی علیہ السلام، اور فرعون کی اہلیہ آسیہ جنت میں رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج میں شامل ہوں گی۔

’’عن ابي أمامة قال: سمعت رسول الله صلي عليه وسلم يقول لعائشة: أشعرت أن الله عز و جل زوجني في الجنة مريم بنت عمران، و كلثوم أخت موسي، و امرأة فرعون‘‘. (المعجم الكبير للطبراني، ٨/ ٢٥٨، رقم: ٨٠٠٦، ط: دار إحياء التراث العربي)

اس سند میں ایک راوی خالد بن یوسف ضعیف ہیں۔

’’و جاء في بعض الآثار: أن مريم و آسية زوجا رسول الله صلي الله عليه وسلم في الجنة‘‘. ( روح المعاني، سورة التحريم، تفسير ابن كثير، سورة التحريم)

’’ أخرج الطبراني عن سعد بن جنادة، قال: قال رسول الله صلي الله عليه وسلم: إن الله زوجني في الجنة بنت عمران، و امرأة فرعون، و أخت موسي‘‘. ( الدر المنثور، سورة التحريم، ط: دار الكتب العلمية) 

Sunday, 17 November 2024

جاب کے مقام پر قصر یاپوری نماز پڑھیں

 اگر کوئی  شخص اپنے وطن سے سوا ستتر  کلو میٹر یا اس سے زیادہ   دور  ڈیوٹی  کے فرائض سرانجام دے رہا ہو  ،  تو وہ  اس کا وطنِ اصلی  تو نہیں،  البتہ اگر   اس کا  وہاں  کمرہ ہے اور  سامان ہے، نیز  اس  نے وہاں ایک مرتبہ 15 دن اور 15 راتیں  یا اس سے زیادہ  دن اقامت کی نیت سے رہا ہو تو وہ جگہ اس  کے لیے وطنِ اقامت  ہوجاتاہے،  اس لیے وہ شخص وہاں پوری نماز پڑھے گا، اور اگر  اس  شخص نے  وہاں  ایک مرتبہ بھی 15 دن  اور پندرہ راتیں  اقامت کی نیت سے نہیں رہا تو  وہ جگہ اس  کے لیے وطنِ اقامت نہیں ہوتا، لہذا  وہ  وہاں مسافر والی نماز یعنی قصر پڑھے گا۔

لہذا صورتِ  مسئولہ میں سائل کی جہاں  ڈیوٹی ہے، وہ  اس کے وطنِ اصلی سے   چوں کہ مسافت شرعی پر  ،اس لیے  وہاں مسافر والی نماز یعنی   قصر  پڑھے گا ،   البتہ سائل نے اگر   وہاں ایک مرتبہ 15 دن(چوبیس گھنٹے کے حساب سے) اقامت  کی نیت سے رہاہے  تو وہ جگہ  اس  کے لیے وطنِ اقامت ہے،  سائل  وہاں پوری نماز پڑھے گا۔

فتاوی شامی میں ہے:

"(من خرج من عمارة موضع إقامته) من جانب خروجه (قاصدًا) و لو كافرًا، ومن طاف الدنيا بلا قصد لم يقصر (مسيرة ثلاثة أيام ولياليها) من أقصر أيام السنة و لا(صلى الفرض الرباعي ركعتين) وجوبا لقول ابن عباس: إن الله فرض على لسان نبيكم صلاة المقيم أربعًا (حتى يدخل موضع مقامه)."

(کتاب الصلوۃ، باب صلوۃ المسافر، ج:2، ص:122/ 123، ط: سعید)

وفیہ ایضاً:

"(الوطن الأصلي) هو موطن ولادته أو تأهله أو توطنه..(قوله الوطن الأصلي) ويسمى بالأهلي ووطن الفطرة والقرار ح عن القهستاني...(قوله ويبطل وطن الإقامة) يسمى أيضا الوطن المستعار والحادث وهو ما خرج إليه بنية إقامة نصف شهر سواء كان بينه وبين الأصلي مسيرة السفر أو لا، وهذا رواية ابن سماعة عن محمد وعنه أن المسافة شرط والأول هو المختار عند الأكثرين قهستاني."

