https://follow.it/amir-samdani?action=followPub

Saturday 1 July 2023

خصائص قرآن مجید

قرآن مجید اللہ تعالیٰ کا کلام ،اس کی آخری کتاب اور اس کا ایک معجزہ ہے ۔ یہ دنیا میں سب سے زیادہ پڑھی جانے والی کتاب ہے۔اس نے اپنے سے پہلے کی سب الہامی کتابوں کو منسوخ کردیا ہے۔ اوران میں سےکوئی بھی آج اپنی اصل صورت میں محفوظ نہیں ۔ البتہ قرآن تمام پہلی کتابوں کی تعلیمات کواپنے اندر سمیٹے ہوئے ہے ۔اور قرآن مجید واحد ایسی کتاب کے جو پوری انسانیت کےلیے رشد وہدایت کا ذریعہ ہے اللہ تعالی نے اس کتاب ِہدایت میں انسان کو پیش آنے والےتما م مسائل کو تفصیل سے بیان کردیا ہے جیسے کہ ارشادگرامی ہے کہ و نزلنا عليك الكتاب تبيانا لكل شيء قرآن مجید سیکڑوں موضوعا ت پرمشتمل ہے۔مسلمانوں کی دینی زندگی کا انحصار اس مقدس کتاب سے وابستگی پر ہے اور یہ اس وقت تک ممکن نہیں جب تک اسے پڑ ھا اور سمجھا نہ جائے۔ قرآن کریم کا یہ اعجاز ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کی حفاظت کا ذمہ خود لیا۔اور قرآن کریم یہ خصوصیت ہے کہ تمام مخلوقات مل کر بھی اس کی مثال پیش کرنے سے قاصر ہیں۔قرآن کی عظمت کا اندازہ اس امر سے بھی لگایا جاسکتا ہے ہ یہ کتاب جس سرزمین پر نازل ہوئی اس نے وہاں کے لوگوں کو فرشِ خاک سے اوجِ ثریا تک پہنچا دیا۔اس نےان کو دنیا کی عظیم ترین طاقت بنا دیا۔قرآن واحادیث میں قرآن اور حاملین قرآن کے بہت فضائل بیان کے گئے ہیں ۔نبی کریم ﷺ نے اپنی زبانِ رسالت سے ارشاد فرمایا: «خَيْرُكُمْ مَنْ تَعَلَّمَ القُرْآنَ وَعَلَّمَهُ» صحیح بخاری:5027) اور ایک حدیث مبارکہ میں قوموں کی ترقی اور تنزلی کو بھی قرآن مجید پر عمل کرنے کےساتھ مشروط کیا ہے ۔ارشاد نبو ی ہے : «إِنَّ اللهَ يَرْفَعُ بِهَذَا الْكِتَابِ أَقْوَامًا، وَيَضَعُ بِهِ آخَرِينَ»صحیح مسلم :817)تاریخ گواہ کہ جب تک مسلمانوں نے قرآن وحدیث کو مقدم رکھااور اس پر عمل پیرا رہے تو وہ دنیا میں غالب اور سربلند رہے ۔ انہوں نے تین براعظموں پر حکومت کی اور دنیا کو اعلیٰ تہذیب وتمدن اور بہترین نظام ِ زندگی دیا ۔ اور جب قرآن سے دوری کا راستہ اختیار کیا تو مسلمان تنزلی کاشکار ہوگئے قرآن مجید اور ہماری ذمہ داری یہ کتابِ مقدس حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ سے لے کر رہتی دنیا تک مشعلِ راہ بنی رہے گی، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اس کتاب کو اتنا جامع اور مانع بنایا ہے کہ ایمانیات، عبادات، معاملات ، سماجیات ، معاشیات واقتصادیات کے اصول قرآن کریم میں مذکور ہیں۔ ہاں! ان کی تفصیلات احادیثِ نبویہ میں موجود ہیں۔ مگر بڑے افسوس کی بات ہے کہ ہمارا تعلق اس کتاب سے روز بروز منقطع ہوتا جارہا ہے۔ یہ کتاب ہماری مسجدوں اور گھروں میں جزدانوں میں قید ہوکر رہ گئی ہے، نہ تلاوت ہے نہ تدبر ہے اور نہ ہی اس کے احکام پر عمل، آج کا مسلمان دنیا کی دوڑ میں اس طرح گم ہوگیا ہے کہ قرآن کریم کے احکام ومسائل کو سمجھنا تو درکنار اس کی تلاوت کے لیے بھی وقت نہیں ہے۔ علامہ اقبال ؒ نے اپنے دور کے مسلمانوں کے حال پر رونا روتے ہوئے اسلاف سے اس وقت کے مسلمان کا مقارنہ ان الفاظ میں کیا تھا: وہ زمانہ میں معزز تھے مسلماں ہوکر اور ہم خوار ہوئے تارکِ قرآں ہوکر آج ہم اپنے بچوں کی دنیاوی تعلیم کے بارے میں سوچتے ہیں، انہیں عصری علوم کی تعلیم دینے پر اپنی تمام محنت وتوجہ صرف کرتے ہیں اور ہماری نظر صرف اور صرف اس عارضی دنیا اور اس کے آرام وآسائش پر ہوتی ہے اور اُس ابدی ولافانی دنیا کے لیے کوئی خاص جدوجہد نہیں کرتے، الا ما شاء اللہ۔ لہٰذا ہمیں چاہیے کہ ہم اپنا اور اپنے بچوں کا تعلق وشغف قرآن وحدیث سے جوڑیں، اس کی تلاوت کا اہتمام کریں، علماء کی سرپرستی میں قرآن وحدیث کے احکام سمجھ کر ان پر عمل کریں اور اس بات کی کوشش وفکر کریں کہ ہمارے ساتھ، ہمارے بچے، گھر والے، پڑوسی، دوست واحباب ومتعلقین بھی حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے لائے ہوئے طریقہ پر زندگی گزارنے والے بن جائیں۔ آج عصری تعلیم کو اس قدر فوقیت واہمیت دی جارہی ہے کہ لڑکوں اور لڑکیوں کو قرآن کریم ناظرہ کی بھی تعلیم نہیں دی جارہی ہے، کیونکہ ان کو اسکول جانا ہے، ہوم ورک کرنا ہے، پروجیکٹ تیار کرنا ہے، امتحانات کی تیاری کرنی ہے، وغیرہ وغیرہ، یعنی دنیاوی زندگی کی تعلیم کے لیے ہر طرح کی جان ومال اوروقت کی قربانی دینا آسان ہے، لیکن اللہ تعالیٰ کے کلام کو سیکھنے میں ہمیں دشواری محسوس ہوتی ہے۔ غور فرمائیں کہ قرآن کریم اللہ تعالیٰ کا کلام ہے جو اس نے ہماری رہنمائی کے لیے نازل فرمایا ہے اور اس کے پڑھنے پر اللہ تعالیٰ نے بڑا اَجر رکھا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو ہدایت عطا فرمائے اور قرآن کریم کو سمجھ کر پڑھنے والا اور قرآن وحدیث کے احکام پر عمل کرنے والا بنائے، آمین۔

