https://follow.it/amir-samdani?action=followPub

Saturday 7 October 2023

عورت کے ساتھ حسن سلوک

download-msg Minhaj BooksOpen Menu سرورق ہمارے بارے زمرہ جات مصنفین کتابیں نئی تصانيف English اسلام میں خواتین کے حقوق سرورق اسلام میں خواتین کے حقوق اسلام میں عورت کا مقام تلاش اسلام میں خواتین کے حقوق اسلام میں عورت کا مقام اسلام کی آمد عورت کے لیے غلامی، ذلت اور ظلم و استحصال کے بندھنوں سے آزادی کا پیغام تھی۔ اسلام نے ان تمام قبیح رسوم کا قلع قمع کردیا جو عورت کے انسانی وقار کے منافی تھیں اور عورت کو وہ حقوق عطا کیے جس سے وہ معاشرے میں اس عزت و تکریم کی مستحق قرار پائی جس کے مستحق مرد ہیں۔ یہاں ہم اسلام کے قائم کردہ معاشرے میں عورت کی تکریم و منزلت کا جائزہ پیش کرتے ہیں : 1۔ اللہ تعالیٰ نے تخلیق کے درجے میں عورت کو مرد کے ساتھ ایک ہی مرتبہ میں رکھاہے، اسی طرح انسانیت کی تکوین میں عورت مرد کے ساتھ ایک ہی مرتبہ میں ہے، ارشادِ باری تعالیٰ ہے : يَا أَيُّهَا النَّاسُ اتَّقُواْ رَبَّكُمُ الَّذِي خَلَقَكُم مِّن نَّفْسٍ وَاحِدَةٍ وَخَلَقَ مِنْهَا زَوْجَهَا وَبَثَّ مِنْهُمَا رِجَالاً كَثِيرًا. ’’اے لوگو! اپنے رب سے ڈرو، جس نے تمہیں ایک جان سے پیدا فرمایا پھر اسی سے اس کا جوڑ پیدا فرمایا۔ پھر ان دونوں میں سے بکثرت مردوں اور عورتوں (کی تخلیق) کو پھیلا دیا۔‘‘ القرآن، النساء، 4 : 1 2۔ عورت پر سے دائمی معصیت کی لعنت ہٹا دی گئی اور اس پر سے ذلت کا داغ دور کر دیا گیا کہ عورت اور مرد دونوں کو شیطان نے وسوسہ ڈالا تھا، جس کے نتیجے میں وہ جنت سے اخراج کے مستحق ہوئے تھے جبکہ عیسائی روایات کے مطابق شیطان نے حضرت حواء علیہا السلام کو بہکا دیا اور یوں حضرت حواء علیہا السلام حضرت آدم علیہ السلام کے بھی جنت سے اخراج کا سبب بنیں۔ قرآن حکیم اس باطل نظریہ کا رد کرتے ہوئے فرماتا ہے : فَأَزَلَّهُمَا الشَّيْطَانُ عَنْهَا فَأَخْرَجَهُمَا مِمَّا كَانَا فِيهِ. ’’پھر شیطان نے اُنہیں اس جگہ سے ہلا دیا اور انہیں اُس (راحت کے) مقام سے، جہاں وہ تھے، الگ کر دیا۔‘‘ القرآن، البقرة، 2 : 36 3۔ اللہ تعالیٰ کے ہاں اجر کا استحقاق برابر قرار پایا۔ ان دونوں میں سے جو کوئی بھی کوئی عمل کرے گا، اسے پوری اور برابر جزاء ملے گی۔ ارشادِ ربانی ہے : فَاسْتَجَابَ لَهُمْ رَبُّهُمْ أَنِّي لاَ أُضِيعُ عَمَلَ عَامِلٍ مِّنكُم مِّن ذَكَرٍ أَوْ أُنثَى بَعْضُكُم مِّن بَعْضٍ. ’’ان کے رب نے ان کی التجا کو قبول کرلیا (اور فرمایا) کہ میں تم میں سے کسی عمل کرنے والے کے عمل کو ضائع نہیں کروں گا، چاہے وہ مرد ہو یا عورت۔ تم سب ایک دوسرے میں سے ہی ہو۔‘‘ القرآن، آل عمران، 3 : 195 4۔ عورت کو زندہ زمین میں گاڑے جانے سے خلاصی ملی۔ یہ وہ بری رسم تھی جو احترام انسانیت کے منافی تھی۔ 5۔ اسلام عورت کے لیے تربیت اور نفقہ کے حق کا ضامن بنا کہ اسے روٹی، کپڑا، مکان، تعلیم اور علاج کی سہولت ’’ولی الامر‘‘ کی طرف سے ملے گی۔ 6۔ عورت کی تذلیل کرنے والے زمانۂ جاہلیت کے قدیم نکاح جو درحقیقت زنا تھے، اسلام نے ان سب کو باطل کرکے عورت کو عزت بخشی۔ اب ہم ان حقوق کا جائزہ لیتے ہیں جو اسلام نے عورت کو مختلف حیثیتوں میں عطا کیے : 1۔ عورت کے اِنفرادی حقوق (1) عصمت و عفت کا حق معاشرے میں عورت کی عزت و احترام کو یقینی بنانے کے لیے اس کے حق عصمت کا تحفظ ضروری ہے۔ اسلام نے عورت کو حق عصمت عطا کیا اور مردوں کو بھی پابند کیا کہ وہ اس کے حق عصمت کی حفاظت کریں : قُل لِّلْمُؤْمِنِينَ يَغُضُّوا مِنْ أَبْصَارِهِمْ وَيَحْفَظُوا فُرُوجَهُمْ ذَلِكَ أَزْكَى لَهُمْ إِنَّ اللهَ خَبِيرٌ بِمَا يَصْنَعُونَO ’’(اے رسول مکرم!) مومنوں سے کہہ دو کہ اپنی نظریں نیچی رکھا کریں اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کریں۔ یہ ان کے لیے پاکیزگی کا موجب ہے۔ اللہ اس سے واقف ہے، جو کچھ وہ کرتے ہیںo‘‘ القرآن، النور، 24 : 30 ’’فرج‘‘ کے لغوی معنی میں تمام ایسے اعضاء شامل ہیں، جو گناہ کی ترغیب میں معاون ہو سکتے ہیں، مثلاً آنکھ، کان، منہ، پاؤں اور اس لیے اس حکم کی روح یہ قرار پاتی ہے کہ نہ بری نظر سے کسی کو دیکھو، نہ فحش کلام سنو اور نہ خود کہو، اور نہ پاؤں سے چل کر کسی ایسے مقام پر جاؤ، جہاں گناہ میں مبتلا ہو جانے کا اندیشہ ہو۔ اس کے بعد عورتوں کو حکم ہوتا ہے : وَقُل لِّلْمُؤْمِنَاتِ يَغْضُضْنَ مِنْ أَبْصَارِهِنَّ وَيَحْفَظْنَ فُرُوجَهُنَّ وَلَا يُبْدِينَ زِينَتَهُنَّ إِلَّا مَا ظَهَرَ مِنْهَا. ’’اور (اے رسول مکرم!) مومنہ عورتوں سے کہہ دو کہ (مردوں کے سامنے آنے پر) وہ اپنی نظریں نیچی رکھا کریں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں اور اپنی زینت و آرائش کی نمائش نہ کریں سوائے جسم کے اس حصہ کو جو اس میں کھلا ہی رہتا ہے۔‘‘ القرآن، النور، 24 : 31 يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لِيَسْتَأْذِنكُمُ الَّذِينَ مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ وَالَّذِينَ لَمْ يَبْلُغُوا الْحُلُمَ مِنكُمْ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ مِن قَبْلِ صَلَاةِ الْفَجْرِ وَحِينَ تَضَعُونَ ثِيَابَكُم مِّنَ الظَّهِيرَةِ وَمِن بَعْدِ صَلَاةِ الْعِشَاءِ ثَلَاثُ عَوْرَاتٍ لَّكُمْ لَيْسَ عَلَيْكُمْ وَلَا عَلَيْهِمْ جُنَاحٌ بَعْدَهُنَّ طَوَّافُونَ عَلَيْكُم بَعْضُكُمْ عَلَى بَعْضٍ كَذَلِكَ يُبَيِّنُ اللهُ لَكُمُ الْآيَاتِ وَاللهُ عَلِيمٌ حَكِيمٌO ’’اے ایمان والو! چاہیے کہ تمہارے زیردست (غلام اور باندیاں) اور تمہارے ہی وہ بچے جو (ابھی) جوان نہیں ہوئے (تمہارے پاس آنے کے لئے) تین مواقع پر تم سے اجازت لیا کریں : (ایک) نمازِ فجر سے پہلے، اور (دوسرے) دوپہر کے وقت جب تم (آرام کے لئے) کپڑے اتارتے ہو اور (تیسرے) نمازِ عشاء کے بعد (جب تم خواب گاہوں میں چلے جاتے ہو)، (یہ) تین (وقت) تمہارے پردے کے ہیں، ان (اوقات) کے علاوہ نہ تم پر کوئی گناہ ہے اور نہ ان پر (کیونکہ بقیہ اوقات میں وہ) تمہارے ہاں کثرت کے ساتھ ایک دوسرے کے پاس آتے جاتے رہتے ہیں، اِسی طرح اللہ تمہارے لئے آیتیں واضح فرماتا ہے، اور اللہ خوب جاننے والا حکمت والا ہےo‘‘ القرآن، النور، 24 : 58 اسلام نے قانون کے نفاذ میں بھی عورت کے اس حق کو مستحضر رکھا۔ خلفائے راشدین کا طرز عمل ایسے اقدامات پر مشتمل تھا جن سے نہ صرف عورت کے حق عصمت کو مجروح کرنے والے عوامل کا تدارک ہوا بلکہ عورت کی عصمت و عفت کا تحفظ بھی یقینی ہوا۔ ایک شخص حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی خدمت میں آیا اور عرض کیا کہ میرے ایک مہمان نے میری ہمشیرہ کی آبروریزی کی ہے اور اسے اس پر مجبور کیا ہے۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اس شخص سے پوچھا اس نے جرم کا اعتراف کرلیا۔ اس پر آپ نے حد زنا جاری کرکے اسے ایک سال کے لئے فدک کی طرف جلا وطن کردیا۔ لیکن اس عورت کو نہ تو کوڑے لگائے اور نہ ہی جلا وطن کیا کیونکہ اسے اس فعل پر مجبور کیا گیا تھا۔ بعد میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اس خاتون کی شادی اسی مرد سے کردی۔ هندي، کنز العمال، 5 : 411 اسی طرح کا ایک اور واقعہ یوں مذکور ہے : استفاف رجل ناسا من هذيل فأرسلوا جارية لهم تحطب فأعجبت الضعيف فتبعها فأرادها علي نفسهانا متنعت فعارکها ساعة فانفلتت منه انفلاتة فرمته بحجر ففضت کبده فمات ثم جاء ت إلي أهلها فأخبرتهم فذهب أهلها إلي عمرا فأخبروه فأرسل عمر فوجد أثارهما فقال عمر قتيل الله لا يوري أبدا. ’’ایک شخص نے ہذیل کے کچھ لوگوں کی دعوت کی اور اپنی باندی کو لکڑیاں کاٹنے کے لیے بھیجا۔ مہمانوں میں سے ایک مہمان کو وہ پسند آگئی اور وہ اس کے پیچھے چل پڑا اور اس کی عصمت لوٹنے کا طلب گار ہوا لیکن اس باندی نے انکار کردیا۔ تھوڑی دیر ان دونوں میں کشمکش ہوتی رہی۔ پھر وہ اپنے آپ کو چھڑانے میں کامیاب ہوگئی اور ایک پتھر اٹھا کر اس شخص کے پیٹ پر مار دیا جس سے اس کا جگر پھٹ گیا اور وہ مرگیا۔ پھر وہ اپنے گھروالوں کے پاس پہنچی اور انہیں واقعہ سنایا۔ اس کے گھر والے اسے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس لے کر گئے اور آپ سے سارا واقعہ بیان کیا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے معاملہ کی تحقیق کے لیے کچھ لوگوں کو بھیجا اور انہوں نے موقع پر ایسے آثار دیکھے، جس سے دونوں میں کشمکش کا ثبوت ملتا تھا۔ تب حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ اللہ نے جسے مارا ہے اس کی دیت کبھی نہیں دی جاسکتی۔‘‘ 1. عبدالرزاق، المصنف، 9 : 435 2. ابن ابي شيبه، المصنف، 1 : 166، رقم : 154 3. ابن ابي شيبه، المصنف، 5 : 431، رقم : 27793 4. خلال، السنة، 1 : 166، رقم : 154 5. بيهقي، السنن الکبريٰ، 8 : 337 6. ابن عبدالبر، التمهيد، 21 : 257 7. ابن حزم، المحلي، 8 : 25 8. ابن قدامه، المغني، 9 : 152 9. عسقلاني، تلخيص الحبير4 : 86، رقم : 1817 10. انصاري، خلاصة البدر المنير، 2 : 332، رقم : 2488 (2) عزت اور رازداری کا حق معاشرے میں عورتوں کی عزت اور عفت و عصمت کی حفاظت ان کے رازداری کے حق کی ضمانت میں ہی مضمر ہے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خواتین کو رازداری کا حق عطا فرمایا اور دیگر افراد معاشرے کو اس حق کے احترام کا پابند کیا۔ قرآن حکیم میں ارشاد ربانی ہے : يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَدْخُلُوا بُيُوتًا غَيْرَ بُيُوتِكُمْ حَتَّى تَسْتَأْنِسُوا وَتُسَلِّمُوا عَلَى أَهْلِهَا ذَلِكُمْ خَيْرٌ لَّكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَO فَإِن لَّمْ تَجِدُوا فِيهَا أَحَدًا فَلَا تَدْخُلُوهَا حَتَّى يُؤْذَنَ لَكُمْ وَإِن قِيلَ لَكُمُ ارْجِعُوا فَارْجِعُوا هُوَ أَزْكَى لَكُمْ وَاللهُ بِمَا تَعْمَلُونَ عَلِيمٌO ’’اے لوگو، جو ایمان لائے ہو! اپنے گھروں کے سوا دوسرے گھروں میں اس وقت تک داخل نہ ہوا کرو جب تک (اس امر کی) اجازت نہ لے لو اور اہلِ خانہ پر سلام کہو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے کہ تم ان باتوں سے نصیحت حاصل کروo اور اگر گھر میں کوئی نہ ہو تو ان میں داخل نہ ہو، جب تک تمہیں (اندر جانے کی) اجازت نہ ملے اور اگر تم سے لوٹ جانے کو کہا جائے تو لوٹ جاؤ۔ یہ تمہارے لئے زیادہ پاکیزگی کا موجب ہے۔ اور جو کچھ تم کرتے ہو، اللہ اس سے خوب واقف ہےo‘‘ القرآن، النور، 24 : 27، 28 خود حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہی دستور تھا کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کسی کے ہاں جاتے تو باہر سے السلام علیکم فرماتے، تاکہ صاحبِ خانہ کو معلوم ہو جائے اور وہ آپ کو اندر آنے کی اجازت دے دے۔ اگر پہلی بار کوئی جواب نہ ملتا تو دوسری مرتبہ السلام علیکم کہتے۔ اگر اب بھی کوئی جواب نہ ملتا تو تیسری مرتبہ پھر یہی کرتے اور اس کے بعد بھی جواب نہ ملنے پر واپس تشریف لے جاتے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک مرتبہ سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ کے گھر تشریف لے گئے۔ حسبِ معمول السلام علیکم کہا۔ سعد نے جواب میں آہستہ سے وعلیکم السلام کہا جو آپ سن نہ سکے۔ اسی طرح تینوں بار ہوا۔ آخر جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یہ خیال کرکے واپس جانے لگے کہ غالباً گھر میں کوئی نہیں تو حضرت سعد دوڑ کر آئے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ساتھ لے گئے اور عرض کیا : يا رسول الله! إني کنت أسمع تسليمک و أرد عليک ردا خفيا لتکثر علينا من السلام. ’’حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں نے جواب تو دیا تھا لیکن آہستہ سے، میں یہ چاہتا تھا کہ آپ زیادہ سے زیادہ بار ہمارے لئے دُعا کریں (کیونکہ السلام علیکم بھی سلامتی کی دُعا ہے)۔‘‘ 1. ابوداؤد، السنن، کتاب الأدب، باب کم مره يسلم، 4 : 347، رقم : 5185 2. احمد بن حنبل، المسند، 3 : 421 3. طبراني، المعجم الکبير، 18 : 253، رقم : 902 4. بيهقي، شعب الايمان، 6 : 439، رقم : 8808 5. ابن کثير، تفسير القرآن العظيم، 3 : 280 انہی معنوں میں حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے۔ وہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھ سے فرمایا : إذا استاذن احدکم ثلاثا فلم يوذن له فليرجع. ’’جب تم میں سے کوئی شخص (کسی کے گھر میں داخل ہونے کے لئے) تین مرتبہ اجازت طلب کرے اور اس کو اجازت نہ ملے تو چاہیے کہ واپس چلا آئے۔