(کتاب الصلوۃ، باب صلوۃ المسافر، ‌‌مطلب في الوطن الأصلي ووطن الإقامة، ج:2، ص:131، ط: سعید)

Saturday, 16 November 2024

نجاست غلیظہ اور خفیفہ کی مقدار کتنی معاف ہے

  اگر بدن یاکپڑےپر لگنے والی نجاست غلیظہ ہواور نجاست غلیظہ پتلی اور بہنے والی نجاست ہو، جیسے: آدمی کا پیشاب وغیرہ،تو ایسی صورتِ میں پھیلاؤ کا اعتبار ہے، لہذا اگر پھیلاؤ میں ہتھیلی کی گہرائی کے برابر ہے،اوروہ ایک درہم کی مقدار  (یعنی ہاتھ کی ہتھیلی کے گڑھے) سے کم یا ایک درہم کے برابر  ہو تو اگرچہ اس مقدارمیں بھی نجاست کو دھولینا چاہیے، تاہم  اگرکسی کےجسم پراس سےزیادہ ناپاکی لگی ہواوراسےعلم ہوتوناپاکی کی حالت میں نماز پڑھنا مکروہ ہے،لیکن اگراسےناپاکی کاعلم نہ تھااورنماز پڑھ لی توبلاکراہت نماز درست ہوگی،اوراگرایک درہم کی مقدار سے زائد ہوتو   نماز نہیں ہوگی،اگر نجاست غلیظہ گاڑھی ہے، جیسے: پاخانہ وغیرہ تو وزن کا اعتبار ہوگا، لہذا اگر وزن میں ساڑھے چار ماشہ یا اس سے کم ہو، تو معاف ہے، اگر اس مقدار سے زائد ہو، تو معاف نہیں ہے  اور اگربدن یاکپڑےپرلگنےوالی نجاست ِ خفیفہ ہو،جیسے:حرام پرندوں کی بیٹ وغیرہ،تو  بدن یاکپڑےکےجس حصے میں لگی ہو اگر اس حصے کے چوتھائی  سے کم ہو تو معاف ہے،یعنی لاعلمی میں نماز پڑھنے کی صورت میں نماز ہوجاۓ گی، ورنہ جان بوجھ کر پڑھنا مکروہ ہےاور اگر  چوتھائی یا اس سے زیادہ ہو تو معاف نہیں ، نماز توڑ کر نجاست کودھو کرنمازادا کرناواجب ہے،اور اگر اسی طرح نماز پڑھ لی تو  نماز واجب الاعادہ  ہوگی۔ 

فتاویٰ ہندیہ میں ہے:

"وهي نوعان (الأول) المغلظة وعفي منها قدر الدرهم واختلفت الروايات فيه والصحيح أن يعتبر بالوزن في النجاسة المتجسدة وهو أن يكون وزنه قدر الدرهم الكبير المثقال وبالمساحة في غيرها وهو قدر عرض الكف . هكذا في التبيين والكافي وأكثر الفتاوى والمثقال وزنه عشرون قيراطا وعن شمس الأئمة يعتبر في كل زمان بدرهمه والصحيح الأول. هكذا في السراج الوهاج ناقلا."

(كتاب الطهارة، الفصل الثاني في الأعيان النجسة، ج:1، ص:45، ط: دار الفكر بيروت)

Friday, 15 November 2024

اسلام میں لڑکی کی شادی کی عمر کیا ہے

  اسلام میں لڑکے یا لڑکی کے لیے شادی کی کوئی خاص عمر متعین و مقرر  نہیں کی گئی ہے، کسی بھی عمر میں شادی کرائی جاسکتی ہے، البتہ بلوغت سے پہلے لڑکے/ لڑکی خود سے شادی نہیں کرسکتے،  بلکہ  ولی  کو ان کی شادی کرانے کا حق ہوتا ہے، چناں چہ  قرآن پاک میں ہے: 

{وَاللَّائِي يَئِسْنَ مِنَ الْمَحِيضِ مِن نِّسَائِكُمْ إِنِ ارْتَبْتُمْ فَعِدَّتُهُنَّ ثَلَاثَةُ أَشْهُرٍ وَاللَّائِي لَمْ يَحِضْنَ}

 اس آیت میں ان لڑکیوں کی عدت طلاق تین ماہ بیان  کی  گئی  ہے، جن کو ابھی تک حیض نہیں  آیا، ظاہر ہے کہ  عدت کا سوال طلاق کے بعد ہی  ہوسکتا ہے، اور   جب تک  نکاح  صحیح  نہ  ہو  طلاق کا کوئی احتمال ہی نہیں، اس لیے اس آیت  نے نابالغ لڑکیوں کے نکاح کو واضح طور پر جائز قرار دیا ہے، اسی طرح حدیث شریف میں ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی شادی(نکاح) چھ سال کی عمر میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہوئی، ہاں  مباشرت کے حوالے سے اسلام میں یہ قید لگائی گئی ہے اگر لڑکی جماع کی متحمل نہ ہو تو شوہر کو اس سے صحبت کرنے کی اجازت نہیں ہوگی،  اور اگر وہ جماع کی متحمل ہو نیز کسی مرض کا اندیشہ بھی نہ ہو تو ایسی صورت میں شوہر کو اس سے صحبت کرنے  کی اجازت  ہے۔

مذکورہ بالا تفصیل کی رو سے صورتِ مسئولہ میں لڑکی کی شادی اٹھارہ سال سے کم عمر میں کرانا جائز ہے، البتہ صحبت کے حوالے سے دیکھا جائے  گا کہ اگر وہ جماع کی متحمل ہے تو پھر اس سے جسمانی صحبت  بھی جائز ہوگی۔

صحیح مسلم میں ہے:

"عن عائشة، قالت: تزوجني النبي صلى الله عليه و سلم و أنا بنت ست سنين، و بنى بي و أنا بنت تسع سنين."