Friday 30 June 2023

فوت شدہ شخص کی طرف سے کی گئی قربانی کے گوشت کاحکم

میت کی طرف سے قربانی کرنا جائز ہے اور اس قربانی کا گوشت کھانا سب کے لیے جائز ہوگا۔ سارا غرباء میں تقسیم کرنا ضروری نہیں، البتہ اگر میت نے اپنی طرف سے قربانی کی وصیت کی ہو اور میت کے مال سے ہی قربانی کی جائے تو اس کا گوشت صدقہ کرنا ہوگا۔ فتاوی شامی میں ہے: "من ضحى عن الميت يصنع كما يصنع في أضحية نفسه من التصدق والأكل والأجر للميت والملك للذابح. قال الصدر: والمختار أنه إن بأمر الميت لايأكل منها وإلا يأكل، بزازية، وسيذكره في النظم." (کتاب الأضحیة ج نمبر ۶ ص نمبر ۳۲۶،ایچ ایم

Thursday 29 June 2023

دینی پروگرام کو تلاوت قرآن مجید سے شروع کرنا

دینی پروگرام اور خیر کی مجالس کی ابتدا قرآنِ مجید کی تلاوت سے کرنا جائز ہے اوریہ خیروبرکت، اور ثواب کا ذریعہ ہے، یہ بدعت نہیں ہے۔ حدیثِ مبارک میں آتاہے کہ ہر مہتم بالشان بات یا کام جس کی ابتدا اللہ کے ذکر سے نہ کی جائے وہ وہ بے برکت ہوتا ہے، اس لیے برکت کے حصول کے لیے قرآنِ مجید سے ابتدا کرنا ایک اچھا عمل ہے۔ البتہ اس کا درجہ مستحب کا ہے، اور اگر مستحب کام اس حد تک لازم سمجھ لیا جائے کہ اس کے نہ کرنے والوں پر نکیر کی جائے اور اس لازم اور دین کا ضروری حکم سمجھ لیا جائے تو وہ بدعت بن جاتا ہے، التزام اور تنکیر کے بغیر اس عمل پر دوام (ہمیشگی) میں کوئی مضائقہ نہیں ہے۔ مسند أحمد مخرجاً (14/ 329): "عن أبي سلمة، عن أبي هريرة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " كل كلام، أو أمر ذي بال لايفتح بذكر الله، فهو أبتر - أو قال: أقطع - ". عمدة القاري شرح صحيح البخاري (1/ 11): "وَلقَوْله صلى الله عَلَيْهِ وَسلم: كل أَمر ذِي بَال لَا يبْدَأ فِيهِ بِذكر الله وببسم الله الرَّحْمَن الرَّحِيم فَهُوَ أقطع رَوَاهُ الْحَافِظ عبد الْقَادِر فِي أربعينه، وَقَوله عَلَيْهِ الصَّلَاة وَالسَّلَام: كل كَلَام لَايبْدَأ فِيهِ بِحَمْد الله فَهُوَ أَجْذم، رَوَاهُ أَبُو دَاوُد وَالنَّسَائِيّ وَفِي رِوَايَة ابْن ماجة: كل أَمر ذِي بَال لم يبْدَأ فِيهِ بِالْحَمْد أقطع، وَرَوَاهُ ابْن حبَان وَأَبُو عوَانَة فِي صَحِيحَيْهِمَا وَقَالَ ابْن الصّلاح: هَذَا حَدِيث حسن بل صَحِيح، (قَوْله: أقطع) أَي قَلِيل الْبركَة وَكَذَلِكَ أَجْذم من جذم بِكَسْر الذَّال الْمُعْجَمَة يجذم بِفَتْحِهَا وَيُقَال: أقطع وأجذم من الْقطع والجذام أَو من الْقطعَة وَهِي الْعَطش والجذام؛ فَيكون مَعْنَاهُمَا أَنه لَا خير فِيهِ كالمجذوم وَالنَّخْل الَّتِي لَايُصِيبهَا المَاء". مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح (1/ 3): "«كل أمر ذي بال لايبدأ فيه ببسم الله الرحمن الرحيم فهو أبتر»" أي: قليل البركة، أو معدومها، وقيل: إنه من البتر، وهو القطع قبل التمام والكمال، والمراد بذي البال ذو الشأن في الحال، أو المآل، رواه الخطيب بهذا اللفظ في (كتاب الجامع) واختلف السلف الأبرار في كتابة البسملة في أول كتب الأشعار، فمنعه الشعبي والزهري، وأجازه سعيد بن المسيب، واختاره الخطيب البغدادي، والأحسن التفصيل بل هو الصحيح، فإن الشعر حسنه حسن وقبيحه قبيح، فيصان إيراد البسملة في الهجويات والهذيان ومدائح الظلمة ونحوها، كما تصان في حال أكل الحرام، وشرب الخمر، ومواضع القاذورات وحالة المجامعة وأمثالها، والأظهر أنه لا يكتب في أول كتب المنطق على القول بتحريم مسائلها، وكذا في القصص الكاذبة بجميع أنواعها، والكل مستفاد من قوله: " ذي بال " والله أعلم بحقيقة الحال، ثم إنه ورد الحديث بلفظ: " كل كلام ذي بال لا يبدأ فيه بالحمد لله فهو أجذم " رواه أبو داود، والنسائي في (عمل اليوم والليلة) . وبلفظ: " «كل أمر ذي بال لا يبدأ فيه بالحمد لله فهو أقطع» رواه ابن ماجه، والتوفيق بينهما أن المراد منهما الابتداء بذكر الله سواء يكون في ضمن البسملة، أو الحمدلة ; بدليل أنه جاء في حديث رواه الرهاوي في (أربعينه) ، وحسنه ابن الصلاح ولفظه: " «كل أمر ذي بال لا يبدأ فيه بذكر الله فهو أقطع» ". وفیہ ایضا: "قال الطيبي: وفيه أن من أصر على أمر مندوب، وجعله عزمًا، ولم يعمل بالرخصة فقد أصاب منه الشيطان من الإضلال فكيف من أصر على بدعة أو منكر؟". (3/31، کتاب الصلوٰۃ، الفصل الاول، ط:

