https://follow.it/amir-samdani?action=followPub

Monday, 19 May 2025

سورہ فاتحہ کی تکرار سے سجدۂ سہو نہیں

 سورۃ فاتحہ کی کسی ایک آیت کا مکرر  پڑھنا ،خواہ  فرائض میں ہو یا نوافل میں  ،خواہ چار رکعتی فرائض کی ابتدائی دو رکعتوں میں ہو یا بعد کی دو رکعتوں میں ہو،بہر صورت اس سےسجدہ سہو واجب نہیں ہوتا ہے،اسی طرح اگر کوئی شخص  چار رکعتی  فرض  کی آخری دو رکعتوں میں پوری سور فاتحہ یا اس کا اکثر حصہ مکرر پڑھ لے تو اس سے سجدہ سہو واجب نہیں ہوگا،البتہ چار رکعتی فرض کی آخری دو رکعتوں کے علاوہ رکعتوں میں اگر   کوئی سورۃ فاتحہ کی کوئی آیت تین یا اس سے زائد مرتبہ دُوھراتا ہے یا تین آیات مکررپڑھتا ہے تو بعض فقہاء کرام  کی تصریحات کی رو سے ضمِ سورۃ میں بقدر تین تسبیح تاخیر ہونے کی بناء پر سجدہ سہو لازم ہے،اور اگر پوری سورۃ فاتحہ  یا اکثر سورۃ فاتحہ کا تکرار کرتا ہے تو اس صورت میں بالاتفاق سجدہ سہو لازم ہے۔

فتاوی شامی میں ہے:

"(قوله وكذا ترك تكريرها إلخ) فلو قرأها في ركعة من الأوليين مرتين وجب سجود السهو لتأخير الواجب وهو السورة كما في الذخيرة وغيرها، وكذا لو قرأ أكثرها ثم أعادها كما في الظهيرية".

(كتاب الصلاة،باب صفة الصلاة،فرائض الصلاة،واجبات الصلاة،ج:1،ص:460،ط: سعيد)

فتاوی عالمگیری میں ہے:

"ولو كررها في الأوليين يجب عليه سجود السهو بخلاف ما لو أعادها بعد السورة أو كررها في الأخريين، كذا في التبيين. ولو قرأ الفاتحة إلا حرفا أو قرأ أكثرها ثم أعادها ساهيا فهو بمنزلة ما لو قرأها مرتين، كذا في الظهيرية".

(كتاب الصلاة،الباب الثاني عشر في سجود السهو،ج:1،ص:126،ط: رشيدية)

منھ دکھائی میں دی گئی انگوٹھی طلاق یا خلع کے موقع پر واپس ہوگی کہ نہیں

 سائل کی بیٹی کو جو لڑکے کی طرف سے منہ دکھائی ملی تھی، اور جو دیگر رشتہ داروں نے لڑکی کو تحائف دیے تھے، وہ سب سائل کی بیٹی کی ملکیت ہے، اور اس کی سابقہ ساس کا طلاق کے بعد ان چیزوں کا مطالبہ کرنا شرعاً درست نہیں ہے، تاہم زیورات کے بارے میں تفصیل یہ ہے کہ جو زیورات لڑکی کو اُس کے میکے سے  ملتے ہیں وہ اُس کی ملکیت ہوتے ہیں ، اور جو زیورات لڑکی کو اُس کے سسرال والوں کی طرف سے دیے جاتے ہیں اُن کا حکم یہ ہے کہ اگر دیتے وقت مالک بنانے کی صراحت کردی تھی تو لڑکی مالک ہوگی اور اگر صرف استعمال کی صراحت کرکے دیے تھے تو لڑکے والے مالک ہوں گے اور اگر کچھ صراحت نہیں کی تھی تو اس صورت میں لڑکے والوں کے عرف ورواج کا اعتبار ہوتا ہے، یعنی اگر سسرال والوں کا عرف لڑکی کو بطور عاریت کے زیورات دینے کا ہو تو وہ لڑکی کی ملکیت نہیں ہوتے اور دینے والوں کو واپس طلب کرنے کا حق حاصل ہوتا ہے، اور اگر سسرال والوں کا رواج بطور ملکیت کے دینے کا ہو یا کوئی رواج نہ ہو، تو وہ زیورات لڑکی کی ملکیت ہوتے ہیں، اور ان کا واپس طلب کرنا درست نہیں۔

فتاویٰ شامی میں ہے:

 "قلت: ومن ذلك ما يبعثه إليها قبل الزفاف في الأعياد والمواسم من نحو ثياب وحلي، وكذا ما يعطيها من ذلك أو من دراهم أو دنانير صبيحة ليلة العرس ويسمى في العرف صبحة، فإن كل ذلك تعورف في زماننا كونه هدية لا من المهر، ولا سيما المسمى صبحة، فإن الزوجة تعوضه عنها ثيابها ونحوها صبيحة العرس أيضا."