(کتاب النکاح، ص:456، ج:1، ط:قدیمی)

فتاوی عالمگیری میں ہے:

"و اختلفوا في وقت الدخول بالصغيرة فقيل: لايدخل بها ما لم تبلغ، و قيل: يدخل بها إذا بلغت تسع سنين، كذا في البحر الرائق. و أكثر المشايخ على أنه لا عبرة للسن في هذا الباب وإنما العبرة للطاقة إن كانت ضخمة سمينة تطيق الرجال و لايخاف عليها المرض من ذلك؛ كان للزوج أن يدخل بها، و إن لم تبلغ تسع سنين، و إن كانت نحيفةً مهزولةً لاتطيق الجماع و يخاف عليها المرض لايحلّ للزوج أن يدخل بها، و إن كبر سنّها و هو الصحيح."

(کتاب النکاح، الباب الرابع فی الأولیاء فی النکاح، ص:287، ج:1، ط:رشیدیه)

Tuesday, 5 November 2024

مفلس بیٹے کو سودی رقم سے کاروبار کروانا

 سودی رقم کو اپنے بیٹے کے لیے کاروبار میں لگانا جائز نہیں ، اگر چہ وہ مفلس ہو بلکہ اسے جلد از جلد ثواب کی نیت کے بغیر مستحق زکوٰۃ افراد کو دینا ضروری ہے۔ جس طرح سائل اپنی زکوٰۃ اپنے مفلس اور مستحق بیٹے کو نہیں دے سکتا ، اسی طرح مذکورہ حرام رقم بھی اپنے بیٹے کو دینا جائز نہیں۔

 ارشادِ باری تعالی ہے :

﴿ أَحَلَّ اللَّهُ الْبَيْعَ وَحَرَّمَ الرِّبَا﴾ (البقرة:275)

ترجمہ:” حالانکہ اللہ  تعالیٰ نے بیع کو حلال فرمایا ہے اور سود کو حرام کردیا ہے ۔“

﴿فَإِن لَّمْ تَفْعَلُوا فَأْذَنُوا بِحَرْبٍ مِّنَ اللَّهِ وَرَسُولِهِ﴾ (البقرة:278)

ترجمہ:”پھر اگر تم نہ کروگے تو اشتہار سن لو جنگ کا اللہ کی طرف سے اور اس کے رسول کی طرف سے ۔“

﴿يَمْحَقُ اللَّهُ الرِّبَا وَيُرْبِي الصَّدَقَاتِ﴾ (البقرة:276)

ترجمہ: ” اللہ تعالیٰ سود کو مٹاتے ہیں اور صدقات کو بڑھاتے ہیں۔“

صحیح مسلم  میں ہے:

"عن جابر بن عبدالله رضی الله تعالیٰ عنه قال: لعن رسول الله صلی الله علیه وسلم آکل الرّبا وموکله وکاتبه وشاهدیه، وقال: هم سواء."

(كتاب البیوع، باب لعن آکل الرّبا وموکله، رقم الحدیث:1598، ج:5، ص:50، ط:دارالمنھاج)

"عمدة القاري شرح صحيح البخاري" میں ہے:

"مطابقته للآية التي هي مثل الترجمة من حيث إن آيات الربا التي في آخر سورة البقرة مبينة لأحكامه وذامة لآكليه، فإن قلت: ليس في الحديث شيء يدل على كاتب الربا وشاهده؟ قلت: لما كانا معاونين على الأكل صارا كأنهما قائلان أيضا: إنما البيع مثل الربا، أو كانا راضيين بفعله، والرضى بالحرام حرام."

(كتاب البيوع، باب آكل الربا وشاهده وكاتبه، رقم الحديث:4802، ج:11، ص:200، ط:دار إحياء التراث العربي)

فتاوی شامیٰ میں ہے:

"والحاصل: أنه إن علم أرباب الأموال وجب رده عليهم، وإلا فإن علم عين الحرام لايحل له ويتصدق به بنية صاحبه."

(كتاب البيوع، باب البيع الفاسد، ج:5، ص:99، ط:سعید)

"الفتاوى الهندية" میں ہے:

"ولايدفع إلى أصله، وإن علا، وفرعه، وإن سفل كذا في الكافي."