Wednesday 28 June 2023

عید کی نماز کا طریقہ

عید الفطر اور عید الاضحیٰ کی نماز کا طریقہ ایک ہی ہے۔عید کی نماز کے لیے اذان اور اقامت نہیں، جب نماز کھڑی کی جائے تو عید کی نماز چھ زائد تکبیرات کے ساتھ پڑھنے کی نیت کرے، اس کے بعد تکبیر کہہ کر ہاتھ ناف کے نیچے باندھ لے اور ثناء پڑھے، اس کے بعد تین زائد تکبیریں کہے، دو تکبیروں میں ہاتھ کانوں تک اٹھا کر چھوڑ دے اور تیسری تکبیر پر ہاتھ اٹھا کر ناف کے نیچے باندھ لے، اس کے بعد امام اونچی آواز میں قراءت کرے، قراءت مکمل ہونے کے بعد بقیہ رکعت (رکوع اور سجدہ وغیرہ) دیگر نمازوں کی طرح ادا کرے۔ پھر دوسری رکعت کے شروع میں امام اونچی آواز میں قراءت کرے، اس کے بعد تین زائد تکبیریں کہے، تینوں تکبیروں میں ہاتھ کانوں تک اٹھا کر چھوڑ دے، پھر ہاتھ اٹھائے بغیر چوتھی تکبیر کہہ کر رکوع میں جائے اور پھر دیگر نمازوں کی طرح دو سجدوں کے بعد التحیات، درود اور دعا پڑھ کر سلام پھیر دے، پھرنماز مکمل کرنے کے بعد امام دو خطبے دے، دونوں خطبوں کے درمیان تھوڑی دیر بیٹھے۔

قرآن مجید کی تاثیر

آرتھر این ولاسٹن نے اپنی کتاب ”دی سورڈ آف اسلام “میں اس”لبید“ کا ایک واقعہ نقل کیا ہے۔آرتھر نے کہاکہ ایک روز لبید نے اپنا تازہ کلام بیت اللہ کے دروازے پر آویزاں کر دیا ایک مسلمان نے چند قرآنی آیات لکھ کر اس کے برابر لگا دیں۔دوسرے روز جب لبید کا وہاں سے گزرہو ا تو کیا دیکھتا ہے کہ اس کے اشعار کے مقابل چند کلمات بیت اللہ کے دروازے پر آویزاں ہیں۔اسے اس جرات پر حیرت ہوئی وہ آگے بڑھا قریب آیا اور غور سے ان کلمات کو دیکھا قرآن پاک کی آیات پڑھیں اوربے اختیار بول اٹھا کہ ”یہ کسی انسان کا کلام نہیںہوسکتا۔“بس اسی وقت حلقہ بگوش اسلام ہوگیا اور شاعری کو خیر آباد کہہ دیا۔ طفیل بن عمرو دوسی یہ بھی ایک مشہور شاعرتھے وہ اپنی آپ بیتی بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ جب میں مکہ میں گیا تو وڈیروں نے میرے کان بھرے اور کہا کہ” محمد (ﷺ)“سے بچ کے رہنا۔جب میں حرم میں پہنچاتو وہاں آپ ﷺ نماز پڑھ رہے تھے میرے کان میں بھی ان کے چند جملے پڑ گئے میںنے اچھا محسوس کیا اور دل میں اپنے آپ کو کہنے لگا کہ میں بھی شاعر ہوں اور جوان مرد ہوں عقل رکھتا ہوں بچہ تونہیں کہ غلط صحیح کی تمییز نہ کرسکوں۔اس شخص سے ملنا تو چاہیے چنانچہ میں ان کے پیچھے ان کے مکان تک جاپہنچا اور اپنی ساری کیفیت بیان کی اور عرض کیا کہ آپ ﷺ ذراتفصیل سے بتائیں کہ آپ کیا کہتے ہیں۔آپ ﷺ نے میری اس بات کے جواب میں قرآن پاک کا کچھ حصہ سنایا اور میں اتنا متاثر ہوا کہ اسی وقت ایمان لے آیا اور واپس جاکر اپنے باپ اور بیوی کو بھی مسلما ن کیا اور پھر اپنے قبیلے اور اپنی قوم میں ساری زندگی مسلسل تبلیغ کرتا رہا۔