(كتاب النكاح، باب المهر، ٣ /١٥٣، ط: سعید)

وفیہ أیضاً:

"(‌جهز ابنته بجهاز وسلمها ذلك ليس له الاسترداد منها ولا لورثته بعد أن سلمها ذلك  في صحته) بل تختص به (وبه يفتى) وكذا لو اشتراه لها في صغرها ولوالجية."

(كتاب النكاح، باب المهر، ٣ /١٥٥، ط: سعيد)

وفیہ أیضاً:

"والمعتمد البناء على العرف كما علمت."

(كتاب النكاح، باب المهر، ٣ /١٥٧، ط: سعید) 


واضح رہے کہ میاں بیوی میں سے جب ایک دوسرے کو کوئی چیز بطور ہدیہ دے دے ، اور اس پر قبضہ بھی کرے تو اس کو واپس لینے کا مطالبہ نہیں کرسکتا، لہٰذا مذکورہ صورت میں شوہر نے بیوی کو منہ دکھائی کے موقع پر جو سونے کے بُندے دیے تھے یا لڑکی والوں نے شادی سے پہلے لڑکے کو جو پہناؤنی دی ہے ، ان میں سے ہر ایک دوسرے سے واپسی کا مطالبہ نہیں کرسکتا، اور جہاں تک مہر کی بات ہے وہ تو خالص بیوی کا حق ہے اس میں بھی شوہر بیوی سے واپسی کا مطالبہ نہیں کرسکتا، نیز اس کے علاوہ جہیز کا سامان کپڑے وغیرہ بھی بیوی کی ملکیت ہے۔
لما في التنوير مع الدر:
’’(والزاي الزوجية وقت الهبة، فلو وهب لامرأة ثم نكحها رجع، ولو وهب لا مرأته لا) كعكسه‘‘.
’’قوله:(فلو وهب لامرأة الخ) الأصل الزوجية نظير القرابة حتى يجري التوارث بينهما بلا حاجب وترد شهادة كل واحد للآخر فيكون المقصود من هبة كل منهما للآخر الصلة والتوادد، دون العوض بخلاف الهبة للأجنبي فإن المقصود منها العوض، ثم المعتبر في ذلك حالة الهبة فإن كانت أجنبية كان مقصوده العوض فثبت له الرجوع فيها فلا يسقط بالتزويج، وإن كانت حليلته كان مقصوده الصلة دون العوض وقد حصل فسقط الرجوع فلا يعود بالإبانة.١ه.
قوله:(لا) أي لا يرجع ولو فارقها بعد ذلك لا يملك الرجوع لقيام الزوجية وقت الهبة.
قوله:(كعكسه) أي لو وهبته لرجل ثم نكحها رجعت ولو لزوجها لا وإن فارقها والأولى أن يقول كما إذا كانت هي الواهبة فيهما‘‘.(كتاب الهبة، باب الرجوع في الهبة، 12/611:رشيدية)

Saturday, 17 May 2025

حاملہ کا نکاح

 اگر زنا سےحمل ٹھہر گیا ہوتو حمل کے ہوتے ہوئے نکاح جائز ہے، اگر زانی کے ساتھ نکاح ہوا ہو تو  پھر جماع بھی  جائز ہے اور اگر  زانی کے علاوہ کسی اور  سےہوا  ہوتو وضع حمل( بچہ کی پیدائش) تک جماع جائز نہیں۔

بدائع الصنائع میں ہے :

"وعلى هذا يخرج ما إذا تزوج امرأة حاملا من الزنا أنه يجوز في قول أبي حنيفة ومحمد، ولكن لا يطؤها حتى تضع وقال أبو يوسف: (لا يجوز) وهو قول زفر."

