https://follow.it/amir-samdani?action=followPub

Monday 8 August 2022

وترکے بعد نماز

وتر کی نماز کے بعد دو رکعت نفل پڑھنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے، اس لیے اکر کوئی وتر کے بعد نفل پڑھنا چاہے تو پڑھ سکتا ہے، حدیث شریف میں ہے: عن أبي سلمة قال: سألت عائشة رضي اللہ عنہا عن صلاة رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فقالت: کان یصلي ثمان رکعات ثم یوتر ثم یصلي رکعتین وہو جالس فإذا أراد أن یرکع قام فرکع ثم یصلي رکعتیں، بین النداء والإقامة من صلاة الصبح (صحیح مسلم) ایسے ہی پورے سال (رمضان المبارک ہو یا غیر رمضان) وتر کی نماز کے بعد تہجد کی نماز پڑھنا جائز ہے، اس میں کوئی ممانعت نہیں ہے، اگر کوئی شخص عشاء کی نماز پڑھ کر سوگیا پھر رات کو بیدار ہونے کے بعد تہجد کی نماز پڑھنا چاہے تو پڑھ سکتا ہے، تہجد کی نماز بھی صحیح ہوگی اور ثواب بھی ملے گا۔ البتہ رمضان کے علاوہ بقیہ ایام میں مستحب یہ ہے کہ اگر کسی شخص کو اعتماد ہو کہ وہ رات میں سونے کے بعد تہجد کے لیے بیدار ہوجائے گا تو اسے چاہیے کہ وہ تہجد کی نماز کے بعد وتر کی نماز ادا کرے؛ کیوں کہ حدیث میں رات کی آخری نماز وتر پڑھنے کا ذکر ہے۔ لیکن اس کا درجہ مستحب ہے، یعنی ایسا کیا تو ثواب ہوگا، نہ کیا تو کوئی گناہ نہیں ہوگا، چناں چہ بعض احادیث میں وتر کے بعد بھی نفل نماز پڑھنے کا ثبوت موجود ہے۔ اور جن لوگوں کو رات کے آخری حصہ میں بیدار ہونے کا یقین نہ ہو ان کو چاہیے کہ وہ وتر پڑھ کر سویا کریں، پھر جب بیدار ہوں تو تہجد بھی پڑھ لیں۔ اور رمضان المبارک میں وتر کی نماز جماعت سے ہی پڑھنا چاہیے، اس کے بعد پوری رات صبح صادق تک جتنے چاہیں نوافل ادا کرسکتے ہیں۔ الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (1/ 369): "(و) تأخير (الوتر إلى آخر الليل لواثق بالانتباه) وإلا فقبل النوم، فإن فاق وصلى نوافل والحال أنه صلى الوتر أول الليل فإنه الأفضل. (قوله: وتأخير الوتر إلخ) أي يستحب تأخيره، لقوله صلى الله عليه وسلم: «من خاف أن لايوتر من آخر الليل فليوتر أوله، ومن طمع أن يقوم آخره فليوتر آخر الليل، فإن صلاة آخر الليل مشهودة وذلك أفضل» ). رواه مسلم والترمذي وغيرهما. وتمامه في الحلية. وفي الصحيحين: «اجعلوا آخر صلاتكم باللیل وتراً» والأمر للندب بدليل ما قبله، بحر. (قوله: فإن فاق إلخ) أي إذا أوتر قبل النوم ثم استيقظ يصلي ما كتب له، ولا كراهة فيه بل هو مندوب، ولايعيد الوتر، لكن فاته الأفضل المفاد بحديث الصحيحين، إمداد. ولايقال: إن من لايثق بالانتباه فالتعجيل في حقه أفضل، كما في الخانية. فإذا انتبه بعدما عجل يتنفل ولاتفوته الأفضلية؛ لأنا نقول: المراد بالأفضلية في الحديث السابق هي المترتبة على ختم الصلاة بالوتر وقد فاتت، والتي حصلها هي أفضلية التعجيل عند خوف الفوات على التأخير، فافهم وتأمل".

No comments:

Post a Comment