Tuesday 27 June 2023

پلاٹ پر زکوٰۃ

جس پلاٹ کے خریدتے وقت بیچنے کی نیت ہو، وہ مال تجارت کے حکم میں ہوتا ہے اور حسب شرائط اُ س کی قیمت پر زکات واجب ہوتی ہے اور یہ نیت کرنا کہ اس کو بیچ کر جو رقم ملے گی، اُس سے رہائشی مکان خریدیں گے ، اس کے باوجود حکم نہیں بدلے گا؛ بلکہ زکات واجب ہوگی، لہذا اگر پلاٹ اس نیت سے خریدا ہے کہ آئندہ جب اُس کی قیمت بڑھے گی ، تو فروخت کرکے گھر خریدیں گے ، تو اس پلاٹ کی زکات نکالنا واجب ہوگی اور جب سے خریدا ہے ، اُس کے بعد سے زکات نکالنے کی تاریخ کے دن کی قیمت لگائی جائے گی (ولا في ثياب البدن)۔۔(وأثاث المنزل ودور السكنى ونحوها) وكذا الكتب وإن لم تكن لأهلها إذا لم تنو للتجارة۔۔۔۔۔۔۔۔(وشرطه) أي شرط افتراض أدائها (حولان الحول)۔۔۔۔۔۔(أو نية التجارة) في العروض، إما صريحا ولا بد من مقارنتها لعقد التجارة كما سيجيء، أو دلالة بأن يشتري عينا بعرض التجارة أو يؤاجر داره التي للتجارة بعرض فتح القدیر: (168/2، ط: دار الفکر) "(ومن اشترى جاريةً للتجارة ونواها للخدمة بطلت عنها الزكاة)؛ لاتصال النية بالعمل وهو ترك التجارة، (وإن نواها للتجارة بعد ذلك لم تكن للتجارة حتى يبيعها فيكون في ثمنها زكاة)؛ لأن النية لم تتصل بالعمل إذ هو لم يتجر فلم تعتبر

Sunday 25 June 2023

نبئ کریم صلی اللہ علیہ والہ و سلم اورسلف صالحین کی طرف سے قربانی

نبی کریم ﷺ اور سلفِ صالحین رحمہم اللہ کی طرف سے قربانی کرنا (اس معنی میں کہ قربانی کر کے اس کا ثواب ان کو پہنچا دیا جائے) درست اور باعثِ اجر و ثواب ہے، بلکہ کسی بھی نیک کام کا اجر تمام امتِ محمدیہ ﷺ کو پہنچانا درست ہے، خود نبی اکرم ﷺ نے بھی اپنی امت کی طرف سے قربانی فرمائی تھی۔ مشکاة المصابيح، باب في الأضحية، الفصل الأول، ص:127، ط: هندية: "عن عائشة أن رسول الله صلی الله علیه وسلم أمربکبش أقرن یطأ في سواد ویبرک في سواد وینظر في سواد، فأتي به لیضحي به، قال: یا عائشة هلمي المدیة! ثم قال: اشحذیها بحجر، ففعلت، ثم أخذها وأخذ الکبش فأضجعه، ثم ذبحه، ثم قال: «بِسْمِ اللهِ اَللّٰهُمَّ تَقَبَّلْ مِنْ مُحَمَّدٍ وَآلِ مُحَمَّدٍ وَمِنْ أُمَّةِ مُحَمَّدٍ»، ثم ضحی به۔ رواه مسلم۔ ترجمہ: حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک ایسے مینڈھے کےمتعلق قربانی کا حکم فرمایا جس کے کھر، گھٹنے اور آنکھوں کے حلقے سیاہ تھے، چناں چہ جب وہ آپ ﷺ کے پاس قربانی کے لیے لایا گیا ، تو آپ ﷺ نے فرمایا: اے عائشہ چھری لے آؤ، پھر فرمایا: اسے پتھر پر تیز کرلو، چناں چہ میں (حضرت عائشہ) نے چھری تیز کرلی، پھر آپ ﷺ نے چھری لی اور مینڈھے کو پکڑا اور اسے پہلو کے بل لٹاکر یہ فرماتے ہوئے ذبح کیا: اللہ کے نام سے (ذبح کررہاہوں)، اے اللہ اسے محمد (ﷺ) اور آلِ محمد (ﷺ) اور امتِ محمد (ﷺ) کی طرف سے قبول فرمالیجیے۔ مشكاة المصابيح، باب في الأضحية، الفصل الثاني، ص:128، ط: هندية: " عن حنش قال: رأیت علیاً یضحي بکبشین، فقلت له: ماهذا؟ فقال: إن رسول الله صلی الله علیه وسلم أوصاني أن أضحي عنه، فأنا أضحي عنه۔ رواه أبوداود، وروي الترمذی نحوه". ترجمہ: حضرت حنش کہتے ہیں کہ میں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو دو مینڈھے ذبح کرتے دیکھا تو میں نے پوچھا : یہ کیا ہے؟ (یعنی ایک آدمی کی طرف سے کیا ایک ہی قربانی کافی نہیں؟) حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: رسول اللہ ﷺنے مجھے وصیت فرمائی تھی کہ میں ان کی طرف سے قربانی کیا کروں، چناں چہ میں آپ ﷺ کی طرف سے قربانی کرتاہوں۔ الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (6/ 326) " قال في البدائع: لأن الموت لا يمنع التقرب عن الميت، بدليل أنه يجوز أن يتصدق عنه ويحج عنه، وقد صح «أن رسول الله صلى الله عليه وسلم ضحى بكبشين: أحدهما عن نفسه، والآخر عمن لم يذبح من أمته»، وإن كان منهم من قد مات قبل أن يذبح" اهـ الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2/ 595) "الأصل أن كل من أتى بعبادة ما، له جعل ثوابها لغيره وإن نواها عند الفعل لنفسه؛ لظاهر الأدلة. وأما قوله تعالى ﴿ وَاَن لَّيْسَ لِلْإِنْسَانِ اِلَّا مَا سَعٰى﴾ [النجم: 39] أي إلا إذا وهبه له، كما حققه الكمال، أو اللام بمعنى على كما في ﴿وَلَهُمُ اللَّعْنَةُ﴾ [غافر: 52] ولقد أفصح الزاهدي عن اعتزاله هنا والله الموفق. (قوله: بعبادة ما) أي سواء كانت صلاةً أو صوماً أو صدقةً أو قراءةً أو ذكراً أو طوافاً أو حجاً أو عمرةً، أو غير ذلك من زيارة قبور الأنبياء عليهم الصلاة والسلام، والشهداء والأولياء والصالحين، وتكفين الموتى، وجميع أنواع البر، كما في الهندية، ط. وقدمنا في الزكاة عن التتارخانية عن المحيط: الأفضل لمن يتصدق نفلاً أن ينوي لجميع المؤمنين والمؤمنات؛ لأنها تصل إليهم ولا ينقص من أجره شيء.