(کتاب النکاح ،فصل ان لا یکون بہا حمل ثابت النسب من الغیر،ج:2،ص:269،دارالکتب العلمیۃ)

امداد الاحکام میں ہے :

"حاملہ من الزنا  کا نکاح درست ہے  خواہ زانی سے ہو یا غیر زانی سے ،البتہ اگر زانی سے ہو تو اس کو  قبل وضع حمل وطی بھی جائز ہے اور غیر زانی کو وطی جائز نہیں جب تک وضع حمل نہ ہو ۔۔۔۔الخ"

(کتاب النکاح ،ج:2،ص:203،دارالعلوم کرچی)

Friday, 16 May 2025

جمعہ کی پہلی اذان کے بعد خریدوفروخت

 جمعہ کی پہلی اذان کے بعد خرید و فروخت چھوڑنا واجب ہے اور خرید و فروخت میں لگنا حرام ہے اور اس وقت کیاگیا سودا مکروہِ تحریمی (ناجائز) ہے۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2/ 161)

'' (ووجب سعي إليها وترك البيع) ولو مع السعي، في المسجد أعظم وزراً (بالأذان الأول) في الأصح، وإن لم يكن في زمن الرسول بل في زمن عثمان. وأفاد في البحر صحة إطلاق الحرمة على المكروه تحريماً۔

(قوله: ووجب سعي) لم يقل افترض مع أنه فرض للاختلاف في وقته هل هو الأذان الأول أو الثاني؟ أو العبرة لدخول الوقت؟ بحر.

وحاصله أن السعي نفسه فرض والواجب كونه في وقت الأذان الأول، وبه اندفع ما في النهر من أن الاختلاف في وقته لا يمنع القول بفرضيته، كصلاة العصر فرض إجماعاً مع الاختلاف في وقتها (قوله: وترك البيع) أراد به كل عمل ينافي السعي وخصه اتباعاً للآية، نهر (قوله: ولو مع السعي) صرح في السراج بعدم الكراهة إذا لم يشغله، بحر، وينبغي التعويل على الأول، نهر.

قلت: وسيذكر الشارح في آخر البيع الفاسد أنه لا بأس به لتعليل النهي بالإخلال بالسعي، فإذا انتفى انتفى، (قوله: وفي المسجد) أو على بابه، بحر (قوله: في الأصح) قال في شرح المنية: واختلفوا في المراد بالأذان الأول، فقيل: الأول باعتبار المشروعية، وهو الذي بين يدي المنبر؛ لأنه الذي كان أولاً في زمنه  عليه الصلاة والسلام  وزمن أبي بكر وعمر حتى أحدث عثمان الأذان الثاني على الزوراء حين كثر الناس. والأصح أنه الأول باعتبار الوقت، وهو الذي يكون على المنارة بعد الزوال. اهـ. والزوراء بالمد اسم موضع في المدينة، (قوله: صحة إطلاق الحرمة) قلت: سيذكر المصنف في أول كتاب الحظر والإباحة كل مكروه حرام عند محمد، وعندهما إلى الحرام أقرب. اهـ. نعم قول محمد رواية عنهما، كما سنذكره هناك إن شاء الله تعالى، وأشار إلى الاعتذار عن صاحب الهداية حيث أطلق الحرمة على البيع وقت الأذان مع أنه مكروه تحريماً، وبه اندفع ما في غاية البيان حيث اعترض على الهداية بأن البيع جائز، لكنه يكره كما صرح به في شرح الطحاوي؛ لأن النهي لمعنى في غيره لا يعدم المشروعية''۔

(الفتاوی التاتارخانیة زکریا۲؍۵۹۳ )

''الأذان المعتبر الذي یجب السعی عنده ویحرم البیع الأذان عند الخطبة لا الأذان قبله، لأن ذلک لم یکن فی زمن النبی صلی الله علیه وسلم وذکر شمس الأئمة الحلواني، وشمس الأئمة السرخسي أن الصحیح المعتبر هو الأذان الأول بعد دخول الوقت، وفي المنافع : سواء کان بین یدی المنبر أو علی الزوراء، وبه کان یفتی الفقیه أبو القاسم البلخی رحمه الله، وقال الحسن بن زیاد رحمه الله : الأذان علی المنارة هو الأصل''۔

الفتاوى الهندية (3/ 211)

'' وكره البيع عند أذان الجمعة والمعتبر الأذان بعد الزوال، كذا في الكافي''