(كتاب الزكاة، الباب السابع في المصارف، ج:1، ص:188، ط:رشيدية)

فتاوی شامیٰ میں ہے:

"(قوله: وإلى من بينهما ولاد) أي بينه وبين المدفوع إليه؛ لأن منافع الأملاك بينهم متصلة فلايتحقق التمليك على الكمال هداية والولاد بالكسر مصدر ولدت المرأة ولادةً وولادًا مغرب أي أصله وإن علا كأبويه وأجداده وجداته من قبلهما وفرعه وإن سفل بفتح الفاء من باب طلب والضم خطأ؛ لأنه من السفالة وهي الخساسة مغرب كأولاد الأولاد."

(‌‌كتاب الزكاة، باب مصرف الزكاة والعشر، ج:2، ص:346، ط:سعید)

وفيه أيضا:

"مطلب فيمن ورث مالا حراما ... لكن إذا علم المالك بعينه فلا شك في حرمته ووجوب رده عليه."

(کتاب البیوع، مطلب فيمن ورث مالا حراما، ج:5، ص:99، ط:سعید)

وفيه أيضا:

"في المجتبى: ‌مات ‌وكسبه ‌حرام فالميراث حلال، ثم رمز وقال: لا نأخذ بهذه الرواية، وهو حرام مطلقا على الورثة فتنبه. اهـ. ح، ومفاده الحرمة وإن لم يعلم أربابه وينبغي تقييده بما إذا كان عين الحرام ليوافق ما نقلناه، إذ لو اختلط بحيث لا يتميز يملكه ملكا خبيثا، لكن لا يحل له التصرف فيه ما لم يؤد بدله كما حققناه قبيل باب زكاة المال فتأمل."

 (‌‌كتاب البيوع، باب البيع الفاسد، مطلب رد المشترى فاسدا إلى بائعه فلم يقبله، ج:5، ص:99، ط:سعيد)

ماخوذ فتاویٰ جامعہ العلوم) الاسلامیہ بنوری ٹاؤن کراچی)

Saturday, 2 November 2024

مسجد میں دعوت کاکھانا کھلانا

 واضح ہو کہ مسجد بنانے کا مقصد ذکراللہ اور عبادتِ الہٰی  ہے، مسافر اور معتکف کے علاوہ افراد کے لیے مسجد میں کھانا، پینا اور سونا مکروہ ہے؛ کیوں کہ مسجد اس طرح کے کاموں کے لیے نہیں ہے، البتہ صرف مسافر اور معتکف کے لیے بوجہ ضرورت مسجد میں کھانے، پینے اور سونے کی گنجائش ہے، اسی طرح اگر کبھی چھوٹی موٹی چیز (مثلًا کھجور یا پانی وغیرہ) کھانے کی نوبت آجائے تو معتکف اور مسافر کے علاوہ عام آدمی بھی اعتکاف کی نیت کر کے کھا پی سکتا ہے، لیکن اگر معتکفین یا مسافر لوگوں کے علاوہ عام لوگوں کے لیے کسی بھی عنوان سے کوئی دعوت کرنی ہو تو اس دعوت کا انعقاد مسجد کی حدود سے باہر کسی جگہ کرنا چاہیے، مساجد میں بلاضرورت کھانے کی دعوتوں کا انعقاد کرنا درست نہیں ہے، نیز یہ بات بھی مشاہدہ میں کثرت سے آتی رہتی ہے کہ مساجد میں دعوت کے انعقاد سے مسجد کے دیگر آداب کی بھی بہت زیادہ خلاف ورزی ہوتی ہے اور دعوتوں کے دوران لوگ شور و غوغا، ہنسی مذاق اور لایعنی گفتگو کر کے مسجد کی بے حرمتی کے مرتکب ہوتے ہیں، البتہ اگر مسجد میں معتکفین یا مسافر لوگوں کے لیے کھانے کا انتظام کیا گیا ہو اور کوئی شخص جو نہ تو معتکف ہو اور نہ مسافر ہو وہ اس کھانے میں شریک ہونا چاہے تو اسے چاہیے کہ مسجد میں اعتکاف کی نیت سے داخل ہو کر یا داخل ہونے کے بعد اعتکاف کی نیت کر کے کچھ نماز اور ذکر اللہ میں مشغول ہونے کے بعد، پھر کھانے میں شریک ہوجائے۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (1/ 661)

’’ وأكل، ونوم إلا لمعتكف وغريب.