مرحومین کے نام سے قربانی کرنا

مرحوم والدین یا دیگر مرحومین کے نام کی قربانی کرنا جائز ہے، اور اپنی واجب قربانی کے علاوہ ایک حصہ یا ایک پورا جانور قربان کرکے اُس کا ثواب مرحومین کو پہنچانا بھی جائز ہے، دونوں صورتوں میں ثواب اُنہیں پہنچتا ہے۔ روایت میں آتا ہے کہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ ایک دنبہ اپنی طرف سے قربان کرتے تھے اور ایک دنبہ نبی کریم ﷺ کی طرف سے قربان کرتے تھے۔ مرحوم کی طرف سے قربانی کرنے کی دو صورتیں ہیں: (۱) اگر مرحوم نے قربانی کرنے کی وصیت کی تھی اور اس کے ترکہ میں مال بھی تھا تو اس کے ایک تہائی ترکہ سے اس وصیت کو پورا کرنا لازم ہے اور اس قربانی کے گوشت کو صدقہ کرنا ضروری ہے، مال داروں کے لیے اس وصیت کی قربانی کا گوشت کھانا جائز نہیں ہے۔ (۲) اگر مرحوم نے قربانی کرنے کی وصیت نہیں کی بلکہ کوئی عاقل بالغ شخص اپنی خوشی سے مرحوم کے لیے قربانی کرتا ہے تو یہ قربانی حقیقت میں قربانی کرنے والی کی طرف سے ہوگی اور اس کا ثواب مرحوم کو پہنچے گا، اور اس قربانی کا گوشت مال دار اور فقیر سب کھاسکتے ہیں۔ سنن الترمذی میں ہے: "حدثنا محمد بن عبيد المحاربي الكوفي قال: حدثنا شريك، عن أبي الحسناء، عن الحكم، عن حنش، عن علي، أنه كان يضحي بكبشين أحدهما عن النبي صلى الله عليه وسلم، والآخر عن نفسه، فقيل له: فقال: «أمرني به» - يعني النبي صلى الله عليه وسلم - فلا أدعه أبدا: هذا حديث غريب، لا نعرفه إلا من حديث شريك وقد رخص بعض أهل العلم أن يضحى عن الميت ولم ير بعضهم أن يضحى عنه وقال عبد الله بن المبارك: «أحب إلي أن يتصدق عنه، ولا يضحى عنه، وإن ضحى، فلا يأكل منها شيئا، ويتصدق بها كلها» قال محمد: قال علي بن المديني: وقد رواه غير شريك، قلت له: أبو الحسناء ما اسمه فلم يعرفه قال: مسلم اسمه الحسن." (باب ما جاء في الأضحية عن الميت، ج:4، ص:84، ط:شركة مكتبة ومطبعة مصطفى البابي الحلبي - مصر) بدائع الصنائع میں ہے: "(وجه) الاستحسان أن الموت لا يمنع التقرب عن الميت بدليل أنه يجوز أن يتصدق عنه ويحج عنه، وقد صح أن رسول الله - صلى الله عليه وسلم - ضحى بكبشين أحدهما عن نفسه والآخر عمن لا يذبح من أمته - وإن كان منهم من قد مات قبل أن يذبح - فدل أن الميت يجوز أن يتقرب عنه فإذا ذبح عنه صار نصيبه للقربة فلا يمنع جواز ذبح الباقين." (فصل في شرائط جواز إقامة الواجب في الأضحية، ج:5، ص:72، ط:دار الكتب العلمية) فتاویٰ شامی میں ہے: "من ضحى عن الميت يصنع كما يصنع في أضحية نفسه من التصدق والأكل والأجر للميت والملك للذابح. قال الصدر: والمختار أنه إن بأمر الميت لا يأكل منها وإلا يأكل بزازية." (كتاب الأضحية، ج:6، ص:326، ط:دار الفكر-بيروت) و فيه أيضا: "(قوله وعن ميت) أي لو ضحى عن ميت وارثه بأمره ألزمه بالتصدق بها وعدم الأكل منها، وإن تبرع بها عنه له الأكل لأنه يقع على ملك الذابح والثواب للميت، ولهذا لو كان على الذابح واحدة سقطت عنه أضحيته كما في الأجناس. قال الشرنبلالي: لكن في سقوط الأضحية عنه تأمل اهـ. أقول: صرح في فتح القدير في الحج عن الغير بلا أمر أنه يقع عن الفاعل فيسقط به الفرض عنه وللآخر الثواب فراجعه." (كتاب الأضحية، ج:6، ص:335، ط:دار الفكر-بيروت