قرآنِ کریم میں سورۂ  جمعہ کی آیت نمبر (۹) میں اللہ جل شانہ نے نمازِ جمعہ کی اذان پر خرید وفروخت اور کاروبار بند کرنے کا حکم دیا ہے، اس حکم میں اذان کے بعد کاروبار کرنے کی صاف ممانعت ہے، اسی  لیے جمعہ کی اذان کے بعد خرید وفروخت مکروہِ  تحریمی ہے۔ رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں جمعہ کے  لیے ایک ہی اذان دی جاتی تھی، یہی طریقہ حضرت ابوبکر اور حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہما کے دور میں بھی جاری رہا،اس کے بعد حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں لوگ زیادہ ہوگئے، ہجوم بڑھنے  لگا ، تو آپ رضی اللہ عنہ نے  "زوراء"  (بازار میں واقع ایک مکان) میں نماز جمعہ کے  لیے ایک زائد اذان دینے کا حکم صادر فرمایا، اور  اس حکم کو اس وقت موجود   تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے قبول کیا، اور اس کے بعد  سے تاحال یہی عمل امت  میں جاری ساری ہے۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ بالاتفاق تیسرے خلیفہ راشد ہیں، اور رسول کریم ﷺ نے جہاں اپنی سنت کی پیروی کا حکم فرمایا ہے، وہاں خلفاء راشدین کی اتباع کی بھی تاکید فرمائی ہے۔ چنانچہ رسول اللہ ﷺ کاارشاد مبارک ہے:

«... فعليكم بسنتي وسنة الخلفاء المهديين الراشدين، تمسكوا بها وعضوا عليها بالنواجذ».

(سنن أبي داود: كتاب السنة باب في لزوم السنة، رقم: 4607، 4/200، ط: دار إحياء التراث العربی 

Wednesday, 14 May 2025

سبحان اللہ وبحمدہ کی فضیلت

 قرآن و حدیث میں اللہ تعالیٰ کی حمد اور  پاکی بیان کرنے کا بار بار حکم دیا گیا ہے ، لہٰذا مذکورہ کلمہ ’’سُبْحَانَ اللّٰهِ وَ بِحَمْدِہٖ سُبْحَانَ اللّٰهِ الْعَظِیْمِ ‘‘  چوں کہ اللہ تعالیٰ کی حمد اور پاکی بیان کرنے پر مشتمل ہے؛ اس لیے اس کے پڑھنے سے قرآن و حدیث کے ان تمام اوامر  کی بجا آوری لازم آنے کے  ساتھ  ساتھ ان کلمات کا کہنے والا ان تمام فضائل کا مستحق بھی بنتا ہے جو عمومی طور سے اللہ تعالیٰ کی  پاکی  اور حمد بیان کرنے (یعنی سبحان اللہ اور الحمد للہ کہنے) کے بارے میں وارد ہوئے ہیں، مزید برآں ان عمومی فضائل کے علاوہ خاص ان دو کلموں  ’’سُبْحَانَ اللّٰهِ وَ بِحَمْدِہٖ سُبْحَانَ اللّٰهِ الْعَظِیْمِ ‘‘ کے فضائل مستقل طور پر  بھی احادیثِ  مبارکہ میں  ملتے ہیں۔  ذیل میں ان دو کلموں کے فضائل پر مشتمل چند احادیث نقل کی جارہی ہیں:

صحيح البخاري (9/ 162):

 حدثني أحمد بن إشكاب، حدثنا محمد بن فضيل، عن عمارة بن [ص:163] القعقاع، عن أبي زرعة، عن أبي هريرة رضي الله عنه، قال: قال النبي صلى الله عليه وسلم: "كلمتان حبيبتان إلى الرحمن، خفيفتان على اللسان، ثقيلتان في الميزان: سبحان الله وبحمده، سبحان الله العظيم."

ترجمہ: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ دو کلمہ ایسے ہیں کہ جو اللہ تعالیٰ کو بہت محبوب ہیں (یعنی ان کا کہنےیا پڑھنے والا اللہ کو بہت محبوب ہے)، زبان پر بہت ہلکے ہیں (یعنی ان کا پڑھنا آسان ہے)، اعمال کے ترازو میں بہت وزنی ہیں، وہ دو کلمہ یہ ہیں: ’’سبحان اللہ  وبحمدہ‘‘ اور ’’ سبحان اللہ العظیم ‘‘۔

عمدة القاري شرح صحيح البخاري (25/ 202):

"قوله: كلمتان أي: كلامان، وتطلق الكلمة عليه كما يقال: كلمة الشهادة. قوله: حبيبتان أي: محبوبتان يعني بمعنى المفعول لا الفاعل، والمراد محبوبية قائلهما، ومحبة الله للعبد إرادة إيصال الخير إليه والتكريم."