(قوله: وأكل ونوم إلخ) وإذا أراد ذلك ينبغي أن ينوي الاعتكاف، فيدخل ويذكر الله تعالى بقدر ما نوى، أو يصلي ثم يفعل ما شاء، فتاوى هندية.‘‘

الفتاوى الهندية (5/ 321):

’’ويكره النوم والأكل فيه لغير المعتكف، وإذا أراد أن يفعل ذلك ينبغي أن ينوي الاعتكاف فيدخل فيه ويذكر الله تعالى بقدر ما نوى أو يصلي ثم يفعل ما شاء، كذا في السراجية. ‘‘

Tuesday, 29 October 2024

الکوحل والے پرفیوم

 الکحل کی متعدد قسمیں ہیں:

(1) ایک وہ جو منقیٰ، انگور،کشمش یا کھجور کی شراب سےحاصل کی گئی ہو،  یہ بالاتفاق ناپاک  وحرام ہے، اس کا استعمال اور اس کی خرید و فروخت ناجائز ہے۔

(2) دوسری  وہ جو مذکورہ  بالا اشیاء کے علاوہ کسی اور چیز مثلاً جو، آلو، شہد، گنا، سبزی وغیرہ سے حاصل کی گئی ہو، اس کا استعمال اور اس کی خریدوفروخت جائز ہے بشر ط یہ کہ نشہ آور نہ ہو۔

(3)آج کل الکحل کی ایک تیسری قسم بھی ہے، یعنی وہ کیمیکل سے بنایا جاتا ہے، اس کا شراب وغیرہ سے تعلق نہیں ہے۔

عام طور پر ادویات ، پرفیوم اور دیگر مرکبات  میں جو الکحل استعمال ہوتی ہے وہ مذکورہ  اشیاء اربعہ یعنی  انگوریا کھجور وغیرہ سے حاصل نہیں کی جاتی، بلکہ  دیگر اشیاء سے بنائی جاتی ہے،یا کیمیکل سے بنایا جاتا ہے، لہذا  کسی چیز  کے بارے میں جب تک  تحقیق سے ثابت  نہ ہوجائے کہ اس  میں  پہلی قسم (منقیٰ، انگور،کشمش یا کھجور کی شراب )سے حاصل شدہ الکحل ہے، اس وقت تک اس کے استعمال کو  ناجائز اور حرام نہیں کہہ سکتے۔

موجودہ دور میں جو الکوحل پرفیومزمیں  استعمال ہوتی ہے، وہ انگوریا کھجور وغیرہ سے حاصل نہیں کی جاتی، بلکہ  دیگر اشیاء سے بنائی جاتی ہے، یہ نجس نہیں، بلکہ پاک ہے۔ لہذا ان پرفیوم کا استعمال بھی جائز ہے اور نماز بھی ہوجاتی ہے، تاہم جس پرفیوم میں انگور یا کھجور سے کشیدہ الکحل شامل کیا گیا ہو، اس کا استعمال  ناجائز ہے، اور ایسا پرفیوم لگانے سے جسم یا کپڑے ناپاک ہوجاتے ہیں۔ اگر کسی وجہ سے ممنوعہ ’’الکحل‘‘  کے شامل ہونے کا شک ہو تو احتیاط بہترہے۔

تکملہ فتح الملہم میں ہے:

"و أما غير الأشربة الأربعة، فليست نجسة عند الإمام ابي حنيفة رحمه الله تعالي. و بهذا يتبين حكم الكحول المسكرة (Alcohals) التي عمت بها البلوي اليوم، فإنها تستعمل في كثير من الأدوية و العطور و المركبات الأخري، فإنها إن اتخذت من العنب أو التمر فلا سبيل الي حلتها أو طهارتها، و إن اتخذت من غيرهما فالأمر فيها سهل علي مذهب أبي حنيفة رحمه الله تعالي، و لايحرم استعمالها للتداوي أو لأغراض مباحة أخري ما لم تبلغ حد الإسكار، لأنها إنما تستعمل مركبةً مع المواد الأخري، ولايحكم بنجاستها أخذًا بقول أبي حنيفة رحمه الله.

و إن معظم الحكول التي تستعمل اليوم في الأودية و العطور و غيرهما لاتتخذ من العنب أو التمر، إنما تتخذ من الحبوب أو القشور أو البترول و غيره، كما ذكرنا في باب بيوع الخمر من كتاب البيوع".

(کتاب الاشربۃ ،حکم الکحول المسکرۃ،ج:3،ص:408،دارالعلوم)

Wednesday, 23 October 2024

سنت مؤکدہ وغیر مؤکدہ کی ادائیگی میں فرق اور طریقہ

 سنت مؤکدہ وہ سنت نماز ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ہمیشہ مداومت کے ساتھ پڑھی ہے، اور کبھی بھی بلا کسی شدید عذر کے اسے چھوڑا نہیں ہے، جب کہ سنت غیر مؤکدہ وہ سنت نماز ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے کبھی پڑھی ہے اور کبھی بلا کسی عذر کے چھوڑی بھی ہے۔