Saturday 24 June 2023

نابالغ کی طرف سے قربانی کرنا

اگر کوئی اپنے نابالغ بچوں کی طرف سے از خود قربانی کرنا چاہے تو نفلی طور پر کرسکتا ہے۔ اور جس طرح بالغ افراد نفلی قربانی یا ایصالِ ثواب کی قربانی یا عقیقے کا حصہ واجب قربانی کے حصوں کے ساتھ بڑے جانور میں شامل کرسکتے ہیں، اسی طرح نابالغ بچے کی طرف سے نفلی قربانی کا حصہ اس کا ولی بالغ افراد کے ساتھ جانور کے حصوں میں شامل کرسکتا ہے۔ لہذا چھوٹے بچوں کےنام کی نفلی قربانی کرنا جائز ہے. البحر الرائق شرح كنز الدقائق (8/ 198): "وقوله: عن نفسه" لأنه أصل في الوجوب عليه وقوله: "لا عن طفله" يعني لايجب عليه عن أولاده الصغار؛ لأنها عبادة محضة بخلاف صدقة الفطر والأول ظاهر الرواية. وإن كان للصغير مال يضحي عنه أبوه من ماله أو وصيه من ماله عند أبي حنيفة ... وفي الكافي الأصح أنه لايجب ذلك وليس للأب أن يفعله من مال الصغير". الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (6/ 316): "(ويضحي عن ولده الصغير من ماله) صححه في الهداية (وقيل: لا) صححه في الكافي. قال: وليس للأب أن يفعله من مال طفله، ورجحه ابن الشحنة. قلت: وهو المعتمد لما في متن مواهب الرحمن من أنه أصح ما يفتى به. وعلله في البرهان بأنه إن كان المقصود الإتلاف فالأب لا يملكه في مال ولده كالعتق أو التصدق باللحم فمال الصبي لايحتمل صدقة التطوع، وعزاه للمبسوط فليحفظ

Thursday 22 June 2023

اولاد کے مابین ہبہ میں برابری

بسم اللہ الرحمن الرحیم اپنی ایک زمین فروخت کرنے کا ارادہ ہے ،تین صاحب زادیاں ہیں جو ماشاءاللہ خوش حال گھر بار والی ہیں اور ایک صاحب زادے ہیں ،میری خدمت وہی کرتے ہیں ،جن کی مالی حالت کچھ زیادہ اچھی نہیں ہے ،مکتب پڑھاتے ہیں ، اس سے پہلے میں سب کو سات سات لاکھ روپے برابر دے چکا ہوں ۔ کیا اس فروخت ہونے والی زمین میں سے سب کو مساوی حصہ دینا ضروری ہے ۔ شریعت کی روشنی میں جواب مرحمت فرمائیں ،جزاکم اللہ خیرا ۔ الجواب وباللہ التوفیق ومنہ المستعان ہبہ میں اولاد کے درمیان میں مساوات (برابری) سے کام لینا مستحب ہے؛البتہ اگر کسی بیٹے یابیٹی کو کسی خاص سبب سے مثلا اس کے دیندارہونے یا زیادہ ضرورت مند ہونے کی وجہ سے کچھ زائد دیدیں جبکہ اس سے مقصود دوسری اولاد کو نقصان پہونچانا نہ ہوتو شرعاًبحثیت مالک آپ کو یہ اختیار حاصل ہے ہبہ کی یہ صورت تفاضل بسبب خاص جائز ہے اس پرآپ گناہ گار نہیں ہوں گے "وعن النعمان بن بشير أن أباه أتى به إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال: إني نحلت ابني هذا غلاماً، فقال: «أكل ولدك نحلت مثله؟» قال: لا قال: «فأرجعه» . وفي رواية ...... قال: «فاتقوا الله واعدلوا بين أولادكم»". (مشکاة المصابیح، 1/261، باب العطایا، ط: قدیمی)و لقوله سبحانه وتعالى {إن الله يأمر بالعدل والإحسان} [النحل: 9]. وينبغي للرجل أن يعدل بين أولاده في النحلى لقوله سبحانه وتعالى {إن الله يأمر بالعدل والإحسان} [النحل: 9].واما (وأما) كيفية العدل بينهم فقد قال أبو يوسف العدل في ذلك أن يسوي بينهم في العطية ولا يفضل الذكر على الأنثى وقال محمد العدل بينهم أن يعطيهم على سبيل الترتيب في المواريث للذكر مثل حظ الأنثيين كذا ذكر القاضي الاختلاف بينهما في شرح مختصر الطحاوي وذكر محمد في الموطإ ينبغي للرجل أن يسوي بين ولده في النحل ولا يفضل بعضهم على بعض. وظاهر هذا يقتضي أن يكون قوله مع قول أبي يوسف وهو الصحيح لما روي أن بشيرا أبا النعمان أتى بالنعمان إلى رسول الله - صلى الله عليه وسلم - فقال إني نحلت ابني هذا غلاما كان لي فقال له رسول الله - صلى الله عليه وسلم - كل ولدك نحلته مثل هذا فقال لا فقال النبي - عليه الصلاة والسلام - فأرجعه وهذا إشارة إلى العدل بين الأولاد في النحلة وهو التسوية بينهم ولأن في التسوية تأليف القلوب والتفضيل يورث الوحشة بينهم فكانت التسوية أولى ولو نحل بعضا وحرم بعضا جاز من طريق الحكم لأنه تصرف في خالص ملكه لا حق لأحد فيه إلا أنه لا يكون عدلا سواء كان المحروم فقيها تقيا أو جاهلا فاسقا على قول المتقدمين من مشايخنا وأما على قول المتأخرين منهم لا بأس أن يعطي المتأدبين والمتفقهين دون الفسقة الفجرة. عمدة القاري: (کتاب الھبۃ، 146/13، ط: دار إحياء التراث العربي) يجوز التَّفَاضُل إِن كَانَ لَهُ سَبَب، كاحتياح الْوَلَد لزمانته أَو دينه أَو نَحْو ذَلِك. وَقَالَ أَبُو يُوسُف: تجب التَّسْوِيَة إِن قصد بالتفضيل الْإِضْرَار، وَذهب الْجُمْهُور إِلَى أَن التَّسْوِيَة مُسْتَحبَّة، فَإِن فضل بَعْضًا صَحَّ وَكره، وحملوا الْأَمر على النّدب وَالنَّهْي على التَّنْزِيه.