‘‘ 1. بخاري، الصحيح، کتاب الاسئذان، باب التسليم، 5 : 2305، رقم : 5891 2. مسلم، الصحيح، کتاب الأداب، باب الإستئذان، 3 : 1694، رقم : 2153 3. احمد بن حنبل، المسند، 4 : 398 4. ابن حبان، الصحيح، 13 : 122، رقم : 5806 5. طيالسي، المسند، 1 : 70، رقم : 518 6. حميدي، المسند، 2 : 321، رقم : 734 7. ابويعليٰ، المسند، 2 : 269، رقم : 981 8. طبراني، المعجم الکبير، 2 : 168، رقم : 1687 9. بيهقي، السنن، 8 : 339، رقم : 39 10. شيباني، الآحاد والمثاني، 4 : 449، رقم : 2502 آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ اگر سلام کے جواب میں صاحبِ خانہ مکان کے اندر سے نام وغیرہ پوچھے تو فوراً اپنا نام بتانا چاہیے۔ حضرت جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس گیا اور اندر آنے کی اجازت طلب کی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اندر سے پوچھا : کون ہے؟ میں نے عرض کیا : میں ہوں۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ناگواری سے فرمایا : ’’میں ہوں، میں ہوں‘‘ اور باہر تشریف لے آئے، گویا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے محض ’’میں ہوں‘‘ جواب دینے کو ناپسند فرمایا۔ بخاري، الصحيح، کتاب الإستئذان، باب إزا قال من ذا، 5 : 2306، رقم : 5896 اس میں تعلیم یہ ہے کہ پوچھنے پر اپنا نام بتانا چاہیے، محض ’’میں ہوں‘‘ کہنے سے یہ معلوم نہیں ہوتا کہ کون ہے؟ بعض اوقات ایسا ہوتا ہے کہ جب اندر سے کوئی جواب نہیں ملتا تو متجسس لوگ ادھر ادھر جھانکنے لگتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس طرح کسی دوسرے کے گھر میں جھانکنے سے منع فرمایا، کیونکہ اس سے اجازت طلب کرنے کا مقصد ہی فوت ہو جاتا ہے۔ اگر کوئی شخص اس طرح جھانکے اور صاحب خانہ اسے سزا دینے کے لئے اسے کنکری یا پتھر مار دے جس سے جھانکنے والے کی آنکھ پھوٹ جائے یا اسے کوئی زخم پہنچ جائے تو صاحب مکان بری الذمہ ہے اور جھانکنے والے کو قصاص نہیں دیا جائے گا۔ بخاري، الصحيح، کتاب الإستئذان، باب من أجل البصر، 5 : 2304، رقم : 5888 کسی کے گھر میں اجازت لے کر داخل ہونے کے اس عام حکم کے بعد فرمایا کہ تم کسی کے گھر سے کوئی چیز طلب کرنا چاہو تو تمہارا فرض ہے کہ پردے کے پیچھے سے سوال کرو تاکہ ایک دوسرے کا سامنا نہ کرنا پڑے جو دونوں کے لئے اخلاقی لحاظ سے اچھا ہے۔ ارشاد ربانی ہے : وَإِذَا سَأَلْتُمُوهُنَّ مَتَاعًا فَاسْأَلُوهُنَّ مِن وَرَاءِ حِجَابٍ ذَلِكُمْ أَطْهَرُ لِقُلُوبِكُمْ وَقُلُوبِهِنَّ. ’’اور جب تم عورتوں سے کوئی چیز طلب کرو تو ان سے پردے کے باہر سے مانگ لو۔ یہ تمہارے دلوں کے لئے اور ان کے دلوں کے لئے زیادہ پاکیزگی کا موجب ہے۔‘‘ القرآن، الاحزاب، 33 : 53 عورتوں کے حق رازداری و عصمت و عفت کی حفاظت کے لئے پردہ کے احکام آئے۔ قرآن حکیم میں خواتین کو اپنی نگاہیں نیچی رکھنے اور اپنی آرائش و زیبائش کو افشا نہ کرنے کی تعلیم دے کر اس پاکیزگیء معاشرت کی بنیاد رکھی گئی جو خواتین کے حق رازداری و عصمت و عفت کی حفاظت کو یقینی بناسکتی ہے : وَقُل لِّلْمُؤْمِنَاتِ يَغْضُضْنَ مِنْ أَبْصَارِهِنَّ وَيَحْفَظْنَ فُرُوجَهُنَّ وَلَا يُبْدِينَ زِينَتَهُنَّ إِلَّا مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَلْيَضْرِبْنَ بِخُمُرِهِنَّ عَلَى جُيُوبِهِنَّ وَلَا يُبْدِينَ زِينَتَهُنَّ إِلَّا لِبُعُولَتِهِنَّ أَوْ آبَائِهِنَّ أَوْ آبَاءِ بُعُولَتِهِنَّ أَوْ أَبْنَائِهِنَّ أَوْ أَبْنَاءِ بُعُولَتِهِنَّ أَوْ إِخْوَانِهِنَّ أَوْ بَنِي إِخْوَانِهِنَّ أَوْ بَنِي أَخَوَاتِهِنَّ أَوْ نِسَائِهِنَّ أَوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُهُنَّ أَوِ التَّابِعِينَ غَيْرِ أُوْلِي الْإِرْبَةِ مِنَ الرِّجَالِ أَوِ الطِّفْلِ الَّذِينَ لَمْ يَظْهَرُوا عَلَى عَوْرَاتِ النِّسَاءِ وَلَا يَضْرِبْنَ بِأَرْجُلِهِنَّ لِيُعْلَمَ مَا يُخْفِينَ مِن زِينَتِهِنَّ وَتُوبُوا إِلَى اللهِ جَمِيعًا أَيُّهَا الْمُؤْمِنُونَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَO ’’اور آپ مومن عورتوں سے فرما دیں کہ وہ (بھی) اپنی نگاہیں نیچی رکھا کریں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کیا کریں اور اپنی آرائش و زیبائش کو ظاہر نہ کیا کریں سوائے (اسی حصہ) کے جو اس میں سے خود ظاہر ہوتا ہے اور وہ اپنے سروں پر اوڑھے ہوئے دوپٹے (اور چادریں) اپنے گریبانوں اور سینوں پر (بھی) ڈالے رہا کریں اور وہ اپنے بناؤ سنگھار کو (کسی پر) ظاہر نہ کیا کریں سوائے اپنے شوہروں کے یا اپنے باپ دادا یا اپنے شوہروں کے باپ دادا کے یا اپنے بیٹوں یا اپنے شوہروں کے بیٹوں کے یا اپنے بھائیوں یا اپنے بھتیجوں یا اپنے بھانجوں کے یا اپنی (ہم مذہب، مسلمان) عورتوں یا اپنی مملوکہ باندیوں کے یا مردوں میں سے وہ خدمتگار جو خواہش و شہوت سے خالی ہوں یا وہ بچے جو (کمسنی کے باعث ابھی) عورتوں کے پردہ والی چیزوں سے آگاہ نہیں ہوئے (یہ بھی مستثنیٰ ہیں) اور نہ (چلتے ہوئے) اپنے پاؤں (زمین پر اس طرح) مارا کریں کہ (پیروں کی جھنکار سے) انکا وہ سنگھار معلوم ہوجائے جسے وہ (حکم شریعت سے) پوشیدہ کیے ہوئے ہیں اور تم سب کے سب اللہ کے حضور توبہ کرو اے مومنو! تاکہ تم (ان احکام پر عمل پیرا ہوکر) فلاح پا جاؤo‘‘ القرآن، النور، 24 : 31 يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ قُل لِّأَزْوَاجِكَ وَبَنَاتِكَ وَنِسَاءِ الْمُؤْمِنِينَ يُدْنِينَ عَلَيْهِنَّ مِن جَلَابِيبِهِنَّ ذَلِكَ أَدْنَى أَن يُعْرَفْنَ فَلَا يُؤْذَيْنَ. ’’اے نبی! اپنی بیویوں اور اپنی صاحبزادیوں اور مسلمانوں کی عورتوں سے فرما دیں کہ (باہر نکلتے وقت) اپنی چادریں اپنے اوپر اوڑھ لیا کریں، یہ اس بات کے قریب تر ہے کہ وہ پہچان لی جائیں (کہ یہ پاک دامن آزاد عورتیں ہیں) پھر انہیں (آوارہ باندیاں سمجھ کر غلطی سے) ایذاء نہ دی جائے۔