صحيح مسلم (4/ 2071):

"حدثنا يحيى بن يحيى، قال: قرأت على مالك، عن سمي، عن أبي صالح، عن أبي هريرة، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: " من قال: لا إله إلا الله وحده لا شريك له، له الملك وله الحمد وهو على كل شيء قدير، في يوم مائة مرة، كانت له عدل عشر رقاب، وكتبت له مائة حسنة ومحيت عنه مائة سيئة، وكانت له حرزا من الشيطان، يومه ذلك، حتى يمسي ولم يأت أحد أفضل مما جاء به إلا أحد عمل أكثر من ذلك، ومن قال: سبحان الله وبحمده، في يوم مائة مرة حطت خطاياه ولو كانت مثل زبد البحر."

ترجمہ: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جو شخص بھی ’’سبحان اللہ و  بحمدہ‘‘ ایک دن میں سو مرتبہ پڑھے تو اس کے (صغیرہ) گناہ  مٹا دیے  جائیں گے  چاہے اس کے گناہ سمندر  کی جھاگ کے برابر ہی کیوں نہ ہوں۔

Monday, 12 May 2025

قبرستان میں نماز جنازہ

 قبرستان میں خالی جگہ ہو کہ جہاں قبور نہ ہوں یا تھی مگر ہموار اور برابر ہوگئیں اور نمازیوں کے آگے قبریں نہ ہوں یا ہوں مگر قبور اور نمازیوں کے مابین کوئی آڑ دیوار وغیرہ ہو تو ایسی جگہ میں قبرستان کی نماز جنازہ پڑھنے کی گنجائش ہے۔

لا بأس بها، وهو مذهب الحنفية وراوية" عن أحمد، لأن النبي صلى الله عليه وسلم صلى على قبر وهو في المقبرة. وقال ابن المنذر: ذكر نافع أنه صلى على عائشة وأم سلمة وسط قبور البقيع، صلى على عائشة أبو هريرة، وحضر ذلك ابن عمر، وفعل ذلك عمر بن عبد العزيز."

اس مسئلہ کی دلیل نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل ہے، چنانچہ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ : "ایک سیاہ فام عورت یا آدمی مسجد کی صفائی کیا کرتا تھا ، تو وہ فوت گیا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے بارے میں دریافت کیا تو بتلایا گیا: وہ فوت ہو گیا ہے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (تم نے مجھے کیوں نہیں بتلایا؟ مجھے اسکی قبر کے بارے میں بتلاؤ) تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسکی قبر پر آ کر اسکا جنازہ پڑھا" بخاری: (458)، اور مسلم: (956) لفظ بخاری کے ہیں۔

Saturday, 10 May 2025

بہو سے ناجائز تعلقات پر حرمت مصاہرت

 اگرکسی  شخص نےاپنی بہو  کواس طور پر چھواہے کہ اس میں حرمت مصاہرت کو ثابت کرنے والی تمام شرائط پائی جاتی ہیں تو اس سے حرمتِ مصاہرت ثابت قائم ہوگئی، اور   بہو اپنے شوہر پر حرام ہوگئی۔اب اس کاا پنےشوہر کے ساتھ میاں بیوی کی حیثیت سے  اکھٹے رہنا جائز نہیں، اس کے بعد  شوہر پرزبانی متارکت یا طلاق دینا بھی  ضروری ہے،اس کے بعد عورت عدت گزار کر دوسری جگہ نکاح کرنے میں آزاد ہوگی۔عدت کے دوران شوہر کے گھر پردہ کے ساتھ علیحدہ رہنا، کھانا،پینا جائز ہے۔اور اگر مذکورہ شرائط نہ پائی جائیں یا شوہر بیوی کے دعوی کی تصدیق نہ کرے تو پھر حرمت مصاہرت ثابت نہ ہوگی۔

الدر المختار وحاشیہ ابن عابدین میں ہے:

"وبحرمة المصاهرة لا يرتفع النكاح حتى لا يحل لها التزوج بآخر إلا بعد المتاركة وانقضاء العدة."