Tuesday 20 June 2023

ذوالحج کے ابتدائی ایام روزے

ذوالحجہ کے ابتدائی دس ایام بڑی فضیلت کے حامل ہیں، بعض مفسرین نے قرآنِ کریم کی سورہ فجر کی آیت کریمہ {ولیالٍ عشر} کی تفسیر میں لکھا ہے کہ اس آیت میں جن دس راتوں کی قسم کھائی گئی ہے، اس سے مراد ذوالحجہ کی ابتدائی دس راتیں ہیں۔ ان ایام میں نیک اعمال کرنے کی ترغیب دی گئی ہے اور ان دنوں کی عبادت کی بہت زیادہ فضیلت احادیث میں بیان کی گئی ہے، چاہے یہ عبادات ذکر و اذکار کی صورت میں ہوں، یا قیام اللیل کی صورت میں یا روزوں کی صورت میں۔ احادیثِ مبارکہ سے معلوم ہوتا ہے کہ ذوالحجہ کے ابتدائی ایام میں ہردن کا روزہ ایک سال کے روزوں کے برابر اجر رکھتا ہے، اور بطورِ خاص یومِ عرفہ (9 ذوالحجہ)کے روزے کی یہ فضیلت بیان کی گئی ہے کہ اس دن کا روزہ ایک سال قبل اور ایک سال بعد کے گناہوں کا کفارہ ہے۔ اس سلسلہ کی احادیث مبارکہ ملاحظہ ہوں: ترمذی شریف میں ہے: "عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا مِنْ أَيَّامٍ الْعَمَلُ الصَّالِحُ فِيهِنَّ أَحَبُّ إِلَی اللَّهِ مِنْ هَذِهِ الْأَيَّامِ الْعَشْرِ فَقَالُوا يَا رَسُولَ اللَّهِ وَلَا الْجِهَادُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَلَا الْجِهَادُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ إِلَّا رَجُلٌ خَرَجَ بِنَفْسِهِ وَمَالِهِ فَلَمْ يَرْجِعْ مِنْ ذَلِکَ بِشَيْئٍ." (باب ما جاء في العمل في أيام العشر، 3/130 ط: دار إحیاء التراث العربي بیروت) ترجمہ: حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ذوالحجہ کے پہلے دس دنوں میں کیے گئے اعمالِ صالحہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک تمام ایام میں کیے گئے نیک اعمال سے زیادہ محبوب ہیں۔ صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم نے عرض کیا: یا رسول اللہ ﷺ! اگر ان دس دنوں کے علاوہ اللہ کی راہ میں جہاد کرے تب بھی؟ آپ ﷺنے فرمایا: ہاں! تب بھی اِن ہی اَیام کا عمل زیادہ محبوب ہے، البتہ اگر کوئی شخص اپنی جان و مال دونوں چیزیں لے کر جہاد میں نکلا اور ان میں سے کسی چیز کے ساتھ بھی واپس نہ ہوا (یعنی شہید ہوگیاتو یہ افضل ہے)۔ وفیه أیضاً: "عَنْ أَبِي قَتَادَةَ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: صِيَامُ يَوْمِ عَرَفَةَ إِنِّي أَحْتَسِبُ عَلَی اللَّهِ أَنْ يُکَفِّرَ السَّنَةَ الَّتِي قَبْلَهُ وَالسَّنَةَ الَّتِي بَعْدَهُ." ( باب ما جاء في فضل صوم يوم عرفة ،3/124 ط: دار إحیاء التراث العربي، بیروت) ترجمہ: حضرت ابوقتادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مجھے اللہ تعالیٰ سے امید ہے کہ عرفہ کے دن کا روزہ رکھنے سے ایک سال پہلے اور ایک سال بعد کے گناہ معاف فرما دے۔ وفیه أیضاً: "عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: مَا مِنْ أَيَّامٍ أَحَبُّ إِلَی اللَّهِ أَنْ يُتَعَبَّدَ لَهُ فِيهَا مِنْ عَشْرِ ذِي الْحِجَّةِ يَعْدِلُ صِيَامُ کُلِّ يَوْمٍ مِنْهَا بِصِيَامِ سَنَةٍ وَقِيَامُ کُلِّ لَيْلَةٍ مِنْهَا بِقِيَامِ لَيْلَةِ الْقَدْر." (باب ما جاء في العمل في أيام العشر، 3/131 ط: دار إحیاء التراث العربي، بیروت) ترجمہ: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ کے نزدیک ذوالحجہ کے پہلے دس دنوں کی عبادت تمام دنوں کی عبادت سے زیادہ پسندیدہ ہے۔ ان ایام میں سے (یعنی ذوالحجہ کے پہلے دس دنوں میں) ایک دن کا روزہ پورے سال کے روزوں اور رات کا قیام شب قدر کے قیام کے برابر ہے۔