حضور صلی اللہ علیہ وسلم نےدن رات میں بارہ رکعات سنتیں پڑھنے کی خود پابندی کی اور تاکید بھی فرمائی ہے، وہ بارہ رکعتیں یہ ہیں: 

دو رکعت فجر سے پہلے  ،چار رکعت ظہر سے پہلے اور دو رکعت ظہر کے بعد ،دو رکعتمغرب کے بعد اور دو رکعت عشاءکے کے بعد۔

 سنت مؤکدہ اور غیر مؤکدہ میں فرق یہ ہے کہ سنت مؤکدہ کا پڑھنا لازم ہے اور اس نماز کو بلا کسی عذر کے چھوڑنے والا گناہ گار ہوتا ہے، جب کہ سنت غیر مؤکدہ کے پڑھنے پر بہت ثواب ملتا ہے لیکن  بلا عذر چھوڑنے پر کوئی گناہ نہیں ملتا۔ چوں کہ  سنت غیر مؤکدہ نفل نماز کے درجہ میں ہے، اس لیے اس پر نفل نماز والے احکام ہی جاری ہوتے ہیں۔

سنتِ غیر مؤکدہ کی ادائیگی کا طریقہ وہی ہے جو سنتِ مؤکدہ کا ہے، دونوں میں کوئی خاص فرق نہیں ہے، دونوں کی ہر رکعت میں سورہ فاتحہ پڑھنا اور اس کے ساتھ کوئی سورت یا تین مختصر آیات یا ایک طویل آیت پڑھنا واجب ہے۔ البتہ صرف اتنا فرق ہے کہ چار رکعات سنتِ غیر مؤکدہ میں ہر دو رکعت کی حیثیت مستقل نماز کی ہے؛ اس لیے اس میں افضل یہ ہے کہ دوسری رکعت کے قعدہ میں التحیات کے بعد درود شریف اور دعا بھی پڑھی جائے، پھر تیسری رکعت کے لیے کھڑا ہوا جائے، اور تیسری رکعت کے لیے کھڑے ہونے کے بعد سورہ فاتحہ سے پہلے ثناء اور تعوذ و تسمیہ بھی پڑھ لیا جائے، لیکن یہ طریقہ افضل ہے، لازم نہیں، لہٰذا اگر کوئی سنتِ غیر مؤکدہ پڑھتے ہوئے سنتِ مؤکدہ کی طرح پہلے قعدہ میں صرف التحیات پڑھ کر کھڑا ہوجائے اور تیسری رکعت میں ثناء نہ پڑھے تو بھی اس کی نماز درست ہوجائے گی، جب کہ چار رکعت والی سنت  مؤکدہ کے پہلے قعدہ میں تشہد پڑھنے کے فورًا بعد تیسری رکعت کے  لیے کھڑا ہونا ضروری ہے، غلطی یا بھول سے درود شریف پڑھنے کی صورت میں قیام میں تاخیر کی وجہ سے سجدہ سہو لازم ہوجائے گا۔ اسی طرح سنت مؤکدہ میں ثناء  بھی صرف پہلی رکعت میں ہی پڑھی جاتی ہے۔

ایک اور فرق یہ بھی ہے کہ  چوں کہ سنت غیر مؤکدہ کا ہر شفعہ (دو رکعت) مستقل علیحدہ حیثیت رکھتا ہے اور ہر شفعہ کا قعدہ ،قعدہ اخیرہ شمار ہوتا ہے، اس  لیے چار رکعت والی سنت غیر مؤکدہ نماز میں اگر پہلے شفعہ میں قعدہ میں (تشہد پڑھنے کے  لیے)  نہ بیٹھے تو وہ شفعہ باطل ہوجائے گا، البتہ چار رکعت والی سنت مؤکدہ نماز میں اگر پہلے شفعہ کے قعدہ میں نہ بیٹھے، لیکن آخری قعدہ میں سجدہ سہو کرلے تو  نماز ہوجائے گی۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2/ 16):

’’(ولا يصلى على النبي صلى الله عليه وسلم في القعدة الأولى في الأربع قبل الظهر والجمعة وبعدها) ولو صلى ناسيا فعليه السهو، وقيل: لا شمني (ولا يستفتح إذا قام إلى الثالثة منها) لأنها لتأكدها أشبهت الفريضة (وفي البواقي من ذوات الأربع يصلي على النبي) صلى الله عليه وسلم (ويستفتح) ويتعوذ ولو نذرا لأن كل شفع صلاة.‘‘

البحرالرائق میں ہے:

Friday, 18 October 2024

بغیر نیت طلاق کہا میری طرف سے تم آزاد ہو طلاق ہویی کہ نہیں

 صورتِ  مسئولہ میں طلاق واقع نہیں ہوئی ہے،  نکاح بدستور برقرار ہے، تاہم "تم آزاد ہو" وغیرہ اس طرح کے الفاظ کے استعمال سے اجتناب کریں۔