‘‘ القرآن، الأحزاب، 33 : 59 (3) تعلیم و تربیت کا حق اسلام کی تعلیمات کا آغاز اِقْرَاْ سے کیا گیا اور تعلیم کو شرفِ انسانیت اور شناختِ پروردگار کی اساس قرار دیا گیا : اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِي خَلَقَO خَلَقَ الْإِنسَانَ مِنْ عَلَقٍO اقْرَأْ وَرَبُّكَ الْأَكْرَمُO الَّذِي عَلَّمَ بِالْقَلَمِO عَلَّمَ الْإِنسَانَ مَا لَمْ يَعْلَمْO ’’(اے حبیب!) اپنے رب کے نام سے (آغاز کرتے ہوئے) پڑھیے جس نے (ہر چیز کو) پیدا فرمایاo اس نے انسان کو (رحم مادر میں جونک کی طرح) معلق وجود سے پیدا کیاo پڑھئیے اور آپ کا رب بڑا ہی کریم ہےo جس نے قلم کے ذریعے (لکھنے پڑھنے کا) علم سکھایاo جس نے انسان کو (اس کے علاوہ بھی) وہ (کچھ) سکھا دیا جو وہ نہیں جانتا تھاo‘‘ القرآن، العلق، 96 : 1 - 5 حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خواتین کی تعلیم و تربیت کو اتنا ہی اہم اور ضروری قرار دیا ہے جتنا کہ مردوں کی۔ اسلامی معاشرے میں یہ کسی طرح مناسب نہیں کہ کوئی شخص لڑکی کو لڑکے سے کم درجہ دے کر اس کی تعلیم و تربیت نظرانداز کر دے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد ہے : الرجل تکون له الامة فيعلمها فيحسن تعليمها و يودبها فيحسن ادبها ثم يعتقها فيتزوجها فله اجران. ’’اگر کسی شخص کے پاس ایک لونڈی ہو پھر وہ اسے تعلیم دے اور یہ اچھی تعلیم ہو۔ اور اس کو آداب مجلس سکھائے اور یہ اچھے آداب ہوں۔ پھر آزاد کرکے اس سے نکاح کرے تو اس شخص کے لیے دوہرا اجر ہے۔‘‘ 1. بخاري، الصحيح، کتاب الجهاد، باب فضل من أسلم، 3 : 1096، رقم : 2849 2. ابو عوانه، المسند، 1 : 103، رقم : 68 3. ابن ابي شيبه، المصنف، 3 : 118، رقم : 12635 4. روياني، المسند، 1 : 307، رقم : 458 یعنی ایک اجر تو اس بات کا کہ اس نے اسے اچھی تعلیم دی اور اچھے آداب سکھائے اور دوسرا اجر اس امر کا کہ اسے آزاد کرکے اس سے نکاح کر لیا اور اس طرح اس کا درجہ بلند کیا۔ اس سے ظاہر ہے کہ اسلام اگر باندیوں تک کو زیورِ تعلیم سے آراستہ کرنے کو کارِ ثواب قرار دیتا ہے تو وہ آزاد لڑکوں اور لڑکیوں کے تعلیم سے محروم رکھے جانے کو کیونکر گوارا کر سکتا ہے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے علم کی عظمت ظاہر کرنے کے لیے ارشاد فرمایا کہ اس کا حاصل کرنا ہر مسلمان پر فرض ہے : طلب العلم فريضة علي کل مسلم. ’’علم حاصل کرنا ہر مسلمان (مرد و عورت) پر فرض ہے۔‘‘ ایک دوسرے موقع پر حصولِ علم میں ہر طرح کے امتیاز اور تنگ نظری کو مٹانے کی خاطر نہایت لطیف پیرائے میں فرمایا : 1. ابن ماجه، السنن، المقدمه، باب فضل العلماء، 1 : 81، رقم : 224 2. ابويعليٰ، المسند، 5 : 223، رقم : 2837 3. طبراني، المعجم الکبير، 10 : 195، رقم : 10439 4. طبراني، المعجم الاوسط، 1 : 8، رقم : 9 5. طبراني، المعجم الصغير، 1 : 36، رقم : 22 6. ابويعليٰ، المعجم، 1 : 257، رقم : 320 7. شعب الايمان، 2 : 203، رقم : 1663 8. هيثمي، مجمع الزوائد، 1 : 119 9. منذري، الترغيب والترهيب، 1 : 52، رقم : 109 10. کناني، مصباح الزجاجة، 1 : 30، رقم : 81 الکلمة الحکمة ضالة المؤمن فحيث وجدها فهو احق بها. ’’علم اور عقل کی بات مؤمن کا گمشدہ مال ہے، پس جہاں بھی اسے پائے اسے حاصل کرنے کا وہ زیادہ حق دار ہے۔