کان کٹے ہوئے جانور کی قربانی

اگر قربانی کے جانور کا کان ایک تہائی یا اس سے کم کٹا ہوا ہو تو اس کی قربانی جائز ہے اور اگر ایک تہائی سے زائد کٹا ہو تو اس کی قربانی درست نہیں ہے۔ فتاوی ہندیہ میں ہے: "وفي الجامع: أنه إذا کان ذهب الثلث أو أقلّ جاز، و إن کان أکثر لایجوز، و الصحیح أنّ الثلث وما دونه قلیل، وما زاد علیه کثیر، وعلیه الفتوی." (ج:5، ص:298۔ط:رشیدیه فتاوی ہندیہ میں ہے: "وَلَوْ ذَهَبَ بَعْضُ هَذِهِ الْأَعْضَاءِ دُونَ بَعْضٍ مِنْ الْأُذُنِ وَالْأَلْيَةِ وَالذَّنَبِ وَالْعَيْنِ ذَكَرَ فِي الْجَامِعِ الصَّغِيرِ إنْ كَانَ الذَّاهِبُ كَثِيرًا يَمْنَعُ جَوَازَ التَّضْحِيَةِ، وَإِنْ كَانَ يَسِيرًا لَا يَمْنَعُ، وَاخْتَلَفَ أَصْحَابُنَا بَيْنَ الْقَلِيلِ وَالْكَثِيرِ فَعَنْ أَبِي حَنِيفَةَ -رَحِمَهُ اللَّهُ تَعَالَى - أَرْبَعُ رِوَايَاتٍ، وَرَوَى مُحَمَّدٌ - رَحِمَهُ اللَّهُ تَعَالَى - عَنْهُ فِي الْأَصْلِ وَفِي الْجَامِعِ أَنَّهُ إذَا كَانَ ذَهَبَ الثُّلُثُ أَوْ أَقَلُّ جَازَ، وَإِنْ كَانَ أَكْثَرَ لَا يَجُوزُ، وَالصَّحِيحُ أَنَّ الثُّلُثَ وَمَا دُونَهُ قَلِيلٌ وَمَا زَادَ عَلَيْهِ كَثِيرٌ، وَعَلَيْهِ الْفَتْوَى، كَذَا فِي فَتَاوَى قَاضِي خَانْ.... وَسُئِلَ عَمْرُو بْنُ الْحَافِظِ عَنْ الْأُضْحِيَّةِ إذَا كَانَ الذَّاهِبُ مِنْ كُلِّ وَاحِدَةٍ مِنْ الْأُذُنَيْنِ السُّدُسَ هَلْ يُجْمَعُ حَتَّى يَكُونَ مَانِعًا عَلَى قَوْلِ أَبِي حَنِيفَةَ -رَحِمَهُ اللَّهُ تَعَالَى - قِيَاسًا عَلَى النَّجَاسَاتِ فِي الْبَدَنِ أَمْ لَا يُجْمَعُ كَمَا فِي الْخُرُوقِ فِي الْخُفَّيْنِ؟ . قَالَ: لَا يُجْمَعُ". ( كتاب الاضحية، الْبَابُ الْخَامِسُ فِي بَيَانِ مَحَلِّ إقَامَةِ الْوَاجِبِ، ۵ / ۲۹۸، ط: دار الفكر)

ذوالحج کا چاند دیکھ کر بال وناخن وغیرہ نہ کاٹنا

جوشخص قربانی کرنے کا ارادہ رکھتاہو اس کے لیےذی الحجہ کاچاند ہوجانے کے بعد بال اور ناخن نہ کاٹنا مستحب اور باعثِ ثواب امر ہے،داڑھی تراشنا بہرحال مکروہ تحریمی ہے, چناں چہ حدیث شریف میں ہے: '' حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان فرماتی ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب ماہ ذی الحجہ کا عشرہ شروع ہو جائے اور تم میں سے کسی کا قربانی کرنے کا ارادہ ہو تو وہ اپنے بالوں اور ناخنوں میں سے کچھ نہ لے ''۔(صحیح مسلم ) یہ ممانعت تنزیہی ہے ، لہذا عشرہ ذوالحجہ میں بال اور ناخن نہ کٹوانا مستحب ہے، اور اس کے خلاف عمل کرنا ترکِ اولیٰ ہے، یعنی اگر کسی نے ذوالحجہ شروع ہوجانے کے بعد قربانی سے پہلے بال یا ناخن کاٹ لیے تو اس کا یہ عمل ناجائز یا گناہ نہیں ہوگا، بلکہ خلافِ اولیٰ کہلائے گا۔ اور اگر کوئی عذر ہو یا بال اور ناخن بہت بڑھ چکے ہوں تو ان کے کاٹنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ صحيح مسلم (3/ 1565) 'سمع سعيد بن المسيب، يحدث عن أم سلمة، أن النبي صلى الله عليه وسلم قال: «إذا دخلت العشر، وأراد أحدكم أن يضحي، فلا يمس من شعره وبشره شيئاً»۔' سنن النسائي (7/ 211) 'عن أم سلمة، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: «من رأى هلال ذي الحجة، فأراد أن يضحي، فلا يأخذ من شعره، ولا من أظفاره حتى يضحي»۔' مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح (3/ 1081) ' قال التوربشتي: ذهب بعضهم إلى أن النهي عنهما للتشبه بحجاج بيت الله الحرام المحرمين، والأولى أن يقال: المضحي يرى نفسه مستوجبةً للعقاب وهو القتل، ولم يؤذن فيه، ففداها بالأضحية، وصار كل جزء منها فداءً كل جزء منه، فلذلك نهي عن مس الشعر والبشر ؛ لئلا يفقد من ذلك قسط ما عند تنزل الرحمة، وفيضان النور الإلهي، ليتم له الفضائل، ويتنزه عن النقائص. قال ابن حجر: ومن زعم أن المعنى هنا التشبه بالحجاج غلطوه بأنه يلزم عليه طلب الإمساك عن نحو الطيب ولا قائل به اهـ.وهو غلط فاحش من قائله ؛ لأن التشبه لا يلزم من جميع الوجوه، وقد وجه توجيهاً حسناً قي خصوص اجتناب قطع الشعر أو الظفر داڑھی کاٹنا بہرحال مکروہ تحریمی ہے