امداد الاحکام میں ہے :

"… میں نے اپنی بیوی کو آزاد کیا چاہے  وہ میرے پاس رہے یا اپنے گھر،  اور وہ آزاد ہے جب اس کا جی چاہے آوے ، ان استعمالات میں ہرگزکوئی شخص محض مادہ آزاد کی  وجہ سے اس کلام کو کنایہ طلاق سے نہیں کہہ سکتا،  بلکہ اباحتِ  فعل وتخییر وغیرہ پر محمول کرےگا…"تم بھی آزاد ہو اور وہ بھی آزاد ہے جب چاہے آؤ" اس میں "جب چاہے آؤ" یہ قرینہ نفی ارادۂ  طلاق کا ہے۔"

(۲/۴۷۰، مکتبہ دار العلوم کراچی)

:حوالہ جات

قال العلامۃ الحصکفی رحمہ اللہ تعالی :فنحو أخرجی و إذھبی یحتمل ردا، و نحو خلیۃ،  بریۃ ، حرام  یصلح سبا  ،  ونحوإعتدی وأنت حرۃ ..لایحتمل الردوالسب، ففی حالۃ الرضا تتوقف الأقسام) الثلاثۃ تاثیرا( علی نیۃ)للإحتمال، والقول لہ بیمینہ فی عدم النیۃ ، و یکفی تحلیفھا لہ فی منزلہ ، فإن أبی رفعتہ للحاکم ، فان نکل فرق بینھما .مجتبی).وفی الغضب) توقف) الأولان )إن نوی وقع وإلالا )و فی مذاکرۃ الطلاق( یتوقف )الأول فقط( ویقع بالأخیرین  وإن لم ینو.

(الدر المختارمع التنویر:4/532،(533

و فی الفتاوی الھندیۃ : الکنایات ، لا يقع بها الطلاق إلا بالنية أو بدلالة حال....وما يصلح جوابا وردا لا غير : أخرجي، إذهبي  .والأحوال ثلاثة:حالة الرضا  ، وحالة  مذاكرة الطلاق وحالةالغضب   ، ففي حالة الرضا لا يقع الطلاق في الألفاظ كلها إلا بالنية ،  والقول قول الزوج في ترك النية مع اليمين، وفي حالة مذاكرة الطلاق يقع الطلاق في سائر الأقسام قضاء إلا فيما يصلح جوابا وردا  ؛ فإنه لا يجعل طلاقا .كذا في الكافي. وفي حالة الغضب يصدق في جميع ذلك لاحتمال الرد والسب.(الفتاوی الھندیۃ: 1/410 )

قال الإمام محمد رحمہ اللہ تعالی : أنت منى بائن أو برية أو خلية، فإنه يسأل عن نيته ، وإن لم ينو الطلاق لم يقع عليها الطلاق . وإن نوى الطلاق فهو مانوى . وكذاك كل كلام يشبه الفرقة مما أراد به الطلاق فهو مثل هذا ، كقوله ... أنت حرة ، ينوى الطلاق .(کتاب الأصل محمد : ٤٥٣/٤)

فى التتارخانية : وأما مدلولات الطلاق ، فهو مثل قوله : إذهبي ، وقومى ..... وما شاكلها ، إذا نوى الطلاق بهذه الألفاظ يقع بائنا ، وإن نوى الثلاث ثلاثاً .... وإن قال :" لم أرد به الطلاق " أولم تحضره النية لا يكون طلاقا ، سواء كانت الحالة حالة الرضا أو حالة مذاكرة الطلاق أو حالة الغضب ، هذا فى ظاهر الرواية . (الفتاوى التارخانية : ٤٦٠/٤)

قال العلامة الزیلعی رحمه الله : وقسم يصلح جوابا وردا ولا يصلح سبا و شتيمة، وهي خمسة ألفاظ : أخرجى ، إذهبي ، أغربى ، قومی ، تقنعى ومرادفها ، ففى حالة الرضا لا يقع الطلاق بشيء منها إلا بالنية للإحتمال، والقول قوله مع يمينه في عدم النية. (تبيين الحقائق : 3/80)

قال العلامۃ المرغینانی ر حمہ اللہ  تعالی :و بقیۃ الکنایات إذا نوی بھا الطلاق  :کانت وا حدۃ بائنۃوھذا مثل قولہ : أنت بائن….وأنت حرۃ واذھبی إلا أن یکونا فی حال مذاکرۃ الطلاق : فیقع بھا الطلاق فی القضاء ، ولایقع فیما بینہ وبین اللہ تعالی  ، إلا أن ینویہ.