(کتاب النکاح،ج3،ص37،ط؛سعید)

Thursday, 8 May 2025

چچایاتایازادبہن بھائی کا نکاح

 شوہر کے فوت ہونے کے بعد دیورسے نکاح جائز ہے اور بیٹے کا نکاح دیور کی بیٹی سے مطلقا جائز ہے، شوہر کے انتقال سے پہلے بھی اور بعد میں بھی۔

البحر الرائق شرح كنز الدقائق میں ہے:

"انتفاء محلية المرأة للنكاح شرعا بأسباب تسعة: الأول المحرمات بالنسب: وهن فروعه وأصوله وفروع أبويه وإن نزلوا وفروع أجداده وجداته إذا انفصلوا ببطن واحد. الثاني المحرمات بالمصاهرة: وهن فروع نسائه المدخول بهن وأصولهن وحلائل فروعه وحلائل أصوله، والثالث المحرمات بالرضاع وأنواعهن كالنسب، والرابع حرمة الجمع بين المحارم وحرمة الجمع بين الأجنبيات كالجمع بين الخمس، والخامس حرمة التقديم وهو تقديم الحرة على الأمة جعله في النهاية والمحيط قسما على حدة وأدخله الزيلعي في حرمة الجمع، فقال: وحرمة الجمع بين الحرة والأمة والحرة متقدمة وهو الأنسب، والسادس المحرمة لحق الغير كمنكوحة الغير ومعتدته والحامل بثابت النسب، والسابع المحرمة لعدم دين سماوي كالمجوسية والمشتركة، والثامن المحرمة للتنافي كنكاح السيدة مملوكها، والتاسع لم يذكره الزيلعي وكثير وهو المحرمة بالطلقات الثلاث ذكره في المحيط والنهاية".

(کتاب النکاح، فصل في المحرمات في النكاح، ج:3، ص:98، ط:دارالکتاب الاسلامی)

مسجد یامدرسہ کا بینک کھلوانا

 بینک میں سیونگ اکاؤنٹ کھلوانا جائز نہیں ہے ،البتہ اگر  مسجد کی رقم سنبھالنے میں مشکلات ہوں تو   ضرورت کی بناء پرصرف کرنٹ اکاؤنٹ کھولنے کی گنجائش ہے۔

درر الحکام میں ہے :

"لأن الثابت بالضرورة ‌يتقدر ‌بقدرها".

(باب الاعتکاف،ج:1،ص:213،داراحیاء الکتب العربیۃ)

Wednesday, 7 May 2025

حاجی پر عید والی قربانی

 حجِ قران یا حجِ تمتع کرنے کی صورت میں دمِ شکر کے طور پر ایک حصہ قربانی کرنا یا ایک دنبہ، یا بھیڑ، یا بکری حرم کی حدود میں ذبح کرنا لازم ہوتا ہے، یہ اس قربانی کے علاوہ ہے جو ہر سال اپنے وطن میں کی جاتی ہے، دونوں الگ الگ ہیں،عید والی قربانی کا حج والی  قربانی سے کوئی تعلق نہیں۔ حاجی کے لیے عید والی قربانی واجب ہونے یا نہ ہونے کا ضابطہ یہ ہے کہ اگر حاجی شرعی مسافر ہو تو اس پر قربانی واجب نہیں، البتہ اگر مسافر حاجی بھی اپنی خوشی سے عید والی قربانی کرے گا تو اس پر ثواب ملے گا، لیکن لازم نہیں ہے۔  اور اگر حاجی مقیم ہے اور اس کے پاس حج کے اخراجات کے علاوہ نصاب کے برابر زائد رقم موجود ہے تو اس پر قربانی کرنا واجب ہوگی۔

نوٹ: اگر حاجی ایام حج میں پندرہ دن یا اس سے زیادہ مکہ میں قیام کی نیت سے ٹھہرے اور  8 ذی الحجہ کو منیٰ روانہ ہونے سے پہلے  پندرہ دن مکمل ہو رہے ہوں تو یہ حاجی عید کے دنوں میں مقیم شمار ہوگا، اور صاحبِ استطاعت ہونے کی صورت میں اس پر دمِ شکر کے علاوہ عید کی  قربانی بھی واجب ہوگی۔ لیکن اگر  منیٰ روانہ ہونے سے پہلے مکہ میں پندرہ دن پورے نہ ہورہے ہوں تو اقامت کی نیت کا اعتبار نہیں ہوگا، لہٰذا یہ حاجی مقیم نہیں کہلائے گا ، بلکہ مسافر شمار ہوگا، چنانچہ اس حاجی پر  دمِ شکر کے علاوہ عید کی قربانی واجب نہیں ہوگی۔

بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (2/ 174)

'' قال أصحابنا: إنه دم نسك وجب شكراً ؛ لما وفق للجمع بين النسكين بسفر واحد''۔

بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (5/ 63)