‘‘ 1. ترمذي، السنن، کتاب العلم، ماجاء في فضل الفقه، 5 : 51، رقم : 2687 2. ابن ماجه، السنن، کتاب الزهد، باب الحکمة، 2 : 1395، رقم : 4169 3. ابن ابي شيبه، المصنف، 7 : 240، رقم : 35681 4. روياني، المسند، 1 : 75، رقم : 33 5. بيهقي، سنن الکبريٰ، 6 : 190، رقم : 11851 6. شيباني، الاحاد والمثاني، 3 : 264، رقم : 1639 7. ديلمي، الفردوس بماثور الخطاب، 2 : 152، رقم : 2770 8. ابونعيم اصبهاني، حلية الاولياء، 3 : 354 9. سيوطي، شرح سنن ابن ماجه، 1 : 307، رقم : 4169 10. مناوي، فيض القدير، 2 : 545 (4) حسنِ سلوک کا حق حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے عورتوں سے حسن سلوک کی تعلیم دی اور زندگی کے عام معاملات میں عورتوں سے عفو و درگزر اور رافت و محبت پر مبنی سلوک کی تلقین فرمائی : عن أبي هريرة رضي الله عنه أن رسول الله ﷺ قال : المرأة کالضلع ان اقمتها کسرتها وان استمتعت بها استمتعت بها وفيها عوج. ’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : عورت پسلی کی مانند ہے اگر اسے سیدھا کرو گے تو ٹوٹ جائے گی اگر اسی طرح اس کے ساتھ فائدہ اٹھانا چاہو تو فائدہ اٹھا سکتے ہو ورنہ اس کے اندر ٹیڑھا پن موجود ہے۔‘‘ 1. بخاري، الصحيح، کتاب النکاح، باب المدارة مع النساء، 5 : 1987، رقم : 4889 2. مسلم، الصحيح، کتاب الرضاع، باب الوصية بالنساء، 2 : 1090، رقم : 1468 3. ترمذي، السنن، کتاب الطلاق، باب ماجاء في مدارة النساء، 3 : 493، رقم : 1188 4. احمد بن حنبل، المسند، 2 : 428، رقم : 9521 5. ابن حبان، الصحيح، 9 : 487، رقم : 4180 6. دارمي، السنن، 2 : 199، رقم : 2222 7. ابن ابي شيبه، المصنف، 4 : 197 8. ابوعوانة، المسند، 3 : 142، رقم : 4495 9. طبراني، المعجم الاوسط، 1 : 178، رقم : 565 10. هيثمي، مجمع الزوائد، 4 : 303، رقم : 304 عن أبي هريرة رضي الله عنه عن النبي ﷺ قال : من کان يؤمن بالله واليوم الاخر فلا يؤذي جاره واستوصوا بالنساء خيرا، فانهن خلقن من ضلع و ان اعوج شئ في الضلع اعلاه فان ذهبت تقيمه کسرته وان ترکته لم يزل اعوج فاستوصوا بالنساء خيرا. ’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جو اللہ تعالیٰ اور روزِ قیامت پر ایمان رکھتا ہے وہ اپنے ہمسائے کو تکلیف نہ دے، اور عورتوں کے ساتھ نیکی کرنے کے بارے میں میری وصیت قبول کر لو کیونکہ وہ پسلی سے پیدا کی گئیں ہیں۔ اور سب سے اوپر والی پسلی سب سے زیادہ ٹیڑھی ہوتی ہے اگر تم اسے سیدھا کرنے لگو گے تو توڑ ڈالو گے اور اس کے حال پر چھوڑے رہو گے تب بھی ہمیشہ ٹیڑھی رہے گی پس عورتوں کے ساتھ بھلائی کرنے کے بارے میں میری وصیت قبول کر لو۔‘‘ 1. بخاري، الصحيح، کتاب النکاح، باب الوصاة بالنساء، 5 : 1987، رقم : 4890 2. مسلم، الصحيح، کتاب الرضاع، باب الوصية بالنساء، 2 : 1091، رقم : 1468 3. ابن ابي شيبه، المصنف، 4 : 197 4. ابن راهويه، المسند، 1 : 250، رقم : 214 5. ابويعليٰ، المسند، 11 : 85، رقم : 6218 6. بيهقي، السنن الکبريٰ، 7 : 295، رقم : 14499

No comments:

Post a Comment