(الھدایۃ : 3/192)


Tuesday, 15 October 2024

چھ لاکھ بیس ہزار چاربہن اور چھ بھائیوں میں کیسے تقسیم کریں'

 حقوقِ متقدمہ: تجہیز و تکفین کا خرچہ نکالنے کے بعد، نیز مرحوم کے ذمہ کوئی قرض ہو تو اسے ادا کرنے کے بعد،اور اگر مرحوم نے کوئی جائز وصیت کی ہو تو اسے ایک تہائی ترکہ میں نافذ کریں۔غرض چھ لاکھ بیس ہزار چاربہن اور چھ بھائیوں کے درمیان تقسیم کا شرعی طریقہ یہ ہے کہ اس رقم کو سولہ (16)حصوں میں ،  تقسیم کرکے 38750 اڑتیس ہزار سات سو پچاس مرحوم کی ہرایک بیٹی کاحصہ ہے یعنی ایک لاکھ پچپن ہزار سب بہنوں میں تقسیم کردیاجائے۔ اوراس38750 کا ڈبل یعنی 77500مرحوم کے ہر ایک بیٹے کو باقاعدہ للذکر مثل حظ الانثیین دیدیا جایے ۔مرحوم کی جوبیٹی ان کی زندگی میں فوت ہوگئی ان کا حصہ شرعاً نہیں ہے ۔

فتاوی شامی میں ہے:

"وشروطه: ثلاثة: موت مورث حقيقةً، أو حكمًا كمفقود، أو تقديرًا كجنين فيه غرة و وجود وارثه عند موته حيًّا حقيقةً أو تقديرًا كالحمل والعلم بجهة إرثه، وأسبابه وموانعه سيأتي."

(كتاب الفرائض، شرائط الميراث، ج:6، ص:758، ط:ايج ايم سعيد)فقط واللہ اعلم بالصواب 

محمد عامرالصمدانی 

١١ربیع الآ خر ١٤٤٦ھ/١٥اکتوبر٢٠٢٤ء

Sunday, 13 October 2024

سجدۂ سہو میں ایک سجدہ کیا

 سجدہ سہو میں دو سجدے کرنا واجب ہیں، لہٰذا اگر کسی نے صرف ایک سجدہ کیا تو سجدہ سہو ادا نہیں ہوگا، اور اس نماز کا وقت گزرنے سے پہلے پہلے اعادہ واجب ہوگا، وقت گزرنے کے بعد اعادہ مستحب ہوگا۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2/ 77):

"(يجب بعد سلام واحد عن يمينه فقط) لأنه المعهود، وبه يحصل التحليل وهو الأصح بحر عن المجتبى. وعليه لو أتى بتسليمتين سقط عنه السجود؛ ولو سجد قبل السلام جاز وكره تنزيها. وعند مالك قبله في النقصان وبعده في الزيادة، فيعتبر القاف بالقاف والدال بالدال (سجدتان)".

البحر الرائق شرح كنز الدقائق ومنحة الخالق وتكملة الطوري (2/ 99، ۱۰۰ ):

"(قوله: يجب بعد السلام سجدتان بتشهد وتسليم بترك واجب وإن تكرر) بيان لأحكام الأول وجوب سجدتي السهو وهو ظاهر الرواية لأنه شرع لرفع نقص تمكن في الصلاة ورفع ذلك واجب وذكر القدوري أنه سنة كذا في المحيط وصحح في الهداية وغيرها الوجوب لأنها تجب لجبر نقصان تمكن في العبادة فتكون واجبة كالدماء في الحج ويشهد له من السنة ما ورد في الأحاديث الصحيحة من الأمر بالسجود والأصل في الأمر أن يكون للوجوب ومواظبة النبي صلى الله عليه وسلم وأصحابه على ذلك وفي معراج الدراية إنما جبر النقصان في باب الحج بالدم وفي باب الصلاة بالسجود؛ لأن الأصل أن الجبر من جنس الكسر وللمال مدخل في باب الحج فيجبر نقصانه بالدم ولا مدخل للمال في باب الصلاة فيجبر النقصان بالسجدة. اهـ. ... فرجعنا إلى قوله المروي في سنن أبي داود أنه عليه الصلاة والسلام قال: «لكل سهو سجدتان بعد السلام». وفي صحيح البخاري في باب التوجه نحو القبلة حيث كان في حديث قال فيه: «إذا شك أحدكم في صلاته فليتحر الصواب فليتم عليه ثم ليسلم ثم ليسجد سجدتين» فهذا تشريع عام قولي بعد السلام عن سهو الشك والتحري ولا قائل بالفصل بينه وبين تحقق الزيادة والنقص".

حاشية الطحطاوي على مراقي الفلاح شرح نور الإيضاح (ص: 440):

"كل صلاة أديت مع كراهة التحريم تعاد أي وجوباً في الوقت، وأما بعده فندب "