''ومنها: الإقامة فلا تجب على المسافر؛ لأنها لا تتأدى بكل مال ولا في كل زمان، بل بحيوان مخصوص في وقت مخصوص، والمسافر لا يظفر به في كل مكان في وقت الأضحية، فلو أوجبنا عليه لاحتاج إلى حمله مع نفسه، وفيه من الحرج ما لا يخفى، أو احتاج إلى ترك السفر، وفيه ضرر، فدعت الضرورة إلى امتناع الوجوب، بخلاف الزكاة؛ لأن الزكاة لا يتعلق وجوبها بوقت مخصوص بل جميع العمر وقتها، فكان جميع الأوقات وقتاً لأدائها، فإن لم يكن في يده شيء للحال يؤديها إذا وصل إلى المال، وكذا تتأدى بكل مال، فإيجابها عليه لا يوقعه في الحرج، وكذلك صدقة الفطر ؛ لأنها تجب وجوباً موسعاً كالزكاة، وهو الصحيح.

وعند بعضهم وإن كانت تتوقف بيوم الفطر لكنها تتأدى بكل مال، فلا يكون في الوجوب عليه حرج، وذكر في الأصل وقال: ولا تجب الأضحية على الحاج؛ وأراد بالحاج المسافر، فأما أهل مكة فتجب عليهم الأضحية وإن حجوا''۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2/ 125)

Monday, 5 May 2025

دیوربھابی کاپردہ

 بھابھی نامحرم ہے، اور    جو حکم دیگر نامحرموں سے پردہ کا ہے وہی  حکم دیور/جیٹھ اور بھابھی کا بھی ہے،   نبی کریم ﷺ سے جب دیور (وغیرہ) سے پردہ کا حکم دریافت کیاگیا تو آپ ﷺ نے  دیور کو موت سے تعبیر فرمایا۔ (صحیح مسلم، باب التحریم الخلوۃ بالاجنبیہ والدخول، ج: ۷، ص: ۷، ط: دار الجیل بیروت  وغیرھا من کتب الاحادیث)

یعنی موت سے جتنا ڈر ہوتا ہے اتنا ہی دیور اور جیٹھ وغیرہ سے  بھی ہے، خصوصاً جب کہ رہائش بھی ساتھ ہی ہو، ایسے مواقع پر پردہ کاحکم ختم نہیں ہوجاتا، بلکہ مزید احتیاط کا متقاضی ہوجاتا ہے۔

البتہ  مشترکہ خاندانی نظام میں عورت کے لیے  پردے کی  صورت یہ ہے کہ کوئی بڑی چادر جس سے پورا جسم ڈھکا ہوا ہو  اوڑھ کر گھر کے کام کاج کرلے۔  بلا ضرورت دیور سے بات چیت نہ کی جائے۔  اگر کبھی کوئی ضروری بات یا کام ہو تو  آواز میں لچک پیدا کیے بغیر پردہ میں رہ کر ضرورت کی حد تک بات کی جائے۔   خلوت میں یا  پاس بیٹھنے  کی  یا ہنسی مذاق  کرنے کی  شرعاً اجازت   نہیں۔  نیزکبھی سارے گھر والے اکٹھے کھانے پر یا ویسے بھی  بیٹھے  ہوں تو خواتین کو چاہیے کہ ایک طرف اور مرد ایک طرف رہیں، تاکہ اختلاط نہ ہو۔

مشترکہ رہائش کی صورت میں گھر کے نامحرم مرد بھی اس کا اہتمام کریں کہ گھر میں داخل ہوتے وقت بغیر اطلاع کے نہ داخل ہوں، بلکہ بتا کر یا کم ازکم کھنکار کر داخل ہوں، تاکہ کسی قسم کی بے پردگی نادانستگی میں بھی نہ ہو۔  فقط

کیڑے مکوڑے اناج یاپانی میں گرگیے تواس پانی کاحکم

 آٹا، گندم یا کسی دوسرے اناج میں اگر صرف کیڑوں کا مادّہ جالے کی طرح پیدا ہوا، ابھی تک جاندار کیڑے نہیں ہوئے تو مع اس جالہ کے آٹا وغیرہ استعمال کرنا شرعاً درست ہے، اگر جاندار کیڑے پیدا ہوگئے تو پھر کیڑوں سمیت آٹا وغیرہ کا استعمال شرعاً جائز نہیں ہے۔ (بہشتی زیور: ۹/۱۰۴، طبی جوہر، ط:اختری) (۲،۳) جن کیڑوں اور حشرات الارض میں بہتا ہوا خون نہیں ہوتا مثلاً چیونٹی، مچھر،چھوٹی چھپکلی ان کے پانی وغیرہ میں گر کر پھول پھٹ جانے سے پانی وغیرہ ناپاک نہیں ہوتا ہے، وضو او رغسل میں اس طرح کے پانی کا استعمال شرعاً جائز ہے؛ لیکن چوں کہ کیڑے مکوڑوں (خواہ ان میں بہتا ہوا خون ہو یا نہ ہو) کاکھانا بہرحال جائز نہیں؛ اس لیے ان کے سالن میں پک جانے کی صورت میں سالن کا کھانا جائز نہ ہوگا، اسی طرح پانی میں پھول پھٹ کر گھل مل جانے کی صورت میں اس پانی کا پینا بھی جائز نہیں ہے۔ وذکر الکرخی عن أصحابنا أنّ کل ما لایفسد الماء لایفسد غیر الماء وہکذا روی ہشام عنہم، وہذا أشبہ بالفقہ، ویستوي الجواب بین المتفسّخ وغیرہ فی طہارة الماء ونجاستہ إلاّ أنہ یکرہ شرب المائع الذي تفسّخ فیہ؛ لأنہ لایخلو عن أجزاء مایحرم أکلہ الخ (بدائع الصنائع: ۱/۲۳۲، ط:زکریا) نیز دیکھیں: بہشتی زیور اختری (۹/۱۰۳ تا ۱۰۵، بہ عنوان: حیوان کا بیان)

حرام اشیاء سے دوا بنانا

 قوله: ( اختلف في التداوي بالمحرم ) ففي النهاية عن الذخيرة: يجوز إن علم فيه شفاء ولم يعلم دواء آخر، وفي الخانية في معنى قوله عليه الصلاة والسلام: إن الله لم يجعل شفاءكم فيما حرم عليكم كما رواه البخاري: أن ما فيه شفاء لا بأس به كما يحل الخمر للعطشان في الضرورة، وكذا اختاره صاحب الهداية في التجنيس، فقال: لو عرف فكتب الفاتحة بالدم على جبهته وأنفه جاز للاستشفاء وبالبول أيضًا إن علم فيه شفاء لا بأس به لكن لم ينقل، وهذا لأن الحرمة ساقطة عند الاستشفاء كحل الخمر والميتة للعطشان والجائع ا هـ من البحر . وأفاد سيدي عبد الغني أنه لا يظهر الاختلاف في كلامهم لاتفاقهم على الجواز للضرورة واشتراط صاحب النهاية العلم لاينافيه اشتراط مَن بعده الشفاء، ولذا قال والدي في شرح الدرر: إن قوله: لا للتداوي محمول على المظنون، وإلا فجوازه باليقين اتفاق كما صرح به في المصفى اهـ 

 أقول: وهو ظاهر موافق لما مر في الاستدل لقول الإمام لكن قد علمت: أن قول الأطباء لا يحصل به العلم، و الظاهر: أن التجربة يحصل به العلم،  والظاهر: أن التجربة يحصل بها غلبة الظن دون اليقين إلا أن يريدوا بالعلم غلبة الظن وهو شائع في كلامهم ۔ تأمل.

قوله: ( وظاهر المذهب المنع ) محمول على المظنون كما علمته، قوله ( لكن نقل المصنف الخ ) مفعول نقل قوله وقيل يرخص الخ والاستدراك على إطلاق المنح وإذا قيد بالمظنون فلا استدراك،ونص ما في الحاوي القدسي إذا سال الدم من أنف إنسان ولا ينقطع حتى يخشى عليه الموت وقد علم أنه لو كتب فاتحة الكتاب أو الإخلاص بذلك الدم على جبهته ينقطع فلايرخص له ما فيه وقيل يرخص كما رخص في شرب الخمر للعطشان وأكل الميتة في المخمصة وهو الفتوى ا هـ 

 قوله: ( ولم يعلم دواء آخر ) هذا المصرح به في عبارة النهاية كما مر وليس في عبارة الحاوي إلا أنه يفاد في قوله كما رخص الخ لأن حل الخمر والميتة حيث لم يوجد ما يقوم مقامهما أفاده ط.قال: ونقل الحموي: أن لحم الخنزير لايجوز التداوي به وإن تعين والله تعالى أعلم."

(حاشية ابن عابدين على الدر المختار: كتاب الطهارة، باب المياه، مطلب  في التداوي بالمحرم (1/ 210)،ط. سعيد)